ائمہ اثناء عشرہ مقاصد امامت کی تکمیل سے قاصر تھے
امام ابنِ تیمیہؒائمہ اثناء عشرہ مقاصد امامت کی تکمیل سے قاصر تھے
یہ حقیقت ’’ عیاں را چہ بیاں ‘‘ کی مصداق ہے کہ امراء و حکام کے بغیر انسانی نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ بھی مسلم ہے کہ ان ظالم حکمرانوں سے بڑھ کر بھی اگر کوئی ظالم حاکم ہو‘ تواس کا ہونا حاکم نہ ہونے سے بہتر ہے۔جیساکہ کہا جاتا ہے:
[پہلی وجہ : شیعہ ائمہ اثناعشرہ کی عصمت کے دعویٰ میں دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں ، اس سے شیعہ مذہب کی امارت دھڑام سے گر پڑے گی اس لیے کہ عصمت ائمہ کا عقیدہ شیعہ مذہب کا سنگ بنیاد ہے اس کے علاوہ ان کے مذہب کی کوئی اساس نہیں ۔ ۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شیعہ کی نگاہ میں بلاشبہ امام حسن معصوم تھے اورحضرت حسن کاحضرت معاویہ کی بیعت سے مشرف ہونا ایک معصوم کا فعل ہے مگر شیعہ دین سے بغاوت کا ارتکاب کر رہے ہیں اور امام معصوم کی مخالفت سے باز نہیں آتے، اور اس پر طرہ یہ کہ آئندہ نسلوں کو بھی یہی وصیت کیے جاتے ہیں ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ امام معصوم کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں اور دانستہ کفر و عناد اور مکابرہ کی بنا پر امام کے احکام کی خلاف ورزی پر مصر ہیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ مذکورہ ہر دو وجوہ میں سے کون سی وجہ شیعہ کو قعر ہلاکت میں گرانے کے لیے دوسری وجہ کی نسبت قوی تر ہے ظاہر ہے کہ ان ہر دو اسباب کے علاوہ تیسرا سبب اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘]
’’ظالم حاکم کے ساتھ ساٹھ سال گزارنا بغیر حاکم کے ایک رات گزارنے سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’’ امارت ناگزیر ہے خواہ نیک ہو یا بد۔‘‘ لوگوں نے دریافت کیا، نیک امارت تو ہمیں معلوم ہے، امارت فاجرہ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ تو آپ نے جواباً فرمایا: ’’ جس سے راستے محفوظ رہیں ، شرعی حدود کا قیام عمل میں آئے۔دشمنان دین سے جہاد کیا جائے، اور مال غنیمت کو تقسیم کیا جائے۔‘‘
شیعہ عالم علی بن معبد [علی بن معبد ایک شیعہ عالم تھا اور بغداد میں سکونت پذیر تھا، المامقانی نے اپنی کتاب ’’تنقیح المقال : ۲؍ ۳۰۹ پر لکھا ہے کہ یہ امام حسن عسکری کے والد محمد کے بیٹے ہادی علی کے اتباع میں سے تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علی بن معبد خلیفہ مامون و معتصم کا معاصر تھا۔‘‘ ]نے اپنی تصنیف کتاب الطاعۃ و المعصیۃ میں یہ روایت ذکر کی ہے۔
جو کوئی بھی حاکم بنا ہو؛ وہ رافضہ کے اس امام معدوم سے تو بہر حال بہتر ہے۔اس لیے کہ اس امام منتظر سے حقیقت میں کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل نہیں ہوسکی۔ اور نہ ہی اس کی امامت کا کوئی فائدہ ہے سوائے فاسد اعتقادات اور جھوٹی تمناؤں کے۔[اس امامت کے درپردہ ] مسلمانوں میں جو فتنہ و فساد بپا کیا جارہا ہے ؛ اور ایسے شخص کا انتظار ہورہا ہے جس نے کبھی بھی نہیں آنا؛ عمریں ختم ہوگئیں مگر اس امام سے کسی [بھی اپنے یا غیر ]کوکوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔
لوگوں کے لیے چند دن بھی حاکم کے بغیر رہنا ممکن نہیں ۔کیونکہ افراتفری اور طائف الملوکی کے دور میں تمام امور فساد کا شکار ہوجاتے ہیں ۔توپھر لوگوں کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے جب وہ کسی امام کو جانتے ہی نہ ہوں سوائے غیر معروف امام کے۔جس کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں کہ وہ [کہاں ہے] کیا کہتا ہے ؛ [کیا کرتا ہے ]۔اور اسے لوگوں کے معاملات میں کسی چیز کا کوئی اختیار بھی حاصل نہیں ۔بلکہ وہ امام ہی معدوم ہے۔
[[خلاصہ کلام (تاریخ کے مختلف ادوار میں ) جو خلفاء مسند خلافت و امارت پر جا گزین ہوئے وہ بہر کیف شیعہ کے امام منتظر سے بہتر ہی تھے، جس کے انتظار میں شیعہ صدیوں سے جھوٹی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مستثنیٰ قرار دیا جائے تو]] امام منتظر کے جملہ آباء و اجداد قوت و شوکت سے محروم، امامت سے قاصر اور امور مملکت سے بے بہرہ تھے۔[ نظر بریں ان سے کسی طرح امامت کا مقصد پورا نہیں ہوتا]۔بلکہ ان جیسے دوسرے لوگوں کو حدیث اور فتوی میں امامت کا درجہ حاصل تھا۔
انہیں کوئی شوکت و سلطنت حاصل نہ تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی امامت میں عاجز تھے؛ بھلے وہ اس امامت کے حقدار تھے یا نہیں تھے۔ بہر صورت میں انہیں نہ ہی اختیار حاصل ہوا اورنہ ہی انہیں حاکم بنایا گیا۔ اور اختیار و قدرت کے نہ ہونے کی وجہ سے ان سے وہ فوائد بھی حاصل نہ ہوسکے جو کہ مقصود ولایت و امارت ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی مؤمن ان کی اطاعت کربھی لے تو ان کی اطاعت سے اسے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا جو حاکم وقت کی اطاعت سے حاصل ہوگا ‘ جیسے دشمنان سے جہاد؛ مستحق افراد کو ان کے حقوق کی ادائیگی۔حدود کا قیام وغیرہ ۔
اگر کوئی کہنے والا یہ بات کہے کہ : ان میں سے کوئی ایک یا پھر کوئی دوسرا امام ہے ‘ جسے قدرت و شوکت اور اختیار حاصل ہے ؛ جس سے امامت کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں ؛ تو یہ ایک کھلی ہوئی باطل اوربلاحجت بات ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی دوسرا حاکم ایسا نہ ہوتا جو ان سے ٹکرا سکتا۔ اور نہ ہی ان کے برعکس وہ اپنا حکم چلاتا ۔ ایسا تو کوئی ایک بھی نہیں کہتا؍[اورنہ کہہ سکتاہے ]۔
[اشکال]: اگر یہ کہا جائے : ’’ان میں سے کسی ایک کے امام ہونے سے مراد یہ ہے کہ انہیں حاکم بنانا واجب تھا۔ اور لوگوں نے ان کو امام نہ بنا کر اور ان کی اطاعت ترک کرکے گناہ اور نافرمانی کی۔‘‘
[ازالہ] : یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کے متعلق کہا جائے کہ فلاں انسان اس کا مستحق تھا کہ اسے قاضی بنایاجائے مگر ظلم و زیادتی کی وجہ سے ایسا نہیں کیا جاسکا۔