Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....قریش کی امامت وخلافت

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....قریش کی امامت وخلافت

[اعتراض]:[شیعہ مصنف اہل سنت کا قول نقل کرتے ہوئے کہتاہے]: ’’ جو بھی قریش کی بیعت کرے ‘ اس کی امامت و خلافت منعقد ہوجاتی ہے ‘اور تمام لوگوں پر اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ حتی کہ اگرچہ وہ مستور الحال ہو۔ بھلے وہ انتہائی درجہ کے فسق و کفر اور نفاق میں مبتلا ہو‘ ‘۔ [انتہیٰ کلام الرافضی]۔[جواب]: اس اعتراض کا جواب کئی نکات پر مشتمل ہے : 

پہلی بات:....یہ اہل سنت والجماعت کا قول [عقیدہ] نہیں ہے۔ اہل سنت کا مذہب یہ نہیں ہے کہ صرف کسی ایک قریشی کے بیعت کرنے سے بیعت منعقد ہوجاتی ہے اور تمام لوگوں پر اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔ یہ بات اگرچہ بعض متکلمین [اہل کلام]نے کہی ہے ؛لیکن اس کا ائمہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں ‘بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:

’’ جو کوئی بھی مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کی بیعت کرے ۔تو نہ ہی اس بیعت کرنے والی کی بیعت کی جائے اور نہ ہی جس کی بیعت کی گئی ہے ؛ اس کی بیعت کی جائے ‘ بلکہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے ۔‘‘ [رواہ البخاری ]

دوسری بات : اہل سنت والجماعت حاکم کے ہر حکم کو واجب الاطاعت نہیں سمجھتے؛ بلکہ حاکم کی اطاعت کو صرف ان امور میں ہی جائز سمجھتے ہیں جن میں اطاعت کرنے کی اجازت شریعت نے دی ہے۔ پس اہل سنت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت کو جائز نہیں سمجھتے؛ بھلے وہ عادل [زاہد و عابد] حکمران ہی کیوں نہ ہو۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دے گا تو اس کی اطاعت کی جائے گی۔جیسے کہ : نماز قائم کرنے کا حکم دے؛ زکوٰۃ اداکرنے ؛ سچائی ؛ عدل ؛ حج ؛ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دے۔ اس صورت میں لوگ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں ۔اگر کوئی کافر اور فاسق کسی ایسے کام کا حکم دے جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو؛ توپھر اس صورت میں اس کے فسق کی وجہ سے اس کی اطاعت کا وجوب ساقط نہیں ہوگا۔ جیسے اگروہ حق بات کہے توکسی کے لیے اس کی بات کو جھٹلانا جائز نہیں ۔اور نہ ہی اتباع حق کا وجوب اس وجہ سے ساقط ہوگا کہ اس کلمہ کا کہنے والا فاسق ہے۔پس اس سے ظاہر ہوگیا کہ اہل سنت والجماعت مطلق طور پر کسی حاکم کی اطاعت نہیں کرتے ؛ بلکہ صرف ان امور میں اطاعت کرتے ہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو متضمن ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ﴾ (النساء:۵۹)

’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔‘‘

یہاں پر مطلق اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اورپھر اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے‘اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں ‘ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ﴾ (النساء:۸۰)

’’ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ۔‘‘

پھر حکمرانوں اور اولیاء الامور کی اطاعت کو بھی اسی ضمن میں شامل کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ﴾ اس کے علاوہ کسی تیسری طاعت کا کوئی ذکر نہیں ۔ اس لیے کہ حاکم کی اطاعت مطلق طور پر نہیں ہوگی۔بلکہ صرف نیکی اوربھلائی کے کاموں میں اس کی اطاعت ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ بیشک اطاعت نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ہوگی۔‘‘ [البخاری۵؍۱۶۱؛ ِکتاب المغازِی، باب بعثِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خالِد بن الولِیدِ ِل بنِی خزیم: ۹؍۶۳ ، کتاب الحاکمِ، باب وجوبِ طاعۃِ الأمراِ فِی غیرِ معصِیۃ: ۹؍۸۸ کتاب الآحادِ، باب ما جاء فِی ِإجازۃِ خبرِ الواحِدِ ۔ مسلِم: ۳,۱۴۶۹، کتاب الِإمارۃِ، باب وجوبِ طاعِۃ الأمرائِ فِی غیرِ معصِیۃ۔ سننِ أبِی داود:۳ ، کتاب الجِہادِ، باب: فِی الطاعۃِ۔ سننِ النسائِیِ:۷؍۱۴۲، کتاب البیعِ،جزاء من أمر بِمعصِیۃ فأطاع۔]

نیز ارشاد فرمایا: ’’ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہوگی۔‘‘[المسند: ۴؍۴۲۶ ورِجالہ ثِقات رِجال الشیخینِ غیر أبِی مِرای ہذا، ذکرہ ابن حبان فِی الثِقاتِ، ووردہ الہیثمِی فِی جامِعِ الزوائِدِ:۵؍۲۲۶ وقال: رواہ البزار والطبرانِی فِی الکبِیرِ والأوسطِ ورِجال البزارِ رِجال الصحِیحِ۔ ]

اور ارشادفرمایا: ’’ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہوگی۔‘‘[المسند ۵؍۶۶۔ أوردہ التِبرِیزِی فِی مِشکاۃِ المصابِیحِ:۲؍۳۲۳ عنِ النواسِ بنِ سمعان، وقال: رواہ فِی شرحِ السنۃِ، وذکر الألبانِی فِی تعلِیقِہِ أنہ حدِیث صحِیح، وجاء فِی المسندِ ط، الحلبِیِ: ۵؍۶۶، بِألفاظ مقارِب، وجاء بِمعناہ فِی المسندِ، ط۔ الحلبِی: ۴؍۴۳۲،۵؍۶۶، ۶۷۔ المستدرکِ: ۳؍۴۴۳وقال الحاِکم: ہذا حدِیث صحِیح الاِسنادِ ولم یخرِجاہ، وانظر سِلسِلۃ الأحادِیثِ الصحِیحِۃ: ۱؍۱۰۹، ۱۱۱۔ الحدِیث ، رقم:۱۷۹۔ ]

مزید فرمایا: ’’ جو کوئی تمہیں اللہ کی نافرمانی کا حکم دے ‘ تو اس کی بات نہ مانو۔‘‘ [المسند ۳؍۶۷۔ سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۹۵۵، کتاب الجِہادِ، باب لا طاعۃ فِی معصِیۃِ اللہِ، وفِی التعلِیقِ فِی الزوائِدِ: ِإسنادہ صحِیح، وجاء الحدِیث فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ:۵؍۲۵۹۔ وقال السیوطِی: أحمد وابن ماجہ والحاِکم عن أبِی سعِید، وحسنہ الألبانِی ولفظہ: من أمرکم مِن الولاِۃ بِمعصِیۃ فلا تطِیعوہ۔]

ان رافضیوں کا قول جسے یہ شیعان علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ : ’’غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ان کے ہر حکم میں مطلق طور پر واجب ہے ؛ یہ شیعان عثمان رضی اللہ عنہ اہل شام کی طرف منسوب قول سے انتہائی برا اور فاسد ہے جو کہتے ہیں : ولی الامر کی اطاعت مطلقاً واجب ہے ۔ اس لیے کہ یہ لوگ تو قوت وشوکت والے کی اطاعت کرتے ہیں جو زندہ اور موجود ہوں ۔ جب کہ رافضی معدوم ومفقود امام معصوم کی اطاعت کو واجب ٹھہراتے ہیں ۔ نیز یہ لوگ اپنے ائمہ کے معصوم ہونے کا دعوی بھی نہیں کرتے جیسے شیعہ اپنے ائمہ کی عصمت کا دعوی کرتے ہیں ۔بلکہ یہ لوگ اپنے ائمہ کو خلفاء راشدین اور عادل حکمران قرار دیتے ہیں ؛ جن کی ایسے امور میں اطاعت کی جاسکتی ہے جن کی حقیقت منکشف نہ ہو۔ اور کہتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں قبول کرنے والا اور گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔یہ بات اس دعوی کی نسب آسان ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ :

’’امام معصوم ہوتا ہے اس سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔‘‘

پس اس سے ظاہر ہوگیا کہ شیعان عثمان رضی اللہ عنہ میں سے جن لوگوں کو ناصبیت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ؛ اگرچہ انسے بھی حق و عدل کا دامن کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا ہے ‘ مگر ان کی نسبت رافضہ کا معاملہ زیادہ خطرناک ہے ‘ وہ حق و عدل سے بہت زیادہ اور سخت خروج کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اہل سنت والجماعت کا عقید ہ کتاب وسنت کے بالکل مطابق ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ حاکم یا ولی امر کی اطاعت صرف ان امور میں ہوگی جن میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا کوئی حکم دے تو اس کی کوئی اطاعت نہیں ہوگی۔

تیسری بات:....لوگوں نے فاسق اورجاہل حکمران [ولی امرکی اطاعت ] کے متعلق[بذیل اقوال میں ] اختلاف کیا ہے :

پہلاقول:....اگروہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دے ‘تو اس کی اطاعت کی جائے گی؛ اور اس کے حکم کو نافذکیا جائے گا اور اس کی قسم کو پورا کیا جائے گا؛جب کہ وہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو۔

دوسرا قول:....کسی بات میں بھی اس کا حکم نہیں مانا جائے گا‘ اور نہ ہی اس کا حکم چلے گا اورنہ ہی اس کی قسم کو پورا کیا جائے گا۔

تیسرا قول :....امام اعظم یعنی حکمران اور اس کے فروع یعنی قاضی وغیرہ کے درمیان فرق کیا جائے گا۔ [یہ تین اقوال ہیں ]

اہل سنت والجماعت کے ہاں سب سے ضعیف ترین قول اس کی تمام باتوں کا رد کرنا ‘ حکم نہ ماننا اور قسم پوری نہ کرنا ہے۔ جب کہ صحیح ترین قول پہلا قول ہے ۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دے تو پھر اس کی بات مانی جائے گی۔ اس کا حکم تسلیم کیا جائے گا ‘ اور اس کی قسم کوپورا کیا جائے گا۔ اس شرط کے ساتھ کہ جب اس کا حکم عدل پر مبنی ہو۔ یہاں تک کہ جاہل قاضی اورظالم انسان بھی اس کے حکم کو عدل و انصاف کے ساتھ نافذ کرے تو اس کی بات مانی جائے گی۔ یہ اکثر فقہاء کا قول ہے۔

تیسرا قول یہ تھا کہ: امام اعظم اور دوسروں کے درمیان فرق کیا جائے گا۔ اس لیے کہ حاکم کوفسق و فجور کی بنا پر اپنے عہدہ سے قتال اور فتنہ کے بغیر معزول کرنا ممکن نہیں ۔بخلاف قاضی یا گورنر وغیرہ کے ۔ انہیں معزول کیا جانا ممکن ہے۔ یہ فرق بھی ضعیف ہے ۔اس لیے کہ جب گورنر وغیرہ کو اصحاب شوکت و قوت لوگوں نے مقرر کیا ہو تو اسے بھی فتنہ کے بغیر معزول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جب اسے معزول کرنے کی کوششوں میں اس کے اس عہدہ پر باقی رہنے سے زیادہ فساد کا اندیشہ ہو تو پھر اس صورت میں چھوٹے فساد کو ختم کرنے کے لیے بڑے فساد کو دعوت دینا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔ یہی حال حکمران کا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ : یہ لوگ حکمرانوں کے خلاف مسلح خروج اور ان سے جنگ و قتال کو جائز نہیں سمجھتے۔اگرچہ یہ حاکم ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں ۔اس لیے کہ ان کے ساتھ جنگ و قتال کرنے میں جو فتنہ و فساد ہے ‘ وہ ان کے ظلم پر خاموش رہنے کےفتنہ وفساد سے بہت بڑھ کر ہے ۔ تو پھر اس صورت میں بڑے فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے اس سے کم درجہ کے فتنہ و فساد کو قبول کیا جاسکتاہے۔ تاریخ میں یہ بات معلوم نہیں ہوسکی کہ حکمران کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں کوئی فائدہ حاصل ہواہو؛ بلکہ اس بغاوت کی وجہ سے پہلے فتنہ و فساد سے بڑا فساد پیدا ہوا جسے یہ لوگ ختم کرنا چاہتے تھے ۔

اللہ تعالیٰ نے ہر باغی اور ظالم کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا خواہ کیسے بھی ہو۔ اور نہ ہی باغیوں سے جنگ شروع کرنے کا حکم دیا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْریٰ فَقَاتِلُوْا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ ﴾ (الحجرات:۹)

’’اگر مومنوں کی دو جماعتیں باہم برسر پیکار ہوں تو ان میں صلح کرا دیجئے اور اگر ایک گروہ دوسرے پر ظلم کر ے؛ تو اس سے لڑو جو دوسرے پر ظلم کررہا ہو؛ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم پر لوٹ آئے۔اگر وہ اللہ کے حکم پر لوٹ آئے تو ان کے مابین عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرادو ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ایک باغی جماعت سے بھی جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا تو پھر حکمران سے جنگ چھیڑنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے ؟ صحیح مسلم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ عنقریب ایسے امرا ہوں گے جن کے خلاف شریعت اعمال کو تم پہچان لوگے اور بعض اعمال نہ پہچان سکو گے۔پس جس نے اس کے اعمال بد کو پہچان لیا وہ بری ہوگیا۔ جو نہ پہچان سکا وہ محفوظ رہا۔ لیکن جو ان امور پر خوش ہوا اور تابعداری کی[وہ ہلاک ہوا]۔ صحابہ نے عرض کیا:کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ۔‘‘ [صحیح مسلم: ح۳۰۳]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حکمرانوں کے ساتھ جنگ کرنے سے منع فرمایا ہے ؛ حالانکہ آپ ہی خبر بھی دے رہے ہیں کہ تم لوگ ان میں برے امور دیکھوگے۔پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حکمرانوں کے خلاف تلوار لیکر نکلنا جائز نہیں ۔جیسا کہ بعض فرقے حکمرانوں سے برسر پیکار رہتے ہیں جیسے خوارج ؛ معتزلہ وغیرہ ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ عنقریب میرے بعد حقوق تلف کئے جائیں گے اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے انہیں حکم کیا دیتے ہیں ؟ جو یہ زمانہ پائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم پر کسی کا جو حق ہو وہ ادا کر دو اور اپنے حقوق تم اللہ سے مانگتے رہنا۔‘‘

[صحیح مسلم:ح۲۷۸ ]

اس حدیث مبارک میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ حکمران ظلم کریں گے اور برائیوں کے مرتکب ہوںگے ۔ مگر اس کے باوجود آپ ہمیں حکم دے رہے ہیں کہ ہم حکمرانوں کا حق ادا کریں ‘اور اللہ سے اپنے حق کے لیے دعا کرتے رہیں ۔ہمیں ہر گز یہ اجازت نہیں دی کہ ہم جنگ کرکے اپنا حق حاصل کریں ۔ اورنہ ہی اس بات کی رخصت دی ہے کہ ہم ان کا حق روک کر رکھیں ۔[کیونکہ اس سے پھر فتنہ پیدا ہونے کااندیشہ ہوتا ہے ]

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو آدمی اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جوا سے ناپسند ہو تو چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو آدمی جماعت سے ایک بالشت بھر بھی جدا ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ [صحیح مسلم:ح ۲۹۳]

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:

’’ جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناپسند ہو تو چاہئے کہ اس پر صبر کرے کیونکہ لوگوں میں سے جو بھی سلطان کی اطاعت سے ایک بالشت بھی نکلا اور اسی پر اس کی موت واقع ہوگئی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[صحیح مسلم:ح ۲۹۳] 

اس سے پہلے ایک حدیث میں یہ بیان بھی گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ وہ [ایسے حکمران ہوں گے ] جو میری سنتوں پر عمل نہیں کریں گے اور میری راہ پر نہیں چلیں گے ۔ تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر ہمیں کیا حکم ہے ؟ اگر ہم انہیں ایسے پائیں تو کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا: ’’ حکمران کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ‘ اگر وہ تمہاری پیٹھ ٹھونکے اور تمہارا مال چھین لے تب بھی اس کی بات سن اور اطاعت کر۔‘‘ [صحیح مسلم:ح۳؍۱۳۷۶]

حکمران کے ظلم کے باوجود اس کی اطاعت گزاری کایہ حکم ہے ۔اس سے پہلے حدیث میں گزر چکا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس انسان پر کسی کو والی[حاکم] بنادیا جائے ؛ پس وہ انسان دیکھے کہ یہ والی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کررہا ہے۔تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو نا پسند کرے ‘ اور[جائز امور میں ] اس کی نافرمانی سے ہاتھ نہ کھینچے ۔‘‘ [تخریج گزر چکی ہے ]

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی اور آسانی میں پسند و ناپسند میں اور اس بات پر کہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکام سے حکومت کے معاملات میں جھگڑا نہ کریں گے اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق بات ہی کہیں گے اللہ کے معاملہ میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ رکھیں گے۔‘‘[صحیح مسلم:۳؍۱۳۷۰؛ البخاری ۹؍۳۷]

اس حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں وصیت فرمارہے ہیں کہ ہم حکمرانوں کے ظلم وستم کے باوجود ان کی اطاعت کریں ؛ اور ان سے حکومت کے بارے میں جھگڑا نہ کریں ۔اس میں حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور خروج کیممانعت ہے۔ اس لیے کہ حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔اس سے مراد وہ حاکم ہے جن کا حکم چلتا ہو۔ اس سے مراد وہ نہیں ہے جو کہ حاکم بننے کا مستحق ہو‘ مگر [حاکم نہ بنا ہو] اور اسے کوئی شوکت وغلبہ حاصل نہ ہو۔ اور اس سے عادل متولی بھی مراد نہیں اس لیے کہ کبھی کبھار وہ بھی ظلم کرتے ہیں ؛پس حدیث دلالت کرتی ہے کہ اس سے مراد ظالم حکام سے جھگڑے کی ممانعت ہے۔یہ ایک وسیع باب ہے ۔

چوتھی بات:....اگر ہم یہ بات مان لیتے ہیں کہ ہر حاکم کے لیے عدل کا ہونا شرط ہے ۔ تو پھر اس صورت میں صرف ان ہی حکمرانوں کی اطاعت کی جائے گی جو عادل ہوں ۔ ظالم کی کوئی اطاعت نہیں ہوگی۔اس میں کوئی شک نہیں کے لیے والیان کے لیے عادل ہونے کی شرط رکھنا گواہوں کے عادل ہونے کی شرط سے بڑھ کر نہیں ہے ۔ اس لیے کہ گواہ کبھی ایسی چیز کی بھی گواہی دیتا ہے جس کے متعلق وہ کچھ حقائق نہیں جانتا۔ اگر وہ عادل نہ ہو تو پھر اس کی بتائی ہوئی بات کی تصدیق نہ کی جائے۔ جب کہ والی حکومت کسی چیزایسی چیز کا حکم دیتا ہے جس کا علم اسے کسی دوسرے کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے۔اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کام ہے یا نافرمانی کا۔اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا﴾ (الحجرات: ۶)

’’اے مسلمانو!اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔‘‘

اگر کوئی فاسق انسان کسی بات کی خبر دے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تحقیق کرنے کا حکم دیاہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ ظلم اطاعت کا کام کرنے اور نیکی کا حکم دینے میں مانع نہیں ہوسکتا۔ امامیہ کا اس بات پر ہمارے ساتھ اتفاق ہے۔ امامیہ یہ نہیں کہتے کہ : کبیرہ گناہ کرنے والاہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ ان کے نزدیک بھی فسق و فجور کی وجہ سے ساری نیکیاں ضائع نہیں ہوتیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جو اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں ؛ جیسے معتزلہ ‘ زیدیہ اور خوارج۔ جوکہتے ہیں کہ : فسق کی وجہ سے ساری نیکیاں تباہ ہوجاتی ہیں ۔اگر ساری نیکیاں ضائع ہوگئیں تو ایمان ضائع ہوگیا۔جب ایمان ضائع ہوگیا تو انسان کافر اور مرتد ہوگیا ‘ اس کا قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔

جب کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصوص اور اجماع امت اس پر دلالت کرتے ہیں کہ چوری کرنے والا ‘ زنا کرنے والا ‘ شراب پینے والا ‘ بہتان تراشی کرنے والا ؛ انہیں ان جرائم کی پاداش میں قتل نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ ان پر حد لگائی جائے گی ۔ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ لوگ مرتد نہیں ہوئے ۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا ﴾ (الحجرات: ۹)

’’اگر مومنوں کی دو جماعتیں باہم برسر پیکار ہوں تو ان میں صلح کرا دیجئے ۔‘‘

یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ان گروہوں کے آپس میں برسر پیکار ہونے [اور ایک دوسرے کو قتل کرنے] کے باوجود ان میں ایمان موجود ہے۔ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

((مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَدِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ أَلْقٰي فِي النَّارِ)) [البخارِیِ:۳؍۱۲۹کتاب المظالِمِ والغصبِ، باب من کانت لہ مظلِمۃ عِند الرجلِ فحللہا لہ: ۹؍۱۱۱، کتاب الرِقاقِ، باب القِصاصِ یوم القِیامۃِ، سننِ التِرمِذِیِ:۳۷؍۴، کتاب صِفِۃ القِیامۃِ، باب ما جاء فِی شأنِ الحِسابِ والقِصاصِ۔ المسندِ ط۔ الحلبِیِ: ۲؍۴۳۵، ۵۰۶۔]

’’جس نے اپنے بھائی کو تکلیف پہنچائی ہو، یا اس کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہو ،پس اسے وہ اس دنیا میں ہی ختم کردے ، اس سے قبل کہ وہ دن آئے جب اس کے پاس نہ دینار ہو اور نہ ہی درہم ،اور اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس سے اس ظلم کی قدر اعمال لیکر مظلوم کو دیے جائیں گے ، اور اگر اس کی کوئی نیکی نہ ہوگی تو مظلوم کی برائیاں لیکر اس پر ڈالی جائیں گی۔اورپھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘

صحیحین میں ایک حدیث ہے :ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا :

((أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ ۔)) [مسلِم:۴؍۱۹۹۷کتاب البِرِ والصِلۃِ والآدابِ باب تحرِیمِ الظلم، سننِ التِرمِذِیِ:۴؍۳۶ کتاب صِفۃِ القِیامۃِ، باب ما جا فِی شأنِ الحِسابِ والقِصاص، المسند :۵؍۱۷۹۔ ابن حبان: ۱۰؍ ۲۵۹۔]

’’کیاتم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ کہنے لگے : ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ دینار ہے اور نہ ہی درہم ہے،، ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :,, میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت والے دن نماز، روزے، اور زکوٰۃ لیکر آئےگا ،اور اس کی حالت یہ ہوگی کہ کسی کو اس نے گالی دی ہوگی ،اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی، اور کسی کا مال ناحق کھایا ہوگا ،اور کسی کا خون بہایا ہوگا،اور کسی کو مارا ہوگا۔پس اس کو بھی اس کی نیکیاں دی جائیں گی اور اس کو بھی اس کی نیکیاں دی جائیں گی۔ اور اگر اس کی نیکیاں اس پر حساب پورا ہونے سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس شخص پر ڈالے جائیں گے اور اسے جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ﴾ [ہود۱۱۳]

’’ یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔‘‘

یہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ انسان سے جب کوئی برائی ہو ‘ اور اس کے بعد نیکیاں کی جائیں تو یہ نیکیاں ان برائیوں کے اثرات کو ختم کردیتی ہیں ۔ اور یہ بھی ہے کہ اگرایسی برائیاں ہوں جو نیک اعمال سے ختم نہ ہوں تو وہ توبہ سےمعاف ہوجاتی ہیں ۔اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔

نائب امام کی عصمت کا مسئلہ :

یہاں پر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فسق کو خبر کے قبول کرنے میں مانع قرار دیا ہے۔ جب کہ نیکی کے کمانے میں فسق مانع نہیں ہوسکتا۔ کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے کہ گواہی صرف عادل لوگوں کی ہی قبول کی جائے گی اور اس میں صرف ظاہر پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اگر ولایت میں بھی عادل ہونے کی شرط لگائی گئی تو اس کے لیے ظاہری حالت ہی کافی ہوگی ۔

اس سے معلوم ہوگیا کہ ولایت [حاکم ہونے] کے لیے اتنے علم کی شرط نہیں ہے جتنے علم کا ہونا گواہوں کے لیے شرط ہے۔ اس کی وضاحت اس مسئلہ سے بھی ہوتی ہے کہ امامیہ اور دوسرے سارے لوگ امام کے نائب کے لیے غیر معصوم ہونے کو جائز سمجھتے ہیں ؛ اگرچہ امام کو اپنے نائبین کے گناہوں کا علم نہ ہو۔اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ بن معیط کو والی مقرر فرمایا‘ پھر اس نے واپس آکر ان لوگوں کی طرف سے جنگ شروع کرنے کی خبر دی جن کے پاس آپ کو بھیجا گیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿یٰاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ﴾ (الحجرات :۶)

’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی کمزور بیان والا خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کروایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پریشانی اٹھاؤ۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نائبین میں سے بہت سارے ایسے تھے جو آپ کے ساتھ خیانت کرتے تھے ‘ اور بہت سارے آپ سے بھاگ گئے تھے۔ آپ کے نائبین کا کردار کسی سے مخفی نہیں ۔اس سے معلوم ہوگیا کہ ایسے مفاسد کی موجودگی میں بھی ظاہر پر اعتبار کرنے میں امام معصوم کے لیے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اور ائمہ کے لیے معصوم ہونے کی شرط ایسی شرط ہے جو نہ شریعت میں مامور بہ ہے ؛اور نہ ہی [احوال کے لحاظ سے ] مقدوربہ ہے ۔ اور ایسی شرط سے نہ ہی کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہوا اورنہ ہی کوئی اخروی فائدہ حاصل ہوا۔

جیسا کہ بہت سارے عبّاد جواپنے مشائخ کے لیے ایسے امور کا عالم ہونا شرط لگاتے ہیں جنہیں بشریت میں کوئی دوسرا انسان نہیں جان سکتا ؛ تو یہ لوگ اپنے مشائخ کے لیے بھی اس جنس کی صفات کا ہونا شرط لگاتے ہیں جو امام معصوم کے لیے امامیہ شرط لگاتے ہیں ۔ لیکن انجام کار یہ ہوتا ہے کہ ایسی شرطیں لگانے والے کسی جاہل اور ظالم شیخ کے پیروکار بن کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہی حال شیعہ کا ہے آخر میں یہ لوگ بھی کسی ظالم و جاہل حاکم کوہی قبول کرلیتے ہیں ۔ ان کی مثال اس بھوکے انسان کی ہے جو شرط لگادے کہ وہ اس شہر کا کھانا اس وقت تک نہیں کھائے گا جب تک اس کے لیے جنت کے کھانوں جیسا کھانا پیش نہ کیا جائے۔ پھر اس کو کسی صحرا کی طرف نکال دیا جائے ‘ تووہاں پر اسے چوپایوں کے چارےکے علاوہ کچھ بھی نہ ملے ؛ جو جنت کے کھانوں پر بضد تھا آخر کار مویشیوں کا چارہ کھا کر گزر کررہا ہے ۔یہی حال ان لوگوں کا ہے جو زہد و عبادت و غیرہ میں شریعت کے عادلانہ نظام سے تجاوز کرجاتے ہیں ؛ ان کی خواہشات ایسے ہی آخر میں دم توڑ دیتی ہیں اور یہ لوگ حرام کے ارتکاب کا شکار ہوجاتے ہیں