فصل: ....حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ
امام ابنِ تیمیہؒفصل: ....حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ
حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ کبار تابعین میں سے تھے ؛ آپ علم اور دینداری کے اعتبارسے سردار شمار ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے والد اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ؛ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ؛ ابو رافع رضی اللہ عنہ غلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ؛ اور امہات المؤمنین میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ؛ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ‘ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے علم حاصل کیا۔ ان کے علاوہ مروان بن حکم ؛ سعید بن مسیب ؛ عبد اللہ بن عثمان بن عفان ؛ ذکوان مولی عائشہ ؛ وغیرہ رحمہم اللہ سے بھی کسب فیض کیا۔ آپ سے علم نقل کرنے والوں میں سلمہ بن عبد الرحمن ؛ یحی بن سعید انصاری ؛ زہری ؛ ابو زناد؛ زید بن اسلم اور ان کے بیٹے جعفر رحمہم اللہ کے نام شامل ہیں ۔یحی بن سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے آپ کو مدینہ کے ہاشمیوں میں سب سے افضل پایا ۔‘‘محمد بن سعد رحمہ اللہ طبقات میں فرماتے ہیں :
’’آپ کثرت کے ساتھ حدیث روایت کرنے والے ثقہ ؛ مامون؛ بلند قدر اور عالیشان عالم تھے ۔‘‘
حماد بن زید نے یحی بن سعید الانصاری سے روایت کیا ہے : وہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ کو سنا ؛آپ کو میں نے سب ہاشمیوں میں سے افضل پایا ؛ آپ فرما رہے تھے : ’’ اے لوگو! ہم سے اسلام کے اصولوں کے مطابق محبت کرو ۔ تم ہم سے ایسی محبت کرتے رہے کہ اب تمہاری محبت ہمارے لیے عار بن گئی ہے۔‘‘
شیبہ بن نعامہ کا قول ہے : حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ لوگوں کو بخیل لگتے تھے ۔جب آپ کا انتقال ہوگیا تو پتہ چلا کہ آپ چپکے سے خاموشی میں اہل مدینہ کے ایک سو گھرانوں کی مدد کیا کرتے تھے۔‘‘
نماز میں آپ کا خشوع ؛ خفیہ صدقات وغیرہ کے علاوہ آپ کے کئی ایک ایسے فضائل ہیں جو لوگوں کے مابین بڑے معروف ہیں ۔ آپ کی دینداری اور خیر خواہی کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے لوگوں کی مجلس میں شریک ہوتے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے غلام زید بن اسلم رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا کرتے ۔ اور تابعین میں سے آپ کا شمار بڑے اہل علم اور دیندار لوگوں میں سے ہوتا ہے۔ آپ سے کہا جاتا : آپ اپنی قوم کی مجلس چھوڑ کر اس آدمی کی مجلس میں بیٹھتے ہیں ؟ ۔ تو آپ جواب میں فرمایا کرتے : ’’ انسان وہیں بیٹھتا ہے جہاں وہ اپنے دل کی اصلاح پاتاہے ۔‘‘
٭ باقی رہا مسئلہ کہ آپ کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ رات کو ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے ؛ تو اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے ۔ شریعت ایسے امور کو نا پسند کرتی ہے۔نیز ایسا کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ ایسی باتوں کو مناقب میں ذکر کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ۔‘‘
[اشکال ]: شیعہ مضمون نگار یہ بھی کہتا ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن حسین کا نام ’’زین العابدین ‘‘ تجویز کیا۔
[جواب]: یہ بے اصل بات ہے اور کسی عالم نے یادیندار انسان نے ایسی کوئی روایت بیان نہیں کی[وأورد ابن الجوزِیِ فِی کتابِہِ الموضوعاتِ: ۲؍۴۴، ۴۵۔ ہذا حدِیث موضوع بِلا شک، والمتہم بِہِ الغلابِی۔قال الدارقطنِی: کان یضع الحدِیث وانظر عن ہذا الحدِیثِ الموضوعِ: اللآلِیء المصنوعۃ:۱؍۴۵۱، ۴۵۳،الفوائِد المجموع، ص : ۴۱۸،تنزِیہ الشرِیعۃِ: ۱؍ ۴۱۵۔]۔
[اشکال ]: شیعہ کا یہ قول کہ: ’’ ابو جعفر محمد بن علی [بن حسین ]اپنے زما نہ کے سب سے بڑے اور بہترین عالم اور دیندار تھے ۔ اور کہا جاتا ہے کہ آپ کو باقر اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے تمام علوم پر دسترس حاصل کرلی تھی ؛ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ کی پیشانی پر سجدہ کے نشانات تھے۔‘‘
[جواب]:آپ کے متعلق زمانے کا سب سے بڑا عالم ہونے کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔ امام زہری اسی زمانہ میں بقید حیات تھے اور وہ لوگوں کے نزدیک ابوجعفر رحمہ اللہ کی نسبت بڑے عالم تھے۔ یہ صریح جھوٹ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ابو جعفر کا نام باقر تجویز کیا تھا۔ اہل علم کے ہاں کسی بھی ایسی روایت کی کوئی خبر نہیں ملتی۔بلکہ اس کا شمار من گھڑت روایات و حکایات میں ہوتا ہے۔ یہی حال حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب سلام پہنچانے والی روایت کا ہے۔ یہ روایت بھی موضوع اور من گھڑت ہے۔ لیکن اس راوی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے دیگر چند روایات نقل کی ہیں ۔جیسے کہ غسل اور حج کی احادیث ؛ اور ان کے علاوہ دیگر بھی کئی ایک صحیح احادیث منقول ہیں ۔ آپ اپنے والد علی بن حسین کے ساتھ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت تشریف لے گئے جب وہ نابینا ہوچکے تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے ۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے علم حاصل کیا تھا۔ اوراس کے ساتھ ہی صحابہ کرام میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما ابو سعید ؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی روایات نقل کی ہیں ۔ ان کے علاوہ سعید بن المسیب ؛محمد بن الحنفیہ ؛ وعبید اللہ بن ابی رافع منشی حضرت علی؛ ابو اسحق ہمدانی؛ عمرو بن دینار زہری ؛ عطا ء ابن ابی رباح؛ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن رحمہم اللہ سے بھی کسب فیض کیا ہے۔ امام اعرج عمر میں آپ سے بڑے تھے۔ ان کے بیٹے جعفر ؛ ابن جریج ؛ یحی بن ابی کثیر اور اوزاعی وغیرہ۔ رحمہم اللہ ۔سے بھی کسب علم کیا ہے ۔
جعفر بن محمد رحمہ اللہ کی مدح و ستائش:
جعفر الصادق رحمہ اللہ اہل علم و دین کے بہترین لوگوں میں سے تھے ۔ آپ نے اپنے دادا سے کسب فیض کیا ؛ ان کی والدہ ام فروہ بنت القاسم بن محمد بن ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ تھیں ۔ان کے علاوہ محمد بن المنکدر ؛ نافع مولی ابن عمر؛ زہری؛ عطاء ابن ابی رباح ؛ اور دوسرے تابعین کرام رحمہم اللہ سے بھی علم حاصل کیا۔ آپ سے یحی بن سعید الانصاری ؛ مالک بن انس ؛ سفیان ثوری ؛ سفیان بن عیینہ ؛ ابن جریج ؛ یحی بن سعید القطان ؛ حاتم بن اسماعیل؛ حفص بن غیاث؛ محمد ابن اسحق ابن یسار رحمہم اللہ نے کسب فیض اور نقل علم کیا ہے۔ عمرو ابن ابو المقدام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جب میں امام جعفر بن محمد رحمہ اللہ کو دیکھتا تھا تو پتہ چلتا تھا کہ آپ انبیاء کرام علیہم السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔‘‘[أبو عبدِ اللہِ جعفر بن محمدِ بنِ علِیِ بنِ الحسینِ بنِ علِیِ بنِ بِی طالِب، الملقب بِالصادِقِ، الِمام السادِس عِند الرافِضۃِ۔ ولِد بِالمدِینۃِ سنۃ:۸۰ وتوفِی بِہا سن:۱۴۸۔ھ؛ انظر ترجمتہ فِی: تذکِرۃِ الحفاظِ:۱؍۱۶۶، صِفۃِ الصفوِۃ۲؍۹۴، ۹۸، وفیاتِ الأعیانِ: ۱؍۲۹۱، ۲۹۲،حِلیِۃ الأولِیائِ: ۳؍۱۹۲، ۲۰۶،الأعلامِ:۲؍۱۲۱۔ وانظر عنہ ِکتاب الإِمامِ الصادِقِ لِلشیخِ محمد أبِی زہرۃ رحِمہ اللہ، ط۔ دارِ الفِکرِ العربِیِ، القاہِرِ، بِدونِ تارِیخ۔]
[اشکال ]:شیعہ مصنف آپ کی بابت کہتا ہے : ’’آپ حکومت طلبی کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول ہوگئے ۔‘‘
[جواب]:یہ امامیہ کے اقوال میں تناقض کی نشانی ہے۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک امامت کا بوجھ برداشت کرنا امامت کے واجبات میں سے ہے۔ آپ کے زمانے میں آپ کے علاوہ کوئی دوسرا امام بھی نہیں تھا ۔ اگر اس عظیم الشان امر کو ادا کرنا واجب تھا تو پھر اس کے حقوق پورے کرنا نفل عبادت میں مشغول ہونے سے زیادہ اولی تھا۔
[اشکال ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’جعفر بن محمد نے امامیہ کی فقہ اور عقائد و معارف کو خوب پھیلایا۔‘‘[جواب]:اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ جعفر بن محمد رحمہ اللہ نے وہ مسائل اختراع کیے جو متقدمین کو معلوم نہ تھے یا یہ کہ اس کے پیش رواپنے واجبات کی ادائیگی اور علم کی نشرو اشاعت میں کوتاہی کا ارتکاب کرتے رہتے تھے۔ کیا اس میں کوئی مسلمان شک کرسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام علوم و معارف اور امورِ عقائد و ایمان بوجہ اکمل سیکھے تھے ؛اور پھر انہیں آگے مسلمانوں تک بھی پہنچایا تھا۔
اس دعوی کامقتضی آپ کی تعریف نہیں ‘بلکہ آپ کی شان میں قدح کرنا ہے۔ بلکہ امام جعفر الصادق پر ان کے متقدمین ائمہ کی نسبت بہت زیادہ جھوٹ بولا گیاہے۔ یہ تمام تر آفات جھوٹ گھڑنے والوں کی طرف سے پیش آئی ہیں ‘آپ اس سے بری ہیں ۔حقیقت میں حضرت جعفر رحمہ اللہ سے متعلق جھوٹ کا طومار باندھنے والے اس آفت کے ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے جھوٹ موٹ کتاب البطاقہ، کتاب الجفر، کتاب الہفت،کلام فی النجوم ؛ مقدمہ رعود و بروق؛ اختلاج الاعضاء اور دیگر کتب کو ان کی طرف منسوب کر دیا تھا۔ ایسے ہی [شیعہ مفسر ] ابو عبد الرحمن[السلمی] نے اپنی تفسیر ’’ حقائق التفسیر ‘‘میں آپ پر وہ جھوٹ باندھے جن سے آپ اللہ کے نزدیک بری ہیں ۔یہاں تک کہ جو بھی انسان اپنے جھو ٹ کی دکان چمکانا چاہتا ہے ‘ وہ اسے جعفر الصادق کی طرف منسوب کردیتا ہے ۔
دروغ گوئی کی حدیہ ہے کہ’’ رسائل اخوان الصفا‘‘ بعض لوگوں کے نزدیک امام جعفر سے ماخوذ ہیں ۔ اس کا جھوٹ ہونا ہر ایک پر عیاں ہے۔اس لیے کہ امام جعفر رحمہ اللہ کا انتقال ۱۳۸ ہجری میں ہوا۔ حالانکہ یہ رسائل ان کے دو صد سال بعد اس زمانہ میں تصنیف کیے گئے تھے جب اسماعیلیہ باطنیہ نے مصر کی حکومت پر قبضہ جمایا اور قاہرہ میں المعزیہ نام سے شہر قائم کیا۔یہ سن ۳۵۰ ہجری کے بعد کی بات ہے۔اس وقت میں اس مذہب کے زور پکڑ جانے کی وجہ سے یہ رسائل تصنیف کیے گئے۔ جن کے ظاہر میں شیعیت ٹپکتی ہے اور اندر خالص کفر و شرک بھرا ہواہے۔ اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ شریعت کے پیرو ہیں اور شریعت کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن،باطن شریعت اس کے ظاہر سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ دراصل یہ لوگ درپردہ فلسفہ زدہ لوگ تھے اور اسی اساس پر انہوں نے وہ رسائل تصنیف کیے تھے۔ نصاریٰ نے ملک شام کے جس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اس کا ذکر ان رسائل میں ملتا ہے۔ان میں سے پہلا رسالہ چوتھی صدی ہجری کے شروع میں لکھاگیا تھا۔