مسئلہ امامت میں اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ کی تفصیل
امام ابنِ تیمیہؒمسئلہ امامت میں اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ کی تفصیل
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت اس بات میں کوئی جھگڑا نہیں کرتے کہ خلفاء اربعہ کے بعد کے حکمران بعض ایسے لوگوں کو والی بنادیتے تھے جن کی نسبت دوسرے افراد اس کے زیادہ حقدار ہوا کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ چاہتے تھے کہ اپنے بعد قاسم بن محمد کو خلیفہ بنائیں ؛ مگر وہ ایسا نہ کرسکے۔اس لیے کہ اہل شوکت وقوت اس بات پر آپ کے ساتھ موافقت نہ کرتے تھے۔ اس لیے کہ آپ کے ساتھ ہی یزید بن عبد الملک کے لیے بھی عہد لیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے وہ ولی عہد تھا۔ پس اس صورت میں جب اہل شوکت کسی مرجوح کو مقدم کیا ‘ اور راجح کو چھوڑ دیا ۔اور ایسے ہی جو شخص اپنی اور اپنے ماننے والوں کی قوت کے بل بوتے پر ظلم و زیادتی سے اقتدار حاصل کرلے ؛ تو اس کا گناہ اس پرہوگا جس نے واجب ترک کیا ہے؛ حالانکہ وہ اس واجب کو پورا کرنے پر قادر تھا۔ یا پھر اس نے ظلم پر مدد کی [اس وجہ سے بھی گنہگار ہوا]۔
اس کے برعکس جو انسان نہ ہی خود ظلم کرے ‘ اور نہ ہی ظلم پر کسی دوسرے کی مدد کرے ؛ بلکہ وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کرے ؛ تو اس پر کچھ بھی گناہ نہ ہوگا۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ نیکوکار مؤمنین صرف نیکی اور بھلائی کے کاموں پر حکمرانوں کی مدد کرتے ہیں ۔ظلم و سرکشی کے کاموں میں ان کی مدد نہیں کرتے ۔ پس یہ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ امام جسے شرعی طور پر مقدم کرنا واجب ہوتا ہے ؛ اسے قرآن کا بڑا قاری ؛ سنت کا بڑاعالم ؛ ہجرت میں مقدم ؛ عمر میں بڑا ہونا چاہیے۔ مگر ایسا صاحب شوکت وقوت آگے بڑھ جائے جو باقی امور میں اس ماقبل الذکر انسان سے بہت کم ہو‘ اور نمازیوں کے لیے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو ؛ تو اس میں نمازیوں کا کیا گناہ ہے ؟
ایسے ہی ظالم اور جاہل یا مفضول حاکم کی بھی مثال ہے ۔جب اس سے مظلوم مطالبہ کرے کہ وہ اس کیساتھ انصاف کرے ‘ یا ظالم سے اس کو اسکا حق دلوائے۔پس اسے چاہیے کہ اسکے قرضہ دار کو بندکردے؛ یا اسکی میراث کو تقسیم کردے ؛ یا اس کی شادی ایسی بیوہ سے کرادے جس کا سلطان کے علاوہ کوئی ولی نہ ہو؛ تو اس پر کونسا یا کس چیز کا گناہ ہوگا یا اسے والی مقرر کرنے والے پر کس بات کا گناہ ہوگا جب کہ وہ حق کے علاوہ کسی چیز پر مدد نہ کرتا ہو اور باطل سے اجتناب کرتا ہو۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ [التغابن ۱۶]
’’ تم سے جتنا ہوسکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جب میں تمہیں کسی چیز کاحکم دوں تو تم سے جتنا ہوسکے اس کی بجا آوری کرو۔‘‘ [رواہ البخاري ۹؍۹۴ ؛ ِکتاب الِاعتِصامِ بِالکِتابِ والسنۃِ، باب الِاقتِدائِ بِسننِ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ مسلِم 2؍975 ؛ کتاب الحجِ، باب فرضِ الحج مرۃ فِی العمرِ ؛ سننِ النسائِیِ 5؍83 ؛ ِکتاب المناسِکِ، باب وجوبِ الحج ؛ سنن ابن ماجہ 1؍3؛ المقدِمۃ، باب اتِباعِ سنِ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔]
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ آمد ِ شریعت حسب امکان تحصیل مقاصد اور ان کی تکمیل کے لیے؛ مفاسد کے خاتمہ اور ان کی تقلیل کے لیے تھی۔ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں :’’ مناسب تو یہ ہے کہ اس آدمی کو والی مقرر کیاجائے جو اس کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ جب ایسا کرنا ممکن ہوتو اکثر کے ہاں پھر اس پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔ جب کہ بعض کے ہاں ایسا کرنا مستحب ہے ۔ہاں جو کوئی قدرت ہونے کے باوجود زیادہ مناسب کو صرف اپنی خواہشات کی وجہ سے چھوڑ دے [اور اس سے کم درجہ کے انسان کو والی مقرر کرے ] تو وہ ظالم ہے ۔ اور جو کوئی زیادہ مناسب کو والی مقرر کرنے سے عاجز ہو؛ حالانکہ وہ ایسا کرنا بھی چاہتا ہو؛ تو ایسے کو معذور سمجھا جائے گا۔
اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : جس کو والی مقرر کردیا جائے ؛ اس سے حسب امکان اللہ کی اطاعت پر مدد لی جائے۔اور اطاعت الٰہی کے امور کے علاوہ کسی چیز میں اس کی مدد نہ کی جائے۔ اللہ کی نافرمانی پر نہ ہی اس سے مدد لی جائے ‘ اور نہ ہی اس کی مدد کی جائے۔
[اب غور کیجیے ] کیا اہل سنت والجماعت کا قول امام کی اطاعت کے متعلق ان لوگوں سے بہتر نہیں ہے جو ایسے معدوم یا عاجز کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں جس سے امامت سے مقصود امور حاصل ہی نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ رافضی جب مسلمان حکمرانوں کی مدد کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے مذہب کے برخلاف چلے تو انہیں کفار کی کرنا پڑی ؛ او رخود ان سے مدد حاصل کرناپڑی ۔ یہ لوگ تو امام معصوم کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے ہیں ؛ مگر ان کا کوئی امام موجود نہیں ہے جس کی اطاعت کریں سوائے کافروں اور ظالموں کے ۔ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو لوگوں کو اولیاء اللہ کی غیبی مدد کے حیلے دیتا ہے۔ مگر اسکے پاس سوائے جھوٹ و مکر کے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اورنہ ہی اس کے پاس کوئی غیبی انسان ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۔ یا پھر اس کے ساتھ کوئی شیطان یا جنات ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے اسے بعض شیطانی احوال حاصل ہوتے ہیں ۔[جن سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں ]
اگر بالفرض تسلیم کرلیا جائے کہ جس نص کا دعوی رافضی کرتے ہیں ‘ وہ حق اور موجود ہے ؛ اور لوگوں نے منصوص علیہ امام کو مقرر نہیں کیا ؛ تو اس وجہ سے وہ ترک واجب کے مرتکب ہوئے ؛ اور کسی دوسرے کو والی تسلیم کرلیا ۔ تب بھی جس امام سے مقصود امامت حاصل ہوسکتے ہیں وہ وہی امام ہے جسے والی مقرر کیا جاچکا ہے۔نہ کہ وہ مغلوب و مقہور امام جو کہ عاجز ہے۔مان لیا کہ وہ حاکم و والی متعین کیے جانے کا مستحق تھا ؛ مگر اسے والی نہیں بنایا گیا۔تو گناہ اس پر ہوگا جس نے اس کا حق مارا ہے ؛ اورراہ حق کو ترک کیا ہے ۔ ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا جنہوں نے نہ ہی کسی کا کوئی حق مارا اور نہ ہی کسی پر کوئی ظلم کیا ۔
شیعہ کہتے ہیں : ’’ امام [حاکم ] مقرر کیا جانا واجب ہے ؛ پس یہی مہربانی ہے اور اس میں بندوں کے لیے مصلحت ہے ۔‘‘
جواب : جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ جس متعین شخص کی ولایت کا حکم دیا جائے گا ؛ لوگ اسے متعین نہیں کریں گے۔تو پھر اس کو والی مقرر کرنے کا حکم دینا جسے لوگ اپنا والی و حاکم مقرر کریں گے‘ اور اس سے فائدہ اٹھائیں گے ‘ زیادہ بہتر تھا کہ اس کا حکم دیا جاتا؛ نہ کہ اس آدمی کا حکم صادر ہوتا جسے انہوں نے اپنا حاکم تسلیم ہی نہ کرنا تھااور نہ ہی اس کی ولایت سے کوئی فائدہ حاصل ہونا تھا۔ جیسا کہ نماز کی امامت اور[ لوگوں کے درمیان فیصلہ کے لیے] جرگہ دارکا کہا جاتا ہے ۔ توپھر اس نص کا کیا عالم ہوگا جس کے بارے میں رافضی دعوی کرتے ہیں ؛ کیا یہ سب سے بڑا جھوٹ اور افتراء نہیں ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مستقبل میں پیش آنے والے امور[تفرقہ بازی ] کے متعلق خبر دی تھی۔ اور اپنے بعد واقع ہونے والے تفرقہ سے آگاہ کیا تھا۔ توپھراگر آپ صراحت کے ساتھ ایسے شخص کو امام بنانے کا حکم بھی دیتے جس کے بارے میں آپ کو علم ہوتا کہ لوگ اسے اپناامام نہیں بنائیں گے؛ بلکہ اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو اپنا امام بنائیں گے ۔ جس سے مقصود ِ امامت و ولایت حاصل ہوسکے۔ اور یہ کہ جب معاملہ اس منصوص علیہ امام تک پہنچے گا تو قتل و غارت گری ہوگی ؛ اور لوگوں کا خونِ ناحق بہایا جائے گا؛ اور اس منصوص علیہ امام سے امت کو کوئی خیر حاصل نہیں ہوگی؛ او رنہ ہی اس سے وہ مقصود ِ امامت و ولایت امور حاصل ہوں گے جو اس کے علاوہ دوسرے ائمہ سے حاصل ہوجائیں گے ؛ توپھر اس وقت منصوص علیہ امام کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو امام بنانا واجب ہوجاتا ہے ۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ولی امر [حاکم ] کے پاس دو افراد تھے ؛ اور وہ جانتا تھا کہ اگر ان میں سے ایک کو عامل بنادیا جائے تو لوگ اس کی بات مانیں گے اور اطاعت کریں گے ؛ اور اس کے ہاتھوں پر علاقے فتح ہوں گے؛ وہ جہاد کو قائم کرے گا اوردشمن کو زیر کریگا۔اور اگر دوسرے کو عامل بنائے گا تو لوگ اس کی اطاعت نہیں کریں گے ؛ اور نہ ہی وہ کوئی علاقہ فتح کرسکے گا؛ بلکہ اس کے دور میں رعیت میں فتنہ و فساد برپا ہوگا۔ تو پھر ہر عاقل جانتا ہے کہ اس صورت میں لازم ہوگا کہ اس آدمی کو ولایت عطا کی جائے جس کے ہاتھوں خیرو بھلائی حاصل ہو۔ نہ کہ اس آدمی کو اختیار دیے جائیں جس سے کوئی بھلائی و خیر حاصل نہ ہو۔ بلکہ اس کی وجہ سے رعیت ہی فساد کا شکار ہوجائے۔ تو پھر جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تینوں خلفاء کے بارے میں جانتے تھے کہ ان کے ذریعہ سے امت کے لیے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ اور ان سے کیاکچھ امت کو مصلحتیں دین ودنیا میں حاصل ہوں گی؛ پھر ان کی امامت کے بارے میں کو ئی نص و صراحت موجود نہ ہو؛ اور ایسے امام کی امامت پر نص موجود ہو جس کی نہ ہی اطاعت کی جائے اورنہ ہی اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہو ۔بلکہ اس کے دور میں قتل و غارت گری ہو؛ نہ ہی وہ دشمن پر قابو پا سکتا ہواورنہ ہی اپنے ماننے والوں کی اصلاح کرنے پر قادر ہو۔ توکیا خواہ کوئی کتنا بڑا ظالم اور فسادی ہی کیوں نہ ہو ؛کسی جاہل کے علاوہ کوئی بھی ایسے انسان کو عامل بنا سکتا ہے ؟
اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جہالت اور ظلم سے بری ہیں ۔ جب کہ شیعہ اللہ اوراس کے رسول کی طرف لوگوں کی مصلحت اور راہ ِ حق سے کجی اختیار کرنے کو منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے وہ راہ اختیار کی جس میں فساد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔
اگر شیعہ کہیں کہ :’’ یہ فساد لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے پیدا ہوا نہ کہ امام کی کوتاہی کی وجہ سے۔‘‘
توان سے کہا جائے گا کہ: کیا ایسے انسان کی ولایت میں مصلحت نہیں ہے لوگ جس کی اطاعت کرتے ہوں ‘اوریہ اس کی نسبت بہتر نہیں ہے لوگ جس کی نافرمانی کریں اور مصلحت حاصل نہ ہو؟ بلکہ فساد ہی پیدا ہو۔ اگر کسی انسان کا بیٹا ہو؛ اوراس کے لیے ادب سکھانے والے دو اتالیق ہوں ؛ جب اس بچے کو ان دو میں سے ایک اتالیق کے سپرد کیا جائے تو وہ علم و ادب سیکھے۔ اور جب دوسرے کے پاس بھیجا جائے تو بچہ بھاگ جائے ‘ [اوراس سے کچھ بھی نہ سیکھے ] تو کیا پھر اس بچے کو پہلے اتالیق کے سپرد کرنا زیادہ بہتر اور مناسب نہیں ؟
اگر یہ کہیں کہ : دوسرا اتالیق افضل ہے ۔ تو ہم پوچھتے ہیں جب بچے کے اس سے بھاگ جانے کی وجہ سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکتا ہو تو پھر اس کے افضل ہونے کا کیا فائدہ [اور کونسی وجہ فضیلت ہے ]؟
اگر کسی عورت کو دو آدمی نکاح کا پیغام بھیجیں ؛ ان میں سے ایک آدمی دوسرے سے افضل ہو۔ لیکن وہ عورت اس کو نا پسند کرتی ہو؛ اگر وہ اس آدمی سے شادی کربھی لے تو اس کی بات نہ مانے ۔ بلکہ اس سے جھگڑا کرتی رہے اورتکلیف دیتی رہے ۔ نہ ہی یہ عورت اس مرد سے کوئی فائدہ حاصل کرسکے اورنہ ہی وہ مرد اس عورت سے کوئی فائدہ حاصل کرسکے۔ جب کہ دوسرے آدمی سے یہ عورت محبت کرتی ہے ‘ وہ اس سے محبت کرتا ہے ؛ اور اگر ان کی آپس میں شادی ہوجائے تو اس سے مقاصد نکاح پورے ہوسکیں ۔تو پھر کیا باتفاق اہل عقل و دانش اس مفضول آدمی سے شادی کرنا زیادہ بہتر نہیں ہے ؟ جو آدمی اس دوسرے سے شادی کا کہے ‘ وہ اس سے زیادہ بہتر ہے جو پہلے آدمی سے شادی کا کہہ رہا ہے ۔ توپھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف ایسی بات کیوں منسوب کی جاتی ہے جس پر کسی ظالم وجاہل کے علاوہ کوئی بھی انسان راضی نہیں رہ سکتا ؟
یہ ایسے امور ہیں جن کا باطل ہونا معلوم ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ [خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے] افضل تھے؛ اورآپ امارت کے زیادہ حق دار تھے۔مگر آپ کی ولایت سے وہی کچھ حاصل ہوسکتا تھا ؛ جو کہ حاصل ہوا۔ آپ کے علاوہ دوسرے لوگ ظالم تھے ؛ مگر ان سے مصلحتیں اورفوائد حاصل ہوئے ۔ اگر ایسے نہ ہوتا تو معاملہ بالکل الٹ ہوتا ۔ نہ ہی مصلحت حاصل ہوتی ؛ نہ ہی لوگ اطاعت کرتے ۔
اس مسٔلہ میں اہل سنت و الجماعت کا مذہب سچی خبر اور دانشمندانہ قول ہے۔جب کہ رافضیوں کا مذہب جھوٹی خبر اور احمقوں کا قول ہے ۔ اہل سنت والجماعت اس امیر یا حاکم یاخلیفہ کو مانتے ہیں جو شان و شوکت اور قوت والا ہو؛ اوروہ مقصود ولایت مصلحتیں پوری کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ جیسا کہ نماز کا امام وہی ہوسکتا ہے جو لوگوں کو نماز پڑھائے ؛ اورلوگ اس کی اقتداء کریں ۔ وہ انسان ہرگز امام کا مستحق نہیں ہوسکتا جو امام بنا پھرے اور لوگوں کو کبھی ایک نماز بھی نہ پڑھائے۔ لیکن اسے امام ہونا چاہیے تھا۔ حقیقی امام میں اور جسے امام ہونا چاہیے ان دونوں کے درمیان جو فرق ہے ؛ وہ کسی بھی اہل خرد و دانش پر مخفی نہیں ہے۔
[شیعہ ] کہتے ہیں :
’’ بیشک یہ امام نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کرتا ہے برائی اور گناہ کے کاموں پر نہیں ۔پس اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں میں اس کی اطاعت کی جائے گی ‘ نافرمانی اور گناہوں کے کاموں میں نہیں ۔ اور اس کے خلاف شمشیر بکف ہوکر خروج نہیں کیا جائے گا۔ احادیث نبویہ اسی پر دلالت کرتی ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے امیر سے کوئی بری حرکت صادر ہوتی دیکھے تو صبر سے کام لے اس لیے کہ جو شخص اطاعت سلطان سے ایک بالشت بھر باہر نکلا اور پھر اسی پر اس کی موت واقع ہوگئی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الفتن ۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ ’’ سترون بعدی امور تنکرونھا( ح:۷۰۵۴)۔ صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین(ح:۱۸۴۹) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو اطاعت سے نکلا اور پھر جماعت کو چھوڑ کر مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے، اور جو طرف داری اور تعصب کی خاطر لڑتا ہوا مارا جائے تو وہ میری امت میں سے نہیں ۔‘‘ صحیح مسلم۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (ح: ۱۸۴۸)۔ایک روایت میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو وہ روز قیامت اﷲ تعالیٰ کو ملے گا اور اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی (خلیفہ و امام) کی بیعت کا جواز نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ صحیح مسلم (ح: ۱۸۵۱) نیز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اﷲ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت روا نہیں ، اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔‘‘بخاری(ح: ۷۲۵۷) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’امیر وخلیفہ کی بات سننا اور اس پر عمل پیرا ہونا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے، خواہ وہ بات اسے پسند ہو یانا پسند ، البتہ اگر اسے اﷲ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھرسننا ضروری ہے، نہ اطاعت کرنا۔‘‘ بخاری (حدیث:۲۹۵۵) ]
اورروایت کے یہ الفاظ ہیں :’’بیشک جو کوئی جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوا اور پھر اسی پر اس کی موت آگئی تو جاہلیت کی موت میں مرا۔‘‘
پس صاحب ِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم کے خلاف خروج اورمسلمان کی جماعت میں تفرقہ ڈالنے کو حرام ٹھہرایا ہے ۔ اور حاکم میں برائیاں دیکھ کر ان پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔یہ حکم کسی متعین حاکم ؛ متعین امیر یا جماعت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ جو اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔اور جس نے اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کی کسی عصبیت کی بنا پر غصہ کرتے ہوئے ؛اورعصبیت کی طرف بلایا؛ یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل کردیا گیا ؛تو وہ جاہلیت کے طور پر قتل کیا گیا اور جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک وبد سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا اور نہ کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تو وہ میرے دین پر نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔‘‘ [مسلِم 3؍1476 ؛ کتاب الإِمارۃِ، باب وجوبِ ملازمۃِ جماعۃِ المسلِمِین.... ؛ سننِ النسائِیِ 7؍122 کِتاب تحرِیمِ الدمِ، باب التغلِیظِ فِیمن قاتل تحت رایۃ عِمِیۃ ؛ المسندط. المعارِفِ) 15؍87 ۔ ؛ وجاء الحدِیث مختصرا فِی سنن ابن ماجہ 2؍1302 (کتاب الفِتنِ، باب العصبِیۃ]
پس اس حدیث مبارک میں اطاعت گزاری سے خروج اور جماعت سے علیحدگی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اور اسے جاہلیت کی موت قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اہل جاہلیت کا کوئی بڑا سربراہ نہیں ہوا کرتا تھا جو انہیں باہم جمع کرسکے۔ جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ کسی نہ کسی کو سربراہ بنالینے کا حکم دیا کرتے تھے۔ حتی کہ آپ نے حکم دیا کہ اگر سفر میں تین لوگ ہوں تو وہ ایک کو اپنا امیر بنالیں ۔ یہ حکم آپ کا کم سے کم تعداد کے لیے مختصر ترین اجتماع کے لیے ہے ۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا اس خوف سے کہیں وہ مجھے نہ پالے۔ چنانچہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم جاہلیت اور برائی میں تھے، اللہ نے ہمارے پاس یہ خیر بھیجی تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟
تو آپ نے فرمایا : ہاں ۔ میں نے پوچھا کہ: اس شر کے بعد بھی خیر ہوگا؟
آپ نے فرمایا : ہاں ۔ اور اس میں کچھ دھواں ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ: اس کا دھواں کیا ہوگا؟
آپ نے فرمایا: ’’ وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ میرے طریقے کے خلاف چلیں گے؛ ان کی بعض باتیں تو تمہیں اچھی نظر آئیں گی اور بعض باتیں بری نظر آئیں گی۔‘‘
میں نے پوچھا :کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔ کچھ لوگ جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ اس کو جہنم میں ڈال دیں گے۔‘‘
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ان لوگوں کی کچھ حالت ہم سے بیان فرمائیں ؟
آپ نے فرمایا کہ:’’ وہ ہماری قوم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔‘‘
میں نے عرض کیا : ’’ اگر میں وہ زمانہ نہ پالوں ، تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ‘‘؟
فرمایا کہ:’’ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہو۔‘‘
میں نے کہا : اگر ان کی جماعت اور امام نہ ہو تو؟
فرمایا کہ:’’ ان تمام جماعتوں سے علیحدہ ہوجاؤ اگرچہ تجھے درخت کی جڑچبانی پڑے یہاں تک کہ اس حال میں تیری موت آجائے‘‘ ۔
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں : میں نے پوچھا کہ اس شر کے بعد بھی خیر ہوگی؟
آپ نے فرمایا کہ :ہاں ۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیسے ہوگا؟
آپ نے فرمایا:’’ میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے جو میری راہ پر نہیں چلیں گے او رنہ ہی میری سنت کی پیروی کریں گے۔ اور ان میں ایسے لوگ ان کے بڑے ہوں گے جن کے دل شیاطین کے دل انسانی جسموں میں ہوں گے۔‘‘میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں ان حالت کو پالوں تو پھر کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’امیر کی بات سنو اور مانو؛بھلے وہ تمہاری پیٹھ ٹھونکے اور تمہارا مال ناحق چھین لے؛ مگرتم بات سنو اور اطاعت گزاری کرو۔‘‘ [صحیح مسلم 3؍1475 ، وفِیہِ: ویہدون بِغیرِ ہدیِی ؛ وفِی شرحِ النووِی12؍236: یہتدون ، و الحدِیث أیضا فِی البخاری 4؍199 ؛ کتاب المناقِبِ، باب علاماتِ النبوۃِ فِی الإِسلامِ،9؍51 ؛ کتاب الفِتنِ؛ سنن ابن ماجہ 2؍1317؛ ِکتاب الفِتنِ، باب العزلۃِ۔]
اس کی تفسیر اور وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے؛ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟
فرمایا : دلوں کے فساد پر بظاہر صلح ہوگی۔ اور اس میں اور ان میں ایک جماعت گندگی پر ہوگی [دلوں میں کدورت و نفرت ہوگی‘‘]۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! دلوں میں فساد پر ظاہر میں صلح کا کیا مطلب ہے؟ تو فرمایا کہ : ’’قوم کے قلوب اس حالت سے واپس نہ پھریں گے جس پر وہ پہلے تھے۔‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟ فرمایا کہ:’’ ایک اندھا، بہرا فتنہ ہوگا کہ اس میں آگ کے دروازہ پر بلانے والے لوگ ہوں گے پس اے حذیفہ اگر تو جنگل میں جڑیں کھا کر مرجائے تو یہ تیرے لئے بہتر ہے کہ اس سے کہ تو ان میں سے کسی کی پیروی کرے [کیونکہ سب ہی غلط ہوں گے]۔‘‘ [یہ حدیث سنن ابو داؤد میں ان الفاظ میں ہے: ’’.... حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی فتنہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’ اے حذیفہ کتاب اللہ میں جو کچھ ہے؛ اسے معلوم کر اور اس کی اتباع کر تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ میں نے عرض کیا:’’ کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ سنن ابوداد:جلد سوم:حدیث نمبر 854۔]
پس پہلی خیر و بھلائی نبوت اور خلافت نبوت تھی جس میں کوئی فتنہ نہیں تھا۔ خرابی اور برائی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد پیدا ہوئی۔ جب لوگ آپس میں متفرق ہوگئے۔اور ان کا حال جاہلیت کے حال سے مشابہ ہوگیا جس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔
یہی وجہ ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’جب یہ فتنہ بپا ہوا؛ اس وقت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛و رضی اللہ عنہم وافر تعداد میں تھے۔ پس ان کا اس بات پر اجماع ہوا کہ جو بھی خون یا مال یا شرمگاہ تاویل قرآن کی وجہ سے پامال ہو؛ وہ رائیگاں ہے۔ اور وہ اسے جاہلیت کی منزلت پر شمار کرتے تھے۔
پس یہ واضح ہوگیا کہ وہ اس قسم کے خون کو ناقابل ضمانت سمجھتے تھے۔جیساکہ اہل جاہلیت جو ایک دوسرے کا خون خرابہ کرتے تھے اس کی کوئی ضمانت یا تاوان [دیت ] نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے کہ تاوان؍ضمانت اس وقت ہوتی ہے جب اس کی حرمت کا علم ہو۔ ہاں جب حرمت کے حکم سے جہالت ہو؛ جیسا کہ کفار اور مرتدین اور اہل قبلہ میں سے متأولین کا حال ہے؛ تو اس موقع پر کوئی تاوان؍ ضمانت نہیں ہوتی ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پر اس مقتول کی دیت یا تاوان نہیں ڈالا تھا جسے انہوں نے تاویل کی بنا پر قتل کردیا تھا۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا:
(( أقتلتہ بعد أن قال لا ِإلہ ِإلا اللّٰہ؟ أقتلتہ بعد أن قال لا ِإلہ ِإلا اللّٰہ؟ أقتلتہ بعد أن قال لا ِإلہ ِإلا اللّٰہ؟۔))[مسلِم 1؍96 کتاب الإِیمانِ، باب تحرِیمِ قتلِ الکافِرِ بعد أن قال لا إِلہ ِإلا اللّٰہ . وہو فِی سننِ أبِی داود 3؍61 کتاب الجہاد، باب علی ما یقاتِل المشرِکون۔]
یہی وجہ ہے کہ حدود صرف ان لوگوں پر قائم ہوتی ہیں جنہیں حرمت کا علم ہو۔
دوسری خیر اس وقت حاصل ہوئی جب حضرت امیر معاویہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہماکے مابین صلح ہوئی؛اور لوگوں کے مابین اجتماع ہوگیا۔لیکن اس اجتما میں پرا گندگی تھی دلوں میں وہی کدورت پر مشتمل احساس باقی تھا ۔ اور دلوں میں باقی یہ میل ویسے ہی تھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پشین گوئی کی تھی؛ ویسا ہی پیش بھی آیا۔
یہ حدیث حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہماکی خلافت کے زمانہ میں فتنہ پیدا ہونے سے پہلے بیان کی تھی۔ اورجب آپ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے کی اطلاع ملی تو آپ کو یقین ہوگیا کہ وہ فتنہ آ پہنچا ہے۔ اس کے چالیس دن بعد لڑائی شروع ہونے سے پہلے آپ کا انتقال ہوگیا۔
یہ ویسے ہی تھا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں خبر دی تھی کہ : اس کے بعد ایسے حکمران آئیں گے؛ جو میری راہ پر نہیں چلیں گے؛ اور میری سنت کی اتباع نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان میں ایسے حاکم ہوں گے جن کے دل انسانی جسموں میں شیاطین کے دل ہوں گے۔ اور پھر آپ نے امیر کی اطاعت گزاری اور بات سننے اور ماننے کا حکم دیا؛ اگرچہ وہ ظلم کرتے ہوئے مارے بھی اور مال بھی چھین لے۔ تو اس سے ظاہر ہوا کہ جس امام کی اطاعت کی جائے گی ؛ اس سے مراد وہ حاکم ہے جسے سلطان اور غلبہ حاصل ہو۔ خواہ وہ عادل ہو یا ظالم ۔
اور ایسے ہی صحیح مسلم میں ہے: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من خلع یدا مِن طاعۃِ إِمامٍ لقِی اللہ یوم القِیامۃِ لا حجۃ لہ، ومن مات ولیس فِی عنقِہِ بیعۃ مات مِیتۃ جاہِلِیۃ، لکِنہ لا یطاع أحد فِی معصِیۃِ اللہِ۔))[سبق تخریجہ]
’’جس کسی نے امام کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ بروز قیامت اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے لیے کوئی حجت نہیں ہوگی۔ اور جو کوئی اس حال میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مریگا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کو بھیجا؛ اور اس پر ایک انصاری کو امیر مقرر فرمایا۔ اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس کی بات سنیں اور اطاعت کریں ۔ انہوں نے امیر کو کسی بات کی وجہ سے ناراض کردیا ؛تو امیر نے کہا میرے پاس لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے جمع کردیں ۔
پھر کہا: آگ جلاؤ؛ تو انہوں نے جلادی۔ پھر کہا :’’کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے حکم کو سننے اور اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟
انہوں نے کہا: کیوں ؛ نہیں ۔ تو اس نے کہا:’’ آگ میں کود پڑو۔‘‘
تو انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کہا:’’ ہم آگ سے بھاگ کر ہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور اسی بات پر ڈٹ گئے۔ اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور آگ بجھا دی گئی۔ جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے اس بات کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ؛تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اگر وہ اس میں داخل ہوجاتے تو اس سے نکل نہ سکتے اطاعت تو نیکی میں ہی ہوتی ہے۔‘‘ [فِی البخاری 5؍161؛ کتاب المغازِی، باب سرِیۃِ عبدِ اللہِ بنِ حذافۃ السہمِیِ، 9؍63 ؛ کتاب الأحکامِ، باب السمعِ والطاعۃِ لِلإِمامِ ما لم تکن معصِیۃ ؛ مسلِم 3؍1469 ؛ کِتاب الإِمارۃِ، باب وجوبِ طاعِ الأمرائِ فِی غیرِ معصِیۃ ؛ المسندِ؛ ط. المعارِفِ ج 9 رقم 622]
اورایک روایت کے الفاظ ہیں :
((لا طاعۃ فِی معصِیۃِ اللّٰہِ ِإنما الطاعۃ فِی المعروفِ۔ )) [فِی البخاری 9؍88 ِکتاب أخبارِ الآحادِ، الباب الأول ؛ مسلِم 3؍469؛ الِکتاب والباب السابِقینِ فِی التعلِیقِ السابِقِ ؛ سننِ بِی داود 3 ۔ 56 کتاب الجہاد، باب فِی الطاعۃ؛ سننِ النسائِیِ 7؍142؛ کتاب البیعِ، باب جزائِ من أمِر بِمعصِیۃ فأطاع ؛ المسندِ؛ ط. المعارِفِ2؍98. ۔]
’’اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی کوئی اطاعت گزاری نہیں ؛ بیشک اطاعت گزاری نیکی کے کاموں میں ہے۔‘‘
اور ایسے ہی صحیحین حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( علی المرئِ المسلِمِ السمع والطاعۃ فِیما أحب وکرِہ، ِإلا أن یأمر بِمعصِیۃ ، فإِن أمِرَ بِمعصِیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔))[سبق الحدیث]
’’ مسلمان انسان پر پسندیدگی اور نا پسندیدگی میں سمع و اطاعت واجب ہے۔ سوائے اس کے کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے۔ اگر اسے کسی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ ہی سمع ہے اور نہ ہی اطاعت۔‘‘
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور ہم نو شخص تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ دیکھو میرے بعد حکمران ہوں گے جو شخص ان کی جھوٹی بات کو سچ کہے (خوشامد اور چاپلوسی کی وجہ سے اور حق کو باطل قرار دے)اور ظلم و زیادتی کرنے میں اس کی مدد کرے تو وہ مجھ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا نہ میں ان سے کچھ تعلق رکھتا ہوں ؛ وہ قیامت کے دن میرے حوض [یعنی حوض کوثر] پر بھی نہ آئے گا اور جو شخص ان کے جھوٹ کو سچ نہ کہے ]بلکہ اس طرح کہے جھوٹ ہے یا خاموش رہے اور ظلم کرنے میں اس کی مدد نہ کرے تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور وہ میرے حوض پر آئے گا۔‘‘ [اسے أحمد، اورنسائی نے روایت کیا ؛ یہ الفاظ نسائی۷؍۱۴۷ کے ہیں ۔اور تِرمِذِی۲؍۶۱؛ نے بھی روایت کیا ہے ؛اور کہا ہے:حدِیث صحِیح غرِیب . نیز دیکھیں : جامع الاصول لابن اثیر ۴؍ ۴۶۰۔ ]
صحیحین میں ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو بلایا :
’’اور ہم نے آپ کی بیعت کی آپ نے جن باتوں کی ہم سے بیعت لی وہ یہ تھیں ، کہ ہم بیعت کرتے ہیں اس بات پر ہم اپنی خوشی اور اپنے غم میں اور تنگدستی اور خوشحالی اور اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی صورت میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور حکومت کے لئے حاکموں سے نزاع نہیں کریں گے لیکن اعلانیہ کفر پر، جس پر اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔‘‘[البخاری 9؍47 ؛ کتاب الفِتنِ، باب قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سترون بعدِی أمورا تنکِرونہا ؛ مسلِم 3؍1470 ۔ 1کِتاب الإِمارۃِ، باب وجوبِ طاعۃِ الأمراِ فِی غیرِ معصِیۃ۔ ]
حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’ عنقریب فتنے اور فساد ظاہر ہوں گے اور جو اس امت کی جماعت کے معاملات میں تفریق ڈالنے کا ارادہ کرے اسے تلوار کے ساتھ مار دو وہ شخص کوئی بھی ہو۔‘‘[فِی مسلِم 3؍1479 ؛ کِتاب الإِمارۃِ، باب حکمِ من فرق أمر المسلِمِین وہو مجتمِع ؛ سننِ أبِی داود 4؍334 کتاب السنۃِ، باب فِی قتلِ الخوارِج ؛ المسندِ ط. الحلبِیِ4؍341 ؛ فِی موضِعینِ. وقال النووِی فِی شرحِہِ علی مسلِم12؍241: الہنات: جمع ہن وتطلق عل کلِ شی، والمراد بِہا ہنا: الفِتن والأمور المحدث.]
اور اسی کتاب میں ایک دوسری روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے :
’’تم اپنے معاملات میں کسی ایک آدمی پر متفق ہو پھر تمہارے پاس کوئی آدمی آئے اور تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمہاری جماعت میں تفریق ڈالنا چاہے تو اسے قتل کر دو۔‘‘ [الحدِیث فِی مسلِم 3؍1480۔الموضِع السابِق؛ وفِیہِ: وأمرکم جمِیع علی رجل واحِد.]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عنقریب ایسے امرا ہوں گے جن کے خلاف شریعت اعمال کو تم پہچان لوگے اور بعض اعمال نہ پہچان سکو گے پس جس نے اس کے اعمال بد کو پہچان لیا وہ بری ہوگیا جو نہ پہچان سکا وہ محفوظ رہا لیکن جو ان امور پر خوش ہوا اور تابعداری کی [وہ محفوظ نہ رہا] صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ۔
اور صحیح مسلم میں ہی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((من ولِی علیہِ وال فرآہ یأتِی شیئاً مِن معصِیۃِ اللّٰہِ، فلینکِر ما یأتِی مِن معصِیۃِ اللّٰہِ، ولا ینزِعن یداً مِن طاعۃ۔ ))[سبق الحدیث]
’’جس پر کسی کو والی بنایا گیا؛ تو وہ دیکھے والی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کام کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ جووہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کام کرتا ہے انہیں برا سمجھے مگر اس کی اطاعت سے فروکشی نہ کرے۔‘‘
[پہلی جلد ختم ؛ دوسری جلد شروع ]