شیعہ مناظر رانا محمد سعید کا اہل سنت دلائل پر ذاتی تاویلات!!
جعفر صادقشیعہ مناظر رانا محمد سعید کا اہل سنت دلائل پر ذاتی تاویلات!!
آپکی دلیل ہے ہی کوئی نہیں بس فضولیات ہیں جن کو قصے کہانیوں کی شکل دے کر مکر و فریب کا تڑکا لگا کر اور خیانت کاری کا لباس پہنا کر دلیل ثابت کر نے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں آپ ۔
میں ان پر نقد کر رہا ہوں جو آپ کے حقیقت جانتے ہوئے بھی فضول لگ رہی ہے ۔ کیونکہ دلیل نام کی چیز تو ہے کوئی نہیں، بس قصے کہانیوں اور مجہول اقوال سے کام چلانا ہے تو یہ سب تو کرنا پڑے گا۔
مکرر مکر و فریب ۔ جواب دیا جا چکا ہے۔
باقی جو آپ نے اشعری رح کا حوالہ دیا وہ بھی اسی حیثیت کا حامل ہے جو حیثیت کشی یا نوبختی رح کے نقل کرنے کی ہے۔
کیونکہ اصل قول ہی بلاسند ہے تو چاہے 26 لوگ نقل در نقل کریں جن تک ثابت ہی نہیں تو نقل در نقل کو کیا حیثیت ہے۔
جی جی بلا سند مجہول اقوال سے دکھایا گیا ۔ ایسی بہت سی باتیں میں بھی آپ کو دکھاتا ہوں فکر نا کیجئے۔
اگر بات خیانت کی ہوتی اور اس قول کی اتنی اہمیت ہوتی تو سارے کا سارا قول چھپا لیا جاتا جبکہ خود علماء اس ملعون کے عیب بیان کر رہے ہیں ۔ کمال ہے آپ کی ذہنیت پر کہ چھپایا بھی لاحاصل ، چھپانا تھا تو پورا قول چھپا جاتے ۔ محترم ان علماء کے نزدیک اس قولِ مجہول کی کوئی وقعت ہوتی تو وہ اس کو کوئی اہمیت دیتے نا ۔ ایک مجہول قول آیا جس طرح بقیہ روایات و اقوال بابت رجال نقل کیئے گئے یہ بھی کر دیا گیا اس سے عقائد کا مبنی تھوڑی ثابت ہو جائے گا ۔
*عقل نئیں تے موجاں ای موجاں*
تین صحیح روایات والا فریب اور پھر ایک مجہول قول کو علماء کا نظریہ کہنے کا فریب کسی کام کا نہیں ۔ ابن سباء سے مذکورہ عقائد صحیح روایات سے ثابت کیجئے اور علماء سے یہ تائید دکھایئے کہ ہاں ان روایات کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہ عقائد ابن سباء نے ایجاد کیئے ہیں، ایسا کچھ ثابت کیجئے تو بات بنے گی ورنہ فریب کاریوں میں تو آپ مگن ہیں ہی۔
واہ واہ منافقت چیک کیجئے ، جو قول نو بختی کا بلاسند ابن سباء کے بارے میں ہے وہ آپکو قبول ہے اور جو اسکے خلاف ہے اسکو صحیح سند سے میں ثابت کرو۔ قول کا قول سے تعارض اور حجیت ویسے ہی ساقط ہو گئی ۔ کس مدرسے سے پڑھ کے آئے ہو بھائی ۔
*نو بختی نے وہ بات بھی بغیر معتبر ذریعے کے ہی نقل کی ہے۔ میں تو اول وقت سے جب سے دلائل کا مرحلہ شروع ہوا ، اس قول کی سند کا تقاضہ کر رہا تب سے آپ بھاگ رہے ہیں اب آپکو سند یاد آ گئی۔ ہائے منافقت تیرا ہی آسرا*
پہلے وہ صحیح روایت تو پیش کیجئے جس میں ابن سباء سے *خلافت بلافصل ، امامت ، وصایت اور برأت و رجعت ثابت ہو* ۔ پھر اقوال کو شوق سے پیش کیجئے ۔آپکی پیش کردہ روایات میں تو ایسا کچھ بھی نہیں سوائے آپکی مکارانہ چالوں کے۔ تو پہلے وہ صحیح روایت تو پیش کیجئے جس میں ابن سباء سے *خلافت بلافصل ، امامت ، وصایت اور برأت و رجعت ثابت ھو* ۔ پھر اقوال کو شوق سے پیش کیجئے ۔
پہلے وہ صحیح روایت تو پیش کیجئے ، ورنہ آپکے تین علماء نے اپنا نتیجہ دیا ہے کہ صحابہ حضرت عثمان کے قتل میں ملوث تھے۔ تو آپ کے اصول کے مطابق ہی آ پ کو ماننا پڑے گا نا ۔ یہ میرا نہیں آپ کا اصول ہے ورنہ آپ نے تو اپنے جید علماء کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے انہیں غیر معتبر اور کذاب قرار دے دیا۔ اتنا بڑا بہتان۔
آپ ان تین صحیح روایات میں وہ پانچ عقائد تو ثابت کریں پہلے جن کی بنیاد آپ نے وہ مجہول قول دلیل بنایا ہے ۔
آپ سے یہی مطالبہ ہے کہ *اپنے دعوے کی تائید میں کوئی صحیح روایت تو پیش کیجئے*
⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️
*جس قول کی بنیاد پر آپ نے دعوے کی عمارت کھڑی کر رکھی ہے اس قول کی کوئی سند تو لاؤ ، کشی سے اصحاب علی تک ، نوبختی سے اصحاب علی تک ، اور اشعری قمی سے اصحاب علی تک ۔ کوئی ایک سند لاؤ کہ کس سند سے اصحاب علی کا یہ قول کشی تک ، نوبختی تک اور اشعری قمی تک پہنچا ہے۔*
شیعہ مناظر کی طرف سے اہل علم کا کُھرا اہل سنت کتب سے دکھانے کی ناکام کوشش!
اب چلتے ہیں اس کھُرے کی طرف جہاں سے یہ بات مشہور ہوئی اور وہ اہل علم کون تھے۔
⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️
یہ ھے تاریخ طبری جلد 4
رانا محمد سعید شیعہ : اہلسنت کی تمام تر تاریخی کی بنیادی کتاب یہی کتاب ہے اور تاریخ میں تقریبا تمام مؤرخین اسی کتاب کے محتاج ہیں ۔ اہلسنت میں یہ سب تاریخی کتب کی ماں سمجھی جاتی ہے۔
35 ہجری کے حالات میں پہلی روایت ہی جو طبری نے نقل کی وہ تابعین سے ہے (ممکنہ طور پر اصحاب علی) ہوبہو وہی کچھ لکھا ہے جو کہ علامہ کشی نے لکھا کہ بعض اہل علم نے اس کے بارے یہ کہا ہے ۔ کشی نے یہ نہیں کہا میں یہ کہتا ہوں، نو بختی نے یہ نہیں کہا میں یہ کہتا ہوں ، اشعری قمی نے یہ نہیں کہا کہ میں یہ کہتا ہوں ۔ انہوں نے لکھا *بعض اہل علم کہتے ہیں* اور علامہ طبری جو ہیں یہ کشی سے، نوبختی سے اور اشعری قمی تینوں سے پہلے کے مؤرخ ہیں ۔ اور تاریخ میں زیادہ تر شیعہ سنی علماء کی کتب میں انہیں کی کتاب کی طرح کی روایات ملتی ہیں ۔ *حضور یہ ہیں وہ بعض اہل علم میں سنی لوگ جنہوں نے یہ مشہور کیا کہ ابن سباء یہ عقائد رکھتا ہے*
یہ قصہ مشہور کرنے والے جناب کے گھر کے بندے ہیں جن کے اس قول کو مؤرخین نے نقل کیا اور آج آپ اس کی بنیاد پر ہم پر طعن فرما رہے ہیں ۔ اب آتے ہیں اس اصول کی جانب کہ کسی خبر کو قبول کرنے کیلئے اس خبر کے راویوں کا پتا نہ ہو تو خبر مقبول نہیں ہوتی جیسا کہ اہل سنت محدثین نے یہ اصول باقاعدہ بیان کیا ہے ۔
قریشی صاحب جب آتے ہیں شیعوں کے مقابلے میں تو اُصول بھول جاتے ہیں، باقی خیانتیں اپنی جگہ ان کو روایت کی "سند" تک یاد نہیں رہتی جبکہ ان کے ہاں "سند" دین میں سے ہے ۔ اور قریشی صاحب مسلسل بے دینی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔مقدمہ صحیح مسلم میں عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں:
وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُهْزَاذَ مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَانَ بْنَ عُثْمَانَ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: «الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ۔
محمد بن عبد اللہ بن قہزاد نے ( جو مرو کے باشندوں میں سے ہیں ) کہا : میں نے عبدان بن عثمان سے سنا ، کہہ رہے تھے : میں نے عبد اللہ بن مبارک کو یہ کہتے ہوئے سنا : اسناد ( سلسلہ سند سے خبر بیان کرنا ) دین میں سے ہے ۔ اگر اسناد نہ ہوتا تو جو کوئی جو کچھ چاہتا ، کہہ دیتا۔
حوالہ:
[ مقدمہ صحیح مسلم ص ٣٦]
اب آتے ہیں اصل عبارت کی جانب عرضِ خدمت ہے کہ : اس میں *بعض اہل علم* کون ہیں؟ شیعہ ہیں؟ سُنی ہیں؟ یا واقفی مذھب ہیں؟ ان کا پتا نہیں اور ایسی روایات جن میں اصل قائل کا معلوم نہ ہو مبہم روایات کہلاتی ہیں۔ اور ایسی روایات کے بارے میں ارشاد ملاحظہ ہوں۔حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
فأما المبهم الذي لم يسم، أو من سمي ولا تعرف عينه فهذا ممن لا يقبل روايته احد علمناه
یعنی مبہم حضرات کی روایات ناقابل قبول ہیں۔
حوالہ:
[ اختصار علوم الحدیث مع شرحہ ص٩۲]
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
ولا يُقْبَلُ حديثُ المُبْهَم، ما لم يُسَمَّ، لأن شرط قبول الخبر عدالة رواته، ومَنْ أُبْهِمَ اسْمُه لا يُعرفُ عَيْنهُ؛ فكيف عدالته
مبہم شخص کی حدیث قبول نہیں کی جائے گی جس کا نام معین نہ ہو کیونکہ شرط قبول خبر عدالت راوی ہے اور جس کا اصل آتا پتا معلوم نہ ہو تو اس کی عدالت کا تعین کیسے ہوگا۔
حوالہ:
[نخبة الفکر ص ۳۸]
شیعہ مناظر کی عجیب منطق! جو خبر بعض اہل علم سے ہو ، وہ ضعیف ہوتی ہے!
ضعیف تاریخ طبری کے محقق نے بھی ایک خبر جو بعض *اہل العلم* کے الفاظ سے منقول تھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔حوالہ : [ضعیف تاریخ طبری جلد ٦ ص١٣٦]
نوٹ: شیعہ مناظر رانا سعید شیعہ نے آخری ٹرن میں 23 دلائل پیش کئے جنہیں سائیٹ پر الگ سے شامل کیا گیا ہے۔
عبدالحمید بلوچ : رانا صاحب آپ اپنے ٹرن ختم ہونے کا وقت بتائیں۔؟؟
رانا محمد سعید شیعہ : بے چینی کس بات کی ہے محترم ؟؟؟
شیعہ مناظر کی کم ظرفی اور گھٹیاپن !!! تین دن لگاتار مسیسجز کے بعد فریق مخالف کو مجبور کیا کہ وہ کوئی رخصت نہیں دیں گے!! شرائط کا من پسند مفہوم بھی صرف ان کے لئے خاص تھا!
رانا محمد سعید شیعہ : آج رات 11 بج کر 10 منٹ پر۔ اور ہاں قریشی صاحب کو بتا دیں کہ اسے گفتگو ٹو دی پوائنٹ اور شرائط کے مطابق ہی کرنا ہوگی ۔ یہ دن والی رخصت جناب نے مجھے اپنی مرضی سے دی تھی *سر چڑھ کر* تو میں ایسی کوئی رخصت نہیں دینے والا ۔
رانا محمد سعید شیعہ: محترم قارئین جتنے بھی دلائل پیش کیئے وہ تمام کے تمام اہلسنت کتب سے ہیں سوائے علامہ ابن عقدہ کے حوالے کے ۔
مذکورہ بالا احادیث جو جید محدثین کی کتب سے پیش کی گئی ہیں جن میں *مولا علی کیلئے وصی رسول ہونا اور خلیفتہ الرسول ہونا مذکور ہے اور ان کی سند میں کہیں بھی ابن سباء نہیں ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مولا علی ع کیلئے وصی رسول ہونا اور خلیفتہ الرسول ہونا* ابن سباء کے وجود سے پہلے ہی موجود تھا۔
*یہ قریشی صاحب کے دعویٰ کا رد ہے کہ جو عقائد ابن سباء کے وجود سے پہلے ہی موجود تھے اور جن کو روایت کرنے میں کہیں بھی ابن سباء نہیں ان کا بانی ابن سباء کیسے ہو سکتا ہے*
کیونکہ قریشی صاحب کی واحد دلیل وہ بلا سند اور مبہم خبر ہے جو کہ انہوں نے تین تاریخی کتب سے درج کی ہے ۔ الفاظ ایک جیسے ہیں اس لئے قوی ہے کہ ایک سے دوسرے نے نقل کیا اور دوسرے سے تیسرے نے ۔
قریشی صاحب سے جب جب سند کا مطالبہ ہوا تو موصوف نے منگھڑت اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو آپ کے ثقہ عالم نے بیان کیا ہے اور اصحاب علی سے بیان کیا ہے تو سند کی بات کی حالانکہ یہ علمی خیانت اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش کر رہے ہیں ۔*اپنے بنائے ہوئے منگھڑت اصول پر رہتے ہوئے قریشی صاحب کسی بھی روایت کی سند پر کلام کرنے کے حقدار نہیں ہیں*
*یہاں تک کی گفتگو کا خلاصہ*
قریشی صاحب نے اپنے دعویٰ کی دلیل میں صرف ایک بلا سند مجہول قول پیش کیا جس پر انہوں نے غیر متعلقہ روایات جن کا دعوے میں موجود پانچ عقائد سے کوئی تعلق نہیں، انہیں فریب کاری سے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی جبکہ ان روایات میں صرف ابن سباء کے متعلق حضرت علی ع کی الوہیت کا عقیدہ مذکور ہے اور اسی بناء پر ابن سباء پر لعنت بھی بھیجی ہے ہمارے آئمہ ع نے اور الحمدللہ ہم بھی اس پر اور ہر اس شخص پر جو مولا علی ع کیلئے الوہیت کا قائل ہو لعنت بھیجتے ہیں۔ ۔
قریشی صاحب سے ہمارا دوبارہ مطالبہ ہے کہ قریشی صاحب اپنے دعوے کے الفاظ پر قائم رہتے ہوئے کوئی ایک صحیح روایت پیش کریں جس میں ابن سباء کے یہ پانچ عقائد مذکور ہوں اور ہمارے کسی بھی عالم نے اس بناء پر اس بات کی تائید کی ہو کہ ان عقائد کا بانی ابن سباء ہے ۔
مجھے یقین ہے وہ کوئی بھی ایسی مسلمہ چیز پیش کرنے سے عاجز رہیں گے، جیسا کہ اب تک وہ عاجز رہے ہیں اور فقط موضوع سے غیر متعلقہ روایات اور بلاسند مجہول قول کو لیکر فریب دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ یہاں میں اپنی ٹرن ختم کرتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ قریشی صاحب گروپ پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے من مانے رویے سے پرہیز کریں گے (حالانکہ کریں گے نہیں ) ۔
یہاں تک کے دلائل کا ایک مرحلہ تقریبا مکمل ہوتا ہے اور اگلے مرحلے میں ہم اصولوں کے مطابق ان پوائنٹس پر گفتگو کریں گے کہ جن پر میرا جواب دعویٰ ہے کہ ہمارے عقائد کا ماخذ و مبانی رسول اللہ ﷺ اور آئمہ ع کی وہ روایات ہیں جنہیں ہمارے محدثین کرام نے اپنی کتب میں بیان فرمایا ہے اور انکی تائید فرمائی ہے نا کہ بلاسند اور مجہول اقوال۔