Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....حدیث مہدی اور رافضی شبہ پر رد ّ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....حدیث مہدی اور رافضی شبہ پر رد ّ

شیعہ مصنف نے کہا ہے: ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی اسناد سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آخری زمانہ میں میری اولاد میں سے ایک شخص نکلے گا؛ اس کانام میرے نام پر اور کنیت میری کنیت پر ہوگی ؛ وہ زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دیگا جیسے وہ ظلم سے بھری ہوگی ؛ آگاہ رہو وہی مہدی ہوگا۔‘‘

[سلسلہ جوابات]:

پہلا جواب:....آپ لوگ تو اہل سنت و الجماعت کی احادیث سے استدلال نہیں کرتے ؛ ایسی روایت کے نقل کرنے سے آپ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ اہل سنت پر حجت ہے تو پھر اہل سنت علماء کرام کا کلام بھی آگے آرہا ہے [اسے بھی تسلیم کرنا پڑے گا]۔

دوسرا جواب :....اس حدیث کا تعلق خبر واحد سے ہے ؛ پھر اس سے اصول دین میں سے کوئی ایسی اصل کیسے ثابت کی جاسکتی ہے جس کے بغیر ایمان صحیح نہ ہوتا ہو۔

تیسرا جواب:....حدیث کے الفاظ کی دلالت خود تمہارے حق میں نہیں بلکہ خلاف ہے ۔ اس لیے کہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ : ’’ اس کا نام میرے نام پر ہوگا‘اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ جس مہدی کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا نہ کہ محمد بن الحسن۔ اور یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ یہ مہدی حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہوگا نہ کہ حسین بن علی کی اولاد سے رضی اللہ عنہم ۔

مہدی کے بارے میں احادیث بہت مشہور و معروف ہیں ۔ انہیں امام احمد ‘ امام ابو داؤد ‘ امام ترمذی اور دوسرے محدثین رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہوگا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے نہیں ۔[سنن ابی داود، کتاب المھدی، حدیث:(۴۲۹۰) اموی خلافت کے آخری دور میں بنو ہاشم قبیلہ قریش کے محمد نفس زکیہ بن عبداﷲ بن حسن المثنیٰ بن حسن السبط کو مہدی خیال کرتے تھے، ایک مرتبہ مکہ کو جاتے ہوئے، ابواء کے مقام پر یہ واقعہ پیش آیا کہ وہاں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی نسل کے چند لوگ جمع ہوگئے، عباسی خاندان کے ابراہیم و سفاح، منصور اور صالح بن علی بھی موجود تھے۔ عبداﷲ بن حسن المثنیٰ اور ان کے دونوں بیٹے محمد اور ابراہیم ان سب کے سردار تھے۔ ابو جعفر منصور کے ایماء پر ان سب لوگوں نے محمد بن عبداﷲ بن حسن بن حسن کی بیعت کر لی۔ منصور نے سب سے پہلے بیعت کی، جب عباسی خاندان برسر اقتدار آیا اور منصور خلیفہ قرار پایا، تو اس کی سب سے ]

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن بھی باقی ہوگاتو اللہ نے اس دن کو اتنا لمبا کر دیں گے یہاں تک کہ ایک آدمی اہل بیت میں سے بھیجیں گے جس کا نام میرے نام سے اور جس کے باپ کے نام میرے باپ کے نام سے مطابقت رکھتا ہوگا۔ وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گہ جیسے وہ ظلم وجور سے بھردی گئی تھی۔‘‘[پہلی آرزو یہ تھی کہ کسی طرح اپنے مرشد وہادی محمد بن عبداﷲ کی بیعت سے آزاد ہو اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ابراہیم کو بھی تہ تیغ کر دے۔ اس ضمن میں خاص بات یہ ہے کہ بنی ہاشم کے عقیدہ کے مطابق مہدی امام حسین کی اولاد سے نہیں ، بلکہ حضرت حسن کی نسل سے ہوگا۔ چونکہ محمد بن عبداﷲ بن حسن حدیث نبوی میں مندرج شرائط کے مطابق تھے اورحضرت علی کی روایت کے مطابق آپ حضرت حسن کی اولاد سے تھے، بنا بریں بنی ہاشم نے مہدی سمجھ کر ان کی بیعت کر لی، خواہ ان کا یہ اقدام صحیح ہو یا غلط، اس لیے کہ حدیث سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کا نام رسول اﷲ کے نام پر اور ان کے والد کا نام رسول اﷲ کے والد کے نام پرہوگا، چونکہ شیعہ اس بات کے مدعی تھے کہ حسن عسکری کا ایک بیٹا موجود ہے مگر وہ حسن کے نام کو عبداﷲ کی صورت میں تبدیل کرنے پر قادر نہ تھے لہٰذا انہوں نے صرف اسی پر اکتفا کیا کہ بارہویں امام کا نام محمد ہوگا، مگر حدیث نبوی نے انہیں رسوا کر دیا(کیونکہ ان کے والد کا نام عبداﷲ نہیں ، بلکہ حسن ہے) بہر کیف مہدی سے متعلق احادیث کی چھان بین اور ان کا دقیق و عمیق مطالعہ ضروری ہے۔  سنن ابوداؤد:۴؍۱۵۱؛ ح۸۹۰؛ کتاب المہدی ؛ و صححہ الألبانی في صحیح الجامع الصغیر ؍۷۰۔ اس طرح کی ایک اور حدیث بھی مروی ہے۔ سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۳۴۳کتاب الفِتنِ، باب ما جاء فِی المہدِی وقال التِرمِذِی: وفِی البابِ عن علِی، وأبِی سعِید ن وأمِ سلمۃ، وأبِی ہریرۃ، ہذا حسن صحِیح۔وأوردہ ابن ماجہ فِی سننِہِ:۲؍۹۲۸، کِتاب الجِہادِ، باب ذِکرِ الدیلمیِ وفضلِ قزوِین ۔ ]

چوتھا جواب :....یہ حدیث جو ذکر کی ہے ‘ اس میں ہے کہ اس کا نام میرے نام کے مطابق اور اس کی کنیت میری کنیت کے مطابق ہوگی۔ اس میں یہ نہیں کہا کہ : اس کا نام میرے نام پر اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا۔اہل علم نے حدیث کی معروف ترین کتب میں یہ روایت ان الفاظ میں نقل نہیں کی۔ اس رافضی نے حدیث کوکتب احادیث میں وارد اس کے معروف الفاظ میں نقل نہیں کیا ؛ جیسا کہ مسند احمد ؛ سنن ابی داؤد ترمذی اور دوسری کتب حدیث میں ہے۔بلکہ اس نے اپنی طرف سے تراشے ہوئے جھوٹے الفاظ میں نقل کی ہے [تاکہ اپنے مسئلہ پر استدلال کرسکے ]۔

٭ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : ’’ ابن جوزی نے اپنی سند سے روایت کیا ہے ۔‘‘

٭ اگر اس سے مراد وہ مشہور عالم ہیں جن کی بہت زیادہ کتب ہیں ؛ یعنی ابو الفرج ابن جوزی ؛ تو پھر یہ آپ پر جھوٹ ہے اور اگر اس سے مقصود ان کا نواسہ یوسف بن قز أوغلی[اس کا پورا نام ابو مظفر یوسف بن قز أوغلی بن عبداللہ بن سبط ابو الفرج بن الجوزی ہے۔قز اوغلی ترکی زبان کا لفظ ہے؛ جس کا معنی ہے نواسا۔ یہ مؤرخ اوروعظ ہو گزراہے۔ ۵۸۱ھ میں بغداد میں پیدا ہوا؛ پھر دمشق منتقل ہوکیا؛ اور وہیں پرزندگی گزاری ؛ ۶۵۴ ھ میں وفات پائی۔ اس کی کتاب ’’مرأۃ الزمان ‘‘ اور ’’تذکرۃ خواص الأمۃ بذکر خصائص الائمۃ ‘‘ ہیں ۔ یہ کتابیں ۱۹۶۴ء میں نجف اشرف سے طبع ہو چکی ہیں ۔ علامہ ذہبی نے اس کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ اس نے اپنے نانا کے علاوہ علماء کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے۔ اس کی کتاب مرأۃ الزمان میں منکر روایات ہیں ۔ اورروایت نقل کرنے میں ثقہ نہیں ہے۔ پھر یہ کہ یہ آدمی رافضی ہوگیا تھا۔ اس کی ایک کتاب اس سلسلہ میں بھی ہے۔ [میزان الاعتدال ۴؍ ۴۷۱]] ’’مرأۃ الزمان ‘‘ تاریخ کا مصنف ہے؛ اور جس نے ’’ اثنا عشریہ ‘‘ پر بھی کتاب لکھی ہے جس کا نام اس نے رکھاہے :’’ اعلام الخواص ‘‘؛ تو یہ انسان اپنی کتابوں میں ہر طرح کی باتیں ذکر کردیتا ہے ۔ اور اپنے مطلب کی بات پر حجت پیش کرنے کے لیے ضعیف اور موضوع روایات تک سے استدلال کرتا ہے۔ یہ صاحب لوگوں کی حاجات اور مقاصد کے مطابق تالیف کیا کرتے تھے۔ شیعہ کے لیے ایسی کتابیں لکھتے جو ان کے لیے مناسب ہوتیں تاکہ ان سے معاوضہ حاصل کرسکیں ۔اور بعض بادشاہوں کے لیے حنفی مذہب کے مطابق کتب لکھتے تاکہ ان سے اپنی اغراض پوری کرسکیں ۔ان کا طریقہ اس واعظ جیسا تھا جس سے پوچھا گیا : تم کس مذہب پر ہو ؟ تو اس نے جواب میں پوچھا: کون سے شہر میں ؟

یہی وجہ ہے کہ اس کی بعض کتابوں میں خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقید اور مثالب پائے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شیعہ کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کرکے ان کی توجہ چاہتے تھے۔ اور بعض کتابوں میں خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کی تعظیم و مناقب پائے جاتے ہیں ۔ جب اہل علم کے سلف و خلف کے ہاں مہدی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور حدیث ان الفاظ میں تھی :

’’جس کا نام میرے نام سے اور جس کے باپ کے نام میرے باپ کے نام سے مطابقت رکھتا ہوگا‘‘

تو پھر بہت سارے لوگ یہ تمنا کرنے لگے کہ کاش وہی مہدی ہوں ۔ یہاں تک کہ منصور نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا اور اسے مہدی کا لقب دیا تاکہ اس کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے اوراس کے باپ کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باپ کے نام کے مطابق ہوجائے ۔مگر یہ مہدی موعودہر گز نہیں تھا۔

ابو عبد اللہ محمد بن التومرت جس کا لقب مہدی تھا ؛ جس کا ظہور مغرب میں ہوا‘ اور اس نے اپنی جماعت کے لوگوں کو موحدین کا نام دیا ۔ اس کے احوال معروف ہیں ۔اس کا یہ دعوی تھا کہ وہ وہی مہدی ہے جس کے متعلق احادیث میں بشارت سنائی گئی ہے؛ اسکے ماننے والے خطبہ دیتے ہوئے منبر پر اس کا نام لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے خطبات میں یوں کہا کرتے تھے:

((الإمام المعصوم المہدي المعلوم الذي بشرت بہ في صریح وحیک الذي الکتنفتہ بالنور الواضح والعدل اللائح؛ الذي ملأ البریۃ قسطاً و عدلاً کما ملئت ظلماً و جوراً۔))

’’اس مہدی کا ظہور سن پانچ سو ہجری کے کچھ عرصہ کے بعد ہوا اور پانچ سو چوبیس ہجری میں انتقال کرگیا۔ اس کی نسبت آل حسن رضی اللہ عنہ کی طرف کی جاتی تھی۔ چونکہ یہ علم حدیث رکھنے والا انسان تھا ؛ اس لیے اس نے یہ دعوی کیا کہ اسی کے متعلق بشارت دی گئی ہے۔ حالانکہ معاملہ ایسا نہیں تھا۔اور نہیں ہی اس نے زمین کو عدل و انصاف سے بھرا۔ اس نے دین میں کئی بدعات بھی داخل کیں ‘ اور کئی ایک اچھے کام بھی کئے۔ ‘‘

اس سے قبل عبیداللہ بن میمون قداح نے بھی مہدی ہونے کا دعوی کیا تھا۔ مگر نہ ہی اس کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے مطابقت رکھتا تھا اورنہ ہی اس کے والد کانام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام سے مطابق تھا۔ اس کادعوی تھا کہ وہ محمد بن اسماعیل بن جعفر کی اولاد سے ہے۔ اور میمون ہی محمد بن اسماعیل ے۔ شجرہ نسب کے ماہرین اوردوسرے علماء کرام جانتے ہیں کہ اس کا نسب کا دعوی جھوٹ پر مبنی ہے۔ اوریہ کہ اس کا والد خود یہودی تھا جو کہ ایک مجوسی کا لے پالک تھا۔ اس لحاظ سے اس کی دو نسبتیں ہیں : ایک نسبت یہود کی طرف اور دوسری نسبت مجوس کی طرف ۔

عبیداللہ اور اس کے اہل خانہ ملحدین تھے۔ ان کا تعلق اسماعیلیہ فرقہ کے ائمہ میں سے ہوتا ہے؛ جن کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں : ’’ ان کا مذہب ظاہر میں رافضیت ہے ‘ اور باطن میں خالص کفر ہے ۔‘‘

ان کے اسرار اور خفیہ رازوں سے پردہ چاک کرنے کے لیے علماء کرام نے کئی ایک کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ جن میں ان کے نسب کے جھوٹ اوراسلام کے جھوٹے دعوی سے پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اوریہ کہ ان لوگوں کا دین اسلام یا نسب کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں ۔

عبیداللہ بن میمون قداح کا ظہور سن ۲۹۹ہجری میں ہوا۔ اورسن ۳۲۳ہجری میں ہلاک ہوگیا۔ پھر اس کے بعد اس کا بیٹا القائم اس کا جانشین بنا۔ پھر اس کے بعد اس کا بیٹا المنصور جانشین ہوا۔ پھر اس کے بعد اس کا بیٹا المعز؛ جس نے قاہرہ شہر کی تعمیر کی ۔ پھر اس کے بعد العزیز؛ اس کے بعد الحاکم ‘ پھر اس کا بیٹا الظاہر ؛ پھر اس کا بیٹا المستنصرجانشین بنا ۔ اس کی ولایت کا عرصہ بہت طویل رہا۔ اسی کے دور میں ’’ بساسیری ‘‘کا فتنہ بپا ہوا۔ بغداد میں ایک سال تک اس کے نام کا خطبہ دیا جاتا رہا۔ اور ابن الصباح جس نے اسماعیلیہ کے لیے چھری کی بدعت ایجاد کی وہ اسی مستنصر کے پیروکاروں میں سے تھا۔

سن پانچ سو اڑسٹھ ہجری میں دیار مصر [قاہرہ] میں ان لوگوں کی حکومت کا خاتمہ ہو ا۔ یہ لوگ دو سو سال سے زیادہ عرصہ تک مصر پر غالب رہے۔ منافقت و ارتداد ا‘ الحاد اور اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی میں ان لوگوں کے واقعات و قصص سے علماء کرام اچھی طرح خبردار ہیں ۔

ابن ماجہ کی وہ حدیث جس میں ہے :

((لا مہدي إلا عیسیٰ ابن مریم)) [سنن ابن ماجۃ۲؍۱۳۳۰]

’’ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے علاوہ کوئی مہدی نہیں ۔‘‘

یہ حدیث ضعیف ہے۔ یہ حدیث یونس نے شافعی سے روایت کی ہے ‘ اور انہوں نے اسے یمن کے ایک مجہول شیخ سے روایت کیاہے۔اس سند کے ساتھ حجت قائم نہیں ہوتی۔یہ روایت امام شافعی کی مسند میں بھی موجود نہیں ۔بلکہ اس کا سارا دار و مدار یونس بن عبد الاعلی پرہے۔اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ : یونس نے یہ بھی کہا ہے : میرے سامنے امام شافعی سے حدیث بیان کی گئی۔’’خلیعات ‘‘ اور بعض دوسری کتابوں میں ہے : ہم سے یونس نے حدیث نے بیان کی وہ امام شافعی سے روایت کرتے ہیں ۔ یہ نہیں کہا کہ : ان سے شافعی نے حدیث بیان کی ۔ پھراس کے بعد کہا ہے : ’’ محمد بن خالد جندی کی روایت میں تدلیس پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی سند کمزور ہوجاتی ہے۔ اور بعض علماء کرام یہ بھی کہتے ہیں کہ : یہ حدیث اصل میں امام شافعی سے روایت ہی نہیں کی گئی ۔