حضرت علیؓ کے مقابل حضرت امیر معاویہؓ کی خطاء اجتہادی اور اہلسنت و الجماعت کے دلائل
محمد محسن طارق الماتریدیحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مقابل حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خطاء اجتہادی
اھلسنت و الجماعت کے دلائل
*حدیث نمبر 1⃣*
*حدثنا محمد بن عباد المکی حدثنا ابوسعید عن صدقة بن الربیع عن عمارة بن غزیة عن عبدالرحمن بن ابی سعید عن ابیه قال کنا عند بیت النبی صلی اللہ علیه و سلم فی نفر من المھاجرین و الانصار فخرج علینا فقال الا اخبرکم بخیارکم؟ قالوا بلی قال خیارکم الموفون المطیبون ان اللہ یحب الخفی التقی قال ⬅و مر علی بن ابی طالب فقال الحق مع ذا الحق مع ذا➡*
*مسند ابی یعلی الموصلی الموصلی ج 2 ص 318 رقم 1052-78*
*اس حدیث امام ھیثمی رحمه الله تعالی نے مجمع الزوائد میں ذکر کرکے لکھا ہے
⬅️ رواہ ابویعلی و رجاله ثقات➡️*
*مجمع الزوائد ج 7 ص 337 رقم 12027*
*اصل مقصود و مدعی کا ترجمة⬇️*
*حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گذرے تو فرمایا کہ حق ان کے ساتھ ہوگا حق ان کے ساتھ ہوگا*
*ناصبیوں سے سوال⬇️*
*جمھور اھلسنت والجماعت محدثین کرام کے ہاں اس حدیث کا سوائے اس کے کوئی مطلب نہیں ہے کہ جنگ جمل و صفین میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حق پر تھے اور ان کے مقابلین اجتھادی خطاء پر تھے اگر کوئی اور مطلب ہو تو بتائیں روافض والا مطلب تو قرآن و صحیح احادیث کی روشنی میں ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت معاویہ رضی الله تعالی عنہ سے غیر اجتہادی قطعی خطاء ہوئی ہے؟؟؟*
*فافھم*
*اعتراض*
*اگر کوئی اعتراض کرتا ہے کہ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ ہر معاملہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے مقابل کے مقابلہ میں حق پر ہونگے*
*جواب*
*تو اس کا جواب یہ ہے جیسا کہ اھل علم حضرات جانتے ہیں حدیث میں قضیہ مطلقہ آیا ہے جو کہ موجبہ جزئیہ کے حکم میں ہوتا ہے لھذا مراد جزئی طور پر ہے نہ کہ کلی طور پر جیساکہ روافض کہتے ہیں*
♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️
*حدیث نمبر 2⃣*
*حدثنا ابوالعباس محمد بن یعقوب حدثنا ابوالبختری عبید اللہ بن محمد بن شاکر ثنا ابو اسامة ثنا مسلم بن عبد اللہ الاعور عن حبة العرنی قال دخلنا مع ابی مسعود الانصاری علی حذیفة بن الیمان اساله عن الفتن فقال دوروا مع کتاب اللہ حیث ما دار و انظروا الفئة التی فیھا ابن سمیة فاتبعوھا فانه یدور مع کتاب اللہ حیث ما دار قال فقلنا له و من ابن سمیة؟ قال عمار سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم یقول له لن تموت حتی تقتلک الفئة الباغیة تشرب شربة ضیاخ تکن آخر رزقک من الدنیا*
*ھذا حدیث صحیح عال و لم یخرجاہ*
*المستدرک علی الصحیحین ج 3 ص 442 رقم 1274/5676 طبع دار الکتب العلمیة بیروت*
*اور امام ذھبی رحمہ الله تعالی نے بھی تلخیص علی المستدرک میں اس حدیث کو صحیح کہہ کر امام حاکم رحمہ الله تعالی کی موافقت کی ہے*
*المستدرک علی الصحیحین و بذیله التلخیص للحافظ الذھبی رحمه الله تعالی ج 3 ص 391 طبع دار المعرفة بیروت*
*اصل مقصود و مدعی کا ترجمہ*
*حذیفة بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس طرف کتاب اللہ ہو اس طرف تم بھی ہونا اور اس جماعت کو دیکھو جس میں سمیہ رضی اللہ تعالی عنھا کا بیٹا ہو کیونکہ وہ اسی طرف ہونگے جس طرف کتاب اللہ ہوگی حاظرین مجلس نے عرض کیا کہ کون سمیہ رضی اللہ تعالی عنھا کا بیٹا؟ حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے وہ حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمارہے تھے کہ تم اس وقت تک نہیں مروگے جبتک باغی جماعت تمہیں قتل نہ کردے اور تم اپنی زندگی کی آخری چیز دودھ پیوگے یہ دنیا میں سے تمھارا آخری رزق ہوگا*
*اور یہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی جماعت کے ایک فرد نے شہید کیا جس سے سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حق پر تھے اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اجتہادی خطاء پر تھے*
♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️
*اس مضمون کی ایک حدیث دوسری سند کے ساتھ امام بیھقی رحمہ الله تعالی نے اپنی کتاب دلائل النبوة للبیھقی میں اور ابن عساکر رحمہ الله تعالی تاریخ مدینة دمشق لابن عساکر میں اور امام ذھبی رحمہ الله تعالی نے سیر اعلام النبلاء میں بھی ذکر کی ہے*
*حدیث ملاحظہ کیجئے گا*
*اخبرنا ابوعبد اللہ الحافظ و ابوبکر بن الحسین القاضی قالا حدثنا ابوالعباس بن محمد بن یعقوب حدثنا ابوبکر محمد بن اسحاق الصغانی حدثنا ابوالجواب حدثنا عمار یعنی ابن رزیق عن عمار الدھنی عن سالم بن ابی الجعد قال جاء رجل الی عبد اللہ بن مسعود فقال له یا ابا عبد الرحمان ان اللہ عز و جل قد امننا من ان یظلمنا و لم یؤمننا من ان یفتننا ارایت ان ادرکت فتنة؟ قال علیک بکتاب اللہ قال ارایت ان کان کلھم یدعون الی کتاب اللہ؟ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم اذا اختلف الناس کان ابن سمیة مع الحق*
*دلائل النبوة للبیھقی ج 6 ص 321/322 تاریخ مدینة دمشق لابن عساکر ج 43 ص 403/404 سیر اعلام النبلاء ج 1 ص 415/416*
*اصل مقصود و مدعی کا ترجمہ*
*عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنه کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا یا ابا عبد الرحمن اللہ تعالی نے ہمیں اس سے تو امن میں رکھا ہے کہ ہم پر ظلم ہوگا لیکن اس سے امن میں نہیں رکھا کہ ہم فتنة (آزمائش) میں نہیں پڑینگے لھذا اگر میں فنتة کو پالوں تو آپ کی کیا رائے ہے میں کیا کروں؟ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنه نے فرمایا اللہ کتاب کو لازم پکڑ لو اس نے عرض کیا اگر ہر ایک کتاب اللہ کی طرف بلارہا ہو پھر؟ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنه نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیه و سلم سے سنا ہے کہ جب لوگ اختلاف میں پڑ جائے تو ابن سمیة یعنی حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنه حق کے ساتھ ہونگے*
♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️
*نوٹ*
*اس حدیث کی سند منقطع ہے جیساکہ امام ذھبی رحمه الله تعالی نے فرمایا ہے جسکی وجہ سے ضعیف ہے لیکن مستدرک کی صحیح حدیث (جسے امام حاکم رحمه الله تعالی نے ھذا حدیث صحیح عال فرمایا اور امام ذھبی رحمه الله تعالی نے ان کی موافقت کی ہے) کے لئے بطور استشھاد کے پیش کرنے میں اصول حدیث کی روشنی میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ اھل علم حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ مستدرک کی صحیح حدیث سے اس حدیث کے مضمون کو تقویت مل رہی ہے*