Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....مناقب محمد بن علی الجواد

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....مناقب محمد بن علی الجواد

[وہوأبو جعفر محمد بن علِیِ بنِ موسی، الملقب بِالجوادِ، الِإمام التاسِع عِند الرافِضۃِ۔ ولِد فِی المدِینۃِ سن:۱۹۵وانتقل مع والِدِہِ إِلی بغداد حیث کفلہ الخلِیفۃ المأمون بعد وفاۃِ والِدِہِ الرِضا، وزوجہ ابنتہ م الفضلِ، وتوفِی فِی بغداد سن:۲۲۰۔ انظر ترجمتہ فِی: تارِیخِ بغداد: ۳؍۵۴، ۵۵، وفیاتِ الأعیانِ: ۳؍۳۱۵، شذراتِ الذہبِ:۲؍۴۸، الإعلامِ:۷؍۱۵۵۔]

[قول الرافضي]:’’ آپ کا بیٹا محمد بن علی الجواد علم و تقوی ‘اورجود وسخا میں اپنے باپ کے نقش قدم پر گامزن تھا۔ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو آپ کی چھوٹی عمر کے باوجود کثرت علم؛ دینداری اور وفور عقل کی وجہ سے خلیفہ مامون آپ سے محبت کرنے لگا۔ اور اس کا خیال یہ ہوا کہ وہ اپنی بیٹی ام فضل آپ کو بیاہ دے۔ اور اس سے پہلے اس کے باپ امام رضا سے اپنی بیٹی ام حبیب کی شادی کرچکا تھا۔ اس وجہ سے عباسیوں کو اس بات پر بہت غصہ ہوا: اور انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں حکومت ان کے ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔ اور آپ کی بھی اسی طرح بیعت کر لی جائے‘ جیسے آپ کے والد کی بیعت کرلی گئی تھی۔ 

٭ پس خلیفہ کے حاشیہ نشین جمع ہوگئے اوراسے اپنے ارادہ سے باز رہنے کے لیے کہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ : ابھی یہ چھوٹا بچہ ہے ‘ اسے کوئی علم نہیں ۔ اس کے جواب میں خلیفہ نے کہا: ’’ میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں ۔‘‘ اگر تم چاہتے ہو تو پھر اس کا امتحان لے لو۔ وہ لوگ اس بات پر راضی ہوگئے۔ انہوں نے قاضی یحی بن اکثم کو اس کا بہت سخت امتحان لینے کے لیے بہت بڑی رشوت دی کہ ایسا سوال پوچھا جائے جس کا جواب دینے سے یہ عاجز آجائے۔ ایک دن کا وقت مقرر ہوا۔ مامون نے آپ کو حاضر کیا۔ قاضی اور عباسیوں کی ایک جماعت بھی حاضر ہوئی۔ قاضی نے کہا: میں آپ سے ایک چیز کے بارے میں سوال کروں گا؟ آپ نے کہا: پوچھو۔ اس نے پوچھا : تم اس محرم کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے شکار کو مار دیا ہو؟

٭ آپ نے اس کے جواب میں پوچھا : کیا اس نے حل میں شکار مارا ہے یا حدود حرم میں ؟ اور کیا وہ اس مسئلہ کا علم رکھتا تھا یا اس سے جاہل تھا؟ جانور کوپہلی بار مارا ہے یا پھردوسری بار پلٹ کر ماراہے یا پھر اپنی طرف سے بغیر کسی بات کے اسے مار ڈالا؟ اور کیا جانور چھوٹا تھا یا بڑا؟ کیا شکار پرندہ تھا یا پھر کوئی دوسرا؟ اس پر یحی بن اکثم بہت حیران ہوا ؛ اور عاجزی کے آثار اس کے چہرہ پر نمایاں نظر آنے لگے۔حتی کہ اہل مجلس کو آپ کی قدرو منزلت کا علم ہوگیا۔ مامون نے اپنے اہل بیت سے کہا: کیا جس چیز کا تم انکار کرتے تھے ‘ اب اس کو سمجھ لیا؟ پھر امام صاحب خلیفہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: کیا آپ اب یہ رشتہ مجھے دیں گے؟ خلیفہ نے کہا: ہاں ۔ آپ نے فرمایا: آپ خود ہی خطبہ نکاح پڑھ دو۔ پس خلیفہ نے خطبہ پڑھا‘ اور پانچ سو عمدہ دراہم پر نکاح ہواجس مہر پر آپ کی دادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا تھا۔ اور پھر اس کی شادی کردی۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]

جواب: محمد بن علی الجواد بنی ہاشم کے مشہور ومعروف افراد میں سے تھے ‘ آپ سخاوت وقیادت میں مشہور تھے ۔ اسی وجہ سے آپ کو جواد کہا جاتا ہے۔ آپ کا انتقال جوانی میں ہی پچیس سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ آپ کی پیدائش سن پچانوے ہجری میں ہوئی اور ایک سو بیس یا ایک سو انیس ہجری میں آپ کا انتقال ہوگیا۔ مامون نے اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کردی تھی ۔ خلیفہ ان کے پاس دس لاکھ درہم بھیجا کرتا تھا۔ پھر آپ کو بغداد بلالیا ‘ اور وہیں پر آپ کا انتقال ہوگیا۔ 

باقی جو کچھ اس رافضی مصنف نے ذکر کیا ہے ‘ یہ بھی اس سے پہلے کے کلام کی طرح ہے ۔ اس لیے کہ رافضیوں کے پاس نہ ہی عقل صریح موجود ہے اور نہ ہی نقل صحیح۔ نہ ہی حق کو قائم کرسکتے اورنہ ہی باطل کو مٹاسکتے ہیں ۔ نہ ہی حجت و بیان کے ساتھ اور نہ ہی ہاتھ اورشمشیر کے ساتھ ۔اس لیے کہ جو کچھ اس نے ذکر کیا ہے اس سے محمد بن علی کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی چہ جائے کہ اس سے امامت ثابت ہوجائے۔اس لیے کہ یہ حکایت جسے یحی بن اکثم سے بیان کیا جارہا ہے ‘ ان جھوٹی داستانوں میں سے ایک ہے جنہیں سن کر جاہل لوگ ہی بغلیں بجاسکتے ہیں ۔ یحی بن اکثم بہت بڑے عالم و فاضل اور فقیہ تھے ؛ ان کا رتبہ اس مقام سے بہت بلند تھا کہ وہ کسی کو عاجز کرنے کے لیے حالت احرام میں شکار کرنے کا سوال پوچھیں ۔اس لیے کہ چھوٹے چھوٹے علماء بھی اس مسئلہ کا حکم جانتے ہیں ۔یہ کوئی نادر یا دقیق علمی مسئلہ نہیں ہے جس کے حل کیلئے بڑے علماء کی ضرورت ہو ۔

پھر جو کچھ اس نے بیان کیا ہے ‘ اس میں فقط شکاری کے مختلف احوال کا بیان ہے۔ اور صرف اس تقسیم کاہونا اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ان میں سے ہر قسم کا حکم بھی معلوم ہو۔ بس اس سے صرف سوال کرنے کا اچھا انداز ظاہر ہوسکتاہے۔ہر اچھا سوال کرنے والے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ اچھی طرح جواب بھی دے سکتا ہو۔ اور پھر اگر اس نے ان ممکنہ اقسام کو اگر بطور واجب کے ذکر کیا ہے تو ان اقسام کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا۔اور اگر ایسا کرنا واجب نہ تھا تو پھر بعض چیزوں کی تفصیل ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔اس لیے کہ ان جملہ اقسام کے بارے میں اتنا ہی پوچھ لینا کافی تھا کہ کیا اس نے یہ شکار غلطی سے کیا ہے یا جان بوجھ کر؟ ۔

ان الفاظ میں سوال کرنا یہ زیادہ بہتر تھا بجائے یہ کہنے کے کہ: کیا وہ اس کا حکم جانتا تھا یا نہیں جانتا تھا؟ اس لیے کہ خطاء کار اور متعمد کے مابین فرق ثابت ہونے پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔جب کہ خطاء کی جزاء لازم ہونے کے بارے میں اختلاف مشہور ہے۔ امام احمد اور سلف و خلف کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ خطاء کار پر کوئی جزاء نہیں ہوتی۔ سلف کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ مَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ ﴾ [المائدۃ۹۵] 

’’اور جوکوئی تم میں سے اسے عمداً قتل کردے تو اس کا بدلہ برابر کا جانور ہوگاجو اس نے قتل کیا ہے ۔‘‘

یہاں پر اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر شکار کرنے والے کے ساتھ خاص طور پر جزاء کا ذکر کیاہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ خطاء کار پر کوئی جزاء نہ ہو۔اصل تو اپنی ذمہ داری سے برأت ہے۔اور اس نص کی روشنی میں یہ جزاء متعمد پر واجب ہوتی ہے۔ جبکہ خطاء کار اپنی اصل پر ہے۔اور اس لیے بھی کہ اس حکم میں خاص طور پر متعمد کا ذکر کرنے کا تقاضایہ ہے کہ خطاکار پر اس حکم کا اطلاق نہ ہو۔ سیاق شرط سے یہ مفہوم بالکل واضح ہوتا ہے۔ یہاں پر عام کے بعد خاص کا ذکر کیا گیا ہے۔اگر ان دونوں کا حکم ایک ہی ہوتا تو پھر اتنا کہہ دینا کافی تھا:﴿وَ مَنْ قَتَلَہٗ منکم ﴾ ’’اور جو شخص تم میں سے اس کو قتل کرے ۔‘‘اس طرح انتہائی اختصار کے ساتھ حکم واضح ہوجاتا۔ لیکن یہاں واضح طور پر کہا گیا ہے : ﴿وَ مَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا ﴾ ’’اور جو شخص تم میں سے اس کوجان بوجھ کر قتل کرے ۔‘‘یہاں پر متعمد کا لفظ زیادہ کرنے سے اس کے معانی میں کمی آگئی۔ یہ حکمت لوگوں میں سے کسی ادنی ترین آدمی کے کلام سے بھی سمجھی جاسکتی ہے؛ تو پھر کلام اللہ جو کہ بہترین اور افضل ترین کلام ہے ‘ اور اس کلام کی فضیلت بھی مخلوق کے کلام پر ایسے ہی ہے جیسے خالق کی فضیلت مخلوق پر؛[ تو پھر اس سے کیوں یہ بات سمجھ نہیں آسکتی]۔ 

وہ علماء جوکہ خطاء کار پر جزاء کو واجب کرتے ہیں ‘ وہ عموم احادیث اورآثار صحابہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ نیز وہ قتل خطا پر بھی قیاس کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعمد کو بطور خاص ذکر کیا ہے ‘ اس لیے کہ اس موقع پر ان لوگوں کے لیے احکام اور وعید بیان ہورہی تھی جو عمداً ایسے کام کرتے ہیں ۔ اور پھر اس کے بعد جزاء بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :

﴿ لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ﴾ [المائدۃ۹۵]

’’تاکہ وہ اپنے اعمال کا مزہ چکھے، اللہ تعالیٰ نے سابقہ معاف کر دیا اور جو کوئی دوبارہ ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔‘‘

جب یہاں پر اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا ذکر کیا ایک جزاء اور دوسرا انتقام ؛ تو ان دونوں کا مجموعہ متعمد کے ساتھ خاص ہے۔ جب مجموعی سزا متعمد کے لیے خاص ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سزا کا بعض حصہ خطا کار کے لیے ثابت نہ ہوتا ہو۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

﴿وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ﴾ [النساء۱۰۱]

’’اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو تم پر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کر دواگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈال دیں گے۔‘‘

یہاں پر مرادتعداد اور ارکان دونوں میں قصر [کمی] کرنا ہے۔ اس قصر میں دونوں اقسام شامل ہیں : نماز سفر ؛ اور نماز خوف۔یہاں ان دونوں احکام کے ان دوقسموں کی نماز کے بارے میں خاص ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں سے کسی ایک نماز کے لیے کوئی ایک حکم خاص ہو۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی ہیں ۔

ایسے ہی مناسب تھا کہ وہ یہ سوال کرتا کہ : جب اس نے شکار کیا تو کیا اسے اپنا حالت احرام میں ہونا یاد تھا یا پھر اسے بھول گیا تھا۔ اس لیے کہ بھولے ہوئے انسان پر حکم لگانے کے بارے میں جاہل سے زیادہ اختلاف ہے۔ انہیں تو یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا اس نے شکار اس وجہ سے کیا ہے کہ شکارنے اس پر حملہ کردیا تھا‘ اور وہ اپنے دفاع پر مجبور ہوگیا تھا ‘ یا پھر اس نے بغیر کسی وجہ کے شکار کر ڈالا ۔

نیز اس قسم کی تقسیم سے سائل کی جہالت ٹپکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ان ائمہ محترمین کو اس قسم کی جہالت سے مبراء رکھا تھا۔ نیز یہ سوال کرنا کہ : اس نے شکار حدود ِ حرم میں کیا ہے یا پھر حِلّ میں ؟بیکار سی بات ہے ۔ اس لیے کہ محرم جب شکار کر دے تو اس پر جزاء واجب ہوجاتی ہے ؛ خواہ اس نے حدود ِحرم کے اندر شکارکیا ہو یا اس سے باہر ۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور حرم کے جانور کا شکار کرنا حالت احرام میں اوربغیر احرام کے ہر دونوں طرح سے حرام ہے۔ لیکن جب کوئی انسان حالت احرام میں حرم کاشکار شکار کرلے تو اس کی حرمت زیادہ متأکد ہوجاتی ہے ؛ مگردونوں کی جزاء ایک ہی ہے۔نیزیہ سوال کرنا کہ اس نے شکار پر پہلی بار حملہ کیا ‘ یادوسری بار پلٹ کرمارا ؟ یہ بہت ہی کمزور اختلاف ہے۔بعض اہل علم نے اسے اختلاف سمجھا اورذکر کیا ہے ۔ جب کہ جمہور اہل علم ہر دونوں حالتوں میں شکار کرنے والے پر جزاء کو واجب کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ﴾ [المائدۃ۹۵]

’’اور جو شخص پھر ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا۔‘‘

کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ : جو انسان اسلام لانے کے بعد دوبارہ ایسی حرکات کرے ؛ حالانکہ اس سے پہلے عہد جہالت کی غلطیوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا تھا۔ اوریہ بھی کہاگیا ہے کہ: اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مراد ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَ لَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ﴾ [النساء۲۲]

’’اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گزر چکا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ﴾ [النساء ۲۳]

’’ اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا۔ ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْلَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ [الانفال ۳۸]

’’ کافروں سے کہہ دیجئے!کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔‘‘

اگر اس سے مراد یہ ہوتاکہ اللہ تعالیٰ نے پہلی بار معاف کردیا ہے ؛ توپھر نہ ہی اس پر جزاء واجب ہوتی اور نہ ہی اس سے انتقام کی بات کی جاتی ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے پہلی بار کے ساتھ ہی اس پر جزاء کو واجب کیا ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے :

﴿ لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ﴾ [المائدۃ۹۵]

’’تاکہ وہ اپنے کئے کی شامت کا مزہ چکھے۔‘‘

جس انسان کو اللہ تعالیٰ اس کے برے اعمال کا بدلہ دیدیں تو اس کے لیے معافی کیسے ہوسکتی ہے ؟ نیز یہ بھی فرمایا کہ : ﴿ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ﴾’’ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ کو معاف کر دیا ۔‘‘

یہ عام لفظ ہے جس میں تخصیص کا کوئی قرینہ نہیں پایا جاتا کہ اس سے صرف ایک بار ہی مراد لی جاسکتی ہے۔ یہ چیزعربی زبان میں نہیں پائی جاتی۔ اگر اس آیت سے مراد یہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی بار معاف کردیا ہے ۔ اور ﴿من عاد﴾ سے مراد دوبارہ قتل کی طرف لوٹنا ہوتا؛ تو ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ کے انتقام سے جزاء ساقط نہ ہوتی۔ اس لیے کہ گناہ کی سختی اور شدت کی وجہ سے واجب ساقط نہیں ہوتا۔ جیسے کوئی انسان کئی ایک قتل کردے تو اس سے قصاص اور دیت یا کفارہ ساقط نہیں ہوں گے۔ 

[حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر ]:

[اشکال ] :شیعہ عالم کا یہ کہنا کہ: ’’ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر پانچ سو درہم تھا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب] : یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہے۔ بلکہ ثابت یہ ہے کہ نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی کسی بیوی کو ؛ اور نہ ہی آپ کی بیٹیوں میں سے کسی ایک کو پانچ سو درہم سے زیادہ مہر دیا گیا۔ یعنی ساڑھے بارہ اوقیہ [چاندی]۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہی بات معروف ہے۔[سننِ بِی داود:۲؍۳۱۶، کتاب النکِاحِ، باب الصداق عن أبِی العجفائِ السلمِیِ، قال: خطبنا عمر رحِمہ اللہ فقال: ألا لا تغالوا بِصداقِ النِسائِ، فِإنہا لو کانت مکرمۃ فِی الدنیا أو تقوی عِند اللہِ لکان أولاکم بِہا النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ما صدق رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امرأۃ مِن نِسائِہِ ولا صدِقتِ امرأۃ مِن بناتِہِ أکثر مِن اثِنتی عشر أوقِیۃ۔عن عائِشۃ فِی الکتابِ والبابِ السابِقینِ:۲؍۳۱۵، ۳۱۶ عن أبِی سلمۃ۔ سننِ ابنِ ماجہ:۱؍۶۰۷کتاب النکِاحِ، باب صداقِ النساء۔الدارِمِیِ:۲؍۱۴۱ کتاب النِکاحِ، باب کم کانت مہور أزواجِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبناتِہ۔وانظر حدِیث عمر فِی المسندِ ط۔ المعارِف: ۱؍۲۲۷۔ وقال الشیخ احمد شاِکر رحمہ اللہ : ِإسنادہ صحِیح وذکر أنہ مروِی فِی سننِ أبِی داود، والتِرمِذِیِ، والنسائِیِ، وابنِ ماجہ والبیہقِیِ، وقال التِرمِذِی: ہذا حدِیث حسن صحِیح۔] لیکن حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کی شادی نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرائی تھی؛ اس لیے اس نے اپنی طرف سے زیادہ مہر ادا کیا۔[فِی سننِ أبِی داود:۲؍۳۱۶ عن أمِ حبِیبۃ رضی اللّٰہ عنہا ؛ سننِ النسائِیِ:۶؍۹۷کتاب النکِاحِ، باب القِسطِ فِی الصدِاق وزاد: ولم یبعث ِإلیہا رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِشیء، وکان مہر نِسائِہِ أربعمِائِ دِرہم۔والحدِیث أیضا فِی المسندِ ط۔الحلبِی: ۶؍ ۴۲۷۔ ] خواہ یہ بات ثابت ہو یا نہ ہو ؛ اتنی بات ضرور ہے کہ کم مہر کا خیال رکھنا سنت ہے۔ اسی لیے علماء کرام رحمہم اللہ مستحب سمجھتے ہیں کہ کسی کا مہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں یا بیٹیوں کے مہر سے زیادہ نہ ہو ۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مہر میں اپنی درع دی تھی۔ بہر حال کچھ بھی ہو یہ دونوں باتیں کسی فضیلت پر دلالت نہیں کرتیں ؛ چہ جائے کہ اس سے امامت کی فضیلت ثابت کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے علاوہ آپ کے [بہت سارے ]فضائل ثابت شدہ ہیں ۔