بندے کا حق اللہ پر واجب ہونے کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ
امام ابنِ تیمیہؒبندے کا حق اللہ پر واجب ہونے کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ
رہا ’’استحقاق‘‘ تو ان کا قول ہے کہ بندہ بنفسہٖ اللہ پر کسی بات کا بھی استحقاق بھی نہیں رکھتا اور اسے یہ حق نہیں کہ وہ اپنے لیے یا غیر کے لیے اللہ پر کسی شے کو واجب و لازم کر سکے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ طاعت گزاروں کی ثواب دنیا لازم ہے جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے اور وہ اپنے وعدے میں سچا ہے۔ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
ہم جانتے ہیں کہ ثواب ملے گا کیونکہ ہمیں اس بات کی خبر خود اللہ نے دی ہے۔ رہا اپنے اوپر اس کا ایجاب اور عقل کے ذریعے اس کی معرفت کا امکان تو اس میں اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے۔ جیسا کہ اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔
سو قائل کا یہ قول کہ وہ کہتے ہیں کہ طاعت گزار ثواب کا مستحق نہیں ۔ تو اگر تو اس قول سے مراد یہ ہے کہ اس مطیع نے یا کسی دوسرے نے بنفسہٖ رب تعالیٰ پر اس ثواب کو واجب نہیں کیا تو یہ اہل سنت کا بھی قول ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ سرے سے ثواب ثابت اور معلوم اور حق واقع ہی نہیں ہے تو یہ قول خطا ہے اور اگر اس سے یہ مراد ہے کہ رب تعالیٰ اس بات کی خبر دے کر بھی اس کو ثابت نہیں کرتا تو یہ قول بھی اہل سنت کے نزدیک خطا ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے اس ثواب کو بایں معنی ثابت نہیں کیا کہ اس نے اس ثواب کو اپنے اوپر واجب نہیں کیا اور نہ اسے اپنے اوپر حق ٹھہرایا ہے کہ اسے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے، تو اس مراد میں نزاع ہے جیسا کہ گزرا۔
بعد اس بات کے کہ رب تعالیٰ نے ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس ثواب کو اپنے اوپر لازم کیا ہے، تب بھی یہ بات ممتنع ہے کہ وہ خلافِ واقع کی خبر دے اور اس حکم کے خلاف کرے جسے اس نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے اور یہ بات اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ علیا کے خلاف ہے۔ لیکن اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ وہ جسے چاہے عذاب دیتا ہے تو کوئی اسے اس بات سے روک نہیں سکتا۔چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّہْلِکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّہٗ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ (المائدۃ: ۱۷)
’’کہہ دے پھر کون اللہ سے کسی چیز کا مالک ہے، اگر وہ ارادہ کرے کہ مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں کو اور زمین میں جو لوگ ہیں سب کو ہلاک کر دے۔‘‘
رب تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے جس کے ساتھ مناقشہ کر لیا تو وہ اسے عذاب دے گا جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک صحیح حدیث میں ثابت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جس کے ساتھ حساب میں بحث کی گئی اسے عذاب ملے گا۔‘‘
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! کیا رب تعالیٰ یہ نہیں فرماتے:
﴿فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہٖo فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیْرًاo﴾ (الانشقاق: ۷۔۸)
’’پس لیکن وہ شخص جسے اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا ۔ سو عنقریب اس سے حساب لیا جائے گا، نہایت آسان حساب۔ ‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سے مراد حساب کے لیے پیش ہونا ہے۔ البتہ جس سے حساب لیا جانے لگے گا اسے عذاب ہو کر رہے گا۔‘‘[صحیح البخاری: ۱؍۲۸۔ صحیح مسلم: ۴؍۲۲۰۴۔۲۲۰۵۔ مسند احمد: ۶؍۴۷۔۴۸ طبعۃ الحلبی۔ تفسیر الطبری: ۹؍۲۴۴۔۲۴۵ طبعۃ المعارف۔ تحقیق استاذ محمود محمد شاکر۔ موصوف نے اپنی تعلیق میں بخاری و مسلم اور ابو داؤد و ترمذی کی احادیث کے طرق پر مفصل بحث کی ہے۔]
ایک صحیح حدیث میں ارشاد ہے کہ
’’تم میں سے کوئی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہ ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانپ لے۔‘‘[صحیح البخاری: ۷؍۱۲۱۔ صحیح مسلم: ۴؍۲۱۶۹۔۲۱۷۱۔ سنن ابن ماجہ: ۲؍۱۴۰۵۔ سنن الدارمی: ۲؍۳۰۵۔۳۰۶]
سنن ابی داؤد وغیرہ کی ایک روایت میں ارشاد ہے:
’’اگر اللہ آسمانوں والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انھیں عذاب دے دے اور وہ اس میں ان کے حق میں ظلم کرنے والا نہ ہو گا اور اگر وہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہتر ہو۔‘‘[یہ حدیث مرفوع بھی آئی ہے اور موقوف بھی۔ مسند احمد: ۵؍۱۸۵ طبعۃ الحلبی۔ سنن ابی داود: ۴؍۳۱۰۔۳۱۱۔ سنن ابن ماجہ: ۱؍۲۹۔۳۰۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’صحیح البجامع الصغیر‘‘ (۱؍۵۷۔۵۸) میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔]
حساب میں مناقشہ اور طاعت کی حقیقت میں تقصیر کی وجہ سے یہ قول کیا جاتا ہے اور یہ اس کا قول ہے جو ظلم کو مقدور اور غیر واقع قرار دیتا ہے اور کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ظلم کی کوئی حقیقت نہیں اور یہ کہ ممکنات میں سے جتنا بھی فرض کیا جائے وہ ظلم نہیں اور تحقیق یہ ہے کہ اگر فرض بھی کیا جائے کہ یہ اللہ نے کیا ہے تو وہ اسے حق پر ہی کرے گا اور وہ ایسا کر کے بھی ظالم نہ کہلائے گا، لیکن جب اللہ نے ایسا نہیں کیا تو اس کی ذات ظلم کرنے سے بلند اور بزرگ ہے۔