Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....قادر کے مقدور کو راجح کرنے کی بحث

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....قادر کے مقدور کو راجح کرنے کی بحث

[ افعالِ اختیاریہ کی بابت رافضی کا یہ قول ہے ’’قادر اپنے مقدور کو راجح نہیں کر سکتا‘‘ اور اس کا ردّ]

[اعتراض]:شیعہ مضمون نگارلکھتا ہے: ’’ہمارے مخالفین کا عقیدہ یہ ہے کہ صاحب قدرت کے ہر دو مقدور میں سے بلا مرجّح کسی کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ ظاہر ہے کہ ترجیح دینے کی صورت میں فعل واجب ہوجاتا ہے، اور قدرت باقی نہیں رہتی۔ علاوہ ازیں اس سے لازم آتا ہے کہ بندہ اللہ کا شریک ہو؛ جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَo﴾ (الصافات: ۹۶)

’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔

[جواب]:پہلا جواب: یہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق سے مقابلہ کرنے والی بات ہے۔ اگر قدرت مرجّح کی محتاج ہو اور مرجّح سے نتیجہ کا ظہورو وقوع واجب ہوجاتا ہوتو اس سے اللہ تعالیٰ کا مختار نہیں بلکہ موجب ہونا لازم آتا ہے، جس کا نتیجہ کفر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

دوسرا جواب :....بھلا یہاں کون سی شرکت ہے۔جب اللہتعالیٰ بندے کو مقہورو معدوم کرنے پر قادر ہے [[تواس کے شریک ہونے کا احتمال کیوں کر پیدا ہو گیا؟]]۔ جیسے اگر حاکم کسی کو کسی علاقہ کا امیر مقرر کر دے اور وہ ظلم و ستم پر اتر آئے تو سلطان اور حکم اس کے قتل پر، اس سے انتقام لینے پر اور اس کے چھینے اموال کے واپس لینے پر قادر ہوتا ہے۔ وہسلطان کا شریک نہیں ہو جاتا۔

تیسرا جواب :....آیت قرآنی ’’وَاللّٰہُ خَلَقَکُم ‘‘کا جواب یہ ہے کہ اس میں ان بتوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جن کو وہ خود ہی گھڑا کرتے تھے، ان بتوں کی مذمت میں فرمایا:

﴿ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات:۹۵۔ ۹۶)

’’کیا تم ان کو پوجتے ہو جن کو تراش لیتے ہو، حالانکہ تم اور تمہارے اعمال اللہ نے پیدا کیے ہیں ۔‘‘

شیعہ مصنف نے قائلین تقدیر کے صرف چند دلائل بیان کیے ہیں [ اور ان کے دلائل کو مفصل ذکر نہیں کیا۔] بایں ہمہ تین دلائل کا شیعہ کے پاس کوئی صحیح جواب نہیں :

پہلی دلیل کے معقول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص یہ دلیل پیش کرتا ہے، وہ یہ نہیں کہتا کہ جب فعل واجب ہوجاتا ہے تو قدرت باقی نہیں رہتی، اس کے برخلاف عام اہل سنت کا قول ہے کہ بندے میں قدرت پائی جاتی ہے،یہ اکثر اہل سنت کا مذہب ہے۔ حتیٰ کہ غالی مثبتین قدر کا بھی؛ جیسے اشعریہ؛ وہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ بندے کو قدرت حاصل ہے۔ اور اس مذکورہ دلیل سے ابو عبداللہ رازی رحمہ اللہ وغیرہ نے حجت پکڑی ہے۔ وہ اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ وہ جبریہ عقیدہ کے قائل ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود کہتے ہیں کہ بندے کو قدرت حاصل ہے۔ اگرچہ ان کا اس امر میں اختلاف ہے کہ یہ قدرت اپنے مقدور میں موثر ہے، یا اس کی بعض صفات میں موثر ہے، یا اس کی سرے سے کوئی تاثیر ہی نہیں ۔

ابو الحسین بصری اوردیگر معتزلہ کا قول ہے کہ فعل میں صرف قدرت کافی نہیں ؛ بلکہ یہ داعی پر موقوف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قادر مختار محض قدرت سے ترجیح نہیں پیدا کر سکتا۔ بلکہ داعی کے ذریعے جو قدرت کے مقارک ہو۔ جیسا کہ اکثر مثبّتین تقدیر کا قول ہے ؛ وہ کہتے ہیں : رب تعالیٰ محض قدرت سے ترجیح اختیار نہیں کرتا بلکہ قدرت کے ساتھ ارادہ کے ذریعے ترجیح پیدا کرتا ہے۔ ائمہ اربعہ کے اکثر اصحاب کا یہی قول ہے۔ اصحاب احمد میں سے قاضی ابوخازم کا بھی یہی قول ہے۔

گزشتہ میں مذکور ہو چکا ہے کہ اس باب میں متوسط قول یہ ہے کہ قدرت کو تاثیر ہے جو اسباب کی مسببات میں تاثر کی خبر میں سے ہے۔ البتہ اسے خلق اور ابداع کی تاثیر نہیں اور نہ اس کا وجود اس کے عدم کے جیسا ہے۔ اس دلیل کی توجیہ یہ ہے کہ قادر کے لیے بلا مرجح کے دو میں سے ایک مقدور کو ترجیح دینا ممتنع ہے۔ وہ اس لیے کہ جب فعل اور ترک دونوں کی قادر کی طرف نسبت یکساں ہو گی تو دو متماثلین میں سے ایک کی دورسے پر ترجیح بلا مرجح ہو گی اور یہ بات عقل بدیہہ کے نزدیک ممتنع ہے۔ جس کی تفصیل اپنے مقام پر موجود ہے۔ جہاں اس شخص کی خطا کو بیان کیا گیا ہے جو اس بات کا گمان رکھتا ہے کہ قادر دو مقدور متماثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے۔اور یہ مرجح بندے کی طرف سے نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس مرجح میں قول بالکل ویسے ہی ہے جیسے بندے کے فعل میں ۔علاوہ ازیں اس امر سے بھی مذکورہ بالا دلیل کی تائید ہوتی ہے کہ صاحب قدرت کا مقدور کسی مرجّح کے بغیر ترجیح نہیں پا سکتا، یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہ مرجّح بندے میں نہیں پایا جاتا، لہٰذا اس کا من جانب اللہ ہونا متعین ہوا، یہ بھی ظاہر ہے کہ مرجّح تام کے موجودہونے کی صورت میں فعل کا پایا جانا ضروری اور اس کا عدم وجود ممتنع ہوتا ہے، اس لیے کہ اگر مرجّح کے پائے جانے کے بعد بھی فعل کا وجود و عدم مساوی ہو جیسا کہ وجود مرجح سے قبل تھا تو وہ فعل ممکن ٹھہرے گا اور ممکن کا وجود اسی صورت میں عدم کے مقابلہ میں راحج ہوتا ہے جب کوئی مرجّح تام پایا جاتا ہو۔ جس کے وقت فعل کا وجود واجب ہوا۔

جب بندے کا فعل اللہ کی طرف سے مرجح کے بغیر حاصل نہیں ہوتا کہ جس کے پائے جانے کے وقت فعل کا وجود واجب ہوتا ہے تو بندے کا فعل دیگر حوادث کی طرح ٹھہرے گا جو ان اسباب سے حادث ہوتے ہیں جن کو اللہ نے پیدا کیا ہے کہ جن کے ہونے کے وقت حادث کا وجود واجب ہوتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اللہ بندے کے فعل کا خالق ہے اور یہ کہ اللہ نے بندے میں قدرتِ تامہ اور ارادہ جازمہ کو پیدا کیا ہے کہ جن کے وجود کے وقت فعل کا وجود واجب ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ فعل کا سبب تام ہے اور جب سبب تام پایا جاتا ہے تو مسبب کا وجود واجب ہوتا ہے۔ پھر اللہ مسبب کا بھی تو خالق ہے کہ یہ سب اس کی مخلوق ہے۔جیسے جب اللہ تعالیٰ کسی کپڑے میں آگ پیدا کرتے ہیں تو اسکے بعد اس کے ما بعد اثرات کا ہونا لازم ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔

[اللہ تعالیٰ کے ساتھ معارضہ کی بحث]:

شیعہ مصنف کا یہ قول کہ اس فعل سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ معارضہ لازم آتا ہے۔ تو اس کے کئی جوابات ہیں :

اول:....یہ عقلی و یقینی دلیل ہے اور یقینیات کا معارضہ ممکن نہیں ،جو ان کو باطل قرار دے دے اور اگر فرض کیا کہ اس کو دلیل بنانے والا موجب بالذات کا قائل ہے تو بھی اس سے ہماری ذکر کردہ دلیل منقطع نہیں ہوتی۔ بالخصوص ان کے نزدیک یہ مسئلہ ان عقلیات میں سے جن کو بدون سمع کے جانا جاتا ہے لہٰذا اس میں عقلی جواب کا ہونا لازم ہے۔

دوم :....یہ کہا جائے کہ رب تعالیٰ اپنی قدرت سے اپنی مشیئت کے ساتھ فعل کرتا ہے کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا اور جو اس نے نہ چاہا وہ نہ ہوا اور یہ بات نہیں کہ ہر وہ بات جس پر وہ قادر ہو اس نے اسے کیا بھی ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَہٗo﴾ (القیامۃ: ۳)

’’کیوں نہیں ؟ ہم قادر ہیں کہ اس (کی انگلیوں ) کے پورے درست کر (کے بنا) دیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ﴾ (الانعام: ۶۵)

’’فرمادیں وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیج دے، یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے، یا تمھیں مختلف گروہ بنا کر گتھم گتھا کر دے اور تمھارے بعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ چکھائے۔‘‘

بخاری و مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ﴾ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:’’ میں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں ، پھر یہ نازل ہوئی: ﴿اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ﴾ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں ۔ پھر یہ نازل ہوئی: ﴿اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا....الی آخر الآیۃ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں باتیں زیادہ ہلکی ہیں ۔‘‘

اور ارشاد ہے:

﴿وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا﴾ (یونس: ۹۹)

’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقیناً جو لوگ زمین میں ہیں سب کے سب اکٹھے ایمان لے آتے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً﴾ (ہود: ۱۱۸)

’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو یقیناً سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا﴾ (البقرۃ: ۲۵۳)

’’اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے۔‘‘

غرض قرن کریم میں اس کی متعدد مثالیں مذکور ہیں ۔

جب بات یہ ہے کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا تو یہ اس پر دلیل ہے کہ وہ اس پر قادر ہے۔ کیونکہ غیر مقدور فعل غیر ممکن ہوا کرتا ہے۔ سو معلوم ہوا کہ جب فعل محض اس کے قادر ہونے کی وجہ سے واقع ہوا ہے تو ہر مقدور واقع ہو گا۔ بلکہ قدرت کے ساتھ ارادہ لازمی ہے۔ مزید برآں قائل کا قول کہ: قدرت ربانی مرجّح کی محتاج ہے، ظاہر ہے کہ مرجح صرف اللہ کا ارادہ ہی ہوسکتا ہے، یہ امر بھی مسلم ہے کہ ارادہ الٰہی کا صدور غیر سے ممکن نہیں بخلاف بندے کے ارادہ کے کہ وہ غیر سے صادر ہو سکتا ہے، جب ارادہ الٰہی مرجّح ہوا تو فاعل بالاختیار ہوگا، نہ کہ موجب بالذات بلا اختیار۔ اندریں صورت کفر بھی لازم نہیں آئے گا۔

کیا اللہ تعالیٰ موجب بذاتہٖ ہے....؟:

سوم:....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ اس سے اللہ تعالیٰ کا موجب بالذات ہونا لازم آتا ہے۔‘‘

ہم پوچھتے ہیں کہ اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟ کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا قدرت و ارادہ تاثیر پیدا کر دیتا ہے؟ یا تمہارا مقصد یہ ہے کہ مرجّح یعنی ارادہ مع القدرت کے ساتھ تاثیر کا پیدا ہوجانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ بصورت اول ہم تلازم کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ، اس لیے کہ ہم فرض کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صاحب قدرت اور ترجیح دینے والا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہاں دو چیزیں ہیں :

۱۔قدرت ۲۔ امر [جس کی تفسیر ہم نے ارادہ سے کی ہے]پھر یہ کہنا کیوں کر درست ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت و ارادہ کے بغیر ترجیح دینے والا ہے؟

اگر شیعہ مضمون نگار کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ارادہ مع القدرت کے پائے جانے کی صورت میں نتیجہ کا ظہور ایک لابدی امر ہے تو یہ ایک حق بات ہے اور سب اہل اسلام اس کے قائل ہیں ،اور کوئی اس کا نام موجب بالذات رکھ دیتا ہے تو یہ نزاعِ لفظی ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس چیز کو عالم وجود میں لانا چاہتے ہیں وہ اس کی قدرت و مشیت کے مطابق ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔ بعینہٖ اسی طرح جس چیز کا وجود ذات باری کو پسند نہیں ہوتا وہ اس کی مشیت و قدرت کے نہ ہونے کی بنا پر عالم وجود میں نہیں آتی۔ پہلی قسم مشیت ایزدی کے باعث واجب اور دوسری عدم مشیت کی وجہ سے ممتنع ہوتی ہے۔

قدریہ کا یہ قول کہ اللہ تعالیٰ بعض اشیاء کو چاہتے ہیں مگر وہ وجود پذیر نہیں ہوتیں اور بعض اشیاء اس کی مشیت کے بغیر ظہور میں آجاتی ہیں ،[ صریح ضلالت کا آئینہ دار ہے] اہل سنت اس پر انکار کرتے ہیں ۔

چہارم :....کہ وہ پاک ذات قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتے ہیں تو وہ دو حال سے خالی نہیں :

۱۔اس کا وجود میں آنا واجب ہو۔ ۲۔دوسرا یہ کہ اس کا ظہور پذیر ہونا واجب نہ ہو۔

بصورت اول مطلوب حاصل ہو گیا اور مرجّح کے ہوتے ہوئے اثرونتیجہ بھی رونما ہو گیا، خواہ اس کا نام موجب بالذات رکھا جائے، یا کچھ اور۔ بصورت ثانی اس چیز کا وجود واجب نہیں ۔ لہٰذا وہ ممکن ہوئی جس کا وجود و عدم مساوی ہے اور جس کے لیے کسی مرجّح کا ہونا از بس ضروری ہے، علی ہذا القیاس۔ ایسا ہی ہر اس امر میں ہو گا جو وجود کو قبول کرنے والا ہو اور اس کا وجود واجب نہ ہو گا تو اس کا وجود ممکن اور عدم اور وجود دونوں کا احتمال رکھتا ہو گا اور ایسا تب ہی حاصل ہو گا جب مرجح تام حاصل ہو جو اس کے وجود کو موجب بالذات ہو۔

سو ظاہ ہوا کہ جو بھی پایا گیا، اس کا وجود اللہ کی قدرت و مشیئت سے واجب ہوا اور یہی مطلوب ہے اور یہ معتزلہ کی ایک جماعت کا قول ہے جیسے ابوالحسین بصری وغیرہ۔ اور قدریہ کی ایک جماعت اس باب میں یہ کہتی ہے کہ مرجح کے وجود کے وقت فعل کا وجود اولیٰ ہے۔ البتہ یہ اولویت وجوب تک نہیں جاتی۔ جیسا کہ محمود خوارزمی اور زمحشری وغیرہ کا قول ہے جوکہ باطل ہے۔ کیونکہ جب یہ اولویت وجوب کی حد تک نہیں پہنچتی تو یہ ممکن ہوا جو مرجح کا محتاج ہوتا ہے۔ سو یا تو واجب ہے یا ممکن ہے، اور ممکن عدم و وجود دونوں کو قبول کرتا ہے۔

پھر قدریہ اور جہمیہ کی ایک تیسری جماعت بھی ہے یہ ابوالحسین وغیرہ کے متکلمین اصحاب ہیں ؛ اور ائمہ اربعہ کے اصحاب اور شیعہ وغیرہ ہیں ۔ یہ کہتے ہیں : قادر مرجح کے بغیر ترجیح دیتا ہے۔ ان کے نزدیک ارادہ بلامرجح کے حادث ہے۔ یہ لوگ اللہ کے ارادہ کو حادث قرار دیتے ہیں جو کسی محل میں نہیں ہوتا اور اس ارادہ کے ساتھ فعل کو ممکن ٹھہراتے ہیں نہ کہ واجب۔ یہ ان کے ان اصولوں میں سے ہے جن میں یہ لوگ اللہ کے فعل اور حدوث عالم، فعل عبد اور قدر کے مسئلہ میں شدید اضطراب کا شکار ہیں ۔

پنجم :....یہ کہا جائے کہ موجب بالذات کے لفظ میں اجمال ہے۔ اگر تو اس سے وہ مراد لیا جو فلاسفہ کہتے ہیں کہ یہ علت تامہ مستلزمہ للعالم ہے تو یہ باطل معنی ہے۔ کیونکہ علت تامہ اپنے معلول کو مستلزم ہوتی ہے اور اگر یہ عالم معلول اور ایسی علت کو لازم ہے جو ازلی ہے تو اس میں حوادث نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ حوادث علت تامہ ازلیہ سے حادث نہیں ہوتے اور یہ خلافِ محسوس ہے۔ چاہے یہ کہا جائے کہ یہ علت تامہ صفات سے مجرد ایک ذات ہے جیسا کہ صفات کی نفی کرنے والے فلاسفہ کا قول ہے۔ جیسے ابن سینا اور اس جیسے دوسرے۔ یا یہ کہا جائے کہ وہ صفات سے موصوف ایک ذات ہے۔ لیکن وہ اپنے معلول کو مستلزم ہے۔ تو یہ بھی باطل ہے اور اگر موجب بالذات کی تفسیر یہ بیان کی جائے کہ وہ اپنے اپنے وقت میں ایک ایک مخلوق کو اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ واجب کرتی ہے، تو یہ مسلمانوں کا، دوسرے اہل مذاہب کا اور اہل سنت کا مذہب ہے۔ پس جب وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ بندوں کے افعال اور حوادث وغیرہ کو واجب کرتا ہے تو یہ قول اہل سنت کے موافق ہے نہ کہ دہریہ کے معنی کے۔

ششم: ....ہم شیعہ قلم کار سے کہتے ہیں کہ:’’ تم نے جو عقلی دلیل بایں طورپیش کی ہے کہ بندہ کے اختیاری افعال اسی کی جانب منسوب کیے جاتے ہیں ، اور اس کے حسب ِ اختیار وقوع میں آتے ہیں ؛یہ ان افعال سے چکنا چور ہوجاتی ہے، جن کو بندہ انجام نہیں دیتا، مثلاً انسان اپنی صواب دید کے مطابق اپنے کپڑے کو رنگتا ہے، اور اس کو انسان کی صنعت شمار کیا جاتا ہے حالانکہ رنگ اس کا پیدا کردہ نہیں ۔ اسی طرح کھیتی باڑی اور درخت بعض اوقات انسان اپنی مرضی سے بوتا ہے اور اس فعل کو اپنی جانب منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ اگانا اس کا کام نہیں ہے، اس بیان سے یہ حقیقت منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے کہ جو چیز انسان کی طرف منسوب ہو اور اس کے حسب ِمرضی وقوع پذیر ہو یہ ضروری نہیں کہ اس کی پیداکردہ ہو، یہ عقلی معارضہ ہے۔جو نفس دلیل کے الفاظ سے ہے۔ جبکہ وہ ایسا معارضہ عقلیہ ہے جو نفس دلیل کے الفاظ سے نہیں ۔

ہفتم :....یہ کہا جائے کہ یہ امامی اور اس جیسے دوسرے لوگ تناقض کا شکار ہیں کیونکہ انہوں نے یہ بات بارہا ذکر کی جا چکی ہے کہ جب داعی مع القدرت ہو تو فعل واجب ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں پر کہتا ہے کہ داعی اور قدرت کے باوجود فعل کا وجود واجب نہیں ہوتا۔ سو معلوم ہوا کہ لوگ اپنی رائے کے موافق اور اپنے قول کی تائید میں کلام کرتے ہیں نہ کہ حق پر اعتماد کرتے ہیں ؛ اور نہ ہی وہ حق جانتے اور مانتے ہیں نہ اس کی نصرت ان کا مقصد ہے۔