فصل:....افعالِ اختیاریہ پر دلالت ِنقل کی بابت رافضی کا کلام اور اس کا ردّ
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....افعالِ اختیاریہ پر دلالت ِنقل کی بابت رافضی کا کلام اور اس کا ردّ
[قرآن کریم اور انسانی افعال کا انتساب ]:
[شبہ ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’قرآن کریم میں اکثر افعال انسانی کو بنی نوع انسان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَاِِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفَّی﴾ (النجم: ۳۷)
’’اور ابراہیم کے (صحیفوں میں ) جس نے (عہد) پورا کیا۔ ‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ (مریم: ۳۷)
’’تو ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا، بڑی ہلاکت ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ (الانعام: ۱۶۳)
’’اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ اٹھائے گی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اُدْخُلُوا الجنۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (النحل:۳۲)
’’جنت میں داخل ہو جاؤ ؛ بسبب ان نیک اعمال کے جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَلْیَوْمَ تُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ ﴾ (غافر: ۱۷)
’’آج ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo﴾ (الجاثیۃ: ۲۸)
’’آج تمھیں اس کا بدلہ دیا جائے گا جوتم کیا کرتے تھے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا وَ مَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا ﴾(الانعام ۱۶۰)
’’جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہوں گی اور جو برائی لے کر آئے گا سو اسےجزا نہیں دی جائے گی، مگر اسی کی مثل۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لِیُوَفِّیَہُمْ اُجُوْرَہُمْ﴾ (فاطر:۳۰)
’’تاکہ وہ انھیں ان کے اجر پور ے پورے دے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ ﴾ (البقرۃ: ۲۸۶)
’’اسی کے لیے ہے جو اس نے (نیکی) کمائی اور اسی پر ہے جو اس نے (گناہ) کمایا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَبِطُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ﴾ (النساء: ۱۶۰)
’’ان کے بڑے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ان پر کئی پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿کُلُّ امْرِیٍٔ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ﴾ (الطور: ۲۱)
’’ہر آدمی اس کے عوض جو اس نے کمایا گروی رکھا ہوا ہے۔۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَائَ فَعَلَیْہَا﴾ (فصلت: ۳۶)
’’جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہو گی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰکَ﴾ (الحج: ۱۰)
’’یہ اس کی وجہ سے ہے جو تیرے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ﴾ (الشوری: ۳۰)
’’اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]: رافضی کے اس کلام کے کئی جوابات ہیں :
اوّل:....یہ کہا جائے کہ یہ سب حق ہے اور جمہور اہل سنت اس کے قائل ہیں کہ بندہ اپنے فعل کا حقیقی فاعل ہے نہ کہ مجازی۔ اس میں متکلمین اہل اثبات کی ایک جماعت نے اختلاف کیا ہے، جیسے اشعری اور اس کے پیروکار۔
دوم:....یہ کہ قرآن اس بات سے معمور ہے کہ اس میں انسانی افعال کی نسبت بنی نوع آدم کی طرف کی گئیہے،اور بندوں کے افعال رب تعالیٰ کی قدرت، مشیئت اور خلق سے ہی وجود میں آتے ہیں اور قرآن کی ہر بات پر ایمان لانا واجب ہے۔ یہ جائز نہیں کہ بعض پر تو ایمان لائیں اور بعض کا انکار کر دیں ۔ فرمان ربانی ہے:
﴿ وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُo﴾ (البقرۃ: ۲۵۳)
’’اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے اور لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵)
’’تو جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَo﴾ (الانعام: ۱۱۲)
’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ پس چھوڑ انھیں اور جو وہ جھوٹ گھڑتے ہیں ۔۔‘‘
اوراللہتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَیْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًاo اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ﴾ (الکہف: ۲۳۔۲۳)
’’اور کسی چیز کے بارے میں ہرگز نہ کہہ کہ میں یہ کام کل ضرور کرنے والا ہوں ۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘
علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی نے یوں قسم اٹھائی کہ میں ان شاء اللہ کل ظہر کی نماز پڑھوں گا، یا اپنے ذمے قرض ادا کروں گا، یا حق والوں کو ان کا حق دوں گا، یا یہ امانت لوٹاؤں گا، وغیرہ وغیرہ پھر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ اپنی قسم میں حانث نہ ہو گا اور اگر مشیئت بمعنی امر کے ہو تو حانث ہو جائے گا۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے:
﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا﴾(البقرۃ: ۱۲۸)
’’اے ہمارے رب! اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے دکھا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَہْدیْ بِہٖ کَثِیْرًا﴾ (البقرۃ: ۲۶)
’’وہ اس کے ساتھ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور اس کے ساتھ بہتوں کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ﴾ (الانفال: ۲۳)
’’اور جان لو کہ بے شک اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلًا فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَo وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُوْنَo﴾ (یس: ۸۔۹)
’’بے شک ہم نے ان کی گردنوں میں کئی طوق ڈال دیے ہیں ، پس وہ ٹھوڑیوں تک ہیں ، سو ان کے سر اوپر کو اٹھا دیے ہوئے ہیں ۔ اور ہم نے ان کے آگے سے ایک دیوار کر دی اور ان کے پیچھے سے ایک دیوار، پھر ہم نے انھیں ڈھانپ دیا تو وہ نہیں دیکھتے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّاo وَّ بَرًّ ا بِوَالِدَتِیْ وَ لَمْ یَجْعَلْنِِیْ جَبَّارًا شَقِیًّاo﴾ (مریم: ۳۱۔۳۲)
’’اور مجھے بابرکت بنایا جہاں بھی میں ہوں اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی، جب تک میں زندہ رہوں ۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے سرکش، بدبخت نہیں بنایا۔۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا﴾ (الانبیاء: ۷۳)
’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے۔‘‘
اور بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد فرمایا:
﴿وَ جَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدۃ: ۲۳)
’’اور ہم نے ان میں سے کئی پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین کیا کرتے تھے۔ ۔‘‘
اور آل فرعون کے بارے میں فرمایا:
﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ لَا یُنْصَرُوْنَ﴾ (القصص: ۳۱)
’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے تھے اور قیامت کے دن ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘
اور ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآئِ﴾ (ابراہیم: ۳۰)
’’اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب! اور میری دعاقبول کر۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ﴾ (ابراہیم: ۳۷)
’’اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں ، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں ۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَاٰیَۃٌ لَہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِo وَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُوْنَ﴾ (یس: ۳۱۔۳۲)
’’اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بے شک ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ اور ہم نے ان کے لیے اس جیسی کئی اور چیزیں بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں ۔‘‘
اب کشتی بنی آدم کی مصنوعات میں سے ہے اور یہ رب تعالیٰ کے اس قول کی مثل ہے:
﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات: ۹۶)
’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو ۔‘‘
مثبّتین قدر کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہاں ’’ما‘‘ مصدریہ ہے اور مراد یہ ہے کہ اس نے تمھیں اور تمھارے اعمال کو پیدا کیا ہے۔ یہ بے حد ضعیف تفسیر ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہاں ’’ما‘‘ الذی کے معنی میں ہے اور مراد یہ ہے کہ اللہ نے تمھیں اور ان بتوں کو پیدا کیا جن کو تم بناتے ہو۔ جیسا کہ حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’رب تعالیٰ نے ہر صانع کو اور اس کی صنعت کو پیدا کیا ہے۔‘‘[صحیح الجامع الصغیر للالبانی: ۱۱۶، عن حذیفۃ رضی اللّٰہ عنہ ۔]
اور رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَo وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات: ۹۶)
’’تم اس کی عبادت کرتے ہو جسے خود تراشتے ہو؟ حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا تمہارے عمل کو ۔ ‘‘
رب تعالیٰ نے ان تراشے ہوئے بتوں کی عبادت کرنے پر ان کی مذمت اور ان پر انکار کیا ہے۔ پھر یہ بیان فرمایا کہ رب تعالیٰ اس عابد کا، اس معبود اور اس تراشے ہوئے بت کا خالق ہے اور عبادت کا مستحق وہی اللہ ہے۔
اگر یہ مراد لیا جائے کہ اس نے تمھیں اور تمھارے جملہ افعال کو پیدا کیا ہے تو یہ مناسب نہ ہو گا کیونکہ اس نے ان کیعبادت اقسام کی مذمت بیان کی ہے جو ان کا عمل ہے۔ لہٰذا خالق افعال و اعمال کے بتلانے میں قابل مذمت باتوں کا ذکر مناسب نہیں ۔ بلکہ یہ عذر کے زیادہ قریب ہے۔
البتہ یہ آیت بتلاتی ہے کہ وہ ایک اور اعتبار سے بندوں کے افعال کا خالق ہے اور وہ یہ کہ جب اس نے اس معمول کو پیدا کیا جو بندے کرتے ہیں اور وہ تراشا ہوا بت ہے تو اس نے اس تالیف کو پیدا کیا جو اس کے ساتھ قائم ہے اور یہ ابن آدم کے عمل کا مسبب ہے اور خالق مسبب بطریقہ اولیٰ خالق سبب ہے۔
سو یہ اس ارشاد باری جیسا ہو گیا:
﴿وَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُوْنَ﴾ (یسٓ: ۳۲)
’’اور ہم نے ان کے لیے اس جیسی کئی اور چیزیں بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں ۔۔‘‘
یہ بات معلوم ہے کہ کشتیوں کی لکڑیاں تیرتی ہیں اور بنی آدم ان پر سوار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا کشتی بنی آدم کا معمول ہے جیسا کہ بت بنی آدم کا معمول ہے۔ یہی حکم بندے کی جملہ مصنوعات کا ہے جیسے کپڑے، کھانے اور عمارتیں وغیرہ۔ سو جب اللہ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ اس نے بھری کشتی کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنی نشانی ٹھہرایا ہے اور اسے اپنے بندوں پر اپنا انعام بنایا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ بندوں کے افعال کا خالق ہے۔
اب قدریہ کے قول کے مطابق اللہ نے صرف لکڑی کو پیدا کیا ہے جو کشتی وغیرہ بن سکتی ہے اور یہ معلوم ہے کہ صرف مادہ کا پیدا کرنا بنی آدم کی افعال سے حاصل ہونے والی صورت کے پیدا کرنے کو واجب نہیں کرتا گو کہ بنی آدم اس صورت کا خالق نہیں ۔اسی جیسی یہ آیت بھی ہے:
﴿وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ بُیُوْتِکُمْ سَکَنًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الانعام بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَہَا یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَ یَوْمَ اِقَامَتِکُمْ﴾ (النحل: ۸۰)
’’اور اللہ نے تمھارے لیے تمھارے گھروں سے رہنے کی جگہ بنا دی اور تمھارے لیے چوپاؤں کی کھالوں سے ایسے گھر بنائے جنھیں تم اپنے کوچ کے دن اور اپنے قیام کے دن ہلکا پھلکا پاتے ہو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَکْنَانًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ﴾ (النحل: ۸۱)
’’اور اللہ نے تمھارے لیے اپنی پیدا کردہ چیزوں سے سائے بنا دیے اور تمھارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہیں بنائیں اور تمھارے لیے کچھ قمیصیں بنائیں جو تمھیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ قمیصیں جو تمھیں تمھاری لڑائی میں بچاتی ہیں ۔ اسی طرح وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے، تاکہ تم فرماں بردار بن جاؤ۔‘‘یہ بات معلوم ہے کہ بنائے ہوئے گھر اور کپڑے یہ بنائی ہوئی کشتیوں کی طرح ہیں ۔ رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ یہ کشتیاں بندوں کی صنعت ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا ہے کہ ان کا خالق اللہ ہے۔ جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
﴿وَ یَصْنَعُ الْفُلْکَ﴾ (ہود: ۳۸)
’’اور وہ کشتی بناتے تھے۔‘‘
غرض قرآن میں اس کا طویل بیان ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے:
﴿فَرِیْقًا ہَدٰی وَ فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْہِمُ الضَّلٰلَۃُ﴾ (الاعراف: ۳۰)
’’ایک گروہ کو اس نے ہدایت دی اور ایک گروہ، ان پر گمراہی ثابت ہو چکی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہِ﴾ (البقرۃ: ۲۱۳)
’’پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انھیں اپنے حکم سے حق میں سے اس بات کی ہدایت دی جس میں انھوں نے اختلاف کیا تھا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَلَکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الرَّاشِدُوْنَ﴾ (الحجرات: ۷)
’’اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔‘‘
یہ بات معلوم ہے کہ یہاں ہدایت سے وہ ہدایت مراد نہیں جو کافر اور مسلمان کے درمیان مشترک ہے جیسے رسولوں کا بھیجنا، فعل کی تمکین اور بیماریوں کا دُور کرنا وغیرہ۔ بلکہ مراد وہ ہدایت ہے جو مومن کے ساتھ خاص ہے۔ جیسا کہ اس ارشاد میں ذکر ہے:
﴿وَ اجْتَبَبْنٰہُمْ وَ ہَدَیْنٰہُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo﴾ (الانعام: ۸۷)
’’اور ہم نے انھیں چنا اور انھیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَآتَیْنَاہُمَا الْکِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَo وَہَدَیْنَاہُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo﴾ (الصافات: ۱۱۷۔۱۱۸)
’’اور ہم نے ان دونوں کو واضح کتاب دی ۔ اور ہم نے ان دونوں کو سیدھے راستے پر چلایا ۔ ‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْo غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo﴾ (الفاتحۃ: ۶۔۷)
’’ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں ۔‘‘
کیونکہ ہدایت مشترکہ مانگنے کی بھی احتیاج نہیں ۔ مانگی تو وہ ہدایت جاتی ہے جو مہتدین کیساتھ خاص ہے اور جس نے اس کی تاویل زیادتِ ہدایت اور تثبیت سے کی ہے اور اسے جزا کہا ہے، اس کے قول میں تناقض ہے۔
کیونکہ کہا جاتا ہے: یہ مطلوب اگر بندے کے اختیار سے حاصل نہ ہو تو اس پر ثواب مرتب نہیں ہوتا کیونکہ ثواب تو اسی فعل پر ملتا ہے جو اختیار سے کیا ہو اور اگر وہ اس کے اختیار سے ہے تو ثابت ہو گیا کہ اللہ نے اس فعل کو حادث کیا ہے جسے بندے نے اپنے اختیار سے کیا ہے۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے۔
اسی طرح رب تعالیٰ نے قرآن میں اضلال اور ہدایت کا جو ذکر کیا ہے، یہ لوگ اس کی تاویل ماتقدم کی جزا سے کرتے ہیں ۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ان لوگوں کی عام تاویلات اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہیں ہیں ۔ حالانکہ یہ جزا فعل پر فاعل کو دی جاتی ہے اور اگر وہ اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ اللہ بندے کو اس فعل اختیار پر جزا دیتا ہے جو اس نے بندے پر انعام کیا ہے تو پھر یہ بھی جائز ہو کہ وہ بندے کو اس کے طاعت کو اختیار کرنے ابتدا سے ہی انعام دے اور اگر ان کے نزدیک بندے کو اس کے فاعل بنائے جانے پر ثواب و عقاب جائز نہیں ہے۔ تو ہدایت و ضلالت پر ثواب و عقاب کو مراد لینا باطل ٹھہرے گا اور رب تعالیٰ نے جو ان باتوں کی خبر دی ہے کہ ان کی گردنوں میں طوق ڈالے جائیں گے اور ان کے آگے پیچھے آگ کی دیواریں کھڑی کر دی جائیں گی کہ یہ سب ممتنع ہو۔ حالانکہ اللہ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:
﴿اِنْ تَحْرِصْ عَلٰی ہُدٰیہُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ﴾ (النحل: ۳۷)
’’اگر تو ان کی ہدایت کی حرص کرے تو بے شک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کر دے۔‘‘
اللہ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ جسے وہ گمراہ کر دے وہ ہدایت نہیں پایا کرتا۔
غرض قرآن کریم میں ایسی متعدد آیات ہیں جو اس مضمون پر مشتمل ہیں کہ اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے اور وہی دلوں کو بدلتا ہے، جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے، وہی ہدایت والے پر ہدایت کا انعام کرتا ہے۔ غرض یہ بڑی طویل بحث ہے جس کا استقصاء اس مقام پر مشکل ہے۔
اسی طرح قرآن میں یہ مضمون بھی ہے کہ رب تعالیٰ کی صفت خلق عام ہے۔ ارشاد ہے:
﴿اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الرعد: ۱۶)
’’اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
یہ آیات بتاتی ہیں کہ وہ فعال لما یرید ہے اور یہ کہ اگر وہ چاہے تو سب کو ہدایت دے دے۔اس طرح کی دیگرآیات بھی ہیں جن کا بیان کرنا طوالت اختیار کر جائے گا
جب یہ کہا جاتا ہے کہ:’’ یہ آیات قدریہ کے نزدیک متاول ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ آیات متشابہ ہیں ۔‘‘
تو اس کا جواب دو طرح سے ہے:
اوّل:....یہ کہ یہ تاویلاتِ جبریہ کے مقابلہ ہے جن کو انھوں نے دلیل بنایا ہے اور متشابہ کہہ کر یہ لوگ صرف نص کو ذکر کرتے ہیں اور ہم نے طرفین کی نصوص ذکر کی ہیں ۔
دوم :....یہ کہ ہم ان کی ایک ایک تاویل کو فساد کو واضح کریں جیسا کہ دوسرے مقام پر کیا ہے اور یہ کہ ان کی تاویلات میں کلمات کو ان کی جگہ سے پھیرنا، لغت کی مخالفت، معانی کا تناقض، اسلافِ امت کے اجماع کی مخالفت ہے۔ جو بتلاتے ہیں کہ ان کی تاویلات باطل ہیں اور یہ کہ قرآن میں ایسا کوئی محکم نہیں جو اس کے مناقض ہو کہ یہ بھی کہنا پڑے کہ یہ محکم ہے اور یہ متشابہ، بلکہ قرآن تو ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے۔
ان بدعتیوں میں سے جس نے بھی اس باب کو کھولا ہے وہ ثابت قدم نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کا خصم بھی وہی کرتا ہے جو یہ کرتا ہے پھر اس کے ہاتھ میں معارضہ سے سلامت کوئی دلیل رہ نہیں جاتی۔ کیونکہ ان کی عام تاویلات کو اللہ اور اس کے رسول نے اپنے کلام میں مراد نہیں لیا۔