فصل:....مسئلہ تقدیر اور تعطیل حدود
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....مسئلہ تقدیر اور تعطیل حدود
[اہل سنت کے عقیدہ تقدیر سے متعلق مسئلہ پر رافضی کا کلام کہ ’’اس سے تو حدود اور معاصی پر زجر کا تعطل لازم آتا ہے‘‘ اور اس کا ردّ]
[اعتراض]:شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے: ’’اگر اہل سنت کی بات تسلیم کر لی جائے تو اس سے شرعی حدود کا بے کار ہونا لازم آتا ہے، مثلاً زنا اور سرقہ جیسے جرائم کا صدور جب اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق ہو اور اس کا ارادہ ان افعال کی انجام دہی میں مؤثر ہو تو کسی بادشاہ کو اس پر گرفت کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا۔ اس لیے کہ جو شخص ایسا کرتا ہے وہ چور کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے باز رکھنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ اور اسے ایسے کام پر لگاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے۔ ظاہر کہ اگر کوئی شخص ہمیں اپنے ارادہ کی تکمیل سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو ہمیں اس سے کوفت ہوگی،اور ایسا کرنے والا ملامت کا مستحق ٹھہرے گا؛ تو پھر اللہ تعالیٰ کو یہ بات کیوں کر پسند ہوگی؟ اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نقیضین کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے، ایک طرف تو وہ معصیت کا ارادہ کرتا ہے اور پھر اس سے روکتا بھی ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں : گزشتہ میں اس کی کافی وضاحت گزر چکی ہے لیکن پھر بھی ہم یہاں اس کا متعدد طرح سے جواب دیں گے۔ ان شاء اللہ!
اول:....یہ کہ اللہ تعالیٰ نے صرف ان امور کو مقدر کیا تھا جو ظہور پذیر ہو چکے ، جو امور تا ہنوز عالم وجود میں نہیں آئے، وہ اللہ کے علم میں بھی مقدر نہیں تھے۔ جو امور وقوع پذیر ہو چکے ہیں ، کوئی شخض ان کے روکنے پر قادر نہ تھا۔ شرعی حدود و زواجر سے ان امور کو روکا جاتا ہے، جو ابھی وقوع میں نہیں آئے۔ سو جو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔
٭ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’وہ شخص چور کو اللہ کے ارادہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘
٭ یہ صریح جھوٹ ہے؛ کیونکہ وہ شخص تو چور کو اس کام سے روکنا چاہتا ہے جو اس نے ابھی سر انجام نہیں دیا، اور جو کام ابھی وقوع پذیر نہیں ہوا، اس کا ارادہ اللہ نے بھی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص حلف اٹھا کر کہے کہ ان شاء اللہ وہ اس مال کو چرالے گا اور پھر اسے نہ چرائے تو وہ اجماعاً اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں چاہا کہ وہ چوری کا مرتکب ہو۔
[ارادہ اور امرمیں فرق و امتیاز:]
بخلاف ازیں قدریہ (منکرین تقدیر) ارادہ کو امر کے معنی میں لیتے ہیں ؛ وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ سرقہ جب اللہتعالیٰ کے ارادے سے وقوع میں آتا ہے، تو وہ مراد کے ساتھ ساتھ ماموربہ بھی ہے۔حالانکہ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے؛ اور ان کے دین میں یہ بات بدیہی اور اضطراری طور پر معلوم شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سرقہ کا حکم نہیں دیا۔اب جوکوئی اس بات کا قائل ہے کہ جو واقع ہو وہ مراد ہوتا ہے تو وہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مراد ہے پر مامور بہ نہیں ۔اورجو شخص اس کا قائل ہے کہ چوری مراد اور مامور ہے؛ اس کا کفر کسی شک و شبہ سے بالا ہے۔ لیکن یہ بات کبھی کبھی ان اباحیت پسندوں اور قدر کی آڑ میں گناہوں پر دلیل پکڑنے والوں کو کہی جاتی ہے کیونکہ ان میں سے کوئی اس بات کا قائل نہیں ہوتا کہ وہ انسان کا اس گناہ میں معارضہ کرے جو اس کے نزدیک اس کے مقدر میں ہے؛ اورجو کوئی اس بات کا قائل ہے کہ وہ اس پر معاونت کرے؛ کیونکہ اس کے گمان میں یہ رب تعالیٰ کی مراد ہے اور اگرچہ یہ فعل حرام اور معصیت ہے لیکن وہ رب تعالیٰ کی مرا دسے نہیں روکتے۔ سو معلوم ہوا کہ کسی بھی لحاظ سے مراد الٰہی سے روکناممکن نہیں ۔
دوم:....یہ کہا جائے کہ گزشتہ میں یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ معاصی، قبائح اور ظلم سے روکنا، ظالم سے دفاع کرنا، اس سے مظلوم کا حق لینا اور ظلم پر تقدیر کو حجت بنانے والوں پر رد کرنا لوگوں کی فطرتوں میں جاگزیں ہے باوجود یہ کہ وہ تقدیر کو بھی مانتے ہیں اور یہ کہ اگر لوگ جو چاہے برائی کریں اور اس پر تقدیر کی پناہ لینے لگ جائیں کہ نظامِ زندگی درہم برہم ہو جائے۔ یہ گناہوں پر تقدیر کو آڑ بنانے والے یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر ہیں حالانکہ وہ منکرین تقدیر سے بھی برے ہیں ۔
سوم:....علاوہ ازیں اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ بندہ کی تقدیر میں بعض باتیں ایسی مقدرہوتی ہیں جن کا دور کرنا ایک امر مستحسن ہوتاہے۔جیسے مرض وغیرہ کہ یہ بالاتفاق رب تعالیٰ کا فعل اور اس کی مراد ہے۔ لیکن اس باوجود روادارو اور حزم و احتیاط کر کے اس کا دفعیہ مستحسن ہے۔ حالانکہ یہ مراد الٰہی کو دور کرنا ہے۔
پھر اگر یہ کہا جائے کہ سارق کا قطع مرادِ الٰہی کو روکنا ہے تو مرض میں دوا پینا بھی اسی قبیل میں سے ہے۔ اسی طرح سیلابوں کی روک تھام، آگ بجھانا، گرتی دیوار کو سیدھا کرنا جیسا کہ جنابِ خضر علیہ السلام نے کیا تھا۔ کھا پی کر بھوک مٹانا، سردی گرمی کو دور کرنا، دھوپ میں سایہ لینا وغیرہ بھی اسی قبیل میں سے ہو گا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ:
’’اے اللہ کے رسول! ذرا بتلائیے کہ یہ جو ہم دوائیوں سے مرض کا علاج کرتے ہیں اور دم کرتے ہیں اور بچاؤ کے اسباب اختیار کرتے ہیں کیا یہ رب تعالیٰ کی تقدیر کو ٹالتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی تقدیر میں سے ہیں ۔‘‘[سنن ترمذی، کتاب الطب، باب ما جاء فی الرقی والادویۃ (حدیث: ۲۰۶۵، ۲۱۴۸)، سنن ابن ماجۃ، کتاب الطب۔ باب ما انزل اللّٰہ داء الا انزل لہ شفاء ( حدیث: ۳۴۳۷)۔]
سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ خود رب کی تقدیر سے اس کی تقدیر کو ہٹا سکتے ہیں ۔ یا دفع کر کے یا اٹھا کے۔ دفع کر کے اس کو جس کے وجود کا سبب منعقد ہو گیا ہو اور رفع کر کے اس کو جو موجود ہو۔ جیسا کہ مرض۔ اسی معنیٰ میں یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ﴾ (الرعد: ۱۱)
’’اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں ، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘
معقبات کی تفسیر میں دو اقوال ہیں :
۱۔ ایک یہ کہ یہ اللہ کے امر میں سے ہیں جن کی وہ حفاظت کرتے ہیں ۔
۲۔ دوسرا یہ کہ وہ اس کی اللہ کے اس امر سے حفاظت کرتے ہیں جو وارد ہوا ہے اور حاصل نہیں ہوا۔ وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں کہ اس تک پہنچے اور ان کا حفاظت کرنا اللہ کے امر سے ہے۔
[شبہ :....نقیضین کا ارادہ ربانیہ ؛ اور اس پر ردّ: ]
چہارم :....[شبہ]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’ اس سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ لازم آتا ہے کہ وہ نقیضین کا ارادہ کرنے والا ہے۔ کیونکہ معصیت بھی اللہ کی مراد ہے اور اس سے روکنا بھی اس کی مراد ہے۔‘‘
[جواب]: [یہ شبہ سرے سے ]ناقابل اعتبار بات ہے۔ اس لیے کہ ان دوچیزوں کو باہم نقیض قرار دیتے ہیں جن کا اجتماع اور ارتفاع محال ہو یا وہ دو چیزیں جن کا باہم جمع ہونا ممکن نہ ہو ان کو ایک دوسرے کی ضد بھی کہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ زجر و عتاب اس امر کے بارے میں نہیں ہوتا اور نہ وہ مراد ہے۔جو وقوع پذیر ہوچکا ہو اور اس کا ارادہ بھی کر لیا گیا ہو۔ بخلاف ازیں زجر کی حیثیت ماضی کے اعتبار سے سزا کی ہوتی ہے اور مستقبل کے لحاظ سے زجر و توبیخ کی ۔ جو زجر اس کے حسب ارادہ ہوتا ہے ، اگر اس سے امر مقصود حاصل ہوجائے تو اس سے صرف زجر مراد ہوتا ہے، اور اگر مقصود حاصل نہ ہو تو یہ زجر کامل نہیں ۔ جس طرح کسی کو تلوار سے مارنے کا ارادہ کیا جاتا ہے اور کسی کو زندہ رکھنے کا۔ اور جس طرح اس مہلک مرض کا ارادہ کیا جاتا ہے جو بعض اوقات موت کا باعث بنتا ہے اور اس سے زندگی کا ارادہ بھی کیا جاتا ہے۔
٭ سو سبب کا ارادہ مسبب کے ارادہ کو موجب نہیں ۔ مگر جبکہ سبب موجب تام ہو اور زجر یہ رکنے کا سبب ہے جیسا کہ دوسرے اسباب ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ مرض موت کا سبب ہوتا ہے۔ جیسا کہ فعل کا امر اور اس کی ترغیب اس کے وقوع کا سبب ہوتی ہے۔ پھر کبھی تو مسبب واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا۔ سو اگر تو واقع ہو تو دونوں مراد ہوں گے وگرنہ صرف خاص وہ مراد ہو گا جو اقع ہو۔
پنجم:....یہ گزر چکا ہے کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں ایک مخلوق کی مشیئت کے معنی میں ہے اور یہ ہر حادث کو شامل ہے نا کہ غیر حادث کو اور ایک مامور بہ کی محبت کے معنی میں ہے اور یہ طاعات کے متعلق ہے۔ تب پھر واقع ہونے والی معصیت پہلے معنی میں ہو گی۔ کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔ سو جو بھی ہوا اس نے اس کے ہونے کو چاہا۔ سو معاصی پر زجر یہ دوسرے معنی میں ہے کہ وہ نہی عن المنکر کو محبوب رکھتا اور اسے پسند کرتا ہے اور اس کے فاعل کو ثواب بخشتا ہے۔ بخلاف نفس منکر کے کہ وہ نہ اسے محبوب ہے اور نہ پسند ہے اور نہ وہ اس کے فاعل کو ثواب دے گا۔ پھر زجر غیر واقع سے ہوتی ہے اور عقوبت ما وقع پر ہوتی ہے سو جب قضاء و قدر سے سرقد واقع ہو جائے گا اور رب تعالیٰ نے اس پر حد قائم کرنے کا حکم بھی دیا ہے تو یہ اقامت حد مامور بہ، محبوب اور پسند ہو گی اور اس نے اس کا ارادہ امر کے اعتبار سے ارادہ کیا نا کہ ارادۂ خلق کے اعتبار سے۔ پھر اگر اس نے اس پر اعانت کی ہو گی تو اس نے اس کے خلق کا ارادہ کیا ہو گا۔ کہ اب اقامت حد شرعاً وقدراً اور خلقاً و امرا مراد ہو گی کہ اس نے اسے چاہا بھی ہے اور اس کو پیدا بھی کیا ہے۔
اگر وہ زجر واقع نہیں ہوئی تو واقع ہونے والی معصیت کو پیدا کرنا اس نے چاہا ہے۔ البتہ اس کا ارادہ نہیں کیا اور نہ شرعاً اس کو محبوب رکھا ہے۔
کہتے ہیں کہ: ایک شخص نے چوری کر کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ کہا کہ: میں نے اللہ کی قضاء و قدر سے چوری کی ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور میں اللہ کی اس قضاء و قدر سے تیرا ہاتھ کاٹوں گا۔ اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے والے کو اور جو بندوں کی اس کی عقوبت شرعیہ پر معاونت کرتا ہے۔ جیسا کہ وہ جو کفار سے جہاد پر مسلمانوں کی اعانت کرتا ہے۔ یہی کہا جائے گا کہ: یہ سب اللہ کی قضاء و قدر سے ہے۔ البتہ اسے وہ محبوب اور پسند ہے اور اس نے اس کا دین و شرع کے اعتبار سے ارادہ کیا ہے، جس کا اس نے امر کیا ہے۔ جیسا کہ اس نے اس کے خلق و کون کو چاہا ہے۔ بخلاف اس کے جس سے اس نے روکا ہے۔