Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل سنت والجماعت اور عصمت انبیائے کرام علیہم السلام کا عقیدہ

  امام ابنِ تیمیہؒ

اہل سنت والجماعت اور عصمت انبیائے کرام علیہم السلام کا عقیدہ 

[شبہ۲] :شیعہ کہتے ہیں :’’ اہل سنت کے نزدیک انبیاء غیر معصوم ہیں ۔‘‘ 

[جواب] :علی الاطلاق اہل سنت سے یہ قول نقل کرنا باطل ہے۔ اہل سنت متحد الخیال ہیں کہ شرعی احکام کے پہنچانے میں انبیاء معصوم ہیں ۔ رسالت کا اصلی مقصد بھی یہی ہے۔بیشک رسول ہی وہ ہستی ہوتے ہیں جواللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی لوگوں تک پہنچاتے اور اس کے متعلق خبر دیتے ہیں ۔ تبلیغ رسالت میں ان کے معصوم ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔ [ بعض اوقات ان سے گناہ کا صدور ہوتا ہے مگر ]وہ گناہ اور فسق و خطاء پر قائم نہیں رہتے۔لیکن اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ان کی زبان پر ایسے کلمات کا جاری ہونا جائز ہے جن پر پھر اللہ تعالیٰ انہیں آگاہ فرمائے ۔مگروہ اس خطا پر قائم نہ رہیں ؟ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوگئے تھے : 

’’تلک الغرانیق العلی ‘و إن شفاعتھن لترتجی ۔‘‘

’’ وہ بلند شان بگلے [بت] ہیں ‘ اور بیشک ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے ۔‘‘

پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کے القاء کردہ کلمات کو ختم کردیا ‘ اور اپنی آیات کو ثابت و برقرار رکھا۔علماء رحمہم اللہ میں سے بعض ایسے ہیں جو اس کو بالکل جائز نہیں مانتے۔اوربعض اس طرح کے امور کو شرکیہ یا حرام کلمات نہ ہونے کی بنا پر جائز کہتے ہیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ شیطانی اثرات کو ختم کرکے اپنی آیات کو برقرار رکھتا ہے؛ اور اللہ تعالیٰ علیم و حکیم کا ارشادِ گرامی ہے :

﴿لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِے الشَّیْطٰنُ فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّ الْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ﴾ [الحج۵۳]

’’تاکہ وہ اس (خلل) کو جو شیطان ڈالتا ہے، ان لوگوں کے لیے آزمائش بنائے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور بے شک ظالم لوگ یقیناً دور کی مخالفت میں ہیں ۔‘‘

انبیائے کرام سے وقوع خطا کے عقیدہ کا الزام :

سوال:....’’ شیعہ کا یہ الزام کہ : ’’ اہل سنت انبیاء کرام علیہم السلام سے خطاء کا صادر ہونا جائز سمجھتے ہیں ۔‘‘

جواب :.... ان سے کہا جائے گا کہ: اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام خطاء پر مستمر نہیں رہتے ۔بعض اوقات ان سے خطاء کا صدور ہوتا ہے مگر وہ غلطی اور خطاء پر قائم نہیں رہتے۔ گویا وہ ہر ایسی بات سے منزہ ہیں جو نبوت میں قادح ہو۔ جمہور میں سے جن علماء کے نزدیک انبیاء سے صغائر کا صدور ممکن ہے وہ کہتے ہیں کہ انبیاء صغائر پر مصر نہیں رہتے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو توبہ کرنے کے بعد جو مرتبہ عالی ملا وہ توبہ سے پہلے حاصل نہ تھا۔اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک و صاف رہنے والوں سے محبت کرتے ہیں ۔ بندہ بعض اوقات ایک برائی کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔

رہا سہو ونسیان کا مسئلہ ‘ جیساکہ نماز میں سہو؛ تو انبیاء کرام سے اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں ۔ ایسے امور کے واقع ہونے میں حکمت یہ ہے تاکہ مسلمان ان کی سنت کی پیروی کرسکیں ۔ جیسا کہ موطا امام مالک رحمہ اللہ میں روایت کیا گیا ہے :

’’ إنما أَنسی ‘ أو أُنسی لأسنَّ۔‘‘ [الموطأ۱؍۱۰۰]

’’ بیشک میں بھول جاتا ہوں ‘ یا بھلا دیا جاتا ہوں ‘ تاکہ میں سنت قائم کروں ۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :

(( إنما أنا بشر أنسی کما تنسون ‘ فإذا نسیت فذکروني۔)) [البخاری۱؍۸۵؛مسلم ۱؍۳۶۸ ؛ کتاب المساجِدِ ومواضِعِ الصلاِۃ، باب السہوِ فِی الصلاۃِ والسجودِ لہ؛ سننِ أبِی داود 1؍368؛ ِکتاب الصلاۃِ، باب ِإذا صلی خمسا؛ سنن ابن ماجہ 1؍380؛ ِکتاب ِإقامۃِ الصلاِۃ، باب السہوِ فِی الصلاِۃ ؛ المسندِ ط. المعارِفِ5؍212۔]

’’ بیشک میں بشر ہوں ‘ میں بھی ایسے بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو‘ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلادو۔‘‘

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑہا کر سلام پھیر دیا ؛تو صحابہ کرام نے آپ سے گزارش کی :

یارسول اللہ ! کیا نماز زیادہ کردی گئی ہے ۔ آپ نے پوچھا : کیوں کیا ہوا؟

توعرض کرنے لگے : آپ نے پانچ رکعت پڑھائی ہیں ۔‘‘[البخاری۱؍۶۸؛ البخاری 2؍68 (کتاب السہوِ، باب ِإذا صلی خمسا) ؛ مسلِم 1؍401 ۔ 402 (کتاب المساجِدِ ومواضِعِ الصلاِۃ، باب السہوِ فِی الصلاۃِ) ؛ سننِ أبِی داود 1؍369 (کتاب الصلاِۃ، باب إِذا صلی خمسا ؛ سنن ابن ماجہ 1؍380؛ ِکتاب ِإقامۃِ الصلاِۃ، باب من صلی الظہر خمسا وہو ساہ ؛ المسند ؛ ط. المعارِفِ 5؍193۔]

مگر شیعہ کا معاملہ مختلف ہے وہ بڑی حد تک نصاریٰ سے ملتے جلتے ہیں ۔ اللہتعالیٰ نے اَوامر و اَخبار میں انبیاء کی اطاعت و تصدیق کا حکم دیا اور لوگوں کو غلو و شرک سے روکا۔ مگر نصاریٰ نے اللہ کا دین بدل دیا۔ اورمسیح علیہ السلام کی شان میں اس حد تک غلو سے کام لیا کہ اسے اللہ تعالیٰ کیساتھ شریک ٹھہرانے لگے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کو بدل ڈالا اور اس طرح ان کی نافرمانی کے مرتکب ہو کر عاصی ٹھہرے؛ دین میں غلو کرکے اس کی اصل حدود سے تجاوز کر گئے۔اصل حدود اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی وحدانیت کا اقرار ؛ اور اس کے رسولوں کے لیے رسالت کی گواہی تھا۔

اس غلو نے انہیں دین سے نکالا اور وہ تثلیث اور اتحاد کے قائل ہوگئے ۔اور رسول اللہ کی اطاعت و تصدیق سے نکالا ؛ کہ رسول نے انہیں حکم دیا تھا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جو اس کا اور ان سب کا رب ہے ؛ مگر انہوں نے اس کے قول کو جھٹلایا کہ اللہ ان کا رب ہے ؛ اور انہیں جو حکم دیے تھے ان کی نافرمانی کی ۔