فصل: ....بعض فقہی مسائل پر شیعہ کی تشنیع
امام ابنِ تیمیہؒفصل: ....بعض فقہی مسائل پر شیعہ کی تشنیع
[اعتراضات ]: رافضی مضمون نگار رقم طراز ہے:قیاس کی وجہ سے اہل سنت لا تعداد امور قبیحہ میں گرفتار ہوگئے، چنانچہ حسب ذیل مسائل قیاس کی پیداوار ہیں:
۱۔ جو لڑکی زنا سے پیدا ہوئی ہو وہ زانی کے لیے حلال ہے۔
۲۔ جو شخص اپنی ماں اور بہن سے یہ جانتے ہوئے نکاح کر لے کہ یہ محرمات میں سے ہیں ؛ اس پر حد شرعی نہیں ۔
۳۔ جو انسان اپنے ذکر پر کپڑا لپیٹ کر اپنی ماں یا بیٹی سے زنا کرلے ؛اور جو کوئی لواطت کرے [تواس پر کوئی حدنہیں ] حالانکہ لواطت زنا سے زیادہ بری اور قبیح چیز ہے ۔
۳۔ اگر کسی شخص کی بیٹی مشرق میں سکونت پذیر ہو اور خود مغرب میں رہتا ہو، پھر وہ مغرب ہی میں غائبانہ طور پر کسی آدمی سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دے، رات و دن میں کسی وقت بھی ان کاجوڑ نہیں ہواہو۔ چھ ماہ کے بعد اس لڑکی یہاں بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ اسی خاوند کا قرار دیا جائے گا۔اوروہ مغرب میں اس کا باپ قرار پائے گا۔حالانکہ اس انسان کا اس عورت تک پہنچنا کئی سال کے بعد ہی ممکن ہوسکتا ہے۔بلکہ اگر کسی انسان کو حکمران اس کے نکاح کے وقت سے ہی قید کردے ؛ اور پچاس سال تک کے لیے اس پر پہرہ بیٹھادے ؛ پھر جب وہ اپنی بیوی کے شہر میں پہنچے تو وہاں پر اپنے بچوں اور پوتوں وغیرہ کا ایک جم غفیر دیکھے ؛ تو پھر بھی ان سب کا نسب اس انسان کیساتھ لگایا جائے گاجو ایک دن کے لیے بھی اس عورت کے[یا کسی دوسری عورت کے] قریب تک نہیں گیا۔
۵۔ نبیذ مباح ہے؛ اگرچہ نشہ آور ہو ۔اوراس کے ساتھ وضو جائز ہے۔
۶۔ کتے کی کھال پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے۔
۷۔ گندگی جب خشک ہوجائے تو اس پر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
بعض فقہاء سے بعض بادشاہوں کے دربار میں طریقہ ء نماز حکایت منقول ہے۔ بادشاہ کے پاس حنفی فقہاء موجود تھے۔ ایک فقیہی اپنے غصب کردہ گھر میں داخل ہوا؛ نبیذ کے ساتھ وضوء کیا ؛ اور فارسی میں بغیر نیت کے تکبیر کہی ۔ اور پھر ﴿مُدْهَامَّتَانِ﴾ آیت فارسی میں پڑھی ۔ اس کے علاوہ کوئی آیت نہیں پڑھی ۔ پھر اطمینان کے بغیر کچھ دیر کے لیے سر جھکایا ؛ اور ایسے ہی سجدہ بھی کیا ۔پھر تلوار کی دہار کے برابر سر اٹھایا ؛ پھر دوسرا سجدہ کیا ۔ پھر کھڑا ہوگیا اور دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا۔پھر سلام پھیرنے کے بجائے گوز ماری ؛ [اور نماز ختم کردی؛ یہ دیکھ کر ] بادشاہ نے ۔جو کہ حنفی مذہب رکھتا تھا۔ اس مذہب سے برأت کااظہار کر لیا۔
۹۔ مال ِغصب مباح ہے۔اگرچہ غصب کرنے والا اس میں تبدیلی ہی کیوں نہ کردے ۔
۱۰۔ ان کا کہنا ہے : اگر چور کسی کے گھر میں داخل ہو؛ جس میں اس کے جانور چکی اور کھانا وغیرہ ہو۔ اوروہ جانور چکی استعمال کرکے آٹا پیس لے تو وہ اس آٹے کا مالک قرار پائے گا، اگر[اصل ] مالک آکر اس سے جھگڑنے لگے تو ظالم ہوگا،اور چور مظلوم ہوگا۔ اگر وہ دونوں لڑنے لگیں اور چور مارا جائے تو وہ شہید تصور کیا جائے گا، اگر چور مالک کو مار ڈالے تو چور پر قصاص یا دیت نہیں آئے گی[اس کا خون رائیگاں ہوگا]۔
۱۱۔ اگر زانی گواہوں کو جھٹلا دے، تو اس پر حد لگائی جائے گی۔ اور اگر ان کی تصدیق کر دے تو حد ساقط ہوجائے گی گویا مجرم کے اقرارِ جرم اور گواہوں کی گواہی کے باوجود اس پر حد نہیں لگائی جائے گی۔یہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ پس جس کسی پر بھی زنا کی گواہی دی جائے اور وہ گواہوں کو جھٹلادے تو گواہی ساقط ہوگی۔
۱۲۔ کتے کا گوشت کھانا مباح ہے۔
۱۳۔ غلام کے ساتھ لواطت مباح ہے۔
۱۳۔ باجے گاجے اور ساز وغیرہ اسباب غفلت مباح ہیں ۔
ان کے علاوہ بھی ایسے کئی مسائل ہیں جن کے بیان کا موقع یہ نہیں ہے ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔
[جوابات] :
پہلا جواب:....ان میں ایسے مسائل بھی ہیں جو جمہور اہل سنت پر محض بہتان ہیں ۔جمہور اہل سنت والجماعت ان میں سے کسی کو بھی درست تسلیم نہیں کرتے۔[جاہل شیعہ....جو روافض کے مشہور علماء میں شمار ہوتا ہے،....اور اس کے نظائر و امثال کی افتراء پر دازیوں نے علامہ ہندحضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی ابن شاہ ولی اﷲ دہلوی کو مجبور کیا کہ آپ شیعی فقہ کے رسوائے عالم مسائل و احکام کا راز طشت از بام کریں ، چنانچہ آپ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف تحفہ اثنا عشریہ کے ساتویں باب میں از صفحہ ۱۰۸ تا ۲۳۷ (طبع سلفیہ) اس قسم کے سب مسائل جمع کر دئیے ہیں ، ان سطور کے قاری سے گذارش کی جاتی ہے کہ امام ابن تیمیہ کی تنقیدات کا مطالعہ کرنے کے بعد تحفہ اثنا عشریہ میں شیعی فقہ کے اعجوبۂ روزگار اور حیران کن مسائل ملاحظہ کرے اور پھر شیخ الاسلام کے بیان کردہ حقائق سے ان کا موازنہ کرے۔] ان میں سے ہر ایک مسئلہ کے برعکس اقوال موجود ہیں ۔اگرچہ بعض لوگوں نے یہ باتیں کہی بھی ہوں ؛ تو اہل سنت میں دوسرے ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس حق اور صواب موجود ہے۔اوراگر ان میں سے کوئی بات درست ہو تو بھی حق اہل سنت و الجماعت کے ساتھ ہی ہے ۔دونوں صورتوں میں اہل سنت والجماعت حق سے باہر نہیں جاتے ۔
دوسرا جواب:....ہم کہتے ہیں کہ: خود رافضی فقہ میں بھی ایسے مسائل کی کمی نہیں ،جنہیں دین کے بارے میں ادنی معرفت رکھنے والا مسلمان بھی اپنی زبان پر لانا گوارہ نہیں کرتا۔ ان میں سے شیعہ کے یہاں بعض مسائل متفق علیہا ہیں اور بعض متنازع فیہا ہیں ۔ان میں سے چند مسائل ملاحظہ ہوں ۔
۱۔ شیعہ جمعہ و جماعت کے تارک ہوتے ہیں ۔
۲۔ روافض مساجد کو ویران رکھتے ہیں جنہیں آبادکرنے اوران میں جمعہ اور باجماعت نمازرمیں اللہ کا ذکر کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ اور مقبروں کو رونق بخشتے ہیں ۔جن کا بنانا ہی اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ان قبروں اور درگاہوں کو باڑے بنالیتے ہیں ۔اور ان میں بعض لوگ ان درگاہوں کی زیارت کو حج کے برابر قرار دیتے ہیں ۔[عجیب بات یہ ہے کہ بعض قبروں میں وہ لوگ سرے سے مدفون ہی نہیں جن کے نام سے وہ مشہور ہیں مثلاً نجف میں حضرت علی کی قبر اور کربلا میں حضرت حسین کا مزار صرف اسی امکان کی بنا پر بنا دیا گیا کہ یہ دونوں حضرات وہاں مدفون ہیں ، یہ تاریخی حقائق ہیں شیعہ کا ان سے انکار ایک جدا گانہ امر ہے، لطف یہ ہے کہ مقبرے تعمیر کرتے وقت شیعہ اس حقیقت سے کلیۃً آگاہ تھے کہ وہ حضرات یقیناً ان میں مدفون نہیں اس کے باوجود وہ مزار تعمیر کرنے اور انہیں ان کے نام سے مشہور کرنے پر مصر تھے۔]
اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ رافضی عالم شیخ مفید نے ’ مناسک حج المشاہد ‘‘ (حج قبور کے احکام) کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی ہے جو بالکل عیسائیوں کی کتابوں کی طرح کذب و شرک کا پلندہ ہے۔
۳۔ شیعہ یہودیوں کی ہم نوائی کرتے ہوئے مغرب کی نماز میں تاخیر کرتے ہیں ۔
۳۔ اہل کتاب کا ذبیحہ روافض کے نزدیک حلال نہیں ۔
۵۔ شیعہ کے نزدیک ایک مخصوص مچھلی[مرماہی اور جری] حرام ہے۔
۶۔ بعض شیعہ کے نزدیک اونٹ کا گوشت حرام ہے۔
۷۔ بعض شیعہ طلاق کے وقت گواہوں کی موجودگی کوشرط قرار دیتے ہیں ۔
۸۔ مسلمانوں کے اموال میں سے اس کا پانچواں حصہ بطور خمس کے وصول کرتے ہیں ۔
۹۔ شیعہ کے نزدیک سب ورثہ بیٹی کو ملے گا،اور میت کے چچا اور باقی عصبہ کو کچھ نہیں ملے گا۔[شیعہ اس مسئلہ میں تناقض کا شکار ہیں ؛ چنانچہ ان کی معتبر کتابوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ: جب کوئی شخص فوت ہوجائے تو اس کی غیر منقولہ جائیداد ( مکان، زمین وغیرہ )میں سے عورتوں کو وراثت نہیں ملتی۔ ابو جعفر کہتے ہیں :’’ اﷲ کی قسم! یہ بات علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی املا کرائی ہوئی ہے۔‘‘بصائر الدرجات: ۱۸۵۔ ح: ۱۴۔ باب فی الائمہ علیہم السلام وأنہ صارت الیھم ....‘‘ الکلینی نے ابو جعفر رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ عورتیں زمینی جائیدار میں کسی چیز کی وارث نہیں ہوتیں ۔‘‘فروع الکلینی: ۷؍۱۶۷۸ کتاب المواریت، حدیث:۴، باب ان النساء لا یرثن۔ بحار الأنوار:۲۶؍ ۵۱۴۔ ح: ۱۰۱( باب جھات علومھم ....‘‘]
۱۰۔ شیعہ ہمیشہ کے لیے دو دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھتے ہیں ۔
۱۱۔ بعض شیعہ کے نزدیک روزوں کا انحصار دنوں کی تعداد پر ہے چاند پر نہیں ۔چاند نظر آنے سے پہلے روزہ رکھتے ہیں اور چاند نظر آنے سے پہلے عید کرلیتے ہیں ۔ اس طرح کے دیگر مسائل واحکام بھی ہیں جن کے بارے میں یقینی طور پر علم ہونے کے بعد بھی کہ یہ اس دین اسلام کے خلاف ہیں ‘جودین دیکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مبعوث فرمایا‘ اور آپ پر اپنی کتاب قرآن مجید نازل کی۔[ پھر بھی شیعہ ان پر عمل پیرا ہیں ۔] ہم نے ابھی تک ان امور کا ذکر کیا ہے جو عقل و شریعت کی روسے باطل ہیں ۔اگرچہ بعض متقدمین نے اس پر ان کی موافقت کی ہو ‘ مثال کے طور پر :
۱۲۔ روافض کے نزدیک متعہ حلال ہے۔
۱۳۔ طلاق معلق بالشرط قصد و ارادہ کے باوجود واقع نہیں ہوتی۔
۱۳۔ جو طلاق کنایہ سے دی جائے وہ واقع نہیں ہوتی اور اس میں گواہ بنانا شرط ہے۔
تیسراجواب:....[جو مسائل اہل سنت پر تھوپے جارہے ہیں ] ان کے کہنے والے فقہاء کے ہاں ان کا کوئی نہ کوئی ماخذ ضرور ہے؛ اگرچہ جمہور کے ہاں وہ خطا پر ہی کیوں نہ ہو۔اہل سنت خود ان لوگوں کی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں ۔اس وجہ سے حق و صواب ان سے باہر نہیں جاسکتا۔حق و صداقت کابیان ان ہی کے ساتھ لازم رہتا ہے ۔
[شیعی اعتراضات کے جوابات]:
زنا سے پیدا شدہ بیٹی کو جمہور اہل سنت جیسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام احمد اور امام مالک رحمہم اللہ ۔ایک روایت میں ۔بالاتفاق حرام قرار دیتے ہیں ؛امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول بھی یہی ہے۔امام احمد رحمہ اللہ کا خیال نہیں تھا کہ اس مسئلہ میں کوئی نزاع ہوگا؛ اس وجہ سے انہوں نے اس کے مرتکب کے واجب القتل ہونے کا فتوی دیاتھا ۔ جن لوگوں نے اس کے جواز کا کہا تھا جیسے : امام شافعی اور ابن ماجشون ؛[انہوں نے اسے احکام وراثت پر قیاس کیا تھا؛اس لیے کہ] ان کا خیال ہے کہ جب [زنا کی اولاد کو ] وراثت نہیں مل سکتی ؛ تو اس کے باقی سارے احکام کی بھی نفی ہوگی۔ اسی طرح حرمت کا مسئلہ بھی ان ہی احکام میں سے تھا۔ جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے ‘ وہ کہتے ہیں : نسب کے احکام وراثت کے احکام سے مختلف ہوتے ہیں ۔بعض انساب کے لیے ایسے احکام ثابت ہوتے ہیں جو دوسرے بعض انساب کے لیے نہیں ہوتے۔جب کہ تحریم کا لفظ ان تمام احکام کو بھی شامل ہے اگرچہ وہ مجازاً ہی اس کے دائرہ میں آتے ہوں ۔ یہاں تک کہ[اس ]بیٹی کی بیٹی بھی حرام ہوجاتی ہے۔بلکہ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں ۔تو پھر جو لڑکی اسی کے پانی سے پیدا ہوئی ہو وہ حکم ِ حرمت کی زیادہ حق دار ہے۔ بخلاف وراثت کے۔وراثت ان لوگوں کے لیے ہی ثابت ہوسکتی ہے جنہیں میت کی طرف منسوب کیا جاتا ہو۔ پس وراثت بیٹوں کی اولاد کے لیے توثابت ہوتی ہے مگر بیٹیوں کی اولاد کے لیے نہیں ۔
محرمات سے نکاح کرنے کی صورت میں صورتی عقد کی موجودگی میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حد شرعی کے قائل نہ تھے ان کی رائے میں شبہ کی بنا پر حد ساقط ہوجاتی ہے۔جبکہ بقیہ ائمہ کرام رحمہم اللہ اسے شبہ نہیں قرار دیتے ۔بلکہ وہ فرماتے ہیں : اس میں حد مغلظ ہوگی۔ اس لیے کہ اس نے دو حرام کاموں کا ارتکاب کیا ہے : حرام عقد ؛ اور وطی۔
ایسے ہی لواطت کا مسئلہ بھی ہے؛ اکثر ائمہ لواطت کنندہ کے مطلق قتل کے قائل ہیں ۔اگرچہ وہ شادی شدہ نہ بھی ہو۔ بعض کے نزدیک اس پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع منعقد ہوچکا ہے۔اہل مدینہ جیسے: امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کا مسلک بھی یہی ہے۔ امام احمد و شافعی رحمہما اللہ سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے۔اس کے مطابق اگر لواطت کرنے والا بالغ ہو تو اسے قتل کیاجائے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ لواطت کی حد وہی ہے جو زنا کی ہے،یہ امام ابو یوسف و محمد رحمہم اللہ کا قول ہے؛اور امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لواطت کرنے والا زانی کی طرح ہے۔ اوریہ بھی کہا گیا ہے :مفعول بہ کو مطلق طور پر قتل کیا جائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیاہے : اسے قتل نہیں کیا جائے گا ۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فاعل کے اعتبار سے اس میں فرق کیا جائے گا۔ حد شرعی کے اسقاط میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ منفرد ہیں [اور اس مسئلہ میں دوسرا کوئی امام آپ کا ہم خیال نہیں ]۔
اسی طرح مشرق میں سکونت رکھنے والی عورت کے بچے کامغربی آدمی کے ساتھ الحاق بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا انفرادی مسلک ہے اور دوسرے ائمہ اس کی تائید نہیں کرتے۔ دراصل امام صاحب کا نقطہ نظریہ ہے کہ نسب کا اثبات صرف میراث حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے،اس مقصود کے مطابق وراثت تقسیم کی جائے گی ۔ جیسا کہ جب دوعورتیں ایک بچے کی وراثت کادعوی کریں تو وہ وراثت ان دونوں کے درمیان تقسیم کی جائے گی؛ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ اندونوں عورتوں سے پیدا ہوا ہے۔
ایسے ہی جب کوئی انسان اپنی بیوی کو وطی سے پہلے طلاق دیدے؛ توبچے کو اس کی طرف منسوب کیا جائے گا؛اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے وارث بنیں گے۔اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ بچہ اس کے پانی سے پیدا ہوا ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کے مذہب کی حقیقت یہ ہے کہ آپ نسب کے ثبوت کے لیے حقیقی ولادت کو شرط نہیں مانتے ۔ بلکہ آپ کے نزدیک بیٹا خاوند کا ہوگا۔ جو کہ اصل میں صاحب فراش ہے ۔حالانکہ اسے قطعی یقین ہے کہ یہ عورت اس سے حاملہ نہیں ہوئی ۔[اصل میں امام صاحب اس حدیث کے مطابق فیصلہ دے رہے ہیں جوحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کی ہے: بچہ چارپائی والے کا ہوگا؛ اورزنا کارکے لیے پتھر ہوں گے۔‘‘ مختصر الطحاوی۔]
یہ بالکل ویسے ہی ہے جب کوئی انسان اپنی دو بیویوں میں سے کسی ایک کو طلاق دے ‘اور خود مرجائے ؛ یہ پتہ نہ چلے کہ اس نے کونسی بیوی کو طلاق دی ہے ؟ تو اس کی وراثت دونوں بیوں میں تقسیم کی جائے گی۔جبکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دونوں بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالاجائے گا۔اورامام شافعی رحمہ اللہ نے اس میں توقف کیا ہے ‘ ان کے نزدیک کوئی فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک معاملہ واضح نہ ہوجائے یا پھر دونوں آپس میں صلح کرلیں ۔جبکہ جمہور علماء کرام رحمہم اللہ [اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی] مخالفت کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ بچہ اس کا نہیں ہے تو پھر نہ ہی اس سے نسب ثابت ہوگا اورنہ ہی کوئی دوسرا حکم ۔ جب کہ امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بچے کی نفی کے باوجود بعض احکام ثابت ہوتے ہیں ۔
یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کا صلبی بچہ ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ فقہی مسائل غلط ہیں تو اس میں شبہ نہیں کہ جمہور ائمہ ان کے خلاف ہیں اور اگر درست ہیں تو اقوال اہل سنت سے خارج نہ ہوں گے۔
جیسا کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے یہ بھی کہاہے کہ : اگر کوئی انسان اپنے سے بڑی عمر کے غلام سے اگر یہ کہے کہ تم میرے بیٹے ہو۔ تواسے اس غلام کے آزاد کرنے سے کنایہ سمجھا جائے گا؛ اس سے نسب ثابت نہیں ہوگا۔ جبکہ جمہور علماء کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں یہ ایسا اقرار ہے جس کا جھوٹ ہونا ظاہر ہے ۔ اس کی بنا پر کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوگا۔پس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جو الزام لگایا جارہا ہے ‘اگر وہ حق ہے تو جمہور اہل سنت آپ کی موافقت کرتے ہیں ۔اوراگر جھوٹ و باطل ہے تو اس سے باقی لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔حالانکہ الزام لگانے والا اس خیال سے الزام لگاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یہ کہتے ہیں کہ : یہ اولاد اسی آدمی کے پانی سے ہے ؛ اگرچہ اس کا اپنی بیوی سے اجتماع نہ بھی ہوا ہو۔ایسی بات تو انتہائی درجہ کا بیوقوف انسان بھی نہیں کہہ سکتا۔توپھر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق اس قسم کے الزام کو کیوں سچ سمجھا جاسکتا ہے ۔ مگر آپ کایہ خیال ضرور ہے کہ آپ ولادت کا نہیں ؛ بلکہ نسب کا حکم لگاتے ہیں ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں آپ منفرد ہیں ؛ جمہور نے آپ کی مخالفت کی ہے ‘ اور اس قول کو مبنی بر خطاء کہا ہے ۔ بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے شوہر کے لیے وطی ممکن ہونےکی صورت میں نسب ثابت ہونے کا حکم لگایا ہے؛جیسے امام شافعی اور امام احمد کے بہت سارے ساتھی یہی کہتے ہیں ۔ رحمہم اللہ ۔ان میں سے بعض یہ بھی کہتے ہیں : نسب اس وقت تک ثابت نہیں مانا جائے گا جب تک ان دونوں کے مابین خلوت [دخول] حاصل نہ ہوجائے۔یہ امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے اور امام احمد رحمہ اللہ کا دوسرا قول ہے ۔
[نبیذ کا مسئلہ اوراہل سنت پر الزام کا جواب:]
ایسے ہی نبیذ کو حلال کہنے کا مسئلہ بھی ہے ۔جمہور اہل سنت و الجماعت اسے حرام قرار دیتے ہیں ۔ اور اس میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں ؛ یہاں تک کہ جو انسان تاویل کی وجہ سے بھی اسے پی لے تو اس پر شراب پینے والے کی حد لگاتے ہیں ۔نبیذ پینے والے کے فاسق ہونے کے بارے میں دو قول ہیں :
۱۔ ایسا انسان فاسق ہے؛یہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے ‘اورامام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے۔
۲۔ اس کو فاسق نہیں کہا جائے گا ؛ یہ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت میں یہ منقول ہے ۔
محمد بن الحسن رحمہ اللہ نبیذ کو حرام کہتے ہیں ۔یہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے اہل انصاف کے ہاں مختار قول ہے؛ جیسے ابو اللیث سمرقندی رحمہ اللہ وغیرہ۔
شیعہ مضمون نگار کی بوالعجبی ملاحظہ کیجئے کہ وہ کہتا ہے:’’ نشہ میں مشترک ہونے کے باوجود نبیذکو مباح کہتے ہیں ۔‘‘
ابھی تو وہ قیاس سے انکار کر رہا تھا؛ اور ابھی قیاس کی مدد سے نبیذ کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف حجت پیش کررہا ہے ،اگر قیاس حق ہے تو اس کا انکار باطل تھا ۔ اور اگر قیاس باطل تھا تو اس کی حجت باطل ہوگئی ۔ اس کے بجائے اگر حدیث : ’’ کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٍ وَکُلُّ خَمْرً حَرَامٌ ‘‘[صحیح مسلم کتاب الاشربۃ۔ باب بیان ان کل مسکر خمر، (ح:۷۵؍۲۰۰۳)۔]سے استدلال کیا ہوتا تو یہ زیادہ بہتر تھا۔
رہا نبیذ سے وضوء کا مسئلہ ؛تو جمہور علماء اس کا انکار کرتے ہیں ۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں ہیں ۔ اس بارے نے آپ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو اس باب میں نقل کی گئی ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: ’’ تمرۃ طیبۃ و ماء طہور ۔‘‘
’’کھجور پاکیزہ پھل ہے ‘ اور اس کا پانی پاک ہے ۔‘‘[فِی: سننِ أبِی داود:۱؍۵۴؛ ِکتاب الطہورِ، باب الوضوئِ بِالنبِیذِ، ونصہ عن عبدِ اللہِ بنِ مسعود أن النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ لیلۃ الجن: (( ما فِی إِداوتِ؟ قال: نبِیذ۔ قال: تمرۃ طیِبۃ وما طہو۔ والحدِیث فِی سننِ التِرمِذِیِ:۱؍۵۹؛ کتاب الطہورِ، باب ما جا فِی الوضوئِ بِالنبِیذِ، وقال التِرمِذِی: وإِنما روِی ہذا الحدِیث عن أبِی زید عن عبدِ اللہِ عنِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وأبو زید رجل مجہول عِند أہلِ الحدِیثِ لا تعرف لہ رِوایۃ غیر ہذا الحدِیثِ، والحدِیث أیضاً فِی سننِ ابنِ ماجہ:۱؍۱۳۵؛ ِکتاب الطہارۃِ وسننِہا، باب الوضوئِ بِالنبِیذِ۔]
جمہور اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں : اگریہ حدیث صحیح بھی ہو تب بھی آیت ِ وضوء اور آیت ِ تحریم خمر سے منسوخ ہوچکی ہے۔حالانکہ اس بات کا احتمال ہے کہ ابھی وہ نبیذ نہ بنا ہو؛ بلکہ پانی ہی ہو۔اور یہ اس وقت ہوگا جبپانی اپنی اصلیت پر باقی ہو؛ اس میں تبدیلی نہ ہوئی ہو۔یا تھوڑی بہت یا زیادہ تبدیلی ہوئی ہو؛ مگروہ پھر بھی ان علماء کے مطابق پانی ہی شمار ہوتا ہو جو ملاووٹ شدہ پانی سے وضوکو جائز کہتے ہیں ۔
جیسے باگلہ کا پانی؛ اور چنے کا پانی اور اس طرح کے دیگر پانی۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے؛ اور احمد احمد رحمہ اللہ سے بھی اکثر روایات میں یہی منقول ہے۔ یہ قول دوسرے کی نسبت حجت میں زیادہ قوی ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے:﴿ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً ﴾ (النِسائِ:۳۳) ’’اور تم پانی نہ پاؤ۔‘‘اس جملہ میں نفی کے سیاق میں لفظ ’’مائً‘‘نکرہ آیا ہے جو کہ ان تمام پانیوں کو شامل ہے جو ان میں پاکیزہ چیزیں ملنے کی وجہ سے بدل گئے ہوں ۔ جیسا کہ یہ ان پانیوں کو بھی شامل ہے جو اپنی اصل خلقت کے اعتبار سے بدلے ہوئے ہوں ۔ یا پھرجن پانیوں کی حفاظت ممکن نہ ہو؛ کیونکہ لفظ ان تمام پانیوں کو شامل ہے۔ جیسا کہ سمندر کے پانی سے وضوء کرنا جائز ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اس کا پانی بذات خود پاک اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔[سنن الترمذی، الطھارۃ ۲۵ [۹۶]، سنن النسائی، الطھارۃ ۷۴ ، سنن ابن ماجہ، الطھارۃ ۸۳ ۶۸۳۔ موطا امام مالک ، الطھارۃ ۳ [۲۱]، مسند احمد :۲؍۷۳۲،سنن الدارمی, الطھار۳۵ [۵۵۷] صحیح۔]
پس سمندری پانی پاک ہے؛ حالانکہ وہ انتہائی درجہ کا نمکین ؛کڑوا اور کسیلا ہوتا ہے۔ پس جو پانی پاکیزہ چیزوں سے بدل جائے؛ اس کی حالت اس سے بہتر ہوتی ہے۔ لیکن یہ تبدیلی اصلی ہے؛ اور وہ لاحق ۔
کتے کا چمڑا اوردباغت کا مسئلہ :
رہا کتے کے چمڑے میں نماز کا مسئلہ ؛ توامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اسے اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیتے ہیں کہ چمڑے کو دباغت دی گئی ہو۔ علماء کی ایک جماعت کا یہی خیال ہے ۔آپ اس مسئلہ میں منفرد نہیں ہیں ۔ان کی دلیل یہ حدیث نبوی ہے :
((اَیُّمَا إِہَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَہُرَ)) [صحیح مسلم۔ کتاب الحیض۔ باب طہارۃ جلود المیتۃ بالدباغ(ح:۳۶۶) سنن ترمذی۔ کتاب اللباس ۔ باب ما جاء فی جلود المیتۃ اذا دبغت،(ح:۱۷۲۷) واللفظ لہ....] (جو چمڑا بھی رنگا جائے وہ پاک ہوجاتا ہے )۔[ عموم حدیث کے پیش نظر کتے کا چمڑا بھی دباغت سے پاک ہوجاتا ہے]
یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔یہ ان شنیع مسائل میں سے نہیں ہے۔ اگر اس کے منکر [شیعہ] سے اس کی حرمت کی قطعی دلیل طلب کی جائے تو بتا نہ سکے گا۔بلکہ اگر اس سے کتے کے حرام ہونے پر دلیل طلب کی جائے ؛ تاکہ امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ایک قول پر رد کیا جا سکے۔اس لیے کہ امام مالک اپنے ایک قول میں کتے کو مکروہ قراردیتے ہیں ؛ حرام نہیں کہتے۔ تواس کا رد کرنا رافضی کے بس کی بات نہ ہوگی۔حالانکہ صحیح بات جس پر جمہور علمائے کرام رحمہم اللہ کا مذہب یہی ہے کہ کتے اور باقی درندوں کا چمڑا دباغت دینے سے پاک نہیں ہوتا۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی ایک اسناد کے ساتھ منقول ہے کہ:
’’ آپ درندوں کے چمڑوں کو دباغت دینے سے منع فرمایا کرتے تھے۔‘‘[سننِ أبِی داود:۴؍۹۶؛ کتاب اللِباسِ،باب ما جاء فِی جلودِ النمورِ والسِباعِ، سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۱۵۲؛ ِکتاب اللِباسِ، باب ما جاء فِی النہیِ عن جلودِ السِباع، سننِ النسائِیِ:۷؍۱۵۶؛ ِکتاب الفرعِ والعتِیرِۃ، باب النہیِ عنِ الِانتِفاعِ بِجلودِ السِباع ، المسندِ ط۔ سننِ النسائِیِ:۷؍۱۵۵؛ کتاب الفرعِ والعتِیرِ، باب الرخصِ فِی الِاستِمتاعِ بِجلودِ المیتِ إذا دبِغت۔ ]
رہ گیا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
((اَیُّمَا إِہَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَہُرَ )) ’’جو چمڑا بھی رنگا جائے وہ پاک ہوجاتا ہے ۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔حالانکہ اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔[مسلِم:۱؍۲۷۷؛ کتاب الحیضِ، باب طہارۃِ جلودِ المیتۃِ بِالدِباغ، ولفظہ: ِإذا دبِغ الإِہاب فقد طہر، وانظر شرح النووِیِ علی مسلِم:۴؍۵۳؛ والحدِیث فِی سننِ أبِی داود:۴؍۹۳؛ِکتاب اللِباسِ، باب فِی أُہُبِ المیتۃ،سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۱۳۵؛کتاب اللِباسِ، باب ما جاء فِی جلودِ المیتۃِ إِذا دبِغت، سننِ النسائِیِ:۷؍۱۵۳؛کتاب الفرعِ والعتِیرۃِ، باب جلودِ المیتۃِ، سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۱۹۳، کتاب اللِباسِ، باب لبسِ جلودِ المیتۃِ إِذا دبِغت۔]
ایسے ہی کتے کے حرام ہونے پر شرعی دلائل موجود ہیں ۔لیکن ان امامیہ کے بس میں نہیں ہے کہ یہ امام مالک رحمہ اللہ سے وارد ہونے والے ایک قول پر رد کرسکیں ۔
خشک گندگی پر بغیر کسی حائل کے نماز پڑھنے کا مسئلہ:
خشک گندگی پر بغیر کسی حائل کے نماز پڑھنا ؛ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا۔لیکن اگر زمین کو نجاست لگے جائے؛ اور پھر سورج کی وجہ سے یا ہواؤوں کی وجہ سے یا زمین میں تحلیل ہوجانے کی وجہ سے ختم ہوجائے تو اکثر لوگوں کا مذہب ہے کہ یہ زمین پاک ہوگئی ہے اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہے ۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔اور امام مالک رحمہ اللہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں منقول ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا پھلا قول بھی یہی ہے۔یہ قول ان لوگوں کے قول کی نسبت زیادہ ظاہر و مقبول ہے جو اسے پاک نہیں مانتے ۔
وہ قصہ جس میں رافضی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق بادشاہ کے دربار میں نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کیا ہے ۔یہاں تک کہ حنفی بادشاہ نے اپنے مذہب سے رجوع کرلیا۔ یہ قصہ اہل سنت والجماعت کا مذہب فاسد ہونے پر دلالت نہیں کرتا ۔ اس لیے کہ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : حق ان سے خارج نہیں ہوسکتا۔ وہ ہر گزیہ نہیں کہتے کہ : ان میں سے کوئی ایک خطا نہیں کرسکتا۔
اس طرح کی نماز کا جمہور اہل سنت والجماعت انکار کرتے ہیں ۔ جیسا کہ امام شافعی ؛ امام مالک ؛ احمد بن حنبل رحمہم اللہکا مذہب ہے ۔ جس بادشاہ کا ذکر اس رافضی نے کیا ہے وہ محمد بن سبکتکین ہے؛ جو کہ ایک بہترین اور عادل بادشاہ تھا۔ اس نے رجوع بھی اس چیز کی طرف کیا تھا جس کا سنت نبوی ہونا اس کے لیے ظاہر ہوگیا تھا۔ یہ بادشاہ خود نیک تھا او راہل بدعت اور خصوصاً رافضیوں پر بہت سخت تھا۔ اس نے اپنے ملک میں روافض اور ان جیسے دوسرے لوگوں پر لعنت کرنے کا حکم جاری کررکھا تھا۔ مصر کے عبیدی حاکم نے اسے خط لکھ کر دعوت دی تھی ؛ اس نے اس کے ایلچی کے سامنے یہ خط جلا دیا۔اور اہل سنت والجماعت کی جو مدد کی وہ تاریخ میں مشہورو معروف ہے۔
[غصب کی اباحت]
[اعتراض]: رافضی کا کہنا کہ : انہوں نے غصب کو مباح قرار دیا ہے ۔اگرچہ غصب کرنے والا اس میں تبدیلی ہی کیوں نہ کر دے ۔ان کا کہنا ہے : اگر چور کسی چکی پر پہنچ کر آٹا پیس لے تو وہ آٹے کا مالک قرار پائے گا، اگر مالک آکر اس سے جھگڑنے لگے تو ظالم ہوگا،اور چور مظلوم ہوگا۔ اگر وہ دونوں لڑنے لگیں اور چور مارا جائے تو وہ شہید تصور کیا جائے گا، اگر چور مالک کو مار ڈالے تو چور پر قصاص یا دیت نہیں آئے گی۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب] : یہ مسئلہ جمہور علمائے اہل سنت والجماعت کانہیں ہے۔یہ جس کسی نے بھی کہا ہے ؛ جمہور اس کے مخالف ہیں ۔اور اس قول پر شرعی دلائل کی روشنی میں رد کرتے ہیں ۔یہ بعض علماء کا قول ہے۔لیکن فقہاء کا اس غاصب کے بارے میں اختلاف ہے جس نے غصب شدہ چیز میں ایسی تبدیلی کردی ہو جس کی وجہ سے اس کا نام ہی بدل جائے۔ مثال کے طور پر دانے پیسنے کے بعد آٹا بن جاتے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ: ’’ یہ ایسے ہی ہے جیسے اس [غصب شدہ ] چیز کو تلف کردینا۔تواس صورت میں اس غاصب پر غصب شدہ چیز کی قیمت ادا کرنا واجب ہوگی۔ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے : بلکہ وہ چیز اپنے اصل مالک کی ملکیت پر باقی رہے گی۔اگر اس میں جوکچھ زیادتی ہوگئی ہے تو وہ مالک کے لیے ہے ؛ اور اگر کچھ کمی ہوگئی ہے تو اس کا تاوان غصب کرنے والے پر ہے ۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ : مالک کو اختیار دیا جائے گاکہ وہ اپنی چیز قبضہ میں لے لے ‘ اور جو کچھ اس میں کمی واقع ہوئی ہے ‘ اس کا غصب کرنے والے سے تاوان طلب کرے ۔یا پھر اس کے متبادل کا مطالبہ کرے؛اور یہ چیز غصب کرنے والے کے لیے چھوڑ دے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب میں یہ مشہور قول ہے ۔ اگر مالک اپنی ہی چیز لے لے ‘تو پھر کہا گیا ہے کہ : غصب کرنے والے نے اس میں جو تبدیلی کی ہے ‘ وہ اس میں شریک ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ : اب اس کا کچھ بھی حق باقی نہیں ۔ یہ اقوال امام احمد اور دوسرے ائمہ رحمہم اللہ کے مذاہب میں موجود ہیں ۔ پس رافضی جس نے اس کا انکار کیا ہے ؛ وہ جمہور اہل سنت کے مذہب کے خلاف کہہ رہا ہے۔
دوسری بات :....رافضی نے اس قول کے نقل کرنے میں جھوٹ بولا ہے ۔ اس نے کہا ہے : ’’ اگروہ دونوں آپس میں لڑ پڑیں تو مالک ظالم ہوگا۔‘‘اس لیے کہ اگر مالک متأول ہو‘اور اس قول کے علاوہ کسی دوسرے قول پر اعتقاد نہ رکھتا ہوتو وہ ظالم نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی اس کے لیے لڑائی کرنا جائز ہے ۔ بلکہ جب ان دونوں کے درمیان تنازع پیدا ہوجائے تو انہیں چاہیے کہ اپنا معاملہ کسی ایسے انسان کے پاس لے کر جائیں جو ان کے درمیان فیصلہ کرسکے۔ ایسا اس صورت میں ہوگا جب مالک کو یقین ہو کہ یہ چیز بعینہ ہی اس کی ملکیت ہے ؛اور دوسرے کا خیال ہو کہ یہ اس کی ملکیت ہے۔
٭ مزید برآں ان دونوں باتوں میں بھی فرق کیا جائے گا کہ جو کوئی دانے غصب کرلے ؛ اورپھر ان دونوں کا ان کے پیسنے پر اتفاق ہوجائے۔ اور جو کوئی دانے اسی غرض سے پیس رہا ہوکہ وہ انہیں اپنی ملکیت بنائے گا۔ اس صورت میں اس کے ارادہ کا الٹ معاملہ کرکے سد ذرائع کے طور پرسزا دی جائے گی۔
خلاصہ کلام ! جن مسائل کا رافضی مصنف نے انکار کیا ہے ؛ وہ تمام کے تمام امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔سوائے زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی کے ‘ کسی مسئلہ میں کوئی امام ان کے ساتھ ان مسائل میں شریک نہیں ؛ اس لڑکی کے مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ ان کے ہمنوا ہیں ۔
٭ اس شیعہ کو [بطور جواب یہ بھی] کہا جائے گا: ’’ شیعہ کہتے ہیں : ’’ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب باقی تینوں ائمہ کے مذاہب کی نسبت صحیح تر مذہب ہے ۔ اور تمہارا کہنا ہے کہ جب انسان کو بوجہ مجبوری مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک سے فتوی لینا پڑے تو اسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر فتوی لینا چاہیے۔ اور شیعہ محمد بن الحسن کو امام ابو یوسف پر ترجیح دیتے ہیں ۔اس لیے کہ شیعہ حدیث و سنت سے نفرت کی وجہ سے ان لوگوں سے بھی نفرت رکھتے ہیں جو حدیث و سنت پر زیادہ پابند ہوں ۔‘‘
٭ جب بات ایسے ہی ہے؛ تو یہ مسائل جنہیں رافضی مصنف نے شمار کیا ہے ‘ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب میں سے ہیں ۔ جب مذاہب اربعہ میں سے آپ کا قول ہی [شیعہ کے نزدیک] راجح ہے ؛ تو ان اقوال پر طعنہ زنی کرنا شیعہ مذہب میں تناقض کی دلیل ہے ۔کیونکہ شیعہ تو آپ کے قول کو راجح کہتے ہیں ‘ اور آپ کے مذہب کو باقی مذاہب پر فضیلت دیتے ہیں ۔ توپھر اس مذہب کی وہ کمزوریاں اور نقص بیان کرنا شروع کردیتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مذہب دوسرے مذاہب کی نسبت کمزور اور ناقص ہے ۔ شیعہ سے اس قسم کی تناقض کا وقوع پذیر ہونا کوئی بعید نہیں ہے ؛ اس لیے کہ یہ لوگ اپنی جہالت اور ظلم کی وجہ سے بلا علم اور بلا عدل تعریف بھی کرتے ہیں اور مذمت بھی کرتے ہیں ۔ اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہی راجح تھا تو خاص اس مذہب کے جن کمزور مسائل کا ذکر شیعہ مصنف نے کیا ہے ‘ جو کہ امام صاحب کے علاوہ کسی دوسرے کے مذہب میں نہیں پائے جاتے ؛ تو اس سے شیعہ کے اقوال کا تناقض ظاہر ہوگیا۔ اگر امام صاحب کا مذہب راجح نہیں تھا تو پھر اسے دوسرے مذاہب پر ترجیح دینا باطل تھا۔تو ہر صورت میں لازم آتا ہے کہ شیعہ باطل پر ہوں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعہ خواہشات نفس کے مارے ہوئے جاہل لوگ ہوتے ہیں ؛یہ ہر موقع پر ایسی بات کرتے ہیں جو ان کی غرض و غایت کے مناسب ہو۔ بھلے وہ بات حق ہو یا باطل ۔
اس جگہ پر یہ اعتراض کرنے سے شیعہ مصنف کا مقصد تمام اہل سنت گروہوں کی مذمت کرنا تھا۔پس یہ لوگ ہرمذہب میں سے جس چیز کومذموم خیال کرتے ہیں ‘ اس کی مذمت کرنے لگ جاتے ہیں ۔بھلے وہ اس کے نقل کرنے میں سچے ہوں یا جھوٹے ۔اور بھلے وہ اپنی ذکر کردہ مذمت میں وہ حق پر ہوں یا باطل پر۔ اگرچہ خود شیعہ کے مذہب میں پائے جانے والے عیب دوسرے کسی بھی مذہب میں پائے جانے والے عیوب سے بڑھ کر ہیں ۔
[زانی کی گواہی اور دیگرمسائل]:
[اعتراض]:شیعہ کاکہنا ہے : اگر زانی گواہوں کو جھٹلا دے، تو اس پر حد لگائی جائیگی اور اگر ان کی تصدیق کر دے تو حد ساقط ہوجائے گی گویا مجرم کے اقرار جرم اور گواہوں کی گواہی کے باوجود اس پر حد نہیں لگائی جائے گی۔یہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے کہ جس کسی پر بھی زنا کی گواہی دی جائے اور وہ گواہوں کو جھٹلادے تو گواہی ساقط ہوگی۔‘‘
[جواب]: یہ قول بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال میں سے ہے۔ جمہورعلماء جیسے : امام مالک ؛ امام شافعی ؛ احمد بن حنبل وغیرہم رحمہم اللہ نے اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت بھی کی ہے ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے کہ جب مجرم اقرار کرلے گا تو شہادت کا حکم ساقط ہوجائے گا بشرطیکہ وہ چار مرتبہ اقرار کر لے۔ بخلاف ازیں جمہور کہتے ہیں کہ:’’ مجرم کے اقرار سے شہادت میں مزید پختگی پیدا ہوجاتی ہے؛ شہادت باطل نہیں ہو گی ۔اس لیے کہ اس کا اقرار گواہی کے موافق ہے ؛ اس کے مخالف نہیں ہے؛ اگرچہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے گواہوں کی تعداد چار سے بڑھ جائے۔یاجیسے کوئی چار بار سے زیادہ اقرار کرلے ۔
خلاصہ کلام ! یہ جمہور اہل سنت و الجماعت کا قول ہے۔اگرپہلا قول حق ہے تو ان کا ہی قول ہے ۔اور اگر اس کے برعکس ہے تو پھر بھی قول حق و صواب ان کے پاس موجود ہے ۔ پھر اس شیعہ سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : جمہور اہل سنت و الجماعت ان مسائل کا انکار کرتے ہیں ۔اور ان کے کہنے والوں پر ایسے دلائل اور حجتوں سے رد کرتے ہیں جنہیں امامیہ نہیں جانتے ۔
[اہل سنت پر کتے اور لونڈے بازی کی حلت کا الزام اور اس پررد: ]
[ اعتراض]:شیعہ مصنف کہتا ہے :[اہل سنت کے ہاں ]’’کتے کا گوشت کھانا مباح ہے؛غلام کیساتھ لواطت مباح ہے باجے گاجے اور ساز وغیرہ اسباب غفلت مباح ہیں ۔انکے علاوہ بھی ایسے مسائل ہیں جن کے بیان کا موقع یہ نہیں ہے ۔‘‘
[جواب]: تمام اہل سنت کی طرف منسوب کرکے یہ قول نقل کرنا؛ اورایسے ہی اس قول کو جمہور کی طرف منسوب کرنا بھی جھوٹ ہے۔بلکہ اس پیرائے میں بعض ایسے جملے موجود ہیں جو خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے ماننے والوں نے کہے ہیں ۔اور بعض ان پر جھوٹ اور بہتان ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہے۔جو جملے بعض لوگوں نے کہے ہیں جمہور اہل سنت و الجماعت نے ان کا انکار کیا ہے ‘ [اور اس پر سختی سے رد کیا ہے ] اور وہ اس گمراہی پر یک زبان نہیں ہوئے[وللہ الحمد ]۔
پھر اس کے برعکس بہت سے برے اور شنیع اقوال شیعہ مذہب میں موجود ہیں جو کہ کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف ہیں ؛ جو کسی بھی دوسرے مسلمان گروہ میں موجود اقوال سے بڑھ کر برے اور گندے ہیں ۔اہل سنت والجماعت کےکسی بھی گروہ میں کوئی ایسا ضعیف قول نہیں پایا جاتا جس سے بڑھ کر ضعیف اور شنیع قول شیعہ مذہب میں موجود نہ ہو۔
اس سے واضح ہوگیا کہ اہل سنت والجماعت کا ہر گروہ ہر حال میں شیعہ سے بہتر ہے۔اس لیے کہ شیعہ مذہب میں جس کثرت سے جھوٹ ‘ تکذیب حق ؛ کثرت جہالت ؛ محال امور کی تصدیق ؛ قلت ِ عقل ؛ غلو ؛ اتباع ہوی؛ مجہولات سے تعلق [اور اس طرح کے دیگر مذموم امور ] پائے جاتے ہیں ‘ اس کی مثال کسی دوسرے فرقہ میں نہیں ملتی ۔ رہ گیا غلاموں سے لواطت کے جواز کے بارے میں شیعہ کا بیان؛ تو وہ صریح جھوٹ ہے، علماء اہل سنت میں سے یہ کسی کا قول نہیں ۔میرا خیال ہے کہ شیعہ کا مقصد امام مالک رحمہ اللہ پر طعنہ زنی کرنا ہے ۔ اس لیے ہم نے دیکھاہے بعض جہلاء نے امام مالک رحمہ اللہ کی طرف ایک ایسی روایت منسوب کی ہے۔اس کی اصل عورتوں کے ادبار کے بارے میں ہے۔اہل مدینہ کاایک گروہ اسے مباح سمجھتا تھا۔جب امام مالک سے اس بارے میں دو قول نقل کیے گئے تو جاہل نے یہ سمجھا کہ آپ نے غلاموں کے ساتھ لواطت کو مباح قرار دیاہے۔یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ کوئی ادنی انسان بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا تو پھر امام مالک رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر اور صاحب شرف و منزلت عالم کے متعلق کیسے یہ تصور کیا جاسکتا ہے ؟جب کہ آپ کے مذہب میں انسداد فواحش اور احکام سد ذرائع بکمال موجود ہیں ۔اور یہ مذہب حدود قائم کرنے کے بارے میں سب سے زیادہ حریص ہے۔ منکرات اور بدعات کے انکار میں سب سے آگے ہے۔[وقال ابن قدامۃ فِی المغنِی:۹؍۳۱واختلفتِ الرِوایۃ عن أحمد رحِمہ اللہ فِی حدِہِ حد اللِواطِ فروِی عنہ أن حدہ الرجم بِکرا کان أو ثیِبا، وہذا قول علِی وابنِ عباس وجابِرِ بنِ زید وعبدِ اللہِ بنِ معمر والزہرِیِ وأبِی حبِیب وربِیع ومالکِ۔ ]
امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ بالاتفاق کہتے ہیں کہ:’’ غلاموں سے لواطت کو حلال قرار دینے والا کافر ہے۔‘‘یہ قول تمام ائمہ مسلمین کا ہے۔لواطت کو حلال سمجھنے والا ایسے ہی ہے جیسے اپنی رضاعی بیٹی یا رضاعی بہن سے وطی کو حلال سمجھنے والا؛یا پھر جو اپنے باپ یا بیٹے کی بیوی سے جماع کوحلال سمجھتا ہو۔ پس رضاعی بیٹی یاایسی مملوکہ جس نے اس سے دودھ پیا ہو‘ یا رضاعت اور سسرالی تعلق کی وجہ نکاح باتفاق مسلمین مباح نہیں ہوتا۔ پس اس کا غلام بالاولی اس حرمت کا زیادہ مستحق ہے۔ اس لیے کہ یہ جنس نہ ہی نکاح سے حلال ہوسکتی ہے او رنہ ہی ملک یمین سے ؛ بخلاف عورتوں کی جنس کے۔
امام مالک اورعلماء اہل مدینہ رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ لوطی کو رجم کرکے قتل کیا جائے۔ خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ۔ خواہ وہ اپنے غلام سے لونڈے بازی کرے یا کسی دوسرے سے ۔ ان علماء کرام رحمہم اللہ کے ہاں فاعل اور مفعول دونوں کے لیے قتل کیے جانے کا حکم ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو۔‘‘[سننِ بِی داود:۴؍۲۲۰؛ کتاب الحدودِ، باب فِیمن عمِل عمل قومِ لوط، ونصہ فِیہِ: قال: قال رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجدتموہ یعمل عمل قومِ لوط فاقتلوا الفاعِل والمفعول بِہ۔ وجاء الحدِیث أیضا فِی: سننِ التِرمِذِیِ ؛ کتاب الحدودِ، باب ما جاء فِی حدِ اللوطِی۔ سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۸۵۶؛ کِتاب الحدودِ،باب من عمِل عمل قومِ لوط۔ وقال الشیخ أحمد شاِکر رحِمہ اللّٰہ: ِإسنادہ صحِیح۔]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی یہی حکم ہے ؛ اور امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے۔پس جس کا مذہب یہ ہو کہ لواطت زنا سے زیادہ سخت اور بری چیز ہے توپھر اس سے کیسے یہ حکایت نقل کی جاسکتی ہے کہ اس نے لواطت کو مباح قرار دیا ہے ؟ ۔ ایسے ہی آپ کے علاوہ بھی کسی دوسرے عالم نے اس عمل کو مباح نہیں کہا۔بلکہ ان سب کا اس فعل کے حرام ہونے پر اتفاق ہے ۔ لیکن بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ علماء کرام کا ان کے حرام ہونے پر اتفاق ہوتا ہے ؛ مگر اس کا ارتکاب کرنے والے پر حد قائم کرنے کے بارے میں ان کے مابین اختلاف ہوتا ہے کہ کیا اس پر حد لگائی جائے ؟ یا پھر اسے تعزیر سے سزا دی جائے جوکہ حد سے کم ہو؛ جیسے کوئی اپنی ایسی مملوکہ سے وطی کردے جو اس کی رضاعی بیٹی بھی ہو؟ ۔
[شطرنج ‘گانے اور ساز کی اباحت کا الزام]:
[الزام]:[شیعہ مصنف نے کہا ہے : اہل سنت کے ہاں ] ’’شطرنج باجے گاجے اور ساز وغیرہ اسباب غفلت مباح ہیں ۔‘‘
[جواب] : جمہور علماء کرام رحمہم اللہ کے مذہب میں شطرنج حرام ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو شطرنج کھیل رہے تھے؛ تو آپ نے فرمایا : ’’یہ کیا مورتیاں ہیں جن پر تم جم کر بیٹھے ہو؟‘‘
ایسے ہی حضرت ابو موسیٰ؛ ابن عباس ؛ ابن عمر ؛ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کی ممانعت منقول ہے ۔ لیکن اس بارے میں ان کا اختلاف ہے کہ : ان میں سے کس کی حرمت زیادہ ہے شطرنج کی یا نرد کی ؟ امام مالک رحمہ اللہ شطرنج کو نردسے زیادہ سخت حرام سمجھتے ہیں ۔ یہی بات ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ اس لیے کہ شطرنج دل کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے مشغول کردیتا ہے۔اور نرد سے بڑھ کر نماز اورذکر الٰہی میں غفلت کا سبب بنتا ہے ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک نرد کی حرمت شطرنج سے بڑھ کر ہے ۔جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی شطرنج کو حلال نہیں کہا؛ لیکن آپ نے یہ کہا ہے: ’’ نرد حرام ہے اور شطرنج اس سے کم درجہ کا ہے۔اور میرے لیے شرح صدر نہیں ہورہی کہ کیا یہ بھی حرام ہے؛ توآپ نے اسے حرام کہنے میں توقف کیا ہے ۔جب کہ اس بارے میں آپ کے اصحاب کے دو قول ہیں ۔اگر تحلیل کا قول راجح ہو تو پھر بھی اس میں کوئی ضرر نہیں ۔اور اگر تحریم کا قول راجح ہو تو پھر بھی یہی جمہور اہل سنت والجماعت کا قول ہے۔ پس دونوں صورتوں میں حق اہل سنت والجماعت سے باہر نہیں ۔
[گانے بجانے کی اباحت کی الزام اور اس پر ردّ]
[الزام]:[شیعہ مصنف کہتا ہے : اہل سنت کے ہاں ] ’’باجے گاجے اور ساز وغیرہ مباح ہیں ۔‘‘
[جواب] : یہ ائمہ اربعہ پر جھوٹ ہے ۔اس لیے کہ ائمہ اربعہ کا ساز و باجے اور آلات لہو لعب کے حرام ہونے پر اتفاق ہے ؛اگر کسی نے ان میں سے کوئی چیز ضائع کردی تو اس تلف کرنے والے پر کوئی تاوان نہیں ہو گا ؛ بلکہ ائمہ اربعہ کے ہاں ان چیزوں کا رکھنا بھی حرام ہے ۔ لیکن کیا وہ اس کے مادہ کا تاوان ادا کرے گا۔ اس بارے میں ان کے دو مشہور قول ہیں ؛جیسا کہ اگر کوئی شراب کے برتن تلف کردے ؛ اور اس کے ساتھ ہی شراب بنانے کے مادہ کو بھی تلف کردیا توایک قول کے مطابق اس پر کوئی تاوان نہیں ہوگا؛جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے ۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے دو مشہورروایتوں میں سے ایک یہی ہے ۔ جیساکہ حضرت موسی علیہ السلام نے اس بچھڑے کو تلف کردیا تھا جسے سونے سے بنایا گیا تھا۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وہ رنگے ہوئے دوکپڑے جلانے کا حکم دیا ؛ جوکہ آپ پہنے ہوئے تھے۔‘‘[تفسیر ابن کثیر ۵؍۳۴۲۔مسلم ۳؍۱۶۴۷۔کتاب اللِباسِ والزِینۃِ، باب النہیِ عن لبسِ الرجلِ الثوب المعصفر، ونصّٗہ: رأی النبِی صلی اللّٰہ علیہ و سلم علی ثوبینِ معصفرینِ، فقال: أأمک أمرتک بِہذا؟ قلت: غسِلہما؟ قال: بلِ احرقہما۔ قال المحقِق فِی شرحِہِ: معصفرینِ: أی مصبوغینِ بِعصفر، والعصفر صبغ أصفر اللونِ۔]
جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پرپہلے وہ ہانڈیاں توڑنے کا حکم دیا تھا جن میں گدھے کا گوشت پکا ہوا تھا۔پھر ان کے لیے ہانڈیوں میں موجود سالن وغیرہ گرانے کی اجازت دے دی۔[البخاری:۵؍۱۳۰؛ ِکتاب المغازِی، باب غزوِۃ خیبر، وہو حدِیث طوِیل عن غزوۃِ خیبر، وفِیہِ: فقال النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم :’’ ما ہذِہِ النِیران؟ علی أیِ شیء توقِدون؟ قالوا: علی لحم۔ قال: عل أیِّ لحم؟ قالوا: علی لحمِ حمرِ الإِنسِیِ۔ قال النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : أہرِیقوہا واکسِروہا۔ فقال رجل: أو نہرِیقہا و نغسِلہا۔قال: أو ذاک۔ والحدِیث فِی: البخارِیِ:۳؍۱۳۶، کتاب المظالِمِ، باب ہل تکسر الدِنان التِی فِیہا الخمر، مسلِم:۳؍۱۴۲۷؛کتاب الجِہادِ والسِیرِ، باب غزوۃِ خیبر ۔ سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۰۶۵، کتاب الذبائِحِ،باب لحومِ الحمرِ الوحشِیۃ۔]
تو حدیث دونوں باتوں کے جواز پر دلالت کرتی ہے ۔ اورشراب حرام ہونے کے موقع پر آپ نے وہ ڈول توڑنے اور مشکیں پھاڑنے کا حکم دیدیا تھا جن میں شراب ہوتی تھی اور حضرت عمر بن خطاب اور حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما نے وہ گھر جلانے کا حکم دیدیا تھا جہاں پر شراب فروخت ہوتی تھی۔
جو اس کو جائز نہیں کہتے : جیسے اصحابِ امام ابو حنیفہ؛ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ اپنے ایک قول میں ۔
ان لوگوں کا کہنا ہے : یہ مالی عقوبات ہیں جو کہ منسوخ ہوچکی ہیں ۔جب کہ پہلے قول والے لوگ کہتے ہیں : ان میں سے کچھ بھی منسوخ نہیں ہوا۔ اس لیے کہ نسخ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب بعد والی نص پہلی نص سے متعارض ہو۔اس طرح کی کوئی چیز شریعت میں وارد نہیں ہوئی۔بلکہ مالی عقوبات بھی بدنی عقوبات کی طرح ہیں جنہیں مشروع طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ بلکہ مالی عقوبات نافذکرنا بدنی عقوبات کی نسبت زیادہ اہم و اولی ہیں ۔اس لیے کہ جان یا کسی انسانی عضو کا ضائع ہوجانا مال کے ضائع ہونے سے زیادہ خطرناک اور برا ہے۔ جب بدنی عقوبات و سزائیں بھی شریعت نے مقرر کی ہوئی ہیں تو پھر مالی عقوبات اور سزائیں بالاولی مشروع ہیں۔
ایسے ہی علمائے کرام کے مابین قصاص ِ اموال کے بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے۔جب کوئی انسان کسی کی قمیض پھاڑ دے تو کیا وہ بھی قصاص میں اس کی قمیض اتنی ہی مقدار میں پھاڑ دے ؟ اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کے دو قول ہیں :
پس جس نے یہ کہا ہے : ایسا کرنا جائز نہیں ؛ ان کا مقصدیہ ہے کہ : ایسا کرنے میں فساد ہے ۔ اور جس نے کہا ہے :ایسا کرنا جائز ہے ؛ تو اس نے جواب دیا ہے کہ انسانی جان یاعضو کو قصاص میں ختم کرنے میں اس سے بڑا فساد ہے ؛ مگر ایسا کرنا بطور عدل اور قصاص کے جائز ہے۔کیونکہ ایسا کرنے سے لوگوں کو ظلم و سرکشی سے روکا جاتا ہے ؛ اور مظلوم کے دل کے لیے تسلی کا سامان ہے ۔ جو اس کو ناجائز کہتے ہیں ان کاکہنا ہے کہ : اگر جان کے بدلے جان کی قصاص مشروع نہ ہوتی تو لوگ قتل کرنے سے نہ رکتے ۔ اس لیے کہ قاتل کو علم ہوتا کہ جب وہ قتل کرے گا تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا‘ بلکہ وہ دیت ادا کردے گا؛ تو اس طرح وہ قتل کا ارتکاب کرکے دیت ادا کردیتا ؛ بخلاف اموال کے ۔جبکہ اموال تلف کرنے والے سے اس مال کی طرح کا مال لیا جاسکتا ہے۔ پس اس سے قصاص اور تنبیہ حاصل ہوجاتے ہیں ۔جب کہ مال کو ضائع کردینے میں کوئی حکمت نہیں ؛ اس لیے کہ جس کا مال ضائع ہوا ہے وہ اس کا ضرورت مند ہے۔اورقصاص کی صورت میں مال بھی ضائع ہوجاتا ہے اور اس کا عوض بھی۔ اس میں مظلوم کی تسلی کے بجائے مزید غصہ کا سامان ہے ۔ ہاں اگر یہ صورت حال ہو کہ اس سے قصاص اس کا مال تلف کیے بغیر لینا نا ممکن ہو توپھر اس کا جواز صاف ظاہر ہے۔اس لیے قصاص لینا عدل ہے اور برائی کا بدلہ اس جیسی برائی سے دیا جاسکتا ہے۔پس جب کوئی انسان کسی کا مال ضائع کردے ؛ اور اس کا مال تلف کیے بغیر اس سے قصاص لینا نا ممکن ہو تو پھر ایسا کرنا جائز ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علماء کرام کفار کے درخت اور ان کی کھیتی باڑی ضائع کرنے پر متفق ہیں ؛ لیکن یہ اس صورت میں ہوگا جب وہ ہمارے ساتھ ایسا کریں ۔ یا جب کفار پر غلبہ حاصل کرنا اس کے بغیر ممکن نہ ہو۔ اور اس کے بغیر اگر غلبہ ممکن ہو تو پھر کھیتی باڑی ضائع کرنے کے جواز کے بارے میں اختلاف بڑا مشہور ہے۔ امام ا حمد رحمہ اللہ سے اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں ‘اور امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے لوگ اسے جائز کہتے ہیں ۔
یہاں پر مقصود یہ ہے کہ لہو ولعب کے آلات ائمہ اربعہ کے ہاں معروف ہیں ۔ اس بارے میں ان میں سے کسی ایک سے بھی کوئی اختلاف نقل نہیں کیا گیا؛ سوائے خراسان کے متأخرین شافعیہ کے ۔ ان سے اس مسئلہ میں دو قول نقل کیے گئے ہیں ‘ صحیح ترین قول اس کی حرمت کا ہے ۔ جبکہ اہل عراق اور قدیم اہل خراسان سے اس بارے میں کوئی اختلاف نقل نہیں کیا گیا۔
جب کہ فقط مجرد گانا گانا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ ؛امام احمد رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ایک قول کے مطابق حرام ہے ۔اور ان دونوں ائمہ کے ایک قول میں مکروہ ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے ایک جماعت کا خیال ہے کہ صرف گانا گانا مباح ہے۔ اگراس قول کو حق مان لیا جائے تو اس میں کوئی ضرروالی بات نہیں اور اگریہ قول باطل ہو تو پھر بھی جمہور اہل سنت والجماعت گانے کو حرام کہتے ہیں ۔ پس حق اہل سنت والجماعت سے باہر نہیں ہے۔