بدعتی اور تعزیہ میں شرکت کرنے والے امام کی امامت کا حکم
سوال: ایک شخص دینی علوم کا حامل ہے۔ یعنی حافظ یا قاری جیسی سندیں اس کے پاس ہیں۔ پھر بھی وہ شخص راتب میں بیٹھتا ہے، ڈھول بجاتا ہے۔ تو کیا ایسے شخص کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ ایسا شخص لوگوں کی امامت کر سکتا ہے؟
جواب: ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہﷻ اور رسولﷺ کے احکام کی فرمانبرداری کرے۔ اور عالم یہ دینی علوم کے حامل یا امام کو تو اور زیادہ توجہ رکھنی چاہئے اور عمل کرنا چاہئے، اس لئے کہ اللہ نے اسے بہت بڑے مرتبہ سے نوازا ہے۔ ڈھول بجانا، راتب کی محفل قائم کرنا یا اس میں شرکت کرنا، تعزیہ میں شرکت کرنا گناہ کے کام ہیں اور یہ شرک تک لے جانے والی چیزیں ہیں۔ اس میں شریک ہونا یا ڈھول بجا کر لوگوں کو ناچنے پر آمادہ کرنا یہ حضورﷺ سے محبت کی نشانی نہیں ہے، بلکہ سیدنا حسینؓ کے قاتلین کے ساتھ مکمل مشابہت ہے کہ جنہوں نے حضورﷺ کے جگر کے ٹکڑے کو ظلماً شہید کر دیا اور اِس کی خوشی میں ناچے۔
اس لئے ہر مسلمان کو ایسے فعل سے بچنا چاہئے اور اس سے توبہ کرنی چاہئے، جب تک یہ شخص توبہ نہ کرے وہ امامت کے لائق نہیں ہے، اس کی امامت مکروہِ تحریمی ہو گی۔
(فتاویٰ دینیہ: جلد، 2 صفحہ، 57)