Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل: ....اہل سنت پر قیاس کا طعنہ اور ا س کا رد

  امام ابنِ تیمیہؒ

 فصل: ....اہل سنت پر قیاس کا طعنہ اور اس کا رد

[اشکال ]: شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’تمام اہل سنت نے رائے و قیاس کو اختیار کر کے اس چیز کو دین کا جزو قرار دیا ہے جو اس میں سے نہیں ۔ علاوہ ازیں احکام شریعت میں تحریف کا ارتکاب کیا، مذاہب اربعہ ایجاد کیے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں موجود نہ تھے، اور اقوال صحابہ کو ترک کیا۔ حالانکہ ان سب نے قیاس ترک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور انہوں نے کہا تھا :’’ سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔

[جواب]:اس کاجواب کئی ایک طرح سے دیا جاسکتا ہے : 

پہلی وجہ :....شیعہ کا یہ دعوی کہ تمام اہل سنت والجماعت جو کہ سابقہ تین خلفاء کی خلافت کو درست مانتے ہیں ‘ وہ قیاس کے قائل ہیں ؛ یہ ایک باطل دعوی ہے۔ ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو قیاس کو نہیں مانتے ۔ جیسے معتزلہ اور بغدادیہ ؛ اورظاہریہ جیسے داؤد اور ابن حزم وغیرہ ؛ اور ایک گروہ اہل حدیث میں اورصوفیاء کا ایک گروہ قیاس کو نہیں مانتے ۔

خود زیدیہ شیعہ قیاس کے قائل ہیں ۔تو اس معاملہ میں شیعہ کے مابین بھی نزاع ایسے ہی ہوگیا جیسے اہل سنت کے مابین۔

دوسری وجہ :....قیاس کو اگرچہ ضعیف کہا گیا ہے ؛ تاہم یہ ان لوگوں کی تقلید کرنے سے کہیں بہتر ہے جو علم میں مجتہدین کے پایہ کو نہ پہنچ سکے ہوں ۔جس انسان کو بھی ادنی انصاف حاصل ہو‘اور علم سے اس کا شغف ہو ؛وہ جانتا ہے کہ آئمہ مجتہدین جیسے : امام مالک، لیث بن سعد ؛ اوزاعی اور ابو حنیفہ ؛ ثوری،ابن ابی لیلی؛ اور جیسے کہ امام شافعی، احمد؛ اسحق اور ابو عبید جیسے عظیم القدر مجتہدین رحمہم اللہ امام حسن عسکری رحمہ اللہ کے اتباع اور ان کے نظائر و امثال سے بڑے عالم اورمجتہد ہیں ۔

نیز یہ علمائے کرام ومجتہدین عظام اس امام منتظر سے ہزار درجہ بہتر ہیں جس کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کیا کہتا ہے [اورکیا کرتا ہے ]۔ حالانکہ ان آئمہ مذکورین کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نصوص موجود ہیں ۔ اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نص کو قیاس پر ترجیح و برتری حاصل ہے ۔ اگر اس کے پاس نص نہ ہو‘ اور قیاس سے بھی نہ کہے ؛ تو پھر یہ انسان جاہل ہوگا۔ وہ قیاس جس سے انسان کو گمان [ظن؍علم] حاصل ہو؛ وہ اس جہالت سے بہتر ہے جس کے ساتھ نہ کوئی علم ہواور نہ ہی ظن ۔

٭ اگر کوئی یہ کہے کہ: یہ[آئمہ] وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ہوتا ہے ۔‘‘

٭ تو اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ قول اس انسان کے قول سے کمزور ہے جو کہتا ہے : ’’ مجتہد کی ہر بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہوتی ہے۔ اہل رائے میں سے ایک گروہ کا یہی خیال ہے۔ ان لوگوں کا قول بھی رافضیوں کے قول کے قریبتر ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کا قول ایک صریح جھوٹ ہے ۔‘‘

مزیدبرآں یہ ان لوگوں کا قول ہے جو اہل مدینہ کے عمل کو[بطور حجت]لیتے ہیں ؛ کیونکہ انہوں نے یہ اعمال صحابہ کرام سے حاصل کیے ہیں ‘اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ اعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو صحابہ کرام میں قیاس کو نہیں مانتے ۔ اس لیے کہ صحابی صرف وہی بات کہہ سکتا ہے جو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے پہنچی ہو۔ ایسے ہی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ : مجتہدکا قول اور عارف کاالہام اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں ‘ ان کی اتباع کرنا واجب ہوتا ہے ۔

اگر اس پر اعتراض کیا جائے کہ : ’’ ان کا آپس میں اختلاف ہے ۔‘‘

تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : فریق مخالف کا بھی ایسے ہی آپس میں اختلاف ہے ۔ پس [رافضہ کے لیے ]یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی باطل دعوی کریں ‘ مگر اس جیسے یا اس سے بہتر دعوی کا ساتھ اس کا معارضہ کیا جائے گا۔

اور ان میں کوئی سچی بات کہنے والا ایسا نہیں ہوگا جس سے بہتر اور بڑھ کر حق کہنے والا اہل سنت والجماعت میں موجود نہ ہو۔ اس لیے کہ بدعت کی سنت کے ساتھ مثال ایسے ہی ہے جیسے کفر کی مثال ایمان کے ساتھ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا﴾ (الفرقان:۳۳)

’’یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ دلیل آپ کو بتا دیں گے ۔‘‘

تیسری وجہ :....باقی رہا شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ اہل سنت نے دین میں وہ باتیں داخل کر دیں جو اس میں شامل نہ تھیں ، اوراحکام شریعت میں تحریف کا ارتکاب کیا۔‘‘ تو یہ بات شیعہ میں سب فرقوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے۔ شیعہ نے اللہ کے دین میں رسول علیہ السلام تک کو جھوٹ کا نشانہ بنانے سے گریز نہ کیا جب کہ دوسرا کوئی اسلامی فرقہ یہ جسارت نہ کر سکا ۔ اور لاتعداد ایسی صداقتوں کو تسلیم نہ کیا جن کو ردکرنے کی جرأت کوئی دوسرا نہ کرسکا۔اور انہوں نے قرآن میں ایسے تحریف کی کہ کوئی دوسرا اس تحریف کا ارتکاب نہ کرسکا۔[ شیعہ کی تحریف کا اندازہ ان کے مندرجہ ذیل تفسیری اقوال سے لگائیے]:

۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان:

﴿ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ﴾ (المائدۃ ۵۵]

’’تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں ۔‘‘کہتے ہیں : یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب آپ نے نماز میں اپنی انگوٹھی زکواۃ میں ادا کردی۔

۲۔ ﴿ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ﴾اس سے بقول شیعہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مراد ہیں ۔

۳۔ ﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾ لؤلؤو مرجان سے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما مراد ہیں ۔

٤۔ ﴿وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ﴾۔ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔

۵۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ ابرہیم وَ اٰلَ عِمْرٰنَ﴾‘آل عمران سے آل ابی طالب مراد ہے ابو طالب کو عمران سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۶۔ ﴿اَلشَّجْرَۃُ الْمَلْعُوْنَۃُ فِيْ الْقُرَآنِ ﴾ اس سے مرادبنو امیہ ہیں ۔

۷۔ ﴿ فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ ﴾اس سے مراد طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ 

۸۔ ﴿إِنَ اللّٰہَ یَأْمَرُکُمْ اَنْ تَذبَحُوْا بَقَرَۃً﴾بقرہ (گائے) سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مراد ہیں ۔

۹۔ ﴿لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ ﴾یعنی اگر تونے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو ولایت میں شریک کیا۔

شیعہ مذہب کی کتابوں میں ایسی لاتعداد تحریفات پائی جاتی ہیں ۔ شیعہ کے فرقہ اسماعیلیہ والوں نے واجبات و محرمات تک میں تحریف کرنے سے اجتناب نہ کیا، بنا بریں اگر ان کو ائمہ تحریف کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔کیونکہ یہ لوگ آیات کو اپنے اصل مقصود سے بدل دیتے ہیں ۔ اگر کوئی ان کے پاس مبلغ علم پر غور کرے تو اسے جھوٹی منقولات اور حق بات کی تکذیب ؛ آیات کے معانی میں تحریف کے علاوہ کچھ بھی نہ ملے گا۔یہ باتیں اس طرح آپ کو کسی دوسرے اسلامی فرقہ میں نہیں ملیں گی۔

شیعہ نے یقینی طور پر اللہ کے دین میں ہر فرقہ سے بڑھ کر چیزیں داخل کی ہیں اور کتاب اللہ میں ایسے تحریف کی ہے کہ دوسرے لوگوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔

[مذاہب اربعہ اور شیعہ اعتراض کا جواب:]

چوتھی وجہ :....شیعہ قلمکار کا یہ قول کہ ’’ اہل سنت نے مذاہب اربعہ ایجاد کیے جوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں نہیں تھے اور اقوال صحابہ کو ترک کر دیا۔‘‘

جواب: ہم رافضی مصنف سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت اور ان کے اقوال سے انحراف کب سے مذموم قرار پائے؟ 

جبکہ اہل سنت والجماعت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت و دوستی رکھنے اور باقی تمام زمانوں پر ان کو ترجیح دینے پر اتفاق ہے ؛ او ران کے ہاں صحابہ کرام کا اجماع حجت بھی ہے۔ اور انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے کسی طرح بھی خروج کی اجازت نہیں ۔ بلکہ عام ائمہ مجتہدین وضاحت وصراحت کے ساتھ فرمارہے ہیں:

’’ ہمارے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو ترک کرنا جائز نہیں ۔‘‘

پھر جو لوگ [شیعہ]یہ کہتے ہیں کہ اجماع صحابہ حجت نہیں ہے ‘ اور صحابہ کرام کو ظلم اور کفر کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ تو وہ کیسے اہل سنت پر اعتراض کرسکتے ہیں ؟[[کیا ہم اجماع صحابہ کے مخالف ہیں یا تم؟ پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گمراہ اور کافر کون کہتا ہے؟ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اہل سنت اجماع صحابہ کے خلاف متفق ہوجائیں ]]۔

مزید برآں اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع حجت ہے تو وہ دونوں گروہوں پر حجت ہے ۔ اور اگر اجماعصحابہ حجت نہیں تو پھر اس کو بنیاد بناکر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔

[اعتراض]:اگر یہ کہے کہ : ’’ اہل سنت والجماعت اجماع صحابہ کو حجت مانتے ہیں اورپھر اسکی مخالفت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔‘‘ 

[جواب] : اہل سنت والجماعت کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اجماع صحابہ کرام کے خلاف یک زبان ہو جائیں ۔ جب کہ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ شیعہ امامیہ عترت نبوی[اہل بیت؛ بنو ہاشم]اور حضرات صحابہ دونوں کے متفق اجماع کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد سعادت مہد میں بنی ہاشم کا کوئی فرد اس بات کا مدعی نہ تھا کہ:’’ بارہ امام معصوم ہوں گے؛ یا یہ کہ سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص معصوم بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

بخلاف ازیں کوئی شخص خلفائے ثلاثہ کے کفر کا قائل تھا نہ ان کی امامت پر طعن و تشنیع کرتا تھا اور نہ ہی صفات اللہ تعالیٰ کا کوئی منکر تھا اور نہ تقدیر کا۔ [اس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے، کہ امامیہ اہل بیت و صحابہ دونوں کی مخالفت کرنے میں متحد الخیال ہیں ، پھر انہیں لوگوں پر معترض ہونے کا کیا حق ہے، جو اہل بیت و صحابہ دونوں کے اجماع کو حجت مانتے ہیں اور اس کی مخالفت سے اجتناب کرتے ہیں ]]۔

پانچویں وجہ:....یہ اعتراض کہ:’’ اہل سنت نے مذاہب اربعہ ایجاد کرلیے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں تھے۔‘‘

[جواب ]:اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کے خیال میں اہل سنت نے حضرات صحابہ کے عین بر خلاف جمع ہو کر باتفاق رائے یہ مذاہب ایجاد کر لیے تھے تو یہ عظیم افترا ہے۔ اس لیے کہ یہ چاروں مذاہب ایک ہی زمانہ میں نہ تھے۔بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وفات ۱۵۰ہجری میں ہوئی۔امام مالک رحمہ اللہ کی وفات ۱۷۹ ہجری میں ہوئی ۔امام شافعی رحمہ اللہ کی وفات ۲۰۳ ہجری میں ہوئی ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی وفات ۲۳۱ ہجری میں ہوئی ۔

مزید برآں ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی تقلید نہیں کرتا تھا اور نہ دوسروں کو اپنی پیروی کا حکم دیتا تھا۔ بخلاف ازیں یہ سب ائمہ اتباع کتاب و سنت کی دعوت دیتے اور دوسروں پر تنقید کیا کرتے تھے۔باقی رہا یہ معاملہ کہ لوگ آئمہ اربعہ کی اطاعت کرتے ہیں ؛ تو یہ ایک اتفاقی بات ہے۔ نیز یہ کہ : جب ان میں سے کوئی ایک کوئی ایسی بات کہے جو کتاب و سنت کی مخالف ہو تو اس کو چھوڑ دینا واجب ہوجاتا ہے ؛ اورلوگوں پر اس کی تقلید واجب نہیں ہوتی۔

٭ اگر تم شیعہ کہو کہ : لوگ ان مذاہب کی پیروی کررہے ہیں ؛یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے۔بلکہ لوگوں نے آپس میں اتفاق سے طے کیا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اور تم اس کی پیروی کرو۔ ان کی مثال ان حجاج کی ہے جنہیں کسی رہبر کی تلاش ہو ‘ پھر انہیں کوئی رہنما مل جائے ۔ کچھ لوگ اسے ماہر راہبر سمجھ کر اس کے پیچھے چلنے لگیں اور کچھ لوگ اس کو چھوڑ کر الگ چل دیں ۔

[جواب]: اگر واقعی ایسا ہے تو پھر بھی اہل سنت و الجماعت کا اتفاق کوئی باطل نہیں ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک گروہ دوسرے کی خطا پر آگاہ کرتا ہے۔ کیونکہ ان کا اتفاق اس بات پر نہیں ہے کہ جو کچھ بھی متعین شخص کہے ؛ وہ ہرحال میںقبول کیا جائے ۔ بلکہ جمہور مسلمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی متعین شخص کی تقلید کا حکم نہیں دیتے ۔

اللہ تعالیٰ نے اس امت کی عصمت کی ضمانت دی ہے۔یہ عصمت کی نشانی ہے کہ اس امت میں کئی کئی علماء ہوتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کسی چیزمیں غلطی کر جائے تو دوسرا کوئی اس مسئلہ میں حق پر ہوتا ہے تاکہ حق بات باقی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر بعض علماء کرام کے ہاں بعض مسائل میں خطاء ہوجائے ؛ جیسا کہ شیعہ مصنف نے بطور مثال کے کچھ مسائل ذکر کیے ہیں ؛ تو[ ان ہی علماء کے دوسرے قول میں یا]دیگر علماکے اقوال میں حق موجود ہوتا ہے ۔ تو اس سے ظاہر ہوا کہ اہل سنت و الجماعت کا اتفاق کبھی بھی گمراہی پر نہیں ہوا۔ رہ گیا بعض علماء کرام سے بعض دینی مسائل میں خطاء کا سر زد ہوجانا ؛ تو ہم اس سلسلہ میں کئی بار وضاحت کرچکے ہیں کہ اس معمولی [یاجزوی ] خطاء سے کوئی نقصان نہیں ہوتا؛ جیساکہ بعض عام مسلمانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں ۔جب کہ شیعہ کا معاملہ اس سے مختلف ہے ؛ ہر وہ مسئلہ جس میں وہ تمام اہل سنت کی مخالفت کرتے ہیں ‘ اس میں وہ خطاء پر ہوتے ہیں ۔جیساکہ یہود و نصاری ہر اس مسئلہ میں خطاء پر ہیں جس میں وہ مسلمانوں کی مخالفت کررہے ہیں ۔

چھٹی وجہ:....شیعہ کا اعتراض ہے کہ : ’’ یہ مذاہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں موجود نہیں تھے ‘‘

[جواب] : اگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے مذاہب کے اقوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل نہیں کئے گئے ؛ بلکہ ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اقوال کو ترک کرکے اپنی طرف سے بدعات گھڑلیں ‘ تو یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت پر کبھی بھی اہل سنت کا اتفاق نہیں ہوا۔ بلکہ تمام اہل سنت اپنے اقوال و آراء میں صحابہ کرام کے پیروکار ہیں ۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ بعض اہل سنت و الجماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کا علم نہ ہونے کی بنا پر مخالفت کے مرتکب ہوئے ہیں ؛ تو پھر ایسے بھی ہے کہ باقی اہل سنت صحابہ کرام کی اتباع پر متفق ہیں ؛ اور ان کی مخالفت کرنے والے کی غلطی سے اس کو آگاہ کررہے ہیں ۔[اور اس کو غلطی مان رہے ہیں ] اگر شیعہ کے اعتراض سے مراد یہ ہے کہ ان مذاہب اربعہ کے ائمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں موجود نہیں تھے ؛ تو اس میں کوئی ایسی ممانعت کی بات نہیں ہے ۔ اس لیے کہ ہر آنے والے زمانے کے لوگ پہلے لوگوں کے بعد ہی آتے ہیں ۔

اقوال صحابہ ترک کرنے کاالزام اور اس کا رد::

ساتویں وجہ:....شیعہ کا اعتراض: ’’انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو ترک کردیا ۔‘‘

[جواب] : یہ ایک من گھڑت جھوٹ ہے۔بلکہ ان مذاہب کے ماننے والوں کی کتابیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال اور ان سے استدلال سے بھری پڑی ہیں ۔اگرچہ ان میں سے بعض مذاہب کے پاس ایسی روایات ہیں جو دوسرے فرقہ کے پاس نہیں ہیں ۔ اور اگر شیعہ مصنف کے اعتراض سے مراد یہ ہو کہ : یوں نہیں کہتے : یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے ؛ یہ عمر رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے ؛ وغیرہ ۔ تو اس کا سبب یہ ہے کہ ان آئمہ میں سے کسی ایک نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال جمع کیے اور پھر ان سے مسائل کا استنباط کیا ؛ اس بنا پران اقوال کو ان آئمہ کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ جس طرح کتب حدیث کو ان کے جامعین مثلاً امام بخاری و مسلم اور ابو داؤد کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، بعینہ اسی طرح مختلف قراء توں کو ان ائمہ کی جانب منسوب کیا جاتا ہے جنھوں نے وہ قرأت اختیار کی تھیں ؛ جیسے کہ نافع اور ابن کثیر وغیرہ ۔

غالب طور پران آئمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال سابقین سے منقول ہیں ۔بعض کے ہاں ایسے بھی کچھ اقوال پائے جاتے ہیں جو کہ متقدمین سے منقول نہیں ہیں ۔لیکن انہوں نے یہ اقوال ان ہی اصولوں کی بنیاد پر استنباط کیے ہیں ۔اس سے ان کے اقوال میں موجود غلطی واضح ہوگئی۔ یہ سب کچھ دین کی حفاظت کے لیے ہوا ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ اس صفت کے اہل ہوجائیں [جس میں ارشادفرمایاہے ]: ﴿یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ﴾ (التوبہ:۷۱)

’’ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔‘‘

پس جب بھی کسی سے بھول کر یا عمداً غلطی واقع ہوئی تو دوسرے علماء کرام نے اس پر آگاہ کیا ؛ اور اس غلطی پر رد کیا۔ علمائے کرام رحمہم اللہ کا مرتبہ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْم وَکُنَّا لِحُکْمِہِمْ شٰہِدِیْنo فَفَہَّمْنٰہَا سُلَیْمٰنَ وَ کُلًّا اٰتَیْنَاحُکْمًا وَّ عِلْمًا وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَ وَ کُنَّا فٰعِلِیْنَ﴾ (الانبیاء: ۷۸۔۷۹)

’’اور داد اور سلیمان( رحمہم اللہ )کو یاد کیجئے جبکہ وہ کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر گئی تھیں اور ان کے فیصلے میں ہمشاہد تھے۔ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔ہم نے ہر ایک کوحکمت و علم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کر دیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اور پرندبھی؛ ہم ایسا کرنے والے ہی تھے ۔‘‘

صحیحین میں ثابت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ احزاب سے واپس ہوئے تو ہم لوگوں سے فرمایا :’’ کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں پہنچ کر۔‘‘

چنانچہ لوگوں کے راستہ میں ہی نماز عصر کا وقت ہوگیا، تو بعض نے کہا کہ: ہم نماز نہیں پڑھیں گے جب تک کہ وہاں (بنی قریظہ)تک پہنچ نہ جائیں ۔ اور بعض نے کہا کہ ہم تو نماز پڑھیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم قضا کریں ۔ اور بعض نے بنو قریظہ میں پہنچ کر غروب آفتاب کے بعد نماز پڑھی۔ جب اس کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ملامت نہ کی۔‘‘[البخارِیِ:۵؍۱۱۲؛ ِکتاب المغازِی، باب مرجِعِ النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِن الأحزابِ:۲؍۱۵کتاب صلاِۃ الخوفِ، باب صلاۃِ الطالِبِ والمطلوبِ راِکبا وِإیمائً، مسلِم:۳؍۱۳۹۱،کتاب الجِہادِ والسِیرِ، باب المبادرِ بِالغزو، وفِیہِ: أن لا یصلِین أحد الظہر إِلا فِی بنِی قریظۃ۔]

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ مجتہدین کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سمجھنے میں اختلاف ہوسکتا ہے ؛ مگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی گنہگار نہیں ہوتا۔

آٹھویں وجہ :....اس پر مزید یہ کہ اہل سنت نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ائمہ اربعہ کا اجماع ایک بے خطا دلیل ہے۔ اورنہ ہی کسی نے یہ کہا ہے کہ: حق ان کے اقوال کے دائرہ میں محدود و محصور ہو کر رہ گیا ہے؛ جو بات ان سے خارج ہے وہ باطل ہے۔[مجتہدین کے یہاں جو نزاع و اختلاف پایاجاتا ہے، وہ صرف کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم و ادراک کے بارے میں ہے اور بس! [مترجم]] بلکہ اگر ان آئمہ کے متبعین کے علاوہ کوئی دوسرا جیسا کہ سفیان الثوری؛ اوزاعی؛ لیث ؛ سعد اور ان سے پہلے یا ان کے بعد والے مجتہدین اگرکو ئی ایسی بات کہیں جو ان آئمہ اربعہ کے اقوال کے خلاف ہو‘تو اس معاملہ کو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے گا۔ اور ان میں سے راجح قول وہی تصور ہوگا جس پر دلیل قائم ہوگی۔ 

نویں وجہ :....شیعہ کا قول کہ:’’ صحابہ کرام نے صراحت کے ساتھ قیاس ترک کرنے کاحکم دیا ہے ۔‘‘

[جواب] : [شیعہ سے کہا جائے گا کہ ] : جمہور مسلمین جو قیاس کو حجت مانتے ہیں ؛وہ کہتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قیاس ور ائے اور اجتہاد بھی ثابت ہے ۔ انہوں نے اجتہاد و قیاس کیا۔ اور ان سے قیاس کی مذمت بھی ثابت ہے ۔ [قیاس و رائے کے موافق و مخالف دونوں قسم کے اقوال منقول ہیں ]۔ قیاس مذموم وہ ہے جو نص کا معارض ہو؛جیسے ان لوگوں کا قیاس ہے جو کہتے ہیں کہ سود بھی تجارت کی طرح ہے ۔ اور ابلیس مردود کا قیاس جب اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے حکم ِ الٰہی پر اعتراض کیا تھا۔ اور مشرکین کا قیاس جو کہتے ہیں : کیا جسے تم قتل کرتے ہو‘اس کا گوشت کھا لیتے ہو‘ اور جس کو اللہ ماردیتا ہے اس کاگوشت نہیں کھاتے ؟ اللہ تعالیٰ[ایسے باطل قیاس کرنے والے لوگوں کے بارے میں ] فرماتے ہیں : 

﴿وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ﴾ (الانعام:۱۲۱)

’’اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں تاکہ یہ تم سے جھگڑا کریں ؛اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جا ؤگے۔‘‘

ایسے ہی وہ قیاس بھی ہے جس میں فرع مدار حکم میں اصل کی شریک نہ ہو۔ ایسے قیاس کا فاسد ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے۔[ مگر اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ قیاس کوئی بھی ہو فاسد ہوتا ہے]۔وہ قیاس فاسد ہوتاہے جس میں شرطیں نہ پائی جائیں ‘اور وہ اصل مدار حکم میں مساوی نہ ہو۔ ایسا کسی مانع کی موجودگی کی وجہ سے ہوتاہے؛ اور یہ مانع وہ نص ہوسکتی ہے جس کو قیاس پر مقدم کرنا واجب ہوتا ہے ۔ اگردونوں نفس ِ امر میں متلازم ہوں ‘ تو شرط کبھی بھی فوت نہیں ہوسکتی مگر وہاں پر کسی مانع کے موجود ہونے کی وجہ سے ۔ اور جب بھی کوئی مانع پایا جاتا ہے تو شرط مفقود ہوجاتی ہے۔

پس رہ گیا وہ قیاس جس میں مدار حکم میں اصل اور فرع دونوں برابر ہوں ‘ اور ان کے ساتھ اس سے راجح کوئینصِ معارض بھی نہ ہو تو پھر یقیناً ایسا قیاس قابل اتباع ہوتا ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں قیاس میں فاسد قیاس بھی پایا جاتا ہے ۔ بہت سارے فقہاء نے فاسد قیاس کیا ہے ۔ ان میں سے بعض نص کی روشنی میں باطل ہیں ۔اور بعض قیاس کے باطل ہونے پر اتفاق ہے۔ لیکن بہت سارے امور میں قیاس کے باطل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ تمام کا تمام قیاس سرے سے ہی باطل ہے ۔ جس طرح موضوع احادیث کے پائے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ تمام احادیث نبویہ کو تسلیم نہ کیا جائے۔

قیاس کا مدار اس پر ہے کہ دو صورتیں موجب حکم اور اس کے مقتضیٰ میں برابر ہوں ۔ پس جب بھی ایسے ہوگا تو قیاس بلاشک و شبہ صحیح ہوگا۔ لیکن بسا اوقات قیاس کرنے والے ایسی چیز کو مناط ِحکم سمجھ لیتے ہیں ؛ جو کہ اصل میں ایسے نہیں ہوتی؛ پس اس وقت غلطی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیاس کرنے والوں کے نزدیک اس چیز کی اصل بنیاد ان کے مابین مشترک تأثیر ہے؛ جسے یہ لوگ سوالِ مطالبہ کے جواب کا نام دیتے ہیں تو ان سے کہا جائے گا: ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ حکم کی علت اس میں اصل اور فرع میں وصف مشترک ہے؛ تاکہ فرع کو اصل سے ملایا جائے۔ اس لیے کہ قیاس کی صحت اس وقت تک ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ دونوں مشترکہ صورتیں اس چیز یں بھی مشترک ہوں جو حکم کو مستلزم ہے۔ خواہ یہ اشتراک نفسِ علت میں ہو؛ یا پھر علت کی دلیل میں ۔ اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ان کو جمع کرنے والی خصوصیت ظاہو ہو۔ اور کبھی ان کے مابین فرق کے ختم ہو جانے کی وجہ سے۔ پس جب یہ علم ہو جائے گہ ان دونوں صورتوں کے مابین کو مؤثر فرق نہیں ہے؛ تو حکم میں بھی ان دونوں کے برابر ہونے کا علم بھی حاصل ہوگیا۔اگرچہ ان کے مابین جامع وصف کا علم نہ بھی ہو سکے۔

جب کہ وہ مطرود قیاس کو ثابت کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ : مناط حکم میں شریک ہونے کی وجہ سے فرع میں ویسا ہی حکم ثابت کرنا جیسا اصل میں ثابت ہے۔ اور قیاس عکس یہ ہوتا ہے کہ فرع سے اصل کے حکم کی نفی کرنا۔اس لیے کہ یہ دونوں مناط ِ حکم میں جداجدا ہیں ۔ پس ان دونوں کے مابین فرق کیا جائے گا۔ اس لیے اصل میں ثابت حکم کی جو علت ہے؛فرع میں اس کی نفی کی جاتی ہے۔ جب کہ دوسری جگہ ان دونوں کو جمع کرنے والی چیز فرع میں ثابت شدہ علت کا وجود ہے۔ یہ موضوعات کئی مقامات پر تفصیل سے بیان ہوچکے ہیں ۔