متحارب فریقین میں صلح کی ضرورت و اہمیت
امام ابنِ تیمیہؒمتحارب فریقین میں صلح کی ضرورت و اہمیت:
مذکورہ بالا آیت میں پہلے صلح کا حکم دیا گیا ہے، اگر کوئی فریق ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو تو اس سے لڑا جائے، یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی تعمیل کے لیے سر تسلیم خم کر دے، بنا بریں فریقین کے لڑنے میں کوئی مصلحت نہیں پائی جاتی۔ ظاہر ہے کہ جس بات کا اللہ نے حکم دیا ہو اس کی مصلحت فساد کی نسبت راجح ہوگی۔ امام ابو داؤد نے اپنی کتاب ’’سنن ابی داؤد ‘‘ میں نقل کیا ہے ؛ فرماتے ہیں : ہم سے حسن بن علی نے حدیث بیان کی؛کہا:ہم سے یزید نے حدیث بیان کی؛ وہ کہتے ہیں :ہم ہشام نے بتایا وہ امام ابن سیرین رحمہ اللہ (مشہور تابعی) سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:’’ جو شخص بھی فتنہ کی لپیٹ میں آجائے مجھے اس کے جادہ مستقیم سے بھٹک جانے کا خطرہ دامن گیر رہتا ہے، مگر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے مستثنیٰ ہیں ۔میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ:’’ فتنہ و فساد سے محمد بن مسلمہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[الاصابۃ(۳؍۳۸۴) سنن ابی داؤد ۔ کتاب السنۃ۔ باب ما یدل علی ترک الکلام فی الفتنۃ(ح: ۴۶۶۳)]
امام ابو داؤد کہتے ہیں : ہم سے عمرو بن مرزوق نے حدیث بیان کی؛ اس سے شعبہ نے؛ وہ اشعب بن سلیم سے روایت کرتے ہیں ؛ وہ ابو بردہ سے اور وہ ثعلبہ بن ضبیعہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا:’’ مجھے وہ شخص معلوم ہے جسے فتنہ پر دازی سے کوئی نقصان اور ضرر لاحق نہیں ہوتا، چنانچہ ہم باہر نکلے تو ایک خیمہ نصب کیا ہوا دیکھا جس میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تشریف فرماتا ہے۔ہم نے اس ضمن میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا میں نہیں چاہتا کہ بلاد و امصار جس فتنہ سے دو چار ہیں میں بھی اس کی لپیٹ میں آجاؤں یہاں تک کہ فتنہ کی آگ فرو ہو جائے۔‘‘[مستدرک حاکم(۳؍۴۳۳)، طبقات ابن سعد(۳؍۴۴۴)]
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا ہے کہ محمد بن مسلمہ کو کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جواس دور میں بالکل عزلت نشین تھے۔ آپ نے نہ ہی معاویہ کا ساتھ دیا اور نہ ہی علی کا ؛ رضی اللہ عنہم ۔
اسی طرح سعد بن ابی وقاص، اسامہ بن زید، عبداللہ بن عمر ، ابوبکرہ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہم اور اکثر سابقین الاولین صحابہ کسی فریق کے ساتھ مل کر شریک جنگ نہیں ہوئے تھے۔ ان کا یہ طرز عمل اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ لڑائی نہ واجب تھی اور نہ مستحب۔اگر ایسانہ ہوتا تو لڑائی ترک کرنے والوں کی مدح سرائی کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔بلکہ جو انسان واجب یا مستحب بجا لاتا ہے وہ ترک فعل کرنے والوں کی نسبت زیادہ افضل ہوتا ہے۔ یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ یہ جنگ وقتال ایک فتنہ ہی تھا۔ جیسا کہ دوسری حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ایک فتنہ برپا ہو گا اس میں بیٹھ رہنے والا کھڑے ہونے والے کی نسبت افضل ہوگا۔اور کھڑا انسان چلنے والے کی نسبت افضل ہوگا؛ اور چلنے والا دوڑنے والی کی نسبت سے افضل ہوگا ؛ اور دوڑنے والا جنگ میں واقع ہونے والے کی نسبت افضل ہوگا۔‘‘
اس طرح کی دیگر بھی کئی ایک صحیح روایات ہیں جن سے صاف واضح ہوتا ہے کہ قتال ترک کرنا ان کے لیے بہتر تھا۔ جمہور اہل سنت محدثین امام مالک، سفیان ثوری، امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ دین رحمہم اللہ اس ضمن میں یہی رائے رکھتے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کی رائے ہے جو حضرات علی ‘زبیر ؛ طلحہ ؛اور معاویہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اچھی رائے اور حسن ظن رکھتے ہیں ۔
سابقہ ذکر کردہ افکارو معتقدات کے علاوہ درج ذیل نظریات کے حامل بھی موجود تھے:
[۱۔ خوارج حضرت عثمان رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اتباع کی تکفیر کرتے تھے۔
۲۔ روافض جمہور صحابہ سابقین اولین جیسے خلفاء ثلاثہ کو کافر اور فاسق قرار دیتے ہیں ۔ اور علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ہر لڑنے والے کی تکفیر کرتے تھے۔اور کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امام معصوم تھے۔
۳۔ مروانیہ کا ایک گروہ آپ کو فاسق کہتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں :آپ ظالم اور سرکش تھے۔
۴۔ نواصب اور امویہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اتباع کو فاسق اور ظالم و معتدی کے القاب سے نوازتے تھے۔
۵۔ معتزلہ کی ایک جماعت جنگ جمل میں شرکت کرنے والے ایک فریق کو فاسق قرار دیتی تھی؛ یا تو یہ فاسق حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے یا پھر آپ سے لڑنے والے؛ مگر معتزلہ اس فریق کی تعیین نہیں کرتے تھے۔]
۶۔ ایک اور گروہ حضرت معاویہ اور حضرت عمرو کو فاسق کہتے ہیں ؛ مگر حضرت طلحہ و زبیر او رحضرت عائشہ کو فاسق نہیں کہتے۔[کتابِ أ صولِ الدِینِ لِابنِ طاہِر البغدادِیِ، ص 291: ]
مقصود یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اختلاف اور جنگوں کے واقعات سلف و خلف میں بڑے مشہور ہیں ۔ ان افکار و معتقدات کی موجودگی میں یہ کہنا کیوں کر درست ہوگا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت میں خلفائے سابقین کی نسبت زیادہ لوگوں نے شرکت کی تھی؟ ۔
اگر شیعہ معترض کہے کہ : اس سے مراد یہ ہے کہ: اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ: آپ کی خلافت لوگوں کے بیعت کرنے سے منعقد ہوئی نص سے نہیں ؛ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ سنت والجماعت کہتے ہیں : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت خلافت راشدہ ہونے کی نص اس حدیث میں موجود ہے : ’’ میری بعد خلافت تیس سال تک ہوگی ۔‘‘ [اس کی تخریج گزر چکی ہے ]۔
اہل سنت والجماعت تو دوسرے خلفاء کی خلافت کے برحق ہونے کے بارے میں بھی بہت سی نصوص روایت کرتے ہیں ۔ محدثین کرام کے ہاں یہ معاملہ معلوم شدہ ہے ۔ وہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کے برحق ہونے پر بہت ساری نصوص روایت کرتے ہیں ‘بخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ۔ اس لیے کہ آپ کی خلافت کی نصوص بہت کم ہیں ۔پہلے تین خلفاء پر امت کا اتفاق تھا‘ جس سے مقصود امامت حاصل ہوگیا تھا۔ ان ادوار میں کفار کو قتل کیا گیا؛ شہروں کے شہر فتح ہوئے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں نہ ہی کسی کافر کو قتل کیا گیا اور نہ ہی کوئی شہر فتح ہوا۔ بلکہ اہل قبلہ آپس میں لڑتے رہے ۔ جب کہ جن نصوص کا دعوی رافضی کرتے ہیں ‘ وہ بالکل راوندیہ کی نصوص جیسی ہے جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کے دعویدار ہیں ۔اہل علم کے ہاں ان دونوں باتوں کا فساد اور باطل ہونا معلوم شدہ ہے۔اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اثبات میں اس کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو اس سے ہر گز آپ کی خلافت و امامت ثابت نہ ہوتی۔ جیسا کہ اس جیسی دوسری دلیل سے حضرت عباس کی خلافت ثابت نہیں ہوسکتی ۔