Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....بارہ آئمہ کے خصائص پر رافضی کا کلام

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....بارہ آئمہ کے خصائص پر رافضی کا کلام 

جھوٹا رافضی دعوی اور مذہب کی ظاہری چمک

[اشکالات] شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’شیعہ مذہب کی صداقت کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ:’’ انہوں نے یہ مذہب ان ائمہ معصومین سے اخذ کیا ہے جو علم و فضل ؛ زہد و ورع میں شہرت رکھتے تھے۔اور ہر وقت دعا و عبادت اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے۔ ان کا یہی حال بچپن سے لیکر آخری عمر تک رہا۔اور ان میں ایسے بھی تھے جو لوگوں کو علوم سکھانے میں مشغول رہتے۔ان ہی کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی:﴿ ھل أتی﴾ [الإنسان۱]۔ اور آیت ِطہارت؛اور ان کے لیے وجوب محبت کی آیت؛اور آیت مباہلہ وغیرہ اسی بارے میں نازل ہوئیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کثرت عبادت کا یہ عالم تھا کہ آپ جنگوں میں مشغول رہنے کے باوجود شب و روز میں ایک ہزار رکعات نوافل پڑھا کرتے تھے۔‘‘ 

ان میں سب سے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب مخلوق میں سے افضل ترین انسان تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات قرار دیا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ﴾ [آل عمران ۶۱] ’’اور ہمارے نفسوں کو اورتمہارے نفسوں کو ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنا بھائی بنایا ؛ اور اپنی بیٹی کو آپ کی زوجیت میں دیا۔ آپ کی فضیلت کسی پر مخفی نہیں ہے۔ آپ سے بہت سارے معجزات ظاہر ہوئے ۔یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے آپ کے رب ہونے کا دعوی کیا ؛ پھر انہیں قتل کردیا گیا۔ پھر یہی بات ان کی جگہ کچھ دوسرے لوگ کہنے لگے؛ جیسے کہ غالیہ اور نصیریہ وغیرہ۔آپ کے دو بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے؛ جو کہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ اور وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح اور واضح حکم کے مطابق امام تھے۔یہ دونوں حضرات اپنے دور کے سب سے بڑے زاہد اور بڑے عالم تھے۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں ایسے جہاد کیا جیسے جہاد کرنے کا حق ہے ؛ یہاں تک کہ دونوں اللہ کی راہ میں شہید کردیے گئے۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے فاخرانہ لباس کے نیچے اون کا لباس اس طرح پہنا کرتے تھے کہ اس کا کسی کو پتہ ہی نہ چلتا تھا۔ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی دائیں ران پر بٹھایا اور ابراہیم کو اپنی بائیں ران پر بٹھایا؛ تو جبریل امین نازل ہوئے اور فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو آپ کے لیے جمع نہیں کرے گا۔ آپ ان دونوں میں سے جس کو چاہیں اختیار کریں لیں ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اگر حسین مر گیا تو میں علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہم تینوں روئیں گے۔اور اگر ابراہیم مر گیا تو اس پر مجھے ہی رونا پڑے گا ؛ پس میں ابراہیم کی موت کو اختیار کرتا ہوں ۔ اس واقعہ کے تین دن بعد ابراہیم کا انتقال ہوگیا۔ اور اس کے بعد جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ تشریف لاتے تو آپ فرماتے : ’’ خوش آمدید و مرحبا اے بیٹے !جس کے بدلے میں میں نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قربانی پیش کی ہے ۔اسی طرح امام زین العابدین اور امام باقر بھی بڑے عابد شب زندہ دار تھے اور کتاب اللہ کی تلاوت میں مگن رہتے ۔ اور دن و رات میں ایک ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے۔اورہر دو رکعتوں کے بعد اپنے آباء کرام سے منقول دعائیں پڑھا کرتے۔اور بے قراری کے عالم میں مصحف کو چھوڑ دیتے؛....اور پھر فرمایاکرتے: مجھے علی رضی اللہ عنہ والی عبادت کہاں نصیب ہوگی؟آپ بہت زیادہ رویا کرتے تھے یہاں تک کہ کثرت گریہ کی وجہ سے آپ کے گالوں کا گوشت ختم ہوگیا تھا۔اور آپ کو لمبے سجدہ کرنے کی وجہ سے آپ کوذا ثفن (لمبا سجدہ کرنے والا] کا نام دیاگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو زین العابدین کا خطاب دیا تھا۔جب ہشام بن عبد الملک نے حج کیا تو حجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش کی؛ مگررش کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اتنے میں زین العابدین تشریف لائے؛ تو لوگ ٹھہرے گئے ؛ اور آپ کے لیے جگہ چھوڑ دی؛ یہاں تک کہ آپ نے حجر اسود کااستلام کیا۔اس وقت آپ کے علاوہ کوئی ایک بھی حجر اسود کے پاس باقی نہ رہا۔ یہ دیکھ کر ہشام بن عبد الملک نے کہا : یہ کون ہے؟ تو فرزدق شاعر نے اپنا وہ مشہور قصیدہ پڑھ دیا جو امام زین العابدین کے بارے میں زبانِ زد خلائق ہے۔[قصیدہ یہ ہے:]

اس قصیدہ کو سن کر ہشام طیش میں آ گیا اور اس نے مکہ اور مدینہ کے درمیان فرزدق کو قید کر دینے کا حکم دے دیا اس پر فرزدق نے اسے یہ اشعار لکھ بھیجے:

’’کیا تو مجھے مدینہ کے درمیان اور اس شہر کے درمیان قید کرتا ہے جس کی طرف لوگوں کے دلوں کو راغب کیا گیا ہے۔ کیا تم اس سر کو پلٹتے ہو جو سردار کا سر نہیں اور اس آنکھ کو بدلتے ہو جو بھینگی ہے اور اس کابھینگا پن بالکل عیاں ہے۔‘‘

٭ تو حضرت زین العابدین رحمہ اللہ نے فرزدق کو ہزار دینار بھیجے ۔ اس نے وہ دینار واپس کردیے؛ اور کہا: میں نے یہ اشعار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے غصہ کھاتے ہوئے کہے ہیں میں ان پر کوئی اجرت نہیں لیتا ۔ تو حضرت علی بن الحسین رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ ہم اہل بیت ہیں ؛ جو کچھ ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے ‘ ہم اسے واپس نہیں لیا کرتے ۔ تو فرزدق نے وہ دینار قبول کرلیے۔

٭ مدینہ میں کچھ لوگ تھے جنہیں رات میں ان کا غلہ پہنچ جایا کرتا تھا ؛ مگر انہیں علم نہیں ہوتا تھاکہ یہ کہاں سے آتا ہے۔ جب زین العابدین کا انتقال ہوگیا تو اس رزق کا آنا بند ہوگیا ؛ تو انہیں پتہ چل گیا کہ یہ زین العابدین رحمہ اللہ کی طرف سے تھا۔ آپ کا بیٹا محمد الباقر رحمہ اللہ لوگوں میں سب سے بڑا عابد و زاہد انسان تھا۔ آپ کی پیشانی پر سجدہ کی وجہ سے نشان پڑ گئے تھے۔ آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام باقر رکھا تھا۔ جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے ۔ آپ اس وقت بہت چھوٹے تھے ؛جابر نے کہا : آپ کے نانا نے آپ کو سلام کہا ہے ۔ آپ نے کہا : اور میرے نانا پر بھی سلام ہو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا : یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا؛ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ آپ کی گود میں کھیلرہے تھے ۔ آپ نے فرمایا: ’’ اے جابر ! اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا؛ اس کا نام علی ہوگا۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو آواز لگانے والا آواز لگائے گا : سید العابدین کہاں ہے ‘ اسے چاہیے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ تو اس کا بیٹا کھڑا ہوگا۔ پھر اس کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوگا ؛ اس کا نام محمد الباقر ہوگا۔ وہ ایک بار پڑھنے سے سارا علم حاصل کرلے گا۔ جب تم اس کو دیکھو تو اسے میرا سلام کہنا۔ آپ سے ابو حنیفہ اور دوسرے علماء نے روایات نقل کی ہیں ۔

٭ آپ کابیٹا الصادق اپنے زمانہ کا سب سے افضل اور عابد انسان تھا۔علماء سیرت کا کہنا ہے : آپ حکومت طلبی چھوڑ کر عبادت میں ہی مشغول رہے ۔ عمر بن ابو المقدام کہتے ہیں : جب میں جعفر بن محمد الصادق کی طرف دیکھا کرتا تو پتہ چل جاتا تھا کہ آپ انبیاء کی اولاد میں سے ہیں ۔ آپ نے ہی فقہ امامیہ ؛ معارف حقیقت اور عقائد یقینیہ کی نشرو اشاعت کاکام کیا۔ آپ جب بھی کسی بات کی خبر دیتے تو وہ بالکل ویسے ہی پوری ہوتی۔ اس لیے آپ کا نام صادق اور امین رکھا گیا تھا۔

٭ عبد اللہ بن الحسن نے تمام علویوں کو اپنی اولاد کی بیعت کے لیے جمع توامام صادق نے فرمایا: ایسے نہیں ہوسکتا۔ اس پر عبد اللہ کو غصہ آگیا۔اور اس نے کہا : یہ پیلے جبے والے کا ساتھی ہے ۔ اس سے منصور کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا۔۔ جب منصور تک یہ خبر پہنچی تو وہ بہت خوش ہوا کیونکہ جیسے آپ نے خبر دی تھی ویسے ہی ہونا تھا۔اور اس نے جان لیا کہ اب خلافت اسے مل کر رہے گی۔اور جب وہ بھاگ رہا تھا تو کہہ رہا تھا: تمہارے صادق کی پشین گوئی کہاں ہے ؟اور پھر بعد میں خلافت اسے ہی مل کر رہی۔

٭ آپ کا بیٹا موسی الکاظم ہے ؛ اسے العبد الصالح [نیک انسان] کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ آپ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عابد و زاہد تھے ۔ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو نماز پڑھتے رہتے ۔آپ کو کاظم اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ جب آپ کسی کے متعلق سنتے کہ وہ آپ کی برائی بیان کررہا ہے تو آپ اس کے پاس کچھ مال بھیج دیا کرتے ۔ آپ کے فضائل موافقین و مخالفین نے نقل کیے ہیں ۔ حنابلہ میں سے ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں : شقیق البلخی سے روایت کیا گیا ہے : ’’ وہ کہتے ہیں : میں ایک سو چورانوے ہجری میں حج کے لیے نکلا۔ پس میں نے وہاں پر ایک نوجوان کو دیکھا ؛ خوبصورت چہرہ اور گوری رنگت ۔ اس پراونی لباس تھا؛ جو کہ شملہ پر مشتمل تھا۔اور اس کے پاؤں میں دو جوتیاں تھیں ۔ وہ لوگوں سے الگ تھلگ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے جی میں کہا: ’’یہ نوجوان صوفیاء میں سے ہے جو لوگوں پر بوجھ بننا چاہتا ہے ۔اللہ کی قسم ! میں اس کے پاس جاؤں گا اوراسے جھڑکوں گا۔جب میں آپ کے قریب ہوا؛ تو آپ نے مجھے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ لیا ۔ آپ نے فرمایا: اے شقیق ! بدگمانی سے بہت زیادہ بچاکر۔ اس لیے کہ بدگمانی گناہ کا کام ہے ۔ میں نے اپنے جی میں کہا: یہ کوئی نیک انسان ہے ‘ اس نے وہی بات کہی جو میرے دل میں تھی۔ میں ضرور اس کے پاس جاؤں گا‘ اور اس سے سوال و جواب کروں گا۔ تو آپ میری نظروں سے غائب ہوگئے ۔ جب ہم نے اگلی منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپ وہاں پر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور آپ کے اعضاءکانپ رہے تھے ۔ اور آنسو رواں دواں تھے ۔میں نے کہا: میں ان کے پاس جاکر معذرت کروں گا۔ آپ نے نماز مختصر کی ؛ اور فرمایا: اے شقیق![اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]:

﴿وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی﴾ [طہ۸۲]

’’اور بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راہ راست پر بھی رہیں ۔‘‘

میں نے کہا: ’’ یہ کوئی ابدال ہے ۔آپ نے دو بار میری اسرار کی بات کہی ہے۔جب ہم نے اگلے مقام پر پڑاؤ ڈالا تو دیکھا کہ آپ وہاں کنوئیں پر کھڑے؛ آپ کے ہاتھ میں چھاگل ہے اور پانی نکال کرپلا رہے ہیں ؛آپ کے ہاتھ سے چھاگل کنوئیں میں گر گیا۔آپ نے نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں اور کہا:

’’ یا اللہ ! تو میرا رب ہے جب مجھے پانی کے لیے پیاس محسوس ہو ‘ اور تو ہی میرا کھانا ہے جب مجھے کھانے کی حاجت ہو۔‘‘اے میرے آقا! میرے لیے اس کے سوا کوئی نہیں ۔ شقیق بلخی کہتے ہیں : ’’ اللہ کی قسم ! میں نے دیکھا کنوئیں کا پانی بلند ہوا؛ آپ نے چھاگل لیا؛ اور اسے بھر لیا؛ پھر وضوء کرکے چار رکعت نماز پڑھی۔ پھر وہاں پر ایک ریت کے ٹیلے کے پاس چلے گئے آپ ایک ایک مٹھی [ریت ] بھرکر چھاگل میں ڈالتے اور اس سے پیتے جاتے ۔میں نے کہا: جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل سے دیاہے ‘ اور جو آپ پر انعام کیا ہے ؛ اس میں سے مجھے بھی کچھ کھلا دیجیے۔آپ نے فرمایا: ’’ اے شقیق! ہم پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی نعمتیں جاری و ساری رہی ہیں ۔ اپنے رب سے اچھا گمان رکھیں ۔ پھر آپ نے مجھے وہ چھاگل پکڑا دیا۔میں نے جب اس میں سے پیا تو دیکھا کہ وہ ستو اور شکر تھا۔اللہ کی قسم ! میں نے اس سے میٹھا اور خوشبودارکبھی بھی نہیں پیا۔ میں نے خوب سیر ہوکر پیا ۔ پھر میں کئی دن ایسے ہی رہا ۔ نہ ہی مجھے کھانے کی خواہش ہوتی اور نہ ہی پیاس لگتی۔پھر میں نے آپ کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے۔ پھر ایک رات میں نے آپ کو میزاب کے قریب قبہ کے پاس دیکھا۔ آپ آدھی رات میں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے۔آپ ساری رات ایسے ہی روتے رہے ۔جب صبح طلوع ہوگئی تو آپ اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھ گئے اور تسبیح میں مشغول ہوگئے۔پھر آپ نماز فجر کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اور اس کے بعد بیت اللہ کے سات چکر لگائے۔ پھر آپ باہر نکل گئے تو میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے اموال سازو سامان اور غلام ہیں ۔ اب آپ کی وہ حالت نہیں تھی جو میں نے راستہ میں دیکھی تھی۔ لوگ آپ کے گرد گھوم رہے ہیں ‘ اور آپ کو سلام کرتے ہیں ‘ اور تبرک حاصل کرتے ہیں ۔ میں نے ان لوگوں سے کہا ہے : یہ کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : ’’ موسی بن جعفر ۔ میں نے کہا: مجھے بھی یہی تعجب ہورہا تھا کہ ایسے عجائب صرف کسی سید سے ہی صادر ہوسکتے ہیں ۔‘‘یہ حنبلی کی روایت ہے ۔

٭ آپ کے ہاتھ پر بشر الحافی نے توبہ کی۔قصہ یہ ہیکہ آپ کا بغداد کے ایک محلے سے گزر ہوا۔ آپ نے ساز و موسیقیاور گانے بجانے کی آوازیں سنی۔اور لوگ ایک گھر سے نکل رہے تھے۔ وہاں سے ایک لونڈی نکلی ۔ اس کے ہاتھ میں کوڑے والا تھیلاتھا۔ وہ اسے لیکر گلی میں سے گزری۔ آپ نے اس لونڈی سے کہا: اے لڑکی! اس گھر والا آزاد ہے یا غلام ؟ اس نے کہا: آزاد ہے ۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ تم نے سچ کہا: اگر غلام ہوتا تو اپنے آقا سے ڈرتا۔جب وہ لونڈی واپس گھر میں گئی تو اس کے آقا نے جو کہ اس وقت نشہ کی حالت میں تھا؛ اس سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی ؟ تو اس نے کہا: ایک آدمی نے مجھ سے ایسے ایسے کہا ہے ۔ آپ یہ سن کر ننگے پاؤں موسی بن جعفر کے پیچھے نکل پڑے یہاں تک کہ انہیں جالیا او ران کے ہاتھ پر توبہ کی ۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]

[سلسلہ جوابات]: ان باتوں کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے : 

پہلا جواب:....ہم شیعہ کا یہ دعویٰ تسلیم نہیں کرتے کہ انہوں نے یہ مذہب اہل بیت سے اخذ کیاہے؛نہ ہی اثنا عشریہ نے اور نہ ہی کسی دوسرے نے۔ کیونکہ شیعہ جن اصولوں میں بھی اہل سنت سے متفرق ہوئے ہیں ان تمام اصولوں اور فروعات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ائمہ اہل بیت کی مخالفت کرتے ہیں ؛ جیسے توحید ؛ عدل اور امامت ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ائمہ اہل بیت صفات الٰہی اور تقدیر کا اثبات کرتے ؛خلفاء ثلاثہ کی خلافت اور حضرت ابو بکرو عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت کے قائل ہیں ۔ اسی طرح دیگر بھی کئی ایک مسائل ہیں جن میں رافضی مذہب تناقض کا شکار ہے؛جوکہ اہل علم کی کتابوں میں منقول موجود ہیں اس باب میں ائمہ اہل بیت سے منقول علوم کی معرفت سے پتہ چلتا ہے کہ رافضی اہل بیت کے مخالف ہیں موافق نہیں ہیں ۔

دوسرا جواب:....اس سے کہا جائے گا کہ : یہ بات معلوم شدہ ہے کہ رافضیوں کے مابین امامت؛ صفات الٰہیہ اور تقدیراورکئی ایک اصول دین کے مسائل پر بہت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ تو پھر ان میں سے کون سا قول اہل بیت سے ماخوذ ہے۔یہاں تک کہ مسئلہ امامت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور اس باب میں ان کا اضطراب و اختلاف بڑا مشہور ہے۔

اس سے پہلے مہدی منتظر اور امام منصوص کے بارے میں ان کا اختلاف گزر چکا ہے۔امام منتظر کے بارے میں ان کے کئی ایک اقوال ہیں : ان میں سے بعض کہتے ہیں : جعفر بن محمد زندہ باقی ہے ۔ بعض کہتے ہیں : عبد اللہ بن معاویہ زندہ باقی ہے۔ بعض کہتے ہیں : محمد بن عبد اللہ بن حسن زندہ باقی ہے ۔ بعض کہتے ہیں :اس کا بیٹا موسی بن جعفر زندہ باقی ہے ۔ بعض کہتے ہیں : محمد بن الحنفیہ زندہ باقی ہے ۔ایک گروہ کے لوگ کہتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو امام مقرر فرمایا تھا ؛ جب کہ دوسرا گروہ کہتاہے : نہیں ‘ بلکہ محمد بن الحنفیہ کو امام بنایا تھا۔ پھر ایک گروہ کہتا ہے کہ علی بن الحسین نے اپنے بیٹے ابو جعفر کو امام بنانے کی وصیت کی تھی ؛ جب کہ دوسرا گروہ ان کے بیٹے عبد اللہ کی امامت کاقائل ہے۔اس گروہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ عبد اللہ نے اپنے بیٹے محمد بن عبد اللہ بن الحسن کو امام بنانے کی وصیت کی تھی۔جب کہ دوسرے گروہ کے لوگ کہتے ہیں کہ جعفر نے اپنے بیٹے اسماعیل کو امام بنایا تھا۔ یہ لوگ کہتے ہیں : اسماعیل نے اپنے بیٹے محمد کو امام بنایا تھا ۔ جب کہ دوسرے گروہ کے لوگ کہتے ہیں : اپنے بیٹے عبد اللہ کو امام بنایا تھا۔پھر یہ کہتے ہیںکہ : اس کا بیٹا موسی امام بنا تھا۔ یہ لوگ محمد بن حسن تک سلسلہ امامت کو اسی موسی کی اولاد میں مانتے ہیں ۔جب کہ دوسرے گروہ کے لوگ امامت کو عبد اللہ بن میمون القداح شیعہ حکمران تک تسلیم کرتے ہیں ۔ پھر ایک گروہ کہتا ہے: امامت بنی ہاشم سے بنی عباس میں منتقل ہوگئی تھی۔ [جب ان کے آپس میں اتنے اختلافات ہیں ] تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ تمام متناقض اقوال ائمہ اہل بیت سے ماخوذ ہوں ۔ پس شیعہ کا یہ دعوی باطل ٹھہرا کہ ان کا مذہب اہل بیت سے ماخوذ ہے ۔

تیسرا جواب:....تصور کیجیے حضرت علی رضی اللہ عنہ معصوم تھے۔جب شیعہ کا آپس میں اس قدر اختلاف ہے ؛ اور مسئلہ امامت میں اتنا سخت تنازع ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرمان کی صحت کیسے معلوم ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا دعوی ہے کہ جو کچھ بھی وہ کہتا ہے ؛ اس کا قول ائمہ معصومین سے ماخوذ ہے۔ اس پر مزید یہ کہ شیعہ کے یہاں اسانید متصلہ نہیں ہیں جن کو تحقیق کی کسوٹی پر رکھ کر جانچا جا سکے۔ البتہ یہ ایسے اقوال ہیں جو جھوٹ پر مشتمل اور منقطع اسناد سے روایت کیے گئے ہیں ۔ان کے ہاں نقل کرنے میں تناقض اور جھوٹ کی کثرت شہرت کی بلندیوں کو چھورہی ہے۔ تو پھر کیا کوئی عاقل ان کی باتوں کی تصدیق کرسکتا ہے۔ شیعہ کے یہاں دروغ گوئی کی فراوانی ہے، اگر وہ ان نصوص کے تواتر کا دعویٰ کریں تو کوئی چیز مخالفین کو بھی ایسے دعویٰ سے باز نہیں رکھ سکتی۔جب دوسرے لوگ بھی اسی قسم کا دعویٰ کھڑا کر دیں گے تو فریقین کے دعاوی میں کچھ فرق و امتیاز باقی نہیں رہے گا۔اگر بالفرض حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر بھی ان وجوہات کی بنا پرماننا پڑے گا کہ امامیہ کا مذہب اہل بیت سے ماخوذ نہیں ہے۔اس سے ان کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معصوم ہونے کا دعوی بھی ویسے ہی باطل ثابت ہوا؛ جیسے عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رب ہونے کا دعوی۔کیونکہ عیسائی جو تعلیمات پیش کررے ہیں وہ حضرت عیسی علیہ السلام سے ماخوذ نہیں ۔

چوتھا جواب:....شیعہ اپنے مذہب کی صداقت کے اثبات میں دو باتوں کے محتاج ہیں :

۱۔ ائمہ کی عصمت کا دعوی جن کی طرف ان کا مذہب منسوب ہے۔

۲۔ دلائل و براہین سے ائمہ سے اس نقل کو ثابت کرنا۔ شیعہ کے پاس مذکورہ بالا دونوں امور کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ۔لہٰذا دونوں باتیں باطل ٹھہریں ۔

بیشک جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام الہ اور رب نہیں ہیں ۔ بلکہ آپ ایک مہربان اور عزت والے رسول ہیں ۔ بالفرض اگر مان لیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی رب ہیں ؛ تب بھی جو کچھ عیسائی پیش کررے ہیں ‘ وہ آپ کی تعلیمات نہیں ہیں ۔اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ایک گونہ مشابہت عیسیٰ علیہ السلام کی پائی جاتی ہے:کچھ لوگوں نے آپ کو آپ کے اصلی مقام سے بہت آگے بڑھایا [یہاں تک کہ آپ کو رب بنادیا] اور کچھ لوگوں نے آپ کو آپ کے شایان شان مقام ہی نہیں دیا۔ پس یہ دوسرا گروہ یہودیوں کی طرح ہے [جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے صحیح مقام و مرتبہ کا خیال ہی نہیں کیا]؛ بلکہ آپ کو کافر اور زانیہ کی اولاد کہنے لگے۔ اور پہلا گروہ عیسائیوں کی طرح ہے جنہوں نے آپ کو ہی رب اور معبود بنالیا۔ [یہ دونوں گروہ راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں ]۔پانچواں جواب:....حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حضرت حسن اور حضرت حسین ؛ علی بن الحسین ؛ ان کے بیٹے محمد ؛ جعفر بن محمد ؛ رضی اللہ عنہم اور ان کے ابناء و احفاد کے حق میں جو مناقب و فضائل ثابت ہیں ، شیعہ مصنف نے ان کا ذکر تک نہیں کیا، البتہ کچھ جھوٹے مناقب تحریر کر دیے ہیں ، جو اس کی جہالت کی کرشمہ سازی ہے۔

شیعہ مصنف کے ذکر کردہ حسب ذیل مناقب و فضائل قابل ملاحظہ ہیں :

۱۔ شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ: آیت:﴿ہَلْ اَتٰی﴾اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی۔ حالانکہ یہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا غزوۂ بدر کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں آباد ہوئیں ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہجرت کے تیسرے سال اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ چوتھے سال پیدا ہوئے۔ یہ سورت اس سے کئی سال پہلے نازل ہو چکی تھی۔

نظر بریں شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ سورہ مذکور اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی صریح کذب ہے اور اس سے ہر وہ شخص آشنا ہے جو علم نزول قرآن اور اہل بیت کے کوائف و احوال سے معمولی واقفیت بھی رکھتا ہے۔

۲۔ جہاں تک آیت تطہیر کی تعلق ہے ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ ’’اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ(ہر قسم کی)گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔‘‘کا تعلق ہے اس میں نجاست کو دور کرنے کی خبر نہیں دی گئی، بلکہ پاکیزگی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے درج ذیل آیت میں ہے:

﴿ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ ﴾ (المائدۃ : ۶)

’’اللہ تعالیٰ تمہیں تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا بلکہ پاک کرنا چاہتا ہے۔‘‘

نیز فرمایا:﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًاo یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ﴾ (النساء:۲۶۔ ۲۸)

’’اللہ تعالی چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان کرے اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول کرے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف کر دے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔‘‘

مذکورۃ الصدرآیات میں ارادہ کا لفظ حکم دینے اور محبت و رضا کے معنوں میں استعمال اس کا ہوا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس بات کا ارادہ کیا تھا اسے عملی جامہ پہنا دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ جس کی تطہیر کا ارادہ کرتے وہ پاک و صاف ہوجاتا۔ ہمارے معاصر شیعہ کے قول کے مطابق آیت کا مطلب بالکل واضح ہے۔ ہمارے زمانہ کے شیعہ معتزلہ کے ہم خیال ہیں اور ان کی ہم نوائی میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسی باتوں کا ارادہ بھی کرتا ہے، جو عالم وجود میں نہیںآتیں ،اور ایسی باتیں بھی وجود میں آجاتی ہیں ‘ جن کا اللہ تعالیٰ کوئی ارادہ نہیں کرتا۔ ان کے خیال میں آیت قرآنی اسی قبیل سے ہے:

﴿ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ (الاحزاب ۳۳)

’’اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اے نبی کے گھر والیو! تم سے وہ(ہر قسم کی)گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔‘‘

آیت تطہیرکا مطلب یہ ہے کہ اگر اہل بیت شرعی اوامر و احکام پر عمل پیرا ہوں گے اور محرمات سے باز رہیں گے تو ان کو پاک کر دیا جائے گا۔اگر ایسا نہیں کریں گے تو انہیں پاک نہیں کیا جائے گا۔ان لوگوں [معتزلہ اور شیعہ قدریہ] کایہ بھی کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے افعال کا خالق نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو پاک کرنے اور ان سے نجاست کے دور کرنے پر قادر نہیں ہے۔ جب کہ تقدیر کا اثبات کرنے والے کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ ان تمام امور پر قادر ہے۔جب اللہ تعالیٰ انہیں افعال کا بجالانا اور ممنوعات کا ترک کرنا الہام کردے تو ان کے لیے پاکی حاصل ہوجائے گی؛ اور ان سے نجاست ختم کردی جائے گی۔

گویا ان کی تطہیر ان کے اپنے ارادوں اور افعال سے وابستہ ہے۔ وہ دلیل جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا آیت امر ہے خبر نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے حضرت علی ، فاطمہ، اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو چادر میں چھپا لیا، اور فرمایا:

’’ اے اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں تو ان سے بھی نجاست کو دور کر کے ان کو پاک کر دے۔‘‘ [صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل اھل بیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۲۴۲۴) عن عائشہ ، رضی اللّٰہ عنہا ، و مسند احمد (۶؍۲۹۲) سنن ترمذی۔ کتاب المناقب۔ باب ما جاء فی فضل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہا (ح:۳۸۶۷)و عن ام سلمۃ رضی اللّٰہ عنہا۔ کتاب تفسیر القران۔ باب و من سورۃ الاحزاب(ح:۳۲۰۵،۳۷۸۷) عن عمر بن ابی سلمۃ رضی اللّٰہ عنہ )]

[اس حدیث سے پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نجاست کو دور کرنے اور پاک و صاف کرنے پر قادر ہے۔ نیز معتزلہ کے عین برخلاف یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ افعال العباد کا خالق ہے، مندرجہ ذیل آیت سے یہ بھی امر مستفاد ہوتا ہے، کہ مذکورۃ الصدرآیت میں حکم دیا گیا ہے، خبر نہیں بیان کی گئی]۔

یہ حدیث دو وجوہات کی بناپر ردرافضیت پر دلالت کرتی ہے :

پہلی وجہ:....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طہارت اور پاکیزگی کے لیے دعا فرمائی ہے ؛ یہ دلیل ہے کہ ان لوگوں کو پاک کرنے کی ابھی تک خبر نہیں دی گئی تھی۔اگر ایسے ہی ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جاتی اور اس کا شکر بجا لایا جاتا۔محض دعاء پر اکتفاء نہ کیا جاتا۔

دوسری وجہ:....یہ دعا دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کرنے اور ان سے ناپاکی کے ختم کرنے پر قادر ہے۔اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کاخالق ہے۔اس آیت کے سیاق سے ظاہر ہوتاہے کہ آیت کریمہ امر و نہی کو متضمن ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا o وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًا o یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا o وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا o وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الْحِکْمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًاo﴾ (الاحزاب:۳۰۔۳۳)

’’اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو بھی کھلی بے حیائی(کا ارتکاب)کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی سہل(سی بات)ہے۔اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر(بھی)دوہرا دیں گے اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے۔اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ(ہر قسم کی)گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہویقیناً اللہ تعالیٰ مہربانی کرنے والا خبردار ہے۔‘‘

اس سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں امر و نہی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں ۔کیونکہ آیت کے سیاق میں ان سے ہی خطاب کیا گیا ہے۔اورآیت میں ضمیرخطاب ﴿لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ﴾ ضمیر مذکر سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کے علاوہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ابناء و احفاد بھی شامل ہیں ۔ آیت میں جمع مذکرکی ضمیر لائی گئی ہے؛ اس لیے کہ اس میں مذکر و مونث سب شامل ہیں ۔ان ازواج مطہرات کو اہل بیت میں سے ہونے کی وجہ سے خاص کیا گیاہے۔ اسی لیے باقی کے حضرات[علی و فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم ]کوچادر کے نیچے داخل کرکے ان کے لیے دعا کی گئی ۔ 

جس طرح مسجد نبوی اور مسجد قبا دونوں کی اساس خلوص و تقویٰ پر رکھی گئی تھی، بلکہ مسجد نبوی اس وصف میں افضل واکمل تھی، جب آیت قرآنی:

﴿لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَہَّرُوْا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ ﴾ (التوبہ:۱۰۸)

’’البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

نازل ہوئی تو مسجد کے لفظ سے مذکورہ دونوں مساجد کو مراد لیا جانے لگا، بلکہ مسجد نبوی اس میں بدرجہ اولی شامل ہے۔پھر علماء کرام رحمہم اللہ کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے کہ کیا آپ کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں ؟امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں منقول ہیں ۔ بروایت صحیح تر منقول ہے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

((اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّاتِہٖ )) [صحیح بخاری کتاب أحادیث الانبیاء باب (۱۰)، (حدیث:۳۳۶۹) ، صحیح مسلم۔ کتاب الصلاۃ۔ باب الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد التشھد(حدیث:۴۰۷)]

دوسرے مقام پر یہ درود تفصیل کے ساتھ ہے ۔

جب کہ ان کے غلام اور باندیاں وغیرہ بلا اختلاف اہل بیت میں سے نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ صدقہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے لیے مباح تھا۔ ابو رافع رضی اللہ عنہ کا شمار بھی آپ کے موالین میں سے ہوتا ہے۔اسی لیے انہیں صدقہ لینے سے منع کیا گیا؛ اس لیے کہ کسی قوم کے موالی انہی میں سے شمار ہوتے ہیں ۔ ان پر صدقہ حرام ہونے کا سبب بھی ان کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق پاک کرناہے۔ اس لیے کہ صدقہ لوگوں کا میل کچیل ہوتا ہے۔

اسی طرح ان کے لیے وجوب محبت کی تفسیر میں بھی غلطی ہوئی ہے۔صحیح بخاری میں حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی بابت پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ قُلْ لَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی﴾ [الشوری ۲۳]

’’ کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی ۔‘‘

تو میں نے کہا : اس سے مراد یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کا تعلق رکھنے والوں سے محبت کرو ۔‘‘

اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے : ’’ تم نے بہت جلدی کی۔ قریش کی کوئی بھی شاخ ایسی نہیں ہے جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلقِ قرابت داری نہ ہو۔[صحیح بخاری کتاب التفسیر۔ سورۃ الشوری۔ باب قولہ﴿الا المودّۃ فی القربیٰ﴾ (ح:۴۸۱۸)]

بنا بریں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ (اے نبی) آپ فرمائیں کہ میں اس کے سوا تم سے کچھ اجر طلب نہیں کرتا کہ ان قرابت دارانہ تعلقات کی بنا پر جو میرے اور تمہارے درمیان پائے جاتے ہیں تو مجھ سے الفت و محبت کا سلوک روا رکھو۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اہل بیت کے ایک بڑے فرد اور تفسیر قرآن کے علماء میں سے ہیں ۔یہ تفسیر آپ سے ثابت ہے ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں ’’ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ لِذِی الْقُرْبٰی ‘‘کے الفاظ نہیں فرمائے بلکہ یوں فرمایا ’’ فِی الْقُرْبیٰ ‘‘حالانکہ جہاں اقارب مراد لینا مقصود ہوتا ہے وہاںلِذِوی الْقُرْبیٰ ‘‘کی تصریح ہوتی ہے،کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ جب اقارب مراد تھے؛ تو یہی الفاظ استعمال کئے ؛ جیسے اس آیت کریمہ میں ہے :

﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبیٰ﴾ (الانفال:۳۱)

’’اور جان لو کہ تمہیں جو کچھ بھی مال غنیمت ملے؛ بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور قریبی رشتہ داروں کے لیے ۔‘‘ [یہاں صراحۃً یہ الفاظ موجود ہیں ۔]

اگریہاں بھی قرابت داروں کی محبت مقصود ہوتی تو ﴿ وَلِذِی الْقُرْبیٰ﴾ : کے الفاظ استعمال کیے جاتے ۔یوں تو بولا ہی نہیں جا سکتا کہ: ﴿ الْمَوَدَّۃَ فِی ذوی الْقُرْبٰی﴾۔ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ﴿ الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾سے مرادا قرابت داروں کی محبت ہے۔ اس کی مزید وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عمل پر کسی قسم کے اجر و بدلہ کے طلب گار تھے ہی نہیں ۔بیشک آپ کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے ۔ اور مسلمانوں پر لازم ہوتا ہے کہ آپ سے اور آپ کے اہل بیت سے موالات اوردوستی رکھیں ؛ لیکن اس کا ثبوت اس آیت سے نہیں دوسری آیات سے ملتا ہے ۔اہل بیت کے ساتھ ہماری دوستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجر میں داخل نہیں اس لیے آپ کہ اجر سے بے نیاز تھے اور صرف اللہتعالیٰ سے اجر طلب کیا کرتے تھے۔ 

نیز یہ آیت مکی ہے ؛ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی ہی نہیں ہوئی تھی؛ اورنہ ہی اس وقت میں ان کی کوئی کسی قسم کی اولاد تھی۔

باقی رہا آیت مباہلہ کا معاملہ ۔ صحیح بخاری میں ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے ہاتھ پکڑ لیے تاکہ ان سے مباہلہ کریں ۔[صحیح مسلم ۴؍۱۸۷۱۔ والترمذي ۴؍۲۹۳۔] انہیں خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ دوسرے لوگوں کی نسبت آپ کے زیادہ قریبی تھے۔اور آپ کی کوئی نرینہ اولاد بھی نہ تھی جس کو آپ ساتھ لیکر مباہلہ کے لیے چلتے ۔لیکن آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے : میرا یہ بیٹا سردار ہوگا۔‘‘پس یہ دونوں اور آپ کے بیٹے اور عورتیں مباہلہ کے لیے چلے۔ اس لیے کہ اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی بیٹیاں وفات پاچکی تھیں ۔ مباہلہ کا قصہ اس وقت کا ہے جب نجران کا وفد حاضر خدمت ہوا تھا۔ یہ لوگ عیسائی تھے۔یہ فتح مکہ کے بعد سنہ ۹ہجری کا قصہ ہے۔ اسی بارے میں سورت آل عمران کے شروع کی آیات نازل ہوئیں ۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حج فرض کیاگیا۔اس سال کو وفود کا سال بھی کہا جاتا ہے ۔ جب سن آٹھ ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوا تو ہر طرف سے وفود آنے شروع ہوگئے۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کمالِ تعلق و صلہ پر دلالت کرتی ہے۔جیسا کہ اس قسم کی دلالت حدیث کساء میں بھی ہے۔ لیکن اس آیت کاتقاضا یہ بھی نہیں ہے کہ ان سے بڑھ کر کوئی بھی دوسرا افضل یا بڑا عالم نہ ہو۔ اس لیے کہ فضیلت کمال ایمان اور تقوی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ نہ کہ نسبی قرابت کی وجہ سے ۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿ اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ﴾ [الحجرات۱۳]

’’ بیشک اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ؛ جوتم میں سے بڑا متقی ہو۔‘‘

اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس امت میں سب سے بڑے متقی اور کتاب و سنت کے بڑے عالم تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ منقول ہے آپ نے فرمایا:

’’ اگر میں نے اہل زمین میں سے کسی کو اپنا دوست بنانا ہوتا تو میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا دوست بناتا۔‘‘[البخاري ۱؍۸۶۔ ومسلم ۴؍۱۸۵۴۔]

یہ مسئلہ دوسری جگہ پر پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک ہزار رکعات؟:

[اشکال ]: شیعہ مصنف کا یہ دعویٰ کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ شب و روز میں ایک ہزار رکعات پڑھا کرتے تھے۔‘‘

[جواب]: ایسا کہنا درست نہیں ۔ یہ دعوی مصنف کی جہالت اور حقائق سے لاعلمی پر دلالت کرتاہے۔

پہلی بات :....[یہ کہنا کہ ]آپ ایک را ت میں ایک ہزار نفل پڑھا کرے تھے ۔یہ کوئی فضیلت نہیں ہے ۔ اس کے عین بر خلاف صحیحین میں ثابت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر میں ۱۳ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔[البخاري ۲؍۵۱؛ مسلم ۱؍۵۰۸۔]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’ سب سے بہترین قیام حضرت داؤد علیہ السلام کا تھا۔ آپ آدھی رات تک سوئے رہتے ۔ پھر ایک تیسرا حصہ قیام فرماتے ۔ اور پھر رات کا چھٹا حصہ سو جاتے۔‘‘[مسلم ۲؍۸۱۶۔ البخاري ۴؍۱۶۱؛ کِتاب الأنبِیائِ: باب: أحب الصلاِۃ ِإلی اللہِ صلاۃ داود ونصہ: أحب الصِیامِ إِلی اللہِ صِیام داود، کان یصوم یوما ویفطِر یوما، وأحب الصلاِۃ إِلی اللہِ صلاۃ داود، کان ینام نِصف اللیلِ ویقوم ثلثہ، وینام سدسہ۔]

نیز یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صبح کو مرغ کی آذان سننے کے بعد بیدار ہوا کرتے تھے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ لوگوں کے بارے میں خبر ہوئی کہ:

’’ ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، تیسرے نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا اور عورت سے ہمیشہ الگ رہوں گا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : کیا تم لوگوں نے یوں یوں کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں ، پھرمیں روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، یاد رکھو جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں ۔‘‘[صحیح بخاری۔ کتاب التہجد۔ باب کیف صلاۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۱۱۳۸، ۱۱۴۰)، صحیح مسلم۔ کتاب صلاۃ المسافرین۔ باب صلاۃ اللیل (ح:۷۳۷،۷۳۸، ۷۶۴)]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات کے قیام کو ناپسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں : میں دن کو روزہ رکھا کروں گا اور رات کو قیام کیا کروں گا تو آپ ان سے یوں مخاطب ہوئے:

’’ ایسا نہ کرنا۔اگر تم ایسا کرو گے توتیری آنکھوں میں گڑھے پڑ جائیں گے اور بدن کمزور ہو جائے گا۔ اور بیشک تیرے رب کا تجھ پر حق ہے ‘ اور تمہاری جان کا تم پر حق ہے؛ تمہاری ملاقات کے لیے آنے والے کا تم پر حق ہے۔ اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔پس ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو۔‘‘ [صحیح بخاری کتاب الصوم۔ باب حق الجسم فی الصوم، (حدیث:۱۹۷۵) صحیح مسلم۔ کتاب الصیام، باب النہی عن صوم الدھر،(حدیث:۱۱۵۹)]

پس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساری ساری رات عبادت کرنا مستحب یا پسندیدہ نہیں ہے۔بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سنتوں کی روشنی میں ایسا کرنا مکروہ ہے۔ ایسے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روزہ رکھنے کا حکم بھی ہے۔بیشک افضل ترین روزے حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے تھے ۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کیا کرتے تھے۔

احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب و روز میں تقریباً چالیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کار سے بخوبی آگاہ تھے،اور بڑھ چڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پابندی کرنے والے تھے ۔ آپ سے سنت کی مخالفت ممکن ہی نہیں ۔ پھر اس حد تک وہ آپ کی مخالفت کیوں کر کر سکتے تھے، بشرطیکہ ایک ہزار رکعات ادا کرنا ممکن بھی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایک ہزار رکعات پڑھنا ممکن ہی نہیں ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مختلف قسم کے مشاغل میں گھرا رہتا ہے، جسم کی راحت و آرام سونا، کھانا پینا، وضو کرنا، وظیفہ زوجیت ادا کرنا، اہل و عیال کی دیکھ بھال کرنا، رعیت کے امور سے عہدہ بر آہونا، غرض یہ کہ دسیوں قسم کے لوازمات ہیں جن پربلا مبالغہ انسان کا نصف وقت صرف ہوجاتا ہے، ایک گھنٹہ میں اسی رکعات ادا نہیں کی جا سکتیں ، بجز اس کے کہ صرف سورہ فاتحہ پڑھی جائے اور وہ بھی بلا سکون و اطمینان کوے کی طرح ٹھونگیں ماری جائیں ۔ہمارے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ آپ نماز میں منافقوں کی طرح ٹھونگے مارنے لگیں اور اللہ کو بہت کم یاد کریں ، جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ منافق کی نماز ہے کہ سورج کو بیٹھے دیکھتا رہتا ہے جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان میں ہوتا ہے تو کھڑا ہو کر چار ٹھونگیں مارنے لگ جاتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا مگر بہت تھوڑا۔‘‘ [صحیح مسلم:ح۱۴۰۷؛ کتاب المساجِدِ ومواضِعِ الصلاِۃ فِیہا، باب استِحبابِ التبکِیرِ بِالعصرِ سننِ ابِی داود:۱؍۱۶۷، کتاب الصلاِۃ، باب فِی صلاِ ۃ العصرِ، سننِ التِرمِذِیِ:۱؍۱۰۷؛ِکتاب الصلاِۃ، باب ما جاء فِی تعجِیلِ العصرِ؛ سننِ النسائِیِ: ۱؍۲۰۳؛ ِکتاب المواقِیتِ، باب التشدِیدِ فِی تأخِیرِ العصرِ ، المسندِ ط۔ الحلبِیِ: ۳؍۱۴۹۔ ]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوّے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے منع فرمایا ہے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس قسم کی حکایات نقل کرنا مصنف کی جہالت کا آئینہ دار ہے۔پھر راتوں کو تہجد پڑھنا اور ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔ اور آپ کی تہجد گزاری اور تلاوت قرآن صاف ظاہر ہے ۔

انفس سے کیا مراد ہے؟ :

[اشکال ]: شیعہ مصنف کہتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ترین ہستی ہیں ۔‘‘ 

[جواب]: یہ فقط خالی [اور خیالی ]دعوی ہے ؛ جس میں اگلے اور پچھلے جمہور مسلمین کی مخالفت کی گئی ہے۔ [شیعہ کے پاس اس کی کوئی مستند دلیل نہیں ہے ؛ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کو اپنے سے افضل مانتے تھے ]۔ 

[اشکال ]: شیعہ کا قول کہ : اللہ نے آپ کی ذات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات قرار دیااور فرمایا: ﴿وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ﴾ ’’اور ہمارے نفسوں کو اورتمہارے نفسوں کو ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھائی بنا لیاتھا۔‘‘

[جواب] :[مذکورہ]حدیث مواخات سند کے اعتبار سے موضوع ہے؛ اس لیے کہ آپ نے کسی کو بھائی نہیں بنایا۔ مزید برآں مواخات کا رابطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کے درمیان آپس میں یا انصار کے مابین استوار نہیں تھا بلکہ مہاجرین و انصار کے درمیان تھا؛ جیسا کہ آپ نے سعد بن ربیع اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔اور سلیمان الفارسی اور ابو درداء رضی اللہ عنہما کے مابین ؛ جیسا کہ صحیحین میں ثابت ہے۔[البخارِی: ۵؍۳۱۳۲، کتاب مناقِبِ الأنصارِ، باب إِخائِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بین المہاجِرِین والأنصارِ:۵؍۶۹؛ کتاب مناقِبِ الأنصارِ،باب کیف آخی النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بین أصحابِہِ۔ مسلِم:۴؍۱۹۶۰؛ کتاب فضائِلِ الصحابۃِ، باب اخائِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بین صحابِہِ۔ سننِ التِرمِذِیِ: ۴؍۲۳ کتاب الزہدِ، باب: ۴۸۔]

[باقی رہا]شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ سورہ آل عمران کی آیت ﴿ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ﴾ (آل عمران:۶۱) میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نفس رسول قرار دیا گیا ہے؛ بالکل غلط ہے۔اس آیت میں انفس کا لفظ اسی طرح استعمال کیا گیا ہے کہ جس طرح مندرجہ ذیل آیات میں ۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ لَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا﴾ (النور:۱۲)

’’اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی ۔‘‘

یہ آیت کریمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت میں قصہ افک میں نازل ہوئی۔یہاں پر مؤمنین میں سے کسی بھیمؤمن مرد یا عورت کو دوسرے مؤمن کی ذات [نفس]سے تعبیر کیا گیا ہے۔[البخارِیِ:۵؍۱۱۶ قالت عائِشۃ: کان رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أراد سفرا أقرع بین أزواجِہِ، ....۔والحدِیث فِی: البخارِیِ:۳؍۱۷۳؛ کتاب الشہاداتِ، باب تعدِیلِ النِسائِ بعضِہِن بعضا، مسلِم:۴؍۲۱۲۹، ۲۱۳۸، کتاب التوبۃ، باب فِی حدِیثِ الِفۃِ ، المسند ط۔الحلبِی: ۶؍۱۹۴، ۱۹۷۔]

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ فَتُوْبُوْ آاِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ﴾ (البقرہ:۵۳)

’’ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو۔‘‘

یعنی آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو۔[دیکھو: تفسیر الطبری ط: المعارف ؛ ۲؍۷۲۔ اثر نمبر۹۳۴ ۔ ]نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ لَا تَسْفِکُوْنَ دِمَآئَ کُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ ﴾ (البقرہ:۸۳)

’’اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا(قتل نہ کرنا)اورایک دوسرے کو جلاوطن مت کرنا۔‘‘

یعنی آپس میں ایک دوسرے کو اپنے شہروں سے نہ نکالنا ۔یہاں پر انفس [نفوس ] سے مراد اپنے بھائیوں کے نفس ہیں ؛ خواہ یہ بھائی چارہ نسبی ہو یا دینی ۔ ان آیات میں انفس سے نسبی یا دینی بھائی مراد ہیں ۔[اس آیت :﴿انفسنا و أنفسکم ﴾کی تفسیر کے لیے شیعہ علماء کی تفاسیر بھی دیکھیں ؛ ان سے یہ کلام ڈاکٹر احمد صبحی نے اپنی کتاب ’’شیعہ اثنا عشریہ اور نظریہ امامت ‘‘ ص ۲۷۷ پر نقل کیا ہے۔ ]

سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا:((اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ )) [صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب کیف یکتب ھذا ما صالح فلان (حدیث: ۲۶۹۹)، مطولاً ]

’’تم مجھ سے ہو ‘اور میں تجھ سے ہوں ۔‘‘

نیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی غزوہ کے دوران جب قبیلہ اشعر کے لوگوں کا توشہ ختم ہوجاتا ہے تو وہ اپنے باقی ماندہ توشہ کو ایک چادر میں جمع کر کے اسے برابر برابر تقسیم کر لیتے ہیں اس لیے یہ میرے ہیں اور میں ان کاہوں ۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الشرکۃ۔ باب الشرکۃ فی الطعام والنھد(حدیث:۲۴۸۶) صحیح مسلم۔کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل الاشعریین رضی اللّٰہ عنہم( حدیث: ۲۵۰۰)]

سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جلبیب رضی اللہ عنہ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کی وجہ یہ تھی کہ صحابی حضرت جلبیب رضی اللہ عنہ ایک غزوہ میں گم ہوگئے اور آپ نے ان کو تلاش کرنے کا حکم دیا، تلاش کرنے پر آپ کی نعش ملی، سات مشرکین آپ کے ارد گرد مقتول پڑے تھے، ان کو ٹھکانے لگانے کے بعد آپ نے جام شہادت نوش کیا، یہ منظر دیکھ کر آپ نے ان کے حق میں دعائے خیر کی، نیز فرمایا: ’’ ھٰذَا مِنِّی وَاَنَا مِنْہُ ‘‘ ]کے بارے میں فرمایا:

((ھٰذَا مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ۔))یہ دونوں رواتیں صحیح ہیں ۔[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ ۔ باب من فضائل جلبیب رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۲۴۷۲)۔] ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موجود ہے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح:

اس میں شبہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکاح سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی عظمت و فضیلت کا موجب ہے، جس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی دونوں بہنوں کے ساتھ (یکے بعد دیگرے) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے باعث فضیلت ہے، اور نبی کا عقد مبارک حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بیٹیوں کے ساتھ ان دونوں کی عزت افزائی کا موجب ہے، خلاصہ کلام یہ کہ چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ مصاہرت[سسرالی] میں جکڑے ہوئے تھے۔

[اشکال ]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت سے معجزات صادر ہوئے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]:اگر معجزات کے لفظ سے شیعہ مصنف کرامات مراد لیتا ہے جیسا کہ لوگ یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں ‘ تو اس میں شبہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت سے صاحب کرامات اولیاء سے افضل تھے۔اورکرامات بہت سے ان اہل سنت والجماعت عوام سے بھی ثابت ہیں جو حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کوحضرت علی رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے ہیں ۔توپھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کرامات کیسے ثابت نہیں ہوسکتیں ؟ اور صرف کرامات کا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ سے دوسرا کوئی افضل نہیں ہے ۔ 

[حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق دعویء ربوبیت]:

[اشکال ]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’بہت سے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ربوبیت کا دعویٰ کیا اور آپ نے انہیں قتل کروا دیا۔‘‘

[جواب]:یہ عقیدہ جہالت کی انتہاء ہے۔اس کی کئی ایک وجوہات ہیں :

پہلی وجہ:....سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات بہر حال اکثر و اعظم تھے اور اللہ کا شکر ہے کہ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے آپ کو رب قرار نہ دیا۔

دوسری وجہ:....حضرت ابراہیم اورموسی رحمہم اللہ کے معجزات بہت بڑے اور بہت زیادہ ہیں ؛ لیکن ان میں سے بھی کسی ایک کو رب نہیں قرار دیا گیا ۔

تیسری وجہ:....ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسی علیہ السلام کے معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے بہت زیادہ ہیں مگر پھر بھی ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی رب نہیں مانا گیا جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں لوگوں نے غلو کیا۔

چوتھی وجہ:....حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں بڑے زور وشور سے رب ہونے کا دعوی کیاگیا ؛ ایسا دعوی محمد ‘ ابراہیم اور موسی علیہم السلام کے بارے میں نہیں کیا گیا ؛ مگر پھر بھی کسی نے نہیں کہا کہ حضرت مسیح ابراہیم اور موسی علیہم السلام سے افضل ہیں ۔ اور نہ ہی یہ دعوی کیا کہ آپ کے معجزات ان سے بڑھ کر اور زیادہ زوردار ہیں ۔پانچویں وجہ:....ان دونوں کے متعلق رب ہونے کا دعوی باطل ہے۔ اس کے مقابلہ میں بھی ایک باطل دعوی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کا دعوی ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق خوارج کا دعوی ہے۔خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر کہتے ہیں ۔اگر قوت ِ شبہ کی بنا پر آپ کے متعلق یہ دعوی کرنا جائز ہوسکتا ہے کہ آپ رب ہیں تو پھر قوت شبہ کی بناپر خوارج کا دعوی بھی صحیح ہوسکتا ہے۔اور یہ کہنا بھی جائز ہوسکتا ہے کہ آپ سے کچھ ایسی خطائیں ہوگئی تھیں جن کی بنا پر خوارج نے آپ کوکافر کہا۔ اور خوارج ان لوگوں سے بڑھ کر دین دار اور عالم تھے جنہوں نے آپ کے رب ہونے کا دعوی کیا تھا۔اگر ایسے دعووں کو دلیل بنانا اور انہیں منقبت شمار کرنا جائز ہے؛ تو پھر آپ سے بغض رکھنے والوں اور خوارج کا دعوی بھی اس سے کئی درجہ زیادہ قوی ہے ۔ اس بارے میں رافضی غالی خوارج کا مقابلہ کہاں کرسکتے ہیں ؟

خوارج لوگوں میں سب سے زیادہ نمازی ؛ روزہ دار اورقرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ان کے اپنے لشکر اور فوجیں تھیں ۔وہ ظاہری اور باطنی طور پر دین اسلام کے دعویدار تھے۔ جب کہ ان کے مقابلہ میں غالی رافضی یا تو لوگوں میں سب سے بڑے جاہل ہوا کرتے تھے یا پھر سب سے بڑے کافر ۔ امامیہ غالیہ کے کافر ہونے پر تمام لوگوں کا اجماع ہے۔ جب کہ خوارج کو وہی لوگ کافر کہتے ہیں جو امامیہ کو بھی کافر کہتے ہیں ۔ بلکہ خوارج امامیہ سے بہت بہتر ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کو کافر نہ کہتے تھے۔ اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک پر قدرت پاکر اسے قتل کرنے کا حکم دیتے ۔جس طرح غالیہ کو آگ میں جلانے کا حکم دیا تھا۔بلکہ انہیں اس وقت تک قتل نہیں کیا گیا جب تک انہوں نے عبد اللہ بن خباب کو قتل نہ کیا اور لوگوں پر شب ِ خون نہ مارا۔

صحابہ کرام ‘ علماء امت اور دیگر کے اجماع سے ثابت ہے کہ خوارج غالیہ شیعہ سے بہت بہتر اور افضل ہیں ۔ پھر اس کے باوجود اگر شیعہ کے لیے جائز ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق غالیہ کے دعوی الوہیت کو آپ کی فضیلت میں حجت تسلیم کریں تو پھر شیعان عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں کے لیے جائز ہے کہ وہ خوارج کے دعوی کفر کو بھی دلیل بنالیں ۔پس معلوم ہوا کہ ایسے دلائل سے صرف جاہل لوگ ہی حجتیں پکڑتے ہیں ۔پھر یہی دلیل ان پر حجت بن جاتی ہے ‘ ان کے حق میں نہیں رہتی۔ اسی لیے لوگ جانتے تھے کہ رافضی نواصب سے بڑے جاہل اور جھوٹے ہوا کرتے ہیں ۔

[حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما اور جہاد فی سبیل اللہ]:

[اشکال ]: آپ کے دوبیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے؛ جو کہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔ اور وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح اور واضح حکم کے مطابق امام تھے۔‘‘

[جواب] : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا:

’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اورعنقریب اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[صحیح بخاری، حوالہ سابق(ح:۳۶۲۹) ۔]صحیح احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ رضی اللہ عنہ آپ کو ایک ران پر بٹھاتے اور اسامہ بن زید کو دوسری ران پر بٹھاتے اور فرمایا کرتے تھے :

’’ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ‘ تو بھی ان دونوں سے محبت کر۔ او ران لوگوں سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کریں ۔‘‘ [المسند ۵؍۲۰۵؛ فضائل الصحابۃ ۲؍۷۶۸؛ ح:۱۳۲]

اس سے ظاہر ہوا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت کے مسئلہ پر جو جنگ ترک کی ؛ اور مسلمانوں کے درمیان صلح کروائی ؛ تویہ امر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا؛یہ کوئی معصیت نہ تھی۔ بلکہ جنگ و قتال کی نسبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوب ترین چیز تھی۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے اور اسامہ سے محبت کااظہار کیا ‘ ان دونوں کے لیے دعا بھی فرمائی۔یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں حضرات جنگ و قتال اور فتنہ کو نا پسند کرتے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو جنگ و قتال میں حصہ ہی نہیں لیا ؛ نہ ہی آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا اور نہ ہی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے والد محترم کو جنگ بند کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔

یہ رافضیوں کے عقیدہ اور دعوی کے الٹ ہے۔ اس لیے کہ وہ صلح کو مصیبت اور ذلت شمار کرتے ہیں ۔ اگر اس وقت کوئی امام معصوم ہوتا توہر ایک پر اس کی اطاعت واجب ہوتی۔اور جو کوئی اس معصوم کے علاوہ کسی دوسرے کو امام بناتا تو اس کی امامت وولایت باطل ہوتی۔نہ ہی اس کے ساتھ جہاد کرنا جائز ہوتا اور نہ ہی اسکے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہوتی ۔ تو پھر اس صورت میں یہ صلح امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے بڑے مصائب میں سے ایک ہوتی۔ اور اس کی وجہ سے ان لوگوں کا دین فاسد ہوجاتا ۔

توپھر اس صلح میں کونسی ایسی فضیلت تھی جس پر رافضہ ان کی تعریف و ثنا بیان کرتے ہیں ۔بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ آپ کو کمزوری کی وجہ سے جنگ کرنے سے معذور سمجھا جاتا۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو صلح کی وجہ سے قابل تعریف سردار قراردیا ہے ‘ عاجز اور معذور نہیں کہا۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لڑائی سے نہ ہی عاجز آگئے تھے اور نہ ہی کمزور پڑے تھے۔بلکہ آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر قتال پر قادر تھے ؛ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس وقت تک جنگ کی حتی کہ آپ کو شہید کردیا گیا۔جوکچھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کیا اگر ایسا کرنا افضل اور واجب ہوتا تو پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ اس واجب کو ترک نہ کرتے اور کمزوری کی وجہ سے پیچھے نہ ہٹتے۔اور اگر جوکچھ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا تھا؛ وہی افضل اور زیادہ مناسب تھا تو یہ دلیل ہے کہ جنگ کو ترک کرنا اور صلح کرلینا ہی افضل تھا۔اور جو کچھ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب اور پسندیدہ تھا۔ اور اللہ تعالیٰ اہل تقو ی مؤمنین کے درجات کو آپس میں ایک دوسرے پر بلند کرتا ہے۔ اوریہ سب کے سب جنت میں ہوں گے۔ رضی اللہ عنہم ۔

پھر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو امام بنایا تھا ؛ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کو امام بنانا کیا معنی رکھتا ہے ؟ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوامام مقرر کرنا معنی رکھتا ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اورحضرت حسین رضی اللہ عنہ اس دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خوشبودار پھول تھے۔اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو ان کے والدین کے ساتھ اپنی چادر میں داخل کیا تھا اور دعائی فرمائی تھی:

’’ اے اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ۔ ان سے ناپاکی کو دور کردے ؛ اور انہیں ہر طرح سے پاک کردے ۔‘‘

مباہلہ کے وقت آپ نے ان دونوں کو بھی ساتھ بلایا تھا۔ ان کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔اور آپ اہل ایمان کے بڑے جلیل القدر سرداروں میں سے ہیں ۔باقی رہا یہ دعوی کرناکہ یہ دونوں اپنے زمانے کے سب سے بڑے زاہد اور سب سے بڑے عالم تھے ؛ یہ دعوی بغیر دلیل کے ہے۔

[رافضی کا دعوی جہاد]

[اشکال ]: رافضی کا کہنا ہے : ’’ ان دونوں نے اللہ کی راہ میں حق کیساتھ جہاد کیاحتی کہ شہید کردیے گئے ۔‘‘ 

[جواب]: ان دونوں کے متعلق یہ دعوی جھوٹ ہے۔کیونکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ یہ تمام معاملات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تفویض کرکے خود کنارہ کش ہوگئے تھے۔اس کے ساتھ ہی عراقی لشکر بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلے گئے ۔ آپ جنگ و قتال کو ہر گز پسند نہیں کرتے تھے یہ بات آپ کی سیرت سے صاف ظاہر ہے۔ 

آپ کی موت کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کو زہر دیکر مارا گیا۔یہی آپ کی شہادت اور آپ کے حق میں کرامت ہے۔لیکن آپ کی موت قتال کرتے ہوئے نہیں آئی۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی جنگ و قتال کے لیے نہیں نکلے تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ لوگ آپ کی اطاعت کریں گے۔ جب آپ نے دیکھا کہ لوگ آپ سے منہ موڑ چکے ہیں تو آپ نے تین مطالبات کیے :

۱۔ آپ کو واپس اپنے وطن جانے دیا جائے۔

۲۔ آپ کو محاذ جنگ پر جانے دیا جائے تاکہ دشمن سے جہاد کرسکیں ۔

۳۔ یا پھر آپ کو یزید کے پاس پیش ہونے دیا جائے۔

پس ان ظالموں نے ان تینوں میں سے ایک بات بھی نہ مانی ؛ بلکہ آپ سے گرفتاری پیش کرنے مطالبہ کیا تاکہ آپ کو قیدی بناکر یزید کے سامنے پیش کیاجائے۔ آپ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ‘ یہاں تک لڑتے ہوئے مظلومیت کے ساتھ شہید ہوگئے۔لیکن شروع میں آپ کا ارادہ ہر گز جنگ کرنے کا نہیں تھا۔

[اشکال ]:رافضی کا کہنا کہ : ’’ آپ فاخرانہ لباس کے نیچے اونی لباس پہنا کرتے تھے ۔‘‘ 

[جواب]:یہ قول بھی بالکل ویسے ہی ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ ایک رات میں ایک ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے۔ اس میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔اس لیے کہ کاٹن کے فاخرانہ لباس کے نیچے اونی لباس پہننے میں اگر کوئی فضیلت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اپنی امت کی اس طرف رہنمائی فرماتے ۔ یا آپ خود ایسا کرتے ؛ یا پھر ایسا کرنے کا حکم دیتے ؛ یا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کے عہد مبارک میں ایسا کیا ہوتااور آپ نے اسے برقرار رکھا ہوتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا ؛ اورنہ ہی ایسا کرنے کا حکم دیا؛ اور نہ ہی آپ کے عہد مبارک میں صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے ایسے کیا۔تو ظاہر ہوا کہ اس فعل میں فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں اپنے عام لباس کے اوپر اونی جبہ پہنا تھا۔صرف اونی جبہ پہننے میں کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کہا گیا : کچھ لوگ اونی لباس پہنتے ہیں ‘ اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اونی لباس پہنا کرتے تھے ۔ تو آپ نے فرمایا: ہمارے لیے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ دوسروں کے طریقوں سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ ہے۔

علمائے کرام رحمہم اللہ کے مابین اختلاف ہے کہ کیااقامت کی حالت میں بغیر ضرورت کے اونی لباس پہننا مکروہ ہے یا نہیں ؟ جب کہ سفر میں اونی لباس پہننا اچھی بات ہے‘ اس لیے کہ سفر میں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔

پھر اگر مان لیا جائے کہ اونی لباس پہننا اطاعت گزاری اور قربت کاکام ہے۔توپھر اس صورت میں اونی لباس کو تواضع کے اظہار کے لیے فاخرانہ لباس کے نیچے چھپا کر پہننے کے بجائے اس کے اوپر پہننا افضل اور بہتر تھا۔ اس لیے کہ اندر میں اونی لباس پہننے میں صرف نفس کے لیے بلا فائدہ تکلیف ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اسی چیز کا حکم دیا ہے جو ان کے لیے زیادہ نفع بخش اور سہل ہو۔انہیں کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دیا جس میں ان کے نفس کے لیے عذاب تو ہو مگر کوئی فائدہ نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے :

’’ اللہ تعالیٰ انسان کے اس کے نفس کو عذاب دینے سے بے پرواہ و بے نیاز ہے۔ ‘‘[سنن ابي داؤد ۳؍۳۱۹؛ ِکتاب الإیمان ِ والنذورِ، باب من رأی علیہِ کفارۃ إِذا کان فِی معصِیۃ۔ وجاء الحدِیث مختصرا فِی: البخارِی:۸؍۱۴۲؛ کتاب الإیمانِ والنذرِ، باب النذرِ فِیما لا یملِکہ وفِی معصِیۃ۔وجاء مطولا فِی: سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۴۶ کتاب الإیمانِ والنذورِ، باب فِیمن یحلِف بِالمشیِ ولا یستطِیع ، المسندِ ط۔الحلبِی: ۳؍۱۰۶۔]

[حضرت ابراہیم اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما ]

[اشکال ]: رافضی مضمون نگار رقم طراز ہے: ’’ایک روز سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے آپ کا لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ گود میں تھا، اسی اثناء میں حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا کہ اللہتعالیٰ حسین و ابراہیم کو جمع نہیں ہونے دے گا، اس لیے آپ جس کو چاہیں پسند فرمائیں ، آپ نے فرمایا: حسین رضی اللہ عنہ کی موت کی صورت میں علی و فاطمہ اور میں تینوں روئیں گے اور اگر ابراہیم موت سے ہم کنار ہوا تو میں اکیلا آہ و بکا میں مبتلا ہوں گا، اس لیے میں ابراہیم کی موت کو ترجیح دیتا ہوں ۔‘‘ چنانچہ تین دن کے بعد ابراہیم فوت ہوگئے۔اور اس کے بعد جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ تشریف لاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :’’ مرحباً اور خوش آمدید جس کے بدلے میں نے اپنے بیٹے ابراہیم کا فدیہ پیش کیا ہے ۔‘‘

[جواب]: ہم کہتے ہیں : یہ روایت کسی بھی قابل اعتماد اہل علم نے نقل نہیں کی۔نہ ہی اس کی کوئی معروف سند ہے؛اورنہ ہی معروف کتب حدیث میں اس روایت کا کوئی نام و نشان ملتا ہے۔اس حکایت کو نقل کرنے والے نے اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی اورنہ ہی اسے کسی معروف کتاب کی طرف منسوب کیا ہے۔ بلکہ شیعہ مصنف نے اپنی عادت کے مطابق ایک بے سند بات کی ہے اور بہت گھٹیا قسم کا جھوٹ بولاہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ منقولات میں سچی اور جھوٹی روایت میں فرق اس کی اسناد کی بنا پر ہوتا ہے ۔ورنہ یہ بھی محض ایک جھوٹا دعوی ہے ؛کئی ایک لوگوں نے اس طرح کے دیگر بھی دعوے کر رکھے ہیں۔

پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ:اس روایت کے جھوٹ ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔

اس قسم کی باتیں جاہل لوگ کیا کرتے ہیں ، بھلاحضرت ابراہیم و حسین رضی اللہ عنہما کو جمع کرنے میں کونسا نقصان ہے جو حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو جمع کرنے میں نہیں ۔ اگر حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی موت ابراہیم کی موت سے بڑھ کر تھی تو پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی زندگی بھی ان سے بہت زیادہ بڑھ کر ہوتی۔ حالانکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ زندہ رہے ۔

نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق باقی لوگوں کے حق سے بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر ہے ۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی جان سے بڑھ کر محبوب ہیں ۔ اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کرتے تھے۔ تو اس صورت میں اگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ مر جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سے بہت زیادہ روتے جتنا وہ اپنے بیٹے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر روتے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ بیٹے کی محبت طبعی ہوتی ہے ؛ جس کو ختم کرنا ممکن نہیں ۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہی وصف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں موجود ہے۔ جب ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو آپ فرما رہے تھے :

’’آنکھ رو رہی ہے ۔ دل غمگین ہے ۔ اور ہم زبان سے صرف وہی کہیں گے جس سے ہمارا اللہ راضی ہوجائے۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں ۔‘‘[البخارِیِ:۲؍۸۳؛ ِکتاب الجنائِزِ، باب قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنا بکِ لمحزونون ۔مسلِم:۴؍۱۸۰۷؛ ِکتاب الفضائِلِ، باب رحمتِہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصِبیان والعِیال وتواضعِہ، سنن أبِی داود:۳؍۲۶۲؛ ِکتاب الجنائِزِ، باب فِی البکائِ علی المیِتِ، وعن أسماء بِنتِ یزِید حدِیث مقارِب فِی المعنی فِی: سننِ ابنِ ماجہ:۱؍۵۰۶؛ کتاب الجنائِزِ، باب ما جاء فِی البکائِ علی المیِتِ۔]

یہ تو صحیح احادیث میں ثابت ہے ۔ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی ؛ اور ان کی جگہ اپنے بیٹے کی موت کو اختیار کیا؟

پھر کیا یہ بھی جائز ہے کہ ایک معصوم انسان کے بدلے کسی دوسرے معصوم کے خون کا بدلہ پیش کیا جائے؟

اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو اس کا الٹ کرنا زیادہ مناسب تھا۔ اس لیے کہ اگر کسی انسان کے پاس کچھ بھی نہ ہو صرف اتنا خرچہ ہو جو یا تو اپنے بیٹے پر خرچ کرے یا پھر اپنے نواسے وغیرہ پر خرچ کرے؛ تو باتفاق مسلمین اس پر اپنے بیٹے پر خرجکرنا واجب ہوتا ہے۔ اس اصول کے پیش نظر اگر واقعی ایسے ہی ہوتا کہ اپنے بیٹے یا نواسے میں سے کسی ایک کی موت کو اختیار کیا جائے تو آپ کو چاہیے تھا کہ اپنے بیٹے کا خیال رکھتے۔ خصوصاً جب کہ شیعہ کے ہاں اصل تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت ہے۔ اور حضرت علی اور حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے بڑے فضائل میں سے ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کو شمار کرتے ہیں ۔

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ باقی لوگوں کی نسبت بیٹے کا رشتہ زیادہ قریبی ہوتا ہے۔تو پھر دور کے رشتہ کو قریبی رشتہ پر مقدم کیسے کیا جاسکتاہے ؟ جب کہ فضیلت اور خصوصیت توقرابت میں ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے ہونے کو تسلیم کرلیا جاتا تو پھر آپ کے بعد ابراہیم رضی اللہ عنہ زندہ رہتے۔ دوسرے لوگوں نے حضرت انس کے ساتھ اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا آپ کے بعد بھی کسی نبی کو پیدا کرنے کا ارادہ ہوتا تو اس کے لیے ضروری نہیں تھا کہ ابراہیم ہی نبی ہوتا۔

پھر یہ کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا فدیہ کیوں قرار پائے حضرت حسن رضی اللہ عنہ یہ فدیہ کیوں نہیں بنے ؟ جب کہ احادیث میں واضح دلالت موجود ہے کہ ان دونوں بھائیوں میں سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ افضل تھے۔ اس پر تمام شیعہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے ۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے :

’’ اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں ‘ تو بھی اس سے محبت کر ؛ اور اس سے بھی محبت کر جو کوئی اس سے محبت کرے ۔‘‘[البخارِی:۷؍۱۵۹؛ کتاب اللِباسِ، باب السِخابِ لِلصِبیان۔ مسلِم: ۴؍۱۸۸۳؛ کتاب فضائِلِ الصحابۃِ، باب فضائِلِ الحسنِ والحسینِ رضی اللہ عنہما ، سننِ ابنِ ماجہ:۱؍۵۱المقدِمۃ، باب:۱۱، المسندِ ط۔المعارِف: ۱۳؍ ۱۲۹، المسندِ ط۔ الحلبِی: ۲؍۳۳۱۔]