Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل دوم : امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت:

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل دوم 
 امامت ِ حضرت علی رضی اللہ عنہ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت

[اشکال]: شیعہ مصنف لکھتا ہے: چھٹی بات :’’ امامیہ نے جب دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لا تعداد اوصاف و کمالات سے بہرہ ور ہیں جن کے روایت کرنے والے موافق و مخالف سبھی قسم کے لوگ ہیں ۔ علاوہ ازیں جمہور علماء دیگر خلفاء پر مطاعن و اعتراضات کا ذکر کرتے ہیں مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کسی طرح کا بھی کوئی طعن ہر گز منقول نہیں ۔ نظر بریں امامیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا امام مقرر کردیا؛ اس لیے کہ موافق اور مخالف سبھی لوگ آپ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ۔اور باقی لوگوں کو انہوں نے چھوڑ دیا۔اس لیے کہ ان لوگوں کے بارے میں ایسی روایات منقول ہیں جن سے ان کی امامت میں طعن واقعہ ہوتا ہے۔اب ہم چند وہ دلائل ذکر کریں گے جو ان [اہل سنت ] کے ہاں صحیح ہیں ‘ اور انہوں نے ان دلائل کو اپنی معتمد کتابوں کے معتمد اقوال میں نقل کیا ہے۔ بروز قیامت اتمام حجت کے نقطہ خیال سے ہم یہ چند دلائل ذکر کرتے ہیں ۔

ان دلائل و براہین میں سے ایک وہ روایت بھی ہے جسے ابو الحسن اندلسی نے اپنی کتاب ’’الجمع بین الصحاح الستۃ‘‘ موطأ امام مالک ‘ بخاری ‘ مسلم ‘سنن ابی داؤد ‘ صحیح ترمذی ‘ اور سنن نسائی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ آیت کریمہ:﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ 

’’ بیشک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کردے اے اہل بیت ؛ اور تمہیں بالکل پاک کردے ۔‘‘ 

 ان کے گھر میں نازل ہوئی جب کہ میں دروازہ کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں ۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک تم خیر پر قائم ہو‘ بیشک تم ازواج النبی میں شمار ہوتی ہو۔‘‘ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’[اس وقت] گھر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ و حسن و حسین رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ آپ نے ان سب کو ایک چادر سے ڈھانپ لیا اور فرمایا:احادیث صحیح ہیں ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ اور نہ ہی ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی دیگر خصوصیت ثابت ہوتی ہے۔ بلکہ ان فضائل و مناقب میں دیگر خلفاء حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ برابر کے سہیم و شریک ہیں ۔البتہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل ان کے ساتھ مختص ہیں اور دوسرا کوئی شخص اس ضمن میں ان کے ساتھ شریک نہیں ، خصوصاً ابوبکر رضی اللہ عنہ فضائل میں منفرد ہیں ۔

جہاں تک خلفاء ثلاثہ کو ہدف طعن بنانے کا تعلق ہے توشیعہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو اعتراضات وہ اصحاب ثلاثہ پر کرتے ہیں ؛ ناصبی ان ہی اعتراضات کا نشانہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بناتے ہیں ؛ بلکہ آپ پر اس سے بڑے اعتراضات وارد ہوتے ہیں ۔ ہم ان شاء اللہ یہ ثابت کریں گے کہ جو کچھ اس بارے میں شیعہ مصنف نے بیان کیا ہے وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔

[شبہ]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ موافق و مخالف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امام مانتے ہیں ؛ اور آپ کو عیب و خطاء سے منزہ سمجھتے ہیں ۔اور باقی لوگوں کو انہوں نے چھوڑ دیا کیونکہ ان لوگوں کے بارے میں ایسی روایات منقول ہیں جن سے ان کی امامت میں طعن واقع ہوتا ہے۔‘‘ 

[جواب]: یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ مخالفین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پاک و صاف قرار نہیں دیتے، بلکہ متعدد فرقے آپ کو جرح و قدح کا نشانہ بناتے ہیں ۔لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مورد طعن بنانے والے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے مخالفین سے افضل ہیں ۔ اور وہ ان لوگوں کی نسبت بھی اولیٰ وافضل ہیں جو حضرت کی شان میں غلو کرتے ہیں ۔ مثلاً خوارج جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کفر پر یک زبان ہیں سب مسلمانوں کے نزدیک ان غالی شیعہ سے بہتر ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو الٰہ یا نبی تسلیم کرتے ہیں ۔ بلکہ بالفاظ صحیح تر خوارج اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ آزما ہونے والے صحابہ ان اثنا عشری شیعہ سے افضل ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امام معصوم قرار دیتے ہیں ۔[خوارج کی شیعہ سے افضل ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ غیر انبیاء کو معصوم قرار دینے کی ضلالت سے پاک ہیں ۔ دوسری وجہ فضیلت یہ ہے کہ سیدنا علی کی رفاقت میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں خوارج کا جو عقیدہ تھا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے برگشتہ خاطر ہونے کے بعد بھی اس میں تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ وہ پہلے بھی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ہیں اور بعد ازاں بھی اسی نظریہ پر قائم رہے۔ خوارج کے گمراہ ہونے کے دو اسباب تھے۔(۱) اس کی ایک وجہ خوارج کی وہ میراث تھی جو انھوں نے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے حاصل کی۔(۲) دوسری وجہ یہ تھی کہ انھوں نے تحکیم کی بنا پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کی۔ بہر کیف جو شخص خوارج و روافض کی ضلالت میں بحیثیت مجموعی موازنہ کرنا چاہتا ہے، وہ مقابلتاً خوارج کو کم گمراہ پائے گا۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ سیدنا علی کو من جانب ﷲ جو عظیم تر اجر و ثواب دیا جائے گا وہ اس بات پر ملے گا کہ مدینہ سے عازم عراق ہونے سے لے کر شہادت پانے تک آپ نے خوارج و شیعہ جیسے مسرف غالی فرقہ کے ہاتھوں عظیم مصائب جھیلے اور ان پر صبرو تحمل سے کام لیا۔] 

روافض کے سوا مسلمانوں کا کوئی فرقہ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ہدف طعن نہیں بناتا۔ [وہ فرقے جو شیعہ کے شاگرد ہیں اور ان سے متفرع ہوئے ہیں مثلاً اسمعیلیہ، نصیریہ، شیخیہ، بابیہ اور بہایہ یہ سب اس ضمن میں شیعہ کے ہم نوا ہیں ۔]

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرنے والے خوارج حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے دوستی رکھتے اور اظہارِ خوشنودی کرتے ہیں ۔ فرقہ مروانیہ والے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ظالم قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ آپ خلیفہ نہ تھے۔ دوسری جانب وہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے دوستی رکھتے ہیں حالانکہ وہ ان کے اقارب میں سے نہیں ۔ پھر یہ بات کہاں تک قرین صدق و ثواب ہے کہ موافق و مخالف سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منزہ قرار دیتے ہیں اور اصحاب ثلاثہ کو نہیں ۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو منزہ قرار دینے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مدّاحین کی نسبت اکثرو افضل اور اعظم ہیں ۔

بخلاف ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فسق اور عصیان سے متہم کرنے والے فرقے مسلمانوں میں بڑے معروف ہیں ۔ وہ روافض کی نسبت زیادہ عالم اور دین دار بھی ہیں جب کہ روافض ان کے مقابلہ میں کیا بلحاظ علم اور کیاباعتبار قوت و شوکت ضعیف و ناتواں ہیں ۔ روافض نہ ہی اپنے حریفوں کے خلاف حجت قائم کرکے ان کا منہ بند کر سکتے ہیں نہ قوت بازو کو کام میں لاکر انھیں شکست دے سکتے ہیں ۔ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح وارد کرتے ہیں اور ان کو کافر وظالم تک قرار دینے سے احتراز نہیں کرتے، ان میں کوئی گروہ ایسا نہیں جواسلام سے منحرف و برگشتہ ہو گیا ہو۔

اس کے عین برخلاف جو لوگ اصحاب ثلاثہ کو مورد طعن بناتے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔ مثلاً فرقہ غالیہ نصیریہ والے الوہیت علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اسماعیلیہ ملحدین ان نصیریہ سے بھی گئے گزرے ہیں ۔ اور غالی شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی قرار دیتے ہیں ۔[مشہور شیعہ عالم المامقانی کا قول ہے کہ جن عقائد وافکار کی بنا پر قدیم شیعہ کو غالی کہا جاتا تھا وہ اب ضروریات دین میں شمار ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر میں تقیہ کیے بغیر جو شیعہ واشگاف الفاظ میں اپنے عقیدے کا اظہار کرے گا۔ تو اس میں اور متقدمین غالی شیعہ میں کچھ فرق نہ ہوگا۔ اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو اسے ضروریات ِ مذہب سے منحرف تصور کیا جائے گا] بیشک یہ سب کافر اور مرتد ہیں ۔ اللہ و رسول کے ساتھ ان کا کفر کسی عالم دین سے مخفی نہیں ۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی انسان کی الوہیت کا قائل ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی سمجھتا ہو اس کا کافر ہونا ہر اس شخص پر واضح ہے جو دینی علم سے تھوڑی سی واقفیت بھی رکھتا ہو۔[کسی شخص کو نبی قرار دینے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اسے نبی کہہ کر پکارا جائے بلکہ اسے صفات انبیاء سے متصف کرنا بھی اسے نبی قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ علامہ کلینی نے جو شیعہ کا امام بخاری سمجھا جاتا ہے۔ شیعہ کی عظیم ترین کتاب’’ الکافی‘‘ میں جس طرح عنوانات قائم کیے ہیں اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے: ۱۔ اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ ائمہ امورِ الٰہی کے مالک اور اس کے علم کا خزانہ ہیں ۔ ۲۔باب : ائمہ زمین کا ستون ہیں ۔ ۳۔ اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ ائمہ کے یہاں سب کتابیں ہوتی ہیں اور اختلاف الألسنہ (زبانوں کے اختلاف) کے باوجود وہ ان کے مضامین سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ ۴۔ اس بات کا باب کہ قرآن کو ائمہ نے جمع کیا ہے۔ ۵۔ اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ائمہ سب علوم سے واقف ہوتے ہیں ۔ ۶۔ اس بات کا باب کہ اماموں کو اپنی موت کا وقت معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے فوت ہوتے ہیں ۔ (]خوارج جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے اور آپ پر لعنت بھیجتے ہیں ان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجتے تھے اور آپ کے خلاف صف آراء بھی ہوئے؛ ان میں سے اصحاب معاویہ اور بنی مروان بھی تھے۔ یہ سب لوگ مقربہ الاسلام تھے اور دینی شرائع و احکام پر عمل پیرا تھے۔ یہ نماز کی پابندی کرتے،زکوٰۃ ادا کرتے ، روزے رکھتے، زیارت بیت اللہ سے مشرف ہوتے۔اللہ اور اس کے رسول کے حلال کردہ کو حلال سمجھتے اور محرمات کو حرام سمجھتے تھے۔ ان میں ظاہری کفر کا کوئی نشان نہیں پایا جاتاتھا۔ بخلاف ازیں ان میں اسلامی شعائر وشرائع برملا پائے جاتے تھے اور وہ ان کی تعظیم بجا لاتے تھے ان باتوں سے ہر وہ شخص آگاہ ہے جو اسلامی حالات سے باخبر ہے۔ان حالات کے باوصف یہ دعویٰ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ سب مخالفین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منزہ سمجھتے ہیں اور اصحاب ثلاثہ کو نہیں ۔

بخلاف ازیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اعوان و انصار جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرتے تھے؛ شیعان علی رضی اللہ عنہ سے بوجوہ افضل ہیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو منزہ سمجھنے والے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح کرنے والے؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر قدح کرنے والوں سے بڑھ کر دین داراور افضل ہیں ۔ اگر اہل سنت کو معاونین و محبین علی رضی اللہ عنہ کی فہرست سے الگ کر لیا جائے تو ان کو چاہنے والوں میں ایک بھی ایسا نہ ہو گا جو آپ کے مخالف فرقوں یعنی خوارج، امویہ اور مروانیہ کا مقابلہ کر سکے۔اس لیے کہ اعداء علی رضی اللہ عنہ کے متعدد فرقے ہیں ۔ یہ بات کسی سے پوشید نہیں کہ اعداء علی رضی اللہ عنہ میں سب سے بڑے خوارج ہیں ؛جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کافر و مرتد تھے؛ اور تقرب الٰہی حاصل کرنے کے لیے ان کو قتل کرنا حلال تھا ۔ ایک خارجی شاعر عمران بن حطان کہتا ہے:

۱....یَا ضَرْبَۃً مِّنْ تَقِیٍّ مَّا اَرَادَ بِہَا اِلَّا لِیَبْلُغَ مِنْ ذِی الْعَرْش رِضْوَانًا

۲....اِنِّیْ لَاذْکُرُہٗ یَوْمًا فَاَحْسِبُہُ اَوْفَی الْبَرِیَّۃ عِنْدَاللّٰہِ مِیْزَانًا]

[ ۷۔ اس باب میں بیان کیا جائے گا کہ امام ’’ماکان و ما یکون‘‘ کا علم رکھتے ہیں اور کوئی بات ان سے پوشیدہ نہیں ہوتی۔ ۸۔اس بات کا باب کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ علم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے۔ ۹۔ اس بات کا باب کہ اگر ائمہ سے کوئی بات پوشیدہ رکھی جائے تو وہ اسے ظاہر کر دیتے ہیں ۔ ۱۰۔ ہر امام جانتا ہے کہ اس کے بعد کون شخص منصب امامت پر فائز ہو گا۔ ۱۱۔ اس بات کا باب کہ ائمہ کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ حق ہوتی ہے نیز جو بات ان کے ہاں سے نہیں آئی وہ باطل ہے۔ ۱۲۔ اس بات کا باب کہ یہ کائنات ائمہ کی ملک ہے۔ یہ اس کتاب کے عنوانات ہیں جو شیعہ کی نہایت ہی قابل اعتماد کتاب ہے۔ یہ عقائد و افکار شیعہ میں اس وقت رائج تھے جب غلو کو ضروریات دین میں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ جہاں تک ضروریات دین میں شمار کیے جانے والے غلو کا تعلق ہے تو اسے ان تراجم میں تلاش کرنا چاہئے جو اعداء دین روافض نے اپنے قلم سے تحریر کیے۔ مثلاً تحفہ اثنا عشریہ میں ،ص:۱۰۰ پر دیکھیے شیعہ کا یہ عقیدہ کہ سیدنا علی اولوالعزم نبیوں کو چھوڑ کر سب انبیاء و رسل سے افضل تھے۔ آگے چل کر صفحہ:۱۰۲، پر لکھا ہے کہ ائمہ انبیاء سے بڑے عالم ہوتے ہیں اس لیے ان کا مرتبہ بھی بلند تر ہوتا ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ:۱۰۳،پر شیعہ کا یہ عقیدہ تحریر کیا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اوّلین وآخرین سب سے افضل تھے۔ کتاب مذکور کے صفحہ:۱۱۴ پر لکھا ہے کہ شیعہ کے نزدیک سیدنا علی کی جانب وحی کی جاتی تھی اور آپ اس کی آؤاز سنتے تھے۔ (تحفہ اثنا عشریہ)] 

(۱)....اے متقی(قاتل علی) کی وہ ضرب جو قابل تحسین تھی جس سے اس کا مقصد صرف رضائے الٰہی کا حصول تھا۔

(۲)....میں کبھی کبھی اسے یاد کرتا ہوں تو یوں خیال کرتا ہوں کہ سب مخلوقات سے اللہکے نزدیک اس کا اعمال نامہ زیادہ بھرپور تھا۔

ایک سنی شاعر نے اس کے مقابلہ میں یہ اشعار کہے:

۱....یَا ضَرْبَۃً مِّنْ شَقِیٍّ مَا اَرَادَ بِہَا اِلَّا لِیَبْلُغَ مِنْ ذِی الْعَرشِ خُسْرَانًا

۲....اِنِّیْ لَاَذْکُرُہٗ یَوْمًا فَاَلْعَنُہٗ لَعْنًا وَّاَلْعَنُ عِمْرَانَ ابْنَ حِطَّانًا

(۱) ہائے اس بدبخت کی وہ ضرب جس سے اس کا مقصد اللہسے خسارہ پانے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔(۲) میں بعض اوقات یاد کرکے اس پر لعنت بھیجتا ہوں اور عمران بن حطان پر بھی لعنت بھیجتا ہوں ۔(جس نے مذکورہ بالااشعار کہے)۔

خارجی فرقے اور ان کے متعلق فتویٰ 

یہ خوارج تقریباً اٹھارہ فرقے تھے۔ جیسے ازارقہ[ازارقہ ؛ ابو راشد نافع بن الازرق بن قیس الحنفی البکری الوائلی ؛ اہلِ بصرہ میں سے تھا۔ شروع شروع میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی صحبت میں رہا۔ پھر حضرت عثمانؓ کے خلاف بلوائیوں میں شامل ہو گیا۔ اور حضرت علیؓ سے محبت اور دوستی کا اظہار کرنے لگا۔ حتی کہ جب آپ نے حروراء کی طرف خروج کیا۔ یہ ایک بہادر اور لڑاکا اور انتہائی سرکش خارجی تھا۔ پھر سن 65 ہجری میں قتل ہوا۔ فرقہ ازارقہ حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما دونوں کو اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو کافر کہتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کو بھی کافر کہتے ہیں جو ان جنگوں میں شریک نہیں ہوئے۔ اور مزید ان کا عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہ کے مرتکب لوگ کافر اور دائمی جہنمی ہیں ۔ اور ان کے مخالفین کے مقبوضہ علاقے دار الکفرہیں ۔مزید دیکھیں: لِسان المِیزانِ:6؍144، تارِیخ الطبرِیِ:5؍528، الأعلام:8؍315، مقالاتِ الإِسلامِیِین :1؍157، المِلل والنِحل:1؍109، الفرق بین الفِرقِ، صفحہ52؛ 5 التبصِیر فِی الدِینِ، ص: الخطط لِلمقرِیزِی: 2؍354۔]:نافع بن ازرق کے اتباع کار۔ 

نجدات: [انہیں نجدیہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نجدہ بن عامر حنفی کے اتباع کار ہیں ۔ یہ انسان 36ہجری میں پیدا ہوا؛ اور 61 ہجری میں وفات ہوئی۔ بظاہر یہ بھی نافع بن ازرق کا پیروکار تھا۔پھر اس کی مخالفت میں علیحدہ سے ایک مذہب کی بنیاد رکھ لی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کے ایام میں بحرین میں اس کی مستقل حکومت تھی؛ اور اسے امیر المؤمنین کہا جاتا تھا۔ پانچ سال تک اس کی حکومت رہی ؛ پھر اسے قتل کردیا گیا۔ علامہ اشعری کہتے ہیں : نجدات بھی دوسرے تمام خوارج کی طرح ہیں ۔ان کا کہناہے : ہر کبیرہ گناہ کفر ہے۔ اور کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کبیرہ گناہ کے مرتکب کو دائمی عذاب دیں گے۔ اور ان کا خیال ہے کہ جو کوئی صغیرہ گناہ پر اصرار کرتا ہے؛ وہ مشرک ہے۔ او رجس نے کبیرہ گناہ کیا؛ اور وہ اس پر مصر نہ ہو؛ تو وہ مسلمان ہے ۔ نجدات کہتے ہیں : لوگوں کے لیے کسی کو حاکم بنانا ضروری نہیں ہے۔ بس ان کے باہمی معاملات عدل و انصاف اور حق پر مبنی ہونے چاہییں ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : لِسان المِیزانِ6؍148، شذراتِ الذہبِ:1؍76 ، الکامِل لِابنِ الأثِیرِ:4؍78، الأعلام:8؍324، مقالاتِ الإِسلامِیِین: 1؍156، الفرق بین الفِرقِ ص:54، المِلل والنِحل:1؍110، التبصر فِی الدِینِ صفحہ 31، الفِصل]نجدۃ الحروری کے اتباع کار۔ 

الاباضیہ [اباضیہ : عبداللہ بن اباض المقاعسی المری اور التمیمی کے اتباع کار ہیں ۔ مؤرخین کا اس کے حالات زندگی اور تاریخ وفات کے متعلق اختلاف ہے۔ یہ حضرت امیر معاویہؓ کا معاصر تھا۔ اور مروان بن عبدالملک کے آخری عہد تک زندہ رہا۔ اور راجح تاریخ کے مطابق 86ہجری میں فوت ہوا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان کے مخالفین اہل قبلہ کافر ہیں ؛ مشرک نہیں ۔ اور ان کے مخالفین اہل اسلام کا دار دار التوحید ہے۔ سوائے حکمرانوں کے معسکر کے۔ وہ دار بغاوت ہے۔ اور ان کا اجماع ہے کہ: کبیرہ گناہ مرتکب کفر نعمت کا ارتکاب کرتا ہے؛ اس وجہ سے وہ ملت اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ اوران کی بھی تین اقسام ہیں ؛ حفصیہ ؛ حارثیہ اور یزیدیہ۔ دیکھو: ِلسان المِیزانِ : 3؍248، الأعلام:4؍184، مقالاتِ الإِسلامِیِین:1؍170، المِلل والنِحل:1؍121، الفرق بین الفِرقِ صفحہ:61 ، التبصِیر فِی الدِینِ، صفحہ:35،34 الفِصل فِی المِلل والنِحل:5؍51، الخطط لِلمقرِیزِیِ:2؍355، الإِباضِیۃ فِی موِکبِ التارِیخِ لِعلِی یحی معمر ط۔ مکتبِۃ وہب:1384، ] : عبداللہ بن اباض کے اتباع کار۔ 

اس کے عقائد اور احوال عقائد؛حدیث؛ اور احوال و تراجم کی کتابوں میں بڑے ہی مشہور ہیں ۔یہ لوگ حضرات صحابہؓ رضی اللہ عنہم اور تابعین کے عہد مسعود میں موجود تھے۔ان سے مناظرے بھی کرتے تھے؛ اور لڑتے بھی تھے ۔ صحابہ کرامؓ کا ان سے قتال کے واجب ہونے پر اتفاق ہے۔ مگر اس کے باوجود ان لوگوں کو کافر نہ صحابہ نے کہا اور نہ ہی حضرت علیؓ رضی اللہ عنہ نے۔

جب کہ حضرت علیؓ  کی شان میں غلو کرنے والے شیعہ کے کفر پر تمام صحابہ کرام اور مسلمانوں کا اتفاق ہے۔خود حضرت علیؓ بن ابی طالب نے انہیں کافر قرار دیکر آگ میں جلایا تھا؛ ان غالی شیعہ میں سے جس پر قدرت حاصل ہو؛اسے قتل کردیا جائے۔ جہاں تک خوارج کا تعلق ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے خلاف اس وقت جنگ آزما ہوئے جب انھوں نے کسی مسلمان کو قتل کیا۔ اور لوگوں پر حملہ کر کے ان کا مال لوٹنے کا بیڑا اٹھایا۔

خلاصہ کلام یہ کہ حضرت علیؓ کی ذات میں غلو کرنے والوں کو صحابہؓ بلکہ خود حضرت علیؓ نے مرتد قرار دیا۔ اور ان سے مرتدین کا سا سلوک کیا۔ مگر خوارج سے کسی نے بھی مرتدین جیسا سلوک روانہ رکھا۔ یہ حقائق اس بات کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ اصحاب ثلاثہؓ سے بغض رکھنے والے جو حب ِ علیؓ  کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ان میں بالاتفاق علی و جمیع صحابہؓ کے متعلق جو شرّ و کفر پایا جاتا ہے وہ ان لوگوں میں موجود نہیں جو حضرت علیؓ  سے عداوت رکھتے اور آپ کی تکفیر کرتے تھے۔نیز یہ بات بھی نکھر کر سامنے آئی کہ اصحاب ثلاثہؓ  سے بغض رکھنے والے حضرت علیؓ و جمیع صحابہؓ کے نزدیک حضرت علیؓ سے بغض رکھنے والوں سے بدتر تھے۔