خلافت صدیقی سے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ کا زاویہ نگاہ
امام ابنِ تیمیہؒخلافت صدیقی سے متعلق ابن حزم رحمہ اللہ کا زاویہ نگاہ
امام ابن حزم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ الملل و النحل‘‘ میں فرماتے ہیں : [ابن حزم کا یہ بیان ان کے رسالہ’’ الامامۃ والمفاضلۃ‘‘ میں درج ہے۔ یہ رسالہ کوئی مستقل کتاب نہیں بلکہ ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’ الفِصَل فی الملل والنحل‘‘ جلد چہارم میں شامل ہے۔ دیکھے کتاب مذکورہ،ص:۱۰۷، طبع مصر۱۳۲۱۔ خلافت کے مسئلہ پر یہ اہم ترین کتاب ہے۔] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامت ابی بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں علماء کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے:
(۱) ایک گروہ کا خیال ہے کہ آپ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا۔
(۲) دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ جب آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام نماز بنایا تھا تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ آپ امامت و خلافت کے اوّلین مستحق تھے۔
(۳) تیسرے گروہ کے نزدیک افضلیت کی بناء پر آپ کو امام نماز بنایا گیا تھا۔ اس سے ان کی خلافت کی جانب اشارہ کرنا مقصود نہیں ۔
(۴) چوتھے گروہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً اپنے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں پر خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ درج ذیل براہین و دلائل کی روشنی میں ہم نے آخری نظریہ اختیار کیا ہے۔
پہلی دلیل:.... خلافت ابی بکر رضی اللہ عنہ کی پہلی دلیل [لوگوں کے طبقات کے لحاظ سے ]یہ ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾ (الحشر:۸)
’’(فئے کا مال)ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکالے گئے وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں ۔‘‘
اس آیت میں جن صحابہ کی صدق بیانی اور راست گوئی کی شہادت دی گئی ہے وہ آپ کو ’’خلیفۃ الرسول‘‘ کہنے میں یک زبان تھے۔
خلیفہ[خلیفہ بروز فعیل بمعنی مفعول ہے بنا بریں خلیفہ وہ شخص ہے جسے کسی نے اپنا نائب مقرر کیا ہو۔ جن لوگوں کی شان میں وارد ہے ﴿اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ ﴾ (الحجرات:۴۹؍۱۵) انہی لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسول یعنی نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے ملقب کیا تھا۔ حالانکہ وہ لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و احوال کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ اﷲکریم نے ان کو صادق بھی قرار دیا ہے۔ ] عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جس کو کسی نے اپنا قائم مقام بنایا ہو ۔ جو خود کسی کا نائب بن جائے اسے خلیفہ نہیں کہتے۔ خود بخود نائب بننے والے کو ’’ خالف‘‘ کہتے ہیں ۔اس کے علاوہ کوئی اور معنی لغت کے اعتبار سے ہر گز جائز نہیں ۔ خلیفہء رسول سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ آپ نماز پڑھانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام تھے۔وجہ یہ ہے کہ :
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں خلیفہ کے لقب سے مشہور نہیں ہوئے۔ حالانکہ آپ اس وقت بھی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے۔تو اس سے یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ یہ نیابت و خلافت امامت نماز کے علاوہ جداگانہ نوعیت کی تھی۔
دوسری دلیل: جن لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر اپنی نیابت کا شرف عطاء فرمایاتھا؛مثلاً غزوۂ تبوک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو [صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ تبوک۔(حدیث:۴۴۱۶) صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (حدیث: ۲۴۰۴) ] غزوۂ خندق میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو [جوامع السیرۃ لابن حزم(ص:۱۸۵) سیرۃ ابن ہشام(ص:۴۵۶)۔]اور غزوۂ ذات الرقاع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔[سیرۃ ابن ہشام(ص:۴۵۴) جوامع السیرۃ لابن حزم(ص:۱۸۲،۱۸۳) اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی بھی آتا ہے واللہ اعلم۔]علاوہ ازیں دیگر صحابہ جن کو یمن و بحرین اور طائف وغیرہ میں عامل بنا کر بھیجا گیا تھا۔ اس میں امت کا کبھی بھی کوئی اختلاف نہیں رہا کہ ان میں سے کوئی شخص بھی علی الاطلاق خلیفہ کے لقب سے مشہور نہیں ہوا[اورنہ ہی کوئی اس لقب کا مستحق تھا] ۔ اس سے یہ حقیقت ضروری طور پر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے کہ خلافت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس امت میں آپ کی قائم مقامی و نیابت مراد ہے؛ اس حقیقت کا کسی کو انکار نہیں ۔
اب یہ بات محالات میں سے ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یوں ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع کر لیا ہو ؛جبکہ آپ نے صراحتاً کسی کو بھی یہ منصب تفویض نہ فرمایا ہو۔
اگر آپ کوصرف نماز میں اپنا خلیفہ بنائے جانے کے علاوہ کوئی دلیل نہ ہوتی تو آپ اس لقب کے مستحق نہ ٹھہرتے ۔ جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ۔ مزید برآں صحیح حدیث میں وارد ہے کہ:
ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !گر میں لوٹ کر آؤں اور آپ موجود نہ ہوں تو پھر کیا کروں ؟.... اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ فوت ہو جائیں تو پھر کیا کروں .... فرمایا :’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو جائیے۔‘‘ [صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ ’’ لو کنت متخذا خلیلاً‘‘ (حدیث:۳۶۵۹)، صحیح مسلم (حدیث: ۲۳۸۶) ]
ابن حزم رحمہ اللہ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’یہ حدیث حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نص جلی ہے۔‘‘ ( کتاب الامامۃ والمفاضلۃ، ص: ۱۰۸)
حدیث صحیح میں وارد ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کی حالت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’میں نے ارادہ کیا تھا کہ تمہارے والد اور بھائی کو بلا کر ایک عہد نامہ لکھ دوں مبادا کوئی کہنے والا یہ کہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حقدار ہوں یا کوئی آرزو کرنے والا(خلافت کی) تمنا کرے۔ مگر اللہ تعالیٰ اور مومنین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو( خلیفہ) تسلیم نہیں کر سکتے۔‘‘[صحیح بخاری۔ کتاب المرضی۔ باب ما رخص للمریض ان یقول انی وجع (حدیث: ۵۶۶۶)۔]
’’ایک روایت میں ہے : ’’ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام ابو بکر کے علاوہ کسی کو خلیفہ نہیں مانتے ۔‘‘
ابو حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس امت پر خلیفہ مقرر کئے جانے میں نص جلی ہے ۔‘‘
[[شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اس حدیث سے یہ مستفاد نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرما دیا تھا۔ البتہ اس حدیث کے پیش نظر آپ جانتے تھے کہ امت آپ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کرے گی اور آپ نے اس پر اظہار پسندیدگی فرمایا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نص جلی سے سکوت اختیار کرکے صرف امت کے اجتماع پر اکتفاء فرمایا تھا۔‘‘]]
قائلین عدم استخلاف کے دلائل:
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ جن لوگوں کی رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درج ذیل قول پیش کرتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:’’اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کردوں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو مجھ سے افضل تھے ایسا ہی کیا تھا اور اگر مقرر نہ کروں تو جو مجھ سے بہتر ہستی تھے ‘ انہوں نے بھی کسی کو خلیفہ مقررنہیں کیا۔‘‘[یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ میرے پیش نظر ہے]۔‘‘ [صحیح بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب الاستخلاف (حدیث: ۷۲۱۸) صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ، باب الاستخلاف و ترکہ (حدیث :۱۸۲۳)۔]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ: ’’اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو خلیفہ بنانے والے ہوتے تو کسے یہ منصب تفویض فرماتے؟‘‘ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواباً فرمایا:’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۵)۔ حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا اور ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنی حیات طیبہ میں کسی کو خلیفہ بناتے تو کس کو بناتے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد کس کو؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو، پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد کس کو بناتے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو، پھر اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خاموش ہو گئیں ۔]
محدث ابن حزم رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’یہ محال ہے کہ حضرت عمر وعائشہ رضی اللہ عنہما کا قول اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم دونوں مرفوع احادیث کے خلاف ہوں ۔اور اس کے مقابلہ میں حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہماسے ایسی موقوف روایات پیش کی جائیں جن سے کوئی واضح اور ظاہری حجت نہ حاصل ہوتی ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اس روایت سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر کیے جانے کا حکم مخفی رہا۔جیسے دیگر کئی ایک احکام شرعی آپ مخفی رہے ‘جیسے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنے کا حکم؛ وغیرہ ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں کوئی تحریری دستاویز تحریر نہیں کی تھی۔‘‘ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے خلیفہ بنائے جانے کے لیے کوئی تحریری دستاویز موجود نہ تھی؛مگر اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت موجود تھی۔
کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ : حجت تو ان دونوں صحابہ کی روایت میں ہے ‘ ان کے قول میں نہیں ؟
[[امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس ضمن میں فرماتے ہیں :]]
’’حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر کئے جانے پر اثبات میں کلام دیگر کئی مواقع پر بڑی تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ یہاں پر مقصود آپ کی خلافت کے بارے میں لوگوں کی آراء کا بیان کرنا ہے ۔ کیا اس بارے میں کوئی نص خفی یا جلی وارد ہوئی ہے ؟ اور اس سے خلافت ثابت ہوتی ہے؟یا پھر اہل حل و عقد کے اختیار و انتخاب سے خلیفہ مقرر کئے گئے ؟
یہ بات بہت واضح کی جاچکی ہے کہ بہت سارے سلف و خلف نے نص جلی یا خفی کا کہا ہے ۔ توپھر اس طرح رافضی کی اہل سنت و الجماعت پر قدح باطل ہوگئی۔رافضی کا کہنا کہ[ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ]: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو امام مقرر نہیں کیا تھا اور آپ بلا وصیت فوت ہو گئے۔‘‘[مطلق طور پر یہ بات کہنا غلط ہے]
اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہ قول تمام لوگوں کا نہیں ۔اگریہ حق ہے تو بعض لوگوں نے کہا ہے ۔ اور اگر حق اس کے خلاف ہے تو بعض نے اس طرح بھی کہا ہے۔ پس دونوں طرح سے حق اہل سنت والجماعت کے عقیدہ سے باہر نہیں ہے۔