Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....شیعہ اور یقین نجات

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....شیعہ اور یقین نجات

[اشکال ]:....شیعہ مصنف لکھتا ہے:فرقہ امامیہ کے نجات یافتہ ہونے کی تیسری دلیل :’’یہ کہ انہیں اپنی اور اپنے ائمہ کی نجات کا قطعی یقین ہے۔اوراپنے مخالفین کے لیے اس کے برعکس کا یقین جازم رکھتے ہیں ۔بخلاف ازیں اہل سنت میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔وہ پختہ یقین کے ساتھ اپنی یا دوسروں کی نجات کا عقیدہ نہیں رکھتے۔ لہٰذا ان [امامیہ]کی اطاعت اولیٰ ہے ۔[اس کی مثال یہ ہے ]فرض کریں کہ دو شخص بغداد سے نکلے جو کوفہ جانا چاہتے تھے ۔انہوں نے آگے دو راستے دیکھے ؛ ان میں سے ہر ایک ایک راستے پر چل پڑا۔پھر ایک تیسرا آدمی آیا وہ بھی کوفہ جانا چاہتا تھا۔اس نے اندونوں میں سے ایک سے پوچھا : تم کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا : کوفہ ۔ پھر پوچھا : کیا تمہارا یہ راستہ تمہیں کوفہ پہنچادے گا؛ اور کیا یہ راستہ پر امن ہے؟ ۔اور کیا تمہارے ساتھی کا راستہ اسے اس کی منزل تک پہنچادے گا؟ اور کیا اس کا راستہ پر امن ہے ؟ ۔ تواس نے کہا : میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ۔پھر اس کے دوسرے ساتھی سے یہی سوال کیے۔ اس نے جواب میں کہا : مجھے علم ہے میرا یہ راستہ مجھے کوفہ تک پہنچائے گا۔ اور یہ راستہ پر امن ہے۔ اور مجھے علم ہے کہ میرے ساتھی کا راستہ اسے کوفہ تک نہیں پہنچائے گا۔اب یہ تیسرا انسان اگر اس کے باوجود پہلے ساتھی کی اتباع کرے گا تو اہل عقل و دانش اسے بیوقوف کہیں گے۔اور اگر اس نے دوسرے ساتھی کی راہ اختیار کی تو اس نے یقین و جزم کی راہ اختیار کی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب] : اس اعتراض و اشکال کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتاہے : 

پہلی وجہ :....ہم کہتے ہیں :اگر ان آئمہ کی پیروی حق و صواب ہے جن کی اطاعت کا دم تم بھرتے اور اس کو موجب نجات تصور کرتے ہو تو پھر اموی خلفاء کے اتباع جو اپنے آئمہ کی اطاعت کو واجب اور موجب نجات سمجھتے تھے حامل صدق و صواب تھے ۔پھر یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں پرجو طعن وتشنیع کرتے تھے؛ اور شیعان علی اور دوسرے لوگوں سے انہوں نے جو جنگیں لڑیں ان میں وہ حق پر تھے۔اس لیے کہ ان کا نکتہ نگاہ یہ تھا کہ ہر بات میں ائمہ کی اطاعت واجب ہے۔ نیز یہ کہ ائمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں احتساب سے بالا ہیں ۔ اور جو کام وہ اطاعت امام میں انجام دیں ، اس میں ان پر کوئی گناہ نہیں ۔ بلکہ دلیل کے اعتبار سے ان کا مسلک شیعہ کی نسبت قوی تر تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان ائمہ کی پیروی کرتے تھے جن کو اللہتعالیٰ نے مقرر و موید کیا، اور حکومت و سلطنت سے نوازا تھا۔ جب کہ منکرین تقدیر (جن میں شیعہ بھی شامل ہیں ) کا نظریہ یہ ہے کہ اللہتعالیٰ وہی کام کرتے ہیں جن میں بندوں کی کوئی مصلحت مضمر ہوتی ہے۔ تو ان کو سلطنت و حکومت و تفویض کرنے میں بھی بندوں کی مصلحت ملحوظ رکھی ہوگی۔ یہ امر محتاج بیان نہیں کہ اموی خلفاء سے امت کو جو فوائد حاصل ہوئے وہ ان مصالح کی نسبت عظیم تر تھے جو ایک عاجز و معدوم امام (یعنی امام غائب) کے ذریعہ معرض ظہور میں آئے۔ بنا بریں اموی خلفاء کے متبعین کو جو دینی و دنیوی فوائد حاصل ہوئے امام منتظر کے اتباع کو اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہوا۔شیعہ کا کوئی امام ایسا نہ تھا جو انہیں نیکی کا حکم دیتا، منکرات سے باز رکھتا اور دینی و دنیوی مصالح میں ان کی مدد کرتا۔ اس کے عین بر خلاف اموی خلفاء کے اتباع نے ان سے لا تعداد دینی و دنیوی فوائد و منافع حاصل کیے۔

خلاصہ کلام ! اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ان نام نہاد معاونین کی دلیل قرین صحت و صواب ہے توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انصار و اعوان کی دلیل اقرب الی الصواب ہوگی۔ اور اگر پہلی دلیل باطل ہے تو دوسری اس سے باطل تر ہے۔ جب شیعہ اس بات میں اہل سنت کے ہم نوا ہیں کہ اموی خلفاء کی مطلق اطاعت میں نجات پر یقین کامل رکھنا خطا اور گمراہی ہے تو ائمہ معصومین اور ان کے نائبین کی اطاعت مطلقہ میں یقینی نجات اور ان کی اطاعت مطلقہ کا عقیدہ سابق الذکر ضلالت سے بھی عظیم تر گمراہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کا سرے سے کوئی امام ہے ہی نہیں ، ماسوا ان شیوخ کے جو ناجائز ذرائع سے ان کا مال بٹورتے اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۔

دوسری وجہ :....مصنف کی ذکر کردہ مثال اس وقت صحیح مطابقت رکھے گی جب دو مقدمات صحیح ثابت ہوجائیں :

پہلا مقدمہ:....امام معصوم کا اثبات ۔

دوسرا مقدمہ :....امام کے امر و نہی کا اثبات ۔

یہ دونوں مقدمات نامعلوم ہی نہیں بلکہ باطل ہیں ۔ پہلے مقدمہ کو چھوڑیے ۔دوسرے مقدمہ میں : جن لوگوں کی عصمت کا دعوی کیا جاتا ہے ؛ صدیوں سے ان کا انتقال ہوچکا ہے ۔ [امامیہ کے ہاں ]امام منتظر بھی صدیوں سے غار میں غائب ہوچکا ہے۔ جب کہ دوسرے لوگوں کے نزدیک یہ امام اصل میں معدوم ہے [اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ]۔اور جو لوگ ان رافضی شیوخ کی اتباع کرتے ہیں ‘ یا ان کتابوں کے مطابق چلتے ہیں جو بعض رافضی شیوخ نے لکھی ہیں ؛ جن کتابوں میں انہوں نے لکھاہے کہ یہ روایات ائمہ معصومین سے منقول ہیں ؛ تویہ حقیقت ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین رافضی شیوخ بالاتفاق معصوم نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی ان کی نجات کے بارے میں قطعی طور پر یقین کے ساتھ کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ پس اس بنا پر ثابت ہوگیا کہ رافضہ ان لوگوں کی اتباع نہیں کرتے جن کی نجات و سعادت کے بارے میں انہیں قطعی یقین ہے ۔اورنہ ہی اپنی نجات کے بارے میں یقین ہوسکتا ہے ۔اورنہ ہی ان آئمہ کی نجات کے بارے میں انہیں کوئی یقین ہے جو براہ راست امر و نہی کا کام کرتے ہیں ۔حالانکہ وہ ان کے آئمہ ہیں ۔ان لوگوں کا اپنے آئمہ کی طرف منسوب ہونے میں وہی حال ہے جو بہت سارے ان لوگوں کا حال ہے جو خود کو مرے ہوئے مشائخ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا کہ ان شیوخ نے کس چیز کا حکم دیا ہے اور کس چیز سے منع کیا ہے ۔بلکہ ان شیوخ کے ایسے اتباع کار ہیں جو لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں ۔اور لوگوں کواللہ کی سیدھی راہ سے روکتے ہیں ۔ اور انہیں ان مشائخ اور ان کے خلفاء کی شان میں غلو کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں اپنا رب بنالیتے ہیں ۔ جیسے شیعہ شیوخ اپنے پیروکاروں کو حکم دیتے ہیں ۔اور جیسے عیسائی علماء اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے ہیں ۔ یہ لوگ عوام کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کاحکم دیتے ہیں ۔اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۔اس بنا پر وہ ’’لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘کلمہ توحید کی حقیقت سے خارج ہوجاتے ہیں ۔اس لیے کہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے ؛ اللہ کے سواکسی کو نہ پکارا جائے ؛ اس کے علاوہ کسی کاخوف نہ رکھا جائے؛ اس کے علاوہ کسی سے نہ ڈراجائے ؛ اس کے علاوہ کسی پر توکل نہ کیا جائے ؛ اور دین کو صرف اس کے لیے خالص مانا جائے ؛ اس میں کسی مخلوق کے لیے حصہ نہ بنایا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر فرشتوں اور انبیاء کو رب نہ بنانا چاہیے ۔توپھر یہ امور ائمہ ‘شیوخ ‘علماء اور بادشاہوں سے کیونکر روا ہوسکتے ہیں ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے امر و نہی پہنچانے کاواسطہ ہے۔پس اللہ تعالیٰ کے علاوہ مخلوق میں سے کسی ایک کی بھی مطلق اطاعت نہیں کی جاسکتی۔جب امام یا شیخ کو الہ و معبود بنالیا جائے کہ اسے اس کیعدم موجودگی میں یا موت کے بعد پکارا جائے ‘ اور اس سے مدد مانگی جائے؛ اس سے اپنی حاجات طلب کی جائیں ؛[تو یہ کہاں کی توحید اور کیسادین ہے ؟]

یہ لوگ تو اپنے ائمہ کی اس طرح اطاعت کرتے ہیں انہیں جو مرضی میں آئے اس کا حکم دیتے ہیں اور جس چیزسے چاہتے ہیں روک دیتے ہیں ۔ گویا کہ یہ لوگ اپنے مردہ ائمہ کو اللہ تعالیٰ سے تشبیہ دیتے ہیں ؛ اور زندوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ اس بناپر یہ لوگ ’لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘کلمہ توحید کی حقیقت سے خارج ہوجاتے ہیں ۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اوراس کے سوا کسی کو نہ پکاریں اور نہ ہی کسی کا ڈرمحسوس کریں ؛ اور نہ ہی کسی کا خوف اس کے علاوہ ہو۔ اور صرف اسی پر بھروسہ کیا جائے۔ اور دین کو صرف اس کے لیے خالص کیا جائے کسی مخلوق کے لیے نہیں ۔ اور یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انبیائے کرام علیہم السلام یا ملائکہ کو اپنا رب نہ بنائیں ؛ کجا کہ ائمہ اور مشائخ اور علماء اور بادشاہوں اور دیگر کو اپنا رب بناتے پھریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم تک اس کے امر و نہی پہنچا دیے تھے۔ پس اب مخلوق میں سے کسی کی مطلق اطاعت نہیں ہوگی۔ اب اگر کسی شیخ کو یوں بنا لیا جائے گویا کہ وہ معبود ہو ؛ اور اسے ہی غائبانہ طور پر یا اس کی موت کے بعد پکارا جائے۔مشکل میں اسے دہائی دی جائے؛ اور اس سے مدد طلب کی جائے؛ اور اپنی ضروریات کے لیے اسے پکارا جائے۔[تو ایسا کرنا ہر گز جائز نہیں ؛ بلکہ یہ کام حرام اور شرک ہیں ۔]بیشک اطاعت اس شخص کی کی جاسکتی ہے جو زندہ حاضر ہو؛ جیسے مرضی حکم دے؛ اور جس چیز سے چاہے منع کرے؛ تو یہ میّت گویا کہ اللہ تعالیٰ کے مشابہ [بنالیا گیا]ہے؛ اور زندہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ۔ پس اس طرح یہ لوگ اسلام کی اس حقیقت سے نکل جاتے ہیں جس کی اصل لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی گواہی اور اقرار ہے۔ 

پھر ان میں سے بہت سارے لوگ اپنے مشائخ سے نقل کردہ حکایات سے چمٹے رہتے ہیں ؛ ان حکایات میں سے اکثر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہیں ۔اور بعض میں غلطی ہوتی ہے۔ پس یہ رسول معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول سچی احادیث کو چھوڑ کر جھوٹی اور غیر معصوم ائمہ کی طرف منسوب کہانیوں اور کہاوتوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔

اگر ان زندہ مشائخ کے پیروکاروں میں سے ایک گمراہ اپنے فوت شدگان مشائخ کی شان میں غلو کرنے کی وجہ سے ان کی قطعی اور دو ٹوک نجات کا یقین رکھنے میں غلطی پر ہے تو شیعہ کی یہی غلطی اس سے کئی گنا بڑی اور خطرناک ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ شیعہ کا طریقہ کار درست ہے ؛ اس لیے کہ انہیں اپنی نجات کا قطعی یقین ہے۔ تو پھر مشائخہ کا طریقہ کار بھی حق ہے ؛ وہ بھی اپنی نجات کے بارے میں قطعی یقین رکھتے ہیں ۔

تو پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ : یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کاشمار ان انبیاء کرام میں ہوتا ہے جو شراب پیتے تھے ؛ اور اس کے لیے شراب حلال تھی؛ اس لیے کہ بعض انبیاء کرام نے بھی شراب پی ہے۔اور یزید بھی ان ہی میں سے ایک ہے ۔اور یہ طریق کار درست اور حق ہے۔اوریزید بھی نبی تھا۔اور جو کوئی نبی کے خلاف خروج کرے وہ کافر ہے ۔ توپھر اس سےحضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کفر لازم آتا ہے۔اور اس بنا پر ان لوگوں کے قول کی صحت بھی لازم آتی ہے جو کہتے ہیں : ہر وہ رزق جو میرا شیخ مجھے نہ دے مجھے اس رزق کی کوئی چاہت نہیں ۔اور ان لوگوں کی بات بھی درست ثابت ہوگی جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ اتر کر زمین پر آتے ہیں ؛ اور ہر مسجدمیں اللہ تعالیٰ نے اپنا پاؤں رکھا ہے۔اور پھر وہ لوگ بھی صحیح کہتے ہوں گے : جن کا عقیدہ ہے کہ ان کے شیخ نے انہیں نمازیں معاف کردی ہیں ۔ان کے علاوہ بھی کفرو گمراہی پر مشتمل کئی ایک باتیں ایسی ہیں جو ان مشائخ کے پیروکاروں نے اپنے ماننے والوں میں پھیلا رکھی ہیں ۔ [حالانکہ یہ ساری باتیں غلط اور اسلامی عقیدہ کے خلاف ہیں ]۔

ان میں سے بہت سارے لوگوں کو اپنے ائمہ و مشائخ کی سعادت و نجات کا پختہ یقین ہے ۔ ان میں سب سے زیادہ بلا جھجھک اور بغیر روک ٹوک یہ یقین ظاہر کرنے والے اثنا عشری ہیں ۔جو اپنے ائمہ اور ان کے متبعین کی نجات کاپختہ یقین رکھتے ہیں ۔اگریہ جو کچھ ذکر کیا گیا ہے ‘ اس کا شمار بھی اپنی نجات کے پکا یقین رکھنے میں واجب ہے؛ تو پھر ان دوسرے لوگوں [فرقہ مشائخہ ]کی اتباع بھی واجب ہوتی ہے۔ جب ان کی اتباع واجب ہوگی تو اس سے پھر شیعہ عقیدہ پر قدح اوران کے عقیدہ کو باطل سمجھنا بھی واجب ہوگا۔ اور اگر یہ طریقہ درست نہیں ہے تو پھر شیعہ کی دلیل خود بخود باطل ہوجائے گی۔[[[ہم اہل سنت والجماعت معتدل امت ہیں ۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ راہ حق ہے ؛ اور اس راہ پر چلنے میں کامیابی یقینی ہے ۔ مگر متعین اشخاص و افراد کے متعلق بھلے وہ امام و علماء ہی کیوں نہ ہوں ‘ یہ دوٹوک طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہر حال میں نجات یافتہ ہیں ۔بلکہ ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے بارے میں نجات کی امید رکھتے ہیں ‘ اور ان کی بخشش کے لیے دعا کرتے ہیں اورایسے ہی اپنی ذات کے متعلق دوٹوک طور پر نہیں کہہ سکتے کہ ہم ہر حال میں جنت میں ہی جائیں گے ؛ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لے ‘ اوروہ مہربان ذات ہماری مغفرت کردے ۔ہمارے ہاں نجات کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بعد توحید کی پابندی اور اعمال صالحہ کی بجا آوری ضروری ہے ۔ جب کہ شیعہ مشائخہ کے ہاں فقط نسبت کام آسکتی ہے۔ اور ان کے مشائخ ہر حال میں مغفور وبخشے ہوئے ہیں ]]۔[دراوی جی]]

اس لئے ان دونوں فریقوں سے کہا جائے گاکہ: اگر اپنی نجات کا پختہ یقین رکھنے والوں کا طریقہ کار ان لوگوں کی راہ کی نسبت اتباع کا زیادہ حق دار ہے جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ؛ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے میں ان اہل علم و دین کی اتباع کرتے ہیں جو انہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں ؛ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کسی معین شخص کی اطاعت کو واجب نہیں سمجھتے ۔اور سعادت و نجات کی ضمانت صرف ان لوگوں کے لیے دیتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں ۔اور کہتے ہیں : ان کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور درستگی بھی ۔ پس ان کی اطاعت مطلقاً نہیں کی جائے گی۔

اب اگر ان لوگوں کی اتباع میں نقص اور خطأکا پہلو موجود ہے ؛ اور اپنی نجات کا پختہ یقین رکھنے والوں کی رائے ہی درست ہوسکتی ہے‘ تو پھر شیعہ کے ائمہ معصومین اور شیخیہ کے مشائخ محفوظین کی اطاعت بھی واجب ہوتی ہے۔[یہ دونوں علیحدہ علیحدہ گروہ ہیں ]۔ پہلی قسم کے شیعہ دوسری قسم کے شیعہ پر جرح وقدح کرتے ہیں ؛ اس سے لازم آتا ہے کہ یہدونوں طریقے عند اللہ پکے باطل ہوں ۔ اس لیے کہ ان میں جمع بین النقیضین ہے ۔ کیونکہ ان کے اصول کی بنیاد ہی فساد پر رکھی گئی ہے۔ یہ بنیاد بغیر دلیل کے ان لوگوں کی اتباع ہے جنہیں [اپنے تئیں ] اپنی نجات کا پختہ یقین ہے۔ پس فرقہ مشائخہ یا امامیہ میں جو بھی اپنے مشائخ کی اتباع میں نجات کا پختہ یقین رکھتے ہیں ؛ان کا یہ عقیدہ بغیر علم اور دلیل کے ہے۔اس سے ان کے اقوال میں تناقض لازم آتا ہے۔ بخلاف ان اقوال کے جن کی بنیاد صحیح اصولوں پر رکھی گئی ہے ؛ ان میں کوئی تناقض نہیں پایا جاتا۔

تیسری وجہ:....رافضی مصنف نے جو مثال بیان کی ہے ؛ اور اس کو اصل بنا کر اس پر قیاس کیا ہے ؛ اس کے مطابق حکم لگانا ممتنع ہے۔ اس کہ دو آدمیوں میں سے کوئی ایک جب کہے گاکہ: کیا میرا راستہ پر امن ہے ‘ اور مجھے منزل تک پہنچا دے گا۔ اور دوسرا آدمی اس سے کہے : مجھے پتہ نہیں کہ کیا میرا راستہ پرامن ہے ؟ اور مجھے منزل تک پہنچائے گا یا نہیں ؟ ۔ یا پھر پہلا انسان ایسی بات کہے ؛ توعقلاً صرف اس آدمی کے قول کی بنا پر اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ۔بلکہ اہل عقل کے نزدیک ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ انسان[ اس پوچھنے والے کے لیے کوئی حیلہ گری کر رہا ہو]؛ تاکہ وہ اسے اپنے ساتھ لیکر چلے ‘ اور راستہ میں اسے قتل کردے اور اس کا مال و اسباب چھین لے۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ یہ انسان راستے کی حقیقت سے لاعلم ہو اسے راستہ کے خوف اوربد امنی کا کوئی پتہ ہی نہ ہو۔جب کہ دوسرا انسان سوال کرنے والے کیلئے کوئی گارنٹی نہیں دیتا۔ بلکہ اسے خود غور و فکر کرنے کے لیے کہتا ہے۔پس ایسے موقع پر انسان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ خود سوچ وبچار کرے کہ اسے کون سے راستہ پر چلنا چاہیے؟ کیا ان دونوں راستوں میں سے ہی کوئی ایک سیدھا راستہ ہے یا ان کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ بھی ہے ؟

اگر ان دونوں میں سے ہر ایک انسان یہ دعوی کرتا کہ میرا راستہ پر امن ہے ‘ او رہمیں منزل تک پہنچائے گا [توپھر چاہیے تو یہ تھا کہ] ان دونوں کی بغیر کسی توقف کے تصدیق کی جائے ۔ حالانکہ [اس سے لازم آتا ہے کہ ]ان میں سے ہر ایک جاہل اور دروغ گو ہے۔[یہی حال شیعہ مصنف کاہے] ۔مشتبہ مسائل میں اس کا دعوی ہے کہ ہمارا قول ہی اس میں درست اور حق پرہے۔اور میں دوٹوک طور پر یہ کہہ سکتا ہوں ۔ اس لیے میں ان دونوں گروہوں کی نسبت اتباع کا زیادہ حقدار ہوں جو مسائل میں غور وفکر کرتے ہیں ‘ اور پھر ان سے استدلال کرتے ہیں ۔تو پھر چاہیے تھا کہ یہ جھوٹے مشائخ جو اپنے مریدوں کے لیے جنت کی ضمانت دیتے ہیں ۔اورانہیں آسرا دلاتے ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی۔ اوریہ کہ جو کوئی بھی ان سے محبت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا؛ اورجو کوئی انہیں مال دے گا ؛ وہ اس کے بدلے میں انہیں وہ حال دیں گے جس سے وہ اللہ ذو الجلال کے قریب ہوجائیں گے۔

پھر یہ لوگ ان لوگوں کی نسبت اتباع کے زیادہ حق دار ہوتے جو اہل علم و عدل اور سچائی کے پیکر ہیں ؛ اور کسی چیز کی ضمانت بھی نہیں دیتے سوائے اس چیز کی ضمانت کے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کرنے والوں کو دی ہے۔ اور پھر اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ ائمہ اسماعیلیہ جیسے معز اور حاکم ائمہ اثنا عشریہ کی نسبت اتباع کے زیادہ حق دار ہوں ۔اس لیے کہ یہ لوگ انثا عشریہ سے بڑھ کر غیب کا علم جاننے ‘ باطن شریعت کے کشف؛ اور اعلی درجات کے دعویدار ہیں ۔ یہ لوگ محرماتکو حلال سمجھنے اور واجبات ترک کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو جنت کی ضمانت بھی دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ : ہم نے آپ سے نمازیں اور روزے اور زکوٰۃو اور حج ساقط کردیے ہیں ۔ او رہم اس کا دو ٹوک یقین رکھتے اوراظہار کرتے ہیں ۔

اثنا عشری کہتے ہیں : ’’کوئی انسان اس وقت تک جنت کا مستحق نہیں ہوسکتا جب تک وہ محرمات کو ترک نہ کردے اور واجبات کو بجانہ لائے۔اگرپختہ نجات کے صرف دعوی پر ان کی اتباع کرنی چاہیے تو پھر یہ لوگ ان لوگوں کی نسبت سے اتباع کے زیادہ حق دار ہیں جو کہتے ہیں : جب تم گناہ کروگے تو تمہیں سزا ہوسکتی ہے ؛ یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کردے ۔ پس یہ انسان خوف اور امید کے درمیان میں رہتا ہے۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔اس سے واضح ہوگیا کہ صرف اپنی نجات کے پختہ یقین کا دعوی کرلینا کسی کے اہل علم اور سچا ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔اور ایسے موقع پر اہل عقل لوگوں کی عادت یہ ہے کہ توقف اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے لیے دلیل کی روشنی میں مسئلہ واضح ہوجائے۔

چوتھی وجہ:....شیعہ کا یہ قول کہ ’’ شیعہ اپنے ائمہ کے ناجی ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، جب کہ اہل سنت میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔‘‘

جواب:....اگر شیعہ مصنف کی مراد یہ ہے کہ ایسا اعتقاد رکھنے والاہر ایک انسان ضرور جنت میں جائے گا، خواہ وہ شرعی اوامر کا تارک ہو اور منہیات سے کنارہ کش نہ رہتا ہو؛ تو بلاشبہ یہ امامیہ کا قول نہیں بلکہ کوئی ذی عقل اسے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ۔اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایک ایسی عظیم نیکی ہے جس کی موجودگی میں کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے شخص کو نمازوں کے ترک کرنے، زنا کاری کا ارتکاب کرنے اور بنی ہاشم کا خون بہانے سے بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، بشرطیکہ وہ حب علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ دار ہو۔اگر شیعہ یہ کہیں کہ سچی محبت تبھی ہو سکتی ہے، جب محب دیگر اعمال میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتا ہو تو انہوں نے از خود اداء واجبات اور ترک منکرات کی ضرورت کو تسلیم کر لیا۔

اگر شیعہ مصنف یہ کہنے کے درپے ہے کہ جو شخص عقائد صحیحہ رکھتاہو‘ واجبات ادا کرتاہو؛ اور منکرات سے باز رہتا ہو؛ وہ جنت میں جائے گا۔ تو بلاشبہ اہل سنت بھی یہی کہتے ہیں ۔ قرآن کریم کی اتباع میں اہل سنت کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ ہر متقی کے لیے نجات یقینی ہے۔ البتہ وہ کسی متعین شخص کے بارے میں وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہتے کہ: وہ جنت میں جائے گا۔ اس لیے کہ اس کا زمرہ متقین میں شامل ہونا قطعیت کے ساتھ تو معلوم نہیں ۔ جب کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی موت تقویٰ پر ہوئی ہے تو اس کا جنتی ہونا بھی معلوم ہوجائے گا۔ بنا بریں اہل سنت ان لوگوں کو جنتی قرار دیتے ہیں جن کے جنتی ہونے کی بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔[مثلاً صحابہ کرام میں سے دس حضرات کے بارے میں سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کا مژدہ سنایا، مگر شیعہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سے صرف نظر کر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا ان سب اصحاب کو جہنمی قرار دیتے ہیں ، ان کی دریدہ دہنی کا یہ عالم ہے کہ اس سے بڑھ کر وہ افضل الصحابہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو ’’ جبت و طاغوت ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔]

جو شخص لوگوں میں اپنے اوصاف حمیدہ کی بنا پر معروف ہو اور لوگ اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہوں ، تو اس کے بارے میں اہل سنت کے دو قول ہیں :

مذکورۃ الصدربیانات اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ شیعہ کے یہاں کوئی ایسا محمودجزم ووثوق نہیں پایا جاتا جو اہل سنت میں موجود نہ ہوں ۔ اگر شیعہ کہیں کہ ہم جس آدمی کو بھی شرعی واجبات پر عمل پیرا اور منہیات سے باز رہنے والا دیکھتے ہیں اسے قطعی جنتی قرار دیتے ہیں خواہ اس کے باطن کا حال ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو۔تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس مسئلہ کا امامیہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ اگر اس کی جانب کوئی صحیح راستہ جاتا ہے تو بالاتفاق اہل سنت کا راستہ ہے اور کوئی راستہ موجود نہیں تو یہ قول بلا علم ہے جو کسی فضیلت کا موجب نہیں ، بلکہ اس کا نہ ہونا فضیلت کا باعث ہے۔

خلاصہ کلام ! بہر حال شیعہ جس بھی علم صحیح کے دعویٰ دار ہوں اہل سنت ان کی نسبت اس کے زیادہ حق دار ہوں گے اور اگر وہ جہالت کے مدعی ہوں تو جہالت ایک نقص ہے اور اہل سنت اس سے بعید تر ہیں ۔

کسی مخصوص آدمی کے جنتی ہونے کی ضمانت یا تو معصوم[معصوم سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، ان کے سوا اس امت میں دوسرا کوئی معصوم نہیں ، آپ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق جنت کا مژدہ سنایا ہے، شیعہ اس بشارت کو تسلیم نہیں کرتے۔] (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قول کی بنا پر دی جا سکتی ہے یا مومنین کے متفق علیہ قول کی وجہ سے۔ اس لیے کہ اہل ایمان اس خطہ ارضی پر اللہ کے گواہ ہیں ، حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سے ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے مرنے والے کی مدح و ستائش کی، یہ سن کر آپ نے فرمایا: 

’’ وَجَبَتْ ‘‘(واجب ہوگئی)۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس کی مذمت کی تو آپ نے وہی الفاظ دہرائے ۔ صحابہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:’’جس جنازہ کی تم نے تعریف کی اس کیلئے جنت واجب ہوگئی اور جس کی مذمت کی اس کے لیے جہنم، تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔‘‘ [صحابہ کی شان میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’ تم کائنات ارضی پر اﷲ کے گواہ ہو۔‘‘ صحابہ کی عظیم مدح و منقبت پر مشتمل ہے، بنی اسرائیل کے کسی نبی نے اگر ان کی مدح میں ایسا کوئی جملہ کہا ہوتا تو اسرائیلی اس دن کو ایک بڑا مذہبی تہوار بنا لیتے اور ایسے کلمات کو بڑی اہمیت کا حامل سمجھتے، مگر شیعہ صحابہ کی شان میں وارد شدہ مدحیہ کلمات کو چنداں وقعت نہیں دیتے، رسول اﷲ کا ارشاد گرامی ’’ انتم شہداء اﷲ فی الارض ‘‘دراصل سورہ بقرہ کی آیت ’’لتکونوا شہداء علی الناس ‘‘کی جانب اشارہہے۔ ظاہر ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک سے صریح انکار غضب الٰہی کو دعوت دینے کے سوا اور کیا ہے؟ صحیح بخاری،کتاب الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت،(ح:۱۳۶۷)، صحیح مسلم: کتاب الجنائز، باب فیمن یثنی علیہ خیر أو شر من الموتی، (ح:۹۴۹)۔]

اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ قریب ہے کہ تم اہل جہنم میں سے اہل جنت کو پہچان لو۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! وہ کیسے ؟

آپ نے فرمایا : لوگوں کے اچھی اور بری تعریف کرنے کی وجہ سے ۔‘‘[سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۴۱۱؛کتاب الزہدِ،باب الثنائِ الحسنِ،وقال المعلِق فِی الزوائِدِ: ِإسنادہ صحِیح، رِجالہ ثِقات، ولیس لأِبِی زہیر ہذا عنِ ابنِ ماجہ سِوی ہذا الحدِیثِ، ولیس لہ شی فِی بقِیۃِ الکتبِ السِتۃِ، والحدِیث فِی المسندِ ؛ ط۔ الحلبی ۳؍۴۱۶۔ ]

اور بسا اوقات اس کا سبب مسلسل مؤمنین کے لیے نیک خواب کا دیکھنا بھی ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ میرے بعد نبوت میں سے صرف اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں ۔ جو کہ نیک انسان خواب میں دیکھتا ہے یا اسے دیکھایا جاتا ہے ۔‘‘[البخارِیِ:۹؍۳۱؛ کتاب التعبِیرِ، باب المبشِراتِ ، وجاء جزء مِن حدِیث آخر بِنفسِ المعنی عنِ ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما فِی مسلِم: ۱؍۳۴۸؛ کتاب الصلاِۃ، باب فِی الدعاِ فِی الرکوعِ والسجودِ، سننِ أبِی داود:۱؍۳۲۱؛ کتاب الصلاۃِ، باب فِی الدعاِ فِی الرکوعِ والسجودِ، سننِ النسائِیِ:۸؍۱۴۸، کتاب التطبِیقِ، باب تعظِیمِ الربِ فِی الرکوعِ، سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۲۸۳؛ کتاب تعبِیرِ الرؤیا، باب الرؤیا الصالِحۃِ یراہا المسلِم أو تری لہ۔]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا گیا :

﴿لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ﴾ [یونس ۶۳] 

’’ ان کے لیے دنیا اور آخرت کی زندگی میں خوشخبری ہے ۔‘‘

توآپ نے فرمایا: ’’یہ اچھے خواب ہیں جو نیک انسان دیکھتا ہے یا اسے دیکھایا جاتا ہے ۔‘‘ [سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۳۶۴؛ کتاب الرؤیا، باب ذہبتِ النبوۃ وبقِیتِ المبشِرات، وقال التِرمِذِی عن حدِیثِ أبِی الدرداِ: وہذا حدِیث حسن۔ سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۲۸۳؛ کتاب تعبِیرِ الرؤیا، باب الرؤیا الصالِحۃِ۔]

اس کی تفسیر اہل ایمان کے تعریف کرنے سے بھی کی گئی ہے ۔آپ سے پوچھا گیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کو ئی انسان اپنی ذات کے لیے نیک کام کرتا ہے ‘ اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں ؛ تو آپ نے فرمایا: ’’ یہ اسے جلدی میں ہی مل جانے والی خوشخبری ہے ۔‘‘[مسلِم:۴؍۲۰۳۴؛ کتاب البِرِ والصِلۃِ والآدابِ، باب ِإذا أثنِی علی الصالِحِ فہِی بشری ولا تضر ، سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۴۱۲؛ کتاب الزہدِ، باب الثنائِ الحسنِ ؛ مسند أحمد ۵؍۱۵۶۔]

خواب کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور کبھی انسان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں اور کبھی کبھار شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ۔جب اہل ایمان کا خواب کسی بات کے مطابق ہو جائے تو وہ حق ہوتا ہے؛ جیسا کہ بسااوقات خواب اور روایات اور رائے میں مطابقت پائی جاتی ہے۔اس لیے کہ ایک انسان کبھی جھوٹ بھی بول سکتا ہے ‘ اور اس سے غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ اور کبھی رائے میں خطاء بھی ہوسکتی ہے۔ یا جان بوجھ کر باطل بھی کرسکتا ہے ۔ لیکن جب تمام [اہل ایمان ] لوگ جمع ہوجائیں تو وہ کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتے۔ اور جب روایات تواتر کے ساتھ ہوں تو ان سے یقین کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ خواب کا بھی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

’’ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا خواب میں دیکھنا آخری سات راتوں کے مطابق ہے تو جو آدمی لیلۃ القدر کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔‘‘ [البخارِیِ:۳؍۴۶؛ کتاب فضلِ لیلۃِ القدرِ، باب التِماسِ لیلِۃ القدرِ فِی السبعِ الأواخِرِ، مسلِم:۲؍۸۲۲؛ کتاب الصِیامِ، باب فضلِ لیلۃِ القدر،الموطِا:۱؍۳۲۱؛ کتاب الِاعتکِافِ،باب ما جاء فِی لیلۃِ القدر، المسندِ ط۔ المعارِفِ:۶؍۲۳۱۔]

یہ باب بھی اہل سنت والجماعت کے ہاں شیعہ کی نسبت کامل و اکمل ہے۔انہیں اپنی سعادت و کامیابی کے علم اور اس کے حصول کے لیے کوئی ایسی علمی راہ میسر نہیں ہے جس پر اہل سنت و الجماعت گامزن نہ ہوں ۔

[کامیابی و نجات پر یقین]:

پانچویں وجہ:....یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اہل سنت اپنے ائمہ کی فلاح و نجات پر جس پختگی کے ساتھ یقین رکھتے ہیں ؛شیعہ اس سے محروم ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اہل سنت کے ائمہ سابقین اولین مہاجرین و انصار ہیں ؛ جو ان کے نزدیک قطعی جنتی ہیں ۔ اہل سنت کے یہاں یہ امر مسلم ہے کہ عشرہ مبشرہ یقیناً جنتی ہیں ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بدری صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا:

((اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔))[صحیح بخاری، کتاب المغازی۔ باب فضل من شھد بدراً(حدیث:۳۹۸۳،۳۰۰۷) صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل حاطب بن ابی بلتعۃ (حدیث: ۲۴۹۴) ]

’’تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔‘‘

اہل سنت اس سے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ :’’جن صحابہ نے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔‘‘جیسا کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے۔[صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل اصحاب الشجرۃ (حدیث: ۲۴۹۶)۔] اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیعت ِشجرہ میں شریک چودہ صد سے زائد صحابہ اہل سنت کے امام اور یہ قطعی جنتی ہیں ؛ان میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں نہیں جائے گا؛یہ دعوی علم کی روشنی میں ہے ‘ اور اس پرکتاب و سنت کے دلائل پر مبنی ہے۔

چھٹی وجہ:....اہل سنت جن لوگوں کے حق میں جنتی ہونے کی شہادت دیتے ہیں ، خواہ مطلقاً ہو یا معیناً؛ ان کی شہادت علم و دلیل پر مبنی ہے۔ اس کے عین برخلاف روافض اگر گواہی دیتے ہیں تو ایسی بات کی گواہی دیتے ہیں جس کی حقیقت کے بارے میں وہ خودبھی کچھ نہیں جانتے ؛ یا پھر ان کی شہادت جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے؛ اور انہیں اس کے جھوٹ ہونے کے بارے میں علم بھی ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر امام شافعی رحمہ اللہ کو کہنا پڑا:

((مَا رَاَیْتُ قَوْمًا اَشْہَدَ بِالزُّوْرِ مِنَ الرَّافِضَۃِ ۔))

’’میں نے شیعہ سے زیادہ جھوٹی شہادت دینے والا کسی قوم کو نہیں دیکھا۔‘‘ساتویں وجہ:....یہ امر قابل غور ہے کہ شیعہ جس امام کے جنتی ہونے کی شہادت دیتے ہیں یا تو وہ ہر چیز میں واجب الاطاعت ہوگا۔یہ الگ بات ہے کہ دوسرے اہل ایمان لوگ اس ضمن میں ان سے اختلاف کرتے ہوں ۔یا اس کی اطاعت صرف انہی امور میں کی جائے گی جو اللہ و رسول کے بیان کردہ ہوں ؛ یا اس کے اجتہاد پر مبنی ہوں ۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب اس سے بڑھ کر کسی اہل علم اور افضل کا علم نہ ہو۔ بصورت اول اہل سنت والجماعت کے یہاں ایسا کوئی امام ہی نہیں جس کی ہربات اور ہر حکم میں اطاعت کی جاتی ہو سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے۔ان کا قول وہی ہے جو کہ امام مالک، مجاہد اور حکم رحمہم اللہ فرمایا کرتے تھے:

’’ہر شخص کی بات کو (بشرط صحت) تسلیم بھی کیا جا سکتا ہے اور (غلط ہونے کی صورت میں ) رد بھی کیا جا سکتا ہے، مگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات قابل تسلیم ہے۔‘‘

اہل سنت اپنے امام (سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خیر الخلائق قرار دیتے ہیں ؛ اور اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ کی پیروی کرنے والا ہر شخص جو آپ کے اوامر کوبجالاتا ہو‘اور منع کردہ چیزوں سے رک جاتا ہو؛ وہ جنت میں جائے گا۔ یہ شہادت شیعہ کی اس یقین دہانی سے اتم و اکمل ہے کہ امام عسکری کے متبعین اور ان کے ہمنوا و امثال جنتی ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کا امام اور ان کی شہادت دونوں شیعہ کی شہادت کی نسبت زیادہ مکمل اور قابل اعتماد ہیں ۔ان دونوں کے مابین کوئی برابری اورمساوات نہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ئٰ آللّٰہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [النمل۵۹]

’’کیا اللہ بہتر ہے یا جو کچھ وہ شریک ٹھہراتے ہیں ؟ ۔‘‘

مقابلہ کے وقت خالص شر اور برائی کے مقابلہ میں خالص نیکی اور بھلائی کا ذکر کیا جائے گا؛ اگرچہ شر میں کوئی خیر نہیں ہوتی۔

اگر شیعہ کی امام سے مراد محدودومقید امام ہے؛ تو اہل سنت کے نزدیک کوئی امام اس وقت تک واجب الاطاعت نہیں ہوتا جب تک اسکے اوامر امام مطلق سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے ہم آہنگ نہ ہوں ۔ اہل سنت جب شرعی حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے احکام میں ایسے امام کی اطاعت کرتے ہیں تو انہیں اس بات کی مطلقاً پروا نہیں ہوتی کہ آیا وہ جنت میں جائے گا یا نہیں ، اس لیے کہ وہ دراصل اللہ و رسول کے احکام کی اطاعت کر رہے ہوتے ہیں ۔ جس طرح امام معصوم کی اتباع بعض اوقات اس کے نائبین کی اطاعت کرتے ہیں ، حالانکہ وہ دوزخی بھی ہوسکتے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض اوقات امام کے نائب یہ بھی نہیں جانتے کہ کیا وہ وہی حکم دیتے ہیں جوحکم امام معصوم نے دیا ہے۔کیونکہ انہیں امام معصوم کے کسی حکم کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا۔ بخلاف ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ؛جب کوئی اہل سنت حدیث کے مطابق حکم دیتا ہے تویہ بات فوراً معلوم ہوجاتی ہے کہ کون ان کے موافق حکم دے رہا ہے اور کون مخالف۔ اختلافی امور کا فیصلہ اجتہاد سے کر لیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حدیث نبوی پر عمل پیرا ہونا امام معصوم کے نائبوں کی اطاعت کرنے سے بدر جہا افضل ہے۔خصوصاً جب کہ یہ پتہ بھی نہ ہو کہ امام غائب نے کیا حکم دیا، اور نہ اس کی کچھ خبر ہو کہ نائب آیا امام کے موافق ہے یا مخالف۔ اگر شیعہ یہ دعویٰ کریں کہ نائبین اپنے پیش کردہ علماء کے اقوال پر عمل پیرااور ان کے عالم ہوتے ہیں ۔ تو اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ اہل سنت کے علماء کو حدیث نبوی کے بارے میں جو علم حاصل ہے وہ ان کے علم سے بدر جہا اتم و اکمل ہے۔ اگر کسی شیعہ سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس ضمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے امام سے کوئی روایت صحیح بتلادے تو وہ ایسا کرنے پر ہر گز قادر نہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ کا درجہ احادیث کی اسناد اور اسماء الرجال کے فن میں اہل سنت کے علماء کی نسبت فروتر ہے۔

[کامیابی کا دارو مدار]:

آٹھویں وجہ:....رافضی کے کلام کا جواب یہ ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو کامیابی اور سعادت کی ضمانت دی ہے جو اس کی اطاعت کریں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں ۔اور جو لوگ ایسانہ کریں انہیں شقاوت وبد بختی سے ڈرایا ہے ۔ پس سعادت کا دارومدار اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ [النساء۶۹]

’’ اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین ساتھی ہیں ۔‘‘

اور اس طرح کی دیگر آیات بھی بہت سی ہیں ۔

جب معاملہ ایسے ہی ہے تو اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں :

﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ [التغابن۱۶]

’’تم سے جتنا ہوسکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ۔‘‘

پس جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اپنی وسعت بھر کوششیں کرے؛ وہ انشاء اللہ تعالیٰ اہل جنت میں سے ہوگا۔ پس رافضیوں کا یہ کہنا کہ جنت میں صرف وہی داخل ہوگا جو امامیہ میں سے ہوگا؛ یہ بالکل یہود و نصاری کے قول کی طرح ہے ؛ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الجنۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ [البقرۃ۱۱۱۔۱۱۲]

’’ یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاری کے سوا اور کوئی نہ جائے گا یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں ، ان سے کہو کہ: اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔سنو جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکادے۔بیشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دیگا اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔‘‘

یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جس منتظر کے دعویدار رافضی ہیں ؛ اس کی اطاعت کسی ایک پر بھی واجب نہیں ہے۔اس لیے کہ اس سے کسی منقول قول کا علم حاصل ہی نہیں ہوسکا۔ پس پھر جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا ‘ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ بھلے وہ اس خودساختہ امام پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ اور جو کوئی اس امام پر ایمان رکھتا ہو وہ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرلے۔ اس لیے کہ سعادت کا دارو مدار اپنے عدم اور وجود کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر ہے ۔ پس یہی چیز اطاعت گزاری اہل جنت اور اہل جہنم میں فرق کرنے والی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان وجہ فرق ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی خلقت کوآپ کی اطاعت کا حکم دیاہے ‘ اور اس طرف رہنمائی فرمائی ہے ۔ پس اس سے ظاہر ہوگیا کہ اہل سنت والجماعت ان لوگوں کی نجات کے بارے میں پختہ یقین رکھتے ہیں جو کہ سنت پر پابند ہوں ۔