خلافت عثمان رضی اللہ عنہ پر شیعہ اعتراض
امام ابنِ تیمیہؒخلافت عثمان رضی اللہ عنہ پر شیعہ اعتراض
[اشکال]: شیعہ مصنف کا یہ قول ہے کہ:’’ بعض صحابہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے خلیفہ منتخب کیا۔آپ شوری کے چھ ارکان میں سے ایک تھے ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب] : ہم اس کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بعض لوگوں کی بیعت سے خلیفہ نہیں بنے تھے ؛ بلکہ آپ کی بیعت پر اجماع عام ہوا تھا، اور ایک شخص بھی بیعت سے الگ نہ رہا۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بروایت حمدان بن علی فرماتے ہیں :’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت باقی خلفاء راشدین کی نسبت زیادہ مستحکم تھی، کیونکہ آپ کی خلافت اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کی بنا پر عالم وجود میں آئی تھی۔‘‘[ امام احمد رحمہ اللہ کا بیان حق و صداقت کا آئینہ دار ہے] ۔
بالفرض اگر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آپ کی بیعت کرتے اور حضرت علی و طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم اور دیگر اصحاب اثر و رسوخ بیعت میں شریک نہ ہوتے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز نہ ہوتے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان چھ اشخاص پر مشتمل ایک مجلس شوری قائم کر دی تھی : حضرت عثمان‘ حضرت علی ‘حضرت طلحہ ‘ حضرت زبیر ؛ حضرت سعد‘ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ [حکم دیاکہ]یہ باہمی مشورہ سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر دیں ۔ حضرت طلحہ و زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم حسب مرضی شوریٰ میں سے نکل گئے۔ حضرت عثمان ، علی، اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم باقی رہے۔ان تینوں کا آپس میں اتفاق ہوا کہ: عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں بنیں گے ‘ اور ان دو میں سے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کریں گے۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مسلسل تین شب و روز نہ سوئے۔ انصار و مہاجرین اورصوبوں کے عمال سے مشورہ کرنے میں مصروف رہے۔ان لوگوں نے اس سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا تھا ؛ اور ابھی مدینہ میں موجود تھے۔ ان سب نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کا مشورہ دیا اور پھر کسی کی ترغیب و ترہیب کے بغیر عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔یہی وجہ سے کہ بہت سارے سلف جیسے : ایوب سختیانی ‘ احمد بن حنبل اور امام دار قطنی رحمہم اللہ فرماتے ہیں :
’’ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دی؛ اس نے مہاجرین و انصار صحابہ کرام سے بے وفائی کی ۔‘‘ یہ دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ‘اسی لیے صحابہ نے آپ کو مقدم جانا اور آپ کی بیعت کی۔