Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل ....رافضی کا قول کہ ’’بھلا یہاں کون سی شرکت ہے؟‘‘ اور اس کا ردّ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل ....رافضی کا قول کہ ’’بھلا یہاں کون سی شرکت ہے؟‘‘ اور اس کا ردّ

باقی رہا شیعہ مضمون نگار کا یہ قول کہ ’’ اس میں شرک کیسے پیدا ہو گیا؟‘‘

تو اس کا جواب یہ ہے کہ:’’ حوادث کا بلا قدرت ا لٰہی پیدا ہوجانے کا عقیدہ ہی بہت بڑا شرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منکرین تقدیر [روافض ]کو مجوس کے مماثل ؍مشابہ قرار دیا گیا ہے، جو خیر و شر کے دو الگ الگ خالق تسلیم کر کے وہ ایک اور کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ ان لوگوں نے حاکم کی جو مثال پیش کی ہے، وہ اس شراکت کو اور بھی زیادہ موکد کرتی ہے۔

کیونکہ حاکم کے نائبین مملکت کے امور میں اس کے شریک ہوتے ہیں اور حاکم ان کا محتاج ہوتا ہے، نہ تو وہ ان کا خالق ہوتا ہے اور نہ رب۔ بلکہ وہ ان کی قدرت کا بھی خالق نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ نائبین اس کی خارج از قدرت اور اس کے معاون ہوتے ہیں کہ اگر یہ نائبین نہ ہوں تو وہ ملک نہیں چلا سکتا ہے۔

سو جس نے بندوں کے افعال کو اللہ کے ساتھ بمنزلہ نائبین حاکم کے افعال ان کے حاکم کے ساتھ، قرار دیا اس نے وہ صریح شرک کیا جو بتوں کب پجاری بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ ربوبیت میں شرک ہے ناکہ الوہیت میں ۔ کیونکہ اس بات کا اعتراف ان بت پرستوں کو بھی تھا کہ یہ بت اللہ کی ملک ہیں اور وہ حج میں ’’لبیک لا شریک لک الا شریکا ہو لکن تملکہ ولا ملک‘‘کہا کرتے تھے۔ (اے اللہ! میں حاضر ہوں ۔ تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے جس کا تو مالک ہے نہ کہ وہ خود کسی شے کا مالک ہے)۔

یہ لوگ بندہ جن افعال کا مالک ہے؛ اسے اللہ کی ملک قرار دیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’توحید کی شیرازہ بندی عقیدہ تقدیر سے ہوتی ہے۔‘‘[السنۃ لعبد اللّٰہ بن احمد (۹۲۵)، الشریعۃ للآجری(ص:۲۲۶،ح:۴۵۶)، وسندہ ضعیف لجھالۃ الراوی۔]

سو جس نے اللہ کو ایک کہا اور تقدیر پر ایمان لایا، تو اس کی توحید کامل ہو گئی اور جس نے اللہ کو ایک کہا، پھر تقدیر کا انکار کیا تو اس کی توحید بھی جھوٹی ہے۔ اس عقیدہ کو تسلیم کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ بعض حوادث کسی خالق کے بغیر از خود پیدا ہوجاتے ہیں ۔نیز یہ کہ اللہ کے سوا کوئی اور فاعل مستقل بھی موجود ہے، یہ دونوں کفر کی شاخیں ہیں ، اس لیے کہ ہر کفر کی جڑ تعطیل و شرک کے تخم سے جنم لیتی ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے :

’’ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بندہ بغیر کسی محدث کے فاعل ارادہ کنندہ ہوا ہے؛حالانکہ وہ پہلے ایسا نہ تھا؛ اور یہ ایک امر حادث ہے جو پہلے نہ تھا۔ اور ان کے نزدیک اس امر کا حدوث کسی محدث کے بغیر ہے اور یہی تعطیل کی اصل ہے۔ سو جس نے کسی محدث کے بغیر حدوث حادث کو جائز قرار دیا اور یہ کہ ممکن کا وجود اس کے عدم پر بلا مرجح کے راجح ہے اور یہ کہ دو متماثلین میں سے ایک بلا مخصص کے مختص ہو جاتا ہے۔ یہ ان حوادث اور ممکنات کی جنس میں سے ہے جن کے لیے ایک فاعل کا ہونا ممکن ہے۔ لاریب ان کا فاعل اللہ ہے ؛سو ان کا یہ عقیدہ رب تعالیٰ کو اپنی مخلوقات کے خالق ہونے سے معطل کرنا ہے۔

رہا شرک تو یہ لوگ کہتے ہیں : بندہ فعل کے احداث میں مستقل ہے بغیر اس کے کہ اللہ نے اسے فعل کا محدث بنایا ہو۔ جیسے شاہوں کے اعوان و انصار جو شاہ کی طرف سے فاعل بنے بغیر متعدد امور کو سرانجام دیتے ہیں ۔ یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کے لیے شرکاء کا اثبات ہے۔ جو اس کی بعض مخلوقات کو پیدا کرتے ہیں ۔

یہ دونوں محذور، تعطیل اور شرک فی الربوبیت، ہر اس شخص کو لازم ہیں جو اللہ کے سوا فاعل مستقل کو ثابت کرتے ہیں ۔ فلاسفہ بھی اسی زعم فاسد میں مبتلا ہیں کہ افلاک فاعل مستقل ہیں اور وہ حوادث ارضی کو بغیر کسی ایسے سبب کے جنم دیتےہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حرکت کو واجب کرتا ہو۔ اور نہ اس کے اوپر کوئی متجدد ہے جو اس کی حرکت کاتقاضا کرتی ہو۔ کیونکہ اس وقت فلک کی حرکت اس کے اختیار سے ہو گی۔ جو انسان کی اپنے اختیار سے حرکت کی طرح ہوتی ہے۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ فلک کا اپنے اختیار و قدرت کے ساتھ حرکت کرنا یہ ممکن ہے نہ کہ واجب بنفسہ لہٰذا اس کے لیے مرجح تام کا ہونا لازم ہے۔ لہٰذا وہ ہر وقت میں اپنے قدرت و اختیار سے حرکت کرتا ہے۔ سو اس کے محترک ہنے کے لیے کسی امر کا ہونا لازم ہے جو اسے واجب کرے۔ وگرنہ حوادث کا بلا محدث کے حدوث لازم آئے گا۔

[اعتراض ]: اگر یہ کہا جائے کہ موجب بذاتہ وہ مرجح ہے یا فاعل مرجح ہے، چاہے وہ بالواسطہ فاعل ہو یا بلاواسطہ اور وہ عقل یا عقول سے صادر ہوتا ہے۔

جواب : یہ قول باطل ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک موجب بذاتہ ازل سے ابد تک ایک ہی حال پر ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بات ممتنع ٹھہری کہ اس سے کسی حادث کا صدور ہو بعد اس بات کے کہ اس سے اس حادث کا صدور پہلے نہ ہوا تھا او حرکت کا ہر جز حادث ہے بعد اس کے کہ پہلے وہ نہ تھا۔ لہٰذا اس حادث کا ازل میں ثابت ہونا ممتنع ٹھہرا اور یہ کہ ازل میں اس کے فاعل کا علت تامہ ہونا بھی ممتنع ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ان حوادث کا ازل میں علت تامہ سے صدور ممتنع ہوا۔

پھر یہ کہ حوادث کا مرجح اگر تو ازل میں مرجح تام ہے تو اس کے لیے مفعول لازم ہوا۔ حالانکہ اس سے اس کے بعد کوئی شے حادث نہیں ہوئی اور اگر وہ ازل میں مرجح تام نہیں ؛ تو وہ عدم کے بعد مرجح بنا؛ تو یہ بات ممتنع ہے کہ کسی غیر نے اسے مرجح بنایا ہو۔ پس اس کا مرجح وہی ہوگا؛ جو اپنے ارادہ سے اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔ اور یہ امور ازل میں مرجح تام نہیں ۔ وگرنہ حوادث کا بطلان لازم آئے گا۔ سو مرجح سے ازل میں کسی ایسی چیز کا صدور ممتنع ہواجو اس کے مقارن ہو۔ سو فلک کا قدیم ہونا بھی ممتنع ٹھہرا ۔

یہ اس کے لیے مرجح ٹھہرا جو اسے عدم کے بعد راجح کرتا ہے۔اسی طرح حوادث کی اس کی طرف اضافت واجب ٹھہری کیونکہ حوادث کی مرجح تام کی طرف اضافت واجب ہے۔ سو ثابت ہوا کہ ان افلاک کے اوپر ایک موثر ہے جس کی تاثیر متجدد ہوتی رہتی ہے اور وہی مطلوب ہے۔

جب ان لوگوں نے اس بات کو ثابت نہ کیا تو فلک اور حوادث کی حرکت کے لیے کسی فاعل کے ہونے کو معطل ٹھہرایا اور یہ تعطیل افعالِ عباد کے لیے کسی محدث ہونے کی تعطیل سے بھی بڑی ہے۔

پھر ان لوگوں نے فلک کو فاعل مستقل قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ان قدریہ نے حیوان کے بارے میں یہ مقرر کیا ہے وہ بطریق استقلال حرکت کرتا ہے نہ کہ ہر حرکت کے وقت اللہ اس میں ایسی قدرت کو پیدا کرتا ہے جو اس حرکت کے مقارن ہو۔ کیونکہ ان کے نزدیک ایک فلک سے دوسرا فلک حادث ہوتا ہے اور دوسرے فلک کی شرط پہلے فلک کا ختم ہو جانا ہے۔ جیسے وہ شخص جو ایک مسافت کو رفتہ رفتہ طیکرتا ہے۔ لیکن یہ مسافت طے کرنے والا، دوسری مسافت کو اس قوت و ارادہ کے ساتھ طے کرتا ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے۔ سو فاعل کے لیے ارادہ و قوت کا تجدد ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے ایک کےبعد دوسری مسافت قطع ہوتی ہے۔ لہٰذا فلک کے لیے ہر وقت اس ارادہ اور قوت کا ہونا لازم ہوا جس کے ذریعے وہ حرکت کرتا ہے؛ لیکن لازم ہے کہ اس کا مجدد اس کا غیر ہو۔ کیونکہ وہ ممکن ہے نہ کہ واجب اور اس میں حوادث کا اس سے ہونا ناجائز ہو گا۔ کیونکہ اگر اس نے پہلے کے بعد دوسرے کو حادث کیا ہے تو دوسرے کے وقت موثر تام کا ہونا لازم ہوا۔ چاہے اسے پہلے کے ختم ہونے کے بعد دوسرے کو حادث کیا ہو۔ چاہے اسے پہلے کے ختم ہونے کے بعد دوسرے میں کمالِ تاثیر حاصل ہوا ہو۔ سو اس کمال کا فاعل ہونا لازم ہوا۔ اور یہ لوگ اس بات کو جائز کہتے ہیں کہ ماتقدم اس کا فاعل ہو۔ لہٰذا ہر حال میں ایک فاعل کا ہونا لازم ہوا جو اس امر کو حادث کرے جس سے حرکت حاصل ہو اور یہ واجب بنفسہ کے خلاف ہے، کیونکہ جو افعال اس کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ان کا غیر سے صدور جائز نہیں ہوتا۔

[فلاسفہ اور معطلہ کا شرک :]

ان فلاسفہ کا شرک و تعطیل قدریہ کے شرک و تعطیل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کیونکہ یہ لوگ فلک کو ان حوادث کا محدث قرار دیتے ہیں جو ساری زمین میں برپا ہوتے ہیں ۔ انھوں نے اللہ کو کسی شے کا بھی حادث نہیں ٹھہرایا۔ بخلاف قدریہ کے کہ انھوں نے حیوان کے افعال کو اور جو اس سے پیدا ہوتا ہے، اس کو اس کے احداث سے نکالا ہے۔ سو حوادث کو بلامحدث کے ثابت کر کے، اور رب تعالیٰ کو کسی بھی حادث سے معطل کر کے اور ایک شریک کو ثابت کر کے انھیں تعطیل لازم آئی جو جمیع حوادث کا فاعل ہے۔

مگر تعجب ہے کہ وہ قدریہ کے اس قول کو تسلیم نہیں کرتے کہ ’’ اللہ تعالیٰ اس عالم کو پیدا کرنے سے قبل بیکار تھا۔‘‘ فلاسفہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پہلے بھی افعال سے معلل رہا ہے اور بدستور اسی حالت پر قائم ہے؛ بلکہ اس کا کوئی بھی کام نہیں ۔ جو چیزیں لوازم ذات میں داخل ہیں ، مثلاً عقل و فلک یہ اس کا فعل نہیں ، کیونکہ فعل کا ظہور تدریجی طور پر ہوتا ہے، جو چیز ذات کے لوازم میں سے ہو وہ صفات کے قبیل سے ہوتی ہے، مثلاً انسان کا رنگ اور درازیِء قد۔ ظاہر ہے کہ یہ اس کا فعل نہیں ، بخلاف ازیں اس کی حرکات کو اس کا فعل قرار دے سکتے ہیں ، اگرچہ یہ حرکات بھی اس کے لیے مقدر تھیں ۔جیسے نفس انسانی کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں ۔ اور بیشک دل میں سب سے زیادہ تغیرات رونما ہوتے ہیں ، وہ اس ہنڈیا کی طرح ہے جو ابلتے ہوئے جوش و خروش کا پیکر بنی ہوئی ہوتی ہے۔

فاعل کی تعریف:

خلاصہ کلام! فاعل دراصل وہ ہے جس کے ساتھ کوئی فعل وابستہ ہو اور اس فعل کا ظہور اس سے تدریجاً ہو۔ بخلاف ازیں جس کے ساتھ کوئی وصف ازل ہی سے مقارن چلا آرہا ہو؛اس وصف کا اس کا فعل ہونا معقول نہیں ۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ فلاسفہ اصلاً اللہ کے لیے کسی فعل کا اثبات کرتے ہی نہیں اور بایں طور پر وہ اصلی اور حقیقی معطلہ ہیں ۔ ارسطو اور اس کے اتباع صرف علت اولیٰ کے قائل ہیں ، اور وہ بھی اس لیے کہ وہ حرکت افلاک کی علت غائی ہے۔ ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ حرکت فلک انسانی حرکت کی طرح اختیاری ہے، لہٰذا اس کے لیے کسی مراد و مطلوب کا وجود ناگزیر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : افلا ک کی حرکت علت اولیٰ کے ساتھ تماثل و تشابہ کی رہین احسان ہے۔جیسے مأموم اپنے امام کی ؛ اور مقتدی اپنے پیشوا کی اتباع کرتا ہے۔ ان کے استدلال کی انتہا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وجود عالم کی شرط ہے اور وہ عالم کو اسی طرح متحرک رکھتا ہے، جیسے معشوق عاشق کو۔ اس کو ایک مثال کے ذریعہ ذہن نشین کر سکتے ہیں ، مثلاً ایک شخص لذیذ کھانے کو دیکھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھائے یا محب محبوب کو دیکھ اس کی طرف حرکت کرے، ظاہر ہے کہ دونوں مثالوں میں حرکت کی علت لذیذ کھانا اور محبوب کا وجود ہے۔

مندرجہ بالا بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک حرکت افلاک کا محدث و خالق فلک کے سوا اور کوئی نہیں ، جس طرح قدریہ کے نزدیک حیوان کے افعال کا خالق بھی حیوان ہی ہے۔ بنا بریں فلاسفہ کے نزدیک فلک ایک بڑے حیوان کی حیثیت رکھتا ہے۔بلکہ ان کا کہنا ہے کہ فلک علت اولی کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے حرکت کرتا ہے۔ کیونکہ علت اولی اس کا معبود اور محبوب ہے۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ فلسفہ یہ حسب طاقت الٰہ سے تشبہ ہے اور درحقیقت ان فلسفیوں کے نزدیک اس عالم کا نہ کوئی رب ہے اور نہ الٰہ اور نہ ہی باقی جہانوں کا کوئی رب ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ لوگ بس یہ ثابت کرتے ہیں کہ الٰہ عالم کے وجود کی شرط ہے اور مخلوق کا کمال اس کے ساتھ مشابہ ہونے میں ہے۔ان کے نزدیک الوہیت کا تصور بس یہی ہے اور یہی ربوبیت ہے۔ اسی لیے ان کا قول یہود و نصاری کے قول سے بھی بدتر ہے۔ یہ معقول و منقول دونوں سے ان سے کہیں زیادہ دُور ہیں ۔ اس کی تفصیل اپنے مقام پر موجود ہے۔

اس سے واضح ہوا کہ فلاسفہ جملہ حوادث عالم کے بارے میں قدریہ کے ہم نواہیں اور بنا بریں [وہ بنی آدم میں سب سے بڑے گمراہ بلکہ ہر]شر و فساد کی جڑ ہیں ۔ فلاسفہ قدریہ کی طرح حوادث کو جسمانی طبائع کی جانب منسوب کرتے ہیں اور ان کے خالق و موجد کو تسلیم نہیں کرتے، زیادہ سے زیادہ وہ خالق کائنات کو وجود عالم کی شرط قرار دیتے ہیں ۔یہ حوادث کا کوئی محدث ثابت نہیں کرتے۔

فلاسفہ کی جہالت و ضلالت:

ان لوگوں کے قول کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ رب العالمین کے وجود کا انکار کرتے ہیں ۔پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو رب العالمین ثابت نہیں کرتے؛ بلکہ ان کے عقیدہ کی انتہاء و غایت اسے اس عالم کے وجود کے لیے شرط قراردینا ہے۔ اور حقیقت میں یہ رب العالمین کو معطل کہتے ہیں ۔ جیسے ان فلاسفہ کا بھی عقیدہ ہے جوفلک کو واجب الوجود بنفسہٖ ٹھہراتے ہیں ۔

البتہ یہ لوگ علت کو ثابت کرتے ہیں ۔ یا تو علت غائیہ کو جو ان کے قدماء کے نزدیک ہے، یا علت فاعلیہ کو جو ان کے متاخرین کے نزدیک ہے۔ جس کی عند التحقیق کوئی حقیقت نہیں ، اس لیے ان میں سے طبائعیوں نے اس پر انکار کیا ہے۔

جب یہ فرض کیا کہ فلک اپنے اختیار سے حرکت کرتا ہے اور اللہ اس کی حرکت کا خالق نہیں تو اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ اس متحرک کی علت علت معشوقہ ہے جو اس کے مشابہ ہے۔ بلکہ یہ جائز ہے کہ متحرک ہی خود محرک ہو۔ یہ بات اپنی جگہ مفصل مذکور ہے۔ جہاں ارسطو کے علم الٰہی کے متعلق عقیدہ کے بطلان کو کئی طرح سے واضح کیا گیا ہے؛ اس سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ فلاسفہ ذات باری کے متعلق جاہل مطلق ہیں ۔ اور انہیں اللہ کی ہستی کا کچھ علم نہیں ۔ فلاسفہ میں سے کچھ لوگ بعض مذاہب کی طرف منسوب ہیں ؛ جیسے کہ کچھ اسلام کی طرف نسبت رکھتے ہیں ؛ مثلاً فارابی، ابن سینا، موسیٰ بن میمون؛اوردیگر یہودی ملحدین اورمتی بن یحییٰ بن عدی اور ان جیسے عیسائی ملحدین۔ یہ ملاحدہ اہل ملل میں سے ہونے کے باوجود الحادو دہریت کے ساتھ ساتھ فہم و فراست سے بیگانہ اور ارسطو کے اتباع سے بھی گئے گزرے ہیں ۔۔ اگرچہ ان لوگوں نے امور طبعیہ و ریاضیہ میں متعدد امور میں ان ملاحظہ سے سبقت کی ہے۔

غرض یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہ لوگ امور الٰہی سے ازحد جاہل اور بے حد گمراہ ہیں کہ ان لوگوں کو اہل ملل کے نور، عقل اور ہدایت سے ایک قسم مل گئی۔ یوں یہ لوگ ان ارسطو وغیرہ سے کم گمراہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن سینا نے علت اولیٰ کے اثبات میں اپنے اسلاف کے طریق سے عدول کر کے معروف طریق کو اختیار کیا جو وجود کی واجب اور ممکن میں تقسیم کا طریق ہے اور یہ کہ ممکن واجب کو مستلزم ہے۔

اس کا اور اس کے متبعین کا یہی طریقہ معروف ہے؛جیسے سہروردی مقتول اور دیگر فلاسفہ ؛ اور ابوحامد، اوررازی، اور آمدی اور دیگر متاخرین اہل کلام کایہی طریقہ ہے۔ جنھوں نے فلسفہ اور کلام کو خلط ملط کر دیا تھا۔

جن نے فلسفہ اور کلام کو خلط ملط کر دیا تھایہ لوگ شدید اضطراب، شکوک اور حیرت میں مبتلا رہے اور جوں جوں ان کا فلسفہ اور کلام میں خلط ملط بڑھتا گیا ان کی ظلمت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جبکہ اہل ملت کے کلام میں داخل ہونے کی بنا پر ان کی ظلمت کم ہوتی گئی جب کہ ان لوگوں کے فلسفیوں کے کلام میں گھستے چلے جانے کی وجہ سے ان کی ظلمت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔

البتہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ ان اہل ملل کے متکلمین میں بھی متعدد اشیاء میں شک و اضطراب ہے اور متعدد مواقع میں حق سے خروج بھی پایا جاتا ہے جبکہ متعدد مواقع میں ہوائے نفس کی اتباع اور حق میں کوتاہی پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے علمائے ملت اور ائمہ دین نے ان کی مذمت بیان کی ہے ؛کیونکہ وہ ان دلائل عقلیہ کی معروفت میں کوتاہ اندیشی سے کام لیا ہے جن کو اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ اور ان بدعتی طرق کی طرف چلے گئے جن میں باطل ہے اور اس کی وجہ سے بعض اس حق سے نکل گئے جو ان میں اور دوسروں میں مشترک تھا۔

لطف یہ ہے کہ بعض متکلمین ان کے زمرہ میں شامل ہو کر توحید باری اور اسماء و صفات الٰہی کے اثبات جیسے اسلامی عقائد کو چھوڑ بیٹھے ۔یہ لوگ صرف توحید ربوبیت کو تسلیم کرتے ہیں ، توحید ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق و رب ہے ظاہر ہے کہ مشرکین بھی اس توحید کے قائل تھے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ لَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ﴾ (لقمان: ۲۵)

’’یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور ہی کہیں گے :اللہ نے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo سَیَقُوْلُوْنَ لِلَّہِ﴾ (المومنون: ۸۷)

’’کہہ ساتوں آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟ ضرور کہیں گے اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘

اور ان مشرکوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

﴿وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْنَo﴾ (یوسف: ۱۰۶)

’’اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، مگر اس حال میں کہ وہمشرک ہوتے ہیں ۔‘‘

اسلاف کی ایک جماعت کا قول ہے: ان سے پوچھا جائے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے اور اس اقرار کے باوجود وہ بتوں کو پوجا کرتے تھے۔

جو توحید بندوں سے مطلوب ہے دراصل وہ توحید الوہیت ہے جس میں توحید ربوبیت بھی داخل ہے۔ تو حید الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے، اسی سے ڈرا جائے اور اسی کو پکارا جائے۔ اسی اللہ کو پکارے اور اللہ اسے ہر شے سے زیادہ محبوب ہو۔ اللہ کے لیے دوسرے سے محبت کریں ۔اور اسی پر بھروسہ کریں ۔ عبادت میں جہاں غایت درجہ کی محبت ہوتی ہے، وہیں اللہ کے آگے غایت درجہ کی ذلت و انکساری بھی ہوتی ہے ۔ لہٰذا مومن بندے اس کی محبت بھی کمال کے ساتھ کرتے ہیں اور اس کے آگے ذلت بھی کمال کی اختیار کرتے ہیں ۔ نہ اس سے منہ موڑتے ہیں ، ان کے ہم سر تجویز کرتے ہیں اور نہ اس کے سوا کسی دوست اور سفارشی بناتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اس توحید کو متعدد مقامات پر بیان کیا ہے۔ یہ قرآن کی وہ مرکزی پلی ہے جو پورے قرآن کا مرکزی محورہے۔ یہ علم اور قول میں اور ارادہ اور عمل میں توحید کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گرامی ہے:

﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌo اَللّٰہُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ ۵ وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌo﴾ (سورۃ الاخلاص)

’’کہہ دے وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ یہ آیات ثلثِ قرآن کے مساوی ہیں ۔ کیونکہ ان میں رب رحمن کی صفت کی بیان ہے۔

قرآن کے ایک ثلث میں توحید، دوسرے ثلث میں قصص اور تیسرے ثلث میں امر و نہی کا بیان ہے۔ کیونکہ یہ کلام اللہ ہے اور کلام یا تو خبر ہوتی ہے یا انشاء ۔ پھر خبر یا تو خالق کے بارے میں ہوتی ہے یا مخلوق کے بارے میں ۔ یوں یہ تین اجزاء ہو گئے۔ ایک خبر میں امر، نہی اور اباحت کا بیان ہے۔ یہ انشاء ہوا۔ دوسرے جز میں مخلوق کی خبر ہے، یہ قصص ہوا۔ اور تیسرے خبر میں خالق کی خبر ہے۔ یہ توحید ہوئی۔ جیسے سورۂ اخلاص میں توحید مذکور ہے۔ جو صرف رب رحمن کی صفت کابیان ہے ہم نے ارشاد نبوی کہ ’’یہ سورت ایک ثلث قرآن کے برابر ہے‘‘[البخارِیِ۶؍۱۸۹کتاب فضائِلِ القرآنِ، باب فضلِ قل ہو اللّٰہ أحد:۵؍۱۱۵۔۱۱۴ِکتاب التوحِیدِ، باب ما جاء فِی دعائِ النبِیِ۔ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ أمتہ ِإلی توحِیدِ اللّٰہِ تبارک وتعالی، مسلِم:۵۵۷، ۵۵۶ کتاب صلاِۃ المسافِرِین، باب فضلِ قِراِۃ قل ہو اللہ أحد، سننِ أبِی داؤود:۲؍۹۷،۹۸ کتاب الوِترِ، باب فِی سورۃِ الصمدِ، سننِ التِرمِذِیِ۲؍۲۴۰،۲۴۳کتاب فضائِلِ القرآنِ، باب ما جاء فِی سورۃِ الإِخلاصِ....، سننِ ابنِ ماجہ: ۲؍۱۲۴۴کتاب الأدبِ باب ثوابِ القرآنِ، المسندِ، ط المعارِفِ:۸۱؍۱۵۲،۱۵۳۔]کی تفسیر میں مفصل کلام ایک مستقل جلد میں کر دیا ہوا ہے۔رہی عبادت، ارادہ اور عمل میں توحید تو جیسے سورۂ کافرون میں ارشاد ہے:

﴿قُلْ ٰٓیاََیُّہَا الْکٰفِرُوْنَo لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَo وَلَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُo وَلَا اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْo وَلَا اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا اَعْبُدُo لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِo﴾ (الکافرون)

’’کہہ دے اے کافرو! میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔ اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم نے کی۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔ تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔‘‘

سو پہلی توحید یہ رب تعالیٰ کے لیے صفات کمال کے اثبات کو متضمن ہے، وہ یوں کہ اس میں رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ کمالیہ کا بیان ہے اور دوسری توحید اخلاصِ دین کو متضمن ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾ (البینۃ: ۵)

’’اور انھیں صرف یہ حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں دین کواس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔‘‘

اب پہلی توحید میں تعطیل سے براء ت ہے تو دوسری توحید میں شرک سے براء ت ہے اور شرک کی اصل یا تو تعطیل ہے جیسے فرعون کی موسی کے سامنے تعطیل اور جناب ابراہیم علیہ السلام سے ان کے رب کے بارے میں جھگڑنے والے کی ان کے سامنے تعطیل، دجال مسیح ضلالت کی اپنے خصم جناب عیسیٰ بن مریم مسیح ہدایت کے سامنے تعطیل۔

صفات باری میں دوسروں کو شریک قرار دینا، یہ عقیدہ امم و اقوام میں تعطیل کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اور مشرک جمہور انبیاء کرام علیہم السلام کے دشمن رہے ہیں جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مخالفین میں معطلہ اور مشرکین دونوں فریق پائے جاتے تھے۔ تعطیل ذات کا عقیدہ تعطیل صفات کی نسبت کم رائج ہوا، تعطیل صفات کا نظریہ تعطیل ذات کو مستلزم ہے، تعطیل صفات کے قائل واجب الوجود کو ان صفات سے متصف کرتے ہیں جو ممتنع الوجود کا خاصہ ہیں ۔

یہ امر قابل غور ہے کہ سلف صالحین میں سے جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ و تابعین کرام سے جتنا بھی زیادہ قریب تھا، وہ اسی قدر توحید و ایمان اور عقل و عرفان سے قریب تر تھا۔ اور جو شخص ان سے جتنا بھی زیادہ دور تھا وہ اسی قدران اوصاف سے بعید تر تھا۔ بنا بریں متکلمین میں سے جو لوگ متاخر تھے، اور جنہوں نے علم الکلام کو فلسفہ سے گڈ مڈ کر دیا۔مثلاً امام رازی، علامہ آمدی اور ان کے نظائر و امثال۔ یہ لوگ اثبات توحید و صفات کمال میں امام جوینی رحمہ اللہ سے کم درجہ کے تھے۔ علی ہذا القیاس اس ضمن میں امام جوینی، قاضی ابوبکر، ابن الطیب رحمہم اللہ اور ان کے معاصرین سے فروتر درجہ کے تھے، اور یہ لوگ کسی طرح بھی امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ [متکلمین کے احوال و کوائف سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص دو حقیقتوں سے کلیۃً آگاہ ہے: ۱۔ پہلی بات یہ ہے کہ متکلمین اسلامی حقائق کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے والوں کے مقابلہ میں کلامی فلسفہ کے اسالیب کو ایک شرعی ضرورت تصور کیا کرتے تھے، البتہ عرصہ دراز تک اسے جاری رکھنے کی بنا پر وہ ان اسالیب و اطوار کے خوگر ہو گئے تھے۔ ۲۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ آگے چل کر جب ان میں پختگی کے آثار پیدا ہوئے تو نور الٰہی کی بدولت ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ ان کلامی مباحث سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ لاحق ہورہا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں ان اسالیب کو ترک کرنے کا میلان پیدا ہوا، اور وہ عقائد میں سلف صالحین کی پیروی کرنے لگے۔ قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہے کہ امام جوینی کی کتاب ’’الرسالۃ النظامیۃ‘‘میں ہے کہ جب ابو جعفر ہمدانی نے علو کے موضوع پر آپ سے تبادلہ افکار کیا تو امام جوینی طریق سلف کی جانب لوٹ آئے تھے، اس سے بھی عمدہ ترین واقعہ یہ ہے جو امام اشعری کو ان کی زندگی کے تیسرے دور میں پیش آیا اور اسی پر۳۲۴ھ میں ان کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا، یہ واقعہ ان کی تصنیف ’’کتاب الابانۃ ‘‘ میں مذکور ہے جو ان کی آخری کتاب ہے۔ (شذرات الذہب: ۲؍ ۳۰۳ نیز مجلۃ الازھر، م:۲۶ ؍ ۳۱۔ ۳۳)۔یہ تیسرا دور ۳۰۳ہجری سے شروع ہوتاہے؛جس میں انہوں نے سلف کی موافقت کی ہے۔]جبکہ امام اشعری کا درجہ ابو محمد بن کلاب سے نیچے ہے اور ابن کلاب اس ضمن میں ائمہ سلف کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتے ۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ متکلمین میں سے جو لوگ تقدیر کے قائل ہیں وہ منکرین تقدیر معتزلہ و شیعہ کی نسبت اثبات توحید و صفات کمال میں ان سے کہیں بہتر ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قائلین تقدیر باری تعالیٰ کے لیے کمال قدرت، کمال مشیت، کمال خلق اور اس کے منفرد ہونے کا اثبات کرتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں کہ وہ تنہا تمام اعیان و اعراض کا خالق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رائے میں قوت اختراع اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت اختراع اللہ تعالیٰ کے جملہ خصائص میں سے ایک ہے اور صرف یہی صفت اس کی خصوصی صفت نہیں ۔

بخلاف ازیں تقدیر کا انکار کرنے والے شیعہ و معتزلہ حیوان کے احوال کو اللہ کی مخلوق قرار نہیں دیتے، دراصل ان کے نزدیک ان حوادث کا کوئی بھی خالق نہیں ، بلکہ ان کو انجام دینے والے اللہ کے شریک ہیں ، جو ان حوادث کے فاعل ہیں ۔ متاخرین قدریہ میں سے بہت سے لوگ بندوں کو ان کا خالق قرار دیتے ہیں ، البتہ متقدمین قدریہ اس سے احتراز کرتے تھے۔

پھر متکلمین اہل اثبات رب تعالیٰ کے لیے خیات، علم، قدرت، کلام، سمع اور بصر جیسی صفاتِ کمال کا اثبات کرتے ہیں ۔ ان لوگوں نے ان صفات کو ثابت تو کیا ہے لیکن بعض صفات کی بابت کوتاہی کر گئے ہیں ۔ چنانچہ ان لوگوں نے توحید میں کوتاہی کی اور یہ سمجھے کہ کمالِ توحید توحید ربوبیت ہے اور اس توحید الوہیت کی جانب نہ بڑھے جس کو اللہ کے پیغمبر لے کر آئے اور جس کو لے کر آسمانی کتابیں اتریں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا زیادہ تر کلام معتزلہ سے ماخوذ ہے اور معتزلہ اس باب میں بے حد کوتاہ ہیں ۔ کیونکہ ان لوگوں نے توحید ربوبیت کا حق ادا نہیں کیا تو بھلا توحید الوہیت کا حق کیونکر ادا کیا ہو گا؟

اس کے باوجود معتزلہ کے شیوخ و ائمہ اور اشعریہ و کرامیہ کے ائمہ توحید ربوبیت کی تضریر میں ان فلسفہ زدہ اشعریہ سے پھر بہتر ہیں جیسے رازی، آمدی اور ان جیسے دوسرے لوگ کہ ان لوگوں نے اس توحید کو ابن سینا جیسے لوگوں کی بیان کردہ توحید کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے۔ جس کا کلام تحقیق توحید سے سب سے زیادہ بعید ہے۔ اگرچہ خود ان کا کلام ان کے اپنے قدماء ارسطو وغیرہ سے بہتر ہے۔

کیونکہ ان لوگوں نے زیادہ سے زیادہ واجب الوجود کو ثابت کیا ہے۔ بے شک یہ بات حق ہے جس میں نہ معطلہ کا اختلاف ہے اور نہ کسی مشرک کا، بلکہ سب کے سب لوگ واجب کے وجود کے اثبات پر متفق ہیں ۔ سوائے چند لوگوں کے جو کہتے ہیں کہ یہ عالم ازخود وجود میں آیا ہے۔ البتہ یہ کسی معروف جماعت کا قول نہیں ۔ اسے صرف مقدر مانا جاتا ہے، جیسے شبہ سو فسطائیہ تاکہ اس کی تحقیق کی جائے۔ یہ بعض لوگوں پر گزرنے والا ایک خیال ہے جیسے جیسا کہ سفسطہ جیسے خیالات لوگوں کے دلوں پر گزرتے ہیں ۔ غرض یہ کسی معرفو جماعت کا قول نہیں ہے۔ اس قول کا فساد اتنا ظاہر ہے کہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ بلا محدث کے حدوث حوادث کا امتناع سب سے زیادہ ظاہر ہے اور یہ نہایت واضح علم ضروری ہے۔

پھر جب ان لوگوں نے واجب بذاتہ کو مان لیا تو اسے ایک اور اکیلا ٹھہرانے کا ارادہ کیا کہ جو صرف اذہان میں پایا جائے نہ کہ اعیان میں اور یہ اطلاق کی شرط کے ساتھ وجود مطلق ہے۔ جس کی خارج میں کوئی حقیقت نہیں ۔ کیونکہ وجود مطلق بشرط الاطلاق صرف اذہان میں پایا جاتا ہے نہ کہ اعیان میں ۔ یا تو سلوب و اضافات کے ساتھ مقید ہوتا ہے جیسا کہ ابن سینا اور اس کے پیروکاروں کا قول ہے اور یہ پہلے قول سے بھی زیادہ تعطیل پر مشتمل قول ہے۔

ان لوگوں نے ان معتزلہ کی مشابہت میں اسے خالص توحید سمجھا جو نفی صفات میں ان کے شریک ہیں اور اسے توحید کا نام دیا۔ پھر یہ لوگ تعطیل میں جسے وہ توحید سمجھتے ہیں ، ایک دوسرے کا مقابلہ اور فخر کرنے لگے کہ کون اس باب میں زیادہ حاذق ہے۔ حتیٰ کہ ان کے اگلوں نے بھی ان کی طرح باہم فخر کیا جیسے ابن سبعین اور جیسے فلسفہ کے پیروکار۔ اور ابن تومرت جیسے جو جہمیہ کے پیروکار ہیں ۔ یہ سب وجود مطلق کے قائل ہیں ۔

پھر ایک دوسرے پر تعطیل کے بارے میں زیادہ باریک بینیاں کر کے فخر کرتے ہیں ۔

چنانچہ ان کے چند لوگ میرے پاس بھی آئے تھے۔ میں نے ان سے بات کی تھی اور میں نے کتابیں لکھ کر ان کے کشف اسرار معرفت توحید اور ان کے فساد کو بیان کیا۔ یہ سمجھتے تھے کہ ان کا کلام لوگ سمجھ نہیں سکتے اور مجھے بھی یہ کہا کہ اگر تم ان کے کلام کی حقیقت کو کھول نہ سکے اور اس کے فساد کو واضح نہ کر سکے تو اس بارے لوگوں کے ردّ کو نہ مانیں گے۔

سو میں نے ان کے مقاصد کے حقائق کو ان پر کھولا اور انھوں نے مانا کہ ان کی مراد یہی ہے اور ان کے سرداروںنے بھی ان کی موافقت کی۔ پھر میں نے ان کے کلام کے فساد و الحاد کو بیان کیا۔ جس پر انھوں نے اپنے عقائد سے رجوع کر لیا اور اب اپنے ملحد اسلاف کے ردّ میں کتابیں لکھنے لگے۔ جو کبھی ان کے نزدیک تحقیق، توحید، عرفان اور یقین کے ائمہ تھے۔

فلاسفہ اور دلائل توحید:

ان فلاسفہ کے پاس اپنی تعطیل زدہ توحید کے زیادہ سے زیادہ اور وزنی دلائل دو ہیں :

اول:....اگر واجب بالذات دو ہوتے تو وجوب میں شریک ہوتے اور ہر ایک دوسرے سے اپنا ایک امتیازی وصف رکھتا اور وصف مشترک، امتیازی وصف سے جدا ہوتا۔ جس سے واجب الوجود کا مرکب ہونا لازم آتا اور مرکب اپنے اجزا کا محتاج ہوتا ہے اور اجزاء مرکب کا غیر ہوتے ہیں اور غیر کا محتاج واجب بالذات نہیں ہو سکتا۔

دوم:....یہ کہ جب وہ دونوں ذاتیں وجود میں متفق ہوں گی اور ہر ایک اپنے امتیازی وصف کے ساتھ دوسری ذات سے جدا ہو گی تو لازم آئے گا کہ مشترک مختص کے ساتھ معلول ہو۔ جیسے دو آدمی انسانیت میں مشترک ہوں اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے سے اپنی شخصیت کی وجہ سے ممتاز ہو گا۔ پس مشترک یہ مختص کے ساتھ معلول ہو گا اور یہ باطل ہے۔ کیونکہ مشترک اور مختص میں سے ہر ایک اگر دوسرے کے عارض ہو تو وجوب کا واجب کو عارض ہونا یا اس کا معروض ہونا لازم آئے گا اور دونوں صورتوں میں وجوب واجب کی صفت لازمہ نہ ہو گی اور یہ محال ہے کیونکہ واجب کا غیر واجب ہونا ممکن نہیں ۔

اگر ہر ایک دوسرے کو لازم ہو تو مشترک کا مختص کی علت ہونا جائز نہ ہو گا۔ کیونکہ جہاں بھی علت پائی جاتی ہے معلول بھی پایا جاتا ہے۔ سو لازم آیا کہ جہاں بھی مشترک پایا جائے گا تو مختص اور مشترک اس میں اور اس میں بھی پایا جائے گا۔ تو لازم آئے گا کہ جو ایک کا مختص ہے وہ دوسرے میں پایا جائے اور یہ محال ہے جو اختصاص کو اٹھا دیتا ہے۔

ابن سینا نے ’’الاشارات‘‘ میں اور اشارات کے شارحین جیسے رازی اور طوسی وغیرہ نے جو کلام ذکر کیا ہے، یہ اس کا اختصار ہے۔ فارابی اور سہروردی وغیرہ فلاسفہ نے بھی ان دونوں دلائل کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ابو حامد غزالی نے بھی ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ میں ان دلائل کو ذکر کیا ہے۔ رازی اور آمدی نے وجوب کے صفت ثبوتیہ ہونے کے منع ہونے کی بابت ان دونوں دلائل کا جواب دیا ہے۔ اگرچہ وہ جواب ہمیں پسند آیا ہے۔ لیکن اس کا جواب دو طرح سے ہے:

۱۔ معارضہ کے طور پر۔ وہ یوں کہ وجود کی دو قسمیں (۱) واجب (۲) اور ممکن ۔اور دونوں میں سے ہر ایک وجود اپنے ایک خاصہ کی وجہ سے دوسرے سے ممتاز ہوتا ہے۔ جس سے لازم آئے گا کہ واجب اس چیز سے مرکب ہے جو اس میں مشترک ہے اور جو اس میں ممتاز ہے۔ اور یہ بھی لازم آئے گا کہ وجود واجب معلول ہو اور معارضہ حقیقت کے ذریعے بھی ہے۔ کیونکہ حقیقت بھی واجب اور ممکن میں تقسیم ہوتی ہے اور واجب اپنے خاصہ کی بنا پر ممکن سے ممتاز ہوتا ہے۔ سو لازم آیا کہ حقیقت واجبہ مشترک اور مختص سے مرکب ہو اور یہ بھی لازم آیا کہ حقیقت واجبہ معلول ہو۔اور معارضہلفظ ماہیت کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے، وہ یوں کہ ماہیت واجب اور ممکن میں تقسیم ہوتی ہے۔ الی آخر الکلام۔

۲۔ دوسرا حل شبہ کے طور پر۔ وہ یوں خارج میں موجود دو چیزیں ، چاہے وہ دونوں واجب ہوں یا ممکن، اور چاہے وہ دونوں موجود جسم ہوں یا جوہر، حیوان ہوں یا انسان وغیرہ وغیرہ کہ خارج میں دونوں میں سے کوئی ایک چیز دوسری کو اپنے خصائص میں شریک نہ کرے گی۔ نہ وجوب میں ، نہ وجود میں ، نہ ماہیت میں اور نہ کسی اور چیز میں ۔ وہ صرف اس کے ساتھ اس چیز میں مشابہ ہو گی۔

وہ مطلق جس میں وہ شریک ہوں گی، وہ خارج میں کلی مشترک نہ ہو گا مگر ذہن میں ۔ اور وہ خارج میں کلی عام مشترک نہ ہو گا بلکہ جب یہ کہا جائے گا کہ دو واجب جب وجوب میں مشترک ہوتے ہیں تو لازم ہے کہ ہر ایک دوسرے سے اپنی خصوصیت کے ساتھ ممتاز ہو اور یہ اس کہنے کی طرح ہے: جب دونوں حقیقت میں مشترک ہوں گے تو ضروری ہے کہ ہر ایک اپنی خصوصیت کے ساتھ دوسرے سے ممتاز ہو۔

سو حقیقت حقیقت عامہ بھی ہوتی ہے اور حقیقت خاصہ بھی۔ جیسا کہ وجوب عام بھی ہوتا ہے اور خاص بھی۔ اب عام مشترک نہ ہو گا۔ مگر ذہن میں اور خارج میں صرف خاص ہو گا جس میں کوئی اشتراک نہیں ہوتا اور جس میں اشتراک ہو اس میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا اورجس میں امتیاز ہو، اس میں اشتراک نہیں ہوتا۔ سو اب خارج میں ایسی کوئی شے واحد نہ رہ گئی جس میں مشترک اور ممیز دونوں ہوں ۔ البتہ اس میں وصف ہوتا ہے جس میں دوسرا اس کے مشابہ ہوتا ہے اور ایسا وصف بھی ہوتا ہے جس میں دوسرا اس کے مشابہ نہیں ہوتا۔

ان لوگوں نے الٰہیات میں بھی ویسی ہی غلطی کی ہے جیسی انھوں نے منطق کی کلیات: جنس، نوع، فصل، خاصہ اور عرضِ عام وغیرہ میں کی ہے۔ وہ یوں کہ انھیں اس بات کا وہم ہوا کہ خارج میں کلی مشترک پائی جاتی ہے۔ ہم نے اس پر تنبیہ کر دی ہے اور واضح کر دیا ہے کہ خارج میں کلی مشترک کا کوئی وجود نہیں ۔ مگر مختص پایا جاتا ہے جس میں کوئی اشتراک نہیں ہوتا۔ اور اشتراک، عموم او کلیت وجود کو تب عارض ہوتی ہے جب وہ خارج میں نہ ہو بلکہ ذہن میں ہو۔ ان لوگوں نے کلی کی تین اقسام کر دی ہیں : (۱) طبیعی (۲) منطقی اور (۳) عقلی

کلی طبیعی:....یہ مطلق ہے جو کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ۔ جیسے انسان ’’من حیث ہو ہو‘‘ اپنی جمیع قیود سے قطع نظر۔ 

کلی منطقی:....یہ عام اور خاص اور کلی اور جزئی ہے۔ سو نفس وصف کلی یہ منطقی ہے۔ کیونکہ منطقی میں قضایا پر اس اعتبار سے بحث کی جاتی ہے کہ یہ قضیہ کلیہ ہے یا جزئیہ۔

کلی عقلی:....یہ دو باتوں کا مجموعہ ہے اور یہ انسان کا عام اور مطلق ہونے کے ساتھ موصوف ہونا ہے۔ ان کے نزدیک یہ کلی صرف ذہن میں ہی پائی جاتی ہے۔ البتہ افلاطون کے حواریوں سے امثلہ افلاطونیہ حکایت کی جات یہیں جن کا باطل ہونا بے غبار ہے۔ کیونکہ خارج میں عام نہیں پایا جاتا اور رہی کلی منطقی تو وہ بھی صرف ذہن میں پائی جاتی ہے۔ البتہکلی طبیعی کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ خارج میں پائی جاتی ہے۔ پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ انسان ہے تو اس میں انسان ’’من حیث ہو ہو‘‘ ہوتا ہے لیکن کہا جائے گا کہ یہ خارج میں ثابت ہے۔ لیکن تعیین اور تخصیص کی قید کے بغیر۔ ناکہ اطلاق کی قید کے ساتھ، اور مطلق لا بشرط ہو گا۔ سو خارج میں نہ تو مطلق لا بشرط ہوتا ہے اور نہ مطلق بشرط الاطلاق ہوتا ہے۔ بلکہ خارج میں معین اور مخصص ہوتا ہے۔

پس ذہن جسے مطلق لا بشرط التقیید مانتا ہے، وہ خارج میں بشرط التقیید ہوتا ہے دراصل ان لوگوں پر اذہان کی چیزیں اعیان کے ساتھ مشتبہ ہو گئی ہیں ۔ ہم نے ایک اور جگہ اس کی تفصیل بیان کر دی ہے اور منطقیوں کی اس غلطی پر تنبیہ کر دی ہے جس کی بنا پر وہ امور الٰہی اور طبیعیہ میں گمراہ ہوئے ہیں ۔ جیسے صرف عقل میں موجود امورِ عقلیہ کو خارج میں موجود امور سمجھ لینا وغیرہ کہ جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔

الٰہیات پر بحث کرنے والے منطقی یہ بھی کہتے ہیں کہ کلیات صرف اذہان میں ہوتی ہیں نہ کہ اعیان میں ۔ چنانچہ ان کا ایک جگہ کا کلام خود ان کے دوسری جگہ کے کلام کی خطا کو واضح کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ نے اپنے بندوں کو صحت و سلامتی پر پیدا کیا ہے، جبکہ فسادِ فطرت عارضی ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ آدمی کے اپنے فاسد کلام میں ہی ایسی بات مل جاتی ہے جو اس کے پہلے کلام کے فاسد ہونے کو بتلاتی ہے۔ یوں دونوں کلاموں میں تناقض سامنے آ جاتا ہے۔

غرض یہاں ان فلسفیوں کی توحید پر تنبیہ کرنا مقصود ہے۔ یہ لوگ لفظ واجب میں اسی بات کو پہنچے جس کو معتزلہ لفظ قدیم میں پہنچے۔ سو انھوں نے کہا کہ واجب ایک ہی ہو گا۔ اس کی کوئی صفت ثبوتیہ نہ ہو گی۔ جیسا کہ ان لوگوں نے کہا کہ قدیم صرف ایک ہو گا اور اس کی کوئی صفت ثبوتیہ نہ ہو گی۔ جس سے ان فلسفہ زدہ متاخرین متکلمین کے کلام کا بطلان ظاہر ہو گیا۔ جنھوں نے فلسفہ اور کلام کو ایک کر دیا اور ان کے کلام کی خطا و غلطی بھی سامنے آ گئی جنھوں نے تصوف میں فلسفہ گھسا دیا۔ جیسے ’’صاحب مشکاۃ الانور‘‘ اور ’’الکتب المضنون بہا علی غیر اہلہا‘‘ وغیرہ۔اور ان جیسی دیگر کتب۔ اس مسئلہ پر کئی مقامات پر تفصیل سے گفتگو ہوچکی ہے۔ 

برہان تمانع:

حتی کہ یہ متاخرین اپنے متقدمین کی دلیل توحید کی تقریر تک نہ پہنچ سکے اور وہ ہے دلیل تمانع ۔ انھیں اس دلیل میں اشکال پیش آیا اور یہ سمجھے کہ شاید یہ دلیل قرآن کی اس آیت میں مذکور ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا﴾ (الانبیاء: ۲۲)

’’اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔‘‘

حالانکہ بات یوں نہیں ۔ بلکہ یہ لوگ معرفت قرآن سے قاصر رہ گئے ہیں اور یہ متاخرین ان کوتاہ بینوں کے کلام کے سمجھنے سے بھی قاصر رہے ہیں ۔ سو جب یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی تعلیمات کو سمجھنے سے قاصر رہے تو ان باتوں کی طرف پھرے جنھوں نے انھیں سوائے حیرت و شک ضلالت و غوایت کے اور کچھ نہیں دیا۔ جس کی تفصیل اپنے مقام پر موجودہے۔ لیکن ہم یہاں اس پر تنبیہ کریں گے۔

متکلمین کے نزدیک مشہور دلیل تمانع یہ ہے کہ اگر اس عالم ارضی کے دو صانع ہوتے تو ان میں سے ایک کسی بات کا ارادہ کرتا تو دوسرا اس کی مخالفت کرتا، مثلاً ایک چاہتا کہ آفتاب مشرق سے طلوع ہو اور دوسرا چاہتا کہ مغرب سے، ظاہر ہے کہ دونوں کا ارادہ پورا نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ یہ جمع بین الضدین ہے، بنا بریں جس کی بات پوری نہ ہو گی، وہ رب نہیں ہو سکتا۔ یا دونوں میں سے کسی ایک کی مراد حاصل ہوتی اور دوسرے کی نہ ہوتی۔ تو رب وہ ٹھہرتا جس کی مراد حاصل ہوئی ہے نہ کہ دوسرا۔ اس کی تاکید یہ کہہ کر ہو سکی ہے کہ جب ایک نے ایسی بات کا ارادہ کیا کہ محل دونوں سے خالی نہ ہوتا۔ اسی طرح دونوں خداؤں میں سے ایک جب کسی چیز کو حرکت دینا چاہے اور دوسراا سی چیز کو ساکن کرنا چاہے تو بھی یہی صورت ہوگی۔یا تو دونوں کی مراد پوری ہونا ممتنع ٹھہرے گی۔ جبکہ دونوں کی مراد کا عدم بھی ممتنع ہے۔کیونکہ جسم حرکت اور سکون دونوں سے خالی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا دونوں میں سے ایک کی مراد کا حصول متعین ہو گیا اور وہی رب کہلائے گا۔

اس تقریر پر ایک مشہور سوال ہوتا ہے، وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ:

٭ دونوں خداؤں کے ارادے باہم متحد بھی ہو سکتے ہیں ؟تب کہاں کا اختلاف؟

٭ متاخرین نے اس سوال کے متعدد جوابات دئیے ہیں جو خود یہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ رکھتے ہیں ۔ اور یہ لوگ قدماء کی تقریر پر مطلع نہیں ہو سکے۔ جیسے اشعری، قاضی ابوبکر، قاضی ابو الحسین بصری اور قاضی ابویعلی وغیرہ۔ کیونکہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ارادہ میں دونوں کے اتفاق کا وجوب دونوں کے عجز کو مستلزم ہے۔ جیسے دونوں کا تمانع دونوں کے عجز کو مستلزم ہے۔پھر ان میں سے کسی نے اس تقریر کا ذکر کرنے سے اعراض کیا ہے کیونکہ اس کا مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ دونوں کا فرض کرنا دونوں کے عجز کا تقاضا کرتا ہے۔اگر کہا جائے کہ دونوں میں سے کسی ایک کے لیے دوسرے کی مخالفت ممکن نہیں ، تو یہ اس کے عجز میں زیادہ ظاہر ہے ۔ان میں کوئی تو اس کو بیان کرتا ہے، جیسے انھوں نے دونوں میں سے ہر ایک کے استقلال کے امتناع کو بیان کیا ہے۔

اس کے جواب میں یہ بھی کہتے ہیں : دو رب فرض کرنے کی صورت میں یا تو ان میں سے ہر ایک بذات خود قادر ہوگا یا دوسرے کے ساتھ ملے بغیر قدرت سے بہرہ ور نہ ہوگا، بصورت ثانی وہ ممتنع لذاتہٖ ہوگا، نیز اس سے علت و فاعل دونوں میں دور لازم آئے گا۔ اس کی وجہ اس امر کا امکان ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو قادر بنایا ہو۔ یہ بات مسلم ہے کہ دونوں خداؤں میں سے ہر ایک اسی صورت میں فاعل ہوسکتا ہے جب وہ قدرت سے بہرہ ور ہو۔ جب دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو قادر بنایا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر ایک نے دوسرے کو فاعل بھی بنایا یعنی رب ہونے میں اس کی مدد کی، کیونکہ رب کا تو خود قادر ہونا لازم ہے۔ سو یہ ایک اس دوسرے کو فاعل قادر اور رب بنائے گا۔ اسی طرح یہ دوسرا اس پہلے کو؛ ظاہر ہے کہ جب دونوں رب واجب و قدیم تھے تو وہ ایک دوسرے کے محتاج کیوں کر ہوئے، یہ بداہۃً ممتنع ہے۔

کیونکہ ان میں سے ایک اس وقت تک قادر، رب اور فاعل نہ بنے گا جب تک اسے وہ دوسرا اس قابل نہ بنائے۔اسی طرح وہ دوسرا پہلے کو جب تک قادر وغیرہ نہ بنائے وہ پہلا رب نہ بنے گا ۔اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے: ’’یہ پہلا اس وقت تک موجود نہ ہو گا جب تک وہ دوسرا اسے موجود نہ بنائے۔‘‘ اور اس کا ممتنع ہونا لازم ہے۔ جیسا کہ گزشتہ میں اس کی طرف اشارہ گزرا ہے۔ وہ یہ کہ دورِ قبلی کے ممتنع لذاتہ ہونے پر عقلاء کا اتفاق ہے۔ جیسے کہ علل اور فاعلین میں دور ممتنع ہے۔ لہٰذا دونوں میں سے ہر ایک کا دوسرے کے لیے علت ہونا یا اس کے لیے فاعل ہونا یا علت اور فاعل کا جزء ہونا ممتنع ہوتا ہے۔ تو جب دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر قادر یا فاعل نہیں تو لازم آیا کہ دونوں میں سے ہر ایک علت فاعلہ ہو یا اس کے تمام کی علت ہو جس کے ذریعے دوسرا فاعل قادر بنتا ہے اور یہ عقلاء کا اتفاق ہے کہ بالضرور ممتنع ہے۔ پس لازم آیا کہ رب قادر بنفسہٖ ہو اور جب وہ قادر بنفسہٖ ہو گا۔ پھر اگر تو اسے دوسرے کے ارادہ کے خلاف ارادہ ممکن ہوا تو دونوں میں اختلاف ممکن ہوا اور اگر اسے یہ ممکن نہ وا اور صرف وہی ہو گا جو دوسرا ارادہ کر لے گا تو یہ عاجز ٹھہرا۔

اگر فرض کیا کہ اسے صرف وہی ارادہ اور فعل ہی ممکن ہے جو دوسرے کا ارادہ اور فعل ہے تو اس میں دونوں کا عجز لازم آیا۔ بلکہ یہ بھی ممتنع لنفسہٖ ہوا۔ اسی طرح اگر دوسرا جب تک قادر نہ ہو یہ پہلا قادر نہ ہو گا تو یہ ممتنع لذاتہ ہو گا اور اگر یہ تب ہی ممکن ہو جب دوسرا ممکن بنائے تو یہ اس کہنے کے بمنزلہ ہے کہ ’’پہلا تب ہی قادر بنے گا جب دوسرا اسے قادر بنائے گا۔‘‘

دوسرے اس تقریر پر دونوں میں سے ہر ایک کے لیے مانع دوسرا ہو گا۔ پھر دونوں میں سے ہر ایک مانع بھی ہو گا اور ممنوع بھی اور مانع تب مانع ہوتا ہے جب وہ منع پر قادر ہو اور جو دوسرے کو فعل سے منع کرنے پر قادر ہو، تو اس کی فاعل ہونے پر قدرت بدرجہ اولیٰ ہو گی۔ سو دونوں میں سے ہر ایک فاعل نہ بنے گا یہاں تک کہ وہ فعل پر قادر ہو اور جب وہ فعل پر قادر ہو گا تو اس کا ممنوع ہونا ممتنع ہو گا۔ سو دونوں میں سے ہر ایک کا مانع اور ممنوع دونوں ہونا ممتنع ہوا اور یہ دونوں کے ایک فعل پر اتفاق کے وجوب کو لازم ہے۔ سو معلوم ہو گیا کہ دونوں کا ایک فعل کے اتفاق پر وجوب ممتنع ہے اور دونوں کے اختلاف کا امکان ثابت ہو گیا۔ سو جب دونوں کے اتفاق کا لزوم فرض کیا جائے گا تو یہ ممتنع لذاتہ ہو گا۔ ہاں یہ مخلوقین میں ممکن ہے۔ کیونکہ ان کی قدرت غیر سے مستفاد ہوتی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک قادر نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ دوسرا قادر ہو۔ تو یہاں ایک تیسرے کا ہونا ممکن ٹھہرا جو دونوں کو قادر بنائے۔ یہیں سے ایک مخلوق کا دوسری مخلوق کے لیے معاون ہونا ممکن ہوا۔ جبکہ خالقوں پر معاونت ممتنع ہے۔ کیونکہ معاون مخلوق میں سے ہر ایک کو غیر سے قدرت حاصل ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ قادر بنتا ہے۔ کیونکہ دونوں میں سے ہر ایک کو دوسرے کی اعانت سے قبل قدرت تھی اور دونوں کے اجتماع کے وقت دونوں میں سے ہر ایک کی قدرت دوسرے کی قوت سے مل کر اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ جیسے دو ہاتھ جو ایک دوسرے سے مل کر وقت میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ دونوں میں سے ہر ایک کی قدرت ہوتی ہے جو ملنے پر بڑھ جاتی ہے۔ سو دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو دینے والا بھی ہے اور اس سے لینے والا بھی ہے۔ جس سے اجتماع کے وقت قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔جبکہ یہ خالقوں میں ممتنع ہے۔ کیونکہ خالقِ قدیم واجب لنفسہ کی قوت اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے جس کا غیر سے مستفاد ہونا جائز نہیں ۔ کیونکہ اگر دونوں میں ہر ایک انفرادی طور پر قادر ہے تو عندالانفراد اسے ممکن ہے کہ جس پر اسے قدرت ہو، وہ اس کو کر لے اور اس کے فعل میں دوسرے کی معاونت مشروط نہ ہو گی اور اس وقت دونوں میں سے ہر ایک کو وہ کرنا ممکن ہو گا جو دوسرے کا اراد ہو۔ یا وہ کرنا ممکن ہو گا کہ دوسرے کا ارادہ اس کے خلاف ہو۔ اور اگر انفراد کے وقت وہ قادر نہیں تو اجتماع کے وقت دونوں کو قوت حاصل ہونا ممتنع ہو گا کیونکہ اس میں دور ہے۔ کیونکہ ایک اس وقت تک قادر نہیں یہاں تک دوسرا قادر ہو اور تیسرا کوئی ہے نہیں جو ان دونوں کو قادر بنائے۔ لہٰذا دونوں میں سے کوئی بھی قادر نہ بنے گا۔

دو مخلوق جنہیں عندالانفراد قوت نہیں ہوتی، انہیں اجتماع کے وقت تبھی قوت حاصل ہو گی جب وہ ان دونوں کے علاوہ سے ہو اور دو خالقوں کے لیے کوئی ایسا تیسرا ہونا ممکن نہیں جو ان دونوں کو قوت دے۔ لہٰذا دونوں کا عندالانفراد قادر ہونا لازم ہوا۔

اگر یہ کہا جائے کہ دونوں میں سے ایک اس پر قادر ہے جس پر دوسرا موافق ہو۔ تو یہ اس دوسرے کی موافقت سے ہی قادر بنے گا۔

اگر یہ کہا جائے کہ ایک اس امر پر قادر ہے جس میں دوسرا مخالفت نہیں کرتا تو دونوں میں سے ہر ایک اپنے مقدور سے دوسرے کو مانع ہو گا، تب بھی دونوں میں سے کوئی قادر نہ ہو گا۔پھر یہ بھی کہ اس کا اُس کو منع کرنا بھی قدرت سے ہی ہو گا اور اُس کا اِسے منع کرنا بھی قدرت سے ہی ہو گا۔ لہٰذا لازم آئے گا کہ تمانع کے حال میں دونوں میں سے ہر ایک قادر ہو گا اور یہ مخالفت کے وقت ہے۔ سو دونوں اتفاق کے وقت اور اختلاف کے وقت قادر ہوں گے۔ پھر یہ کہ ایک اس وقت تک ممنوع نہ ہو گا جب تک کہ اسے دوسرا منع نہ کرے۔ اسی طرح اس کے برعکس ہو گا۔ لہٰذا دونوں میں سے ایک دوسرے کے منع کرنے سے ہی ممنوع ہو گا اور یہ کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے مانع ہو گا۔ پس دونوں میں سے ہر ایک مانع بھی ہو گا اور ممنوع بھی اور یہ جمع بین النقیضین ہے۔

غرض یہ اور ان کے علاوہ دوسری وجوہ بتلاتی ہیں دو ایسے رب کا ہونا ممتنع ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا معاون ہو، یا ہر ایک دوسرے کے لیے مانع ہو، سو صرف یہ صورت ہی باقی رہ جائے کہ دونوں میں سے ہر ایک قادرِ مستقل ہو کہ اب دونوں میں اختلاف ممکن ہے اور جب دونوں اختلاف کریں تو لازم آئے گا کہ دونوں میں سے کوئی کچھ نہ کرے۔ کہ اس سے دونوں کا عجز لازم آئے گا اور یہ بھی لازم آئے گا کہ دونوں میں سے ہر ایک مانع بھی ہو اور ممنوع بھی۔

پس دو رب کا ممتنع ہونا واضح ہو گیا۔ چاہے دونوں متفق ہوں یا ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہوں ، اور جب یہ فرض کیا جائے کہ دونوں مستقل بھی ہیں اور خلق عالم میں بھی مستقل ہیں ۔ تو یہ اور بھی زیادہ ممتنع ہے۔ کیونکہ دونوں کا استقلال اس سے مانع ہے کہ خلق عالم میں کوئی اس کا شریک ہو۔ تو اس وقت کیا ہو گا کہ جب دونوں میں سے ایکدوسرے کی وجہ سے مستقل ہو؟ سو دونوں میں سے ہر ایک کو مستقل فرض کرنا اس بات کو مقتضی ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک نے یہ فعل مستقل کیا ہو اور دوسرے نے اس میں کچھ بھی نہ کیا ہو۔ سو اس سے دو بار اجتماعِ نقیضین لازم آئے گا۔ اسی لیے یہ بات ممتنع ہو گی کہ دونوں میں سے ہر ایک موثر، تام، مستقل اور ایک اثر پر جمع ہو۔ اس کی مثال میں ہم یہ کہتے ہیں کہ: اس نے یہ کپڑا اکیلے سیا ہے اور اس نے بعینہ وہ کپڑا اکیلے سیا ہے۔ یا: اس نے یہ کھانا اکیلے کھایا ہے۔ یا اس نے بعینہ وہ کھانا اکیلے کھایا ہے۔

یہ سب باتیں تصور کرنے کے بعد عقل بدیہہ کے نزدیک ممتنع ہیں ۔ لیکن بعض لوگ اس کو عمدہ طریق سے تصور نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے ذہن میں لوگوں کے دو شریک آتے ہیں جو ایک فعل میں مشترک ہوں اور دو مشترک میں سے کسی نے بھی وہ فعل اکیلے پورے کا پورا نہیں کیا ہوتا اور نہ اس کی قدرت اشتراک کی وجہ سے حاصل ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ اشتراک سے اس کی قدرت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور دونوں میں سے ہر ایک کو عندالانفراد ایک شی کرنا ممکن ہوتا ہے اور وہ دوسرے کے ارادہ کے خلاف ارادہ کر سکتا ہے۔ پھر اگر اس نے اس کے خلاف کا ارادہ کیا اور دونوں کی قدرت ایک دوسرے کے ہم پلہ ہے، تو دونوں منع ہو جائیں گے اور دونوں کچھ نہ کریں گے اور ایک زیادہ قوی ہوا تو وہ دوسرے پر غالب آجائے گا اور اگر عندالانفراد دونوں میں سے ایک کو قدرت نہیں تو اسے اجتماع کے وقت جو قدرت حاصل ہو گی وہ دوسرے سے ہو گی۔ باوجود یہ کہ اس کا وجود معروف نہیں ۔ بلکہ معروف ی ہے کہ عندالانفراد دونوں میں سے ہر ایک کو قدرت حاصل ہو۔ جو اجتماع کے وقت کامل ہو جائے گی۔

یہ بھی کہ فعل اور مفعول میں مشترک کے لیے لازم ہے کہ ہر ایک کا فعل دوسرے سے ممتاز ہو اور بعینہ شیء واحد مشترک نہ ہو۔ وہ یوں کہ دونوں نے اس کو کیا ہو۔ کہ یہ بھی ممتنع ہے جیسا کہ گزرا۔ پھر اگر دو رب ہوتے تو دونوں میں سے ہر ایک کی مخلوق دوسرے کی مخلوق سے ممتاز ہوتی۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (المومنون: ۹۱)

’’اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا اور یقیناً ان میں سے بعض بعض پر چڑھائی کر دیتا۔‘‘

اس آیت میں رب تعالیٰ نے دو مفعول کے امتیاز کے وجوب کو دونوں میں سے ایک کے دوسرے پر غالب آ جانے کے وجوب کو ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ اس کی تقریر گزر چکی ہے اور یہ دونوں باتیں ممتنع ہیں ۔

غرض یہ آئمہ نظار ان جیسے طرق سے توحید ربوبیت کو بیان کرتے ہیں ۔ یہ طرق صحیح اور عقلی ہیں لیکن یہ متاخرین ان طرق کی توجیہ و معرفت کی راہ نہیں پا سکے۔

پھر یہ متقدمین متکلمین گمان کرتے ہیں کہ یہ قرآنی طرق ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ۔ بلکہ قرآن نے اس توحید الوہیت کو پختہ کیا ہے جو توحید ربوبیت کو متضمن ہے اور قرآن نے اس کو ان لوگوں سے زیادہ کامل بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِِلٰہٍ اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (المومنون: ۹۱)

’’اللہ نے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی اس کے ساتھ کوئی معبود تھا، اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا اور یقیناً ان میں سے بعض بعض پر چڑھائی کر دیتا۔‘‘

رب تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات پر دو یقینی برہان پیش کیے ہیں کہ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ نہیں ۔ وہ دو برہان یہ ہیں :

﴿اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (المومنون: ۹۱)

یہ بات معروف ہے کہ ہر الٰہ اپنی مخلوق کو نہیں لے گیا اور نہ ایک سے زیادہ الٰہ ایک دوسرے پر غالب آئے ہیں اور اس کے ذکر کو اس لیے ترک کیا کیونکہ مخاطبین اس کو جانتے ہیں اور یہ کہ اس کا ذکر بے جا کی تطویل تھا۔ یہ ہے قرآن کا طریقہ جو صحیح اور فصیح و بلیغ ہے۔ بلکہ خطاب میں خود عوام کا یہ طریق ہے کہ وہ محتاجِ بیان مقدمہ کو تو ذکر کرتے ہیں اور جس کے بیان کی احتیاج نہ ہو اسے ترک کر دیتے ہیں ۔

جیسے یہ کہا جائے کہ تم یہ کیوں کہتے ہو کہ ہر نشہ لانے والی شی حرام ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحیح حدیث میں ارشاد منقول ہے:

’’ہر نشہ نے والی شی شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘[صحیح مسلم: کتاب الاشربۃ، باب بیان ان کل مسکر خمر۔]

یہ بات معلوم ہے کہ قولِ رسول حجت اور واجب الاتباع ہے کہ اس کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اسی کے مثل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا﴾ (الانبیاء: ۲۲)

’’اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔۔‘‘

یعنی جب دونوں نہیں بگڑے تو معلوم ہوا کہ دونوں میں اللہ کے سوا اور الٰہ نہیں ہیں اور یہ بات اس قدر واضح ہے کہ محتاجِ بیان نہیں ۔ کیونکہ خطاب سے مقصود بیان ہوتا ہے اور واضح کو بیان کرنا بسا اوقات ایک قسم کا ضیاعِ وقت بن جاتا ہے اور بیانِ دلیل کبھی ایک مقدمہ کا محتاج ہوتا ہے اور کبھی دو مقدمات کا اور کبھی تین کا اور کبھی اس سے زیادہ کا سو مستبدل اتنے ہی مقدمات بیان کرتا ہے جن کی احتیاج ہوتی ہے۔

رہی منطقیوں کی یہ بات کہ ہ دلیل نظری میں دو مقدمات کا ہونا ضروری ہے کہ نہ اس سے زیادہ کی ضرورت اور نہ اس سے کم پر گزارہ اور جب ایک مقدمہ پر اکتفاء کیا جائے تو کہتے ہیں کہ دوسرا مقدمہ حذف ہے اور اسے قیاسِ ضمیر کا نام دیتے ہیں ۔ اور اگر تین یا چار مقدمات ہوں تو کہتے ہیں : یہ قیاسات ہیں نا کہ ایک قیاس۔ یہ نرا دعویٰ ہے۔ جس کی کوئیعقلی دلیل نہیں اور نہ کس عادتِ عامد کی طرف اس کی استناد ہے۔ ہم نے ایک مقام پر اس بحث کو مفصل بیان کر دیا ہوا ہے۔رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

﴿اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (المومنون: ۹۱)

جب یہ لازم منتفی ہوا تو ملزوم بھی منتفی ہوا۔ جو اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ کا ثبوت ہے اور تلازم کا بیان یہ ہے کہ جب اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ ہوں گے تو اللہ کا خلق عالم میں مستقل ہونا ممتنع ٹھہرے گا۔ جبکہ اللہ ہی خلق عالم میں مستقل ہے۔ جیسا کہ گزرا کہ اس کا فاسد ہونا ہر عاقل کے نزدیک ضروری طور پر معلوم ہے اور یہ کہ یہ جمع بین النقیضین ہے۔

یہ بھی ممتنع ہے کہ دو رب میں سے ایک دوسرے کا مشارک اور معاون ہو کہ اس سے دونوں کا عجز لازم آتا ہے اور عاجز کوئی شی نہیں کرتا۔ لہٰذا نہ تو وہ رب ہو گا اور نہ الٰہ۔ کیونکہ جب ان میں سے ایک دوسری کی اعانت سے ہی قادر بنے گا تو انفرادی حالت میں اس کا عجز لازم آیا اور اس کا اجتماع کے حال میں قادر ہونا بھی ممتنع ٹھہرا۔ کیونکہ یہ ’’دورِ قبلی‘‘ ہے۔ کیونکہ ان میں سے ایک دوسرے کے قادر بنائے بغیر قادر نہ بنے گا۔ یا اس کی مدد کے بغیر قادر نہ بنے گا۔

پس جب اس کے ساتھ دوسرے الٰہ کو فرض کیا جائے گا تو لازم ہو گا کہ عندالانفراد سب قادر ہوں اور ایسا ہے نہیں ۔ لہٰذا یہ قول باطل ٹھہرا۔

اسی طرح اگر ایک کا فعل دوسرے کے فعل کو مستلزم ہو، وہ یوں کہ جب تک دوسرا فعل نہ کر لے یہ فعل نہ کرے گا تو لازم آئے گا کہ دونوں میں سے ہر ایک عندالانفراد غیر قادر ہے اور دونوں اصل فعل میں تعاون کے محتاج ٹھہریں گے اور یہ بالضرور ممتنع ہے۔

غرض واضح ہو گیا کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ ہوتے تو ہر ایک اپنی اپنی مخلوق لے کر چلتا بنتا۔ لیکن ایسا غیر واقع ہے۔ کیونکہ عالم کی ہر چیز دوسرے کے ساتھ مرتبط ہے۔ جیسا کہ گزرا۔ اس لیے جب دو متعاون ایک کام کریں گے دونوں میں سے ہر ایک کے ساتھ قائم فعل دوسرے کے فعل سے ممتاز ہو گا۔

رہا وہ جو اس سے خارج میں حادث ہوتا ہے۔ تو وہ کسی کو ممکن نہیں بنائے گا کہ وہ اپنے سے منفضل شی کے ساتھ مستقل ہو۔ بلکہ اس کا ایک معاون ہونا بقول اس کے ضروری ہے یہ جو کہتا ہے کہ: بندے کا فعل مباشر اور غیر مباشر میں منقسم ہوتا ہے اور رہا وہ جو یہ کہتا ہے کہ اس کا فعل اس کے محل قدرت سے خارج نہیں ہوتا، سو اس کا کوئی منفصل منعول نہیں ہے پھر جب ایک کا مفعول دوسرے کے مفعول سے خلط ملط ہو جائے گا۔ جیسے دو لکڑیاں اٹھانے والے تو اجتماع کے وقت دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا محتاج ہو گا اور ہر ایک کی انفرادی اور اجتماعی حالت میں ایک خاص قدرت ہو گی جو اس کے لیے یہ ممکن بنائے گی کہ وہ اس قدرت کے ذریعے وہ فعل کرے جس سے وہ دوسرے سے منفرد اور ممتاز ٹھہرے۔ لہٰذا دونوں میں سے ہر ایک کے لیے ایسا فعل ہونا لازم ہے جو اس کیساتھ خاص ہو اور دوسرے کے فعل سے ممتاز ہو۔ لہٰذا دو الٰہ مقصود نہ ہوں گے؛حتی کہ ایک کا مفعول دوسرے کے مفعول سے ممتاز ہو۔ پھر ہر ایک اپنی اپنی مخلوق کو لے جائے۔ توجب لازم منتفی ہے تو ملزوم بھی منتفی ہوا۔

رہی دوسری دلیل تو وہ یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (المومنون: ۹۱)

’’اور یقیناً ان میں سے بعض بعض پر چڑھائی کر دیتا۔‘‘

دونوں کا قدرت میں مساوی ہونا ممتنع ہو گا۔ کیونکہ جب وہ قدرت میں برابر ہوں گے تو دونوں میں سے ہر ایک کا مفعول دوسرے سے ممتاز ہو گا اور یہ باطل ہے جیسا کہ گزرا۔ دوسرے یہ کہ جب دونوں قدرت میں ہم پلہ ہوں گے تو اتفاق اور اختلاف دونوں حالتوں میں کچھ نہ کریں گے۔ چاہے دونوں کو اتفاق لازم ہو یا اختلاف۔ یا دونوں باتیں جائز ہوں ۔

کیونکہ جب یہ فرض کیا جائے گا کہ دونوں کو اتفاق لازم ہے تو دونوں میں سے ایک اس وقت ہی کسی بات کا ارادہ اور فعل کرے گا جب دوسرا ارادہ اور فعل کرے گا اور کسی ایک کا تقدم دوسرے کے تقدم سے اولیٰ نہ ہو گا۔ کیونکہ دونوں مساوی ہیں ۔ سو لازم آیا کہ دونوں میں سے کسی کا فعل نہ ہو۔

اگر فرض کیا کہ ایک کا فعل و ارادہ دوسرے کے فعل و ارادہ کے مقارن ہے تو تقدیر یہ ہو گی کہ تو وہ دوسرے کے بغیر ارادہ اور فعل نہ کر سکے گا اور اب اس کا فعل و ارادہ دوسرے کے فعل و ارادہ کے ساتھ مشروط ہو گا۔ جس کے بغیر وہ فعل و ارادہ سے عاجز ہو گا۔ سو دونوں میں سے ہر ایک حالِ انفراد میں عاجز ہو گا اور یہ کہ حالِ اجتماع میں دونوں کا قادر بن جانا بھی ممتنع ہو گا جیسا کہ گزرا۔

جب دونوں کو اختلاف لازم ہو گا۔ تو نساوی کے ہوتے ہوئے دونوں کا کوئی فعل کرنا ممتنع ٹھہرے گا۔ کیونکہ دونوں کے ہم پلہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک دوسرے کو روکے گا۔ لہٰذا دونوں کوئی فعل نہ کریں گے۔ پھر یہ کہ ایک کا امتناع دوسرے کے منع کرنے کے ساتھ مشروط ہے۔ تو ایک جب تک دوسرا منع نہ کرے گا ممنوع نہ ہو گا۔ اسی طرح اس کے برعکس۔ جس سے دونوں کا مانع اور ممنوع دونوں ہونا لازم آئے گا جو کہ ممتنع ہے۔

یہ کہ ہر ایک کی قدرت کا زوال حالِ تمانع میں ، دوسرے کی قدرت سے ہی ہو گا۔ ت وجب ایک کی قدرت زائل نہ ہو گی جب تک کہ دوسرے کی قدرت اسے زائل نہ کر دے۔ اسی طرح اس کے برعکس، تو دونوں میں سے کوئی قدرت زائل نہ ہو گی اور دونوں قادر ہوں گے۔

دونوں کا ایک فعل کی قدرت رکھنا اس حال میں کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے منع کرنے کی وجہ سے عاجز اور ممنوع ہو کہ یہ محال ہے۔ کیونکہ یہ سب جمع بین النقیضین ہے۔

جب اتفاق اور اختلاف دونوں کا امکان فرض کیا جائے۔ تو اتفاق کے بغیر اختلاف کی تخصیص اور اختلاف کے بغیر اتفاق کی تخصیص اس کی محتاج ہو گی جو ایک کو دوسرے پر راجح کرے اور مرجح بھی تو وہی دو خود ہیں اور دونوں میں سے ایک کا دوسرے کے بغیر ترجیح دینا محال ہے اور ایک کا دوسرے کے ساتھ مل کر ترجیح دینا اتفاق ہو گا۔ جس کی تخصیص ایکاور مرجح کی محتاج ہو گی۔ جس سے علل میں تسلسل لازم آئے گا جو سب عقلاء کے نزدیک ممتنع ہے۔

پھر یہ کہ دونوں کافی نفسہ اتفاق بھی ممتنع ہے اور اختلاف بھی ممتنع ہے۔ چاہے اسے لازم فرض کیا جائے اور چاہے نہ کیا جائے۔ کیونکہ اتفاق کے وقت ایک کو اس وقت فعل کرنا ممکن ہو گا جب دوسرا کرے گا۔ سو اتفاق کے وقت دونوں کسی فعل میں مستقل ہونے سے عاجز ہوں گے۔ تو جب دونوں اتفاق کے وقت فعل مستقل سے عاجز ہیں تو عندالانفراد بھی عاجز ہوں گے اور جو عندالانفراد ہر شی سے عاجز ہو، وہ عندالاتفاق بدرجہ اولیٰ عاجز ہو گا۔

شریک لوگوں میں سے ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اشتراک کے وقت دوسرے سے فعل میں منفرد ہو۔ کیونکہ وہ حرکت جو دونوں میں سے کوئی کرتا ہے وہ حالِ تمکن میں دوسرے کے بغیر اس کے ساتھ مستقل ہوتا ہے۔ اسی طرح سے مالِ انفراد میں دوسرے کے بغیر کوئی اثر چھوڑنا ممکن ہوتا ہے۔ پس ایسے دو کا اتفاق ممتنع ٹھہرا چاہے وہ مخلوق یا خالق کہ جس میں دونوں میں سے ہر ایک حالتِ انفراد میں عاجز ہو، چاہے اتفاق لازم ہو یا ممکن۔

اگر مخلوق میں فرض کر لیا جائے کہ دو مخلوق اجتماع کے وقت قادر ہوں گی۔ تو یہی بات ہے۔ کیونکہ یہاں ایک تیسرا بھی ہے جو دونوں میں اتفاق و اجتماع کے وقت قدرت پیدا کرتا ہے اور یہاں یہ بات ممتنع ہے کہ خالق قدیم واجب بنفسہ سے اوپر کوئی ایسا ہو جو اسے قادر بنائے تو یہ بھی ممتنع ہوا کہ دونوں کے اوپر کوئی ہو جو اجتماع کے وقت نا کہ انفراد کے وقت دونوں میں قوت پیدا کرے۔ کیونکہ ان دونوں الٰہ کے ماسوا تو سب مخلوق ہو گا۔ پس مخلوق کا خالق کو قادر بنانا ممتنع ہو گا۔

رہا ان کے اختلاف کا امتناع، گو وہ لازم نہ بھی ہو، تب بھی زیادہ ظاہر ہے۔ کیونکہ اختلاف کے وقت تمانع حاصل ہوگا۔غرض یہ وہ معانی ہیں کہ جن کی جس طرح چاہے تعبیر کو لو صحیح ہیں ۔ کہ: دو الٰہ کا وجود ممتنع ہے چاہے وہ باہم متفق ہوں یا ان کا اختلاف ہو۔ سوائے اس صورت کے جب ہر ایک حالت انفراد میں قادر ہو۔ تو جب ہر ایک حالت انفراد میں قادر ہو گا تو دونوں میں سے ہر ایک کا ایسا فعل اور مفعول ہو گا جو اس کے ساتھ خاص اور دوسرے سے منفرد ہو گا۔ تب پھر وہ کسی بھی فعل یا مفعول میں متفق نہ ہوں گے اور نہ سرے سے کسی ایک شی میں متفق ہی ہوں گے۔ کیونکہ فعل حادث جو ایک کے ساتھ قائم ہو گا۔ وہ نہ ہو گا جو دوسرے کے ساتھ قائم ہو گا۔ کیونکہ یہ ممتنع لذاتہ ہے۔

مخلوق منفصل کہ اس میں جو ایک کا نفس اثر ہے وہ دوسرے کا نفس اثر نہ ہو گا۔ بلکہ دو اثروں کا ہونا لازم ہے۔ پھر اگر ایک اثر دوسرے کے لیے شرط ہوا تو ہر ایک دوسرے کا محتاج ہو گا۔ تو وہ حالتِ انفراد میں قادر نہ ہو گا اور اگر ایسا نہیں تو ایک کا مفعول دوسرے کا مفعول نہ ہو گا اور نہ اس کا لازم ہو گا۔ تو یہاں سرے سے ایک مفعول میں بھی اتفاق نہ ہو گا۔ یہ ہر الٰہ کے اپنی مخلوق کو لے جانے جیسے کلام کی جنس میں سے۔ لیکن یہاں خاص بات یہ ہے کہ جب دو ایسی شی ہوں کہ دونوں میں سے ہر ایک کا دوسرے کے ساتھ ہونا شرط ہو۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ کوئی تیسرا ہو جو ان دونوں کو حادث کر لے۔ جیسے ایک معلم کے دو مزدور نصوص کی طرف رجوع کرنے والے دو مفتی، ایسے امر کی طرف رجوع کرنے والے دو مشورہ کرنے والے جو دونوں کو مجتمع کر دے۔ لہٰذا یہاں ایک تیسرا ضروری ہے جو دونوں کو جمع کر دے۔البتہ دو خالقوں کے اوپر کچھ نہیں ۔ رہا یہ قول کہ دونوں وہ کریں گے جو مصلحت ہو گا وغیرہ۔ سو ہر حادث دونوں کے تابع اور ان سے حادث ہو گا۔ ہر شی دونوں کے علم و قدرت سے ہو گی۔ بخلاف مخلوق کے جو متعدد امور کو دوسرے کے بغیر حادث کرتی ہے اور دوسری مصلحت کے امر میں اس کی معاونت کرتی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ دونوں آئندہ ہونے والے امر کو جانتے ہیں ۔ پس حادث کا علم معلومِ حادث کے تابع ہوا اور حادث اپنے محدث کے ارادہ کے تابع ہوا۔

رہے دو خالق تو دونوں میں سے ہر ایک کے ارادہ کا اس کی ذات کے لوازم میں سے ہونا لازم ہے۔ یا وہ مستقل بالارادہ ہو۔ تب پھر ایک کا ارادہ دوسرے کے ارادہ کی شرط پر موقوف نہ ہو گا۔ وگرنہ وہ مستقل بالارادہ نہ ہو گا اور نہ یہ اس کی ذات کے لوازم میں سے ہو گا۔ کیونکہ جب ہر ایک کا ارادہ اور فعل دوسرے کے ارادہ اور فعل کے ساتھ ہو گا تو ہر ایک کا ارادہ اور فعل مقتضی کا جز ہو گا۔ کیونکہ دوسرا مرید فاعل ہے اور یہ جزئِ علت میں دور ہے۔ جیسے ابوت اور بنوت دونوں متلازم ہیں ۔ کیونکہ دونوں کا مقتضی تام ان کا غیر ہے۔ اگر ارادہ اور فعل متلازم ہوں تو دونوں کا مقتضی تام دونوں کا غیر ہو گا اور یہ ممتنع ہے۔ کیونکہ دونوں خالقوں سے اوپر کچھ نہیں جو انہیں ایسا بنا دے۔ سو لازم آیا کہ دونوں نہ مرید ہوں اور نہ فاعل سو معلوم ہو گیا کہ اگر دو قدرت میں پلہ الٰہ ہوں تو اتفاق اور اختلاف دونوں احوال میں وہ کچھ نہ کریں گے۔ تب پھر ایک کا دوسرے سے زیادہ قدرت والا ہونا لازم ہو گا۔ کہ ایک دوسر پر قدرت میں بالضرور عالی ہو گا۔ سو اگر متعدد الٰہ ہوتے تو ان کا ایک دوسرے پر غاب آنا واجب ہوتا۔ تب پھر کوئی بھی مستقل بالذات نہ ہوتا۔ مگر اکیلا عالی الٰہ۔ کیونکہ اگر تو مقہور فعل میں دوسرے عالی کی اعانت کا محتاج ہے تو وہ عاجز ہوا اور اس کی قدرت غیر سے ہوئی اور جو ایسا ہو وہ الٰہ بنفسہ نہیں ہو سکتا۔ سو اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو بھی الٰہ نہیں بنایا۔ سو مقہور کا الٰہ ہونا ممتنع ہوا اور اگر مقہور فعل میں مستقل ہو تو عالی الٰہ اسے فعل سے روک نہیں سکتا اب پھر عالی عاجز ٹھہرا۔ تب پھر معلوم ہوا کہ الٰہ کے ایک دوسرے پر غالب آنے کی صورت میں مغلوب الٰہ نہیں ۔ نہ وہ دوسرے کی اعانت کے وقت الٰہ ہے اور غناء عن الآخر کے وقت الٰہ ہے۔ کیونکہ غنی پر کوئی عالی نہیں ہو سکتا۔ وگرنہ تو وہ عالی کا محتاج اور عاجز ہو گا اور غیر سے مغلوب زبردست اور اپنے پر سے دوسرے کو دور کرنے والا نہیں ہوتا تو وہ اوروں پر سے کسی کو کیونکر دور کرے گا؟

تو جب مغلوب الٰہ منیع نہ ہوا۔ تو قوی و قادر بدرجہ اولیٰ نہ ہوا اور غیر قوی رب اور فاعل نہیں ہوتا۔

غرض یہ ان دو برہانوں کی قدرے تفصیلی تقدیر ہے۔ جو بتلاتی ہے کہ خارج اور وجود دو ایسے الٰہ نہیں جو ایک دوسرے کے شریک اور ہم پلہ ہوں اور نہ کوئی ثالث ہو گا جس کی طرف وہ رجوع کریں گے کہ دو ہم پلہ بادشاہ بھی ایک دوسرے کی طرف رجوع نہیں کرتے اور تو اور ایک ہانڈی پکانے والے دو باورچی ایک دوسرے کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ اسی طرح دو مستری اور دو شجر کار ایک دوسرے کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ اسی طرح دو امر کرنے والے، دو طبیب، دو درزی بھی۔ ان سب مشارکات میں دو کا اتفاق متصور نہیں ۔ مگر تب کہ جب ایک ان میں سے دوسرے پر فائق ہو۔ یا دونوں کےاوپر ایک ثالث ہو اور اس کی تقریر گزر چکی ہے۔

سو دو ہم پلہ کا کہ جن کے اوپر کوئی نہ ہو، اشتراک ممتنع ہے اور جب کسی امر شرعی میں دو شریک ہوں تو دونوں امر شارع کی طرف لوٹیں گے جو ان کے اوپر ہے۔ یا پھر دونوں تجارت کے کسی ماہر کی طرف لوٹیں گے جو تجارت کہ وہ کرنا چاہتے ہیں ۔ سو دونوں اس کا ارادہ کریں گے اور نزاع کے وقت یا تو شارع یا ماہر تجارت دونوں میں فیصلہ کرے گا۔ البتہ جب دونوں نہ تو ثالث کو مانیں اور نہ ایک دوسرے کے تابع ہو تو دونوں کا اشتراک ممتنع ہو گا۔ البتہ دونوں کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف لوٹیں گے جیسے دو متعارض کہ اس وقت دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی طرف رجوع کے حال میں اصل ہو گا اور دوسرا اس کی فرع ہو گا۔ اسی لیے حدث کم بھی ہو اور لوگ تھوڑے ہوں تب بھی امارت قائم کرنا واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’تین کے لیے حلال نہیں کہ وہ سفر کریں یہاں تک کہ کسی ایک کو اپنا امیر بنا لیں ۔‘‘ (مسند احمد)

کیونکہ اجتماع کے وقت سرپرست کا ہونا لازم ہے۔ ورنہ اجتماع ممتنع ہو گا اور جب دو مساوی سرپرست ہوں تو اجتماع باطل ہو گا۔ یہ بات سب لوگوں کی فطرت میں جاگزین ہے اور جب متعدد والی ہوں تو ان میں تناوب ضروری ہے۔ وہ یوں کبھی یہ اُس کی طاعت کرے اور کبھی وہ اس کی طاعت کرے۔ جیسا کہ بادشاہوں وزراء اور اعوان میں ہوتا ہے اور جب دو میں اتفاق نہ ہو گا تو وہ تیسرے کی طرف رجوع کریں گے جو ان کے اوپر ہو گا۔ وگرنہ ایک امر دو سے بیک وقت صادر نہیں ہوا کرتا۔

سو دو ہم پلہ اصل میں تمانع حاصل ہوتا ہے۔ چاہے دونوں میں اتفاق ہو یا اختلاف۔ البتہ اختلاف کی صورت میں تمانع زیادہ ظاہر ہے اور اتفاق میں بھی تمانع ہے۔ جیسا کہ اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

غرض یہاں دو برہان ہیں ۔ جن میں سے کوئی دوسرے پر مبنی نہیں ۔ بلکہ ہر برہان مستقل ہے اور دوسرے الٰہ پر ہر برہان لازم ہے۔یہ مشرک اس توحید کو مانتے تھے جس میں دو خالق ہوں ۔ مشرکین عرب اس میں نزاع نہ کرتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا :

﴿اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَo﴾ (النحل: ۱۷)

’’تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے، اس کی طرح ہے جو پیدا نہیں کرتا؟ پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘

وہ مانتے تھے کہ ان کے الٰہ تخلیق سے عاری ہیں ، اسی لیے رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَا اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَیَقُوْلُوْنَ لِلَّہِ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَo قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo سَیَقُوْلُوْنَ لِلَّہِ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُوَ یُجِیرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَیَقُوْلُوْنَ لِلَّہِ قُلْ فَاَنَّا تُسْحَرُوْنَo بَلْ اَتَیْنَاہُمْ بِالْحَقِّ وَاِِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَo مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہٗمِنْ اِِلٰہٍ اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَo عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَo ﴾ (المؤمنون: ۸۳۔ ۹۲)

’’کہہ یہ زمین اور اس میں جو کوئی بھی ہے کس کا ہے، اگر تم جانتے ہو؟ ضرور کہیں گے اللہ کا ہے۔ کہہ دے پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ کہہ ساتوں آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟ ضرور کہیں گے اللہ ہی کے لیے ہے۔ کہہ دے پھر کیا تم ڈرتے نہیں ؟ کہہ کون ہے وہ کہ صرف اس کے ہاتھ میں ہر چیز کی مکمل بادشاہی ہے اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دی جاتی، اگر تم جانتے ہو؟ ضرور کہیں گے اللہ کے لیے ہے۔ کہہ پھر تم کہاں سے جادو کیے جاتے ہو؟ بلکہ ہم ان کے پاس حق لائے ہیں اور بے شک وہ یقیناً جھوٹے ہیں ۔ اللہ نے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی اس کے ساتھ کوئی معبود تھا، اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا اور یقیناً ان میں سے بعض بعض پر چڑھائی کر دیتا۔ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں ۔ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے، پس وہ بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘

ان کا شرک یہ نہ تھا کہ انہوں نے ان بتوں کو خالق بنا رکھا تھا۔ بلکہ انہوں نے ان بتوں کو عبادت میں واسطہ مقرر کیا ہوا تھا وہ انہیں سفارشی بناتے تھے اور ان کی عبادت اللہ کا قرب پانے کے لیے کرتے تھے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمْ وَ لَا یَنْفَعُہُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ قُلْ اَتُنَبِّؤنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَo﴾ (یونس: ۱۸)

’’اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ؟ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘

اب جن لوگوں نے اللہ کے سوا کو فاعل مستقل بنا رکھا ہے جیسے آدمی اور فلک، انہوں نے ان حوادث کو اللہ کی مخلوق نہیں ٹھہرایا۔ ان میں وہ شرک اور تعطیل ہے جو مشرکین عرب میں بھی نہ تھا۔ کہ قدر کا اقرار تو وہ بھی کرتے تھے اور ایک اللہ کو ہر شی کا خالق مانتے تھے۔ اسی لیے دوسری آیت میں ارشاد ہے:

﴿قُلْ لَّوْ کَانَ مَعَہٗٓ اٰلِہَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا﴾ (الاسراء: ۳۲)

’’کہہ دے اگر اس کے ساتھ کچھ اور معبود ہوتے، جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو اس وقت وہ عرش والے کی طرف کوئی راستہ ضرور ڈھونڈتے۔‘‘

سو وہ ان بتوں کو سفارشی اور وسیلہ مانتے تھے نا کہ خالق، فرمایا:

﴿قُلْ لَّوْ کَانَ مَعَہٗٓ اٰلِہَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًاo

جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے:

﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّعَنْکُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًاo اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًاo﴾ (الاسراء: ۵۶۔ ۵۷)

’’کہہ پکارو ان کو جنھیں تم نے اس کے سو اگمان کر رکھا ہے، پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کے مالک ہیں اور نہ بدلنے کے۔ وہ لوگ جنھیں یہ پکارتے ہیں ، وہ (خود) اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں ، جوان میں سے زیادہ قریب ہیں اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بے شک تیرے رب کا عذاب وہ ہے جس سے ہمیشہ ڈرا جاتا ہے۔‘‘

معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا جو فرشتوں وغیرہ کو پکارا جاتا ہے تویہ رب تک وسیلہ بنانے کے لیے پکارا جاتا ہے۔ کیونکہ معبود برحق وہی ہے۔ اس سب کے محتاج ہیں کہ وہ رب ہے، اس سے سب ملا ہے اور الٰہ ہونے کے اعتبار سے اس کے بغیر اس کے ارادہ کی منتہا نہیں ۔ اگر وہ ہی معبود نہ ہوتا تو یہ عالم برباد ہو جاتا۔ کیونکہ اگر ارادات کا مراد لذاتہ نہ ہوتا اور مراد یا تو لنفسہ ہے یا لغیرہ ہے اور مراد لغیرہ کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر مراد ہے۔ تاکہ امر مراد لنفسہ تک منتہی ہو۔پس جیسے علت فاعلیہ میں تسلسل ممنوع ہے؛ ایسے ہی علتِ غائیہ میں بھی تسلسل ممنوع ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ارسطو اور اس کے متبعین قدیم فلاسفہ نے اس طریقہ سے اول کو ثابت کیا ہے؛ لیکن انہوں نے اسے صرف علت غائیہ کی جہت سے ثابت کیا ہے؛ لیکن ان لوگوں نے علت غائیہ کو تشبہ کے معنی میں قرار دیا ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں : فلسفہ بقدر طاقت الہ سے مشابہت ہے۔ وہ اسے ایسے معبود اور محبوب لذاتہ قرار نہیں دیتے جیسے رسول یہ پیغام لیکر آئے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ متأخرین میں سے جو کوئی ان کے طریقہ پر تصوف اختیار کرتا ہے؛ اور عبادت گزاری کرتا ہے؛ وہ الوہیت اور ربوبیت کا دعوی بھی کر بیٹھتا ہے۔ ان میں فرعونیت کی ایک قسم پائی جاتی ہے۔ بلکہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جوفرعون کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اور اسے حضرت موسی علیہ السلام پر فضیلت دیتے ہیں ؛ اور یہ بات ان میں سے ایک گروہ کے کلام میں پائی جاتی ہے۔

جب کہ ان دونوں چیزوں کو ثابت کرنا واجب ہے: ۱۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کے رب ہیں ۔۲۔ وہی ہر ایک چیز کے معبود برحق ہیں ۔پس جب حرکات ارادیہ اس کی مراد لذاتہ کے بغیر قائم نہیں ہوسکتیں ؛ اس کے بغیر فساد اور خرابی پیدا ہو جاتی ہے؛ تو یہ بھی جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور مراد لذاتہ ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا موجود لذاتہ نہیں ہے۔ اور اگر زمین و آسمان ؛ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں کا نظام ضرور بگڑ جاتا۔اس آیت مبارکہ میں یہ بیان ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے۔ اور اگر زمین و آسمان ؛ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتا تو زمین و آسمان کا نظام ضرور بگڑ جاتا۔جبکہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ:

﴿ اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ ﴾ (المومنون: ۹۱)

’’ اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا ۔‘‘

اس خرابی اور فساد کے لازم آنے کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ جب دو مدبر تسلیم کر لیے جائیں ؛ تو پھر جیسے پہلے گزر چکا کہ یہ ممتنع ٹھہرتا ہے کہ دونوں غیر متکافی ہوں ۔ اس لیے کہ ان میں سے جو بھی مقہور و مغلوب ہوگا ؛ وہ رب نہیں ہوگا؛ بلکہ تربیت یافتہ اور پالا ہوا ہوگا۔ اور اگر یہ دونوں متکافی[برابر] ہوں تو پھر ان دونوں سے اختلاف یا اتفاق ہر دو صورتوں میں اس نظام کی تدبیر ممتنع ٹھہرتی ہے۔اور دنیا کا نظام تدبیر نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد ہو کر رہا جاتا۔ نہ ہی علیحدہ مستقل صورت میں اس کا کوئی حل نکلتا اور نہ ہی اشتراک کی صورت میں ۔جیسا کہ اس سے پہلے بھی یہ بیان گزر چکا۔

یہ اس صورت میں ہے جو دو خداؤوں کی ربوبیت کا ماننا ممتنع ہو۔ ان دونوں کی ربوبیت کے امتناع کی بنیاد پر ان کی الوہیت بھی ممتنع ٹھہری۔ اس لیے کہ جو کوئی کچھ بھی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا؛ وہ اس قابل نہیں ہوسکتا کہ رب بنے اور اس کی عبادت کی جائے۔اور نہ ہی اللہ نے اس کی عبادت کرنے کاحکم دیا ہے۔ پس اسی لیے اللہ تعالیٰ نے واضح بیان کردیا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں ہوسکتا؛کبھی اس طرح بتایا کہ وہ دوسرا خالق نہیں ؛[پس خالق نہیں وہ رب نہیں ہوسکتا] اور کبھی اس طرح سے کہ اس نے ہمیں اس کا حکم نہیں دیا۔ جیسے فرمایا:

﴿قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِی مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ اِئْتُوْنِی بِکِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَا اَوْ اَثَارَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ﴾ (الاحقاف:۳)

’’ کہہ دے کیا تم نے دیکھا جن چیزوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، مجھے دکھاؤ انھوں نے زمین میں سے کون سی چیز پیدا کی ہے، یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ لاؤ میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب، یا علم کی کوئی نقل شدہ بات، اگر تم سچے ہو۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ غیراللہ کی عبادت کی بابت یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ: ’’بیشک یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہو؛ کیونکہ اس میں منفعت ہے۔‘‘تو اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ : اس نے کسی ایسی چیز کو مشروع نہیں ٹھہرایا۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَاسْاَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنَا اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ آلِہَۃً یُعْبَدُوْنَ

(الزخرف :۳۵) 

’’اور ان سے پوچھ جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیاہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں ، جن کی عبادت کی جائے؟‘‘

یہ موضوع دوسری جگہ پر تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ یہاں پر اتنا بتانا مقصود ہے کہ یہاں پر الوہیت کا امتناع اس اعتبار سے بیان ہورہا ہے جو غیر اللہ کی عبادت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کی اصلاح صرف معبود لذاتہ ہی میں ہے۔ خواہ وہ ان کے افعال کی غایت اور حرکات کے انجام کے اعتبار سے ہو؛ یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لیے مناسب اور کار گر نہیں ہوسکتی ۔ اگرزمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا معبود ہوتا تو اس اعتبار سے ان کے نظام میں خرابی اور فساد پیدا ہوجاتا ۔ پس بیشک اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی معبود برحق محبوب لذاتہ ہے۔ جیسا کہ وہ اپنی مشئیت کے اعتبار سے رب اور خالق ہے۔

اسی معنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی ہے:

’’ سچی بات جو شاعر نے کہی ہے؛ وہ لبید کی بات ہے؛ [وہ کہتا ہے]؛

ألا کل شئی ما خلا اللّٰہ باطل وکل نعیم لا محالۃ زائل

’’آگاہ رہو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز باطل ہے۔ اور ہر نعمت نے لا محالہ ختم ہو جانا ہے‘‘[البخارِیِ، کِتاب مناقِبِ الأنصارِ، باب أیامِ الجاہِلِیۃِ ؛ ِکتاب الأدبِ، باب ما یجوز مِن الشِعرِ، مسلِم:۱۷۶۹، کتاب الشِعرِ، الأحادِیث ۷۔۱۔ سننِ ابنِ ماجہ، کِتاب الأدبِ، باب الشِعرِ، المسندِ ط المعارِفِ۱۳؍۱۱۰۔]

اسی لیے اللہ تعالیٰ سورت فاتحہ میں یوں فرماتے ہیں :

﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن﴾ (الفاتحۃ۳) 

’’ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں ۔‘‘

یہاں پر سورت فاتحہ میں اسم ’’اللہ ‘‘کو اسم ’’رب ‘‘ پر مقدم کیا گیاہے؛ جیسا کہ ارشاد فرمایا:

﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

’’ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘

پس معبود ہی مقصود اور مطلوب اور محبوب لذاتہ ہوتا ہے۔اور وہی غایت اور معین ہے۔ وہی خالق و باری اور مبدع ہے۔ اسی سے ہر چیز کی ابتداء ہوتی ہے؛غایات کا حصول بدایات پر منحصر ہوتا ہے۔ اور بدایات غایات کی طلب کے لیے ہوتی ہیں ۔ پس الوہیت غایت [انتہیٰ اور انجام ] ہے۔ اور اس کی حکمت اسی سے متعلق ہوتی ہے۔ پس وہی ذات بذات خود اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے؛ اس سے محبت کی جائے؛ اور اس کی حمد و ثناء اور بزرگی بیان کی جائے۔ وہ ذات پاک خود اپنی تعریف بیان کرتی ہے؛ اور اپنی ہستی کے لیے ثنا خواں ہے؛ اس کی بزرگی بیان کرتی ہے۔اس سے بڑھ کر کوئی تعریف کیا گیا ؛ یا تعریف کرنے والا اس کا مستحق نہیں ۔یہ امور دوسرے مقامات پر تفصیل سے بیان ہوچکے ہیں ۔ اور ہم نے یہ واضح کردیا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کےبندوں کو اس کے ساتھ یوں بناتا ہے جیسے بادشاہ کے انصار و مددگار ہوتے ہیں ؛ تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے بڑا شرک کرنے والا ہے۔

﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾آیت پررافضی کے کلام پر تبصرہ: 

اس کا جواب یہ ہے کہ: ان کا اس آیت سے حجت پکڑنا: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات :۹۶) ’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو ۔‘‘کہ بیشک اس سے مراد بت ہیں ؛ تو ہمارا اس کے ساتھ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس سے مراد بت ہیں ؛ اور دو اقوال میں سے صحیح تر قول یہی ہے۔ یہاں پر’’ما‘‘بمعنی ’’الذی‘‘ کے ہے۔ اور جس نے کہا : ’’یہ ’’ما ‘‘ مصدریہ ہے؛ اور اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اور تمہارے عمل کو پیدا کیا ہے؛ اس کا قول ضعیف ہے۔ اس لیے کہ سیاق کلام پہلے قول پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : 

﴿اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَo وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَo﴾ (الصافات: ۹۶)

’’تم اس کی عبادت کرتے ہو جسے خود تراشتے ہو؟ حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں اورتمہارے عمل کو پیدا کیا۔ ‘‘

رب تعالیٰ نے اپنے تراشے ہوئے بتوں کی عبادت کرنے پر ان کی مذمت اور ان پر انکار کیا ہے۔پس یہی مناسب تھا کہ اس تراشے ہوئے بت کے متعلق ہی بات کی جائے کہ بیشک وہ اللہ کی مخلوق ہے۔ اس کی تقدیر عبارت یوں ہوگی : ’’ اللہ تعالیٰ نے اس عابد اور معبود دونوں کو پیدا کیاہے۔‘‘اگر یوں کہا جاتا کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تمہارے عمل کو بھی؛ تو اس میں وہ مذمت نہ ہوتی جس کا بیان کرنا اس شرک کی وجہ سے مطلوب تھا۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کی طرف سے عذر پیش کردیا ۔ اس لیے کہ اس آیت کریمہ:

﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَo﴾ (الصافات: ۹۶)

’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو ۔‘‘

میں وارد ہونے والا ’’واؤ ‘‘ حال کا ہے؛ جبکہ یہاں پر حال ظرف سے مشابہ ہوتا ہے۔اور یہ دونوں علت کے معانی کو متضمن ہیں ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: ’’کیا تم فلاں کی مذمت کرتے ہو؛ حالانکہ وہ نیک آدمی ہے؛ اور تم اس کے ساتھ برا سلوک کرتے ہو جب کہ وہ تمہارے ساتھ اچھاسلوک کرتا ہے‘‘پس اس سے وہ تقریر حاصل ہو گئی جس سے اس کی مذمت ہوتی ہے؛ اوراس کے فعل پر انکارہوتا ہے۔

رب تعالیٰ نے ان کے اپنے تراشے ہوئے بتوں کی عبادت کرنے پر ان کی مذمت کی اور ان پر انکار کیا ہے۔اور انہیں اس فرمان میں یاد دلایا ہے کہ:

﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَo﴾ (الصافات: ۹۶)

’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو ۔‘‘یہ آیت ان کے شرکیہ افعال پر ان کی واجب مذمت اور اس سے ان کے لیے ممانعت کو شامل ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ان کی تیار کردہ چیز کو بھی پیدا کیا ہے۔ اور اگر اس سے مراد ان کی تخلیق اور ان کے کفریہ اور دیگر اعمال ہوتے تو پھر اس میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس پر ان کی مذمت مناسب ہوتی۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ اپنے بندوں کے اعمال میں کوئی ایسی چیز ہوتی کہ شرک پر ان کی مذمت کا بیان کرنا واجب ٹھہرتا۔

لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ: یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ بندوں کے اعمال بھی مخلوق ہیں ۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی یوں ہے کہ: ’’اس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے؛ اور تم جوصنم تراشنے کے اعمال بجا لاتے ہو؛ انہیں بھی۔‘‘یہ لوگ بت تراشا کرتے تھے۔ پس یہ آیت دو احتمالات سے خالی نہیں : یاتو اس سے مراد ان کوتراشنے اور ان پر کارگری کرنے سے پہلے کی حالت ہوگی۔یا پھر پہلے اور بعد کی دونوں حالتیں مراد ہوں گی۔

اگر ان کا ذکر کرنے سے مراد پہلی حالت میں ان کا مخلوق ہونا ہو؛ تو پھر اس میں کوئی حجت نہیں رہتی کہ مخلوق اس تراشے ہوئے اور کاریگری کئے ہوئے کو کہا جائے۔کیونکہ مخلوق اس وقت تک تھا جب تک تراشا نہیں گیا ؛ اور اس پر کاریگری نہیں کی گئی۔ اور اگر اس تخلیق سے مراد تراشے جانے اور کاریگری کے بعد کی حالت ہے؛ تو یہ معلوم شدہ ہے کہ اس تراشنے میں ان کا اثرات اور عمل کو دخل حاصل ہے ۔

قدریہ کے نزدیک انسان کے فعل کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی چیز اس کا اپنا فعل ہوتی ہے؛ اللہ تعالیٰ کا فعل نہیں ہوتی۔ پس درایں صورت تراشنا اور تصویر بنانا ان کا اپنا فعل ہوگا؛ اللہ تعالیٰ کا نہیں ۔ پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس تراش و خراش اور تصویر سمیت پیدا کیا ہے؛ تو اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کا بھی خالق ہے جو ان کے فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں ۔ اورپیدا ہونے والی چیز فعل مباشر کے لیے لازم اور وہ اس کے لیے ملزوم ہے۔اور متلازمین میں سے کسی ایک کی تخلیق دوسرے کی تخلیق کو مستلزم ہے۔ پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان افعال کا بھی خالق ہے جو ان کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔ اور ان چیزوں کا بھی خالق ہے جو اس کے نتیجہ میں متولد ہوتی ہیں ۔ اور ان اعیان کا بھی خالق ہے جن کے ساتھ وہ متولد قائم ہے۔ اور ایسا ممکن نہیں ہے کہ متلازمین میں سے ایک ایک رب کی تخلیق ہو ؛ اور ایک دوسرے رب کی ۔ کیونکہ اس سے رب کا کسی دوسرے کا محتاج ہونا لازم آتا ہے۔

مزید برآں ان کی نفسِ حرکات بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہیں :

﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ ﴾ (الصافات: ۹۶)’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا۔‘‘

اس لیے کہ ان کے اعراض ان کے اسماء کے مسمیٰ میں داخل ہیں ۔سو اللہ تعالیٰ نے انسان کواس کی تمام تر اعراض کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس کی حرکات اس کی اعراض میں سے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے کہ اسی نے ان کے اعمال کو بھی پیدا کیا ہے؛ جیسا کہ فرمایا:

﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ ﴾ (الصافات: ۹۶)’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا۔‘‘جو کچھ اس کے نتیجہ میں پیدا ہو؛ جیسے تراشنا ؛ اور تصویر بنانا؛ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں شامل ہے:

﴿وَمَا تَعْمَلُوْنَo﴾ (الصافات: ۹۶)’’اور اسے بھی جو تم کرتے ہو ۔‘‘

پس ثابت ہوا کہ یہ آیت مبارکہ اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دومیں سے ہر ایک کا خالق ہے۔ اور یہی چیز بیان کرنا مطلوب ہے حالانکہ بندوں کے اعمال کے مخلوق ہونے پر دلالت کرنے والی آیات بہت زیادہ ہیں ۔جیسا کہ اس پر تنبیہ اس سے پہلے بھی گزر چکی ہے۔ لیکن مصنوعات کے لیے اس کی تخلیق کا ہونا جیسے کشتی؛ اور عمارتین؛ اور لباس وغیرہ ؛ یہ بالکل تراشے ہوئے بت کی مثل ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاٰیَۃٌ لَہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ () وَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُوْنَ o﴾ (یس)

’’ اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بے شک ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ اور ہم نے ان کے لیے اس جیسی کئی اور چیزیں بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَکْنَانًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَo﴾ (النحل)

’’ اور اللہ نے تمھارے لیے ان چیزوں سے جو اس نے پیدا کیں ، سائے بنا دیے اور تمھارے لیے پہاڑوں میں سے چھپنے کی جگہیں بنائیں اور تمھارے لیے کچھ قمیصیں بنائیں جو تمھیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ قمیصیں جو تمھیں تمھاری لڑائی میں بچاتی ہیں ۔ اسی طرح وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے، تاکہ تم فرماں بردار بن جاؤ۔‘‘

کیا رؤیت باری تعالیٰ ممکن ہے؟:

[اشکال ]:شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے:’’اشاعرہ کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اللہتعالیٰ مجرد عن الجہات ہونے کے باوصف آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، حالانکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ﴾ (الانعام:۱۰۳) ’’آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں ۔‘‘

اشاعرہ اس بد یہی بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ آنکھ سے صرف اس چیز کا ادراک کرنا ممکن ہوتا ہے جو بالکل سامنے ہو یا اس کے حکم میں ہو۔اور اس مسئلہ میں انہوں نے تمام عقلاء کی مخالفت کی ہے۔ اشاعرہ کہتے ہیں ممکن ہے کہ ہمارے سامنے رنگا رنگ بلند پہاڑ کھڑے ہوں اور ہم انہیں دیکھ نہ سکیں ، ہر طرف سے مہیب آوازیں آرہی ہوں ، اور ہم انہیں سن نہ سکیں ؛ یا کثیرتعداد عساکر مختلف قسم کے مہیب اسلحہ کے ساتھ برسر پیکار ہوں ؛ہمارے اجسام تو آپس میں ٹکرا رہے ہوں مگر ہم ان کی صورت اورحرکات کو دیکھنے سے قاصر رہیں ۔اور نہ ہی ان کی آوازیں سن سکیں ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہےکہ ہم دورافتادہ مغرب میں اقامت پذیر ہونے کے باوصف مشرق کے ایک ذرہ تک کو ملاحظہ کر سکیں ، یہ ایک زبردست مغالطہ [دھوکہ بازی]ہے۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]: اوّل:....جہاں تک آخرت میں اثبات روئت کا تعلق ہے؛تو ائمہ سلف امت آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت کے قائل ہیں ،اہل مذاہب اربعہ میں سے جمہور مسلمین کا بھی یہی مذہب ہے۔محدثین کے ہاں احادیث متواترہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جمہور قائلین رویت کا نقطۂ نظریہ ہے کہ اللہتعالیٰ کو بروز قیامت اسی طرح دیکھیں گے جیسے آمنے سامنے کسی چیز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور جس طرح دیکھنا عقلاً معروف ہے۔سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’تم بروز قیامت اسی طرح دیدار الٰہی سے مشرف ہوگے جس طرح تم آفتاب و ماہتاب کو دیکھتے ہو اور لوگوں کی بھیڑ دیکھنے سے مانع نہیں ہوتی‘‘[صحیح بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قول اللہ تعالیٰ ﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃ....﴾ (ح:۷۴۳۴) لیکن اس میں سورج کے بجائے قمر کا ذکر ہے۔واللہ اعلم۔ ]

ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’ جیسے تم مطلع صاف ہونے کی صورت میں شمس و قمر کو دیکھتے ہو۔‘‘

دوسری روایت میں فرمایا:’’جب مطلع صاف ہو تو آفتاب کو دیکھتے وقت کیا لوگوں کی بھیڑ مانع ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں ۔

فرمایا:’’جب مطلع صاف ہو تو کیا ماہتاب کو دیکھتے وقت کیا لوگوں کی بھیڑ مانع ہوتی ہے؟

تو فرمایا ’’ یقیناً تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح شمس و قمر کو دیکھتے ہو۔‘‘ [صحیح بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ ﴿وُجُوْہ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃ ....﴾ (ح:۷۴۳۹) واللفظ لہ۔ صحیح مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب معرفۃ طریق الرؤیۃ (ح:۱۸۳)۔]

جب بات یہی ہے تویہ ہوسکتا ہے کہ بعض اہل سنت جو رؤیت کو مانتے بھی ہیں ان کا اس باب میں بعض احکام میں خطا کر گئے ہوں ؛ایسا ہوجانا اہل سنت کے حق میں قدح کا موجب نہیں ۔ کیونکہ ہم سب کے لیے عصمت کے مدعی نہیں ۔ البتہ سب کا ضلالت و گمراہی پر جمع ہو نا محال ہے۔اور بیشک یہ کہ ہر وہ مسئلہ جس میں اہل سنت و الجماعت اور روافض کا اختلاف واقع ہوا ہے؛ اس میں حق اہل سنت و الجماعت کے ساتھ ہے۔ اور جہاں کہیں روافض حق پر ہیں ؛ تو اہل سنت کی بھی کوئی نہ کوئی جماعت اس حق میں ان کے ساتھ ہوگی۔ لیکن روافض میں ایسی غلطیاں موجود ہیں جن میں اہل سنت ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ تمام اہل سنت و الجماعت سے ہٹ کر روافض کے ہاں کوئی ایک بھی انفرادی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں ان کی موافقت کی گئی ہو۔ اوروہ اس مسئلہ میں غلطی پر ہوں ؛ جیسے بارہ ائمہ کی امامت اور ان کے معصوم ہونے کا مسئلہ ۔

دوم:....جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ روبرو ہونے کے بغیر بھی اللہتعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ذات باری فوق العالم نہیں ، چونکہ وہ ذات باری کیلئے رؤیت کا اثبات اور علو کی نفی کرتے ہیں ۔ بنا بریں اس امر کیضرورت لاحق ہوئی کہ دونوں مسئلوں میں تطبیق دے کر یہ ثابت کریں کہ ان میں تضاد نہیں ہے۔ کلابیہ اور اشاعرہ کی ایک جماعت بھی یہی نظریہ رکھتی ہے؛یہ سب کا عقیدہ نہیں ؛ اور نہ ہی ان کے ائمہ کا عقیدہ ہے۔بلکہ اشاعرہ کے ائمہ اللہتعالیٰ کو اس کی ذات کے ساتھ فوق العرش تسلیم کرتے ہیں ۔ پھربھی ان میں سے جس نے بھی اس بات کی نفی ہے، اس نے معتزلہ کی موافقت میں کی ہے اس کی اور اس کے ملزومات کی نفی کی ہے۔[معتزلہ فوقیت و رؤیت کسی کو بھی نہیں مانتے]۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انہوں نے حدوث عالم کے مسئلہ میں معتزلہ کے ساتھ صحیح دلیل میں ان کی موافقت کی؛ وہ دلیل یہ ہے کہ: جسم حرکت اور سکون سے خالی نہیں ہوتا۔اور جو کچھ ان دو امور سے خالی نہ ہو وہ حادث ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ایسے حوادث کا ہونا ممتنع ہے جن کی کوئی ابتداء ہی نہ ہو۔ تو کہنے لگے: اس سے ہر جسم کا حادث ہونا لازم آتا ہے ۔ پس یہ ممتنع ہے کہ باری سبحانہ و تعالیٰ جسم ہو۔اس لیے کہ وہ ہستی قدیم ہے۔ اور پھر اس کا کسی جہت میں ہونا بھی ممتنع ٹھہرا۔ اس لیے کہ جہت میں صرف جسم ہی ہوسکتا ہے۔ پس یہ بات ممتنع ٹھہری کہ وہ دیکھنے والے کے مقابلہ میں ہو۔ اس لیے کہ مقابلہ صرف دو اجسام میں ہوسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہور عقلاء خواہ وہ روئت کے قائلین ہوں یا منکرین؛ وہ کہتے ہیں : ’’بیشک اس قول کا فاسد ہونا ضرورت کے تحت معلوم شدہ ہے۔ اسی لیے رازی نے کہا ہے کہ : امت کے تمام فرقے اس مسئلہ میں اس کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں ۔لیکن وہ اپنے اوپر الزام لگانے والے اس آدمی سے کہتے ہیں : ’’ بیشک ہم رؤیت کو ثابت مانتے ہیں ؛ اور جہت کا انکار کرتے ہیں ۔اس سے وہ کچھ لازم نہیں آتا جو تم نے ذکر کیا ہے۔پس اگر مرئی کا دیکھا جانے ؛ دیکھنے والے کی جہت سے ممکن ہو تو اس سے ہمارے قول کی صحت ثابت ہوئی۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو دو میں سے ایک مسئلہ میں ہمارا غلطی پر ہونا لازم آیا۔ یا تو رؤیت کی نفی میں ؛ یا پھر اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے مبائین اور ان کے اوپر عالی ہونے کی نفی میں ۔

جب ان دو میں سے ایک مسئلہ میں خطاء لازم آئی تو اس سے رؤیت کی نفی میں خطأ میں نفی متعین نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ غلطی علو اور مبائین ہونے کی نفی کرنے میں ہو۔ ہمارا تمہارے ساتھ کسی چیز میں اتفاق کرنا تمہارے حق میں حجت نہیں ہوسکتا۔ہمارے اقوال میں تناقض اللہ تعالیٰ کے مخلوق پر بلند ہونے کی نفی کرنے میں تمہارا قول درست ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ رؤیت الٰہی مستفیض نصوص کی روشنی میں اجماعِ سلف ِامت سے ثابت ہے؛اور ساتھ ہی عقل بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

پس اس صورت میں لازم ِ حق بھی حق ہی ہوتا ہے۔ جب ہم اس حق کو ثابت کرتے ہیں اور اس کی بعض لوازم کی نفی کرتے ہیں ؛ تو یہ تناقض حق اور اس کے لوازم کی نفی کی نسبت کم اور آسان ہے۔ اور تم ہو کہ رؤیت کی بھی نفی کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے علو اور مخلوق سے جدا ہونے کی نفی بھی کرتے ہو۔ پس ہمارے قول کی نسبت تمہارا قول معقول و منقول سے ہر لحاظ سے بہت دور ہے۔اور تمہارے قول کی نسبت ہمارا قول حق کے زیادہ قریب ہے۔ اور اگر ہمارے قول میں تناقض پایا جاتا ہے؛ تو یاد رہے کہ تمہارے قول میں ہماری نسبت زیادہ تناقض پایا جاتا ہے؛ اور تمہاری کتاب و سنت کی نصوص اور سلفامت کے اجماع کی مخالفت زیادہ واضح اور ظاہرہے۔اس لیے کہ نصوص الٰہیہ اور نصوص سلف امت میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور ؛ اس کی رؤیت ؛ اور علو کا ہونا متواتر اور مشہور اخبار سے ثابت ہے۔

جب کہ اس کے منکرین نہ ہی کتاب اللہ پر اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی نصوص سنت پر اور نہ ہی اجماع امت پر ۔ بلکہ وہ ان سب کے مقابلہ میں اپنی فاسد آراء و افکار پیش کرتے ہیں ؛اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تابعدار صحابہ مہاجرین و انصار اور ان کے متبعین کے مقابلہ میں اپنی آراء سے اٹکل اڑاتے ہیں ۔

جہاں تک تناقض کی بات ہے؛ تو بلا شک و شبہ منکرین رؤیت کہتے ہیں : ’’بیشک اللہ تعالیٰ موجود تو ہے مگر نہ ہی عالم کے داخل میں ہے اور نہ ہی خارج میں ۔اور نہ ہی اس سے مبائین ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز کے قریب ہے؛ اورنہ ہی کوئی چیز اس کے قریب ہے۔اور نہ ہی کوئی اسے دیکھ سکتا ہے۔اور نہ ہی کسی ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کو اس کے دیدار سے روکا جاسکتا ہے۔اور نہ ہی کوئی چیز اس کی طرف چڑھتی اور نہ ہی اس کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ اس طرح کے ان کے دیگر عقائد و افکار بھی ہیں ۔

جب ان سے کہا جاتا ہے: یہ عقیدہ عقل کے مخالف ہے؛ یہ صفات ایسے معلوم معدوم کی ہیں جس کا وجود ممتنع ہے۔ تو وہ کہتے ہیں : یہ نفی وہم کے حکم سے ہے۔

پس ان سے کہا جائے گا: جب عقل پر کوئی ایسی چیز موجود چیز پیش کی جائے جو جسم نہ ہو کہ بذات خود قائم ہو؛ تو اس کا دیکھا جانا ممکن ہے؛اور عقل اس کے سامنے ہو؛ تو وہ اس بات کا انکار نہ کریں گے۔ پس جب اس کے ساتھ ہی ان سے یہ کہا جائے : ’’بیشک اللہ تعالیٰ کو بلا مقابلہ دیکھا جاسکتا ہے۔ پس اگر یہ کہا گیا کہ : ایسا ہونا ممکن ہے؛ تو ان کا عقیدہ باطل ٹھہرا۔ اور اگر یہ کہا گیا کہ: یہ ایسا معاملہ ہے کہ عقل اسے ممنوع ٹھہراتی ہے۔ تو ان سے کہا جائے گا: جس چیز کو تم واجب اور موجود کہتے ہو؛ عقل اسے اس سے بڑا ممتنع ٹھہراتی ہے۔

اگر تم کہتے ہو: یہ نفی وہم کے حکم سے ہے۔

تو تم سے کہا جائے گا کہ: تو پھراس صورت میں اس کا انکار وہم کے حکم میں ہونے کا زیادہ حق دار ہے۔

اور اگر تم کہو کہ: یہ انکار عقل کا حکم ہے۔

تو تم سے کہا جائے گا کہ: تو پھر اس کا انکار بھی بدرجہ اولیٰ انکار عقلی ہونے کا حق دار ہے۔

بیشک تم کہتے ہو کہ: وہم کا حکم باطل ہے؛ کہ کوئی ایسا حکم لگایا جائے جو نہ ہی محسوس ہے اور نہ محسوس کے حکم میں ہے۔ پس اس صورت میں جب تم نے کہا کہ: بیشک باری تعالیٰ غیر محسوس ہیں ؛ تو یہ بھی ممکن ہے کہ تم اس میں وہ حکم قبول کرلو جو محسوس میں ممتنع ہوتا ہے؛ اور وہ بلا مقابلہ امتناع رؤیت ۔

اگر تم کہو کہ: بیشک وہ محسوس ہے؛ اور اس کا احساس ہونا ممکن ہے؛ تو اس میں وہم کا حکم باطل نہیں ہوگا؛ لیکن یہ ممتنع ہو جائے گا کہ نہ ہی وہ عالم کے داخل میں ہو اور نہ ہی خارج میں ۔ پس اس صورت میں اس کی رؤیت جائز ٹھہرے گی۔اگر تم کہو کہ: جب وہ غیر محسوس ہے تو وہ غیر مرئی بھی ٹھہرا۔

تو تم سے کہا جائے گا کہ: اگرمحسوس سے تمہاری مراد معتاد حس ہے؛ تو دیدار کے قائلین جس بلا مقابلہ رؤیت کو ثابت مانتے ہیں ؛ تو وہ وہی معتاد رؤیت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایسی رؤیت ہے جس کی مواصفات کو ہم نہیں جانتے۔ جیسا کہ تم لوگ ایسے موجود کے وجود کو ثابت مانتے ہو جس کی صفات ہمارے علم میں نہیں ۔پس ہر وہ تناقض اور شناعت جس کا الزام تم دیدار کے قائلین پر دھرتے ہو؛ اس سے اکثر تناقضات تم پر لازم آتے ہیں ۔

سوم:....یہ کہا جائے کہ اہل حدیث و سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ علو، مبانیہ اور رؤیت ثابت ہے۔ اب جس نے ایک تو ثابت کیا اور دوسرے کی نفی کی وہ اس سے زیادہ عقل و شرع کے قریب ہے جو دونوں کی نفی کرتا ہے۔

پس وہ اشاعرہ جو رؤیت کو ثابت مانتے ہیں اور جہت کا انکار کرتے ہیں ؛ وہ ان معتزلہ اور شیعہ کی نسبت عقل اور شرع کے زیادہ قریب ہیں جو اس کا انکار کرتے ہیں ۔اس کا شریعت سے قریب ہونا اس لیے ہے کہ جو آیاتِ و أحادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول آثار و روایات علو اور رؤیت پر دلالت کرتی ہیں ؛ ان کا شمار دشوار ہے۔ جبکہ علو اور رؤیت کی نفی کرنے والوں کے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں ۔ ان کا مدار بس عقل پر ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ اِن تناقض کا شکار اشعریہ کا قول اُن کے قول سے بہتر ہے۔ وہ یوں کہ جب ہم عقل پر ایک ایسے موجود کے وجود کو پیش کرتے ہیں کہ:

٭ جس کی طرف نہ اشارہ ہو سکتا ہے۔ ٭ نہ اس کے قریب جا سکتے ہیں ۔

٭ نہ اس کی طرف کوئی چیز چڑھ سکتی ہے۔ ٭نہ اس کے پاس سے کوئی چیز اترتی ہے۔

٭ نہ وہ عالم میں داخل ہے اور نہ خارج میں ۔ ٭ اور نہ اس کی طرف ہاتھ اٹھائے جا سکتے ہیں ۔

اس طرح کے دیگر اقوال و افکار ؛ توفطرت اس کا انکار کرتی ہے؛ اور سب فطرتی عقل والے اس کا انکار کرتے ہیں کہ جن کی عقل بگڑ نہ گئی ہو۔ اس کا اقرار صرف وہی کرتا ہے جس کے پاس نفاۃ کے اقوال اور دلائل ہیں ۔ وگرنہ فطرت سیلمہ اس کے انکار پر متفق ہے جو خرقِ عادت پر انکار سے بھی زیادہ ہے۔اس لیے کہ عادات کا معجزہ بن جانا جائز نہیں ہو سکتا۔ اس پر تمام اہل ملت اور عقلاء کا اور فلاسفہ کا اتفاق ہے۔

پس ہم کہتے ہیں : منکرین دیدار کا قول اگر حقیقت میں عقل میں بھی مقبول ہو تو ؛ بغیر جسم کے عرش پر رب تعالیٰ کا اثبات عقلی طور پر قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ وہ عرش کے اوپر ہے؛ تو اس چیز کے دیدار کا عقیدہ جو انسان کے اوپر ہو؛ بھلے وہ جسم نہ بھی ہو؛ منکرین دیدار کے عقیدہ کی نسبت عقلی طور پر قبولیت کے زیادہ قریب اور اس کا حقدار ہے۔

چہارم :....اشعریہ کہتے ہیں : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ہمارے سامنے ایسی شی کو پیدا کر دے کہ جس کو نہ ہم دیکھ سکیں اور نہ سن سکیں چاہے وہ جسم ہو یا آواز اور وہ ہمارے سے بے حد بعید شی کو بھی ہمیں دکھلا سکتا ہے۔لیکنیہ نہیں کہتے ہیں کہ یہ واقع میں بھی ایسا ہے ۔ بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے اور جس پر بھی وہ قادر ہے، وہ اس کے وقوع میں شک نہیں کرتے۔ بلکہ یہ مانتے ہیں کہ فی الحال یہ واقع نہیں ہے اور وقوع کو جائز قرار دینا یہ اس میں شک کرنے کے علاوہ ایک امر ہے۔

لیکن اس ناقل کی عبارت تقاضا کرتی ہے کہ ایسااس وقت میں موجود بھی ہے؛ لیکن ہم اسے نہیں دیکھ سکتے ۔ پر اس کا کوئی بھی عاقل قائل نہیں ہے۔ایسا صرف الزامی طور پر کہا گیا ہے۔ان سے یہ کہا جائے گا کہ: جب تم لوگ اس کے قائل ہوکہ بغیر کسی جہت کے دیکھا جاسکتا ہے ؛ تو انہوں نے بھی اس کو جائز کہا ہے۔ تووہ کہتے ہیں : ہاں ہم اس کو جائز کہتے ہیں ۔ جیسے تم اس بات کو جائز کہتے ہو کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار جائز ہے؛ یعنی اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ہمیں دنیا میں اپنا دیدار کرا دے حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی اللہ تعالیٰ کے دیدار پر قادر نہیں ۔ہاں اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار الٰہی کے متعلق اختلاف ہے۔ پس ان میں سے جو کوئی اس دنیا میں دیدار واقع ہونے میں شک کا شکار ہوا؛ وہ اس کی نفی کے دلائل سے اپنی جہالت کی بنا پر اس کا شکار ہوا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسروں کے لیے اس دنیا میں رب تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بارے میں اشعری نے دو قول نقل کئے ہیں ۔ لیکن جس پر تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے؛ وہ یہ عقیدہ ہے کہ کوئی ایک بھی اس دنیا میں اپنی آنکھوں سے رب تعالیٰ کا دیدار نہیں کرسکتا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ نے اس نفی پرسلف صالحین کا اتفاق نقل کیا ہے۔ اور خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ۔صحیح مسلم اوردیگر کتب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمایا:

’’جان لیجیے تم میں سے کوئی اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا حتی کہ وہ مرجائے۔‘‘[سبق تخریجہ]

حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دیدار کا سوال کیا تھا؛ تو آپ کو منع کردیا گیا۔ پس عوام الناس میں سے کوئی ایک حضرت موسی علیہ السلام سے افضل نہیں ہوسکتا۔ اور جملہ طورپر ہر وہ بات جو کہنے والا کہہ دیتا ہے کہ :’’بیشک ایسا ہونا ممکن اور مقدور ہے؛‘‘ اس کے واقع ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔

اشاعرہ اور ان کی موافقت رکھنے والے شوافع؛ مالکیہ اور حنابلہ اگرچہ رؤیت کے بارے میں عادت کے برعکس بعض امور کے جائز ہونے کا کہتے ہیں ۔ پس وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ اور بندے کے مابین کوئی حجاب نہیں ہوتا؛ مگر اتنی بات ہے کہ آنکھوں میں دیدار کی صلاحیت نہیں پیدا کی گئی۔ ایسے ہی ان کا تمام مرئیات کے بارے میں کہنا ہے۔

پس وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ آنکھ میں ایسی کو ئی امتیازی قوت ہو جس کی بنا پر دیدار کا حصول ممکن ہوسکے۔ اور اس بات کو بھی ممنوع کہتے ہیں کہ اسباب اور مسببات میں کوئی التزام؍[ملازمت] ہو۔ اور یہ کہ موانع اور ممنوعات کے مابین کو ممانعت ہو۔ وہ ان تمام چیزوں کو محض عادت قرار دیتے ہیں ؛ جو محض مشئیت کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ اور پھر اس محض مشئیت سے خرق عادت کے ہونے کو جائز کہتےہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ : ہم ایسی بہت ساری چیزوں کا منتفی ہونا جانتے ہیں جن کے امکان کا علم ہوتا ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سمندر کبھی خون نہیں بن سکتا؛ اور نہ ہی پہاڑ یاقوت بن سکتے ہیں ۔ اور نہ ہی حیوانات درخت بن سکتے ہیں ۔ بلکہ ایسی چیزوں کے علم کو عاقل اور مجنون کے درمیان وجہ فرق سمجھا جاتا ہے۔ اور وہ لوگ اگرچہ اپنے بعض ان عقائد میں تناقض کا شکار ہیں جو کہ عقلاً و نقلاً باطل ہیں ؛ پھر بھی تقدیر؛ صفات اور رؤیت کے بارے میں ان کے اقوال و عقائد ان معتزلہ اورموافقین شیعہ کے عقائد سے بہتر ہیں ۔ اگرچہ صواب وہی بات ہے جس پر سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت قائم ہیں ؛ جو کہ ائمہ اربعہ اور ان کے جمہور کبار اصحاب کا عقیدہ ہے۔ اور ان ائمہ مذکورین سے ماثور نصوص دوسرے مقامات پر بیان کی جاچکی ہیں ۔

مکمل بیان وہی ہوتا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کردیا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سب سے بڑے عالم ؛ اور مخلوق کے سب سے بڑے خیرخواہ تھے۔ اور حق کے بیان میں ان سب سے بڑے فصیح اللسان تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات بیان کئے ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ کا عرش پر بلند ہونا؛ اور اس کا دیدار ہونا بیان کیا ہے وہ اس باب کی منتہی ہے؛ اور اللہ ہی حق کی توفیق دینے والا ہے۔