Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

راوندیہ کا عقیدہ: حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نص

  امام ابنِ تیمیہؒ

راوندیہ کا عقیدہ: حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نص

اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو پھر بھی ’’بصراحت کسی کو خلیفہ مقرر کرنے کے بارے میں شیعہ کے یہاں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ راوندیہ کہتے ہیں کہ:’’ آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا تھا۔‘‘اور امامیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہی دعویٰ کرتے ہیں ۔‘‘

قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’راوندیہ کی ایک جماعت کا دعویٰ ہے کہ آپ نے بعینہٖ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کرکے اس کا اعلان کیا تھا۔اور آپ نے کھل کر صراحت کے ساتھ اسے واضح کیاتھا۔ مگر امت نے اس نص کا انکار کرکے کفر وعناد کا مظاہرہ کیا ؛اورسر کشی کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی ؛[ اور مرتد ہو گئی]۔ان میں سے بعض یہاں تک کہتے ہیں کہ:’’ آپ نے تا قیام قیامت حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد کو خلیفہ مقرر کیا تھا۔‘‘ [ المعتمدِ فِی أصولِ الدِینِ ؛ ص 223:]

یعنی ایسا نص خفی سے ثابت ہے ۔ پس اس مسئلہ میں راوندیہ کے دو قول ہوئے ؛ جیسا کہ شیعہ کے دو قول ہیں ۔ امامیہ کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کیساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لیکر آپ کو خلیفہ مقرر کیا تھا کہ آپ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام ہوں گے۔ اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ۔ جب کہ زیدیہ اس قول میں ان کی مخالفت کرتے ہیں ۔ [مقالاتِ الِإسلامِیِین 1؍129 ؛ الملل والنحل 1؍137 ؛ الفرق بین الفِرقِ، ص 19، 22 ۔ 25.]

پھر زیدیہ میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں : ’’ من کنت مولاہ فعلي مولاہ ۔‘‘’’ جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے ‘‘ اس قول میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ مقرر کئے جانے پر نص موجود ہے۔ نیز یہ حدیث کہ : ’’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی؛ [سوائے اس کے کہ آپ نبی نہیں ہیں ] ‘‘؛ ان کے علاوہ دوسری روایات جن میں نص خفی موجود ہے ؛ اور ان کے معنی پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

زیدیہ میں سے جارودیہ فرقہ سے حکایت نقل کی گئی ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسی صفات بیان کر کے نص کے ساتھ خلیفہ مقرر کیاتھا کہ وہ صفات صرف آپ میں ہی پائی جاتی تھیں [کسی اور میں نہیں ]؛

آپ نے نام نہیں لیا ۔ پس راوندیہ کا نص کے بارے میں دعوی کرنا ویسے ہی ہے جیسے رافضہ کا دعوی۔ اس کے علاوہ بھی امامیہ سے کئی اقوال منقول ہیں ۔

ابو محمدابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ امامت صرف قریش کی اولاد میں ہی ہوسکتی ہے؛ ان کے مابین بھی اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک گروہ کہتا ہے: ’’خلافت کا وجود فہر بن مالک بن نضر کی تمام اولاد میں جائز ہے۔ یہ قول جمہور اہل سنت و الجماعت اور مرجئہ اور معتزلہ نے اختیار کیا ہے۔‘‘

دوسرا گروہ کہتا ہے: خلافت صرف حضرت عباس بن عبد المطلب کی اولاد میں ہی ہوسکتی ہے۔ یہ کہنے والے راوندیہ ہیں ۔

ایک گروہ کہتا ہے: خلافت صرف حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہوسکتی ہے۔

ایک گروہ کہتا ہے: خلافت صرف حضرت جعفر بن ابی طالب کی اولاد میں ہوسکتی ہے۔ پھر ان میں سے بھی صرف حضرت عبداللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کی اولاد تک محدود کرتے ہیں ۔ اور ہم تک یہ بات بھی پہنچی ہے کہ بنو حارث بن عبدالمطلب کہتے تھے کہ:خلافت بالخصوص صرف آل عبد المطلب میں ہی ہو سکتی ہے۔ اور ان کا خیال ہے اس میں عبدالمطلب کی تمام اولاد شامل ہے۔ ان میں ابو طالب؛ ابو لہب ؛ عباس اور حارث شامل ہیں ۔‘‘ [سِیرۃ ابنِ ہِشام 1؍113، طبع مصطفی الحلبِیِ، القاہِرۃ، 1355؍1936.]

آپ کہتے ہیں : ہم تک یہ بات پہنچی ہي کہ اردن میں ایک آدمی تھا ؛جو کہا کرتا تھا: خلافت صرف بنی عبد شمس میں ہی جائز ہوسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں اس نے ایک کتاب بھی لکھ رکھی تھی۔

ہم نے ایک ایسی کتاب بھی دیکھی ہے جو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی نے لکھی تھی۔ جس میں اس نے اس بات پر دلائل پیش کئے ہیں کہ خلافت صرف حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی اولاد میں ہی جائز ہو سکتی ہے۔ اور اس پر تفصیلی کلام آگے مسئلہ امامت میں لوگوں کے اختلاف کی بحث میں آئے گا۔

یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ رافضیوں کے اقوال آپس میں انتہائی تعارض رکھتے ہیں ۔ ان کا یہ دعوی کرنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت نص سے ثابت ہے ‘ بالکل ایسے ہی ہے جیسے راوندیہ کا دعوی کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی خلافت نص سے ثابت ہے ۔ اور ان دونوں اقوال کا باطل ہونا لا محالہ طور پر معلوم ہے۔اہل علم نے ان دونوں میں سے ایک بات بھی نہیں کہی۔ یہ تو اہل بدعت کے اپنی طرف سے گھڑے ہوئے اقوال ہیں ‘ جیسا کہ اس کے تفصیلی بیان میں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے دیندار اور اہل علم لوگ کبھی بھی اس چیز کے دعویدار نہیں رہے۔اور اس مسئلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی نصوص میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا کہنے والے اہل علم کی ایک جماعت ہیں ۔ جیسا کہ اس کا تفصیلی بیان بھی آگے آئے گا۔

یہاں پریہ بتانا مقصود ہے کہ: مقام نزاع پریہ بھی ویسے ہی استدلال کرتے ہیں جس طرح دوسرے لوگ استدلال کرتے ہیں ۔ آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ سب سے کمزور دلیل وہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نام لیکر خلیفہ مقرر کیے جانے کا ذکر ہے۔یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے قائلین میں سے بعض لوگ نص جلی سے خلافت ثابت کرتے ہیں ‘ اور بعض لوگ نص خفی سے ۔

ابن بَطہ رحمہ اللہ نے اپنی سند سے روایت کیا ہے؛ وہ کہتے ہیں :مجھ سے ابو الحسن اسلم الکاتب نے بیان کیا؛ ان سے زعفرانی نے حدیث بیان کی؛ ان سے یزید بن ہارون نے‘وہ محدث مبارک بن فضالہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ: بیشک حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے محمد بن زبیرحنظلی کو حسن بصری کی خدمت میں بھیجا ۔اور ان سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا؟ ۔تو انہوں نے جواب دیا: کیا تمہارا ساتھی شک میں ہے؟ نیز آپ نے فرمایا: ہاں ! اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔آپ اس بات سے بہت زیادہ بچ کر رہنے والے تھے کہ ظلم سے خلافت پر قبضہ کرلیتے ۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ آپ کو لوگوں کی امامت کرنے کا حکم دیا جانا ہی آپ کو خلیفہ مقرر کرنا ہے ۔حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے نزدیک یہی آپ کو خلیفہ مقررکیا جانا تھا۔

آپ کہتے ہیں : ہمیں ابو القاسم عبداللہ بن محمد نے بتایا؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے ابو خیثمہ زہیر بن حرب نے حدیث بیان کی ؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے یحییٰ بن سلیم نے ان سے جعفربن محمد( متوفی ۱۴۸ ہجری ) نے حدیث بیان کی؛ وہ اپنے والد سے ؛ اور وہ حضرت عبد اللہ بن جعفر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :

’’ ہم پر ابو بکر کو خلیفہ بنایا گیا ۔ آپ بہترین خلیفہ تھے۔آپ ہم پر بہت زیادہ مہربانی و شفقت کرنے والے تھے۔ میں نے معاویہ بن قرہ رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا۔‘‘

پھرجن لوگوں کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو خلافت سے نوازا تھا ۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالاتفاق ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ رسول کہہ کر پکارتے تھے۔ اور خلیفہ وہی ہوتا ہے جس کو کوئی اپنا قائم مقام مقرر کردے۔ اس لیے کہ خلیفہ بروزن فعیل بمعنی مفعول ہے۔تویہ دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ہی خلیفہ مقرر کیا تھا۔جو لوگ اس دلیل میں جھگڑا کرتے ہیں ‘اور کہتے ہیں : لفظ خلیفہ کا اطلاق دونوں پر ہوتا ہے:

(۱) وہ شخص بھی خلیفہ ہے جس کو کوئی اپنا نائب بنائے۔

(۲)جو دوسرے کا از خود نائب بن جائے وہ بھی خلیفہ ہے۔

تواس صورت میں ’’فعیل بمعنی فاعل ‘‘ کے ہوگا۔جیسا کہ کہا جاتا ہے : فلاں انسان فلاں کا خلیفہ بنا۔جیساکہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

’’جس نے کسی کو جہاد کے لیے تیار کرکے بھیجا گویا اس نے خود جہاد میں شرکت کی اور جو اس کی عدم موجودگی میں اس کا خلیفہ(قائم مقام) بنا وہ بھی غازی ٹھہرا۔‘‘ [صحیح بخاری،کتاب الجہاد۔ باب فضل من جھز غازیاً(حدیث:۲۸۴۳)، صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب فضل اعانۃ الغازی فی سبیل اللّٰہ، (حدیث:۱۸۹۵) ]

مذکورہ بالا حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث بھی صحیح ہے۔ آپ دعا فرمایا کرتے تھے:

’’اے اللہ! تو میرا رفیق سفر ہے اور اہل و عیال میں میرا خلیفہ ہے‘‘(یعنی قائم مقام)۔اے اللہ ! سفر میں ہمارا ساتھی رہنا‘ اور ہمارے گھروالوں میں ہمارا خلیفہ رہنا۔‘‘ [صحیح مسلم۔ کتاب الحج۔ باب استحباب الذکر اذا رکب دابتہ،(حدیث:۱۳۴۲]

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ﴾ (الانعام۱۶۵)

’’ وہ اللہ ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

﴿ثُمَّ جَعَلْنَاکُمْ خَلَائِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ﴾ (یونس:۱۴)

’’پھر ان کے بعد ہم نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃَ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً﴾ (البقرۃ:۳۰)

’’جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا : بیشک میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں ۔‘‘

ایک اور جگہ فرمایا:

﴿یَا دَاؤٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِ﴾ (ص:۲۶)

’’اے داؤد! بیشک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے پس آپ لوگوں کے درمیان حق کیساتھ فیصلہ کریں ۔‘‘

مذکورہ بالا آیات کا مطلب یہ ہے کہ تجھے ان لوگوں کو خلیفہ بنایاہے جو تجھ سے پہلے تھے۔ یہ مقصود نہیں کہ

حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے نائب تھے۔ جیسا کہ قائلین وحدت الوجود کا نظریہ ہے۔

وحدت الوجود کے قائل یہاں تک کہتے ہیں کہ انسان کو ذات باری سے وہی تعلق ہے جو آنکھ کی پتلی کو آنکھ سے (یعنی دونوں ایک ہیں اور ان میں کچھ فرق نہیں)۔اوریہ اتحاد اور حلول کا نظریہ رکھنے والے ملحدین کا عقیدہ ہے :وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا جامع ہے، اس کی دلیل میں وہ درج ذیل آیت پیش کرتے ہیں :

﴿ وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّہَا ﴾ (البقرہ:۳۰)

’’اور حضرت آدم علیہ السلام کو سب نام سکھلا دئیے۔‘‘

اہل وحدۃ الوجود کا نقطہ خیال ہے کہ انسان اللہ کی مثل ہے جس کی تشبیہ کی نفی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ ﴾۔’’اس کی مانند کوئی چیزنہیں ہوسکتی ۔‘‘ 

اس کے علاوہ بھی ان لوگوں کے ایسے فاسد عقائد ہیں جن میں ہی کوئی صحیح عقلی دلیل پائی جاتی ہے ‘ اورنہ ہی نقلی دلیل ۔جس کے تفصیلی بیان کایہ موقع نہیں ۔

مقصود یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کا نائب نہیں بن سکتا۔ اس لیے کہ نیابت اس شخص کی ہوتی ہے، جو خود موجود نہ ہو۔ اور ذات باری ہمیشہ سے موجود اور مخلوقات کا ناظم و مدبر ہے۔ البتہ بندہ جب اپنے اہل و عیال میں موجود نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا نائب ہوتا ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اہل و عیال کی حفاظت فرماتا ہے۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو’’ یا خلفیۃ اللہ ‘‘ کہہ کر پکارا گیا ؛تو آپ نے فرمایا:

’’میں تو صرف خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں میرے لیے یہی کافی ہے۔‘‘[صحیح بخاری کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم’’ لو کنت متخذا خلیلاً( ح: ۳۶۵۹) ۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۶)]