فصل:....کلام اللہ کے متعلق اشاعرہ کا عقیدہ اوررافضی اعتراض پر ردّ
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....کلام اللہ کے متعلق اشاعرہ کا عقیدہ اوررافضی اعتراض پر ردّ
رافضی کہتا ہے: اشاعرہ کا مذہب ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ازل میں امرو نہی کی ہے۔ حالانکہ اس وقت اس کے پاس کوئی مخلوق نہ تھی۔ وہ کہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ﴾ (الاحزاب: ۱)
’’اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈر۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ ﴾ (البقرۃ: ۲۷۸)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ ﴾ (النسآء: ۱)
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو۔‘‘
اگر ایک شخص خالی جگہ میں بیٹھ جائے ؛جہاں اس کا غلام اس کے پاس نہ ہو؛اور وہ اسے پکار کر یہ کہے: او سالم ! اٹھ کھڑا ہو۔ اے غانم ! تم کھاؤ۔ اے نجاح ! تم اندر آجاؤ۔ تو اس سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کو پکار رہے ہو؟ اور وہ جواب دے کہ ایک ایسے غلام کو پکار رہا ہوں جسے میں بیس برس بعد خریدنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ تو سب عقل والے اسے احمق اور بے وقوفکہیں گے۔ تو بھلا ان لوگوں نے اس بات کو رب تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کو کیونکر احسن جان لیا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]: اس کے کئی جوابات ہیں :
اوّل:....یہ کہا جائے گا کہ یہ کلابیہ کا قول ہے۔کلابیہ ان لوگوں میں سے ایک جماعت ہیں جو کہتی ہے کہ کلام اللہ غیر مخلوق ہے۔ اور یہ خلفائے ثلاثہ کو ماننے والی ایک جماعت کا قول ہے۔ ان کا قول چاہے حق ہو یا باطل تب بھی مذہبِ رافضہ کی صحت کو مقتضی نہیں اور نہ اہلِ سنت کے قول کے بطلان کو ہی مقتضی ہے۔پس اس نے جس قول کا ذکر کیا ہے؛ اگر یہ باطل ہے تو خلفاء ثلاثہ کے ماننے والوں کی اکثریت اس کا عقیدہ نہیں رکھتی۔ اور نہ ہی وہ لوگ اس کا عقیدہ رکھتے ہیں جو قرآن کو مخلوق کہتے ہیں ؛ جیسے معتزلہ ۔جو لوگ قرآن کو غیر مخلوق قرار دیتے ہیں ، مثلاً کرامیہ، سالمیہ ائمہ سلف اور مذاہب اربعہ کے اہل الحدیث وہ اس نظریہ کے قائل نہیں جس کا تذکرہ شیعہ مضمون نگار نے کیا ہے[ پس اس کو ذکر کرنے سے رافضی کا مقصود حاصل نہیں ہوتا]۔
دوم:....یہ کہا جائے کہ: اکثر شیعہ اور ائمہ اہل بیت بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن غیر مخلوق ہے۔ یہ قول ان کے اقوال میں سے ایک ہے اور اگر یہ حق نہیں تو یہ کہنا بھی ممکن ہے ان کے دیگر اقوال بھی ایسے ہی ہیں ۔
سوم :....یہ کہا جائے گا کہ:فرقہ کلابیہ اوراشاعرہ نے یہ نظریہ اس لیے اختیار کیا کہ اس مسئلہ کی اصل و اساس میں وہ معتزلہ کے ہمنوا ہیں ۔یہ سب حدوث اجسام کی دلیل کو صحیح تسلیم کرنے میں یک زبان ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اس چیز کو بھی حادث قرار دیتے ہیں جو حوادث سے خالی نہ ہو۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس چیز کے ساتھ حوادث کا قیام ہو وہ حوادث سے خالی نہ ہوگی، جب کہا جاتا ہے کہ جسم حرکت و سکون سے خالی نہیں ہے؛ تو وہ کہتے ہیں کہ: ازلی سکون ممتنع الزوال ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ازل سے موجود ہے اور جو چیز ازل سے موجود ہو اس کا زوال محال ہوتا ہے۔ علی ہذا القیاس جو چیز حرکت کو قبول کر سکتی ہے اور وہ ازلی بھی ہو تو اس کی حرکت بھی ازلی اور ممتنع الزوال ہوگی۔ ازلی حرکت کو تسلیم کرنے سے یہ لازم آئے گا کہ کچھ ایسے حوادث بھی ہوں جو ازلی ہوں اور ان کا نقطۂ آغاز معلوم نہ ہو۔حالانکہ یہ ممتنع ہے۔ اس سے یہ لازم آیا کہ ذات باری کے ساتھ حوادث کا قیام ممکن نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بات ادلہ عقلیہ یقینیہ سے ثابت ہے اور انہیں بخوبی معلوم ہے کہ کلام متکلم کے ساتھ اسی طرح وابستہ ہوتا ہے، جس طرح صفت علم کا قیام عالم کے ساتھ ہوتا ہے، قدرت قادر کے ساتھ اور حرکت کا متحرک کے ساتھ، یہ بھی مسلم ہے کہ جو کلام اللہتعالیٰ کسی دوسری چیز میں پیدا کر دیتے ہیں وہ اس کا کلام نہیں ہوتا بلکہ وہ اس چیز کا کلام کہلائے گا جس کے ساتھ وہ قائم ہے۔ اس لیے کہ صفت جب کسی محل کے ساتھ قائم ہو؛تو اس کا حکم اسی محل پر لوٹتا ہے۔اسے کسی دوسرے پر نہیں لوٹایا جاتا ۔اس محل کے لیے اس سے نام مشتق کیا جاتا ہے جو کہ کسی دوسرے کے لیے مشتق نہیں کیا جاتا۔ پس اگر کسی دوسرے میں پیدا کیا گیا کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہوتا تو اس سے چار باطل امور لازم آتے :
۱۔ اس سے مشتق اسم اورصفت کا ثبوت غیر اللہ کے لیے۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ سے اس حکم اور اسم کی نفی جو کہ دونوں عقلی اورسمعی طور پر اس لیے لازم ہیں کہ وہ کلام اس جگہ کی صفت ہیں ؛ اللہ کی نہیں ۔ ۳۔ پس وہ ایسی چیز کا منادی ہوگا جس کے ساتھ وہ قائم ہو۔پس درایں صورت وہ درخت جس میں اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کے لیے آواز پیدا کی تھی ؛ وہی اس قول کا قائل ہوگا: ’’إننی أنا اللہ ۔‘‘پھر یہ آواز دینے والی ہستی اللہ تعالیٰ کی نہیں ہوگی ۔اور اس سے لازم آئے گا کہ آپ اس کلام کرنے والے درخت کو ہی حضرت موسی علیہ السلام سے ہم کلام کہیں ؛ اور اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نہ ہی متکلم ہوں اور نہ ہی منادی اور مناجی۔ جب کہ یہ باتیں دین اسلام ضرورت کے تحت معلوم شدہ عقائد کے خلاف ہیں ۔ اور یہ ساری تفصیل دوسری جگہ پر بیان ہو چکی ہے۔
۲۔ پھر یہ کہ اگر وہ ازل میں متکلم نہیں تو پھر اس کی نقیض سے متصف ہو گا جو سکوت یا گونگا پن ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں : اگر اس کا کلام مخلوق ہے تو پھر اگر اس نے کلام کو ایک محل میں پیدا کیا ہے تو یہ اس محل کا کلام ہو گا اور اگر اس نے کلام کو قائم بنفسہ بنایا ہے تو صفت اور عرض قائم بنفسہ ٹھہریں گے اور اگر اس نے کلام کو خود اپنے میں پیدا کیا ہے تو لازم آئے گا کہ اس کی ذات محلِ مخلوقات ہو۔یہ تینوں لوازم باطل ہیں ؛اور کلامِ الٰہی کے مخلوق ہونے کے قول کو باطل قرار دیتے ہیں ۔ یہ ساری تفصیل دوسری جگہ پر بیان ہو چکی ہے۔
پس جب ان کے نزدیک یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کلام کا
قیام صرف متکلم کے ساتھ ہوتا ہے، اور وہ معتزلہ کی ہم
نوائی میں یہ بھی کہتے ہیں کہ حوادث ذات قدیم کے
ساتھ قائم نہیں ہو سکتے، تو ان ہر دو قواعد سے کلام کا
قدیم ہونا ثابت ہوگیا۔
کیا اصوات قدیم ہیں ؟:
اشاعرہ کے نزدیک اصوات کا قدیم ہونا ممتنع ہے۔ وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ صوت (چونکہ عرض ہے اس لیے وہ دو) زمانوں تک باقی نہیں رہ سکتی۔ بنا بریں یہ بات متعین ہوگئی ہے کہ کلام قدیم ایک معنوی چیز ہے اور حرف و صوت سے عبارت نہیں ، اندریں صورت وہ ایک ہی صفت سے متصف ہوگا اگر وہ ایک سے بڑھ جائے تو اسے غیر محدود ماننا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ غیر متناہی معانی کا وجود ممتنع ہوتا ہے۔یہ ان کے عقیدہ کی اصل ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم اس بات میں تمہارے ہم خیال ہیں کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی مراد و مقدور ہو وہ اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہو سکتی۔ تاہم ہم یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کلام ا لٰہی اس کا پیدا کردہ مگر اس سے منفصل ہے۔تمہارے ذکر کردہ اصول کی بنا پر اس سے ہمارے ساتھ مناقضہ لازم آتاہے۔ اگر کسی طرح جمع و تطبیق ممکن ہو تو تناقض رفع ہو جائے گا۔ تطبیق ممکن نہ ہونے کی صورت میں ہمارے ان دونوں مسئلوں میں سے ایک کو مبنی برخطا تسلیم کرنا پڑے گا، یہ ضروری نہیں کہ وہی مسئلہ غلط ہو جس میں ہم نے تمہاری مخالفت کی ہے۔ بخلاف ازیں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ جس مسئلہ میں ہم متحدالخیال ہیں وہی درست نہ ہو ۔یعنی کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت و قدرت کے مطابق وہ کلام نہیں کرتا جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔حالانکہ جمہور اہل الحدیث ، متکلمین کرامیہ اور شیعہ سب یہی عقیدہ رکھتے ہیں بالفاظ صحیح تریوں کہنا چاہیے کہ اکثر اسلامی فرقے اس کے قائل ہیں ۔جب ان دونوں مسئلوں میں سے کسی ایک غیر متعین میں ہمارا مبنی بر خطأ ہونا لازم آتا ہے تواس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ ہی راست اور حق پر ہوں ۔ اور جب مجبوراً ہمیں دونوں فرقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑا تو ہم اس فرقہ کی موافقت کو پسند کریں گے جس کا نقطۂ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تو بولتا ہے۔جو فرقہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی اور چیز میں اپنا کلام پیدا کر دیتا ہے، ہم اس کے ہم نوابننا پسند نہیں کریں گے، اس لیے کہ یہ نظریہ شرعاً و عقلاً فاسد ہے بہ نسبت اس قول کہ وہ ایسا کلام کرتا ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے؛ اور وہ اس کی مشئیت اور قدرت سے متعلق ہے۔
پھر وہ جمہور مسلمین جو کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مشئیت اور قدرت سے ایسا کلام کرتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے؛ ان کا دو اقوال میں اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مشئیت اور قدرت سے ایسا کلام کرتا ہے جو پہلے سے اس میں موجود نہیں تھا۔ یہ کرامیہ اور ان کے موافقین کا مذہب ہے۔ ۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم رہا ہے؛ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے کلام کرتا ہے۔ جیسا کہ ائمہ اہل سنت و الجماعت اور کلابیہ اوردیگر محدثین جیسے عبداللہ بن مبارک ؛ أحمد بن حنبل اور ان کے علاوہ دوسرے ائمہ اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ کلابیہ کہتے ہیں : اگرہم ان میں سے کسی ایک کی موافقت کے لیے مجبور ہوں جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق ہے؛ اور جو کہتے ہیں : اس کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے؛اور جنس کلام اس کی ذات میں عدم کے بعد پیدا ہوئی ہے؛ توان کے کلام میں معتزلہ کے عقیدہ کی نسبت بہت کم فساد اور خرابی پائی جاتی ہے۔ معتزلہ کے عقیدہ کا فساد زیادہ ظاہر ہے۔ بلاشک وشبہ دلیل اس کی نفی کرتی ہے کہ کسی چیز کا اس کی ذات سے اور اس کی ضد سے خالی نہیں ہوتی۔ یہ ایسی کمزور حجت ہے کہ اس کے ضعف کا اعتراف اس فرقہ کے بڑے ماہر علماء اوراہل انصاف لوگوں نے کیا ہے؛ ان کا اعتراف ہے کہ:ان کے پاس کوئی ایسی عقلی یا سمعی دلیل نہیں ہے جو حوادث کے اس ساتھ قائم ہونے کی نفی کرتی ہو؛ سوائے اس دلیل کے جو مطلق طور پر صفات کی نفی کرتی ہو۔ تو پھر کی دوسرے قول کی طرف پلٹنا کیسے ممکن ہے جو کہ اسلاف محدثین کا قول ہے۔
غرض اہل حدیث کا یہ قول کہ وہ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہے [کلام کرے]؛ دو مقدمات پر مبنی ہے:
ایک یہ کہ: اس کے ساتھ امورِ اختیاریہ قائم ہیں اور یہ کہ اس کا کلام بے نہایت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًاo﴾ (الکہف: ۱۰۹)
’’کہہ دے اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقیناً سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں ، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo﴾ (لقمان: ۲۷)
’’اور اگر زمین بھر کے درخت قلمیں ہوں اور سمندر اس کی سیاہی ہو، جس کے بعد سات سمندر اور ہوں تو بھی اللہ تعالیٰ کی باتیں ختم نہ ہوں گی، یقیناً اللہ تعالیٰ سب پر غالب، کمال حکمت والاہے۔‘‘
بہت سارے علماء کرام نے فرمایا: ’’بیشک اس جیسے کلام سے مراد اس امر پر دلالت ہوتی ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کا کلام نہ ختم ہوسکتا ہے اور نہ ہی مٹ سکتا ہے؛ بلکہ اس کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی۔ اور جس نے یہ کہاکہ: بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مشئیت اور قدرت سے ایسا کلام کرتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو؛ وہ یہ بھی کہتے ہیں : بیشک اس کلام کی مستقبل میں کوئی انتہاء نہیں ہے۔ جب کہ ماضی کے متعلق ان کے دو قول ہیں :
ان میں سے بعض کہتے ہیں : ماضی میں اس کی ابتداء ہوتی ہے۔ اور ان کے ائمہ کہتے ہیں : ماضی میں اس کی کوئی ابتداء ایسے ہی نہیں ہے جیسے مستقبل میں اس کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ اور یہ قول ایسے کلمات کو مستلزم ہے جس کی ازل اور ابد میں کوئی انتہاء نہیں ہے۔
کلام صفتِ کمال ہے اور اپنی مشیئت و قدرت کے ساتھ کلام کرنے والا اس سے زیادہ کامل ہے جو اپنی مشیئت و قدرت سے کلام نہیں کرتا۔ بلکہ متکلم تو ہوتا ہی وہ ہے جو اپنی قدرت و مشیئت سے کلام کرے۔بلکہ اس کے بغیر کسی متکلم کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔اور کلام اس وقت تک صفت کمال نہیں ہوسکتا جب تک وہ متکلم کے ساتھ قائم نہ ہو۔اور رہ گئے وہ امور جو ذات سے منفصل ہیں ؛ تووہ کسی بھی صورت میں صفت نہیں بن سکتے۔ کجا کہ وہ صفت کمال یا نقص ہوں ۔
کہتے ہیں : سلف صالحین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ اور ان کے علاوہ دیگر ائمہ مسلمین میں سے کسی ایک کے متعلق بھی معلوم نہیں ہوسکا جو اس اصول کا انکار کرتا ہو۔ اور نہ ہی کسی نے یہ کہا ہے کہ: ایسے کلمات کا وجود ممتنع ہے جن کی ماضی اورمستقبل [ ازل اور ابد] میں کوئی انتہا ہی نہ ہو۔اور نہ ہی کسی نے اس سے امتناع کے لزوم کا کہا ہے۔
بیشک ایسا کہنے والے کچھ متکلمین مبتدعین ہیں جو سلف اور ائمہ اہل سنت کے ہاں مذموم ہیں ۔جنہوں نے اسلام میں اللہ تعالیٰ کی صفات ؛ اس کے اپنی مخلوق پر علو[بلندہونے ]اور آخرت میں دیدا رکے انکار کا عقیدہ ایجاد کیا۔اور وہ کہنے لگے: ’’بیشک اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا۔‘‘اورپھر کہنے لگے: وہ کلام تو کرتا ہے مگر اس کا کلام مخلوق اور اللہ تعالیٰ سے جدا ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں : بیشک ہم یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ ہم نے حدوث عالم پر حدوث اجسام سے استدلال کیا ہے؛ اوراجسام کے حدوث پر ان حوادث سے استدلال کیا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ۔ اورجو چیز حوادث سے جدا نہ ہو وہ بھی حادث ہی ہوتی ہے؛ اس لیے کہ حوادث کا بلا ابتداء ہونا ممتنع ہے ۔ اور اگر ہم کہیں کہ: صفات اورکلام اس کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ؛ تو پھر حوادث کا اس ساتھ قیام لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ یہ تمام اعراض حوادث ہیں ۔
پس اہل سنت ان کو جواب میں کہتے ہیں : ’’بیشک تم بدعات ایجاد کرکے یہ گمان کرتے ہو تم اسلام کی نصرت کر رہے ہو؛ حالانکہ نہ ہی تم نے اسلام کی نصرت کی اور نہ ہی دشمن کو نیچا دیکھایا۔ بلکہ تم اہل عقل و شرع کو اپنے اوپر مسلط کردیا؛ وہ لوگ جو کہ مرسلین علیہم السلام کی نصوص کے علماء تھے؛ وہ جانتے تھے کہ تم ان کی مخالفت کر رہے ہو؛ اور بیشک تم گمراہ اور بدعتپرست ہو۔ اور معقول کے معانی جاننے والے علم رکھتے ہیں کہ تم ایسی بات کہتے ہو جو معقول کے خلاف ہے۔ اور تم خطا پر اور گمراہی کا شکار ہو۔
جن فلاسفہ کے متعلق تمہارا خیال ہے کہ تم ان پر حجت قائم کر رہے ہو؛ اس طریقہ سے وہ تم پر مسلط ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے دیکھ لیا کہ تم صریح معقول میں ان کی مخالفت کر رہے ہو۔ فلاسفہ الٰہیات اور شرع میں تمہاری نسب بڑے جاہل ہیں ۔لیکن جب انہوں نے خیال کیا کہ جو کچھ تم لیکر آئے ہو وہی شریعت ہے؛ اور پھر انہوں نے یہ بھی دیکھاکہ ایسا کرنا عقل کے خلاف ہے تو وہ تمہاری نسب عقل اور شرع سے بہت دور چلے گئے۔لیکن انہوں نے تمہارا مقابلہ عقلی دلائل بلکہ شرعی دلائل سے کیا ؛ تو اس باب میں تم ان کے مقابلہ میں حق اور صواب بیان کرنے سے عاجز آگئے۔
یہ سبب ان کے نفوس میں ان کی مزید گمراہی اور تمہارے اوپر مسلط ہونے کا سبب بنی۔ اور اگر تم ان کے ساتھ ان لوگوں کی راہ اختیارکرتے جو معقول اور منقول کی حقیقت کو جانتے ہیں ؛ تو یہ بات تمہارے لیے بڑی مدد گار ہوتی ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے لیے سب سے بڑھ کر ہوتے۔ لیکن تمہارا حال اس انسان کی طرح تھا جو کفار سے جہاد تو کرتا ہے مگر جھوٹ بول کر اور زیادتی و سرکشی کرتے ہوئے۔اور انہیں اس وہم میں مبتلا کر رہا ہو کہ یہ انسان ایمان کی حقیقت میں داخل ہو چکا ہے۔ پس ان لوگوں تک ان کا جو جھوٹ اور عداوت و سرکشی پہنچی تھی؛ وہ ان کے دعوی ایمان میں نقد و قدح کا موجب بن گئی۔اور جب ان لوگوں نے دیکھا کہ بادشاہی ؛ ریاست اور مال میں بھی اسی قس کی دھوکہ بازی اور حیلہ سازی پائی جاتی ہے؛ تو وہ ایسی راہ پر چل پڑے جو دھوکہ اور حیلہ سازی میں ان گمراہ مبتدعین کے طریقہ سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر تھی۔تو ان کے دین سے خروج کی وجہ سے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ان لوگوں پر مسلط کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ﴾ (آل عمران ۱۶۵)
’’ اور کیا جب تمھیں ایک مصیبت پہنچی کہ یقیناً اس سے دگنی تم پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا یہ کیسے ہوا؟ کہہ دے یہ تمھاری اپنی طرف سے ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾ (آل عمران ۱۵۵)
’’بے شک وہ لوگ جو تم میں سے اس دن پیٹھ پھیر گئے جب دو جماعتیں بھڑیں ، شیطان نے انھیں ان بعض اعمال ہی کی وجہ سے پھسلایا جو انھوں نے کیے تھے اور بلاشبہ یقیناً اللہ نے انھیں معاف کر دیا، بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت بردبار ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران ۱۶۶]
’’۱اور جو مصیبت تمھیں اس دن پہنچی جب دو جماعتیں بھڑیں تو وہ اللہ کے حکم سے تھی اور تاکہ وہ ایمان والوں کو جان لے۔‘‘
پس جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے ہیں ؛ وہ محض حق ہے؛ اور اس کی تصدیق صریح معقول اور صحیح منقول سے ہوتی ہے۔ اور اس کے مخالف اقوال ؛ اگرچہ ان کے کہنے والے بڑی تعداد میں مجتہدین تھے؛ جن کی خطأ معاف ہے ؛ تاہم وہ علمی دلائل کی روشنی میں اس مؤقف کی نصرت کا ملکہ نہیں رکھتے۔ اور جن علمی دلائل سے اس پر قدح کی جاسکتی ہے؛ اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے کہ صحیح عقلی دلائل صرف حق بات پر ہی دلالت کرتے ہیں ۔ اور وہ صحیح جوابات جو اپنے فریق مخالف کے دلائل کو باطل ثابت کرسکیں ؛وہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کے دلائل باطل ہوں بھی۔ اس لیے کہ باطل پر صحیح دلیل قائم نہیں ہوسکتی۔ اور جو چیز حق اور درست ہو اسے صحیح دلیل کے ذریعہ ختم نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں پر یہ بتانا مقصود ہے کہ جو کوئی ایسی بات کہے؛ جس میں ایک لحاظ سے راستی پر ہو؛ اور ایک لحاظ سے غلطی کر رہا ہو؛ حتی کہ وہ اس میں اپنے ہی قول سے تناقض کا شکار ہو؛ اور اس طرح اس نے اپنی بات میں دو متناقض امور کو جمع کردیا ہو۔ وہ اپنے مخالف مناقض سے تسلیم شدہ جدلی مقدمہ میں کہہ رہا ہو: میرا تناقض ان دو میں سے کسی ایک بات میں میرے غلطی پر ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔اور جو قول اس کے التزام سے تم مجھ پر لازم ٹھہرا رہے ہو؛ وہ تمہارے قول کی صحت پر دلالت نہیں کر رہا۔بلکہ یہ ممکن ہے کہ میرا دوسرا قول درست ہو۔
اشاعرہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں ہے۔اور اس لیے بھی کہ یہ اس امت کے اسلاف اور ائمہ کا عقیدہ ہے۔اوراس پر شرعی اورعقلی دلائل موجود ہیں ؛ جب ان سے کہا جائے کہ قرآن کریم کے قدیم ہونے کا قول ممتنع ہے۔ تو ان کے لیے یہ کہنا ممکن ہے کہ : جو لوگ اسے غیر مخلوق کہتے ہیں ؛ ان کے ہاں مزید دو اقوال ہیں ؛ جیسا کہ اس سے پہلے گزرچکا۔ اوران میں سے کوئی ایک قول بھی لازم نہیں آتا؛ وگرنہ جو لوگ اسے مخلوق کہتے ہیں ؛ ان کا عقیدہ اس سے بڑی خرابی اور فساد پر مشتمل ہے۔
عقل مند انسان آگ کی گرمی سے پناہ نہیں طلب نہیں کرتا؛اگر وہ اپنے مؤقف کو چھوڑ دیتا ہے؛ تووہ مرجوح قول سے راجح کی طرف رجوع کرتا ہے۔اور جو لوگ کہتے ہیں : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مشئیت اور قدرت سے کلام کرتے ہیں ؛ حالانکہ اس سے پہلے وہ متکلم نہیں تھا؛ اس میں معتزلہ اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لیے ان کے خلاف کوئی حجت نہیں ؛سوائے صفات کی نفی کی حجت کے۔ اور یہ حجت بھی انتہائی بیکار اوربودی ہے۔کلابیہ کے پاس ان کے خلاف کوئی دلیل ہے ہی نہیں ؛ سوائے اس کے کہ اس سے دوام حوادث لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ کسی چیز کا مقابل اس سے او راس کی ضد سے خالینہیں ہوتا۔اور اس لیے بھی حوادث کی قابلیت اس کی ذات کے لوازم میں سے ہوتی ہے۔
یہ بہت ہی کمزور دلائل ہیں جن کا یہ لوگ التزام کرتے ہیں ؛ اور اس کا اعتراف ان کے بڑے بڑے ماہر علماء کرچکے ہیں کہ اس باب میں وارد تمام عقلی دلائل انتہائی کمزور ہیں ۔جبکہ شرعی دلائل وہ مثبتین صفات کے ساتھ ہیں منکرین کے ساتھ نہیں ۔
یہ کہنا کہ: اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہیں ؛ وہ جب چاہیں کلام کرتے ہیں ؛ کلام رب تعالیٰ کی ذات کے لوازم میں سے ہے؛ اس پر اتنے دلائل ہیں کہ ان کے اعداد و شمار سے یہ کتاب تنگ پڑجائے گی۔ اور جو قول بھی صحیح ہو ؛ ہمارے لیے اس کا اختیار کرنا ممکن ہے۔
امام رازی اور دیگر کہتے ہیں : تمام عقلاء پر لازم آتا ہے کہ وہ حواد ث کے اس کی ذات کے ساتھ قائم ہونے کا قول اختیار کریں ۔ پس جب یہ صحیح ثابت ہو جائے تو یہ کہنا بھی ممکن ہوگا کہ وہ اپنی مشئیت اور قدرت سے کلام کرتا ہے۔ اس باب میں ہم نے دانشمندوں کی عقول کی منتہیٰ پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے جس پر کتاب و سنت اور سلف امت کے اقوال دلالت کرتے ہیں ؛ یہ تفصیل ہماری کتاب’’درء تعارض العقل و النقل ‘‘ اور دیگر کتب میں مل جائے گی۔
خلاصہ کلام ! جو بھی دلیل اس بات پر مبنی ذکر کی جائے کہ سکون ایک امر وجود ی ہے؛ اور بیشک اللہ تعالیٰ فاعل بنے ہیں ؛حالانکہ وہ پہلے فاعل نہ تھے؛ پس اس صورت میں حوادث غیر دائمی ٹھہریں گے۔اوریہ تو معلوم شدہ ہے کہ ان دونوں اقوال کا فاسد ہونا صاف ظاہرنہیں ہے؛خصوصاً تحقیق کے وقت ان دونوں اقوال یا ان میں سے ایک قول کی صحت ظاہر ہوتی ہے۔اور ان میں سے جو قول بھی صحیح ثابت ہوجائے ؛ تو اس کے ساتھ یہ کہنا بھی ممکن ہو جاتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ ایسا کلام کرتے ہیں جو اس کی مشئیت اور قدرت کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔
٭ اشاعرہ کہتے ہیں : جب یہ بات حق ہے ؛ تو جب ہم کہتے ہیں کہ: اس کا کلام اس کے ساتھ قائم ہوتا ہے؛ پس وہ اس کی مشئیت اور قدرت کے ساتھ معلق نہیں ہوتا؛ تو ہم نے حق بات تو کہی لیکن اس میں تناقض کا شکار ہوگئے۔ تو پھر بھی ہمارا قول ان لوگوں کے قول سے بہتر ہے جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا کوئی کلام ہی نہیں ؛سوائے اس کے جو وہ کسی دوسرے میں پیدا کرتا ہے۔ اور اس قول میں شریعت اور عقل کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
چہارم :....اورہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک کسی معدوم چیز کو خطاب کا اہل نہیں سمجھا گیا اور کسی چیز سے بشرطِ وجود مخاطب ہونا اس متکلم کے وجود کو تسلیم کرنے کی نسبت اقرب الی العقل ہے جس کا کلام اس کے ساتھ قائم نہ ہو اور رب ہونے کے باوصف جس سے صفات کمال مسلوب ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے جس عرض کو بھی کسی جسم میں پیدا کیا ہے وہ اس جسم کی صفت ہے خالق کی نہیں ۔ باقی رہا اس چیز سے مخاطب ہونا جو سر دست اگرچہ معدوم ہے تاہم اس کا وجود متوقع ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ وصیت کنندہ بعض اوقات کہتا ہے، کہ میری موت کے بعد ایسا کریں ویسا کریں اور جب میرا فلاں بچہبالغ ہوجائے تو میرا یہ حکم اسے پہنچا دیا جائے، بعض اوقات وہ اپنی جائیداد وقف کرنے کی وصیت کرتا ہے جو عرصہ دراز تک باقی رہتی ہے اور اس نگران کے نام وصیت کرجاتا ہے، جو وصیت کے وقت پیدا بھی نہیں ہوا ہوتا۔
٭....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ یا سالم ! اے غانم ! [وغیرہ اگر غیر موجود غلام کا نام لے کر پکارنا حماقت کی دلیل ہے]۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]۔
تو اس کا جواب یہ ہو کہ اگر مالک غیر موجود کوخطاب کے الفاظ میں پکارے تو اس کی قباحت میں کلام نہیں اور اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس غلام کو پکار رہا ہے جس کا وجود متوقع ہے۔ مثلاً وہ یوں کہے کہ مجھے ایک صادق القول شخص نے بتایا ہے کہ میری لونڈی غانم نامی ایک بچہ جنے گی جب وہ بچہ پیدا ہو تو وہ آزاد ہے، میں اپنی اولاد کو بھی اس بات کی وصیت کرجاتا ہوں اوراے غانم![ پیدا ہونے والے بچے ]میں تمہیں فلاں فلاں بات کی وصیت کرتا ہوں یہ وصیت بالکل درست ہے؛ اس میں کوئی ممنوعہ بات نہیں ۔ اس لیے کہ یہ خطاب ایک ایسے بچہ سے ہے جو حاضرفی العلم مگر مشاہدہ کے اعتبار سے غائب ہے۔اورانسان بسا اوقات ان لوگوں سے خطاب کرنے کا خوگر ہے جو اس کے تصور اورخیال میں موجود ہوں اور خارج میں موجود نہ ہوں ، تخیل کے اسی عالم میں وہ ذہنی اشخاص سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’ اے فلاں ! کیا میں نے تجھ سے فلاں بات نہیں کہی تھی....؟ ‘‘
شیعہ اور اہل سنت سبھی نے روایت کیا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آپ کا گزر صحرائے کربلا میں ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’ اے ابو عبداللہ ! صبر کیجئے ؛ ’’ اے ابو عبداللہ ! صبر کیجئے۔آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر رہے تھے۔‘‘
اس لیے کہ آپ کو علم ہو چکا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو عنقریب قتل کردیا جائے گا۔ یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے کربلا میں آنے اورلوگوں کے آپ کی قتل کے درپے ہونے سے بہت پہلے کا واقعہ ہے ۔
اسی طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خروج دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے اللہ کے بندو ! ثابت قدم رہنا ۔‘‘ [صحیح مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب ذکر الدجال،(حدیث:۲۹۳۷) مطولاً۔] حالانکہ وہ لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
ایسے ہی مسلمان اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں :’’ السلام علیک أیہاالنبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔‘‘تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس [جسمانی طورپر تو ] موجود نہیں ہوتے؛ مگر ان کے دلوں میں موجود ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾ (یس:۸۲)
’’اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
اکثر علمائے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ خطاب اس چیزسے ہوتا ہے جسے رب سبحانہ و تعالیٰ اپنے نفس میں جانتے ہیں ؛ لیکن خارج میں ابھی تک اس کا وجود نہیں ہوتا۔ اور جس کسی نے یہ کہا کہ: یہ خطاب شروع تکوین سے متعلق ہے؛ تو اس نے مفہوم خطاب کی مخالفت کی۔ اور آیت کریمہ کو اس پر محمول کرنا اس خطاب کے ان معانی میں استعمال ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ اور بیشک جس زبان میں قرآن مجید نازل ہوا ہے؛ یہ بھی اسی میں ہے۔ وگرنہ کسی ایک کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خطاب کو اپنی مرضی پر چسپاں کردے۔ قرآن کریم جو کہ عربی بان میں اور قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے؛ اس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب میں عادتاً ایسی چیزیں معروف ہیں ؛ کسی ایک ان سے خروج کا اختیار حاصل نہیں ۔
خلاصہ کلام ! ہمارا مقصد ان لوگوں کے قول کی حمایت کرنا نہیں جو کہتے ہیں : قرآن قدیم ہے؛ بیشک یہ قول اسلام میں سب سے پہلے ایجاد کرنے والا ابو محمد عبداللہ بن سعید بن کلاب ہے؛ اور پھر کچھ گروہ اس کے پیچھے چل پڑے۔ اس طرح دو گروہ ہوگئے۔ ایک گروہ کہتا تھا: قدیم ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اور دوسرا گروہ کہنے لگا: مطلب یہ ہے کہ وہ حروف ہیں ؛ یا حروف اور آوازیں ہیں ۔
ان میں سے ہر قول کی طرف اہل سنت کے کچھ طوائف منسوب ہوگئے؛ جن کا تعلق امام مالک؛ امام شافعی؛ اور امام أحمد بن حنبل رحمہم اللہ اور دیگرکے اصحاب سے تھے۔ان میں سے کوئی ایک قول بھی ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کا قول بھی نہیں تھا۔ بلکہ ائمہ اربعہ اور دیگر تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے؛ وہ اس کا کلام ہے؛ مخلوق نہیں ۔ اور کئی ایک ائمہ نے صراحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشئیت اور قدرت سے متکلم ہے۔یہ بھی صراحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے؛ وہ جب اور جیسے چاہے کلام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں جو ان ائمہ سے منقول ہیں ۔ اس مسئلہ میں سلف صالحین نے کلام کیا ہے۔ لیکن یہ نزاع اس وقت زیادہ مشہور ہوا جب ائمہ اسلام پر امتحان کا دور آیا۔اور جس ہستی کو اللہ تعالیٰ اس دور ابتلاء و امتحان میں ثابت قدم رکھا؛ اور ان کے ذریعہ سے سنت کی نصرت کی؛ وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں ۔اس سلسلہ میں آپ کا اور دیگر ائمہ کا کلام بہت سی کتابوں میں موجود ہے۔ اگرچہ آپ کے متأخرمتبعین کے ایک گروہ نے ابن کلاب کے قول کی موافقت کی ہے کہ قرآن قدیم ہے۔ جب کہ آپ کے مذہب کے ائمہ اس کی نفی کرتے آئے ہیں ؛ انکے نزدیک کلام قدیم ہے؛یعنی کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنی قدرت اور مشئیت سے متکلم رہے ہیں ۔
٭ جب کہ ان کے دو قول ہیں :
۱۔ کیا اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے کلام سے سکوت سے موصوف کیا جاسکتا ہے؟
۲۔ یا پھراللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہیں ؛اور اسے بعض اشیاء سے سکوت سے موصوف کیا جاسکتا ہے؟
یہ دونوں قول ابوبکر عبدالعزیز اور ابو عبداللہ بن حامد اور دیگر نے ذکر کئے ہیں ۔ان کے اکثر ائمہ اور جمہور کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے ؛ اور اسے بعض اشیاء سے سکوت سے موصوف کیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی القدر ہے:
((الحلال ما أحلہ اللّٰہ فِی ِکتابِہِ، والحرام ما حرّمہ اللّٰہ فِی کِتابِہِ، وما سکت عنہ فہو مِما عفا عنہ ))۔ [فِی سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۱۳۴کتاب اللِباسِ باب ما جاء فِی لبسِ الفِراِء، ونصہ: سئِل رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنِ السمنِ والجبنِ والفِرائِ فقال: الحلال....الحدِیث۔وقال التِرمِذِی: وفِی البابِ عنِ المغِیرِ: ہذا حدِیث غرِیب لا نعرِفہ مرفوعا إِلا مِن ہذا الوجہِ، وروی سفیان وغیرہ عن سلیمان التیمِیِ عن أبِی عثمان قولہ: وکأن الحدِیث الموقوف أصح، والحدِیث أیضاً فِی: سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۱۱۷کتاب الأطعِمۃِ، باب أکلِ الجبنِ والسمنِ، وذکرہ التبرِیزِی فِی مِشکاۃِ المصابِیحِ ؛ ونقل الألبانِی کلام التِرمِذِیِ۔ اس کی سند میں ہارون ضعیف ہے، لیکن شاہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے۔]
’’ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف ہے۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر آئمہ سلف فرماتے ہیں : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ آواز کے ساتھ کلام کرتے ہیں ؛ لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ معین آواز قدیم ہے۔‘‘