کیا اہل سنت میں بھی غلو پایا جاتا ہے؟ .... ایک اعتراض اور اس کا جواب
امام ابنِ تیمیہؒکیا اہل سنت میں بھی غلو پایا جاتا ہے؟ .... ایک اعتراض اور اس کا جواب:
[اعتراض ]:.... اگر یہ کہا جائے کہ جو غلو، شرک اور بدعت تم نے روافض میں بیان کیا ہے، وہ بے شمار اہل سنت میں بھی پایا جاتا ہے۔ بے شمار نام نہاد سنی اپنے مشائخ میں غلو اور شرک کرتے ہیں اور انھوں نے متعدد غیر شرعی بدعتی عبادات بھی بنا لی ہوئی ہیں ۔ پھر بے شمار نام نہاد سنی ان بزرگوں کی قبوں پر جن کے ساتھ انھیں حسن ظن ہوتا ہے اپنی حاجات مانگنے پہنچے ہوتے ہیں ۔ یا ان کا یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کی قبروں کے پاس مسجدوں سے زیادہ دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ پھر بعض اپنے شیوخ کی قبوں کی زیارت کو حج سے بھی افضل قرار دیتے ہیں اور بعض ان کی تعظیم میں ان کی قبروں کو ایسی رقت اور خشوع کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں جیسا کہ مسجدوں میں اور گھروں میں بھی نہیں کرتے۔ ایسی اور بھی کئی باتیں ہیں جو شیعوں میں بھی پائی جاتی ہیں ۔
٭ پھر یہ لوگ شیعوں کی طرح دنیا کی جھوٹی روایات بھی بیان کرتے ہیں جیسا کہ ان کا یہ قول ہے کہ ’’اگر پتھر کے ساتھ بھی حسن ظن ہو تو اللہ اس سے بھی نفع پہنچاتا ہے‘‘ اور یہ قول کہ ’’ان عبادتوں نے تم لوگوں کو تھکا دیا ہے اب ان قبر والوں کو لازم پکڑ کر دیکھو۔‘‘ اور یہ قول کہ ’’فلاں کی قبر تو مجرب تریاق ہے۔‘‘
٭ پھر کسی شیخ کے بارے میں یہ روایت کرتے ہیں کہ اس نے اپنے ساتھی سے یہ کہا کہ ’’جب کوئی حاجت ہو تو میری قبر پر آ کر مجھ سے مدد مانگنا‘‘ اور یہ کہ بعض مشائخ مرنے کے بعد بھی حیات جیسے تصرفات کرتے ہیں ۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی مرے ہوئے بزرگ سے مدد مانگ رہا ہوتا تو شیطان اس کی صورت میں آ کر اسے گمراہ کرتا ہے۔‘‘ ایسا اس شیخ کی زندگی میں اور مرنے کے بعد ہونا بھی ممکن ہے۔ پھر شیطان اس کی صورت میں آ کر سائل کی حاجت یا بعض حاجت کو پورا کر دیتا ہے۔ بالکل ایسا ہی نصاری کے شیوخ کے ساتھ بھی ہوا اور عرب و ہند کے بت پرستوں کے ساتھ تو شیطان ایسا کرتا ہی ہے۔
[جواب ]: یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان سب باتوں سے روکا ہے اور جس بات سے بھی اللہ اور اس کا رسول روکیں وہ مذموم اور ممنوع ہوتی ہے چاہے اس بات کا کرنے والا سنی ہو یا شیعہ۔ البتہ کتاب و سنت کے مخالف امور مذمومہ بہ نسبت سنیوں کے شیعہ حضرات میں زیادہ ہیں ۔ اہل سنت میں جو بھی شر ہے وہی شر شیعہ میں کہیں زیادہ ہے اور شیعہ میں جو بھی خیر ہے اہل سنت میں وہی خیر ان سے کہیں زیادہ ہے۔
٭ یہی حال مسلمانوں کا بہ نسبت یہود و نصاریٰ کے ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں جو بھی شر ہے، وہی شر اس سے کہیں زیادہ اہل کتاب میں ہے اور اہل کتاب میں جو بھی خیر ہے، وہی خیر ان سے کہیں زیادہ مسلمانوں میں ہے۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے کفار مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ عدل کے ساتھ مناظرہ بیان کیا ہے۔ کہ اگر ان لوگوں نے مسلمانوں میں موجود کسی عیب کو ذکر کیا تو رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس عیب سے بری قرار نہ دیا البتہ یہ فرمایا کہ یہی عیب مسلمانوں کی نسبت کفار میں کہیں زیادہ ہے۔ جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ﴾ (البقرۃ: ۲۱۷)
’’وہ تجھ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کی بابت پوچھتے ہیں ، کہہ دے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے اور اللہ کے راستے سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘
یہ آیت مسلمانوں کے ایک ایسے سریہ کی بابت نازل ہوئی تھی جنھوں نے رجب کے آخری دن ابن حضرمی کو قتل کر ڈالا تھا۔ تو مشرکوں نے مسلمانوں کو اس بات کا عار دلایا، جس پر رب تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ ہَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَ اَنَّ اَکْثَرَکُمْ فٰسِقُوْنَo قُلْ ہَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللّٰہِ مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَ غَضِبَ عَلَیْہِ وَ جَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ اُولٰٓئِکَ شَرٌّ مَّکَانًاوَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِo﴾ (المائدۃ: ۵۹۔۶۰)
’’کہہ دے اے اہل کتاب! تم ہم سے اس کے سوا کس چیز کا انتقام لیتے ہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو اس سے پہلے نازل کیا گیا اور یہ کہ بے شک تمھارے اکثر نافرمان ہیں ۔ کہہ دے کیا میں تمھیں اللہ کے نزدیک جزا کے اعتبار سے اس سے زیادہ برے لوگ بتاؤں ، وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر غصے ہوا اور جن میں سے بندر اور خنزیر بنا دیے اور جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی۔ یہ لوگ درجے میں زیادہ برے اور سیدھے راستے سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ۔‘‘
یعنی جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان میں سے بعض کو مسخ کر کے بندر اور خنزیر بنا دیا اور بتوں کے پجاریوں پر لعنت کی۔ کیونکہ ’’جَعَلَ‘‘ کا ’’لَعَنَ‘‘ پر عطف ہے۔ نہ کہ یہ مراد ہے کہ ان میں بعض کو بتوں کا پجاری بنا دیا۔
جیسا کہ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہی مطلب سمجھا ہے۔ کیونکہ لفظ اس معنی پر دلالت نہیں کرتا اور نہ اس معنی کے مناسب ہی ہے۔ کیونکہ مراد اس بات پر ان کی مذمت بیان کرنا ہے نہ کہ اس بات کی خبر دینا ہے کہ رب تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بتوں کا پجاری بنا دیا۔ کیونکہ صرف اتنی بات کی خبر دینے میں ان کی کوئی مذمت نہیں ۔ بخلاف انھیں بندر اور خنزیر بنا دینے کے کہ یہ رب تعالیٰ کی انھیں ان کے گناہوں پر سزا دینا ہے اور یہ ان کی رسوائی ہے۔ چنانچہ رب تعالیٰ نے ان کے شرک کے ارتکاب پر سزا دے کر اور ان پر لعنت کر کے ان کا عیب اور مذمت بیان کی کہ یہ بتوں کے پجاری ہیں ۔[ان دونوں آیات کی تفسیر کے لیے دیکھیں : تفسیر الطبری: ۱۰؍۴۳۳۔۴۴۴ طبعۃ دار الکتب القاہرۃ۔]
اب رافضہ میں بھی ان مشرکوں اور یہود و نصاریٰ کے مشابہ جو شرک پایا جاتا ہے، اس پر ان پر اللہ کی لعنت اور اس کی عقوبت ہے۔ کیونکہ نقول متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے بھی بعض کو اسی طرح مسخ کیا گیا س طرح ان یہود کو مسخ کیا گیا تھا۔ حافظ ابو عبداللہ محمد بن عبدالواحد المقدسی نے اپنی کتاب ’’النہی عن سب الاصحاب رضی اللّٰہ عنہم و ما ورد فیہ من الذم العقاب‘‘ میں متعدد ایسی معروف حکایات درج کی ہیں ۔ جبکہمیرے علم میں اور بھی حکایات ہیں جن کو حافظ مقدسی نے اپنی اس کتاب میں ذکر نہیں کیا۔[ یہ امام حافظ حجت محدث شام شیخ السنہ ضیاء الدین ابو عبداللہ محمد بن عبدالواحد بن احمد بن عبدالرحمان السعدی المقدسی ثم الدمشقی الصالحی الحنبلی ہیں ۔ سن ولادت ۵۶۹ھ اور سن وفات ۶۴۳ھ ہے۔ (دیکھیں : شذرات الذہب: ۵؍۲۲۵۔۲۲۶، الذیل لابن رجب: ۲؍۲۳۶، ۲۴۰)]
ان رافضہ میں وہ شرک اور غلو پایا جاتا ہے جو امت مسلمہ کے کسی دوسرے گروہ میں نہیں پایا جاتا۔ اس لیے دو جماعتوں میں غلو کا پایا جانا اظہر اور عیاں ہے۔ (۱) نصاریٰ (۲) اور رافضہ۔ جبکہ ایک تیسری قسم میں بھی غلو پایا جاتا ہے اور یہ وہ عبادات گزار اور زہد و قربانی کرنے والے لوگ ہیں جو اپنے مشائخ میں بے حد غلو اور شرک کرتے ہیں ۔