Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل: ....علی بن موسی الرضا

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل: ....علی بن موسی الرضا

[أبو الحسنِ علِی بن موسی بنِ جعفر، الملقب بِالرِضا، ثامِن الأئِمۃِ عِند الرافِضۃِ، ولِد فِی المدِینۃِ سن:۱۵۳مِن أم حبشِیۃ، وأحبہ الخلِیفۃ المأمون، فعہِد ِإلیہِ بِالخِلافۃِ مِن بعدِہِ، وزوجہ ابنتہ، وضرب اسمہ علی الدِینارِ والدِرہمِ، وغیّر مِن أجلِہِ الزِّی العباسِی مِن السوادِ إِلی اللونِ الأخضرِ، وثار أہل بغداد لِذلِک وخلعوا المأمون وولوا عمہ ِإبراہِیم ابن المہدِیِ، ولِأن المأمون تغلب علیہِم وقمع ثورتہم، ومات الرِضا سن: ۲۰۳ فِی حیاۃِ المأمونِ۔انظر ترجمۃ الرِضا فِی: تہذِیبِ التہذِیبِ: ۷؍۳۸۹، ۳۸۶، وفیاتِ الأعیانِ: ۲؍۴۳۲، ۴۳۴،مِیزانِ الِاعتِدالِ: ۳؍۱۵۸، الأعلامِ:۵؍۱۷۸۔]

[اشکال ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’علی بن موسیٰ الرضا اپنے زمانے میں سب سے بڑے عالم و زاہد تھے۔آپ سے جمہور فقہاء نے علم روایت کیا ہے۔مامون نے آپ کو آپ کے علم و فضل اور کمال کی وجہ سے والی بنالیا تھا۔ایک دن آپ نے اس کے بھائی زید کو وعظ کیا ۔ آپ نے فرمایا: ’’ اے زید تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دو گے جب خون بہایا جائے ‘ اور ناحق اور حرام طریقہ سے مال چھینا جائے اور راستوں کو پر خطر بنادیا جائے۔اور اہل کوفہ کے بیوقوف آپ کو دھوکہ میں مبتلا کر دیں ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : 

’’ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی ؛ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو جہنم پر حرام کردیا ہے ۔‘‘اور ایک روایت میں ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا نام کیوں رکھا؟ آپ نے فرمایا: ’’ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی اولاد کو جہنم کی آگ سے آزاد کردیا تھا۔اور یہ عفت و پاکدامنی ان کے اولاد کے لیے جہنم کی آگ پر حرام ہونے کا سبب ہے ؛ اور تو ان پر ظلم کررہا ہے ۔ اللہ کی قسم ! انہوں نے یہ مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے حاصل کیا ہے؛ اورتم یہ مقام اللہ کی نافرمانی سے حاصل کرنا چاہتے ہو جو انہوں نے اسکی فرمانبرداری سے حاصل کیا ہے۔

’’مامون نے درہم اور دینار پر آپ کا نام لکھنا شروع کیا ؛ اور ملک کے ہر کونے میں آپ کی بیعت کے لیے آڈر جاری کیا اور کالے لباس اتار کر سبز لباس پہننے کا حکم دیا۔‘‘

کہتے ہیں : ابو نواس سے کہا گیا کہ : تم رضا کی مدح میں قصیدہ گوئی کیوں نہیں کرتے؟ تو اس نے کہا:

’’مجھ سے کہا جاتا ہے تم تازہ اور شیرین اور فی البدیہ کلام میں بہترین انسان ہو؛ تمہارے کلام سے نایاب قسم کے موتی ا و رجواہر نکلتے ہیں ۔ تو تم ابن موسی کی تعریف کیوں نہیں کرتے؛ اوران کے خصائل کیوں نہیں بیان کرتے۔ تو میں نے کہا : ’’ میں اس امام کی مدح نہیں کرسکتا جس کے بابا کا خادم حضرت جبریل علیہ السلام ہوں۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]:واقعہ یہ ہے کہ: حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے متعلقین جن مصائب و آلام میں مبتلا ہوئے ان میں سے شیعہ کا آپ کی طرف منسوب ہونا ہے۔ شیعہ نے ان کی مدح و ستائش میں حد درجہ مبالغہ آمیزی سے کام لینا شروع کیا۔ اور آپ کی مدح میں ایسی باتیں کرنے لگے جو حقیقت میں مدح نہیں تھیں ۔اور آپ کے متعلق ایسے دعوے کرنے لگے جن کی کوئی دلیل نہیں ۔ اور آپ کے فضائل میں ایسی باتیں کرنے لگے کہ اگر دوسرے لوگوں کی روایات سے آپ کے فضائل و مناقب معلوم نہ ہوتے تو شیعہ رافضہ کا کلام مدح کے روپ میں حقیقت میں آپ کی مذمت اور جرح و قدح پر مشتمل ہوتا۔اس لیے کہ حضرت علی بن موسی رحمہ اللہ کے فضائل و معارف اور محاسن معلوم ومشہور ہیں ۔اور آپ کی تعریف و توصیف بھی ان مناسب الفاظ میں ہونی چاہیے جنہیں اہل معرفت جانتے ہیں ۔ جب کہ یہ رافضی ایسے الفاظ میں آپ کے فضائل بیان کرتا ہے جن کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔

[اشکال ]:شیعہ مصنف کا قول کہ: ’’ آپ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم اور زاہد تھے ۔‘‘ 

[جواب]:یہ دعوی بغیر دلیل کے ہے۔ جو کوئی بھی کسی کی شخصیت میں غلو کرتا ہے ؛ اس کے لیے ایسے دعوے کرنا ممکن ہیں ۔ یہ درست ہے کہ علی بن موسیٰ عظیم المرتبت بزرگ تھے، مگر ان کے زمانہ میں ایسے لوگ بھی تھے جو آپ سے بڑے عالم اور زاہد تھے۔ بڑے عالم جیسے امام شافعی؛ اسحق بن راہویہ؛ احمد بن حنبل؛ اور اشہب بن عبد العزیز رحمہم اللہ بقید حیات تھے جو ان کی نسبت بہت بڑے عالم تھے۔ اور معروف کرخی و ابو سلیمان دارانی رحمہم اللہ بھی تھے جو علی بن موسیٰ سے کہیں زیادہ زہد و تقویٰ رکھتے تھے ۔ان محدثین میں سے کسی ایک نے بھی آپ سے کوئی حدیث روایت نہیں کی۔ اور نہ ہی معروف کتب صحاح ستہ میں آپ سے کوئی روایت نقل کی گئی ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ چند افراد مثلاً ابو الصلت ہروی وغیرہ نے ان سے ان روایات میں استفادہ کیا تھا جو وہ اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں ‘ مگر اس میں اتنا جھوٹ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے عام سچے لوگوں کو بھی منزہ رکھا ہے ‘ تو پھر سچے اہل علم کا کیا حال ہوگا؟

[اشکال ]: شیعہ مصنف کاکہنا ہے کہ ’’ جمہور فقہاء نے علی بن موسیٰ سے بہت کچھ اخذ کیا۔‘‘

[جواب]:یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ اوربہتان عظیم ہے۔ ان مشہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی آپ سے کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی جوکہ اہل علم میں معروف ہو۔اگر کسی نے کوئی روایت نقل کی بھی ہوگی تو کوئی ایسا ہوگاجو مشہور و معروف فقہاء میں سے نہیں ؛ تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے کہ علم کے طلب گار متوسطین اور اس سے بھی کم درجہ کے لوگوں سے بھی علم حاصل کرتے ہیں ۔اور بعض لوگوں نے جو ذکر کیا ہے کہ معروف کرخی آپ کے خادم تھے؛ اور آپ کے ہاتھ پر انہوں نے اسلام قبول کیا تھا ؛ اور آپ کو علی بن موسی کی طرف سے خرقہ بھی ملا تھا۔ یہ تمام باتیں بالاتفاق جھوٹ ہیں ۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی معروف نہیں ہے۔ 

شان ِسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا میں مبالغہ آمیزی:

[اشکال ]:رافضی مضمون نویس کا یہ قول کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عفت و عصمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد پر دوزخ کو حرام کر دیا۔‘‘ 

[جواب]:یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے۔اس روایت کے من گھڑت ہونے پر تمام اہل علم محدثین کا اتفاق ہے۔عام لوگوںکیلئے بھی اس روایت کا جھوٹ اس کے الفاظ سے ظاہر ہوجاتا ہے۔یہ کہنا کہ :’’ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عفت و عصمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد پر دوزخ کو حرام کر دیا۔‘‘

اس کا تقاضا یہ ہے کہ : کسی عورت کا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا اس کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے جہنم کی آگ سے آزادی کا سبب بن جائے گا۔یہ بات قطعی طور پر باطل ہے۔ اس لیے کہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی ؛ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام اولاد کو جہنم کی آگ پر حرام نہیں کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَبَشَّرْنٰہُ بِاِِسْحَاقَ نَبِیًّا مِنْ الصَّالِحِیْنَo وَبَارَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰی اِِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ مُبِیْن﴾ [الصافات ۱۱۲۔۱۱۳] 

’’اور ہم نے اس کو اسحاق(علیہ السلام )نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا۔اور ہم نے ابراہیم و اسحاق ( رحمہم اللہ )پر برکتیں نازل فرمائیں اور ان دونوں کی اولاد میں بعضے تو نیک بخت اور بعض اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والے ہیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوحًا وَّاِِبْرٰہِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ فَمِنْہُمْ مُہْتَدٍ وَّکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فَاسِقُوْنَ ﴾ [الحدید۲۶]

’’بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم ( رحمہم اللہ )کو (پیغمبر بنا کر)بھیجا اور ہم نے دونوں کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب جاری رکھی تو ان میں کچھ تو راہ یافتہ ہوئے اور ان میں سے اکثر نافرمان رہے۔‘‘

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہیں ۔ اور ان میں اتنے کافر ہیں جن کی صحیح تعداد کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اور ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا پاک دامن عورت تھیں ؛ ان کی اولاد میں سے ظالم بھی تھے اور نیک و کار او راحسان کرنے والے بھی۔

خلاصہ کلام! معصوم و عفیف عورتیں اتنی لا تعداد ہیں ؛ ان کی صحیح تعداد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اور ان کی اولاد میں اچھے اور برے ؛ مؤمن اور کافر سبھی قسم کے لوگ ہیں ۔ بنا بریں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو صرف عفت و عصمت کی وجہ سے یہ فضیلت نہیں حاصل ہو سکتی۔ اس لیے کہ اس وصف میں جمہور مسلمان عورتیں شامل ہیں ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا صرف اس وصف کی بنا پر تمام جہان کی خواتین کی سردار قرار نہیں پائیں ۔بلکہ اس کا ایک خاص سبب ہے۔رافضی ہمیشہ اسی طرح کے دلائل سے استدلال کرتے ہیں ۔اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں صحیح طرح سے استدلال کرنا بھی نہیں آتا۔ اور جھوٹ بھی ایسے بولتے ہیں کہ وہ نفاق کا مظہر ہوتا ہے[ اور فوراً پکڑا جاتا ہے] ۔

مزید برآں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تمام اولاد کو جہنم کی آگ پر حرام نہیں کیا گیا۔بلکہ ان میں نیک لوگ بھی ہیں اور بد کردار بھی ہیں ۔ پھر اس پر طرہ یہ کہ خود شیعہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اہل سنت اولاد پر جو کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبترکھتے ہیں کفر و فسق کا فتوٰی لگاتے ہیں ، مثلاً حضرت زید بن علی۔آپ کو صرف اسی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں کہ آپ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے تھے۔رافضیہ شیعہ نے اسی بنا پر آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ؛ اور آپ کو کافر و فاسق کہنے لگے۔ اس بنا پر رافضی اولاد فاطمہ سے سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے ہیں ؛ خواہ ایسا ان کی جہالت کی وجہ سے ہو یا بغض و عناد کی وجہ سے ۔

پھر حضرت علی بن موسی رحمہ اللہ کی اپنے بھائی کو وعظ و نصیحت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں مطیع و فرمانبردار بھی ہیں اور نافرمان بھی۔اور انہوں نے کرامت اور عزت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی وجہ سے پائی ہے۔ یہ قدر تمام مخلوق کے مابین مشترک ہے۔ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے ؛ اللہ تعالیٰ اسے عزت دیتے ہیں ۔اور جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و رسوا کردے۔ اس پر کتاب و سنت سے دلائل موجود ہیں ۔

باقی رہا جو شیعہ مصنف نے خلیفہ مامون کی طرف سے آپ کو خلیفہ بنانے کا لکھا ہے ؛ یہ بات صحیح ہے۔ لیکن پھر ایسا نہیں ہوسکا ۔ بلکہ یہ معاملہ ایسے ہی رہا یہاں تک کہ علی بن موسی کا انتقال ہوگیا۔آپ کو خلیفہ نے اپنا ولی عہد نہیں بنایا تھا۔ رافضیوں کا خیال ہے کہ آپ کو زہر دیکر مارا گیا [امام طبری نے اپنی تاریخ میں ۲۰۱ھ کے واقعات میں لکھاہے: ’’ بیشک مامون نے حضرت علی بن موسی کو مسلمانوں کا ولی عہد بنا دیا؛ کہ آپ اس کے بعد خلیفہ ہوں گے۔ اس کے نتیجہ میں عباسیوں نے اس کے خلاف بغاوت کردی؛ اور اسے خلافت سے معزول کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ دوسرے سال ۲۰۲ھ میں اہل بغداد نے مامون کے چچاابراہیم بن مہدی کی بیعت کرلی۔اور ۲۰۳ھ میں علی بن موسی الرضا کا انتقال ہوگیا۔ اورانہوں نے دوبارہ سے مامون کی خلافت پر بیعت کرلی ۔ دیکھو: تاریخ الطبری ۸؍ ۵۵۴۔ الکامل لابن الاثیر ۶؍ ۱۱۶۔ الاعلام ؍ ۱۸۷۔]۔ اگر مامؤن کا آپ کو خلافت کے لیے تجویز کرناحجت ہوسکتا ہے تو پھر یہ بھی حجت ہے کہ آپ حقیقت میں خلیفہ بن نہیں سکے ۔ اگر یہ پہلا فعل حجت نہیں ہے ؛ تو دوسرا بھی حجت نہیں ہوسکتا۔اور ایسی باتوں کو مناقب میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر رافضیوں کا کیا جائے وہ حقیقت میں مناقب و مثالب کو جانتے ہی نہیں ۔اور نہ ہی انہیں ان اسناد کاکچھ علم ہے جن سے علم حاصل ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کسی صحیح دلیل کے بجائے ابو نواس کے اشعار سے استدلال کیا ہے۔ اگر یہ سب کچھ صحیح تسلیم بھی کرلیا جائے ؛ تو تب بھی ابو نواس جیسے جھوٹے اور فاسق و فاجر شاعر کے ابیات سے استدلال کرنا صحیح نہیں ۔ اس کا فسق و فجور کسی ادنی علم رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں ہے۔ یہ اپنے شعرمیں کہتا ہے: 

’’ میں اس امام کی مدح کیسے بیان کرسکتا ہوں جس کے باپ کے خادم حضرت جبریل تھے ۔‘‘

یہ بات سبھی جانتے ہیں [اگر یہ منقبت ہے تو ] اس میں تمام انبیاء کی اولاد شامل ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تمام اولاد بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔تو پھر اس میں کون سی ایسی خصوصیت ہے کہ باقی لوگوں کو چھوڑ کر آپ ہی امام ہوں ؟

اس کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی ایک کی بھی تعریف و توصیف نہ کی جائے۔ اس لیے کہ یہ وصف تو ان تمام کے مابین مشترک ہے۔پھر انبیاء کرام علیہم السلام کی اولاد ہونا لوگوں کے مابین ایک مشترکہ وصف ہے۔اس لیے کہ تمام لوگ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں ۔ایسے ہی بنی اسرائیل خواہ وہ یہودی ہوں یا غیر یہودی وہ حضرت ابراہیم ؛ حضرت اسحق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔

ایسے ہی حضرت جبریل علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم قرار دینا بھی ایک اچھوتی بات ہے۔ ایسی بات وہی کہہ سکتا ہے جو ملائکہ کی قدر و منزلت سے ناواقف ہو۔ اور نہ ہی انہیں فرشتوں کے انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس آنے کی وجہ و منزلت کا علم ہو۔ مگر کیا کریں رافضیوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ اپنی جہالت کی وجہ سے اشعار سے ایسی دلیلیں حجت میں پیش کرتے ہیں جو ان کی جہالت اور ظلم کے مناسب ہوتی ہیں ۔ اور ایسی من گھڑت اور جھوٹی روایات پیش کرتے ہیں جو کہ رافضیوں کے ہی شایان شان ہوسکتی ہیں ۔ کیا ایسے اشعار اور روایات سے دین کے اصول ثابت ہوسکتے ہیں ؟ ایسا تو وہی انسان کرسکتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے بصیرت چھین لی ہو۔