فصل:.... چادر میں چھپانے کا قصہ
امام ابنِ تیمیہؒفصل:.... چادر میں چھپانے کا قصہ
جس حدیث میں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو چادر تلے چھپانے کا ذکر کیا گیاہے‘ امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔[سنن ترمذی۔ کتاب المناقب۔ باب ما جاء فی فضل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہما (حدیث: ۳۸۷۱)]امام مسلم نے یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے:آپ فرماتی ہیں : ’سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ بالوں کی بنی ہوئی ایک منقوش چادر اوڑھے علی الصبح گھر سے نکلے۔ اتنے میں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما آ گئے تو آپ نے دونوں کو چادر کے نیچے چھپا لیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ آئے تو ان کو بھی چادر میں چھپا لیا۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾
بیشک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کردے اے اہل بیت ؛ اور تمہیں بالکل پاک کردے ۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل اہل بیت النبی۔ (حدیث: ۲۴۲۴)]’’سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ بالوں کی بنی ہوئی ایک منقوش چادر اوڑھے علی الصبح گھر سے نکلے۔ اتنے میں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما آ گئے تو آپ نے دونوں کو چادر کے نیچے چھپا لیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ آئے تو ان کو بھی چادر میں چھپا لیا۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾
’’ بیشک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کردے اے اہل بیت ؛ اور تمہیں بالکل پاک کردے ۔‘‘
ظاہر ہے کہ حدیث میں بیان کردہ وصف صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ؛ بلکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسن و حسین رضی اللہ عنہمابھی اس میں آپ کے ساتھ شریک تھے۔ ظاہر ہے کہ عورت امامت و خلافت کی اہل نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث میں بیان کردہ فضیلت خلفاء و ائمہ کے ساتھ مختص نہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی اس ضمن میں ان کے ساتھ شریک ہیں ۔ حدیث میں صرف دعا کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی آلودگی دور کر کے ان کو پاک و صاف فرما دے۔اس میں حد سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے پاکیزگی اور تقویٰ کی دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان سے گناہ کی آلودگی کو دور کر دے‘ اور نہیں پاک صاف کر دے۔گناہ کی آلودگی سے محفوظ رہنا مومن پر واجب ہے ‘ اور طہارت حاصل کرنے کا حکم ہر مؤمن کے لیے ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ﴾ [المائدہ]
’’ اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا ﴾ [التوبہ ۱۰۳]
’’آپ ان کے اموال سے صدقہ وصول کریں ؛ اور اس سے ان کو پاک کیجئے اور ان کا تزکیہ کیجئے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾ [البقرۃ ۲۲۲]
’’اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
بس زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتاہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے امر بجا لانے اور نواہی سے اجتناب کی توفیق کی دعا ہے ۔ اس سے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ’’ أَتْقٰی‘‘ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے؛ قرآن مجید میں ہے :
﴿اَ لْاَتْقٰیo الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیo وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی o اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰیo وَلَسَوْفَ یَرْضٰیo﴾ [للیل ۱۷۔۲۱]
’’وہ صاحب تقویٰ جو پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال دیتا ہے۔حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔مگر ( وہ تو صرف) اپنے اس رب کی رضا طلب کرنے کے لیے (دیتا ہے)جو سب سے بلند ہے۔ اور یقیناً عنقریب وہ راضی ہو جائے گا۔‘‘[حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت ’’ أَتْقٰی‘‘ کے اس زمرہ میں اس لیے شامل نہ تھے کہ آپ ان دنوں مال دار نہ تھے۔ آپ اس وصف سے اس وقت متصف ہوئے جب غزوہ خیبر کے بعد آپ مال و دولت سے سرفراز ہوئے۔] احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔مگر ( وہ تو صرف) اپنے اس رب کی رضا طلب کرنے کے لیے (دیتا ہے)جو سب سے بلند ہے۔ اور یقیناً عنقریب وہ راضی ہو جائے گا۔‘‘
ایسے ہی مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین اور احسان کے ساتھ اتباع کرنے والے جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہوگیا ؛ اور ان کو یہ بشارت سنائی
﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ [التوبۃ۱۰۰]
’’وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اس لیے ضروری ہے کہ وہ واجب امور بجا لاتے ہوں اور ممنوعات سے پرہیز کرتے ہوں تب یہ رضا مندی اور اس عمل پر یہ بدلہ ملے گا۔اس وقت ان سے گناہوں کی آلودگی کا دور کیا جانا اور انہیں پاک و صاف کرنا ان کی بعض صفات میں سے ایک صفت ہوگی۔ تو کملی کے نیچے چھپائے ہوئے لوگوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی اسی کی ایک قسم ہے‘ جو اللہ تعالیٰ نے سابقین اولین کی صفات بیان کی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان چادر کے نیچے چھپائے ہوئے لوگوں کے لیے ہی دعا نہیں فرمائی‘بلکہ ان کے علاوہ کئی ایک دوسرے لوگوں کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کی دعا فرمائی ہے؛ اور بہت سارے لوگوں کے لیے جنت اور مغفرت کی دعا فرمائی ہے؛ جو کہ صرف طہارت اور آلودگی دور ہونے کی دعا سے کئی درجہ بڑھ کر ہے ۔ اس سے یہ کہیں بھی لازم نہیں آتا کہ جن کے لیے آپ نے دعا فرمائی ہو وہ سابقین اولین سے افضل ہو جائے۔
مگر کملی کے نیچے چھپائے گئے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ جب طہارت حاصل کرنا اور گناہوں کی آلودگی سے دور رہنا ان پر واجب تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس فعل کے بجا لانے پر ان کی مدد فرمائے ‘ تاکہ وہ [اس فعل کے ترک کی وجہ سے ] عقاب اور مذمت کے مستحق نہ ٹھہریں ؛ اور ان اوامر کے بجا لانے کی مدح و ثواب کو پالیں ۔