حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت
امام ابنِ تیمیہؒحضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت
[شبہ] : (شیعہ کہتے ہیں : ) اہل سنت کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے لخت جگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ قرار دیتے ہیں اور بعض امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو۔‘‘
[جواب ]: ہم کہتے ہیں کہ:’’ اہل سنت کے یہاں سرے سے اس ضمن میں کوئی اختلاف پایا ہی نہیں جاتا ۔ بلکہ اہل سنت اس امر میں یک زبان ہیں کہ اہل عراق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جگہ ان کے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی۔اور اہل شام پہلے سے ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کیساتھ تھے۔[ پھر انہوں نے ایک معاہدہ کے تحت بخوشی منصب امارت و خلافت امیر معاویہ[ (العواصم من القواصم : ۱۹۷، ۱۹۸) کے حاشیہ پرمحب الدین خطیب نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے: ’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ ان کے والد، ان کے بھائی اور ان کے بھائی کی اولاد میں سے ۹ افراد کی طہارت و عصمت کا عقیدہ شیعہ کے ایمان کا اولین عنصر ہے۔ عصمت ائمہ کے عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے خطا کا صدور نہیں ہوتا، اور ان کا ہر قول عمل حق و صواب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ بات محتاج تشریح نہیں کہ حق و صواب تناقض سے پاک ہوتا ہے۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا اہم ترین کارنامہ امیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت ہے۔ جبکہ بقول شیعہ آپ کا یہ طرز عمل ایک امام معصوم کا فعل ہے۔ تو شیعہ کو اس بیعت میں شرکت کرنا اور اس کی صداقت و حقانیت پر ایمان لانا چاہیے تھا، مگر مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہیکہ وہ اس بیعت کے منکر ہیں اور اس ضمن میں اپنے امام معصوم کی مخالفت کا ارتکاب کرتے ہیں اسکے صرف دو اسباب ہیں: (] رضی اللہ عنہ کو تفویض کر دیا]۔
[شبہ] : شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ اہل سنت کے یہاں بنوامیہ میں پھر بنو عباس میں خلافت جاری رہی۔‘‘
[جواب ]:اہل سنت یہ نہیں کہتے کہ صرف ان حکمرانوں کواختیار حاصل تھا کہ باقی لوگوں کوچھوڑ کر خود ہی کسی دوسرے کو خلیفہ منتخب کریں ۔نیز اہل سنت کا ایک فرد بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ خلفاء تمام اوامر و احکام میں واجب الاطاعت تھے اور کسی بات میں ان کے حکم سے سرتابی کرنا روانہ تھا۔ بخلاف ازیں وہ واقعات کی خبر دیتے ہیں ‘اورجو چیز واجب ہے اس کا حکم دیتے ہیں ۔وہ اس چیز کی گواہی دیتے ہیں جو وقوع پذیر ہوئی تھی۔وہ صرف اس چیز کا حکم دیتے ہیں جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاتھا۔اس لیے وہ کہتے ہیں : بنوامیہ مسند خلافت پر متمکن ہوگئے تھے وہ قوت و اقتدار سے بھی بہرہ ور تھے جس سے وہ مقاصد ولایت کو پورا کرسکتے تھے جیسے اللہ تعالیٰ کی شریعت کو نافذکرنا ‘حدود شریعت قائم کرنا؛لوگوں میں اموال تقسیم کرنا ؛اور شہروں میں والی مقرر کرنا وغیرہ۔[اوربنو امیہ امور سلطنت کے انتظام و انصرام سے بھی نابلد نہ تھے۔وہ مقاصد امامت کی تکمیل میں بھی کامیاب تھے]۔ مثلاًوہ دشمن کے ساتھ جہاد میں حصہ لیتے تھے، حج کرنے جاتے،جمعہ جماعت اور عیدین کی پابندی کرتے اور راستوں کی حفاظت کا سامان بہم پہنچاتے تھے۔ تاہم [یہ اہلسنت والجماعت کی امتیازی شان اور عدل و انصاف ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ]:ان خلفاء یا ان کے نوابین میں سے کسی کی بھی اطاعت اللہ کی نافرمانی کر کے نہیں کی جاسکتی تھی۔بلکہ جو کام اللہ کی اطاعت کا کریں گے ‘اس میں ان کے ساتھ شریک بنیں گے؛ ان کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا جائے گا ‘ ان کے ساتھ جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھی جائے گی؛ حج کیا جائے گا؛ حدود شریعت کے قائم کرنے میں ان کی مدد کی جائے گی۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے میں ان کا ساتھ دیا جائے گا۔پس ان کی اطاعت صرف نیکی و تقویٰ کی حد تک تھی نہ کہ گناہ اور سرکشی میں ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاد مغرب میں بنو امیہ اور بنو علی رضی اللہ عنہ میں سے کئی لوگ عامل بنے تھے ۔