Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....وعد و وعید پرعدم اعتماد؟

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....وعد و وعید پرعدم اعتماد؟

رافضی کا قول کہ: ’’اللہ کے وعدہ اور وعید میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔‘‘

منکر تقدیر شیعہ انتہائی طوالت سے کام لیتے ہوئے لکھتا ہے:’’اہل سنت کے نقطۂ نظر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے وعدہ اور وعید پر سے اعتماد اٹھ جائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی جانب دروغ گوئی کی نسبت درست ہے، بنا بریں اس کی دی ہوئی خبریں بھی جھوٹ ہوں گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انبیاء کی بعثت عبث ہوگی اور کسی فائدہ کی موجب نہیں ہوگی۔بلکہ یہ بھی جائز ٹھہرا کہ وہ کذابوں کو بھی بھیج سکتا ہے پس سچے اور جھوٹے نبیوں میں فرق کرنے کی کوئی سبیل ہمارے ہاتھوں میں باقی نہ رہی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔

[جواب]: اس بات کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے۔

اوّل :....بارہا یہ بات گزر چکی ہے کہ جس بات سے وہ خود متصف ہے اس میں اور اس میں فرق ہے جس کو اس نے اپنے غیر کی صفت بنا کر پیدا کیا ہے اور یہ کہ مخلوق کی اپنے خالق کی طرف نسبت میں اور صفت کی اپنے موصوف کی طرف نسبت میں فرق ہے۔ خالق و فاعل کے مابین فرق و امتیاز سب عقلاء کے نزدیک مسلم ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ جب کسی چیز میں حرکت پیدا کریگا تو ذات باری کو متحرک قرار نہیں دے سکیں گے، جب وہ بادل میں گرج پیدا کرتا ہے، تو گرج کو اس کی آواز نہیں کہہ سکتے۔ بعینہ اسی طرح جب وہ حیوانات و نباتات میں مختلف قسم کے رنگ پیدا کرتا ہے، تو اسے ان رنگوں سے موصوف قرار نہیں دے سکتے۔ جب وہ کسی چیز میں علم اور حیات و قدرت کی صفات پیدا کرتا ہے تو یہ اس کی صفات نہیں کہلا سکتیں ۔ علی ہذا القیاس جب وہ کسی چیز میں اندھا پن اور بہرہ پن پیدا کرتا ہے، تو یہ اس کی صفت نہیں کہلاتی جب اللہ تعالیٰ کسی میں روزہ، طواف اور خشوع و خضوع پید اکرتا ہے تو اسے روزہ دار، طواف کنندہ اور خاشع کے ناموں سے یاد نہیں کیا جا سکتا، باقی رہی قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ:﴿ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الانفال:۱۷)

’’جب آپ نے تیر پھینکا تو وہ آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکا ہے۔‘‘

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بلاشبہ وہ تیر آپ نے پھینکا ہے، مگر اسے نشانہ پر لگانا آپ کا فعل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی عنایت ہے۔ آیت کا حاصل یہ ہے کہ تیر اندازی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور اسے دشمنوں تک پہنچانا اللہ کا کام۔پس تیراندازی آپ کے دست مبارک کی طرف منسوب ہوئی اور اس کی ہدف تک رسائی اللہ تعالیٰ کی طرف ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ تیر انداز اور تیر اندازی دونوں اللہ کے پیدا کردہ ہیں ۔ لہٰذا حقیقی تیر انداز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہ خیال قطعی طور پر بے بنیاد ہے۔ کیونکہ اگر یہ بات درست ہوتی کیونکہ وہ تیر اندازی کا خالق ہے تو یہ بات دیگر جملہ افعال میں بھی جاری ہو گی۔ تب پھر لوگ یہ بھی کہہ سکتے کہ میرا چلنا دراصل اللہ کا چلنا ہے اور میرا تھپڑا مارنادراصل اللہ کا تھپڑ مارنا ہے۔ اسی طرح سوار ہونا، نماز وغیرہ کا ادا کرنا یہ بھی دراصل اسی کا فعل ہے کیونکہ وہ ان سب افعال کا خالق ہے۔ حالانکہ ان سب باتوں کے باطل ہونے کو سب جانتے ہیں ۔[[ اگر کسی چیز کے پیدا کرنے کی بنا پر اس کی نسبت ذات باری کی جانب کی جا سکتی تو ہر فعل کو اللہ کی جانب منسوب کر دیا جاتا، حالانکہ یہ بداہۃً غلط ہے]]۔بلا شبہ یہ تقدیر کے قائلین کا غلو ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ محصور ہوئے تو بلوائی آپ پر پتھر پھینکنے لگے، حضرت عثمان نے پوچھا تم پتھر کیوں پھینکتے ہو....؟ وہ کہنے لگے ہم پتھر نہیں پھینک رہے ؛بلکہ اللہ تعالیٰ پھینکتا ہے، آپ نے فرمایا: تم جھوٹ کہتے ہو اگر اللہ تعالیٰ پتھر پھینکتا تو اس کا نشانہ ہر گز نہ چوکتا مگر تمہارے سب نشانے بیکار ثابت ہورہے ہیں ۔‘‘

یہ منکرین تقدیر کی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر حجت ہے کہ وہ اس بات کے قائل نہ تھے کہ اللہ افعالِ عباد کا خالق ہے۔ جیسا کہ بعض مثبتہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے:

﴿وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الانفال: ۱۷)

’’اور لیکن اللہ نے[تیر] پھینکا۔‘‘

لیکن یہ دونوں فریق ہی خطا پر ہیں ۔ کیونکہ رب تعالیٰ جب کسی بندے میں ایک فعل کو پیدا کرتے ہیں تو لازم نہیں کہ وہ بندے سے درست بھی ہو۔ جیسے کسی جسم میں بو کو پیدا کرنے سے یہ لازم نہیں کہ وہ جو خوش گوار بھی ہو۔ اسی طرح کسی بندے میں آنکھیں اور زبان پیدا کرنے سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ وہ بصیر اور ناطق بھی ہو۔ سو لوگوں میں پائے جانے والے کذب کی استناد ایسی ہی ہے جیسی مخلوقات میں موجود صفاتِ قبیحہ اور احوال مذمومہ کی استناد ہے۔ کہ یہ اس کے فی نفسہ مذموم ہونے کو مقتضی نہیں اور نہ اس بات کو مقتضی ہے کہ وہ ان صفات کے ساتھ متصف بھی ہے۔ البتہ استناد کا لفظ مجمل ہے۔ کیا مخلوق کے عجز کو محض اس لیے اللہ کی طرف منسوب کرنا جائز ہو گا کہ وہ اس عجز کا خالق ہے؟ بلاشبہ یہ دلیل واضح طور پر باطل ہے۔

دوم : ان کی رائے میں اللہ تعالیٰ یہ جانتے ہوئے دروغ گوئی کی قدرت پیدا کرتا ہے کہ وہ شخص جھوٹ بولے گا۔اسی طرح وہ اس علم کے باوصف ظلم و فحش کی قدرت عطا کرتا ہے، کہ یہ آدمی ظلم و فحش کا مرتکب ہوگا۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہم میں سے جو شخص افعال قبیحہ کے انجام دینے میں کسی کی مدد کرتا ہے، وہ گویا بذات خود ان افعال کا ارتکاب کرتا ہے، بنا بریں ظلم و کذب کی مدد کرنے والے کو ظالم و کاذب قرار دیا جائے گا۔ اور ہمارے لیے گناہ کے کام پر کسی کی مدد کرنا جائز نہیں ۔ اس بات سے خود اللہ نے بھی منع فرمایا ہے۔ سو جو بات اس سے قبیح ہے وہ ہم سے بھی قبیح ہے تو لازم آیا کہ اس پر اس بات کو جائز قرار دیا جائے کہ جب وہ کذب پر اعانت کرتا ہے تو کذب بھی کرتا ہے اور یہ محذور ہے جو ان اہل سنت کو لازم آ رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفات کا اثبات:

اگر سوال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو قدرت اطاعت کے لیے عطا کی ہے نافرمانی کے لیے نہیں ۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اسے معلوم تھا کہ قدرت ملنے پر نافرمانی کرے گا تو یہ اسی طرح ہوا جیسے کسی کو کفار سے جہاد کرنے کے لیے تلوار دی جائے جب کہ یہ معلوم ہو کہ وہ اسی تلوار سے کسی نبی کو قتل کر دے گا۔ ظاہر ہے کہ جب یہ باتیں بندوں کے بھی مناسب حال نہیں ہیں ؛ کیونکہ جو آدمی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غرض مجھے حاصل نہ ہو گی؛ پھر بھی وہ فعل کرے تو اسے ہمارے نزدیک نادان تصور کیا جاتا ہے؛ تو اللہ کی ذات اس سے کہیں بلند ہے۔سو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے افعال میں حکم اپنے بندوں کے افعال کے برعکس ہوتا ہے۔بھلے ان لوگوں نے اس کی کوئی ایسی علت بیان کی ہو جو اسے مستقیم کر دے تو انہیں کہا جائے گا کہ اسی طرح وہ غیر میں جو پیدا کرتا ہے اس کی حکمت ہوتی ہے جیسے قدرت کے ساتھ اس پر اعانت کرنے میں حکمت ہوتی ہے۔

سوم :....یہ کہا جائے کہ: یہ بات کہ ہر وہ چیزجو ممکن الوقوع ہو اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہو تو یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز وقوع پذیر بھی ہو جائے۔بخلاف ازیں ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ قدرت کے باوصف وہ بہت سے کام انجام نہیں دیتا، مثلاً وہ سمندر کو پارے میں تبدیل نہیں کرتا، پہاڑوں کو یا قوت کی شکل میں تبدیل نہیں کرتا۔ سب کو مسخ کر کے بندر اور خنزیر نہیں بنا تا اور نہ اس نے سورج اور چاند کو درخت کی دو ڈالیاں بنایا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہتعالیٰ کذب سے منزہ ہے اور کذب کا صدور اس سے محال ہے۔

چہارم:....ہم کہتے ہیں : ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صفات ِکمال سے موصوف ہے، موجودات عالم میں جو بھی کمال پایا جاتا ہے، اللہتعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے، وہ ہر نقص و عیب سے منزہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حیات اور علم و قدرت صفات ِکمال ہیں لہٰذا وہ ان کا زیادہ مستحق ہے، راست بازی و صداقت بھی اس کا خاص وصف ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًاo﴾ (النسآء: ۸۷)

’’اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سواکوئی معبود نہیں ، وہ ہر صورت تمھیں قیامت کے دن کی طرف (لے جاکر) جمع کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں اور اللہ سے زیادہ بات میں کون سچا ہے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے:

((اِنَّ اَصْدَقَ الْکَلَامِ کَلَامُ اللّٰہِ )) [النسائی۔ کتاب صلاۃ العیدین۔ باب کیف الخطبۃ(ح:۱۵۷۹)کتاب السھو۔ باب نوع آخر من الذکر بعد التشھد (ح: ۱۳۱۲) بلفظ’’ احسن الکلام کلام اللہ‘‘ المطالب العالیۃ (۳۱۰۵) بلفظ ’’ ان اصدق الحدیث کلام اللّٰہ۔‘‘]

’’بیشک سب سے سچا کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔‘‘

پنجم:....یہ کہا جائے کہ سلف و خلف اہل سنت و الجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے اللہ تعالیٰ کا کلام اس کے ساتھ قائم اور غیر مخلوق ہے۔پھر اختلاف اس امر میں ہے کہ آیا وہ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ کلام کرتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے دو اقوال معروف ہیں ۔ پہلا قول اسلاف اور جمہور کا ہے جبکہ دوسرا قول ابن کلاب اور اس کے متبعین کا ہے۔

٭ پھر ابن کلاب کے متبعین کا اس میں اختلاف ہے؛ کہ کیا وہ قدیم جو معنوی طور پر اس کی مشئیت اور قدرت سے تعلق نہیں رکھتا ؛ اور وہ بذات خود قائم ہے؛ اور کیاحروف ؛ یا حروف اور اصوات ازلی ہیں ؟اس میں دو قول ہیں ؛ اور ان پر اپنی جگہ پر تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے۔ پس جب معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر جس نے یہ کہا کہ وہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے نہیں ہے تو یہ بات بھی ممتنع ٹھہری کہ کوئی دوسرا اس کے ساتھ قائم ہو؛ جس کے ساتھ وہ متصف ہے۔ اب ان کے نزدیک صدق ایک علم ہے یا ایسا معنی ہے جو علم کو مستلزم ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ علم اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے اور علم کے لوازم اس کی ذات کے لوازم میں سے ہوئے لہٰذا صدق اس کی ذات کے لوازم میں سے ہوا۔ تب پھر اس کا اپنی نقیض کے ساتھ متصف ہونا ممتنع ہوا۔ کیونکہ لازم کا عدم ملزوم کے عدم کو مقتضی ہے۔دروغ گوئی، بہرے پن اور گونگے پن کی طرح ایک عیب ہے۔ اللہ تعالیٰ بلاشبہ گونگے اور بہرے لوگوں کو پیدا تو کرتا ہے، مگر بذات خود اس میں یہ عیب نہیں پایا جاتا۔ بعینہ اسی طرح وہ کاذب میں کذب کو تو پیداکرتا ہے، مگر خود دروغ گوئی کا ارتکاب نہیں کرتا۔ تو یہ بھی واجب ٹھہرا کہ وہ صدق کے ساتھ کذب کے بغیر متصف ہو۔[اس میں شبہ نہیں کہ کلام ایک صفت کمال ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کا اس سے متصف ہونا ناگزیر ہے، خواہ کلام کی کوئی صورت بھی ہو، اس ضمن میں ان کے متعدد اقوال ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ صفت کلام اﷲ کی قدرت و مشیت سے وابستہ نہیں یہ ایک ایسی صفت ہے جو بذات خود قائم ہے۔ دوسرا قول : کلام حروف یا اصوات قدیمہ کا نام ہے۔ تیسرا قول : کلام مشیت ایزدی سے متعلق ہے۔ چوتھا قول: اﷲتعالیٰ پہلے متکلم نہ تھا یہ صفت بعد ازاں اس میں پیدا ہوئی۔ پانچواں قول : وہ ازل ہی سے متکلم تھا۔]

رہا یہ کہنا کہ کلام اس کی قدرت و مشیئت کے متعلق ہے۔ تو ان کے اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی حکمت سے کلام اور فعل کرتا ہے اور وہ فعل قبیح سے منزہ ہے اور ان لوگوں کے رب تعالیٰ کو فعل قبیح سے منزہ قرار دینے کے دلائل معتزلہ کے دلائل سے زیادہ قوی اور عظیم ترہیں ۔ کیونکہ ہر وہ دلیل جو اس بات پر دلالت کرے کہ وہ ہر قبیح فعل سے منزہ ہے اور وہ فعل اس کی ذات سے منفصل ہے۔ تو وہ دلیل اس بات پر بدرجہ اولیٰ دلالت کرتی ہے کہ وہ ایسے ہر فعل قبیح سے منزہ ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔ کیونکہ اس کی ذات کے ساتھ قائم قبائح کا نقص ہونا، اس کی ذات سے منفصل قبیح افعال کے نقص ہونے سے زیادہ ظاہر ہے۔ ت وجب یہ ممتنع ہوا تو وہ تو بدرجہ اولیٰ ممتنع ہوا۔

ششم :....دلائل عقلیہ بھی یہی بتلاتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی ذات کا نقائص و قبائح کے ساتھ متصف ہونا ممتنع ہے اور یہ کہ وہ جس بات کے ساتھ بھی متصف ہے، وہ اس کی ذات کے ساتھ قائم بھی ہے۔ اب کلام متکلم کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ لہٰذا رب تعالیٰ کا کذب کے ساتھ تکلم ممتنع ہوا۔ کیونکہ اس کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور یہ بات ممتنع ہےکہ ایسی قبیح بات اس کے ساتھ قائم ہو جسے اس نے اختیار کیا ہے۔

رب تعالیٰ کو کذب سے منزہ قرار دینے کا یہ طریق انہی لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو اہل اثبات ہیں ۔ معتزلہ اس طور پر رب تعالیٰ کو کذب سے منزہ قرار نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ان معتزلہ کے نزدیک رب تعالیٰ کا کلام اس کی ذات سے منفصل اور جدا ہے۔ سو جب یہ اہل اثبات ان معتزلہ سے یہ کہتے ہیں کہ دلیل تو صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی ذات فی نفسہ قبائح کے ساتھ متصف ہونے سے منزہ ہونے پر اور قبیح فعل کرنے سے منزہ ہونے پر دلالت کرتی ہے، اور فعل وہ ہوتا ہے جو فاعل کے ساتھ قائم ہو۔اور رہی منفصل کی بات ؛ تو وہ فاعل کا مفعول ہوتا ہے نا کہ اس کا فعل اور تم لوگوں نے ایسی کوئی دلیل ذکر نہیں کی جو اس کے مفعولات میں وقوع کے امتناع پر دلالت کرے اور یہی محمل نزاع ہے اور ان لوگوں کی دلیل قدریہ پر ظاہری حجت ہے۔

ہفتم :....یہ کہ اس کا کلام جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے وہ اہل سنت کے نزدیک غیر مخلوق ہے۔ کیونکہ کلام صفت کمال ہے۔ لہٰذا لازمی ہے کہ رب تعالیٰ اس کے ساتھ متصف ہو۔ چاہے وہ یہ کہیں کہ اس کا اس کی قدرت و مشیئت سے تعلق نہیں اور وہ ایک معنیٰ ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ یا وہ قدیم حروف اور آواز ہے۔ یا وہ یہ کہیں کہ وہ اس کی قدرت و مشیئت کے متعلق ہے یا وہ غیر متکلم ہونے کے بعد متکلم ہے ۔ یا وہ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہے۔ غرض ان سب اقوال کے مطابق کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور کذب یہ نقص ہے جیسے اندھا پن، گونگا پن اور بہرا پن اور رب تعالیٰ اس بات سے منزہ ہے کہ اس کی ذات کے ساتھ نقائص قائم ہوں ۔ باوجود یہ کہ اس نے ایسی مخلوقات کو پیدا کیا ہے جو نقائص سے متصف ہیں ۔ سو وہ اندھا پن، گونگا پن اور بہرا پن پیدا کرتا ہے پر یہ امور اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہیں ۔ اسی طرح وہ کاذب میں کذب کو پیدا کرتا ہے لیکن یہ کذب خود اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ۔

ہشتم:....یہ سوال شیعہ پر وارد ہوتا ہے، شیعہ کا عقیدہ ہے کہ: اللہتعالیٰ دوسروں میں کلام پیدا کرتا ہے۔اندریں صورت کلام کا قیام اگرچہ دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے مگر اسے اللہ کا پیدا کردہ قرار دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:’’ جو کلام بندوں سے صادر ہوتا ہے وہ خد اکا کلام نہیں اور اس کا پیدا کردہ بھی نہیں ۔‘‘جب ان کے نزدیک یہ دونوں باتیں درست ہیں تو اس بات کا اعتراف کرنا ان کے لیے ناگزیر ہے کہ یہ اس کا کلام ہے اور وہ اس کا کلام نہیں ۔

[شبہ :جھوٹے انبیاء کی بعثت اور اس پر رد]: 

[اعتراض]: شیعہ مصنف کہتا ہے:

’’اہل سنت کے قول کے مطابق یہ لازم آئے گاکہ اللہتعالیٰ جھوٹے نبی بھیجتا ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔

[جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے:

اول:....بلاشبہ اللہتعالیٰ جھوٹوں کوبھی بھیجتا ہے، جیسا کہ شیاطین کے بھیجنے کا اس آیت میں ذکر ہے۔ ارشاد ہے:

﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تَؤُزُّہُمْ اَزًّاo﴾ (مریم: ۸۳)

’’کیا تونے نہیں دیکھا کہ بے شک ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے، وہ انھیں ابھارتے ہیں ، خوب ابھارنا۔‘‘:

اور انہیں مبعوث بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

﴿بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ﴾ (الاسراء: ۵)

’’تو ہم نے تم پر اپنے سخت لڑائی والے کچھ بندے بھیجے۔‘‘

لیکن یہ تب ہی ہو گا جب ان کے ساتھ وہ امر بھی بھیجا جائے جو ان کے کذب کو عیاں کر دے ۔ مثلاً مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی جھوٹے نبی تھے؛ اللہ تعالیٰ نے ان کا کاذب ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے واضح کر دیا تھا، [بنا بریں ان کا صدق و کذب کسی پر مخفی نہیں رہا]۔ اسی طرح ظالم جاہل، فاجر، اندھے، اور بہرے وغیرہ کو بھیجنا ہے کہ ان میں ایسے امور ضرور ہوتے ہیں جن کی مدد سے ان میں اور دوسروں میں فرق کیا جا سکے۔پھر لفظ ’’ارسال‘‘ یہ ہواؤں کے بھیجنے کو بھی اور شیاطین کے بھیجنے کو بھی دونوں کو شامل ہے؛ اور اس کے علاوہ کو بھی ۔

دوم:....یہ کہا جائے کہ: ان کے نزدیک یہ بات جائز ہے کہ وہ ایسے کو پیدا کرے کہ جس کے کاذب ہونے کو وہ جانتا ہے اور وہ اسے کذب پر قدرت بھی دیتا ہے۔ جیسے اس نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو پیدا کیا، سو جب رب تعالیٰ کا مسیلمہ کو پیدا کرنا جائز ٹھہرا جبکہ اس نے اس میں اور صادق میں فرق کو بھی واضح کر دیا تو اس کا کذاب کو اس کے کذب کے ساتھ پیدا کرنا بھی جائز ٹھہرا۔

سوم :....جب اس نے مدعی نبوت کو پیدا کیا حالانکہ وہ کاذب ہوتا ہے۔ پھر اگر یہ کہتے ہیں کہ اس پر سچ کی نشانیاں کا اظہار بھی جائز ہے تو یہ ممتنع ہے اور بالاتفاق باطل ہے اور اگر یہ اسے ناجائز کہتے ہیں تو سچ کی نشانیوں کے بغیر نبوت کا محض دعویٰ مضر نہیں ۔ کیونکہ اگر کسی دلیل کے بغیر کوئی اپنے طبیب یا سنار ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کوئی لائق التفات نہیں سمجھتا چہ جائیکہ مدعی نبوت بلا دلیل کے؟

٭ اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ کاذب کی ذات میں کذب کو پیدا کر سکتا ہے تو اس کے ہاتھوں ایسے معجزات کیوں ظاہر نہیں کر سکتا جو اس کی صداقت کی دلیل ہوں ....؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ، اس لیے کہ صدق کے دلائل صداقت کو مستلزم ہیں ، کیونکہ دلیل مدلول کو مستلزم ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ کذاب پر علامات صدق کا اظہار ممتنع لذاتہ ہے۔

٭ اگر وہ کہیں کہ کذاب کے ہاتھوں خوارق کا ظہور جائز ہے، تو ہم کہیں گے کہ مدعی الوہیت مثلاً دجال کے حق میں یہ جائز ہے۔ مدعی نبوت سے خوارق کا ظہور صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ان خوارق سے اس کی صداقت واضح نہ ہوتی ہو جس طرح ساحرو کاہن سے ایسے خوارق کا ظہور جائز نہیں جو اس کے صدق کی دلیل ہوں ۔اس مسئلہ پر اپنی جگہ پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوچکی ہے۔

چہارم : یہ ہے کہ نبوت کے دلائل و براہین کا دائرہ صرف خوارق ہی میں نہیں بلکہ ان کی کئی قسمیں ہیں جس طرح جھوٹ کی پہچان حاصل کرنے کے متعدد طریقے ہیں ۔اس مسئلہ پر بھی اپنی جگہ پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہو چکی ہے۔