Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....افعال اختیاریہ پر دلالت عقلی اور اس کا ردّ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....افعال اختیاریہ پر دلالت عقلی اور اس کا ردّ

رافضی کا کلام کہ ’’اس کے نزدیک افعالِ اختیاریہ پر عقل کی دلالت ہے۔‘‘ اور اس کا رد۔

[شبہ]:شیعہ مصنف رقم طراز ہے:’’ اور یہ کہ اس سے معقول اور منقول میں مخالفت لازم آتی ہے۔ معقول کی یوں کہ یہ بات گزر چکی ہے اور سب جانتے ہیں کہ ہمارے افعال ہماری جانب منسوب کیے جاتے، اور ہمارے ارادہ کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ چنانچہ جب ہم دائیں جانب حرکت کرنا چاہتے ہیں تو وہ بائیں جانب واقع نہیں ہوتی اور اگر بائیں جانب حرکت کرنا مقصود ہوتو دائیں طرف حرکت نہیں کرتے، یہ ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس میں کسی شک و ریب کی گنجائش نہیں ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب ]: اس کا جواب بھی کئی طرح سے ہے:

اوّل:....بلاشبہ جمہور اہل سنت یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہمارے افعال کی نسبت ہماری طرف کی جاتی ہے، اور ہم ہی ان کے فاعل ہیں اور ان کو عالم وجود میں لاتے ہیں ۔ اس میں اختلاف ان لوگوں کا ہے جو ان افعال کو بندہ کا فعل نہیں مانتے۔ اور یہ کہ بندے کی قدرت کی اس میں کوئی تاثیرا؍اثر نہیں اور نہ بندے نے اس فعل کو وجود دیا ہے۔ یہ اہل اثبات متکلمین کی ایک جماعت کا قول ہے۔جبکہ جمہور اہل سنت کا یہ عقیدہ نہیں ۔ قرآن و حدیث کی نصوص کثیرہ سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوتی ہے۔ اللہ اور رسول نے بندہ کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ فعل و عمل کرتا ہے۔

دو م:....یہ کہا جائے کہ منکرین تقدیر علم ضروری کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں یہ امر محتاج غور و فکر ہے کہ بندہپہلے فاعل اور ارادہ کنندہ نہ تھا بعد میں اس وصف سے بہرہ ور ہوا۔ بنابریں اس کا ایک امر حادث ہونا اظہر من الشمس ہے، اب دو ہی صورتیں ہیں :

۱۔اس کا کوئی محدث ہوگا۔ ۲۔دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی اس کا محدث نہیں ۔

بصورت ثانی حوادث کا ظہور بلا کسی محدث کے لازم آتا ہے۔ بصورت اول وہ محدث یا تو بندہ خود ہوگا، یا ذات باری تعالیٰ۔یا دونوں کے علاوہ کوئی ہو گا۔ اگر بندہ کو محدث قرار دیا جائے تو پھر اس کا اور بھی کوئی محدث ہوگا، جس کا نتیجہ تسلسل کی صورت میں رونما ہوگا، جو کہ بالاتفاق باطل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ عدم سے وجود میں آیاہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ ایسے حوادث کا قیام ممکن نہیں جن کا نقطۂ آغاز معلوم نہ ہو۔ اور اگر اس کا محدث غیر اللہ ہے تو اس میں بھی وہی قول ہے جو بندے میں ہے۔ تب پھر یہ بات متعین ہو گئی کہ وہ رب ہے جو خالق ہو۔ کیونکہ بندہ فاعل ومرید ہے اور وہ مطلوب ہے۔

مندرجہ بالا بیان سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ بندے کا مرید و فاعل ہونا ذات باری تعالیٰ کا رہین منت ہے، اسی لیے اہل سنت کہتے ہیں کہ:’’ بندہ فاعل ہے اور اللہ نے اسے فاعل بنایا ہے، بندہ صاحب ارادہ ہے اور اللہ نے اسے صاحب ارادہ بنایاہے۔اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًاo وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ

(الانسان: ۲۹۔ ۳۰)

’’یقیناً یہ ایک نصیحت ہے، تو جو چاہے اپنے رب کی طرف (جانے والا) راستہ اختیار کرلے۔ اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَo وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo

(التکویر: ۲۸۔ ۲۹)

’’اس کے لیے جو تم میں سے چاہے کہ سیدھا چلے ۔ اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے ، جو سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘

ان آیات میں رب تعالیٰ نے بندے کی مشیئت کو ثابت کیا ہے اور اس مشیئت کو ایسا بنایا ہے کہ وہ رب تعالیٰ کی مشیئت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ چنانچہ جنابِ ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں :

﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ﴾ (ابراہیم: ۳۰)

’’اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی۔‘

اور فرمایا:

﴿فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ﴾ (ابراہیم: ۳۷)

’’سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں ۔‘‘

اور جنابِ ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام فرماتے ہیں :

﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ﴾ (البقرۃ: ۱۲۸)

’’اے ہمارے رب! اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا﴾ (الانبیاء: ۷۳)

’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ﴾ (القصص: ۳۱)

’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے تھے۔‘‘

غرض کتاب و سنت میں اس کی متعدد مثالیں ہیں ۔

انسانی ارادہ اور مشیت ایزدی :

سابق الذکر بیانات اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ بندے کا ارادہ ومشئیت اپنی جگہ پر درست ہے مگر مشیت ایزدی کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ اور یہ دونوں باتیں برحق ہیں ۔

جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ بندے کو نہ کوئی اختیار حاصل ہے اور نہ مشیئت، یا اسے کوئی قدرت حاصل نہیں ، یا بندے نے وہ فعل نہیں کیا یا اس کی قدرت کا اس فعل میں کوئی اثر نہیں اور اس نے اپنے تصرفات کو حادث نہیں کیا۔ تو اس نے ضرورت اولیٰ کے موجب کا انکار کیا۔اور جو یہ کہتا ہے کہ بندہ کا ارادہ اور فعل بغیر کسی ایسے سبب کے حادث ہوا ہے جو اس کے حدوث کو مقتضی ہو اور اسے بندے نے حادث کیا ہے اور اس فعل کے اِحداث کے وقت اس کا حال ویسا ہی تھا جیسا کہ اس کے اِحداث سے قبل تھا بلکہ وہ دو میں سے ایک زمانہ کو احداث کے ساتھ بغیر کسی ایسے سبب کے خاص کرتا ہے جو اس کی تخصیص کو مقتضی ہو، اور یہ کہ بندہ فاعل، ایجاد کنندہ اور ارادہ کنندہ بن گیا جبکہ وہ پہلے نہ تھا بغیر کسی چیز کے جس نے اسے فاعل محدث بنایا ہو، تو اس نے بغیر کسی فاعل کے حوادث کے حدوث کاعقیدہ اختیار کیا۔

جو لوگ کہتے ہیں :ارادہ کی کوئی علت نہیں ہوتی؛ تو ان کایہ قول بے حقیقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ارادہ ایک حادث چیز ہے۔ لہٰذا اس کے لیے ایک محدث کا وجود از بس ناگزیر ہے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بلا سبب اور کسی محل کے بغیر ارادہ کو عالم وجود میں لاتا ہے،اور بغیر ایسے سبب کےحادث کو وجود بخشتا ہے جو اس کے حدوث؍وجود کا تقاضا کرتی ہو؛ وہ لوگ تین محالات کا ارتکاب کرتے ہیں :

۱۔ حادث کا اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر وجود میں آنا۔

۲۔ کسی سبب کے بغیر حادث کا ظہور پذیر ہونا۔

۳۔ صفت کا بلا محل اپنی ذات کے ساتھ قیام۔

اگر آپ چاہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا مرید ہونا امر ممکن ہے اور جب تک کوئی مرجح تام نہ ہو ممکن کا وجود اس کے عدم پر، یا اس کی ایک طرف اس کی دوسری طرف پر راجح نہیں ہوتی۔

امام رازی نے اس دلیل کے ساتھ ان لوگوں پر حجت پکڑی ہے جو فی نفسہ صحیح ہے لیکن انہوں نے حدوثِ عالم کے مسئلہ میں متناقض قول اپنایا ہے۔اور اس امامی نے جو دلیل ذکر کی ہے وہ ابوالحسین بصری سے مروی ہے؛ جو صحیح ہے۔ جیسا کہ دوسری دلیل بھی صحیح ہے۔ لہٰذا دونوں کا قول اپنا نا واجب ہو گا۔ باوجودیکہ جمہور قدریہ کا قول یہ ہے کہ بندے کا اپنے افعال کا محدث ہونے کا علم نظری ہے ناکہ ضروری؛ اور یہ لوگ اس بارے ابوالحسین کے مخالف ہیں ۔

ابو الحسین اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ فعل داعی اور قدرت پر موقوف ہے اور دونوں کے وقت فعل واجب ہوتا ہے اور یہی اہل اثبات کے قول کی حقیقت ہے۔ اسی لیے ان کے متعدد لوگ ایسی ہی تعبیر کرتے ہیں جیسے ابوالمعالی اور رازی وغیرہ۔

لیکن جب اس کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے تو دونوں کے درمیان جمع ممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے نزدیک بھی جو یہ قول کرتا ہے کہ رب تعالیٰ نے اشیاء کو اسباب کے ذریعے پیدا کیا ہے اور جو اس کا قائل نہیں ، وہ کہتا ہے اس نے ان امور کے وقت فعل کو پیدا کیا ناکہ ان امور کے ذریعے۔ یہ ان کا قول ہے جو قدرت کا مقدور میں کوئی اثر نہیں ٹھہراتے جیسے اشعری وغیرہ۔

انسانی افعال اور مشیت ایزدی:

[اعتراض]:اگر سوال کیا جائے کہ جب بندہ اپنے ارادہ کی تکمیل خود کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا محدث کیونکر ہوا؟ 

[جواب ]:اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کو پیداکیا بایں طوروہ اس کا محدث ہے۔ اس نے ان امور کو پیدا کیا ہے جو اس کی ذات سے جدا اور بندے کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ، سو اس نے بندے کو ان امور کا فاعل ٹھہرایا ،[ بندہ ارادے کا فاعل ہے کیونکہ] اس نے اللہ کی ودیعت کردہ قدرت و مشیت سے اس ارادہ کی تکمیل کی۔ یہ دونوں احداث ایک دوسرے کو مستلزم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا بندے کے فعل کو پیدا کرنا وجود فعل کو مستلزم ہے اور بندے کا فاعل ہونا اس امر کو مستلزم ہے کہ رب تعالیٰ اس کا خالق ہے۔ وہ اس سے جدا اور مخلوق کے ساتھ قائم ہے اور جب فعل کو بندے نے حادث کیا ہے وہ اس کے ساتھ قائم ہے۔ لہٰذا بندہ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ اس فعل کا فاعل نہ ہو گا یہاں تک اللہ اسے ایسا بنا دے۔ سو وہ اس میں اس فعل کی قدرت و مشیئت کو پیدا کر دے گا اور اس کے ذریعے اس فعل کو پیدا کرے گا اور جب اللہ اسے فاعل بنا دے گا تو اس فعل کا وجود واجب ہو گا۔سو رب تعالیٰ کا بندے کے فعل کو پیدا کرنا اس فعل کے وجود کو مستلزم ہے اور بندے کے فاعل ہونے کو بھی مستلزم ہے حالانکہ وہ اس سے پہلے فاعل نہ تھا اور یہ رب تعالیٰ کے اس فعل کے خالق ہونے کو بھی مستلزم ہے۔ بلکہ جمیع حوادث اپنے اسباب کے ساتھ اسی باب سے ہیں ۔

اگر یہ کہا جائے کہ یہ اس کا قول ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ یہ حوادث رب تعالیٰ کا اور بندے کا فعل ہیں ۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ: جوکوئی اسے دونوں کا فعل بایں معنی کہتا ہے کہ دونوں کی اس میں شراکت ہے تو یہ قول خطا پر مبنی ہے۔ اور جو کہتا ہے کہ رب کا فعل اس سے جدا ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ دونوں کا فعل ہے جیسا کہ ابواسحاق اسفرائنی کا قول ہے۔ تو اس کے کلام کی کوئی معقول توجیہ و تفسیر ضروری ٹھہرے گی۔

البتہ جمہور اہل سنت جن کا عقیدہ ہے کہ:’’ یہ حوادث رب تعالیٰ کا مفعول ہیں ناکہ فعل۔ جب وہ ایسا کام کرتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔ان کے نزدیک فعل مفعول ہٹ کر ایک چیزہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ حوادث رب تعالیٰ کا مفعول ہیں ناکہ فعل اور یہ فعل بندے کا ہیں ۔

جیسا کہ بندے کی قدرت کی بابت ان کاعقیدہ ہے کہ بندے کی قدرت رب کا مقدور ہے ناکہ بذات خود رب کی قدرت۔ اسی طرح بندہ کا ؛ بندے کا ارادہ ہے؛ اور رب کی مراد ہے۔ یہی حکم بندے کی جملہ صفات کا ہے کہ وہ بندے کی صفات توہیں لیکن رب کی مفعول اور اس کی مخلوق ہیں ۔محض اس کی صفات نہیں ۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رب تعالیٰ نے بے شمار حوادث کو اپنی طرف اور اپنی بعض مخلوقات کی طرف منسوب کیا ہے۔ یا تو اس کی عین یا نظیر کو منسوب کرتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے:

﴿اللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضَی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرَی اِِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی﴾ (الزمر: ۳۲)

’’اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں ، پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو ایک مقرر وقت تک بھیج دیتا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ﴾ (الانعام: ۶۰)

’’اور وہی ہے جو تمھیں رات کو قبض کر لیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم نے دن میں کمایا۔‘‘

اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہے:

﴿قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ﴾ (السجدۃ: ۱۱)

’’کہہ دے تمھیں موت کا فرشتہ قبض کرے گا، جو تم پر مقرر کیا گیا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَ ہُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَo﴾ (الانعام: ۶۱)

’’اسے ہمارے بھیجے ہوئے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘

اسی طرح ہوا کے بارے میں ارشاد ہے:

﴿تُدَمِّرُ کُلَّ شَیْئٍ بِاَمْرِ رَبِّہَا﴾ (الاحقاف: ۲۵)

’’جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ دَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُہٗ وَ مَا کَانُوْا یَعْرِشُوْنَo﴾ (الاعراف: ۱۳۷)

’’اور ہم نے برباد کر دیا جو کچھ فرعون اور اس کے لوگ بناتے تھے اور جو عمارتیں وہ بلند کرتے تھے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ﴾ (الاسراء: ۹)

’’بلاشبہ یہ قرآن اس (راستے) کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿یَہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ﴾ (المائدۃ: ۱۶)

’’ اس سے اللہ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیچھے چلیں ، سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ القصص بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰن﴾ (یوسف: ۳)

’’ہم تجھے بہترین بیان سناتے ہیں ، اس واسطے سے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن وحی کیا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اَکْثَرَ الَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَo﴾ (النمل ۲۷)

’’بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ یَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآئِ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْہِنَّ وَ مَایُتْلٰی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ﴾ (النساء: ۱۲۷)

’’اور وہ تجھ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ، کہہ دے اللہ تمھیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے اور جو کچھ تم پر کتاب میں پڑھا جاتا ہے۔‘‘

یعنی جو کتاب میں تمھیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ تمھیں عورتوں کے بارے میں بتلاتا ہے۔اور فرمایا:

﴿فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَم نْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَہِیْجٍ﴾(الحج: ۵)

’’پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے اور ہر خوبصورت قسم میں سے اگاتی ہے۔‘‘

رب تعالیٰ نے یہاں اگنے کی نسبت زمین کی طرف کی ہے۔

اور فرمایا:

﴿وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ وَ اَ نْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ مَّوْزُوْنٍo﴾ (الحجر: ۱۹)

’’اور زمین، ہم نے اسے پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ رکھے اور اس میں ہر نپی تلی چیز اگائی۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّ مِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَo یُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ النَّخِیْلَ وَ الْاَعْنَابَ وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ﴾ (النحل:۱۱)

’’وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا، تمھارے لیے اسی سے پینا ہے اور اسی سے پودے ہیں جن میں تم چراتے ہو۔ وہ تمھارے لیے اس کے ساتھ کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿حَتّٰٓی اِذَآ َخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَہْلُہَآ اَنَّہُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْہَآ لا اَتٰہَآ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْنَہَارًا﴾ (یونس: ۲۳)

’’حتی کہ جب زمین نے اپنی آرائش حاصل کرلی اور مزین ہوگئی اور اس کے باشندوں نے یقین کر لیا کہ بیشک وہ اس پر قادر ہیں تو رات یا دن کو اس پر ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اسے کٹی ہوئی کر دیا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا﴾ (الکہف: ۷)

’’بے شک ہم نے زمین پر جو کچھ ہے اس کے لیے زینت بنایا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿اِِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃٍ نِ الْکَوَاکِبِ﴾ (الصافات: ۶)

’’بے شک ہم نے ہی آسمان دنیا کو ایک انوکھی زینت کے ساتھ آراستہ کیا، جو ستارے ہیں ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا﴾ (الحدید: ۳)

’’وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ﴾ (النحل: ۲)

’’وہ فرشتوں کو وحی کے ساتھ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُo﴾ (الشعراء: ۱۹۳)

’’جسے امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ﴾ (الاسراء: ۱۰۵)

’’اور ہم نے اسے حق ہی کے ساتھ نازل کیا اور یہ حق ہی کے ساتھ نازل ہوا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَقَالُوْا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوْا اَنطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ اَنطَقَ کُلَّ شَیْئٍ

’’اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟وہ کہیں گے ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا اور اسی نے تمھیں پہلی بار پیداکیا۔‘‘(فصلت: ۲۱)

اور جناب سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:

﴿یٰٓاََیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (النمل: ۱۶)

’’اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہمیں ہرچیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَo﴾ (الذاریات: ۲۳)

’’سو آسمان و زمین کے رب کی قسم ہے !بلاشبہ یہ (بات) یقیناً حق ہے اس (بات) کی طرح کہ بلا شبہ تم بولتے ہو۔‘‘

سو وہ بولے اور انہیں اللہ نے بلوایا اور وہی ہر شے کو زبان دیتا ہے۔

سو جب باری تعالیٰ نے جمادات میں ایسے قویٰ رکھے ہیں جو فعل کترے ہیں اور اس نے اس فعل کو ان جمادات کی طرف منسوب کیا ہے اور یہ بات رب تعالیٰ کے خالق افعال ہونے کو مانع نہیں ، تو حیوان کے فعل کی اس کی طرف اضافت بدرجہ اولیٰ مانع نہ ہو گی۔ اگرچہ ان افعال کا خالق اللہ ہی ہے۔

ان قدریہ کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ رب تعالیٰ ان جمادات کے قویٰ اور حرکات کا خالق ہے۔ اللہ نے خبر دی ہے کہ زمین اگاتی ہے۔ بادل پانی لادے پھرتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًاo﴾ (الذاریات: ۲)

’’پھر ایک بڑے بوجھ (بادل ) کو اٹھانے والی ہیں ۔‘‘

اور ہوا بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری منتقل کرتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ﴾ (الاعراف: ۵۷)

’’اور وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے بھیجتا ہے، اس حال میں کہ خوش خبری دینے والی ہیں ، یہاں تک کہ جب وہ بھاری بادل اٹھاتی ہیں تو ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف ہانکتے ہیں ۔‘‘

اور بتلایا کہ یہ ہوا ہر شے کو تباہ بھی کرتی ہے اور بتلایا کہ پانی چڑھ آیا کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿اِِنَّا لَمَّا طَغٰی الْمَآئُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِo﴾ (الحاقۃ: ۱۱)

’’بلاشبہ ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کرگیا، تمھیں کشتی میں سوار کیا۔‘‘

بلکہ رب تعالیٰ نے ان چیزوں کی بابت ان سے بھی زیادہ بلیغ باتوں کی خبر دی ہے، وہ ان اشیاء کا تسبیح و سجدہ کرنا ہے: چنانچہ ارشاد ہے:

﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ القمر وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَ کَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ﴾ (الحج: ۱۸)

’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا۔‘‘

یہ تفصیل اس بات سے مانع ہے کہ اسے اس بات پر محمول کیا جائے کہ مراد ان کا مخلوق ہونا اور اپنے خالق پر دلالت کرنے والا ہونا ہے اور یہ کہ مراد ان کا زبانِ حال سے اس کی شہادت دینا ہے کہ یہ تو سب انسانوں میں عام ہے۔ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ وَ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَo﴾ (سبا: ۱۰)

’’اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح کو دہراؤ اور پرندے بھی اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کر دیا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿اِِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِِشْرَاقِo وَالطَّیْرَ مَحْشُورَۃً کُلٌّ لَہٗ اَوَّابٌo﴾ (صٓ: ۱۸۔۱۹)

’’بے شک ہم نے پہاڑوں کو اس کے ہمراہ مسخر کردیا، وہ دن کے پچھلے پہر اور سورج چڑھنے کے وقت تسبیحکرتے تھے۔ اور پرندوں کو بھی، جب کہ وہ اکٹھے کیے ہو تے، سب اس کے لیے رجوع کرنے والے تھے۔‘‘

رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ پہاڑ اور پرندے ان کے ساتھ رب کے آگے رجوع رہتے تھے اور اس نے انہیں تسبیح کرنے پر لگا دیا ہوا ہے اور فرمایا:

﴿اَلَمْ تَرَی اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صَافَّاتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیحَہٗ﴾ (الاسراء: ۳۳)

’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ، اس کی تسبیح کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے، ہر ایک نے یقیناً اپنی نماز اور اپنی تسبیح جان لی ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ لِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْہًا﴾ (الرعد: ۱۵)

’’اور آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے اللہ ہی کوسجدہ کر رہا ہے، خوشی اور ناخوشی سے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۷۳)

’’پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں ، یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں اور بے شک پتھروں میں سے کچھ یقیناً وہ ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بے شک ان سے کچھ یقیناً وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں ، پس ان سے پانی نکلتا ہے اور بے شک ان سے کچھ یقیناً وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں ۔‘‘

ان اشیاء کے سجود و تسبیح کرنے پر ایک دوسرے مقام میں مفصل کلام ذکر کیا جا چکا ہے۔

یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہ سب اشیاء بالاتفاق رب تعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ باوجودیکہ اس نے ان اشیاء کے لیے فعل کو پیدا کیا ہے جیسا کہ قرآن میں مذکور ہے۔ سو معلوم ہوا کہ یہ امر رب تعالیٰ کے خالق کل شیء ہونے میں مانع نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ تمھارا یہ قول کہ جب ہم اللہ کو فاعل ٹھہراتے ہیں تو اس فعل کا وجود واجب ہوا اور خلق فعل اس کے وجود کو مستلزم ہے۔ وغیرہ دیگر اقوال کہ یہ تو جبر کو مستلزم اور مقتضی ہیں اور وہ باطل قول ہے۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ جبر کتاب و سنت میں کہیں بھی وارد نہیں ۔ نا اس کی نفی ہے نااثبات۔ لفظ کی حرمت اس وقت ہوتی ہے جب وہ معصوم سے ثابت ہو اور وہ نصوص کے الفاظ ہیں ان کے معانی کی اتباع ہم پر واجب ہے۔ رہے نو ایجاد الفاظ جیسے جبر تو یہ جہت اور حیز وغیرہ نو ایجاد الفاظ جیسا ہے۔ اسی لیے اوزاعی ثوری اور احمد بن حنبل جیسے ائمہ اہل سنت سے یہ مروی ہے کہ اس لفظ کی نہ مطلق نفی کی جائے اور نہ مطلق اثبات کیا جائے۔ کیونکہ یہ لفظ مجمل ہے۔علماء اسلاف میں سے زبیدی نے اس کی مطلق نفی کی ہے۔ یہ لغت کے مشہور معنی کے اعتبار سے ہے کیونکہ جبر و اجبار کا لغوی اطلاق مجبور کے بلا ارادہ فعل پر ہوتا ہے جس میں ناگواری کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ جیسے باپ اپنی بیٹی کو نکاح پر مجبور کرے اور یہ معنی رب تعالیٰ کے حق میں منتفی ہے، کیونکہ وہ بندے کے فعل اختیاری کو اس کے اختیار کے بغیر پیدا نہیں کرتا۔ بلکہ اسی نے تو بندے کو مرید مختار بنایا ہے اور اس بات پر سوائے اللہ کے کسی کو قدرت نہیں ۔ اسی لیے اسلاف میں سے کسی کا قول ہے کہ اللہ جبر کرنے سے بلند و برتر ہے۔ دوسرے کو تو وہی مجبور کرتا ہے جس نے اسے مختار نہ بنایا ہو۔ اللہ نے بندے کو مختار بنایا ہے، اس لیے اسے جبر کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اسی لیے اوزاعی اور زبیدی وغیرہ کا قول ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس نے جبلت بنائی اور یہ نہیں کہتے کہ اس نے مجبور کیا۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اشج عبدالقیس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :

: تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو رب تعالیٰ پسند فرماتے ہیں ۔ ایک بردباری اور دوسرے وقار۔ اس نے عرض کیا کہ: کیا ان دونوں خصلتوں کو میں نے اپنایا ہے یا میں ان پر پیدا کیا گیا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں تمہاری اس پر جبلت ہے۔ تو اس نے عرض کیا: سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے ایسی خصلتوں پر پیدا کیا ہو اسے محبوب ہیں ۔‘‘[صحیح مسلم: ۱؍ ۴۸ ۔ ۴۹۔ کتاب الایمان، باب الامر بالایمان باللّٰہ تعالی۔]

سو لفظ جبر سے نفس وہ فعل مراد ہو گا جو وہ چاہے اگرچہ اس نے بندے کا اختیار بھی پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ محمد بن کعب قرظی کا قول ہے کہ جبار وہ ہے جو بندے کو اس پر مجبور کرے جو اس نے ارادہ کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ماثور ایک دعا کے یہ الفاظ ہیں :

’’اے اللہ! اے پھیلی چیزوں کو پھیلانے والے، اے بلند چیزوں کو بلند کرنے والے! دلوں کو اپنی فطرت پر سعادت والی یا شقاوت والی فطرت پر مجبور کرنے والے!‘‘

اگر تو جبر سے یہ مراد ہو تو یہ حق ہے اور اگر پہلا معنی مراد ہو تو وہ باطل ہے۔ لیکن مطلق طور پر بولتے وقت پہلا معنی مفہوم ہوتا ہے۔ جبکہ یہ اطلاق جائز نہیں ہے۔

جب سائل یہ کہے کہ میں نے جبر سے اس کا دوسرا معنی مراد لیا ہے؛ یعنی رب تعالیٰ کا بندے کو نفس فاعل قادر بنانا یہ جبر کو مستلزم ہے، اور داعی اور قدرت کا نفس ہونا یہ فعل کے وجود کو مستلزم ہے کہ یہ جبر ہے۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معنی حق ہے جس کے ابطال کی کوئی دلیل نہیں اور ابو الحسین بصری جیسے سمجھ دار معتزلہ اس معنی کو تسلیم کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ نفس داعی اور قدرت کے وجود کے ساتھ فعل کا وجود واجب ہے۔اس کتاب والے نے یہی طریق اختیار کیا ہے، اسے جبر کی اس تفسیر سے انکار ممکن نہیں ۔ اسی لیے ان امور میں ابو الحسین کی طرف تناقض کو منسوب کیا گیا ہے۔ کیونکہ جب وہ دوسرے سمجھ دار معتزلہ اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ داعی اور قدرت کے ساتھ فعل کاوجود واجب ہے اور مانتے ہیں کہ داعی اور قدرت کا خالق اللہ ہے تو لازم آیا کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہو۔

ان ماہرین علمائے معتزلہ نے ان دو نوں مقدمات کو تو تسلیم کیاہے؛ لیکن اس کا نتیجہ ماننے سے انکاری ہیں ؛اور طوسی جسے یہ امامی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اس نے ’’تلخیص المحصل‘‘ میں رازی کی دلیل کو ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’مرجح تام کے وجود کے وقت فعل کا وجود واجب ہے اور اس کے عدم کے وقت ممتنع ہے۔ تو معتزلہ کا قول بالکلیہ باطل ہو گیا۔ یعنی جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ جواز کے طور پر فعل کترا ہے جیسا کہ ان کا مشہور مذہب یہی ہے تو طوسی اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے: یہ بات بارہا ذکر کی جا چکی ہے کہ مختار ممکن کی دو طرفوں میں بسے ایک کو دوسری پر ترجیح دے سکتا ہے۔ بلا مرجح کے۔ یہاں یہ حکم محال ہے۔پھر موثر کی احتیاج اور اثر کے حصول کے عدم کے امتناع کی تقدیر پر کہتا ہے: معتزلہ کا قول بالکلیہ باطل ہو گیا۔‘‘

وہ کہتا ہے: یہ اعتراض وارد نہیں ۔ کیونکہ وہ لکھتا ہے کہ ابو الحسین معتزلہ میں سے ہے؛ اور ایک دوسری جگہ پر ذکر کیا ہے کہ معتزلہ میں سے ایک آدمی کا یہ عقیدہ ہے۔اور یہاں یہ کہتا ہے کہ وہ اس طرف گیا ہے کہ قدرت اور ارادہ مقدور کے وجود کو واجب کرتے ہیں تو پھر ان کا قول بالکلیہ کیونکر باطل ٹھہرا؟

اس کا بیان یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں : اختیار کا معنی صرف قدرت کی نسبت کے اعتبار سے دونوں اطراف کی برابری ہے اور ارادہ کے اعتبار سے دونوں میں سے کسی ایک کے وقوع کا وجوب ہے۔ پس جب مرجح تام پایا جائے گا اور یہ ارادہ ہے تو فعل واجب ہو گا اور جب وہ حاصل نہ ہو گا تو فعل ممتنع ہو گا اور یہ صرف قدرت پر قیاس کرتے ہوئے طرفین کے استواء کے منافی نہیں ۔ تب پھر وہ لزوم جو اس نے ذکر کیا ہے، وہ ان کے قول کے ابطال میں قطعی نہیں ۔

میں کہتا ہوں : وہ قول جس کے بطلان کو رازی نے قطعی کہا ہے، وہ ان کا مشہور قول ہے۔ وہ یہ کہ فعل داعی پر موقوف نہیں بلکہ قادر دو میں سے ایک طرف کو دوسری پر بلامرجح کے راجح کرتا ہے۔ پھر اس کا داعی فعل کو حادث کرتا ہے جیسے ارادہ اور یہ صرف اس کے قادر ہونے کے ذریعے ہے۔ جبکہ اس کے وجود اور عدم کی طرف نسبت کے اعتبار سے قدرت کی برابر ساتھ ہو۔اب کبھی تو داعی کی تفسیر علم، یا اعتقاد یا ظن سے کر دی جاتی ہے اور کبھی ارادہ سے اور کبھی ان سب سے، اور کبھی اس سے جس پر مراد مشتمل ہو، جو اس کے ارادہ کو مقتضی ہو۔

رازی کہتے ہیں : ابو الحسین کے قول میں تناقض ہے۔ کیونکہ رازی نے اقوال میں ان لوگوں کا قول بھی نقل کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ فعل داعی پر موقوف ہے۔ لہٰذا جب قدرت حاصل ہو گئی اور اس کے ساتھ داعی بھی مل گیا تو دونوں مل کر فعل کے وجود کی علت بن گئے۔

رازی کہتے ہیں : یہ جمہور فلاسفہ کا قول ہے اور ابو الحسین بصری اوردیگر معتزلہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اگرچہ ابوالحسین ایک غالی معتزلیہ ہے حتیٰ کہ اس نے اس بات تک کا دعویٰ کر دیا ہے کہ اس بات کا علم ضروری ہے کہ بندہ اپنے افعال کا موجد ہے البتہ پھر بھی اس کا یہ مذہب تھا کہ فعل داعی پر موقوف ہے۔ تو جب استواء کے وقت فعل کا وقوع ممتنع ہواتو مرجوحیت کے حال میں بدرجہ اولیٰ ممتنع ہو گا۔ تو جب مرجوح ممتنع ہوا تو راجح واجب ہوا۔ کیونکہ نقیضین سے خروج نہیں ہوتا اور یہ بعینہٖ جبر کا قول ہے۔ کیونکہ مرجح کے حصول کے وقت فعل کا وجود واجب ہے اور مرجح کے عدم کے وقت اس کا وجود ممتنع ہے۔ سو ثابت ہوا کہ جبر کے معاملہ میں ابو الحسین زبردست غالی معتزلی ہے۔ گو کہ بظاہر وہ خود کو عظیم غالی معتزلی ہے (نہ کہ جبری)۔

میں کہتا ہوں کہ یہ جمہور اہل سنت اور ان کے ائمہ کا قول ہے اور اس کے قریب قریب ابوالمعالی جوینی اور قاضی ابوخازم بن قاضی ابویعلی کا اور کرامیہ کا قول ہے اور یہ اس قول کی حقیقت ہے کہ اللہ بندے کے فعل کا خالق ہے اور اسباب کو ثابت کرنے والے جمہور اہل سنت کا بھی یہی قول ہے، جو کہتے ہیں کہ بندے کی قدرت کو فعل میں تاثیر ہے اور جو اس تاثیر کو نہیں مانتا جیسے اشعری تو جب وہ وجوب کی تفسیر وجوبِ عادی سے کترا ہے تو یہ ممتنع نہیں اور جب اس کی تفسیر وجوب عقلی سے کرتا ہے تو ممتنع ہوا۔

رہا لفظ جبر تو اس میں نزاع لفظی ہے جیسا کہ گزرا اور اس کا ظاہری لغوی معنی یہ نہیں ۔ اسی لیے اسلاف نے اس کے اطلاق پر انکار کیا ہے۔ پس جب قدریہ کہتے ہیں کہ یہ بندے کے مختار ہونے کے منافی ہے۔ کیونکہ مختار کا معنی تب ہی ہے جب وہ فعل اور ترک دونوں پر قادر ہو اور جب چاہے یہ کر لے اور جب چاہے وہ کر لے۔

ان کو یہ جواب دیا جائے گا کہ یہ مسلّم ہے، لیکن یہ کہا جائے گا کہ بندہ یا تو فعل اور ترک پر علی سبیل البدل قادر ہے یا علی سبیل الجمع؟ دوسرا قول باطل ہے، کیونکہ فاعل ہونے کی حالت میں وہ تارک نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ فعل اور ترک دونوں ضدین ہیں ، ان کا اجتماع ممتنع ہے اور قدرت ممتنع پر نہیں وہا کرتی۔

پس معلوم ہوا کہ ہمارا قول کہ وہ فعل اور ترک پر قادر ہے اس کا یہ معنی ہے کہ وہ عدمِ ترک کے حال میں فعل پر اور عدمِ فعل کے حال میں ترک پر قادر ہے۔ اسی طرح یہ قولِ قائل ہے کہ قادر چاہے تو فعل کرے اور چاہے تو نہ کرے کہ یہ قول علی سبیل البدل پر محمول ہے کہ بندہ فعل اور ترک دونوں پر بیک وقت قادر نہیں ہو سکتا۔ بلکہ فعل کی مشیئت کے حال میں ترک کا مرید اور ترک کی مشیئت کے حال میں فعل کا مرید نہیں ہو سکتا۔

جب یہ بات ہے تو وہ قادر جو چاہے تو فعل کرے اور چاہے تو ترک کرے کہ جب وہ فعل کو چاہتا ہے اور قدرتِ تامہ بھی ہوتی ہے تو اس حال میں فعل کا وجود واجب ہوتا ہے اور فعل کے وجود کے حال میں اس کا ترک کا مرید ہونا ممتنع ہے اور وہ فعل کے ساتھ ترک کے وجود پر قادر ہے۔ بلکہ اس کی فعل پر قدرت بایں معنی ہے کہ وہ فعل کے بعد اس کا تارک ہو گا۔ لہٰذا وہ فعل کے وجود کے دوسرے زمانہ میں ترک پر قادر ہو گا نہ کہ فعل کے وجود کے حال میں ۔

جب قائل یہ کہتا ہے کہ یہ اس بات کو مقتضی ہے کہ فعل واجب ہو نہ کہ ممکن۔ سو اگر تو اس کی مراد یہ ہے کہ وہ فعل فی نفسہ ممکن ہونے کے بعد غیر کے ذریے واجب ہوا تو یہ بات برحق ہے۔ جیسا کہ وہ عدم کے بعد وجود میں آیا اور اس کا وجود کے حال میں معدوم ہونا ممتنع ہے۔سو اللہ نے جو بھی پیدا کیا ہے، وہ اسی طرح پر ہے کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا اور رب تعالیٰ کی مشیئت و قدرت سے اس کا وجود واجب ہوا اور جو اس نے نہ چاہا وہ نہ ہوا اور رب تعالیٰ کی عدمِ مشیئت کی وجہ سے اس کا وجود ممتنع ہوا۔ ساتھ یہ کہ اس نے جو چاہا، وہ اس کی مخلوق، محدث اور مفعول ہے اور اس کے پیدا کرنے سے پہلے اس کا وجود اور عدم دونوں ممکن تھے۔ لیکن جب وہ اللہ کی قدرت و مشئیت سے موجود ہو گیا تو اب اس کا معدوم ہونا ممتنع ٹھہرا۔ البتہ موجود ہونے کے بعد اس کا معدوم ہونا ممکن ہے۔ ایسی کوئی شے نہیں کہ ایک ہی وقت میں اس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں ۔ بلکہ عدم کے بدلے وجود اور وجود کے بدلے عدم ممکن ہے۔ سو جب وہ موجود ہے تو اس کا وجود جب تک وہ موجود ہے واجب بغیرہ ہے۔

جب اسے بایں معنی ممکن کہا گیا کہ یہ مخلوق، محدث اور مفعول ہے تو یہ صحیح ہے۔ نہ کہ یہ معنی ہو کہ اس کے وجود کے وقت اس کا عدم اس کے وجود کے ہوتے ہوئے ممکن ہے۔ کیونکہ جب یہ مراد لیا جائے گا کہ وجود کے وقت اس کاعدم وجود کے ہوتے ہوئے ممکن ہے تو یہ قول باطل ہے کہ یہ نقیضین کو جمع کرنا ہے۔

اگر اس کی مراد یہ ہے کہ اس کا عدم اس وجود کے بعد ممکن ہے تو یہ صحیح ہے لیکن یہ اس بات کا مناقض نہیں ہے کہ اس کے وجود کا وجوب بغیرہ اس وقت تک ہے جب تک وہ موجود ہے اور یہ قادر کے ذریعے موجود ہے ناکہ بنفسہٖ موجود ہے اور وہ اس حال میں بایں معنی ممکن ہے کہ وہ محدث، مخلوق اور رب کا محتاج ہے۔ نہ کہ بایں معنی کہ اس کا وجود کے حال میں معدوم ہونا ممکن ہے۔سو جس نے یہ بات سمجھ لی اس پر سے بے شمار وہ اشکال ات کافور ہو جائیں گے جو لوگوں کو قدر کے باب میں پیش آتے ہیں ۔ بلکہ رب تعالیٰ کے قادر مختار ہونے میں بھی اشکال ات جاتے رہیں گے کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔

اسی لیے اشعری وغیرہ نے رب تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت ادر علی الاختراع ہونے کی بیان کی ہے پھر یہ کہ قائل کا قول کہ قادر وہ ہے کہ جو جب چاہے فعل کرے اور جب چاہے ترک کرے، اس معنی میں ہے کہ فعل اور ترک سے قبل دوسرے زمانے میں اگر اس نے اس میں فعل کے وجود کو چاہا یا اس کے ترک کو چاہا تو اس کو دونوں میں اختیار ہو گا۔ تب پھر فعل کے وجوب کے حال میں فعل واجب ہو گا اور تخییر کے زمانے میں کہ جب فعل اور ترک دونوں میں تخییر ہو، واجب نہ ہو گا، اور فعل کے وجوب کے وقت وہ مخیر نہ ہو گا۔

جی ہاں ! کبھی فعل کے حال میں وہ فعل کے بعد ترک کو چاہنے والا ہوتا ہے اور یہ دوسرا ترک ہے اور یہ فعل کے وجود کے حال میں اس کا ترک نہیں ۔ سو قادر کبھی بھی دو چیزوں کے درمیان ان میں سے ایک کے وجود کے حال میں مخیر نہیں ہوتا۔ مگر دوسرے زمانے میں تخییر کے معنی میں ۔ وگرنہ دونوں میں سے ایک کے وجود کے حال میں وہ عدم اور وجود کے درمیان مخیر نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب تک ایک فاعل فاعل ہے، وہ تارک نہیں ہے اور نہ اسے ترک پر مقدور ہے، کیونکہ ممتنع مقدور نہیں ہوا کرتا اور ضدین پر قدرت یہ دونوں پر علی سبیل البدل ہو گی نہ کہ دونوں کے جمع پر اور یہ اس کہنے کی طرح ہے وہ کپڑے کو سفید اور سیاہ کرنے پر اور مشرق اور مغرب میں سفر کرنے پر، دائیں بائیں جانے پر اور دونوں بہنوں کو بیک وقت نکاح میں لانے پر قادر ہے، جو کہ ممتنع ہے۔