فصل:....محمد بن حسن مہدی
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....محمد بن حسن مہدی
’’رافضی مصنف کہتا ہے : ’’ پھر ان کے بیٹے : ہمارے آقام مہدی علیہ السلام ہیں ۔‘‘ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ؛ آپ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ آخری زمانے میں میری اولاد میں سے ایک آدمی نکلے گا؛ اس کانام میرے نام پر اور کنیت میری کنیت پر ہوگی ؛ وہ زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دیگا جیسے وہ ظلم سے بھری ہوگی ؛ آگاہ رہو وہی مہدی ہوگا۔‘‘
[جواب]:اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ:محمد بن جریر الطبری اور عبد الباقی بن قانع[ابن قانع کا نام و نسب عبدالباقی بن قانع بن مرزوق کنیت ابوالحسن نسبت بغدادی اور لقب الحافظ ہے، ماہ شوال ۳۵۱ میں بعمر ۸۶ سال فوت ہوا، اس نے حارث بن ابی اسامہ اور ابراہیم بن ہیثم بلدی اور ان کے طبقہ کے دیگر علماء سے حدیث روایت کی، اس نے متعدد کتب تصنیف کیں ، حسن عسکری کی وفات ابن قانع کی ولادت کے قریب زمانہ میں ہوئی، ابن قانع کے اقارب و اساتذہ امام حسن عسکری کے زمانہ کے چشم دید گواہ تھے۔]اور دوسرے اہل علم مؤرخین و محدثین اور ماہرین علم انساب نے لکھا ہے کہ : ’’ حسن بن علی عسکری کی کوئی نسل باقی نہیں رہی اور نہ ہی انہوں نے اپنے پیچھے کوئی اولاد چھوڑی ۔
امامیہ جن کا خیال ہے کہ آپ کا ایک بیٹا بھی تھا جس کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ اپنے بچپن میں ہی سامراء کے تہ خانہ میں داخل ہوگیا تھا ۔ بعض کہتے ہیں اس وقت اس کی عمر دو سال تھی۔ اور بعض کہتے ہیں تین سال ‘ اور بعض کے ہاں پانچ سال ۔ اگر امامیہ کی اس رائے کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تواس کے متعلق کتاب اللہ ‘ سنت رسول اللہ اور اجماع امت کی نصوص کی روشنی میں ایسے نوخیز بچے کا اپنی والدہ[اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ حسن عسکری کا نوزائیدہ فرزند اس وقت پانچ برس کا تھا جیسا کہ امامیہ کا دعوی ہے تو اسے اپنے چچا جعفر کے زیر سرپرستی وتربیت ہونا چاہیے تھا، علاوہ ازیں یہ بھی ضروری تھا کہ حسن عسکری کا جو ورثہ ان کے بھائی جعفر کی زیر سرپرستی تقسیم کیا گیا تھا، اس میں سے ان کے نو عمر فرزند کا حصہ بھی الگ کیا جاتا، جیسا کہ احتیاط کا تقاضا ہے، جعفر نے اپنے بھائی کی بیویوں اور لونڈیوں کو آدمیوں کے ساتھ اتصال و اختلاط سے بدیں وجہ روکے رکھا کہ مبادا ان میں سے کوئی حاملہ ہو مگر کسی کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہوا اور کسی لونڈی نے بھی....خواہ وہ نرگس نامی باندی ہو یا کوئی اور....یہ دعویٰ نہ کیا کہ حسن عسکری سے اس کے یہاں کوئی بچہ ہے، علاوہ ازیں کوئی سیاسی امر بھی اس بات کا متقاضی نہ تھا کہ نومولود کو اس حد تک مخفی رکھا جائے کہ علویہ کے نقیب کو جو بڑے اہتمام کے ساتھ ایک مخصوص رجسٹر میں اس کنبہ کے افراد کی تاریخ ولادت تحریر کیا کرتا تھا پتہ نہ چل سکا، اس پر مزید یہ کہ اس مزعوم نومولود کے والد حسن عسکری اپنے زمانہ میں بڑی عزت و وقعت کی نگاہ سے دیکھتے جاتے تھے اور کوئی حاکم یا غیر حاکم ان کی حریت و کرامت میں دخل انداز نہیں ہوسکتا تھا، پھر ایسے بچے کو پوشیدہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی جو نہ تو حکام وقت کا اقتدار غصب کرنا چاہتا تھا، نہ انقلاب بپا کرنے کا خواہاں تھا اور نہ کسی کے خلاف نبرد آزما ہونا چاہتا تھا۔ روافض کا عقیدہ ہے کہ حسن عسکری کا یہ کم سن لڑکا اس وقت تک موت سے نہیں ہوگا جب تک شیعہ کو چھوڑ کر سب مخالفین کو تہ تیغ نہ کر لے، اب قابل غور بات یہ ہے کہ جب اسے موت کا اندیشہ لاحق نہ تھا تو پوشیدہ رہنے کا کیا مطلب؟ تہ خانہ جس کے متعلق شیعہ کا گمان ہے کہ وہ لڑکا وہاں پوشیدہ ہے ایک سراب ہے، جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ، جس گھر میں بقول شیعہ یہ تہ خانہ موجود تھا، حسن عسکری کے بھائی جعفر کی ملکیت میں آچکا ہے، ظاہر ہے کہ گھر کا مالک اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ گھر میں کیا کچھ پوشیدہ ہے، جن لوگوں نے یہ گپ ہانکی (] دائی یا کسی اور قریبی رشتہ دار کے زیر تربیت ہونا ضرورتھا،جو اس کی پرورش و تربیت کرے۔ نیز یہ بھی ضروری تھا کہ کوئی دوسرا شخص اس کے مال و متاع کی دیکھ بھال کرتا،یاتو یہ محافظ اس کا کوئی وصی ہوتا ؛ یا غیر وصی؛ پھر یا تو کوئی قریبی رشتہ دار ہوتا یا سلطان کی طرف سے کوئی نائب۔اس لیے کہ ایسا بچہ اپنا باپ مرجانے کی وجہ سے یتیم ہوگیا ہے۔اللہ تعالیٰ یتیم کے بارے میں فرماتے ہیں :
﴿وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰٓی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ وَ لَا تَاْکُلُوْہَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا ﴾ (النساء۶]
’’اور یتیموں کو آزماتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں ، پھر اگر تم ان سے کچھ سمجھداری معلوم کرو تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو اور فضول خرچی کرتے ہوئے اور اس سے جلدی کرتے ہوئے انھیں مت کھاؤ کہ وہ بڑے ہو جائیں گے۔‘‘
یہ جائز نہیں ہے کہ یتیم بچے کے بالغ و ہوشیار و سمجھدار ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے سپرد کردیا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ ایسا بچہ جوکہ اپنی جان و مال میں تصرفات کے اختیار سے محروم اور دوسروں کے زیر تربیت ہووہ پوری امت مسلمہ کا امام معصوم بن جائے؟اور کوئی انسان اس امام پرایمان رکھے بغیر مؤمن نہ ہوسکتا ہو؟ ۔
مزید برآں اگر ایسے امام کے وجودیا عدم وجود کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس سے کوئی دینی یا دنیوی مصلحت حاصل نہیں ہو سکتی ۔اور نہ ہی اس امام نے کسی ایک کو بھی کسی چیز کی کوئی تعلیم دی۔ اور نہ ہی اس کی کسی اچھی یا بری بات کا کسی کو کوئی اتا پتہ ہے ۔ اس امام کی وجہ سے مقاصد ومصالح امامت میں سے کسی بھی عام یا خاص کو کوئی بھی چیز حاصل نہیں ہوسکی۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ اگر ایسے امام کے وجود کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ تمام اہل ارض کے لیے بلامقصد اورنقصان دہ ہے ۔ اس لیے کہ اس امام پر ایمان لانے والوں کو تو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ نہ ہی کوئی مصلحت حاصل ہوئی اور نہ ہی کوئی مہربانی۔ اور اس امام کے جھٹلانے والے اس کے ماننے والوں کے نزدیک مبتلائے عذاب ہیں ۔ تو اس سے ثابت ہوا یہ کہ امام محض ایک شر و برائی ہے جس میں خیر کی کوئی ایک بات بھی نہیں ۔ ایسا امام کسی حکیم و عادل کی تخلیق نہیں ہوسکتا۔
اگریہ کہا جائے کہ وہ لوگوں کے ظلم کے خوف سے چھپ گیا تھا۔‘‘
[تھی کہ اس گھر کے تہ خانہ میں حسن عسکری کا بیٹا پوشیدہ ہے، ان کا رابطہ اس گھر سے کٹ گیا تھا اور وہ اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے تھے، تیل فروش یا گھی فروش کا بیٹا (ابن الزیات أوالسمّان) جس کی دوکان مذکورہ گھر کے قریب تھی حسن عسکری کی وفات کے بعد ان کے بھائی جعفر سے نہ کبھی اور نہ اسے کبھی اس گھر میں داخل ہونے کا اتفاق ہوا جس میں وہ سرد خانہ تھا واقعہ یہ تھا کہ گھی فروش کے بیٹے کی دوکان کے قریب ایک درخت تھا، شیعہ عوام جن کو کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہوتا تھا شام کے وقت آتے اور اپنے استفتا اس درخت کے سوراخ میں رکھ جایا کرتے تھے، ان کے چلے جانے کے بعد گھی فروش کا بیٹا آ کر یہ کاغذ نکال لیتا اور کسی رافضی فقیہ سے ان کا جواب لکھوا کر پھر اسی سوراخ میں رکھ دیتا، نادان شیعہ اس زعم فاسد میں مبتلا تھے کہ ان کا بارہواں امام جو ہنوز پیدا نہ ہوا اور نہ اس نے کسی سے تعلیم پائی....یہ جوابات لکھ رہا ہے شیعہ اور ابن الزیات (زیت فروش کا بیٹا) کا رابطہ اس تہ خانہ یا درخت کے ساتھ بس اتنا ہی تھا دگر ہیچ۔]
[جواب ]:ہم جواباً کہتے ہیں کہ:پہلی بات: ’’ ظلم تو اس کے آباؤ اجداد کے زمانہ میں بھی ہو رہا تھا، مگر انہوں نے چھپنے کو مناسب خیال نہ کیا۔[سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اکابر شیعہ نے جن کے سرغنہ نصیرالدین طوسی، ابن العلقمی اور ابن ابی الحدرد تھے....مسلمانوں کے خلاف سازش کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتارا، یاجوج ماجوج (تاتار) کی تلواروں سے اسلامی سلطنت کا چراغ گل کر دیا اور علوم اسلامیہ کی لاکھوں کتب دریائے دجلہ میں پھینک دیں ، جن کی وجہ سے اس کا پانی کئی دن تک سیاہ رہا تو ایسے آڑے وقت میں بقول شیعہ تہ خانہ کا یہ مکین کس لیے تہ خانہ سے باہر نہ نکلا نہ ان کے سامنے اپنی موجودگی کا اعلان کیا؟ حالانکہ شیعہ مذہب کے مطابق وہ اس وقت بقید حیات تھا اور اب بھی زندہ ہے اور شیعہ اس کے عاجلانہ ظہور کے لیے دست بدعا بھی رہتے تھے اس وقت سے موزوں تر وقت اور کون سا ہوسکتا تھا....؟ علاوہ ازیں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ آج کل اطراف عالم میں شیعہ کی کثرت ہے، دجلہ و فرات کے دونوں کنارے اور ایران شیعہ سے بھرپور ہیں ، پھر دور حاضر میں کون سا ظلم امام غائب کے خروج سے مانع ہے....؟ اس پر مزید یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے امام غائب کی حفاظت اور اس کے تحفظ و بقا کی ذمہ داری اپنی ذات پر عائد کی ہے، ظاہر ہے کہ تحفظ و بقا کی اس گارنٹی کی موجودگی میں ان کی زندگی کو کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟آخر تہ خانہ کی تاریکیوں میں دفن رہنے اور دریائے دجلہ و فرات کے جاذب نظر مناظر سے ممتنع نہ ہونے میں کیا مصلحت پائی جاتی ہے، رب کریم ہمیں اصلاح عقائد کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔ ’’برحمتک یا ارحم الراحمین‘‘ ]
دوسری بات : مزید برآں اس کے عقیدت مند ہر جگہ کرۂ ارضی پر موجود ہیں ؛ توامام صاحب چلو بعض اوقات چند گھڑیوں کیلئے ہی اپنے ماننے والوں کے ساتھ مل کرکیوں نہیں بیٹھ جاتے۔یا پھر وہ اپنا کوئی ایلچی ان لوگوں کی طرف بھیجتا جو ان لوگوں کو کوئی نفع بخش علم کی باتیں سکھاتا۔
تیسری بات:....امام صاحب کے لیے ممکن تھا کہ وہ کسی ایسی جگہ ظہور پذیر ہو گیاہوتا، جہاں اس کے ارادت مند بکثرت ہوں ۔ جیسا کہ بلاد شام کے پہاڑ ؛جن میں کثرت کے ساتھ رافضی آباد ہیں ۔اور ان کے علاوہ بھی شیعہ کی کئی ایک مضبوط پناہ گاہیں اور بستیاں ہیں ۔
چوتھی بات:....جب امام صاحب کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس خوف کی وجہ سے کسی ایک انسان کوبھی علم یا دین کی کوئی فائدہ مند بات بتاسکے تو پھر اس امام کی وجہ سے کونسا فائدہ یا مصلحت حاصل ہوئی؟پس یہ بات نظریہ امامت کے بنیادی اصولوں کے ہی خلاف ہے؟بخلاف ان انبیاء کرام ومرسلین عظام رحمہم اللہ کے ‘جنہیں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ؛ انہیں جھٹلایا گیا‘ مگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں ‘اور رسالت کا حق اداکیا ۔ لوگوں کو اللہ کا دین پہنچایا اورسکھایااور ان پر ایمان لانے والوں کو فائدہ اور مصلحت بھی حاصل ہوئی؛ جو کہ ان اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام تھا۔جب کہ اس معدوم و موہوم؛ کبھی بھی نہ آنے والے امام کے ماننے والوں کو سوائے اس انتظار طویل اور حسرت و الم اور دنیا بھر کی دشمنی کے سوا کیا فائدہ پہنچا؟ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ شیعہ ساڑھے چار سو (۳۵۰) سال سے اس کے خروج و ظہور کی دعائیں کرتے چلے آرہے ہیں مگر ان کی دعائیں قبولیت سے ہم کنار نہیں ہوتیں [اورکبھی بھی قبول نہ ہوں گی] [اس چھپا چھپی کے کھیل کوساڑھے بارہ سو برس گزر چکے ہیں ، شیعہ ابھی تک بعجز و انکسار مصروف دعا ہیں ، کیا اتنی طویل مدت میں ایک بھی مستجاب الدعوات شیعہ نہ تھا جس کی دعا قبولیت سے آراستہ ہوتی ، اور امام غائب منصہ شہود پر جلوہ گر ہو جاتے۔]
پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ امت محمدیہ کے کسی مسلمان کو اگر اتنی لمبی عمر مل بھی جائے تو اس پر اس جھوٹ کا پردہ کھل جائے گا۔ اسلام میں کسی انسان کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس نے ایک سوبیس سال سے زیادہ کی عمر پائی ہو۔چہ جائے کہ کسی کو پانچ سو یا ہزار سال کی عمر ملے [تاکہ وہ اس امام کی صحبت سے شرفیاب ہو]۔ صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمایا:
’’ تمہاری آج کی رات میں نے تمہیں دیکھا ؛ بیشک جو لوگ آج زمین پر موجود ہیں ایک سوسال گزرنے کے بعد ان میں سے ایک بھی زندہ باقی نہیں رہے گا۔‘‘[یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ دیکھیں : بخاری ۱؍ ۱۱۹؛ کتاب مواقیت الصلاۃ؛ باب السمر فی الفقہ و الخیر بعد العشاء؛ مسلم ۴؍ ۱۹۶۵؛ کتاب فضائل الصحابۃ باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاتأتی مائۃ سنۃ علی الأرض ؛ سنن أبی داؤد ۴؍ ۱۷۶۔کتاب الملاحم ؛باب قیام الساعۃ ۔سنن الترمذي ۳؍۳۵۴ ؛ کتاب الفتن۔]
پس جس انسان کی عمر اس وقت ایک سال یا اس کے قریب تھی؛ وہ قطعی ایک سوسال سے زیادہ زندہ نہیں رہا۔ پس جب اس وقت میں لوگوں کی عمریں اس حد سے تجاوز نہیں کرتی تھیں ؛ توعام طور پر غالب عادت کے مطابق اس کے بعد کے لوگوں کی عمریں اس حد تک نہیں پہنچ سکتیں ۔ اس لیے کہ بنی آدم کی عمریں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہیں ، بڑھتی نہیں ۔
بیشک حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم میں ساڑہے نو سو سال قیام کیا تھا؛ اور حضرت آدم علیہ السلام کی عمر صحیح روایت کے مطابق ایک ہزار سال تھی۔ [یہ صحیح حدیث میں ثابت ہے‘ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔][سنن الترمذی ؍۱۲۳؛ کتاب التفسیر ؛ باب الأخیر فیہ ؛ وقال الترمذي :ہذا حدیث حسن غریب من ہذا الوجہ ؛ وقد روي من غیر وجہ عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ؛ وقال الألباني: في تخریج مشکاۃ ۲؍۵۴۳۔ صححہ الحاکم ووافقہ الذہبي ؛ وہ ھو کما قالا۔]
اس زمانہ میں عمریں بہت لمبی ہوا کرتی تھیں ؛جب کہ اس امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال کے درمیان میں ہیں ‘ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو اس عمر سے تجاوز کریں گے۔‘‘[یہ صحیح حدیث میں ثابت ہے ] [سنن الترمذي ۳؍۳۸۷ ؛ کتاب الزہد؛ باب ما جاء في أعمار ہذہ الأمۃ۔ وقال الترمذي ہذا حدیث حسن غریب۔ سنن ابن ماجۃ ۲؍ ۱۴۱ ؛ کتاب الزہد ؛ باب الأمل و الأجل۔]
[حضرت خضرکی زندگی سے استدلال]
اس موقع پر حضرت خضر علیہ السلام کی زندگی سے دلیل لینا؛باطل در باطل ہے۔ بقائے خضر کی ان کی بات کو کون تسلیم کریگا۔ تمام محقق علماء کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا انتقال ہوچکا ہے۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آپ ابھی تک زندہ ہیں ‘تو پھر بھی آپ کا شمار اس امت میں نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے ایسے جھوٹے جنات اور انسان پائے جاتے ہیں جن کا خضر ہونے کا دعوی ہے ۔ اور جو کوئی انہیں دیکھ لیتا ہے اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ میں نے خضر کو دیکھاہے ۔ اس بارے میں بہت ساری صحیح روایات ہمارے علم میں ہیں ‘ مگر ان کا یہاں پر تذکرہ کرنا باعث ِ طوالت ہوگا۔
یہی حال امام منتظَر محمد بن الحسن کا ہے۔ بلاشبہ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جن میں سے ہر ایک کا محمد بن الحسن مہدی ہونے کا دعوی ہے۔ ان میں سے بعض لوگوں کے گروہوں کے سامنے بھی آتے اوراظہار کرتے ہیں ۔ اور بعض اس بات کو چھپاتے ہیں ؛ ایک یا دو افراد کے علاوہ کسی پر ظاہر نہیں کرتے ۔ ان میں سے کوئی ایک دعویدار بھی ایسا نہیں ہے جس کا جھوٹ خضر کے مدعی ہونے والے کے جھوٹ کی طرح سامنے نہ آجاتا ہو۔