Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت اور ابن مطہر کے خیالات پررد:

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت اور ابن مطہر کے خیالات پررد:

[اعتراض]:شیعہ مصنف کا قول ہے کہ ’’ اہل سنت کے نزدیک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس لیے خلیفہ منتخب ہو گئے تھے کہ چار صحابہ کے ایماء سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔‘‘

[جواب] :[ہم جواباً کہتے ہیں کہ: یہ بالکل غلط بات ہے۔]یہ ائمہ اہل سنت والجماعت کا قول نہیں ہے ۔اگرچہ بعض اہل کلام ایسا کہتے ہیں کہ : چار اشخاص کے بیعت کرنے سے امامت منعقد ہو جاتی ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : دو افراد کے بیعت کرنے سے ؛ اور بعض کے نزدیک ایک انسان کے بیعت کرنے سے امامت منعقد ہو۔ جاتی ہے۔

مگر یہ تمام حقیقت میں اہل سنت و الجماعت کے اقوال نہیں ہیں ۔ اہل سنت کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ امامت و خلافت کا اصلی مقصود قوت و اقتدار کا حصول ہے لہٰذا جب اصحاب قوت و شوکت کسی شخص کی خلافت پر متفق ہو جائیں تو اس کی خلافت منعقد ہو۔ جائے گی۔اس لیے اہل سنت والجماعت کہتے ہیں :

’’ جو شخص قوت و شوکت حاصل کر لے جس کی بنا پر وہ مقاصد خلافت کی تکمیل کر سکتا ہو، تو وہ ان اولی الامرحکام میں شمار ہوگا جو واجب الاطاعت ہیں جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی معصیت کا حکم صادر نہ کرے۔ نظر بریں خلافت ملوکیت و سلطنت کا نام ہے نیک ہو یا بد کوئی شخص صرف تین یا چار آدمیوں کی موافقت کے بل بوتے پر بادشاہ نہیں بن سکتا۔سوائے اس صورت کے کہ ان چار پانچ افراد کی بیعت اور موافقت کا تقاضا یہ ہو کہ باقی لوگ بھی اس بیعت پر راضی ہوں ‘ تو امامت منعقد ہو جائے گی۔ ایسے ہی ہر وہ معاملہ جس میں کسی کی مدد کی ضرورت ہو‘ وہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک وہ لوگ تعاون نہ کرلیں جن کے ذریعہ سے اس کام کا سر انجام دیا جانا ممکن ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی گئی اور قوت و اقتدار سے بہرہ ور ہوگئے تو امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔‘‘

اگر لوگوں کی ایک جماعت سفر میں ہو‘ تو سنت کے مطابق انہیں چاہیے کہ وہ اپنے میں سے ایک آدمی کو امیر بنالیں ۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

’’تین لوگوں کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ سفر میں ہوں ‘ مگر اپنے میں سے ایک آدمی کو اپنا امیر بنالیں ۔‘‘[رواہ أبو داؤد۳؍۵۰؛و أحمد ۱۰؍۱۷۴۔ان دلائل کی روشنی میں یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ چونکہ خلافت صدیقی پر سب مسلمانوں کا اجماع منعقد ہوا تھا اور اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر اظہار خوشنودی فرمایا تھا اس لئے آپ امامت کے مستحق تھے۔ پھر اہل قوت و اقتدار کے بیعت کرنے کی بنا پر آپ خلیفہ منتخب ہوگئے۔ اسی طرح بیعت عامہ اور مسلمانوں کے اطاعت اختیار کرنے کی بنا پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ قرار پائے۔ اگر اس مفروضہ کو تسلیم کر لیا جائے کہ صحابہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد نامہ کو درست تسلیم نہیں کیا تھا، تو آپ امامت کے منصب پر فائز نہ ہوتے۔ قطع نظر اس سے کہ آپ کی خلافت جائز تھی، یا ناجائز؟ حلت و حرمت کا تعلق افعال سے ہے۔ جہاں تک خلافت و امارت کا تعلق ہے، وہ صرف حاصل شدہ اقتدار کا نام ہے۔ بعض اوقات یہ اقتدار جائز طریقہ سے حاصل ہوتا ہے، جیسے خلفائے راشدین کی خلافت اور بعض اوقات ناروا طریق سے بھی قوت و شوکت حاصل ہوجاتی ہے، مثلاً کسی ظالم کی سلطنت و حکومت۔ اگر اس مفروضہ کو صحیح تصور کیا جائے کہ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور چند صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی، اور باقی صحابہ اس کے لیے تیار نہ تھے تو آپ کی امامت و خلافت کا انعقاد نہیں ہوتا۔ بخلاف ازیں آپ جمہور مسلمانوں کی بیعت کی بنا پر خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بیعت نہ کرنے سے آپ کی خلافت میں قدح وارد نہ ہوئی، کیونکہ خلافت کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت کرنے میں جو سبقت فرمائی تھی، تو اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ بیعت کرتے وقت کوئی شخص تو ایسا ہوگا جو باقی لوگوں سے سبقت کرے گا۔ اگر چند افراد آپ کی بیعت پر خوش نہ بھی ہوتے تو اس سے بھی آپ کی خلافت میں کوئی قدح وارد نہیں ہوتی ، کیونکہ شرعی دلائل سے آپ کی بیعت کا استحقاق ثابت ہو چکا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حق میں جو وصیت کی تھی، اس کی تکمیل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی بیعت عام سے ہوئی اور آپ بالاتفاق خلیفہ قرار پائے۔]

پس جب ارباب اختیار اسے منتخب کرلیں تو وہ امام؍ امیر بن جائے گا۔ کسی انسان کا امیر و قاضی و والی ہونا ؛

یعنی جن امور کی بنیاد اختیار اور سلطان [قوت ]پر ہو؛ تو جب بھی قدرت وشوکت حاصل ہو جائے ؛ تو امامت منعقد ہوجائے گی ؛ ورنہ نہیں ۔ اس لیے کہ امامت سے مقصود ان امور کو انجام دینا ہوتا ہے جن کو نبھانا قوت و سلطنت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایک چرواہے کی ہے ؛ جب بھی اس کے انتظام و لوازمات پورے ہو جائیں گے ؛تو اسے چرواہا تسلیم کیا جائے گا؛ ورنہ نہیں ۔ ایسے ہی کسی عامل کو عامل اسی وقت کہا جاسکتا ہے جب وہ اس کام کو نبھانے کی قدرت رکھتا ہو‘ ورنہ نہیں ۔

لوگوں کی سیاست پر قدرت ان کے اس امام کی اطاعت کرنے سے حاصل ہوتی ہے ؛ یا اس امام کے ان لوگوں پر غالب آجانے سے ۔ جب بھی انسان لوگوں کے سیاسی امور نبھانے پر قادر ہوجائے ؛ بھلے وہ لوگوں کے اس کی اطاعت کر لینے کی وجہ سے ہو ‘ یا پھر اس انسان کے غالب آ جانے کی وجہ سے ؛ تو اب یہ انسان صاحب ِ اطاعت و شوکت حکمران ہوگا۔ پس جب یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجالانے کا حکم دے تو اس کی بات ماننا پڑے گی۔ اسی لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے عبدوس بن مالک العطار کے نام ایک خط میں تحریر کیا تھا:

’’ اہل سنت و الجماعت کے ہاں عقیدہ کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس چیز پر صحابہ کرام تھے ‘ اسے مضبوطی سے قائم رہیں ۔....یہاں تک کہ آپ نے فرمایا....: جو شخص مسند خلافت پر قابض ہو اور لوگ اس کی خلافت پر اجماع کر لیں ؛ اور اس کے خلیفہ ہونے پر راضی ہو جائیں ۔اور اسی طرح جو شخص بزور شمشیر خلیفہ بن بیٹھے؛ اور لوگ اسے مسلمانوں کا حکمران تسلیم کرلیں تو اس کو صدقات دینا جائز ہے، خواہ وہ نیک ہویا بد۔‘‘

فرماتے ہیں : اسحاق بن منصور کی روایت میں ہے؛ بیشک آپ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے متعلق پوچھا گیا: ’’جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کا کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ اس کا کیا معنی ہے؟تو آپ نے پوچھا: تم جانتے ہو امام کیا ہے؟ امام وہ ہوتا ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہو؛ اور وہ سبھی کہتے ہوں : یہ امام ہے۔ اس کا معنی یہ ہے۔‘‘[فِی المسند ط. الحلبِیِ 4؍96 ولفظہ: ’’ من مات بِغیرِ إِمام مات مِیتۃ جاہِلِیۃ۔‘‘]

اور یہاں پر گفتگو دو چیزوں کے بارے میں ہے:

اول : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا امامت کا مستحق ہونا؛ اور یہ کہ آپ کی بیعت ان امور میں سے تھی جن کو اللہ تعالیٰ اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے تھے۔ یہ بات نصوص اور اجماع کی روشنی میں ثابت ہے۔

دوم: جب آپ امام بن گئے ؛ یہ اس وقت ہوا جب اعیان حکومت اور اہل سطوت نے آپ کی بیعت کرلی؛ اور ایسے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں عہد لیا تو آپ بھی امام بن گئے کیونکہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور اطاعت قبول کرلی۔ تصور کر لیجیے کہ اگر وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا نہ کرتے؛ اور ان کی بیعت نہ کرتے تو آپ امام نہ بن سکتے تھے؛ بھلے یہ طریقہ جائز تھایا ناجائز ۔

حلال اور حرام ہونے کا تعلق افعال سے ہے۔ جب کہ نفس ولایت اور سلطان ؍حکومت اصل میں یہ اس حاصل شدہ قدرت سے عبارت ہے۔ پھر یہ قدرت کبھی ایسے طریقے سے حاصل ہو جاتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ طریقہ ہو؛ جیسا کہ خلفائے راشدین کو حکومت حاصل ہوئی تھی۔ اور کبھی یہ نافرمانی اور عصیان کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جیسے ظالم اور جابر حکمرانوں کی حکومتیں ۔

چلیں اگریہ مان لیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ایک گروہ نے آپ کی بیعت کر لی تھی۔ اور باقی سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بیعت کا انکار کرتے تھے؛ تو اس طرح تو آپ امام ؍ حاکم نہیں بن سکتے تھے۔ بیشک آپ امام اس وقت بنے جب جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی بیعت کرلی ۔ اور یہ جمہور صحابہ وہ اہل شان و شوکت ؛ اہل حل و عقد تھے؛ جنہیں قدرت حاصل تھی۔ اسی لیے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا بیعت نہ کرنا کوئی نقصان دہ ثابت نہ ہوا۔ کیونکہ اس سے ولایت کے اصل مقصود پر کوئی قدح وارد نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ مقصود تو شوکت و سطوت اور قدرت ہوتی ہے؛ جن کی وجہ سے امت کی مصلحتیں پوری ہوسکتی ہوں ۔ اور یہ مقصد حضرات جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیعت کر لینے سے حاصل ہوگیا تھا۔

اب جو کوئی یہ کہتا ہو کہ کسی ایک یا دو یا چار افراد کی موافقت سے کوئی امام بن جاتا ہے؛ اور یہ لوگ اہل شوکت و سطوت اور اہل قدرت نہ ہوں ؛ تو یقیناً اس نے غلط بیانی کی ۔ جیسا کہ اس آدمی کا حال ہے جو گمان کرتا ہے کہ کسی ایک ؛ دو چار یا دس کا بیعت سے پیچھے رہ جانا نقصان دہ ہے؛ یہ بھی یقیناً غلط ہے۔

حضرات مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گہرے ہم راز اور دوست و انصار تھے۔ جن کی وجہ سے اسلام کو عزت او رقوت نصیب ہوئی۔ اور ان کے ساتھ مل کر مشرکین پر غلبہ پایا۔ اور جزیرہ عرب فتح ہوا۔ تو وہ جمہور جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ؛ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی بیعت کی ۔رہ گئی یہ بات کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا کوئی دوسرا بیعت کرنے میں سبقت لے گیا؛ تو ایسا بھی ضروری ہے کہ ان بیعت کرنے والوں میں سے کوئی ایک سبقت بھی لے جائے۔ اگر یہ با ت مان لی جائے کہ کچھ لوگ اس بیعت کو نا پسند کرتے تھے؛ تو پھر بھی اس سے بیعت سے مقصود پر قدح وارد نہیں ہوتی۔ کیونکہ آپ کے لیے نفس استحقاق تو ان شرعی دلائل کی روشنی میں ثابت ہے جو ثابت کرتے ہیں کہ آپ ہی اس منصب کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ اب شرعی دلائل کی موجودگی میں کسی کی مخالفت کچھ بھی نقصان دہ ثابت نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ نفس امامت کا حصول؛ اور اس کا وجود اہل شان و شوکت اور عمائدین اور قائدین کی بیعت اور اطاعت سے حاصل ہوگئی تھی۔

دین حق کے لیے راہ ہدایت دکھانے والی کتاب اور اس کی نصرت کرنے والی تلوار کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:

﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ ﴾ (الحدید25)

’’ بلا شبہ یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ، اور ہم نے لوہا اتارا جس میں سخت لڑائی( کا سامان) ہے اور لوگوں کے لیے بہت سے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ جان لے کہ کون دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بڑی قوت والا، سب پر غالب ہے۔‘‘

پس کتاب اللہ تعالیٰ کے احکام کو واضح کرتی ہے؛ کیا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور کس چیز سے منع کیا ہے۔ اور تلوار اس کی مدد ونصرت اور تائید کرتی ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کتاب و سنت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بیعت کا حکم دیا تھا۔ اور جنہوں نے آپ کی بیعت کی ؛ وہ اہل سیف و سنان لوگ تھے۔ وہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار تھے۔ تو کتاب اللہ کی روشنی میں تلواروں کی حمایت سے آپ کے حق میں بیعت خلافت منعقد ہوئی۔

جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عہد لیا تھا؛ اور آپ کی موت کے بعد مسلمانوں نے آپ کی بیعت کرلی۔تو آپ بھی شوکت و غلبہ حاصل ہونے پر اور بیعت کئے جانے پر امام بن گئے۔