باغ فدک کیا تھا، کہاں سے آیا اور اس کی آمدنی کے مصارف کیا تھے؟
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓباغ فدک کیا تھا، کہاں سے آیا اور اس کی آمدنی کے مصارف کیا تھے؟
جواب
اس کی تفصیل یہ ہے کہ بعض قطعات زمین ایسے تھے جو مسلمانوں کے حملے کے وقت کفار نے مغلوب ہوکر بغیر لڑائی کے مسلمانوں کے حوالے کردیئے تھے۔ ان میں سے ایک فدک بھی تھا جو مدینہ منورہ سے تین منزل پر ایک گائوں تھا اس کی نصف زمین یہودی نے بطور صلح کے دی تھی۔
♦️ فدک ایک چھوٹی بستی کا نام ہے جو خیبر کے قریب واقع ہے
جگہوں کے نام کسی ضابطے کے تحت نہیں ادنی مناسبات سے طے ہوتے ہیں فدک کا نام بھی اس کے پہلے آباد کار کے نام سے فدک پڑا تھا محققین کہتے ہیں
“سمیت بفدک بن حام و کان اول من نزلہا”
اس علاقے کا نام نوح علیہ السلام کی نسل میں فدک بن حام بن نوح کی وجہ سے فدک پڑا جو اس علاقے کا پہلا آباد کار تھا.
♦️ فدک ایک زرخیز بستی تھی جو کہ خیبر سے ایک منزل (میل) اور مدینہ منورہ سے ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہ یہودیوں کا مرکزی رہائشی علاقہ ہوا کرتا تھا.
خیبر کا قلعہ اور علاقہ فتح ہونے کے بعد آس پاس کے یہودی علاقوں میں مسلمانوں کے لشکر کی دھاک بیٹھ گئی اور فدک کے رہائشی یہودیوں نے باہمی مشورے سے طے کیا اگر خیبر کا قلعہ مسلمان فتح کرسکتے ہیں تو فدک کا دفاع آخر کب تک ممکن ہے کیوں نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش ہوکر معاہدہ کیا جائے تاکہ جنگ و قتال کی نوبت نہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے معاہدہ کیا جس کی بنیادی شق یہ تھی کہ فدک کا نصف علاقہ بدستور فدک کے رہائشیوں کے قبضے میں ہوگا اور اس کی آمدن اور اجناس کے وہی مالک ہوں گے. جب کہ نصف علاقے کی پیداوار مسلمانوں کو دی جائے گی.
یہ ایک ہنگامی جنگی معاہدہ تھا جس کی پاسداری فریقین نے نبھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا.
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فدک کی زمین کا بطور ترکہ مطالبہ کیا حضرت صدیق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث مبارکہ
نحن معاشر الانبیاء لا نورث ماترکنا صدقہ
کا حوالہ دیا اور فدک کا انتظام سرکاری تحویل میں ہی رہنے دیا.
حدیث مبارکہ کے حوالے پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا مطالبہ نہیں دہرایا.
یہاں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا آور آپ نے فدک کے یہودیوں کو شام منتقل کردیا.
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی فدک کا معاملہ یہی رہا.
یہی انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ و کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی رہا.
حضرت امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کا انتظام اپنی اولاد کو نہ دیا نہ ہی حضرت حسن مجتبی رضی نے فدک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا.
اسی طرح سات قطعات زمین اور تھے جو مدینہ سے ملحق تھے۔ جن کو یہودبن نضیر سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ تمام قطعات زمین مع فدک کے رسول پاکﷺ نے اپنی حاجتوں کے لئے اپنے قبضہ میں رکھ لئے تھے۔ اسی طرح بعض قطعات خیبر کے تھے جن کی آمدنی سے پانچواں حصہ حضورﷺ کو ملتا تھا۔ جہاد میں جو مال غنیمت آتا تھا اس میں بھی حضورﷺ کا حصہ مقرر تھا۔ رسول پاکﷺ کو ان قطعات زمین سے جو آمدنی ہوتی تھی مندرجہ ذیل امور پر خرچ فرماتے تھے۔
اپنی ذات مبارک پر اپنے اہل و عیال، ازواج مطہرات پر اور تمام بنی ہاشم کو بھی اسی آمدنی سے کچھ عطا فرماتے تھے۔
مہمان اور بادشاہوں کے جو سفیر آتے تھے، ان کی مہمان نوازی بھی اسی سے ہوتی تھی۔
حاجت مندوں اور غریبوں کی امداد بھی اسی سے فرماتے تھے۔
جہاد کے لئے اسلحہ بھی اسی آمدنی سے خرید فرماتے تھے۔
آپ اسی آمدنی سے مجاہدین کی امداد بھی فرماتے تھے۔ جس کو تلوار کی ضرورت ہوتی اس کو تلوار اور جس کو گھوڑے یا اونٹ کی حاجت ہوتی، اسے عطا فرماتے۔
اصحاب صفہ کی خبر گیری اور ان کے مصارف بھی حضورﷺ اسی سے پورا فرماتے تھے۔ صدقہ کا جو مال آتا تھا۔ حضورﷺ اس سے کچھ نہیں لیتے تھے، آتے ہی فورا غریبوں میں تقسیم فرما دیتے تھے۔
اب ظاہر ہے کہ یہ آمدنی ان تمام مصارف کے مقابلہ میں بہت تھوڑی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ازواج مطہرات کو شکایت رہتی تھی۔ آپ نے بنی ہاشم کا جو وظیفہ مقرر کیا تھا، وہ بھی مناسب تھا۔ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آپﷺ کو حد سے زیادہ عزیز تھیں۔ مگر ان کی بھی پوری کفالت نہیں فرماتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قطعات زمین کی آمدنی حضورﷺ مخصوص مدوں میں خرچ فرماتے تھے اور ان کو آپ نے اپنے ذاتی ملکیت قرار نہیں دیا تھا۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ کا مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ فرما دیتے تھے۔
جب رسول پاکﷺ کا وصال ہوا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہوئے، انہوں نے بھی فدک کی آمدنی کو انہیں مصارف میں خرچ کیا جن میں حضورﷺ اپنی حیات مبارکہ میں صرف فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ فدک کی پیداوار کو لیتے تھے اور جتنا اہل بیت کا خرچ ہوتا تھا، ان کو اس سے بھیج دیتے تھے او رجن جن کے سرکارﷺ نے وظیفے مقرر فرما رکھے تھے، سیدنا صدیق اکبررضی اﷲ عنہ باقاعدگی کے ساتھ ان کو دے دیتے تھے۔ فدک کی آمدنی خلفائے اربعہ ابوبکر و عمر، عثمان و علی رضی اﷲ عنہما سب نے انہیں مصارف میں خرچ کیا جن میں سرکارﷺ خرچ کرتے تھے حتی کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ جب حاکم ہوئے تو امام حسن رضی اﷲ عنہ کے وصال کے بعد مروان نے فدک کے ایک ثلث کو اپنی جاگیر بنالیا پھر اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنے لئے خاص کرلیا اور فدک مروان کی اولاد کے پاس رہا۔
یہاں تک کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ کی حکومت ہوئی تو انہوں نے فدک کو مروان کے رشتہ داروں سے لے کر اسی حالت میں لوٹا دیا جس حالت میں رسول پاکﷺ اور خلفائے اربعہ رضی اﷲ عنہما کے زمانہ میں تھا، یعنی انہوں نے فدک کی آمدنی کو انہیں مصارف پر خرچ کرنے کا حکم دیا جن میں حضورﷺ اور خلفائے اربعہ رضی اﷲ عنہما اس آمدنی کو خرچ کیا کرتے تھے۔ فدک کے متعلق جو باتیں ہم نے درج کی ہیں، یہ شیعہ سنی دونوں حضرات کو تسلیم ہیں۔ تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ کچھ بھی نہ تھا۔ محض بات کا بتنگڑ بنا کر سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو مطعون کیا گیا ہے۔ یہاں ہم خصوصیت کے ساتھ چند امور کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جن سے اس مسئلہ کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی۔
١۔ باغ فدک کی آمدنی کو جن مصارف میں حضور پاکﷺ خرچ کرتے تھے۔ خلفائے راشدین حضرت ابوبکر و عمر، عثمان و علی رضی اﷲ عنہما نے بھی انہی مصارف میں خرچ کیا تھا۔
٢۔ باغ فدک کسی کی ملکیت نہ تھا صرف اس کی آمدنی کے مصارف مقرر تھے کہ اس کی آمدنی فلاں فلاں جگہ خرچ کی جائے۔
٣۔ خلفائے راشدین حضرت ابوبکر و عمر، عثمان و علی رضی اﷲ عنہم باغ فدک کی آمدنی کو وصول کرتے تھے تو محض وکیل کی حیثیت سے کرتے تھے۔