Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....فضائل علی ھادی العسکری

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....فضائل علی ھادی العسکری

[وہوأبو الحسنِ علِی بن محمدِ بنِ علِی، الملقب بِالہادِی، الِإمام العاشِر عِند الرافِضِۃ، ولِد فِی المدِینۃِ سن:۲۱۴ واستقدمہ المتوکِل ِإلی بغداد ونزلہ فِی سامراء حیث توفِی بِہا سن:۲۵۴۔انظر ترجمتہ فِی: تارِیخِ بغداد: ۱۲؍ ۵۶۵۷، شذراتِ الذہبِ: ۲؍۱۲۸، ۱۲۹،العِبرِ: ۲؍۶،الأعلامِ: ۵؍۱۴۰۔]

رافضی کہتا ہے: ’’ آپ کا بیٹا علی ہادی تھا ؛ اسے عسکری بھی کہا جاتا ہے۔ متوکل آپ کو مدینہ سے بغداد لے آیا تھا ‘پھر وہاں سے ’’سرَّ من رأی ‘‘ منتقل ہوگئے۔وہاں آپ جس جگہ پر ٹھہرے ہوئے تھے اس کے قریب ایک عسکر نامی جگہ تھی۔پھر آپ سامراء چلے گئے اور بیس سال نوماہ تک وہاں رہے۔ متوکل نے آپ کو اس لیے مجبور کیا تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ جب اسے اطلاع ملی کہ مدینہ میں لوگ حضرت علی الہادی رحمہ اللہ کی کس قدر عزت کرتے ہیں اور ان کی جانب میلان رکھتے ہیں ‘ تو اسے خوف محسوس ہوا ۔ اس نے یحی بن ہبیرہ رحمہ اللہ کو بلاکرحکم دیا کہ علی الہادی کو اس کے پاس حاضر کیا جائے۔ اس وجہ سے اہل مدینہ میں خوف و دھشت طاری ہوگئی ؛ اس لیے کہ اہل مدینہ کے ساتھ آپ کے بہت بڑے احسانات تھے۔اور آپ ہمیشہ کے لیے مسجد میں ہی رہتے تھے۔ یحی نے قسم اٹھائی کہ انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔ پھر یحی نے ان کے گھر کی تلاشی لی ؛ اسے قرآن مجید ‘ کچھ دعاؤوں اور اہل علم کی چند کتابوں کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا۔ اس وجہ سے اس کی نظر میں آپ کی منزلت بڑھ گئی۔ اوروہ خود آپ کی خدمت میں مصروف رہنے لگا۔ جب واپس بغداد پہنچا تو سب سے پہلے اسحق بن ابراہیم طائی والی بغداد کے پاس گیا۔ اور اس سے کہا : اے یحی! اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنم دیا ہے ‘ اور آپ جانتے ہیں کہ متوکل کون ہے؟ اگر آپ اسے ان کے خلاف برانگیختہ کریں گے تو وہ انہیں قتل کردے گا۔ اور قیامت والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے تیرے خلاف دعوی کرنے والے ہونگے ۔ یحی نے اسے جواب دیا: اللہ کی قسم ! میں تو ان کے متعلق صرف خیر کا ہی ارادہ رکھتا ہوں ۔ آپ کہتے ہیں : جب میں متوکل کے پاس گیا تو اسے آپ کی حسن سیرت ‘ زہد و ورع کے بارے میں خبر دی۔ تو متوکل نے آپ کا خوب احترام کیا ۔ پھر متوکل بیمار ہوگیا تواس نے منت مانی کہ اگر وہ تندرست ہوگیا تو بہت سارے دراہم صدقہ کریگا۔ پھر اس نے تندرست ہونے پر اس بارے میں فقہاء سے سوال کیا ؛ مگر کسی کے پاس کوئی جواب نہ پایا ۔ پھر اس نے علی ہادی کے پاس آدمی بھیج کردریافت کیا ‘ توآپ نے کہا: تراسی(۸۳)درھم خیرات کردو۔ جب متوکل نے اس کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ ﴾ [التوبہ ۲۵]

’’ اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سارے مقامات پر آپ کی مدد فرمائی ۔‘‘

٭ یہ مواطن ومقامات اپنی جگہ ایک معنی رکھتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستائیس غزوات کئے اور چھپن سرایا بھیجے۔ مسعودی نے کہا ہے کہ: اس کے بعد متوکل کے پاس جھوٹی شکایات کی گئیں کہ محمد بن علی رحمہ اللہ اہل قم شیعہ میں تیز دھار اسلحہ کی منزلت رکھتے ہیں اور آپ وہاں اپنا ملک قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ خلیفہ نے ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے ترکوں کی ایک جماعت بھیجی۔ انہوں نے رات کے وقت آپ کے گھر پر حملہ کیا؛ مگر انہیں کچھ بھی نہ ملا؛ اور انہوں نے دیکھا کہ آپ گھر کا دروازہ بند کیا ہوئے ہیں ‘ اور آپ پر ایک اونی جبہ ہے ‘اور آپ کچھ پڑھ رہے ہیں ؛ اورآپ ریت پر ایک چٹائی بچھاکر بیٹھے تلاوت کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہیں ۔ آپ کو اسی حالت میں اٹھا کر متوکل کے پاس لایا گیا۔ جب انہیں متوکل کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ شراب کی مجلس میں تھا ؛اور جام اس کے ہاتھ میں تھا؛ اس نے آپ کی بڑی تعظیم کی اور انہیں أپنے پہلو میں بیٹھایا ؛ اس نے ایک جام آپ کے ہاتھ میں بھی دیا ؛ تو آپ نے فرمایا : ’’ اللہ کی قسم ! کبھی بھی میرے خون اورگوشت کے ساتھ شراب کا قطرہ نہیں ملا؛ مجھے اس سے معاف رکھیے۔ اس نے آپ کو چھوڑ دیااور کہا : مجھے اپنی آواز میں کچھ سنائیے ۔تو آپ نے یہ آیت پڑھی :

﴿کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ﴾ [الدخان ۲۵]

’’ ان لوگوں نے کتنے ہی باغات اور چشمے [اپنے پیچھے] چھوڑے ۔‘‘

پھر اس نے آپ سے کہا : مجھے کچھ شعر سنائیے ؟ تو آپ نے فرمایا: مجھ شعر بہت کم یاد ہیں ۔ اس نے کہا شعر سنانا لازمی ہے۔ تو آپ نے اس وقت یہ شعر پڑھے : [ترجمہ اشعار]:

’’ انہوں نے پہاڑ کی چوٹیوں پر رات گزاری؛ اور مسلح افراد ان کی پہرہ داری کررہے تھے ؛ مگر انہیں یہ چوٹیاں کچھ کام نہ آئیں ۔ انہیں اس عزت کے بعد ان کے ٹھکانوں سے اتارا گیا ؛ اور انہیں ایک گڑھے میں رکھا گیا ‘ یہ ان کے پڑاؤ کی بہت بری جگہ ہے ۔ ان کو دفن کرنے کے بعد ایک آواز لگانے والے نے آواز لگائی :’’ تمہارا خاندان ‘ تاج اور زیورات کہاں ہیں ؟ اوروہ شیریں ودلکش پرنعم چہرے کہاں ہیں جنہیں پردوں میں چھپایا جاتا تھا۔ قبرنے اس سوال کا فصیح جواب دیا اور کہا : ’’ ان چہروں پر اب کیڑے مسلط ہوچکے ہیں ‘جو انہیں ختم کررہے ہیں ۔ انہوں نے جو کچھ کھایا پیا تھا ‘ اس پر ایک لمبازمانہ گزر چکا ہے ؛ اور کے بعد اب تو وہ خود ہی کھایا ہوا بھس ہوگئے ہیں ۔‘‘

متوکل یہ سن کر اتنا رویا کہ آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہوگئی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

جواب : یہ دعوی بھی اپنے سے پہلے کلام کی طرح ہے ۔ اس نے کسی بھی صحیح دلیل کے ساتھ آپ کی کوئی منقبت نہیں بیان کی۔ بلکہ اس نے ایسی چیز بیان کی ہے جس کے باطل ہونے کو علماء کرام جانتے ہیں ۔ 

اس نے لکھا ہے کہ بغداد کا والی اسحق بن ابراہیم طائی تھا۔ یہ شیعہ مصنف کی جہالت کی نشانی ہے۔ اس لیے کہ اسحق بن ابراہیم اور اس کے اہل خانہ کا تعلق خزاعہ سے ہے۔ اس کا پورا شجرہ یہ ہے : اسحق بن ابراہیم بن حسین بن مصعب ۔ اس کا چچا زاد بھائی عبد اللہ بن طاہر بن حسین بن مصعب خراسان کا امیر تھا۔ اور اس کی سیرت معلوم ومشہور ہے۔اس کا بیٹا محمد بن عبد اللہ بن طاہر متوکل کے دور میں بغداد میں اس کا نائب تھا۔یہ وہی انسان ہے جس نے امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کی نماز جنازہ پڑہائی تھی ۔ جب کہ اسحق بن ابراہیم معتصم اور واثق کے دور؛ اور خلیفہ متوکل کی خلافت کے کچھ ایام میں ان کا نائب رہا ہے۔

یہ تمام لوگ بنوخزاعہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بنی طے سے ان کا تعلق نہیں ۔ ان کا خاندان مشہور ہے۔[ابن عماد نے شذرات الذہب ۲؍۸۴ پر ۲۳۵ھ کی وفیات میں کہا ہے: ’’ اوراسی سال امیر اسحق بن ابراہیم بن مصعب الخزاعی جو کہ طاہر بن حسین کا چچا زاد تھا؛ وہ بغداد کا والی بنا؛ تقریباً بیس سال تک اس منصب پر رہا۔اسے ’’صاحب جسر‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ سخت گیر؛ پختہ عزم سیاسی آدمی تھا۔ وہ مامون کے حکم پر علماء کو بلا کر ان کا امتحان لیتا تھا۔ اس کا انتقال ہوا۔ مزید دیکھو: العبر ۱؍ ۴۲۰۔ الکامل لابن الاثیر ۷؍۱۷۔ الاعلام ۱؍ ۲۸۳۔]

رہا اس فتوی کا مسئلہ جو رافضی نے ذکر کیا ہے کہ متوکل نے نذر مانی تھی کہ اگر وہ صحت یاب ہوگیا تو بہت سارے دراہم صدقہ کرے گا۔اور پھر اس نے فقہاء سے اس بارے میں سوال کیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہ پایا ‘ اور یہ کہ علی بن محمد نے آپ کو تراسی درہم صدقہ کرنے کا حکم دیا ‘ اور اس کی دلیل میں اس نے یہ آیت پیش کی:

﴿لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ ﴾ [التوبہ۲۵]

’’ اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سارے مقامات پر آپ کی مدد فرمائی ۔‘‘

یہ مواطن ومقامات اپنی جگہ ایک معنی رکھتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستائیس غزوات کئے اور چھپن سرایا بھیجے۔ یہ حکایت توعلی بن موسی رحمہ اللہ کی مامون کے ساتھ بیان کی جاتی ہے۔یہاں پر دوباتوں میں سے ایک ضرور ہے ۔ یاتو یہ من گھڑت اور جھوٹی کہانی ہے۔یا پھر فتوی دینے والے کی جہالت پر دلالت کرتی ہے۔

اس لیے کہ جب کوئی اعتراف کرتا ہے کہ فلاں انسان کے مجھ پر بہت سارے دراہم ہیں ۔ یا پھر وہ منت مانتا ہے کہ وہ بہت سارے دراہم صدقہ کریگا‘ یا یہ کہتا ہے کہ میں فلاں آدمی کو بہت سارے دراہم دوں گاتوعلماء مسلمین میں سے کوئی ایک بھی یہ نہیں کہتا کہ اس سے مراد تراسی ہوں گے۔

رافضی مصنف کی دلیل کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے:

پہلی وجہ:....یہ کہنا کہ : قرآن میں ذکر کردہ مواطن یا مقامات میں ستائیس غزوات اور چھپن سرایا تھے؛ یہ بات صحیح نہیں ہے؛اس لیے سیرت نگارعلماء کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستائیس سے کم غزوات کئے ہیں ۔[علامہ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ و النہایہ ۲؍۲۵۲ میں نقل کیا ہے؛ امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے؛ حضرت زید بن ارقم سے پوچھا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غزوات کئے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ أنیس ۔‘‘ان میں سے سترہ میں خود شراکت کی ؛ ان میں سے پہلا غزوہ عشیرہ تھا؛ ....اور پھر ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ غزوات کئے تھے۔ اور مسلم کی روایت میں انیس غزوات کا ذکر ہے۔ ان میں سے آٹھ میں لڑائی تک نوبت پہنچی۔ ہشام دستوائی نے حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ؛ فرماتے ہیں : بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور سرایا کی تعداد تینتالیس ہے۔ ان میں سے چوبیس سرایا تھے؛ اور انیس غزوات ۔]

دوسری وجہ:....یہ آیت غزوہ حنین کے موقع پر نازل ہوئی ۔ اس آیت میں یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان مواقع کی خبردی ہے جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں ۔پس واجب ہوتا ہے اس آیت میں اس سے پہلے مواطن کثیرہ کے واقعات پیش آچکے ہوں ۔ غزوہ حنین کے بعد غزوہ طائف اور تبوک پیش آئے۔ اور بہت سارے سرایا حنین کے بعد پیش آئے ہیں ‘ جیسا کہ سریہ جریر بن عبد اللہ بجلی ؛ ذی الخلصۃ بت کی طرف ۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل اسلام قبول کیا تھا۔ جب بہت سارے سرایا اور کچھ غزوات اس آیت کے نزول کے بعد پیش آئے ہیں تو پھر یہ ممتنع ہے کہ اس آیت میں ماضی میں ہی تمام غزوات اور سرایا کی خبردی گئی ہو۔

تیسری وجہ :....مسلمانوں کی ہر موقع پر نصرت نہیں ہوئی؛ بلکہ بعض مواقع پر انہیں پیچھے بھی ہٹنا پڑا۔ احد کے دن ایسا ہی ہوا تھا؛ یہ سخت آزمائش و امتحان کا دن تھا۔ایسے ہی موتہ اور بعض دوسرے سرایا میں فتح حاصل نہیں ہوئی ۔ اگر مان لیا جائے کہ تمام غزوات اور سرایا کی تعداد تراسی تھی ؛ تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان تمام غزوات وسرایا میں مسلمانوں کو ہی فتح نہیں ہوئی کہ اس سے مسلمانوں کی فتح و نصرت کے تراسی مقامات ثابت ہوتے۔

چوتھی وجہ :....بالفرض اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ اس آیت میں وارد لفظ کثیر سے مراد تراسی ہے ؛ تو اس کا تقاضا ہر گز نہیں کہ کثیر کا لفظ صرف تراسی کے عدد کے ساتھ خاص ہو۔ اس لیے کہ کثیر سے مراد ہزار ‘ دو ہزار ‘ ہزاروں میں بھی ہوسکتی ہے۔ جب مقداریں مختلف ہوں تو اس حساب سے اس کا اطلاق بھی ہوا۔ بعض مقادیر کے ساتھ اس کو خاص کرنا غلطی ہے۔

پانچویں وجہ :....بیشک اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًاکَثِیْرَۃً﴾ [البقرۃ ۲۳۵]

’’ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا۔‘‘

نص قرآنی سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کا ثواب سات سو گنا تک بڑھاتے ہیں ۔ اور حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ اجر وثواب دس لاکھ گنا تک بڑھایا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس بڑھانے اور زیادہ کرنے کو بالکل ویسے ہی کثیرہ کہا ہے جیسے مواطن کثیرہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ [البقرۃ ۲۳۹]

’’ بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں ، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

یہاں پر اس آیت میں کثیر سے مراد کئی قسم کی مقداریں ہیں ۔ اس لیے کہ وہ جماعتیں جن کا ذکر کیا جارہا ہے معلوم ہونے کے باوجودانہیں کسی متعین عدد میں محدود کرنا ممکن نہیں ۔ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی چھوٹی جماعت کی تعداد ایک ہزار ہو اور بڑی جماعت کی تعداد تین ہزار ہو۔ اور کبھی اس سے کم و زیادہ بھی ممکن ہے۔ پس کثیر تعداد کا اطلاق اس کی نسبت سے کم کے ساتھ مقابلہ کے طور پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿اِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا وَ لَوْ اَرٰیکَہُمْ کَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ﴾ [الأنفال۳۳]

’’جب اللہ آپ کو آپ کے خواب میں دکھا رہا تھا کہ وہ تھوڑے ہیں اور اگر وہ آپ کو دکھاتا کہ وہ بہت ہیں تو تم ضرور ہمت ہار جاتے اور ضرور اس معاملے میں آپس میں جھگڑ پڑتے ؛ لیکن اللہ نے سلامت رکھا۔‘‘

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو سو سے کچھ زیادہ دیکھایا تھا۔یہ کمی اور زیادتی باعتبارنسبت کے ہے۔

اس تمام بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قلت اور کثرت کا انحصار اس کی اضافت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ جب کوئی انسان اقرار کرے کہ فلاں انسان کا مجھ پر بہت سارا مال ہے‘ یا بہت زیادہ مال ہے ؛ یا کہے کہ : کافی مقدار میں مال ہے ؛ تو اس کی وضاحت کے لیے اسی آدمی سے رجوع کیا جائے گا؛ اور وہی اس کی وضاحت بیان کرے گا۔ جیسا کہ امام شافعی اور امام احمد کے اصحاب میں سے ایک گروہ کا قول ہے۔ اور اس کی وضاحت بھی اس مقدار میں ہی تسلیم کی جائے گی جسے زیادہ مانا جاسکتا ہو۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک اور اصحاب احمد میں سے بعض کا قول ہے۔ دوسری رائے والوں میں سے بعض کاکہنا ہے: اتنا مال جو چوری کی حد کی مقدار کو پہنچتا ہو‘وہ مال کثیر ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : اتنا مال جس کے نصاب پر زکوٰۃ لازم آتی ہو۔اور بعض کہتے ہیں : دیت کی مقدار میں مال کثیر تصور ہوگا۔ اور یہ نزاع بھی اقرار میں ہے۔ اس لیے کہ یہ واقعہ کی خبر دی جارہی ہے ۔ اور ماضی کی خبر کو اقرار کرنے والا جانتا ہے۔ جب کہ مذکورہ بالا مسئلہ کا تعلق خبر سے نہیں بلکہ انشاء سے ہے ۔جیسا کہ اگرکوئی بہت سارے دراہم کی وصیت کرے تو راجح یہ ہے کہ بات کہنے والے کے عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ پس جتنی مقدار کو وہ کثیر کہتا ہو؛ اس پر اس کے کلام کااطلاق ہوگا۔

جب خلیفہ نذر مانتے ہوئے بہت سارا مال کہے تو اس کی نذر کو سو یا دو سو درہم پر محمول نہیں کیا جائے گا؛بلکہ یہاں پر اس کی علیحدہ سے مستقل حیثیت ہے۔یہاں پر اگر اس کلام کودیت کی مقدار یعنی[کم ازکم] بارہ ہزاردرہم پر محمول کیا جائےتو یہ اس سے کم پر محمول کرنے کی نسبت سے زیادہ اولی ہوگا۔اس لفظ میں اس سے زیادہ کا بھی احتمال ہے ۔ لیکن شریعت میں مسلمان نفس کی دیت اسی مقدار میں رکھی گئی ہے ؛ اور شریعت میں مسلمان نفس کی دیت زیادہ مال ہی ہوسکتی ہے [چند ٹکے نہیں ]۔

جب خلیفہ ’’کثیر ‘‘ کا لفظ استعمال کرے تو اس اطلاق اتنی مقدار پر ہوگا جس پر عام لوگوں کے اس لفظ کے استعمال کرنے سے اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔

اس لیے کہ اگر ہزار درہم رکھنے والا یوں کہے کہ فلاں کو کافی سارے دراہم دیدو ؛ تو اس سے مراددس ؛ بیس دراہم بھی ہو سکتے ہیں ۔ یہ تمام باتین حالات کے اعتبار سے ہوتی ہیں ۔ اس لیے کہ کم اورزیادہ ہونا اضافت اور نسبت کے اعتبار سے ہے ۔ جیسے کہ لفظ عظیم وغیرہ۔ لوگوں کے اختلاف کے لحاظ سے ان کلمات کے اطلاق میں موقع و مناسبت کی طرح اختلاف ہوتا ہے۔ اور جو حکایت مسعودی سے ذکر کی گئی ہے ‘ وہ منقطع الاسناد ہے۔ تاریخ مسعودی میں اتنی جھوٹی روایات ہیں جن کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ تو پھراس کی بیان کردہ ایسی حکایت کو جس کی کوئی سند ہی نہ ہو ؛کیسے معتبر سمجھا جاسکتا ہے ؟ مسعودی جھوٹی روایات ذکر کرنے میں معروف ہے۔اور اس کے ساتھ ہی اس حکایت میں کوئی فضیلت کی بات بھی نہیں ‘ اس لیے عام مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اس سے زیادہ فہم و دانست اور علم رکھتے ہیں ۔

حسن عسکری 

رافضی مصنف کا یہ قول کہ : ’’ اس کا بیٹا حسن عسکری اپنے زمانہ میں بہت بڑا عالم و فاضل ؛ عابد و زاہد تھا ۔اور ان سے عوام الناس نے بہت بڑی مقدار میں احادیث روایت کی ہیں ۔‘‘

یہ دعوی بھی اس سے پہلے کے دعوی کی طرح محض ایک جھوٹ اورفقط دعوی ہی ہے۔کیونکہ حسن بن علی عسکری کے زمانہ میں جو محدثین احادیث روایت کرنے میں مشہور تھے ‘ ان سے کوئی ایک روایت بھی کسی معتمد محدث کی کتاب میں جیسے امام بخاری ‘ امام مسلم ‘ ابو داؤد ‘ ترمذی؛ ابن ماجہ اورامام نسائی وغیرہ کے ہاں ؛ایسی نہیں ملتی جس کی سند حسن عسکری سے ملتی ہو۔

یہ لوگ اس زمانے میں موجود تھے ؛ یا اس کے قریب قریب تھوڑا پہلے یا تھوڑا بعد میں ہوگزرے ہیں ۔ حافظ ابو القاسم بن عساکر رحمہ اللہ نے ان تمام محدثین کے شیوخ کی روایات جمع کی ہیں ۔ان ائمہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے حسن بن علی عسکری سے کوئی ایک بھی روایت نقل کی ہو‘ حالانکہ انہوں نے ہزاروں علماء و محدثین سے روایات نقل کی ہیں ۔تو پھر یہ دعوی کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ عامۃ الناس نے آپ سے روایات نقل کی ہیں ۔

اور یہ دعوی کہ:’’ آپ اپنے زمانہ میں افضل ترین انسان تھے۔‘‘

یہ بھی اس سے پہلے دعو ی کی طرح صرف دعوی ہی ہے ۔