Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....رافضی مذہب کے راجح ہونے کا دعوی اور اس پر رد ّ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....رافضی مذہب کے راجح ہونے کا دعوی اور اس پر رد ّ

[اشکال ] :شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’شیعہ امامیہ کے مذہب کے واجب الاتباع ہونے کی دوسری وجہ: ہمارے استاد محترم امام اعظم خواجہ نصیر ملت و حق ودین محمد بن حسن طوسی[یہ وہی خواجہ نصیر الدین طوسی ہے، جو اعدائے اسلام ابن علقمی اور ابن ابی الحدید کے ساتھ اس عدیم المثال مسلم کشی و خونریزی میں برابر کا شریک ہے جو ہلاکو نے ۶۵۵ھ میں دارالاسلام بغداد کے عظیم شہر میں بپا کی۔ طوسی کے الحاد و فساد اور اسلام اور مسلمانوں سے اس کی خیانت کاری سے متعلق قبل ازیں حاشیہ تحریر کیا جا چکا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جس کتاب کی تردید کررہے ہیں اس کا مصنف ابن المطہر اور اس کے ہم نوا عداوت صحابہ میں طوسی اور اس کے نظائر و امثال ہی کے مقلد اور زلہ ربا ہیں ۔] قدس اللہ روحہ کا وہ قول ہے جو میرے ان سے مذاہب کے بارے میں سوال کرنے پر ارشاد فرمایا : ہم نے اس حدیث پر غور کیا ہے کہ: ’’ میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی؛ ان میں سے ایک فرقہ نجات پانے والا ہوگا باقی سارے جہنم میں جائیں گے۔ ‘‘[سننِ التِرمِذِی:۴؍۳۴؛ کتاب الإِیمانِ، باب افتِراقِ ہذِہِ الأمۃ،وقال التِرمِذِی: حدِیث أبِی ہریرۃ حدِیث حسن صحِیح؛ سننِ أبِی داؤود:۴؍۲۷۶؛ ِکتاب السنۃِ، باب شرح السنۃ، سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۳۲۱؛کتاب الفِتنِ، باب افتِراقِ الأممِ،سننِ الدارِمِیِ:۲؍۲۴۱؛ ِکتاب السِیرِ، باب فِی افتِراقِ الأمۃِ، المسندِ ط۔ المعارِفِ:۶؍۱۶۹؛ وصحح المحقِق الحدِیث ط الحلبِی: ۳؍۱۲۰،۳؍۱۴۵ وتکلم الألبانِی علی الحدِیثِ طوِیلا فِی سِلسِلۃِ الأحادِیثِ الصحِیحۃِ برقم:۲۰۳۔]نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات پانے والے اور ہلاک ہونے والے فرقہ کو ایک دوسری متفق علیہ حدیث میں متعین کیا ہے؛ آپ نے فرمایا: ’’ میرے اہل بیت کی مثال نوح علیہ السلام کی کشتی کی ہے ۔جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا ‘ اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا ۔‘‘ غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ امامیہ فرقہ ہی ناجی ہے کیونکہ یہ باقی سب فرقوں سے الگ تھلگ ہے۔‘‘باقی تمام مذاہب اصول و عقائد میں مشترک ہیں ۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]

[جواب]: اس کا جواب کئی طرح سے دیا سکتا ہے:

پہلی وجہ:....ہم کہتے ہیں کہ: اس امامی رافضی نے اس شخص کوکافر کہا ہے جو اللہ تعالیٰ کو موجب بالذات تسلیم کرتا ہے اس نے کہا ہے : ’’....اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجب بالذات ہے مختار نہیں ‘ سو اس سے کفر لازم آتا ہے ۔‘‘

جس شخص کو اس نے اپنا شیخ اعظم کہاہے اور اس کا قول بطور حجت کے نقل کیا ہے ،یہ استاد طوسی تو قدامت عالم کا قائل ہے اور اللہ تعالیٰ کو موجب بالذات تسلیم کرتا ہے۔جیسا کہ اس نے اپنی کتاب ’’شرح الاشارات ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔تو شیعہ مصنف کے اس قول کی بنا پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنے جس شیخ کے قول کو بطور حجت پیش کررہا ہے ؛ وہ کافر ہے ۔اور کافر کی بات دین اسلام میں قبول نہیں کی جاتی ۔ 

دوسری وجہ:....ہر خاص و عام سبھی لوگ جانتے ہیں کہ طوسی ’’الموت‘‘ کے قلعہ میں ملحد اسماعیلیہ باطنیہ کا وزیر تھا۔ پھرجب ترک مشرکین نے مسلمانوں کے ملک پر حملہ کیااور دار الخلافہ بغداد کی طرف پیش قدمی کی تو ترکوں کے مشرک بادشاہ ہلاکو خان کا مشیر اور نجومی بن گیا۔ اس نے ہلاکو خان کو خلیفہ وقت اور علماء دین کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔اور ان لوگوںکو باقی رکھنے کا کہا جو اہل حرفہ ؛ صناعت گر اور تاجر وغیرہ ہوں ‘تاکہ ان سے دنیاوی امور میں فائدہ حاصل کیا جائے۔اس نے مسلمانوں کے اوقاف پر قبضہ کرلیا۔جس سے اس نے مشرکین کے علماء اور ان کے مشائخ ؛ جادوگروں اور ان جیسے دوسرے گندے لوگوں کو نوازنا شروع کیا ؛ اور اتنا نوازا کہ اس کی صحیح مقدار کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔

اسی طوسی نے صابی مشرکین کی راہوں پر مراغہ کے مقام پر سرائے تعمیر کروائی؛ اس سرائے سے سب سے کم وہ لوگ فائدہ اٹھاسکتے تھے جو اہل ملت یا ان کے قریب تر ہوں اور سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے صابی اور معطلہ مشرکین تھے۔

طوسی اور اس کے متبعین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اسلام کو صرف بطورِ پردہ اورڈھال کے استعمال کرتے تھے۔ نماز اور دیگر فرائض شریعت کے قریب بھی نہ پھٹکتے تھے ۔اور نہ اللہ تعالیٰ کی حر ام کردہ چیزوں جیسے فحاشی؛ زنا‘ شراب اور دوسری برائیوں سے رکتے تھے۔یہاں تک کہ ان کے بارے میں کہا جاتاہے کہ رمضان کے دنوں میں بھی شراب پیتے ؛ حرام کاری کرتے اور نمازیں ضائع کرتے تھے۔ اہل علم پر یہ باتیں مخفی نہیں ہیں ۔ ان کی اپنی ذات قوت اور شوکت نہیں تھی؛ بلکہ مشرکین کے سہارے پر چلتے تھے؛ جن کادین یہود ونصاری کے دین سے برا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے مغلوں میں اسلام پھیلنے اور مضبوط ہونے لگا تو ان کی شان و شوکت دم توڑتی چلی گئی ؛ اس لیے کہ یہ لوگ اسلام اور اہل اسلام سے سخت بغض و نفرت رکھتے تھے۔ اسی بنا پر امیر نوروز جو کہ سچا مسلمان بادشاہ اور اللہ کی راہ کا سچا مجاہد تھا؛ جس نے مغل بادشاہ غازان کو اسلام کی دعوت دی اور اس نے عہد کیا کہ اگر وہ مسلمان ہوگیا تووہ اس کی مدد کرے گا‘ جس نے جادوگروں اور بخشیہ وغیرہ مشرکین کو قتل کیا ؛ ان کے مندر و معبد ہدم کیے ؛ بت توڑے ؛ اور یہو دو نصاری پر جزیہ نافذ کیا؛ اس کی وجہ سے مغلوں میں اسلام پھیلااور غالب ہوا؛ اس بادشاہ کے ہاں ان روافض کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی۔ بہر کیف خواجہ طوسی اور اس کے اتباع کا معاملہ کچھ ڈھکا چھپا نہیں سب مسلمان اس کی بدکرداریوں سے آگاہ ہیں ۔

بعض لوگوں کا قول ہے کہ نصیر الدین طوسی اپنی زندگی کے آخری دور میں بہت بدل گیا تھا اور پابندی سے نماز پڑھنے لگا تھا، وہ مشہور محدث و فقیہ امام بغوی کی تفسیر قرآن اور فقہ کا مطالعہ بھی کیا کرتا تھا۔[اگر طوسی کی زندگی میں انقلاب و اصلاح کی یہ خبر درست ہے تو اسے چاہئے تھا کہ وہ ان کفریات سے اعلانیہ توبہ کرتا جن سے اس کی کتاب زندگی لبریز ہے۔ اس نے تازیست اعلانیہ جس کفر اور اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نیز مسلمانوں کے خلاف جس خیانت کاری کا ارتکاب کیا اس سے خاموشی کے ساتھ تائب ہوجانا کمال توبہ کی دلیل نہیں ۔اور اگر اس کے سوا اس کا اور کوئی گناہ نہ ہوتا کہ اس نے ابن المطہر جیسے غالی شیعہ کے دلوں کو عداوت و بغض صحابہ سے بھر دیا تو لازم تھا کہ وہ اعلانیہ اپنی توبہ کا اس طرح اظہار کرتا جو ابن المطہر جیسے لوگوں پر ایک واضح حجت ہوتا۔]

اگر اس نے واقعی اپنے الحاد سے توبہ کرلی تھی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اور ان کے گناہ معاف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿قُلْ یٰعِبٰدِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ﴾ (الزمر:۵۳)

’’فرما دیجیے: اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بیشک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتاہے۔‘‘

لیکن جو کچھ اس کے بارے میں نقل کیا گیا ہے ؛ اگر یہ توبہ سے پہلے کاہے‘ تو اس کا قول قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ اور اگر یہ توبہ کے بعد کے واقعات ہیں تو پھر اس نے رافضیت سے سچی توبہ نہیں کی تھی۔بلکہ ممکن ہے صرف الحاد سے توبہ کی ہو [اور رافضیت پر باقی رہا ہو]۔ہر دو صورتوں میں اس کی بات ناقابل قبول ہے۔

ظاہر بات تو یہ ہے کہ یہ مغل بادشاہ کا نجومی تھا ؛ اور اہل الحادو مشرکین کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ [اس کی توبہ کی روایت کے کوئی ثقہ راوی نہیں مل سکے ]۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ جو انسان حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان اور ان کے علاوہ دیگر سابقین اولین مہاجرین وانصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جرح و قدح کرتا ہے؛ امام مالک ؛ شافعی ؛ ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ جیسے لوگوں پراور ان کے ماننے والوں پر طعن و تشنیع کرتا ہے اور انہیں ان کی بعض غلطیوں کی وجہ سے عار دلاتا ہے ‘ جیسے شطرنج اور گانے کو مباح کہنا ۔ اسے کیسے یہ گوارا ہوگیا کہ وہ ان لوگوں کی باتیں بطور حجت کے پیش کرے جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ‘ اور نہ ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں ۔نہ ہی اللہ کے دین حق کو قبول کرتے ہیں ۔اور ان حرام چیزوں کو حلال سمجھتے ہیں جنہیں حرام کہنے پر پوری امت کااتفاق ہے ؛ جیسے زنا کاری اور شراب نوشی ؛ اور پھر وہ بھی رمضان کے دنوں میں ؛ اور نمازیں ضائع کرنا ‘ شریعت محمدی میں نقب زنی کرنا ؛ محرمات دین کو حقیر سمجھنا؛ اورمؤمنین کی راہ چھوڑ کر مشرکین کی راہ اختیار کرنا۔

ان کے بارے میں یہی رائے درست ہے؛ جیسا کہ کہا گیا ہے:

الدین یشکو بلیّۃ من فرقۃ فلسفیۃ

لا یشہدون صلاۃ إلا لأجل التقیۃ

ولا تری الشرع إلا سیاسۃ مدنیۃ

ویؤثرون علیہ مناہجاً فلسفیۃ 

روافض کا ہمیشہ یہی حال رہا ہے ۔ یہ لوگ ہمیشہ سے اولیاء اور پرہیز گار و پارسا لوگوں صحابہ کرام مہاجرین و انصار اور سابقین اولین رضی اللہ عنہم کے دشمن رہے ہیں ۔ اور کفار ومنافقین سے ان کی دوستی رہی ہے۔اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرنے والوں میں سب سے بڑے منافق ملحد باطنی اسماعیلیہ ہیں ۔پس جو کوئی اپنے قول کی تائید میں ان کے اقوال بطور حجت کے پیش کرے ؛ حالانکہ وہ اس سے پہلے ائمہ اسلام پر طعنہ زنی کرچکا ہے ؛ تو ایسا انسان لوگوں میں سب سے بڑھ کر اہل نفاق سے دوستی رکھنے والا اور اہل ایمان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

طوسی کے متعلق ابن المطہر کی رائے:

مقام حیرت و استعجاب ہے کہ یہ خبیث کذاب رافضی (ابن المطہر) جب سابقین اولین خلفاء راشدین ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام اور دیگر ائمہ مسلمین اہل علم ودیندار لوگوں کا ذکر کرتا ہے تو ان کے خلاف من گھڑت کذب و دروغ کا طوفان کھڑا کر دیتا ہے۔ اور جب اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے طوسی کا تذکرہ چھیڑتا ہے، تو اسے’’شَیْخُنَا الْاَعْظَمْ‘‘ اور قَدَّسَ اللّٰہُ رُوْحَہٗ ‘‘ کے الفاظ سے یاد کرتا ہے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ پھر اسی شیخ الاعظم اور اس کے امثال پر کفر کا فتوی بھی لگاتا ہے۔ اور اگلے اور پچھلے دور کے بہترین اہل ایمان پر لعنت بھی کرتا ہے ۔ یہ لوگ دراصل مذکورہ ذیل آیت قرآنی کے مصداق ہیں :

﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓؤُلَآئِ اَہْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا٭اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ وَ مَنْ یَّلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِِدَ لَہٗ نَصِیْرًا ﴾ (النساء: ۵۱۔۵۲)

’’کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ ملا ہے؟ جو بت پرستی کا اور باطل معبود کا اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ لعنت کر دے تو آپ اس کا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔‘‘

بیشک امامیہ فرقہ والوں کو کتاب اللہ کے بعض اجزاء پر ایمان رکھنے کی وجہ سے کتاب کا کچھ حصہ دیا گیاہے ۔ اور ان میں طاغوت پر ایمان اور جادو گری کے شعبے بھی پائے جاتے ہیں ۔اللہ کے علاوہ جس کی بھی بندگی کی جائے اس کوطاغوت کہتے ہیں ۔ یہ لوگ فلسفہ کی تعظیم کرتے ہیں اور مردوں کوپکارتے اور ان کی عبادت کرتے ہیں ۔قبروں پر درگاہیں تعمیر کرتے ہیں ۔ قبروں کی زیارت کے سفر کو حج سے تعبیر کرتے ہیں ؛ انہوں نے کتابیں تحریر کی ہیں : ’’درگاہوں کے حج کے ارکان ۔‘‘

ہم سے بعض ثقہ لوگوں نے بیان کیا ہے کہ ان شیعہ وروافض میں ایسے لوگ بھی ہیں جو درگاہوں کے حج کو بیت اللہ کے حج سے زیادہ باعث اجر و ثواب سمجھتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عظیم تر اور اعلی سمجھتے ہیں ۔ یہ طاغوت پر ایمان کی سب سے بڑی نشانی ہے ۔

شیعہ قدم عالم اور ستاروں کے پجاریوں ؛ اورمشرکین کو کافر کہنے کا انکار کرتے ہیں ۔اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں جو ایمان لائے ہیں ۔ پس بیشک یہ لوگ ان ملحدین اور مشرکین کو مہاجرین و انصار سابقین اولین اور تابعین کرام پر فضیلت دیتے ہیں ۔نیز مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے رافضیوں کی یہود و نصاری اور مشرکین کے ساتھ گٹھ جوڑ اتنی ظاہر و عام ہے کہ ہر خاص و عام اسے جانتا ہے ۔ یہاں تک کہ کہا گیا ہے :

جب کبھی بھی مسلمانوں اور یہودیوں ‘ مسلمانوں اور عیسائیوں اورمسلمانوں اور مشرکین کے مابین کوئی جنگ ہوتی ہے تو رافضی یہود ونصاری اور مشرکین کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔تیسری وجہ:....یہ بات طے شدہ ہے کہ اسماعیلیہ اور نصیریہ میں سے ہر ایک گروہ شیعیت کا اظہار کرتا ہے۔اگرچہ وہ باطن میں پکے کافر اور ہر ملت سے ہٹے ہوئے ہیں ۔نصیریہ غالی رافضیوں میں سے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو إلہ مانتے ہیں ۔یہ گروہ باتفاق مسلمین یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ۔

اسماعیلیہ باطنیہ ان سے بھی بڑے کافر ہیں ۔ ان کے عقیدہ کی حقیقت تعطیل پر مبنی ہے۔ان کے ناموس اکبر اور بلاغ اعظم جن کا ان کے ہاں سب سے بڑا مرتبہ مانا جاتا ہے۔ ان کا شمار دھریوں میں ہوتا ہے جو کہتے ہیں : اس عالم کا بنانے والا کوئی بھی نہیں ۔نہ ہی عالم کو پیداکرنے کی کوئی علت ہے اور نہ ہی کوئی پیدا کرنے والا خالق۔ان کا کہنا یہ ہے کہ:’’ ہمارے اور فلاسفہ کے مابین صرف واجب الوجود کا اختلاف ہے۔ فلاسفہ اسے ثابت کرتے ہیں ‘ حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا مذاق اڑاتے ہیں ۔خصوصی طور پر ’’ اسم جلالہ ’’اللہ ‘‘ کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کو اپنے پاؤں کے نیچے لکھتے ہیں تاکہ انہیں روند سکیں ۔

ان کے علاوہ جو لوگ ہیں وہ سابق اور لاحق کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔جنہیں فلاسفہ عقل اور نفس سے تعبیر کرتے ہیں اورمجوسی اسے نور اور ظلمت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ان لوگوں نے اپنے لیے صبائیت اور مجوسیت کے عقائد سے ایک مذہب ترکیب دیا ہے جسے وہ شیعیت کے لباس میں ظاہر کرتے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مجوسی اور صابی یہود و نصاری سے برے ہیں ؛ مگر انہوں نے شیعیت کے لباس میں خود کو ظاہر کیا ۔

ان کا کہنا ہے : تمام گروہوں میں سے شیعہ سب سے جلدی ہماری دعوت قبول کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ ان لوگوں میں شریعت سے خروج پایا جاتا ہے ؛ اور اس گروہ میں جہالت اور مجہول چیزوں کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے ان کے ائمہ باطن میں فلاسفہ ہوا کرتے تھے ؛ جیسے مذکورہ بالا شخص نصیر طوسی وغیرہ ۔ اور سنان بصری ‘ جس نے شام کے علاقہ میں اپنے قلعے بنالیے تھے ۔ اس کا کہنا تھا کہ : ان لوگوں سے نماز و روزہ و زکوٰۃ اور حج کے احکام ختم کردیے گئے ہیں ۔

اسماعیلیہ اپنے آپ کو شیعیت کے لباس میں ظاہر کرتے ہیں ۔یہ لوگ شیعیت کے راستہ سے ہی اسلام میں داخل ہوئے اور اسی راستہ سے اسلام سے نکل گئے۔اسماعیلیہ فرقہ والے روافض کی طرف مہاجر اور ان کے انصار ہیں ؛ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار نہیں ہیں ؛ تو اس سے پتہ چلاکہ روافض کے حق میں اسماعیلیہ کی گواہی کہ وہ حق پر ہیں باتفاق عقلاء مردود ہے۔ اس لیے کہ یہ گواہ : اگر یہ بات جانتا ہے کہ وہ جس دین و عقیدہ پر ہے وہ باطن میں دین اسلام کے خلاف ہے ؛ مگر وہ شیعیت کا اظہار اس لیے کرتا ہے تاکہ مسلمانوں کے سامنے منافقت کا مظاہرہ کرسکے ؛ تو اس صورت میں یہ انسان شیعہ کی تعظیم بیان کرنے کے لیے محتاج ہے۔ تو اس کی گواہی ایسے ہی ہے جیسے کو ئی انسان اپنے نفس کے لیے گواہی دے ۔ [کسی آدمی کی اپنی ذات کے لیے گواہی ناقابل قبول ہے]۔ لیکن اس گواہی میں گواہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ درایں حال وہ ویسے جھوٹا ہے جیسا کہ وہ باقی احوال و امور میں جھوٹ بولتا ہے ۔اگروہ باطن میں دین اسلام کا عقیدہ رکھتا ہے ‘ مگر یہ خیال کرتا ہے کہ یہی روافض دین اسلام پر ہیں ۔ تو پھر بھی یہ اپنی ذات کے لیے گواہی دینے والاہے ؛ مگر اب اس کی گواہی جہالت اور گمراہی پر مبنی ہے ۔پس دونوں صورتوں میں کسی انسان کی اپنی ذات کے لیے گواہی ناقابل قبول ہے ۔ خواہ اسے اپنے جھوٹ کا علم ہو یا وہ اپنے سچا ہونے کا یقین رکھتا ہو۔ جیسا کہ مسند میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے ؛ آپ نے فرمایا:

’’جھگڑا کرنے والی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اور اپنے مسلمان بھائی سے حسد رکھنے والے اور کینہ وعداوت رکھنے والے کی گواہی جائز نہیں ہے۔‘‘[المسند ۱۰؍۲۲۳]

اسماعیلیہ جھگڑالو فریق اہل سنت والجماعت سے حسد کرنے اور بغض رکھنے والے ہیں ؛انکی گواہی ہر لحاظ سے مردودہے۔

چوتھی وجہ:....پہلے ان سے کہا جائے گا : ’’ تم تو ایسی احادیث سے استدلال نہیں کرتے ۔اس لیے کہ یہ احادیث اہل سنت نے اپنی اسناد سے روایت کی ہیں ۔یہ حدیث بذات خود صحیحین میں موجود نہیں ہے۔بلکہ اس حدیث پر بعض محدثین جیسے ابن حزم وغیرہ نے جرح بھی کی ہے ۔ لیکن اس حدیث کو روایت کرنے والے اصحاب سنن جیسے ابو داؤد ‘ترمذی ؛ ابن ماجہ وغیرہ ‘اور اہل مسانید جیسے امام احمد وغیرہ محدثین ہیں ۔ تمہارے اصولوں کے مطابق یہ حدیث ثابت کہاں ہے جو تم اسے بطور حجت پیش کرتے ہو؟ اور اگر اس کو ثابت مان بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ روایت خبرواحد ہے۔ توپھر تمہارے لیے کہ کیسے روا ہوگیا کہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کیلئے تم اصول دین میں سے ایک اصل پر ایسی خبر واحد سے حجت پیش کرو جسے فروعات علمیہ میں بھی بطور حجت پیش نہیں کیا جاتا۔یہ تمہاری سب سے بڑی جہالت اور بہت بڑا تناقض نہیں تو اور کیا ہے ؟

[ حدیث تفرقہ کی تشریح]:

پانچویں وجہ:....اس حدیث کی تفسیر و تشریح دو طرح سے کی گئی ہے :

پہلی صورت:....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات پانے والے فرقہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

’’ نجات پانے والا فرقہ وہ ہے جو اس راہ پر ہو جس پر آج کے دن میں اور میرے صحابہ ہیں ۔‘‘

اور دوسری روایت میں ہے : ’’ وہ جماعت ہیں ۔‘‘

دونوں تفسیروں کی روشنی میں امامیہ کے قول میں تناقض پایا جاتاہے ۔اور اس کا تقاضا ہے کہ یہ لوگ فرقہ ناجیہ سے خارج ہوں ۔اس لیے کہ امامیہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ اس جماعت کے ائمہ جیسے : حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کو کافراور فاسق کہتے ہیں ؛ حضرت معاویہ اور خلفاء بنو امیہ اور بنو عباس کو تو چھوڑیے ؛ ان کی بات ہی علیحدہ ہے۔ ایسے ہی امامیہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ و علماء اور عبادو زھاد جیسے : امام مالک ‘ ثوری؛ اوزاعی؛ لیث بن سعد؛ ابو حنیفہ ؛ شافعی ؛ احمد ؛ اسحق ؛ ابوعبید ؛ ابراہیم بن ادہم ؛ فضیل بن عیاض ؛ ابو سلیمان دارانی ؛ معروف کرخی رحمہم اللہ ؛ اور ان جیسے دیگر لوگوں کو کافر و فاسق کہتے ہیں ۔جب کہ یہ لوگ بذات خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کیمعرفت اور ان کی اقتداء سے بہت دور ہیں ۔یہ باتیں ہر وہ شخص جانتا ہے جسے حدیث اور منقولات کاعلم ہو۔اور ثقہ اور ضعیف راویوں کی معرفت حاصل ہو۔

امامیہ تو ان علوم سے کورے اور بہت دور ہیں ۔حدیث سے بغض رکھنے کی وجہ سے سب سے بڑے جاہل شمار ہوتے ہیں اور محدثین اور اہل سنت سے دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں ۔

پس اگر نجات پانے والا فرقہ وہ ہے جوعہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقتدا اور پیروکار ہو ؛ تو پھر یہی تو اہل سنت والجماعت کا شعار ہے۔ اس بنا پر نجات پانے والی جماعت اہل سنت والجماعت ہیں ۔ سنت اس چیز کو کہتے ہیں : جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ گامزن ہوں ؛یاجس چیز کا آپ نے حکم دیا ہو‘ یا جس کو برقرار رکھا ہو ‘یا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو۔ جماعت وہ لوگ ہیں جو اپنے دین کا شیرازہ بکھیر کر ٹولے ٹولے نہیں ہوگئے ‘ بلکہ وہ ایک چیز پر جمع رہے ۔ جن لوگوں نے دین میں تفرقہ ڈالا اور شیعہ [ٹولہ ] بن گئے ‘ وہ اس جماعت سے خارج ہیں ‘اور اللہ اور اس کا رسول ان سے بری ہیں ۔ تو معلوم ہوا کہ نجات یافتہ ہونا اہل سنت والجماعت کا وصف ہے ؛ رافضہ کا وصف نہیں ۔ اس حدیث میں فرقہ ناجیہ [اہل سنت والجماعت ] کے اوصاف اتباع سنت اور صحابہ کرام کی راہ پر گامزن رہنے اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ چپکے رہنے کی وجہ سے بیان ہوئے ہیں ۔

[احتمال ]: اگر کہا جائے : حدیث میں آیاہے : ’’ جو اس راہ پر ہو جس پر آج کے دن میں اور میرے صحابہ ہیں ۔ ‘‘ پس جو لوگ ان کے بعدآئے ؛ اس طریقہ سے نکل گئے ‘تووہ فرقہ ناجیہ میں سے نہیں ہوں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سارے لوگ مرتد ہوگئے تھے پس اس بنیاد پر وہ نجات پانے والے فرقہ میں سے نہیں ہوں گے۔‘‘ 

[جواب]: اس میں کو ئی شک نہیں یہ درست بات ہے ؛ ارتداد میں سب سے مشہور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مخالفین ہیں ‘ جن سے آپ نے جنگیں لڑیں ۔ ان میں مسیلمہ کذاب اور اس کے اتباع وغیرہ شامل ہیں ۔ ان لوگوں سے تو رافضی محبت کرتے اور دوستی رکھتے ہیں ؛جیسا کہ کئی ایک رافضی مشائخ نے واضح کیا ہے۔ خود اس امامی شیعہ مصنف کا بھی عقیدہ ہے ۔ یہ مرتدین کے بارے میں کہتے ہیں : وہ حق پر تھے۔ او رابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں ناحق قتل کیا ہے ۔ پھر لوگوں میں سب سے بڑے مرتد وہ غالی شیعہ تھے جنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وقت آگ میں جلاڈالا تھا جب انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق الہ [یعنی رب ] ہونے کا دعوی کیا۔یہ لوگ فرقہ سبائیہ سے تعلق رکھتے تھے جو عبد اللہ بن سباء یہودی کے پیروکار تھے؛ جس نے سب سے پہلے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالیاں دینا شروع کی تھیں ۔

خود کو اسلام کی طرف منسوب کرنے والوں میں سب سے پہلے جس نے نبوت کا دعوی کیا تھا وہ مختار بن ابو عبید ثقفی تھا؛ اس کا تعلق شیعہ سے تھا۔ معلوم ہوا کہ لوگوں میں سب سے بڑے مرتد شیعہ کی صفوں میں موجود ہیں ۔اس لیے نصیریہ باطنیہ شیعہ اور اسماعیلیہ ملحدہ سے بڑھ کر بدحال مرتدین کا علم نہیں ہوسکا۔ جب کے مرتدین کے ساتھ قتال میں سب سے مشہور ہستی جناب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ آپ ان مرتدین کے علاوہ کسی بھی گروہ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دشمننہیں پاؤ گے۔ پس اس سے دلیل واضح ہوگئی ہے کہ جو مرتدین ہمیشہ سے اپنی ایڑیوں کے بل پھرتے رہے ؛وہ اہل سنت و الجماعت کی نسبت رافضہ کے زیادہ قریب ہیں۔

یہ معاملہ ہر اس انسان کے لیے واضح ہے جسے اسلام اور مسلمانوں کی ادنی سی معرفت حاصل ہو۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ مرتد جو اپنے آپ کو شیعیت کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ ان مرتدین سے بڑے کافر اور ظالم ہیں جو اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ اگر ایسے کوئی مرتد ہوں ؛[ لیکن ایسا ہے نہیں ]۔

چھٹی وجہ:....یہ دلیل جس سے طوسی نے امامیہ شیعہ کے فرقہ ناجیہ ہونے پر استدلال کیا ہے ؛ اس نے اس کے اوصاف بیان کرتے ہوئے دروغ گوئی سے کام لیا ہے ۔جبکہ خود یہ دلیل اور اس سے استدلال دونوں باطل ہیں ۔ شیعہ کہتا ہے :

’’ امامیہ باقی تمام مذاہب سے جدا ہیں ‘ اور باقی تمام مذاہب اصول عقائد میں مشترک ہیں ۔‘‘

اگرجدا ہونے سے شیعہ مصنف کی مراد یہ ہے کہ اپنے مخصوص مسائل میں باقی فرقوں سے جدا ہیں ؛ تو تمام فرقوں میں یہ چیز پائی جاتی ہے [اس میں شیعہ کی کوئی خصوصیت نہیں ]۔اس لیے کہ خوارج بھی اپنے مخصوص مسائل میں باقی تمام فرقوں سے جدا ہیں جیسے کہ وہ کبیرہ گناہوں کی وجہ سے تکفیر کرتے ہیں ؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں ؛ اورجس چیز کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ دی گئی ہو ‘ اس میں رسول کی اطاعت کو ساقط شمار کرتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے حکم ؛ تقسیم اور دیگر امور میں ظلم کو جائز کہتے ہیں ۔ اور ان متواتر سنتوں کو نہیں مانتے جو ان کے خیال میں ظاہر قرآن کے مخالف ہیں ؛ جیسے : چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا ؛ اوراس طرح کے دیگر امور ۔

علامہ اشعری رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ المقالات ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ خوارج کا اجماع ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تحکیم کے قضیہ کے بعد کافر ہوگئے تھے ۔ مگر اس بابت ان کا اختلاف ہے کہ کیا آپ کا کفر شرک بھی تھا یا نہیں ؟ نجدات کے علاوہ باقی تمام خوارج کا اتفاق ہے کہ ہر کبیرہ گناہ کفر ہے ۔نجدات کبیرہ گناہوں کو کفر نہیں کہتے ۔اور ایسے ہی نجدات کے علاوہ باقی تمام خوارج کا اجماع ہے کہ کبیرہ گناہ کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا عذاب دے گا۔ 

ایسے ہی معتزلہ بھی اپنے مخصوص مسائل میں باقی تمام فرقوں سے جدا ہیں ۔مثال کے طور پر وہ دو منزلوں کے درمیان میں ایک منزل کاعقیدہ رکھتے ہیں ؛اورکہتے ہیں کہ:’’ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔‘‘کیونکہ یہ لوگ نہ ہی مؤمن ہیں اورنہ ہی کافر۔یہی وہ قول ہے جو اصل میں معتزلہ کا عقیدہ تھا؛اور بعد میں ان سے زیدیہ نے لیا۔

ایسے ہی سنت اوراہل سنت والجماعت کی طرف منسوب لوگوں میں سے بھی ہر ایک جماعت اپنے مخصوص مسائل میں دوسری جماعت سے جدا ہے۔ کلابیہ اپنے اس قول میں تمام لوگوں سے جدا ہیں کہ : کلام کا ایک ہی معنی ہے ؛ یا متعدد معانی ہیں ؛ یا تین چار معانی ہیں جو کہ متکلم کی ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ۔اس سے مراد امر و نہی اور خبر ہیں ۔اگر اسے عربی میں تعبیر کیا جائے تو اس سے مراد قرآن ہے ؛ اور اگر اسے عبری زبان میں تعبیر کیا جائے تو اس سے مراد تورات ہے ۔ یہ بات باقی فرقوں میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہی۔کرامیہ اپنے مخصوص عقیدہ میں باقی تمام لوگوں سے جدا ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ : ایمان صرف زبان سے اقرار کا نام ہے۔ پس جو کوئی اپنی زبان سے اقرار کرے وہ مؤمن ہوجاتا ہے۔اگرچہ وہ اپنے دل سے اس کو نہ بھی مانتا ہو۔ پس ایسا انسان مؤمن ہوگا لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ یہ بات کرامیہ کے علاوہ کسی نے نہیں کہی ۔

بلکہ اہل سنت والجماعت کے مشہور اہل علم گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کے کچھ ایسے اقوال بھی ہیں جن پر دوسرے گروہ کسی طرح بھی ان کی موافقت نہیں کرتے ۔ امام ابو حنیفہ ؛ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ میں ہر ایک کے کوئی ایسے منفرد مسائل ہیں جن میں وہ دوسرے تینوں ائمہ سے جدا ہے ۔

اگر شیعہ مصنف کی مراد یہ ہو کہ : امامیہ اپنے تمام مسائل میں باقی فرقوں سے جدا ہیں ؛ تو ایسا کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ امامیہ توحید میں معتزلہ کے ہم نوا اورموافق ہیں ۔ ان کے پرانے لوگ مجسمہ کے عقیدہ پر تھے۔ایسے ہی تقدیر کے مسائل میں بھی امامیہ معتزلہ سے موافقت رکھتے ہیں ۔ ان کے پرانے لوگوں میں سے بہت سارے تقدیر کونہیں مانتے تھے۔ان کے قدماء میں انکار تقدیر کا مسئلہ انکار صفات ربانی سے زیادہ مشہور تھا۔

ایسے ہی جہنمیوں کو جہنم سے نکالے جانے اور اہل کبائر کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے معافی اور مغفرت کے بارے میں ان کے دو قول ہیں ۔ ان کے متاخرین اس مسئلہ میں وقفیہ کی موافقت رکھتے ہیں ۔ وقفیہ کہتے ہیں : ہمیں پتہ نہیں کیا اہل قبلہ میں سے کوئی ایک جہنم میں داخل ہوگا یا نہیں ؟ وقفیہ اصل میں اشعریہ کا ایک گروہ ہیں ۔ اگرچہ وہ یہ بھی کہتے ہیں : ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ بہت سارے اہل کبائر جہنم میں داخل ہوں گے ۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔

جملہ طور پر ان کے کچھ خاص اقوال و عقائد ہیں ۔اور کچھ ایسے اقوال ہیں جن میں دوسرے لوگ ان کے ساتھ شریک ہیں ۔ یہی حال معتزلہ اور خوارج کا بھی ہے ۔ جب کہ اہل حدیث اہل سنت و الجماعت ان کی خصوصیت کتاب و سنت کی اتباع اور اصول وفروع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقہ کار کی اتباع ہے۔ بخلاف خوارج ‘ معتزلہ اور روافض کے۔جو کوئی بعض اقوال میں ان کی اتباع کرے گا ؛ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ فرقے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثقہ راویوں کی اسناد سے ثابت شدہ احادیث پر عمل نہیں کرتے ۔

معتزلہ کہتے ہیں : یہ اخبار احاد ہیں ۔رافضہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پراور ان سے روایات نقل کرنے والے علماء پر طعن کرتے ہیں ۔ اس سے مقصود باطنی طور پر رسالت محمدی پر طعنہ زنی کرنی ہوتی ہے۔خوارج میں سے کوئی کہنے والا کہتا : اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ’’عدل سے کام لیجئے۔بیشک آپ عدل نہیں کررہے ۔‘‘ یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ظلم کو جائز کہتے ہیں ۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلے شخص کے لیے فرمایا تھا:

’’ تیری خرابی ہو جب میں عدل نہ کروں تو اور کون عدل کریگا؟اگرمیں نے عدل نہ کیا تو تو ناکام و نامراد ہوگیا ۔‘‘[البخارِیِ:۴؍۲۰۰ِ؛کتاب المناقِبِ، باب علاماتِ النبوۃِ، مسلِم:۲؍۷۴۴؛کتاب الزکاۃِ، باب ذکِرِ الخوارِجِ وصِفاتِہِم، المسندِ الحلبِی :۳؍۶۵، وانظر:سنن ابنِ ماجہ:۱؍۶۰؛المقدِمۃ،باب مِن ذِکرِ الخوارِج،جامِع الأصولِ لِابنِ الأثِیرِ:۱۰؍۴۳۶۔]یہ لوگ جاہل ہیں جو اپنی جہالت کی وجہ سے سنت سے بہت دور ہوگئے ہیں ۔ جب کہ رافضہ کی بنیاد نفاق کی بدعت پر قائم ہے۔اس وجہ سے ان میں وہ زندیقیت پائی جاتی ہے جو خوارج میں بھی نہیں پائی جاتی۔علامہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ ’’ المقالات ‘‘ میں فرماتے ہیں : 

’’یہ حکایت اہل سنت والجماعت ‘اہل حدیث کی ہے۔جس مجمل عقیدہ پر اصحاب الحدیث اور اہل سنت والجماعت قائم ہیں ‘ وہ : اللہ تعالیٰ کا ‘ اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اقرار ہے اور جوکچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس پر ایمان ہے۔ اور جو خبریں ثقہ راویوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہیں ‘ان کو رد نہیں کرتے ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اکیلا معبود برحق ہے ؛ وہ اکیلا یکتا اور بے نیاز ہے؛ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں ۔ اور یہ کہ جنت حق ہے ‘ اور جہنم حق ہے ۔ اور قیامت آنے والی ہے ‘ اس میں کوئی شک نہیں ۔‘ اوربیشک اللہ تعالیٰ قبروں میں پڑے ہوؤں کو دوبارہ اٹھائیں گے۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ [طہ ۵] ’’رحمن نے اپنے عرش پر قرار پکڑا ہے ۔‘‘

اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں ؛ جن کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿خَلَقْتُ بِیَدَيَّ﴾ [ص ۷۵] ’’ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ۔‘‘ 

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ﴾ (المائدۃ ۶۳) ’’ بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ۔‘‘

اور پھر آخرتک پورا کلام کیا ہے ۔‘‘

[اعتراض]: اگر کوئی کہے : جدا ہونے سے رافضی مصنف کی مراد یہ ہے کہ وہ اپنے دار کے علاوہ باقی تمام دار کے لوگوں کو کافر کہتے ہیں ۔ جیسا کہ کئی ایک شیعہ مشائخ نے فتوی دیا ہے کہ جب دار ایسا ہو جس میں ناصبیوں کا مذہب غالب اور ظاہر ہوجیسے : موزوں پر مسح کرنا ؛ جوس پینے کوحلال سمجھنا ؛ متعہ کو حرام سمجھنا ؛ تو ایسا دار دار کفر ہے ۔ یہاں کی مائع چیزوں پر نجاست کا حکم لگایا جائے گا۔اور طائفہ حقہ۔یعنی امامیہ ۔ کا مذہب یہاں پر ظاہر ہو؛ تو ان تمام مائع چیزوں کی طہارت کا حکم لگایا جائے گا ۔اور اگر دونوں چیزیں برابر ہوں ؛ تو توقف کیا جائے گا؛ اور دیکھا جائے گا کہ: جو کچھ اپنے گروہ کے لوگوں کے ہاں سے ہو؛ تو اس کی مائع چیزیں پاک ہوں گی۔ اور جو کچھ دوسروں کے ہاں سے ہو ؛ اس پر نجس ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔ ‘‘ 

[جواب]: ان سے کہا جائے گا کہ: اس وصف میں خوارج بھی ان کے ساتھ شریک ہیں ۔ بلکہ خوارج اس بارے میں ان سے زیادہ قوی ہیں ۔ اس لیے کہ خوارج ان کو قتل کرنا حلال سمجھتے ہیں ۔اہل سنت والجماعت کے ساتھ ان کی جنگیں بڑی مشہور ہیں ۔خوارج کے نزدیک ان کے دیار کے علاوہ باقی تمام دیار دیار کفر ہیں ۔ان میں سے بعض نے تکفیر عام میںاختلاف کیا ہے ۔ جیسے بعض امامیہ نے بھی عام تکفیر میں اختلاف کیا ہے ۔ اصل تکفیر میں یہ دونوں ایک دوسرے کے موافق ہیں ۔رہا تلوار کے استعمال کا مسئلہ ؛ تو زیدیہ اسے جائز سمجھتے ہیں ۔ اور امامیہ اسے جائز نہیں سمجھتے ۔علامہ اشعری فرماتے ہیں :

’’ رافضہ کا خروج کے باطل ہونے اور تلوار کے انکار پر اجماع ہے ‘بھلے انہیں قتل ہی کیوں نہ کردیا جائے۔یہاں تک کہ ان کا امام ظاہر ہوجائے اوروہ انہیں کسی بھی بات کا حکم دے ۔‘‘

میں کہتا ہوں : یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ کفار کے ساتھ جہاد نہیں کرتے ۔اور نہ ہی اہل سنت والجماعت حکمرانوں کی قیادت میں جہاد کرتے ہیں ؛ سوائے اس حکمران کے زیر سایہ قتال کرتے ہیں جو ان کے مذہب پر چلتا ہو۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ اصول عقائد میں مباینہ اور اشتراک رافضہ اور دوسرے فرقوں کے مابین مشترکہ قدر ہے۔

ساتویں وجہ:....ان سے کہا جائے گا: ان کا تمام مذاہب سے جدا ہونا ان کے قول کی صحت سے بڑھ کر اس کے فساد پر دلالت کرتا ہے ۔ اس لیے کہ محض کسی گروہ کا دوسرے گروہوں سے جدا ہونا ان کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اور کسی قول میں ان کا مشترک ہونا بھی ان کے باطل ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔

[تہتر فرقے؟]:

[اعتراض]: ....اگر کوئی کہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے تہتر فرقے بتائے ہیں ۔یہ تمام فرقے جہنمی ہوں گے سوائے ایک فرقہ کے۔تو یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ اس ایک فرقہ کا باقی تمام بہتر فرقوں سے جدا ہونا ضروری ہے ۔ 

[جواب]:....ہم کہتے ہیں : ہاں ؛ ایسے ہی یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ وہ بہتر فرقے آپس میں ایک دوسرے سے جدا ہوں ۔ جیسے ایک ناجی فرقہ ان سے جدا ہوگا۔ اس حدیث میں کہیں بھی یہ دلالت نہیں ہے کہ یہ بہتر فرقے اصول و عقائد میں مشترک ہوں گے۔ بلکہ ظاہر حدیث دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام تہتر فرقے ایک دوسرے سے جداجدا ہوں گے۔یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ آپس میں افتراق و تفرقہ قابل مذمت ہے ؛ قابل مدح نہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یک جا ہونے اور جماعت بندی کرنے کا حکم دیا ہے ‘ اور فرقہ بندی کی مذمت کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ﴾ [آل عمران۱۰۳]

’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہواور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo﴾ [آل عمران۱۰۵۔۱۰۶]

’’ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا ان لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ؛سیاہ چہروںوالوں (سے کہا جائے گا ) کہ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

’’ جن لوگوں کے چہرے سفید ہوں گے وہ اہل سنت والجماعت ہیں ۔اور جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے وہ اہل بدعت اور فرقہ پرست لوگ ہیں ۔‘‘[ الدر المنثور:۲؍۶۳]

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَمُ وَکَانُوْ اشِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْئٍ ﴾ [الانعام: ۱۵۹]

’’بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیّٖنٰتُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ﴾ [البقرۃ ۲۱۳]

’’ صرف ان ہی لوگوں نے جو اسے دیئے گئے تھے، اپنے پاس دلائل آچکنے کے بعد آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیِّنَۃُ ﴾ [البینۃ ۳]

’’ اہل کتاب اپنے پاس ظاہر دلیل آ جانے کے بعد ہی(اختلاف میں پڑ کر)متفرق ہوگئے ۔‘‘

مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہونے والا گروہ جتنا ان سے دور ہوگا وہ بذات خود سب سے زیادہ قابل مذمت ہے اور جو گروہ جماعت کے ساتھ جتنا کم تفرقہ ڈالنے والا ہو‘ وہ حق کے اتنا ہی زیادہ قریب ہوتاہے۔ جب امامیہ فرقہ کے لوگ باقی سارے گروہوں اور جماعتوں سے سب سے زیادہ جدا اور دور ہیں تووہ حق سے بھی اتنے ہی دور ہیں ۔ خصوصاً جب کہ یہ لوگ اپنے اندر بھی امت کے تمام گروہوں سے بڑھ کر داخلی انتشار کا شکار ہیں ۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ: بہتر فرقے تو صرف شیعہ کے اندر موجود ہیں ۔ یہ تعداد تو طوسی سے اس کے بعض ساتھیوں نے نقل کی ہے ۔ طوسی کہا کرتا تھا : شیعہ فرقوں کی تعداد بہتر تک پہنچتی ہے۔ شیعہ عالم نو بختی نے شیعہ فرقوں کی تعداد کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ جبکہ اہل سنت والجماعت اصول دین میں ان کے مابین باقی تمام گروہوں کی نسبت سب سے کم اختلاف پایا جاتا ہے ۔وہ ہر فرقہ کی نسبت حق سے زیادہ قریب تر ہیں ۔ اہل کلام کی اصطلاح میں یہی لوگ متوسط امت ہیں ۔جیسا کہ اہل اسلام باقی تمام مذاہب کے مابین متوسط ملت ہیں ۔ اہل سنت والجماعت صفات باری تعالیٰ کے باب میں اہل تعطیل اور اہل تمثیل کے مابین متوسط طبقہ ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ بہترین کام متوسط درجہ کے ہیں ۔‘‘

اس لحاظ سے اہل سنت والجماعت باقی تمام فرقوں کی نسبت بہترین فرقہ ہیں ۔ تقدیر کے باب میں بھی اہل سنت و الجماعت جبریہ اور قدریہ کے درمیان میں ہیں ۔ اسماء اور احکام کے باب میں بھی اہل سنت والجماعت وعیدیہ اور مرجئہ کےدرمیان میں ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باب میں بھی غالی اور جافی [جفاکرنے والے ] کے درمیان میں ہیں ۔ نہ ہی صحابہ کرام کی شان میں غلو کرتے ہیں جیسے رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلوکرتے ہیں [ان کے بعض لوگ حضرت علی کو رب مانتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ آپ نبی تھے ] اور نہ ہی خوارج کی طرح آپ کو کافر کہتے ہیں ۔ایسے ہی حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے باب میں بھی خوارج اور روافض کے درمیان میں ہیں ۔ نہ ہی خوارج کی طرح حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کو کافر کہتے ہیں او رنہ ہی روافض کی طرح حضرت ابو بکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کو کافر کہتے ہیں ۔

[رافضیت کی ابتداء]:

آٹھویں وجہ :....ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ : شیعہ کا کوئی ایک قول بھی ایسا نہیں ہے جس پر ان تمام کا اتفاق ہوا ہو۔ شیعہ مصنف نے جو قول ذکر کیا ہے وہ امامیہ شیعہ کا قول ہے۔پھر امامیہ میں بھی ایسے گروہ ہیں جو ان سے توحیداورعدل میں اختلاف رکھتے ہیں ۔جیسا کہ اس سے پہلے انکے بارے میں بیان ہوچکا۔ جمہور شیعہ بارہ اماموں کے بارے میں امامیہ اثنی عشریہ کے خلاف ہیں ۔ پس زیدیہ ؛ اسماعیلیہ اور کچھ دوسرے گروہ بارہ ائمہ کی امامت کے منکر ہونے پر متفق ہیں ۔

٭ لوگوں کے عقائد پر لکھنے والے علماء فرماتے ہیں : ’’ شیعہ تین قسم کے ہیں : انہیں شیعہ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ لوگ [اپنے تئیں ] حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیروکار ہیں ‘ اور آپ کو باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ترجیح دیتے ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ غالیہ کہلاتا ہے ۔ ان کا یہ نام اس وجہ سے رکھاگیا ہے کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرتے ہیں اور ان کے بارے میں بہت ہی غلط قسم کے عقائد رکھتے ہیں ۔ ان میں سے بعض لوگ آپ کو رب مانتے اور بعض نبی مانتے ہیں ۔ پھر ان کی بھی کئی ایک اقسام ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ نصیریہ کا ہے ۔ اور شیعہ کا دوسرا گروہ رافضہ کا ہے۔

علامہ اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ان میں سے ایک گروہ کا نام رافضی پڑ گیا ؛ اس لیے کہ یہ لوگ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت و امامت کا انکار کرتے تھے ۔‘‘ [المقالات ۱؍ ۶۵]

میں کہتا ہوں : صحیح یہ ہے : ان کا نام رافضی اس وقت پڑا جب انہوں نے حضرت زید بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہم کا ساتھ اس وقت چھوڑ دیا جب آپ نے خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے دور میں کوفہ میں خروج کیا تھا۔ امام اشعری نے یہ بھی ذکر کیا ہے ؛ او ردوسرے علماء نے بھی ذکر کیا ہے۔ [المقالات ۱؍ ۱۲۹]

کہتے ہیں کہ : [شیعہ کے ایک گروہ کانام]زیدیہ اس وجہ سے پڑگیا کہ انہوں نے حضرت زید بن علی رحمہ اللہ کی بات کو پکڑے رکھا۔ ہشام بن عبد الملک کے ایام حکومت میں کوفہ میں حضرت زید رحمہ اللہ کی بیعت کی گئی تھی۔ اس وقت کوفہ کا امیر یوسف بن عمر ثقفی تھا۔ حضرت زید رحمہ اللہ [اپنے پردادا ]علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو باقی تمام صحابہ پر فضیلت دیتے تھے ؛ مگر حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے تھے۔ آپ ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو جائز سمجھتے تھے۔ جب کوفہ میںآپ کا ظہور ہوا تو آپ کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ کی بیعت کی ۔آپ نے ان میں سے بعض سے سنا وہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر طعن و تشنیع کررہے تھے ۔ آپ نے ان کلمات کا انکار کیا [او رایسا کہنے سے منع کیا]۔تو جن لوگوں نے آپ کی بیعت کی تھی [ان میں سے کچھ لوگ] آپ کو چھوڑ کر چلے گئے ۔ آپ نے ان سے پوچھا : کیا تم نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ؟ وہ کہنے لگے : ہاں ؛

پس اسی وجہ سے ان کا نام رافضی [ساتھ چھوڑنے والے] پڑ گیا۔ کیونکہ حضرت زید بن علی رحمہ اللہ نے ان سے کیا تھا’’ رفضتمونی‘‘تم نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس وقت آپ کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت باقی رہ گئی جن کی ہمراہی میں آپ نے یوسف بن عمر سے جنگ کی اور آپ کو شہید کردیا گیا ۔ [المقالات ۱؍۸۷] 

کہتے ہیں : رافضہ کا اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کا حکم صراحت کے ساتھ دیا تھا۔ اور آپ کا نام لیکر آپ کو خلیفہ منتخب کیا تھا۔ آپ نے اس کا اظہار و اعلان بھی کیا تھا۔مگر صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی اقتداء ترک کرکے گمراہ ہوگئے ۔اور ان کا کہنا یہ ہے کہ : امامت نص اور وحی کے بغیر منعقد نہیں ہوسکتی۔ اور امامت حق قرابت بھی ہے۔ اور امام کے لیے جائز ہے کہ وہ تقیہ کرتے ہوئے کہے کہ وہ امام نہیں ہے ۔انہوں نے احکام میں تمام اجتہاد کو باطل قرار دیا ہے ۔ ان کا ایمان ہے کہ امام صرف وہی ہوسکتا ہے جو لوگوں میں سب سے افضل ہو۔ ان کا خیال ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر حال میں حق پر تھے۔ اور اموردین میں کبھی بھی آپ سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔سوائے شیعہ میں سے کاملیہ فرقہ کے۔ کاملیہ فرقہ والے تمام لوگوں کوکافر کہتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اتباع نہیں کی ۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر کہتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے اپنے لیے خلافت کا مطالبہ نہیں کیا ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ : ظالم حکمران کے خلاف بغاوت کرنا جائزنہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ : امام منصوص کے علاوہ کسی کے لیے خروج جائز نہیں ۔امامیہ شیعہ کاملیہ کے علاوہ چوبیس فرقے ہیں ۔یہ لوگ اپنے آپ کو امامیہ بھی اس وجہ سے کہلاتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ منصوص علیہ امام تھے ۔

[رافضی فرقے اور ان کے عقائد ]:

[پہلا فرقہ ]:....ان میں سے پہلا فرقہ قطعیہ ہے ۔ انہیں قطعیہ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ : ان لوگوں کا پکا اور قطعی عقیدہ ہے کہ حضرت موسی بن جعفر بن محمد رحمہ اللہ انتقال کرچکے ہیں ۔انکا اور جمہور شیعہ کا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت و صراحت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوامام اور خلیفہ منتخب کیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا۔ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد اپنے لخت جگر علی بن حسین کو ‘ علی بن حسین نے اپنے بیٹے ابو جعفر محمد کو ؛ اور محمد نے اپنے بیٹے جعفر بن محمد کو ؛ جعفر نے اپنے بیٹے موسی کو ؛ اور موسی نے اپنے بیٹے علی کو ‘ علی نے اپنے بیٹے محمد بن علی کو ؛ محمد بن علی نے اپنے بیٹے علی بن محمد کو ؛ اور علی بن محمد نے اپنے بیٹے حسن کو خلیفہ اور امام مقرر کیاتھا ۔ حسن بن علی نے اپنے بعد اپنے بیٹے محمد بن حسن کوامام مقرر کیا تھا ۔یہ وہی محمد بن حسن عسکری ہے جو کہ ان لوگوں کے عقیدہ کے مطابق غائب ہوگیا۔ اور ابھی تک ظاہر نہیں ہوا ؛ یہ لوگ اس کے انتظار میں ہیں ۔ اور جب یہ امام ظاہر ہوگا تو زمین کو ایسے عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ [المقالات ۱؍ ۸۹]

[دوسرا فرقہ]:....ان کا دوسرا فرقہ کیسانیہ ہے ۔ پھر کیسانیہ کے بھی گیارہ فرقے ہیں ۔ ان کا نام کیسانیہ اس وجہ سے پڑا ہے کہ مختار بن ابو عبیدثقفی جس نے خون حسین رضی اللہ عنہ کامطالبہ کیا تھا؛ اور[شروع میں ] لوگوں کو حضرت محمد بن علی [محمد بن حنفیہ ] کی بیعت کرنے کی دعوت دیتا تھا[بعد میں خود نبوت کادعوی کر بیٹھا]۔اسے کیسان بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ: یہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام تھا۔ کیسانیہ میں سے ایک گروہ کا دعوی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد محمد بن حنفیہ کو خلیفہ و امام مقرر کیا تھا۔ اس لیے کہ بصرہ میں آپ نے اپنی فوج کا جھنڈا آپ ہی کے سپرد کیا تھا۔

ان میں سے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو امام مقرر کیا تھا۔ [المقالات ۱؍ ۹۰]

ایک گروہ کہتا ہے کہ : محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ رضوی کے پہاڑوں میں زندہ ہیں ۔آپ کے دائیں جانب شیر اور بائیں جانب چیتا ہے جو کہ آپ کی حفاظت کررہے ہیں ۔ اور آپ کے پاس صبح و شام رزق آتا رہے گا یہاں تک کہ آپ خروج کریں ۔ ان کا خیال ہے کہ جس سبب کی وجہ سے آپ اس پہاڑ میں چھپ کرانتظارکررہے ہیں اور خلق کی نظروں سے اوجھل ہیں ؛ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی ایسی تدبیر اور حکمت ہے جسے کوئی دوسرا نہیں جانتا ۔

اس مذہب کے قائلین میں ایک کثیرنامی شاعر بھی ہے؛ جو اس بارے میں کہتا ہے:

ألا إِن الأئِمۃ مِن قریش علِی والثلاثۃ مِن بنِیہِ

فسِبط سِبط إِیمان وبِر وسِبط لا یذوق الموت حتی

تغیَّب لا یُری فِیہِـم زمانا ولاۃ الحقِ أربعۃ سوائٌ

ہم الأسباط لیس بِہِم خفاء وسِبط غیَّبَتْہ کربلا

یقود الخیل یقدمہا اللِواء بِرضوی عِندہ عسل وماء[وردت ہذِہِ الأبیات فِی دِیوانِ کثیِرِ عزۃ، وشرح الدکتور ِحسان عباس [نشر دارِ الثقافۃِ،بیروت، لبنان(۱۹۷۱۔۱۳۹۱) فِی ص:۵۲۱،والأبیات لیست متتالِیۃ فِی القصِیدۃِ المنشورۃِ، وفِیہا بعض الِاختِلافاتِ عنِ النصِ المذکورِ ہنا، وذکر الدکتور ِحسان ص:۵۲۲أن ہذِہِ الأبیات قد أوردہا أبو الفرجِ الأصفہانِیِ فِی الأغانِی: ۷؍۲۳۸، ۲۳۹۔]

یہ بات ظاہر ہے کہ ان لوگوں کایہ عقیدہ بالکل ہی باطل پر مبنی ہے۔ایسے ہی امامت کے بارے میں بھی ان کا عقیدہ باطل ہے۔اس لیے کہ ان[فرقہ کیسانیہ والوں ] کا زندہ اور موجود امام[ محمد بن حنفیہ] کے متعلق دعوی ہے کہ وہ ہمیشہ باقی رہیں گے۔جب کہ امامیہ توایسے امام [منتظر] کے متعلق دعوی کیے بیٹھے ہیں جس کا اصل میں کوئی وجود ہی نہیں ۔

پھرکیسانیہ میں سے ایک فرقہ کا دعوی ہے کہ محمد بن حنفیہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ اور آپ کے بعد آپ کا بیٹا ابو ہاشمعبداللہ امام بنا تھا۔پھر اس گروہ میں سے ایک اور گروہ نکلا ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ: ابو ہاشم نے اپنے بعد اپنے بھائی حسن کو امام بنانے کی وصیت کی تھی۔اور حسن نے اپنے بیٹے علی بن حسن کے لیے وصیت کی تھی۔اور علی کی موت واقعہ ہوئی تو اس نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی ۔ پس اب یہ لوگ محمد بن حنفیہ کے واپس آنے کا انتظار کررہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ محمد بن حنفیہ واپس آئیں گے اور اس زمین کے مالک بنیں گے۔ اس فرقہ کے لوگ آج کل وادی ’’التیہ ‘‘ میں موجود ہیں ۔ [التیہ وہ وادی ہے جہاں بنی اسرائیل چالیس سال تک سرگرداں رہے۔ابن تیمیہ کے دور میں یہ لوگ اس علاقے میں رہتے تھے۔ [مترجم]]

اس وقت ان کا کوئی امام نہیں ہے ‘ یہاں تک کہ محمد بن علی المعروف ابن الحنفیہ واپس آجائیں ۔

ان میں سے ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ : ابو ہاشم کے بعد امام محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس بنا تھا۔ اس لیے کہ امام ابو ہاشم کا شام سے واپسی کے سفر میں راستہ میں انتقال ہوگیا تھا ؛ اس نے مرتے وقت محمد بن علی کے حق میں وصیت کی تھی۔ اور محمد بن علی نے مرتے وقت اپنے بیٹے ابراہیم بن محمد کو امام بنایا تھا۔ اور پھر ابراہیم بن محمد نے اپنے بعد ابو العباس السفاح کے لیے وصیت کی تھی کہ اسے امام بنایا جائے ۔ پھر اس کے بعد خلافت ابو جعفر المنصور کے سپرد ہوئی ۔اور پھر ایسے ہی وصیت کے تحت امامت ان لوگوں میں چلتی رہی۔

٭ پھر ان میں سے بعض لوگوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ۔ ان کایہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت عباس بن عبد الملطلب رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کی وصیت فرمائی تھی؛ اور واضح الفاظ میں اس کا حکم دیا تھا۔ پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد اپنے بیٹے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو امام بنانے کے لیے وصیت کی تھی ۔اور امام عبد اللہ بن عباس نے اپنے بیٹے علی بن عبد اللہ کو امام بنانے کے لیے وصیت کی تھی۔ پھر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا یہاں تک کہ ابو جعفر المنصور تک پہنچ گیا۔شیعہ کا یہ فرقہ راوندیہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔

یہ فرقہ بھی ابو مسلم خراسانی کے مسئلہ میں دو گروہوں میں بٹ گیا۔ان میں سے ایک گروہ کوالرزامیہ کہا جانے لگا ؛ اس فرقے کا بڑا رزام نامی ایک آدمی تھا۔اس گروہ کا کہنا ہے کہ ابو مسلم کو قتل کردیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے:ابو مسلم نہیں مرا۔ یہ لوگ ان چیزوں کو حلال سمجھتے ہیں جسے ان کے اسلاف حلال نہیں سمجھتے تھے۔

کیسانیہ میں سے ایک تیسرے گروہ کا خیال ہے کہ: ابو ہاشم نے اپنے بعد عبد اللہ بن عمرو بن حرب کو امام مقرر کیا تھا۔ او ر ابو ہاشم کی روح اس میں حلول کر گئی تھی۔پھر ان لوگوں نے عبد اللہ بن عمرو کے کچھ جھوٹ پکڑ لیے ؛ اس وجہ سے اسے چھوڑ کر امام کی تلاش میں مدینہ چلے گئے ۔ وہاں پر ان کی ملاقات عبد اللہ بن معاویہ بن عبد اللہ بن جعفر بن ابو طالب سے ہوگئی ۔ اس نے انہیں اپنی اقتداء کرنے کی دعوت دی۔ پس ان لوگوں نے عبد اللہ بن معاویہ کو اپنا امام بنالیا ‘ او راس کے لیے وصی ہونے کا دعوی کرنے لگے۔[المقالات ۱؍ ۹۳] 

پھر ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا کہ : عبد اللہ بن معاویہ کا انتقال ہوگیاہے۔اور دوسرا گروہ کہنے لگا : نہیں ‘ بلکہ وہ دوبارہ اٹھیں گے اورپھر انتقال ہوگا۔ایک گروہ کہتا ہے: یہ وہی مہدی ہے جس کے بارے احادیث مبارکہ میں بشارت دیگئی ہے ۔ اور یہ زندہ ہے اور اصفہان کے پہاڑوں میں روپوش ہے۔

ان میں سے ایک گروہ کہتا ہے : ابو ہاشم نے اپنے بعد بیان بن سمعان کو امام بنانے کی وصیت کی تھی۔ اور دوسرا گروہ کہتا ہے : ایسا نہیں ‘ بلکہ علی بن حسین کو امام بنایا تھا۔یہ ان لوگوں کے عقائد و اقوال ہیں جو محمد بن علی[الحنفیہ ] کو امام مانتے ہیں ۔

پھر رافضیوں میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ : حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے بعد اپنے بیٹے علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو امام بنانے کا حکم دیا تھا۔ پھر ان کے بعد ان کا بیٹا امام بنا؛ ابو جعفر کے دور تک یہی سلسلہ چلتا رہا ۔ ابو جعفر نے اپنے بعد مغیرہ بن سعید کے لیے وصیت کی تھی۔ یہ لوگ مغیرہ بن سعید کو ہی اپنا امام مانتے ہیں یہاں تک امام مہدی کا ظہور ہوجائے۔ اور ان کے عقیدہ کے مطابق امام مہدی محمد بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن ابی طالب ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ مہدی حاجر کے علاقہ میں زندہ موجود ہے۔ اوراس وقت تک وہاں پر مقیم رہے گا جب تک کہ اس کے خروج کا وقت نہ آجائے۔

روافضہ میں سے ایک گروہ کا ایمان ہے کہ : ابو جعفر محمد بن علی کے بعد امام محمد بن عبداللہ بن الحسن بنا تھا ‘جس نے خلیفہ ابو جعفر المنصور کے زمانہ میں مدینہ میں خروج کیا تھا۔ان کا قصہ بڑا مشہور ہے ۔ یہ لوگ مغیرہ بن سعید کو امام نہیں مانتے ۔

رافضیوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ : ابو جعفر المنصور نے ابو منصور کو امام بنانے کے لیے وصیت کی تھی۔ پھر ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں : ابو منصور نے اپنے بیٹے حسین بن ابو منصور کے لیے وصیت کی تھی؛ اور ان میں سے بعض کہتے ہیں : محمد بن عبد اللہ بن الحسن بن الحسین اس کے بعد امام بنے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ : ابو جعفر نے ابو منصور کے لیے وصیت کی تھی ؛ باقی بنی ہاشم کے لیے نہیں ۔جیسے حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی اور حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد کو چھوڑ کر حضرت یو شع بن نون علیہ السلام کے لیے وصیت کی تھی۔ پھر ابومنصور کے بعد امامت ایسے ہی ابو منصور کی اولاد میں واپس چلی گئی جیسے حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں واپس چلی گئی تھی۔

ان میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں : بیشک ابو جعفر نے اپنے بعد اپنے بیٹے جعفر بن محمد کوامام بنانے کا حکم دیا تھا۔ اور یہ جعفر ابھی تک زندہ ہے؛مرا نہیں ؛ اور اس وقت تک مرے گا نہیں جب تک کہ اس کا ظہور نہ ہوجائے ؛ یہی امام القائم مہدی ہے۔

[تیسرا فرقہ :] ....روافض میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہتے ہیں : جعفربن محمد مر گیا ہے ؛ اور اس کے بعد اس کا بیٹا اسماعیل امام بنا ہے۔یہ انکار کرتے ہیں کہ اسماعیل کا انتقال اس کے والد کی زندگی میں نہیں ہوا۔

اس اسماعیل کے متعلق کہتے ہیں : اس کا انتقال اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک زمین میں بادشاہ نہ بن جائے۔ اس لیے کہ اس کے باپ نے بتایا ہے کہ اس کا وصی اور اس کے بعد امام اس کایہی بیٹا اسماعیل ہوگا۔

[چوتھا فرقہ: قرامطہ]:....رافضہ میں سے ایک گروہ قرامطہ کا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جعفر تک امامت منصوص چلتی آئی ہے ۔ جیسا کہ اثنی عشریہ کا عقیدہ ہے ۔اور جعفر نے اپنے بعد اپنے پوتے محمد بن اسماعیل کو اپنا جانشین اور وصی [امام ] بنایا تھا۔ اور ان لوگوں کاعقیدہ ہے کہ محمد بن اسماعیل آج کے دن تک زندہ ہے۔ابھی تک اس کاانتقال نہیں ہوا ۔ اور اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ زمین کا مالک نہ بن جائے ۔ اور یہی وہ مہدی ہے جسکے متعلق احادیث میں بشارت دی گئی ہے۔ اس بارے میں انہوں نے اپنے اسلاف سے نقل کردہ روایات سے استدلال کیا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ : ساتواں امام ہی قائم [یعنی مہدی ]ہوگا ۔ انہیں سبعیہ کہا جاتا ہے۔ جیسے دوسرے فرقہ کو اثنا عشریہ کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے متعلق چوتھی صدی ہجری میں مغرب اور قاہرہ میں انکے غالب آنے سے پہلے عقائد و ملل پر لکھنے والے علماء کرام نے اپنی کتابوں میں تفصیل لکھی ہے۔ اس لیے کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد ان میں ایسی نئی نئی باتیں پیدا ہوگئیں جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں ۔ اس کے بعد ان لوگوں میں وہ الحاد اور زندیقیت پیدا ہوگئی جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی؛ نہ غالی رافضیوں میں نہ دوسروں میں ۔

ان ملحدین کے کچھ بقایا بلاد ِ شام اورخراسان میں موجود تھے۔ابن سینا کے گھروالوں نے حاکم کے زمانے میں ان کی دعوت قبول کرلی تھی۔ یہی حال طوسی اور اس کے اعوان و انصار کا ہے ۔اور یہی حال سنان کا ہے۔

ان کے ذہین و شاطر لوگ اپنی جہالت و جھوٹ کو جانتے ہیں ۔ لیکن ان لوگوں کی خدمت گزاری کی وجہ سے انہیں وہ مقام و مرتبہ اور مال ملتا ہے اور اسباب شہوت میسر ہوتے ہیں ؛ جو اس کے بغیر ناممکن ہیں ۔یہ لو گ اپنے ان ماننے والوں کے ساتھ بھی ایسے ہی تعاون کرتے ہیں جیسے اپنے جیسے دوسرے جھوٹوں اور ظالموں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تاکہ اپنا مطلب پورا کرسکیں ۔

رافضہ میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہتے ہیں : امامت کا سلسلہ محمد بن اسماعیل کی اولاد میں جاری و ساری ہے ۔

دوسرا گروہ کہتا ہے : امامت کا سلسلہ محمد بن جعفر بن محمد کی اولاد میں جاری وساری ہے؛ محمد بن اسماعیل کی اولاد میں نہیں اور نہ ہی موسی بن جعفر کی اولاد میں ۔

تیسرا گروہ کہتا ہے : امامت کا سلسلہ عبداللہ بن جعفر کی اولاد میں جاری وساری ہے ۔ یہ عبد اللہ اپنے باپ کا بڑا بیٹا تھا۔ اس فرقہ والوں کو فطیحہ کہا جاتا ہے۔

[پانچواں فرقہ : ممطورہ]:....روافض میں سے ایک گروہ ایسا ہے جوکہ موسی بن جعفر بن محمد کو ان کے والد کے بعد امام مانتا ہے۔لیکن ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ : موسی بن جعفر کا انتقال نہیں ہوا ؛ بلکہ وہ زندہ ہے؛ اس وقت تک اس کا انتقال نہیں ہوگا جب تک وہ مشرق و مغرب کا بادشاہ نہ بن جائے۔ اس گروہ کانام واقفہ ہے۔کیونکہ یہ لوگ موسی بن جعفر تک پہنچ کر رک جاتے ہیں ۔اسے آگے کسی کو امام نہیں مانتے ۔ ان کو ممطورہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جب یونس بن عبد الرحمن نے ان کے ساتھ مناظرہ کیا تھا؛توانہوں نے دوران مناظرہ ان سے کہا تھا : ’’ أنتم أہون علي من کلاب ممطورۃ‘‘

’’تم میرے نزدیک بارش میں بھیگے کتے سے بھی بڑھ کر گندے اور ذلیل ہو۔‘‘

اس کے بعد ان لوگوں کا یہی لقب پڑ گیا۔

[چھٹا فرقہ :وقفیہ ]: ....ان میں سے بعض لوگ جو موسی بن جعفر کے بارے میں توقف کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :ہمیں پتہ نہیں کہ موسی بن جعفر کا انتقال ہوا ہے یا نہیں ؟

[ساتواں فرقہ :] ....اور ایک گروہ کہتا ہے : موسی بن جعفر نے اپنے بیٹے احمد کو امام مقرر کیا تھا۔

[آٹھواں فرقہ: اثنا عشریہ]:....اثنا عشریہ رافضہ کا ایک اور گروہ بھی ہے : وہ کہتے ہیں : اس کے بعد محمد بن حسن [العسکری ] امام بنے تھے ؛ جن کا انتظار کیا جارہا ہے ۔ یہی وہ آخری امام ہے جس کا ظہور ہوگا‘ اوروہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اورظلم کاخاتمہ کردے گا۔ اس گروہ کو اثنا عشریہ [بارہ اماموں کے ماننے والے ] کہا جاتا ہے۔

یہ رافضیوں کا آپس میں اختلاف ہے جن کا دعوی ہے کہ خلافت وامامت نص سے ثابت ہے۔امت کے تمام گروہوں سے بڑھ کر ان لوگوں کا آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں یہ بات ہر گز نہیں ہوسکتی کہ رافضی وہ نجات پانے والا گروہ ہوں جس کے متعلق حدیث میں بشارت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ نجات یافتہ گروہ کو کم از کم اصول دین اور عقائد میں متفق ہونا چاہیے؛ جیسے اہل سنت و الجماعت اصول دین میں متفق ہیں ۔

امامیہ اثنا عشریہ کہتے ہیں : اصول دین چار ہیں : توحید؛ عدل ؛ نبوت ؛ اور امامت ۔ ان کا توحید ؛ عدل اور امامت کے مسئلہ میں آپس میں [بہت زیادہ ] اختلاف پایا جاتا ہے۔نبوت کے بارے میں یہ لوگ بھی ایسے ہی اقرار کرتے ہیں جیسے باقی ساری امت کے لوگ اس کا اقرار کرتے ہیں ۔ جب کہ امامت کے بارے میں ان کا اختلاف ساری امت کے اختلافات سے بڑا اور سخت ہے۔اگر اثنا عشریہ یہ کہیں کہ : ہم ان تمام لوگوں سے زیادہ ہیں اس لیے حق صرف ہمارے ساتھ ہے ‘ دوسروں کے ساتھ نہیں ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ : اہل سنت والجماعت تعداد میں تم لوگوں سے زیادہ ہیں ۔تو حق بھی ان کے ساتھ ہے تمہارے ساتھ نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ تمہارے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمہارے باقی فرقوں کے ساتھ تمہارا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے باقی مسلمانوں کا تمہارے ساتھ۔ اور اسلام ہی وہ دین حق ہے جو لوگوں کو حق پر جمع کرتا ہے ۔ [شیعہ کی دیگر اسلامی فرقوں سے علیحدگی ان کے عقائد کی صحت کی بجائے ان کے افکار و معتقدات کے فساد و بطلان پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ دیگر فرق و طوائف میں سے کسی فرقہ کی انفرادیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ راہ حق پر گامزن ہیں ]۔