فصل:....عصمت آئمہ اور رافضی کا غرور
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....عصمت آئمہ اور رافضی کا غرور
شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’یہ تھے معصوم ائمہ جو فضل و کمال کی آخری حد تک پہنچ گئے اور دوسرے اماموں کی طرح حکومت و سلطنت ، فواحش و منکرات، لغویات اور شراب نوشی میں منہمک نہ ہوئے۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ہی لوگوں سے وہ سلوک کیا جو لوگوں کے مابین تواتر کے ساتھ مشہور ہے۔ اسی بنا پر امامیہ کہتے ہیں کہ اللہکریم ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
اِذَا شِئْتَ اَنْ تَرْضیٰ لِنَفْسِکَ مَذْہَبًا
وَتَعْلَمَ اَنَّ النَّاسَ فِیْ نَقْلِ اَخْبَارٖ
فَدَعْ عَنْکَ قَوْلَ الشَّافِعِیِّ وَ مَالِکٍ
وَاَحْمَدَ وَالْمَرْوِیِّ عَنْ کَعْبِ اَحْبَارٖ
وََوَالِ اُنَاسًا قَوْلُہُمْ وَحَدِیْثُہُم
رَوٰی جَدُّنَا عَنْ جِبْرِیْلَ عَنِ الْبَارِیْ
۱۔جب تو اپنے لیے کوئی مذہب پسند کرنا چاہے اور یہ معلوم کرنا چاہے کہ روایات کے نقل کرنے میں لوگوں کی کیا حالت ہے۔
۲۔تو شافعی، مالک اور احمد کے اقوال اور کعب احبار کی روایات ترک کردو۔
۳۔اور ان لوگوں سے دوستانہ مراسم استوار کر جن کا قول اور حدیث یہ ہے کہ ہمارے نانا نے جبریل سے اور جبریل نے باری تعالیٰ سے روایت کی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
اہل سنت کے جوابات:
شیعہ مصنف کی ذکر کردہ دلیل کا جواب کئی طرح پر ہے:
پہلا جواب: ....اماموں کے معصوم ہونے کی شیعہ کے پاس اس دعوی کے سوا کوئی دلیل نہیں کہ ہر زمانہ میں امام معصوم کا وجود لوگوں کے لیے لطف و مصلحت کا باعث ہوتا ہے، لہٰذا ایسے امام کا وجود از بس ناگزیر ہے۔ ہم قبل ازیں اس دلیل کا بطلان و فساد کئی وجوہ سے واضح کر چکے ہیں کہ:
۱۔ یہ لطف و مصلحت موجود نہیں مفقود ہے، اس لیے کہ یہ امام ہنوز مفقود ہے اور شیعہ بے تابی سے اس کا انتظار کر رہے ہیں ۔
۲۔ [رافضی اصولوں کے مطابق ] کوئی ایسا امام موجود نہیں ہے جس سے لطف و مصلحت حاصل ہوئی ہو۔
۳۔ ایسے امام کی نفی کیلئے یہی دلیل کافی ہے کہ امام کا وجود صریح عقل کے منافی ہے اور کسی شخص نے امام منتظر سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ کسی مکلف کو کوئی مصلحت حاصل ہوئی، تاہم اسکے علاوہ دیگر دلائل و براہین بھی موجود ہیں ۔
دوسرا جواب: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ ہر امام فضل و کمال کی انتہا کو پہنچ گیا۔‘‘ یہ دعویٰ بلادلیل ہے ۔بلاعلم قول کا بمقابلہ اس جیسے ہی قول سے کیا جاسکتا ہے ۔اور ہر شخص ایسا دعویٰ کر سکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ یہ دعویٰ صحابہ و تابعین کے بارے میں کیا جائے جو علم و فضل اور تدین و تشرع میں دونوں گروہوں کے لوگوں میں اور ان کے امثال میں موجود تھے ؛اور ان کے اتباع سے افضل واشہر تھے۔ تو یہ دعویٰ اولیٰ بالقبول ہوگا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ وہ دینی اور علمی فضائل کو کئی ایک ائمہ دین سے تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہیں ؛وہ ان اخبار سے بہت زیادہ ہیں جو جھوٹ موٹ عسکریین اور ان کے امثال کے بارے میں نقل کی گئی ہیں ؛ سچائی کو تو دور چھوڑیے۔
تیسرا جواب: اگر شیعہ مصنف کاقول : ’’ہمارے یہ ائمہ۔‘‘اگر اس سے مقصود یہ ہے کہ یہ ائمہ قوت و شوکت اور سیف و سنان سے بہرہ ور تھے تو یہ صریح کذب ہے۔ خصوصاً جب کہ وہ خود بھی اس کے مدعی نہیں ۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا سب امام اپنے آپ کو عاجز و مغلوب قرار دیتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ خلافت و سلطنت سے بہرہ ور تھے، تاہم متعدد امور میں آپ کو سخت تکالیف کا سامنا ہوا۔[سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مشکلات کا دائرہ کافی وسیع ہے، مثلاً یہ کہ آپ کے رفقاء کما حقہ آپ کی اطاعت نہیں کرتے تھے، جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ آپ صدق دل سے قاتلین حضرت عثمان سے قصاص لینا چاہتے تھے، مگر آپ کے شیعہ اس میں روڑے اٹکاتے رہتے تھے، علاوہ ازیں ابن سباکی، دسیسہ کاریوں سے متاثر ہو کر آپ کے ارادت مندوں میں کفر و الحاد کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے ان میں سے ایک فریق کو نظر آتش کر دیا، اور دوسرے کو جلا وطن کیا، نیز آپ کے شیعہ میں سے کچھ لوگ آپ کے مخالف بن گئے تھے، اس کے علاوہ بھی بہت سی تکالیف تھیں جن کا شکوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرمایا کرتے تھے۔]اس پر مزید یہ کہ آدھی امت مسلمہ یا اس سے کم و بیش نے سرے سے آپ کی بیعت ہی نہیں کی۔ بلکہ آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے، بہت سے لوگوں نے نہ آپ کی مخالفت کی نہ معاونت بلکہ غیر جانب دار رہے؛ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑے اور نہ ہی آپ کے ساتھ مل کر لڑے۔ اور ان میں ایسے اصحاب علم و فضل بھی تھے کہ ان جیسے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہ تھے۔بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ جو لوگ لڑائی سے پیچھے رہے ؛ وہ ان لوگوں سے بہت افضل تھے جنہوں نے آپ سے جنگ کی ‘اور جنہوں نے آپ سے مل کر جنگ کی ۔ یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے حرب و پیکار میں حضرت علی کا ساتھ نہ دیا وہ آپ کے احباب و انصار کی نسبت افضل تھے۔
اگر شیعہ قلم کار کی مراد یہ ہے کہ شیعہ کے اکابر علم و دین کے بل بوتے پر امام قرار دئیے جانے کا استحقاق رکھتے تھے تو اگر اس دعوی کی صحت ثابت بھی ہو جائے تو اس سے ان کا واجب الاطاعت امام ہونا لازم نہیں آتا ۔ جس طرح کسی شخص کے مستحق امامت یا قاضی بننے کی صلاحیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ فی الواقع امام یا قاضی ہو۔ یا امارت حرب کی صلاحیت سے بہرہ ور ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ درحقیقت اس منصب پر فائز ہو۔ نماز اس شخص کی اقتداء میں جائز ہے جو بالفعل امام ہو نہ کہ مستحق امامت کے پیچھے۔ بعینہ اسی طرح لوگوں کے متنازع امور میں فیصلہ وہی شخص صادر کرے گا جو صاحب سلطنت و قدرت ہو نہ کہ وہ شخص جو قضا کا استحقاق رکھتا ہو ۔ لشکر اس شخص کے زیر فرمان لڑے گا جو ان کا امیر حرب ہو نہ کہ مستحق امارت کے زیر اثر ؛جو کہ امیر کارواں ہی نہ ہو۔
خلاصہ کلام! ہر فعل قدرت کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ لہٰذا قدرت و سلطنت سے محروم شخص ولایت و امارت پر فائز نہیں ہو سکتا۔ استحقاق ایک جدا گانہ شے ہے؛ اگرچہ وہ اس کا استحقاق رکھتا ہو کہ اسے قدرت و سلطنت سے بہرہ ور کیا جائے ؛مگر اس منصب پر بہرہ ور ہونے والے کے ہم پلہ ہرگز نہیں ۔ پس کسی کا قدرت و سلطنت کا مستحق ہونے سے اس کا ان امور سے فی الواقع بہرہ ور ہونا لازم نہیں آجاتا۔ خلیفہ و امام دراصل وہ ہوتا ہے، جو شوکت و قدرت کی صفات سے موصوف ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ائمہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا ایک امام بھی ایسا نہیں جو ان صفات سے بہرہ ور ہو۔
چوتھا جواب:....ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ استحقاق سے تمہاری مراد کیا ہے؟ کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ باقی تمام قریش کو چھوڑ کر ائمہ شیعہ میں سے کسی ایک کا خلیفہ ہونا ضروری تھا؟ یا یہ مطلب کہ آئمہ میں سے ہر ایک ان لوگوں میں سے ہے جو خلافت کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟ پہلی بات اس لیے غلط ہے کہ احادیث نبویہ سے صراحۃً امامت قریش کا ثبوت ملتا ہے ۔ اور اگر دوسری بات تسلیم کی جائے تو اس وصف میں قریش کے دوسرے لوگ مساوی طور پر شریک ہیں ۔
پانچواں جواب:....ان سے کہا جائے گا کہ : امام وہ ہے جس کی اقتدا کی جائے؛ اس کے دو طریقے ہیں :
۱ول:....علم و دین میں اس کی طرف رجوع کیا جائے اور اطاعت کنندہ اس بنا پر اس کی اطاعت اختیار کرے کہ وہ اللہتعالیٰ کے اوامر و احکام اس کے بندوں تک پہنچاتا ہے تاہم اس میں ایسی کوئی قوت نہیں ہوتی کہ کسی کو اپنی اطاعت پر مجبور کر سکے۔
دوم:....دوسری صورت یہ ہے کہ وہ صاحب قوت و شوکت اور مالک سیف و سنان ہو۔ اور لوگوں کو طوعاً و کرہاً اس کی اطاعت کرنی پڑے، آیت کریمہ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ﴾ میں ’’ اولی الامر ‘‘ سے اصحاب قدرت مثلاً امراء حرب اور علماء دونوں مراد لیے گئے ہیں ۔ اور یہ دونوں معانی حق ہیں ۔ یہ اوصاف یوں تو چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں مکمل طور پر پائے جاتے ہیں ۔ وہ علم و عدل اورسیاست و سیف و سنان دونوں کے دھنی تھے۔ تاہم ان میں بھی تفاوت درجات موجود ہے، مثلاً حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی نسبت اکمل و افضل تھے۔ ان کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی خلیفہ ان اوصاف کا جامع نہ تھا۔ بعض اشخاص خلفاء و سلاطین کی نسبت علم و فضل و دین داری میں آگے تھے، بعض حکومت و سلطنت میں کامل تھے، مگر علم و فضل اور تدین میں ان کو وہ مقام حاصل نہ تھا۔
اگر شیعہ کے آئمہ کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بااقتدار بھی تھے، تو یہ باطل ہے۔ اور وہ خود بھی اس کے مدعی نہیں تھے۔ اور اگر اقتدار سے محرومی کے باوصف علم و دین میں ان کی امامت کو تسلیم کیا جائے؛اور یہ لوگ کسی دوسرے سے اپنی بات منوانے کی قدرت نہ رکھتے تھے ؛ تو دوسرے علماء بھی اس وصف میں ان کے شریک تھے۔[یہ پھر ان کی کوئی خصوصیت نہ ہوئی] بلکہ ان کے معاصرین میں سے بہت سے علماء ، علم و تقویٰ میں ان سے بہت آگے تھے۔ اس کاواضح ثبوت یہ ہے کہ ان کے معاصرین سے جو علمی آثار نقل ہو کر ہم تک پہنچے ہیں وہ ائمہ شیعہ کی علمی خدمات سے بہت زیادہ ہیں ۔ شیعہ کے متقدمین ائمہ مثلاً علی بن حسین رحمہ اللہ ان کے بیٹے ابو جعفر رحمہ اللہ اور ان کے بیٹے جعفر بن محمد رحمہ اللہ سے کچھ علمی آثار نقل ہو کر ہم تک پہنچے ہیں ، مگر اس میں شبہ نہیں کہ ان کے معاصرین کی علمی خدمات ان پر بدر جہا فائق ہیں ۔
متاخرین آئمہ شیعہ کی علمی خدمات کا دائرہ بے حد محدود ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ اس دور کے مشاہیر اصحاب علم و حدیث و فتویٰ کے زمرہ میں شمار ہی نہیں کیے جاتے، ان کی شان میں جو مناقب و محاسن ذکر کیے جاتے ہیں اس سے زیادہ فضائل ان کے ہم عصر علماء کے بیان کیے جاتے ہیں ۔
اگر یہ کہا جائے کہ :یہ آئمہ علم اور دین کے اعتبار سے تمام امت سے افضل ہیں ۔ ‘‘[عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو حضرت امیر معاویہ سے افضل و اعلم قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ تابعین کرام جیسے حسن بصری اور امام شریک وغیرہ سے منقول ہے اگر لوگ حضرت امیر معاویہ کو دیکھ لیتے تو انہیں مہدی گمان کرنے لگتے۔ابن تیمیہ کے بقول آپ دنیاکے بہترین بادشاہوں میں سے تھے ۔ [الدراوی ]] [تاریخی حقائق کے پیش نظر ان کو علم دین میں افضل الامت قرار دینا خلاف واقع ہے]۔
دونوں صورتوں میں ائمہ شیعہ کی امامت اہل سنت کے نزدیک مسلم ہے، اس کی وجہ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص بھی اللہ و رسول کی اطاعت کی دعوت دیتا اور اعمال صالحہ کی تلقین کرتا؛ اور خود وہ کام کرتا ہو جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ہو تو اس کی بات مان لینی چاہیے۔ بنا بریں اہل سنت اعمال صالحہ کی جانب دعوت و تبلیغ میں ائمہ کی اطاعت کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔[بلاشبہ ان امور میں یہ ائمہ مقتدی ہیں ]۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ جَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (سجدۃ:۲۳)
’’اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا:
﴿ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا﴾ (البقرۃ:۱۲۳)
’’میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ شمشیر بکف لوگوں سے لڑیں گے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ آپ واجب الاطاعت ہوں گے، یہ دوسری بات ہے کہ لوگ آپ کی اطاعت کریں یا اس سے منحرف ہو جائیں ۔پس یہ لوگ اور ان کے امثال حقیقت میں قابل تقلید نمونہ ہیں ۔
شیعہ کے امام، اہل سنت آئمہ کی طرح عزو شرف کے حامل ہیں اور اہل سنت ان باتوں میں ان کی اطاعت کرتے ہیں جن امور میں شرعاً ان کی فرمانبرداری روا ہے۔ شیعہ کے ائمہ کا اجلال و اکرام اہل سنت کے یہاں اسی طرح ضروری ہے جس طرح ان کے مسلم ائمہ کی عزت و افزائی مثلاً ابوبکر و عمر ،ابن مسعود، ابی بن کعب، معاذ، ابو الدرداء اور سابقین اولین میں سے ان کے ہمنوا و ہم پلہ لوگ رضی اللہ عنہم ۔ اور تابعین و تبع تابعین میں سے سعید ابن المسیب؛ سلیمان بن یسار، عبیداللہ بن عبداللہ، عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد، ابوبکر بن عبدالرحمن، خارجہ بن زید؛ یہ لوگ مدینہ کے سات فقہاء ہیں ۔
جیسے علقمہ، اسود بن زید،اسامہ بن زید، محمد بن سیرین، حسن بصری، سالم بن عبداللہ، ہشام بن عروہ، عبدالرحمن بن قاسم، زہری، یحییٰ بن سعید انصاری، ابوالزناد۔علاوہ ازیں امام مالک، اوزاعی، لیث بن سعد، ابو حنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل ، اسحاق بن ابراہیم وغیرہم رحمہم اللہ ۔
مذکورہ بالا اصحاب کی علمی حیثیت ہر گز مساوی نہیں ، بلکہ ان میں بعض اکابر کا علمی پایہ حدیث اور فتوی میں دوسروں کی نسبت بلند تر ہے۔ اور ان کی شہرت کثرت علم، قوت دلیل یا دوسرے اوصاف کی رہین منت ہے۔ بنابریں اہل سنت یہ نہیں کہتے کہ یحییٰ بن سعید، ہشام بن عروہ اور ابو الزناد رحمہم اللہ ، جعفر بن محمد رحمہ اللہ کی نسبت اولیٰ بالاتباع ہیں ۔
علی ہذا القیاس وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ امام زہری، یحییٰ بن ابی کثیر، حماد بن ابی سلمہ، سلیمان بن یسار اور منصور بن معتمر کی اطاعت جعفر بن محمد کے والد ابو جعفر الباقر کی نسبت واجب تر ہے، نہ یہ کہ قاسم بن محمد ،عروہ بن زبیر اور سالم بن عبداللہ رحمہم اللہ کی فرمانبرداری علی بن حسین کی اطاعت سے زیادہ ضروری ہے۔
اس کے عین برخلاف اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر امام کی مرویات و منقولات وثوق و اعتماد کے قابل ہیں ۔اور جو کچھ ان سے نقل کیا گیا ہے؛ اس میں وہسچے ہیں ۔اور کتاب و سنت کی روشنی میں ان کا جو حکم واضح ہو؛توپس وہی اصل علم ہے جو ان لوگوں سے مستفاد ہورہا ہے۔[بشرطیکہ امام سے روایت کرنے والے صادق الروایت و ثقہ ہوں بعض شیعہ نے امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شان میں اس دعوی کے ساتھ سوء ادبی کی جسارت کی ہے کہ آپ نے اہل بیت کی روایات نقل کرنے میں بخل سے کام لیا ہے، یہ ایک عظیم جسارت و سفاہت ہے، واقعہ یہ ہے کہ امام موصوف نے اس ضمن میں تساہل سے کام نہیں لیا، بخلاف ازیں ان کے یہاں روایت حدیث کے شرائط ان راویوں میں سرے سے مفقود ہیں جو اہل بیت سے روایات نقل کرتے ہیں بلکہ ایسی روایات جھوٹ کا طومار ہیں اور انہوں نے اپنی کتاب کو روایات کا ذبہ سے پاک رکھنے کے التزام کو قائم رکھا ہے، صدر کتاب میں ہم امام مالک، شافعی، یزید بن ہارون، اور اعمش کے اقوال درج کر چکے ہیں کہ شیعہ وضاع و کذاب ہوتے ہیں ، بے شک صدق شعار مبتدع کی روایت اس شرط کے ساتھ مقبول ہے کہ وہ اپنی بدعت کا داعی نہ ہو، مگر شیعہ اس سے مستثنیٰ ہیں ، شیعہ کی روایت اہل بیت وغیر اہل بیت کسی سے بھی مقبول نہیں اس لیے کہ وہ احادیث کو وضع کر کے ان کو دین و مذہب کا درجہ دیتے ہیں ، مسلمانوں کے لئے شیعہ کی جھوٹی روایات اور ان کا تاریخی اختلاف ہی کافی ہے، کیا امام بخاری سے انہیں اس بات کی توقع تھی، کہ وہ ان کی دروغ گوئی کے دھوکہ میں آجائیں گے۔] [اور کتاب وسنت کی مطابقت وتوضیح میں ان کاہر ارشاد واجب الاتباع ہے]۔ جب کوئی امام ایسا فتویٰ دے جو دوسرے علماء و آئمہ کے خلاف ہو تو امر متنازع کو بفحوائے قرآن کریم اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا، یہ حکم سب آئمہ کے لیے عام ہے، کوئی امام استثنائی حیثیت کا حامل نہیں ، عہد رسالت اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے زریں دور میں بھی مسلمان اسی پر عمل پیرا تھے۔ چھٹا جواب:....ان سے کہا جائے گا : یہ قول کہ:’’ اور دوسرے اماموں کی طرح حکومت و سلطنت ، فواحش و منکرات، لغویات اور شراب نوشی میں منہمک نہ ہوئے۔‘‘شیعہ مصنف کی یہ بات غلط ہے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک سلاطین و ملوک کی ہر جائز و ناجائز بات قابل اطاعت ہے تو یہ ان پر صریح بہتان ہے۔،اہل سنت کے معروف بالعلم علماء کا قول ہے، کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہ کی جائے، اور نہ ایسے شخص کو امام مقرر کیا جائے۔
اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ طاعات و عبادات کے انجام دینے میں اہل سنت سلاطین سے طلب امداد کرتے ہیں ۔اور جو کچھ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کام کرتے ہیں ‘اس میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انہیں اس اعتبار سے امام بنانا ناروا ہے، تو خود روافص بھی اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ کفار و فجار سے طالب امداد ہوتے اور بہت سی باتوں میں خود بھی ان کی امداد کرتے ہیں ۔[شیعہ مصنف ابن المطہر کا استاد نصیر الدین طوسی اس امر کی بہترین مثال ہے کہ شیعہ علماء کس حد تک کفار و فجار سے طلب امداد کرتے اور ان کی خدمت و خوشامد کو اپنے لیے سرمایہ افتخار خیال کیا کرتے تھے، ہم قبل ازیں شیعہ کی معتبر کتاب ’’ روضات الجنات،ص: ۵۷۸ ‘‘ طبع ثانی سے نقل کر چکے ہیں کہ طوسی نے جس عظیم خیانت کا ارتکاب کیا تھا شیعہ اسے اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں ، ہلاکو خاں تاتاری سے لے کر سلطان اﷲ بندہ ....جس کے لیے ابن المطہر رافضی نے یہ رسوائے عالم کتاب لکھی....تک جتنے بت پرست بادشاہ ہوئے ہیں شیعہ علماء ان کی خدمت و استعانت کو اپنے لیے سرمایہ افتخار تصور فرمایا کرتے تھے، سلطان اﷲ بندہ شیعہ مذہب اختیار کرنے سے قبل بت پرست تھا، موجب حیرت ہے کہ ابن المطہر رافضی کے نزدیک اس مشرک بادشاہ کا پایہ حضرت ابوبکر و عمر....جن سے بلند تر حاکم انبیاء کے بعد اس کرۂ ارضی پر پیدا ہی نہیں ہوا....سے بڑھ کر تھا۔]یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہر زمان و مکان میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اس کتاب ’’ منہاج الندامہ ‘‘ کا شیعہ مصنف اور اس کے ہم نوا بھی اس الزام سے بچ نہیں سکتے اس لئے کہ منگول؛ تاتاری کافر اور دیگر فساق و جہال ان کے اماموں کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔
ساتواں جواب:....شیعہ مصنف نے اپنی کتاب میں جن ائمہ کا ذکر کر کے ان کے معصوم ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اس قوت و شوکت سے بہرہ ور نہ تھے جس کے ساتھ امامت و خلافت کے مقاصد حاصل ہوتے ہیں ۔ اور نہ ہی ان کی اقتداء عبادت اللہ تعالیٰ اوراس کے ضروری معاونات کے حصول میں کافی تھی۔اور نہ ہی ان سے انہیں کوئی قوت حاصل تھی جس سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں پر معاونت حاصل ہوسکتی ہو۔ ملک و سلطنت سے محروم ہونے کی بنا پر نہ ہم ان کے پیچھے نمازیا جمعہ ادا کر سکتے ہیں ۔ نہ حج و جہاد میں ان کو امیر مقرر کر سکتے ہیں نہ وہ شرعی حدود قائم کرنے پر قادر ہیں ۔ اور نہ فصل خصومات کی قدرت سے بہرہ ور ہیں ۔ ان کی مدد سے کوئی شخص لوگوں سے یا بیت المال سے اپنے حقوق وصول نہیں کر سکتا ۔نہ ان کی بدولت راستے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ یہ جملہ امور ایک صاحب اقتدار خلیفہ کے محتاج ہیں اور صاحب اقتدار وہی ہوگا جو احباب و اعوان رکھتا ہو۔ شیعہ کے یہ ائمہ ان سب اوصاف سے محروم تھے۔ بخلاف ازیں ان کے مخالفین اس قدرت سے بہرہ ور تھے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ایک عاجز امام سے یہ جملہ امور طلب کرے گا وہ حد درجہ جاہل و ظالم شخص ہے اور جو صاحب قدرت سے کرے گا وہ راہ حق و صواب پر گامزن ہوگا اور دین و دنیا کی مصلحتوں کو حاصل کر لے گا، اس کے عین برخلاف پہلا شخص دونوں قسم کے مصالح سے محروم رہے گا۔
آٹھواں جواب:....یہ ہے کہ جملہ خلفاء سے متعلق یہ دعویٰ جھوٹ ہے کہ وہ خمورو فجور میں محو رہا کرتے تھے۔ اس ضمن میں جو حکایات بیان کی جاتی ہیں وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہیں [یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے، وہ بھی اس بہتان طرازی میں شامل ہے حالانکہ محمد بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ ....جن کو ابن الحنفیہ کہا جاتا ہے....کے نزدیک یزید کا دامن ان معائب و نقائص سے پاک تھا۔ (البدایہ والنہایہ ، ابن کثیر : ۸؍ ۲۳۳)۔یزید نے اپنے ننہیال کے قبیلہ قضاعہ میں پرورش پائی تھی اور اس کی والدہ میسون بنت بجدل نے یزید کو مردانہ کمالات و اوصاف سے آراستہ و پیراستہ کرنے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ بٹایا تھا، شیعہ مذہب کی کتب یزید کی قباحت و مذمت سے پر ہیں یہ سب کذب و بہتان اور ظلم کے مترادف ہے اور شیعہ اس کے لیے اﷲ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔ ]یہ امر محتاج بیان نہیں کہ ان میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور خلیفہ مہتدی[خلیفہ مہتدی باﷲ عباسی (۲۲۲۔ ۲۵۶) کی تاریخ فضائل و فواضل سے لبریز ہے، میں نے دور حاضر کے جس مورخ و ادیب سے بھی خلیفہ مذکور کے محاسن و مناقب کا ذکر کیا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا، حالانکہ تاریخ اسلام کا حق یہ تھا کہ ایسے پاک باز خلیفہ کی سیرت و سوانح سے متعلق لوگوں کے ہاتھوں میں دسیوں تصانیف ہوتیں ۔ ] باللہ جیسے عادل و زاہد بھی تھے۔ مزید برآں بنوامیہ و بنو عباس کے اکثر خلفاء کا دامن فواحش و منکرات سے پاک تھا۔
خلفاء میں سے کوئی ایک [بنوامیہ و بنو عباس کی تاریخ قلم بند کرنے اور ان کی روایات و اخبار کی تشہیر کرنے والے مصنفین شیعہ یا شعوبیہ تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے امت مسلمہ کی تاریخ کو بگاڑ کر اس کے محاسن کو معائب میں بدل دیا، ذہین طبقہ اگر اسلامی تاریخ کے درس و مطالعہ کی طرف متوجہ ہو کر اس کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو تو تھوڑی سی مدت میں ان کثیر تحریفات کی اصلاح ہوسکتی ہے۔]اگر کسی گناہ میں ملوث ہو بھی جاتا تو فوراً اس سے تائب ہوجاتا۔، بعض اوقات اس کی نیکیاں بہت زیادہ ہوتیں جن سے اس کی برائیاں مٹ جاتیں یا مصائب و آلام میں مبتلا ہو کر اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے۔[میں مسلم فضلاء و مصنفین کی توجہات سامیہ کو اس حقیقت کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ شیعہ بشر کو بشر نہیں سمجھتے، ان کی رائے میں یا تو انسان فرشتوں کی طرح معصوم ہوتا ہے، بلکہ ان سے بھی بالا تر یا ابلیس کی طرح ملعون بلکہ اس سے بھی گیا گزرا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بعض انسانوں کو جونبی بھی نہ تھے معصوم قرار دیا اور مسلمانوں کے خلفاء و حکام اور داعیان حق کے خلاف ازراہ بغض و عداوت کذب و دروغ کا طومار جمع کر دیا، ان اصحاب خیر و برکت کا سلسلہ حضرت ابوبکر و عمر سے شروع ہو کر راقم السطور محب الدین الخطیب تک پہنچ جاتا ہے، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو وہ شیعہ نہ ہوتے اور اس لقب کو ہمیشہ کے لیے کھو دیتے، اس لئے کہ تشیع نام ہے تخریب و تعصب کا اور بس! ونعوذ باللّٰہ من التعصب ’’آمین یا رب العالمین۔‘‘]
خلاصہ کلام! سلاطین و ملوک اعمال صالحہ انجام دیتے تھے تو ان کی نیکیاں بھی بڑی ہوتی تھیں اور برائیوں کے بھی مرتکب ہوتے تھے تو ان کی برائیاں بھی بڑی ہوتی تھیں ۔ اگر ان میں سے کوئی لاتعداد برائیوں کا ارتکاب کرتا جس کی حدیہ ہے کہ امت کا کوئی فرد اس ضمن میں اس کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا تو بلا شبہ اس کی نیکیاں بھی اتنی زیادہ ہوا کر تی تھیں کہ کوئی شخص ان کا حریف نہ ہو سکتا۔ ان کے اعمال صالحہ کا دائرہ خاصا وسیع تھا، مثلاً امر بالمعروف، نہی عن المنکر، اقامتِ حدود، جہاد فی سبیل اللہ، اداء حقوق، دفع ظلم اور اقامت عدل وغیرہ۔
ہم خلفاء کو گناہوں اور مظالم سے مبرا قرار نہیں دیتے۔جیسا کہ ہم اکثرعام مسلمانوں کو بھی ایسی چیزوں سے بری قرار نہیں دیتے۔ البتہ یہ کہتے ہیں کہ خلفاء یا عوام سے ظلم و معاصی کے صدور کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کا دامن نیکیوں سے بالکل خالی ہوتا ہے،اور اس بات میں بھی کوئی مانع نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
اہل سنت یہ بھی نہیں کہتے کہ جملہ امور میں خلفاء کی موافقت ضروری ہے، بلکہ اطاعت صرف نیک اعمال میں ضروری ہے، معصیت میں نہیں ۔ جو شخص طاعات و عبادات میں کسی دوسرے کے ساتھ شریک ہو اور اعمال قبیحہ میں اس سے کنارہ کش رہے تو اسے کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی شخص لوگوں کے ساتھ فریضہ حج ادا کرنے کے لیے جائے اور ان کے ساتھ وقوف و طواف انجام دے تو کسی حاجی کے گنہگار ہونے سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بعینہ اسی طرح اگر کوئی شخص جمعہ و جماعت یا کسی علمی مجلس یا غزوہ میں شریک ہو اور اس کے رفقاء میں سے کوئی شخص متعدد گناہ کر چکا ہو تو اسے اس کے گناہوں کی وجہ سے کوئی ضرر لاحق نہیں ہوگا۔ حاصل کلام یہ کہ خلفاء اس ضمن میں دوسروں لوگوں کے ساتھ مساوی ہیں کہ وہ جوکچھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کام کرتے ہیں توطاعات میں ان کی موافقت کی جائے، اوراگر اللہ کی نافرمانی کے کام کرتے ہیں تو معصیت میں ان کے ساتھ اشتراک کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
ائمۂ اہل بیت کا برتاؤ بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ اسی قسم کا تھا۔ جو نیک کاموں میں ان کی اطاعت کرے گا وہ ان کا پیرو کہلائے گا اور جو سابقین اولین و جمہور اہل علم سے اظہار براء ت کر کے ان کی دشمنی میں کفار و منافقین کا ساتھ دے گا۔جیسا کہ شیعہ کا طرز عمل ہے....تو وہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔
نوواں جواب:....خلیفہ و امام ایسا ہونا چاہیے جو قدرت و شوکت سے بہرہ ور ہو اور جس سے لوگوں کی بہبود و مصلحت کی شیرازہ بندی ہوجائے، مزید برآں خلیفہ میں درج ذیل اوصاف کا پایا جانا بے حد ناگزیر ہے۔
۱۔خلیفہ کی وجہ سے راستوں میں امن و امان کا دور دورہ ہو۔ ۲۔شرعی حدود قائم کرنے پر قادر ہو۔
۳۔ ظلم کا ازالہ کر سکے۔ ۳۔دشمن کے خلاف جہاد کر سکتا ہو۔
۵۔دوسروں کے حقوق انہیں دلوانے پر قادر ہو۔
ایسے امام کا ہونا اس امام معدوم سے بہت بہتر ہے جس کا اصل میں کوئی وجود ہی نہ ہو۔
مقام حیرت و استعجاب ہے کہ شیعہ جس امام معصوم کے دعوے دار ہیں وہ سرے سے اس دنیا میں موجود ہی نہیں ، گویا شیعہ باطن میں جس امام کے دعوے دار ہیں وہ معدوم ہے۔ اور بظاہر جن کو امام مانتے ہیں وہ کافر و ظالم ہیں (مثلاً تاتاری کافر) اس کے عین بر خلاف اہل سنت کے امام اگر ان کے متعلق کتنے ہی ظلم و گناہ کے مرتکب ہونے کوتسلیم کرلیا جائے توبھی اس کے باوصف شیعہ کے ان ائمہ اطہار سے بدر جہا بہتر ہیں جن پر وہ اعتماد کرتے ہیں ۔اور اس امام سے بھی بڑھ کر ہیں جو بے حقیقت اور معدوم ہے۔ جہاں تک باقی آئمہ کا تعلق ہے جوکہ موجود تھے ۔تواہل سنت بھی ان کی اتباع ایسے ہی کرتے ہیں جیسے ان جیسے دوسرے لوگ اپنے آئمہ کی اطاعت کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ فریقین کے ائمہ کی اطاعت کرنے والا اس شخص سے بہتر ہے جو صرف ایک ہی فریق کے اماموں کا اطاعت گزار ہو۔ اس لیے کہ روایت و درایت کا نام علم ہے اور اس میں جس قدر بھی علماء ہوں گے اور ان میں باہم اتفاق و اتحاد پایا جائے گا تو وہ اولیٰ بالاتباع ہوگا۔ شیعہ کے یہاں جو خیر بھی موجود ہے اہل سنت اس میں برابر کے شریک ہیں ، مگر جو خیر اہل سنت کے یہاں پائی جاتی ہو شیعہ اسے حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
دسواں جواب:....یہ ہے کہ رافضی نے جو دلیل پیش کی ہے اہل سنت اس پراس سے سخت اور شدیدترین دلیل سے معارضہ کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ سعید بن مسیب، علقمہ، اسود، حسن بصری، عطا بن ابی رباح، محمد بن سیرین، مطرف، مکحول، قاسم بن محمد، عروہ بن زبیر، سالم بن عبداللہ اور دیگر تابعین و تبع تابعین(رحمہم اللہ)سب آئمہ دین میں شمار ہوتے ہیں ۔دینی امورمیں جس طرح ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی بادشاہوں کی اطاعت بھی ان امور دین میں کی جاتی ہے جہاں پر ان کی ضرورت ہو۔ ان کے ساتھ ساتھ علی بن حسین اور ان کا فرزند نیز جعفر بن محمد وغیرہم بھی یکساں طور پر اہل سنت کے اماموں میں شامل ہیں ۔ قصہ مختصر ! شیعہ علم و زہد سے بہرہ ور جس امام کی بھی اطاعت کرتے ہیں اہل سنت اس میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔ اور اس کے پہلو بہ پہلو اپنے ائمہ کے بھی تابع فرمان ہیں جو علم و زہد میں شیعہ کے اماموں سے بڑھ کر تھے۔ بفرض محال اگر اہل سنت نے معاصی کا ارتکاب کرنے والے کسی شخص کو امام بنانے کی غلطی کا ارتکاب کیا تو شیعہ نے اس سے بھی بدتر شخص کو امام مقرر کر لیا۔ پس جن امور میں ائمہ کی اطاعت کرنی ہے ‘ اہل سنت والجماعت ان امور میں ائمہ عدل کے پیروکار ہیں ۔ اور ظلم و جور کے امور میں ائمہ ظلم کی اتباع سے بہت دور بہت دور ہیں ۔اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ اہل سنت نے ظالم خلفاء کی اطاعت صرف ان باتوں میں کی تھی، جو ظلم و معصیت نہ تھیں ، بنا بریں اہل سنت بہر کیف روافض سے افضل ہوئے۔
گیارہواں جواب:....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ اللہ تعالیٰ ہمارے اور اہل سنت کے درمیان فیصلہ فرمائے گا؛ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔‘‘
اس کے جواب میں اس امامی شیعہ سے کہا جائے گا کہ: دلائل و براہین کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ دنیا ہی میں کر دیاہے، مزید برآں اہل سنت قوت و شوکت کے اعتبار سے بھی ہمیشہ شیعہ پر غالب رہتے ہیں گویا اہل سنت کا یہ غلبہ دو گونہ ہے:
۱۔ حجت و برہان کے اعتبار سے۔
۲۔ سیف و سنان کے بل بوتے پر، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین باقی ادیان کے مقابلہ میں غالب ہوا تھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ﴾ (التوبۃ: ۳۳)
’’وہ اللہ کی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت دے کر مبعوث کیا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو یہ بات بری ہی کیوں نہ لگے۔‘‘
یہ ناقابل انکار صداقت ہے کہ اہل سنت کے عقائد و افکار ہی دین ہیں جن کی تم مخالفت کرتے ہو۔ان عقائد کا حامل شخص دلیل و برہان کی بنا پر شیعہ پر غالب آئے گا جس طرح دین اسلام باقی ادیان و مذاہب کے مقابلہ میں غالب رہا، یہ امر محتاج بیان نہیں کہ دیگر ادیان و مذاہب پر دین اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوا وہ اہل سنت کی وجہ سے ہوا۔ دین اسلام کو جو غلبہ کامل خلفائے ثلاثہ کے عہد سعادت مہد میں حاصل ہوا، وہ دوسرے کسی دین کو نصیب نہ ہو سکا[یہ حقیقت ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے بعد اموی خلافت کے زمانہ میں شرق و غرب اور یورپ میں اسلامی دعوت کو جو فروغ حاصل ہوا وہ اموی خلفا کی مساعی جمیلہ کا رہین منت ہے۔ ] حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ خلفائے راشدین میں شامل ہیں اور سابقین اولین کے سرداروں میں شمار ہوتے ہیں مگر آپ کے عہد خلافت میں اسلام کو یہ غلبہ حاصل نہ ہو سکا۔[سیدنا علی کی خلافت میں اسلامی دعوت کے ناکام ہونے کے ذمہ دار وہ شیعہ تھے، جو آخرکار کئی حصوں میں بٹ گئے، ان میں سے بعض آپ کے موافق اور بعض مخالف ہوگئے، آپ کے معاصر شیعہ پر مقابلۃً متاخرین شیعہ کی نسبت کم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، متاخرین شیعہ نے اسلام کو ایک نئے سانچہ میں ڈھالنے کی مذموم سعی کی تھی اور اس کی ظاہری صورت کو اس طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا کہ وہ اسلام کے سوا کچھ اور معلوم دیتا تھا۔ ]بخلاف ازیں آپ کے دور میں فتنہ پر دازی کی وجہ سے اہل اسلام کا شیرازہ بکھر گیا۔ اور اعداء دین مثلاً کفار، نصاریٰ و مجوس مختلف دیار و امصار میں بلاد مشرق اور شام کے کفار اسلامی ممالک کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد اہل سنت کے سوا نہ کوئی اہل علم باقی رہا اور نہ ہی زور بازو والا غازی و مجاہد جن کی بدولت اسلام کو غلبہ نصیب ہوتا۔ روافض کا یہ حال تھا کہ یا تو اعداء[چنانچہ جب ہلاکو خاں نے یاجوج ماجوج (تاتاری فوج) کی مدد سے بغداد پر حملہ کیا تو شیعہ نے نصیر الدین طوسی اور ابن العلقمی کی قیادت میں کفار کا ساتھ دیا۔] اسلام کا ساتھ دیتے یا غیر جانب دار رہتے۔[اس کی دلیل یہ ہے کہ تاتاریوں نے جب بلاد اسلامیہ پر حملہ کیا تو شیعہ اس میں غیر جانب دار رہے، پھر صلیبی جنگوں کے زمانہ میں بھی روافض نے یہی کردار ادا کیا اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان واقعات کے عینی شاہد تھے۔] اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بروز قیامت سابقین اولین مہاجرین و انصار اور ان کے اعداء کے درمیان اسی طرح فیصلہ فرمائے گا جس طرح اہل اسلام اور کفار کے مابین فیصلہ صادر کرے گا۔
بارھواں جواب:....ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ آخر کس کے ظلم سے تم آہ و فریاد کر رہے ہو....؟
اگر شیعہ کہیں کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر مظالم ڈھائے تھے اور ہم ان کے ظلم سے فریاد کے خواہاں ہیں ۔ تو ہم جواباً کہیں گے کہ اس دعویٰ کا حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہنچا تھا، اور آپ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی طرح وفات پا چکے ہیں ؛ظاہر ہے کہ یہ معاملہ اہل سنت و شیعہ سے متعلق نہیں سوائے اس کے کہ حق کی وضاحت کر کے اہل حق کی موالات کی جائے۔ہم دلائل قاہرہ کی روشنی میں یہ صداقت واضح کر سکتے ہیں کہ اس امت میں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر نہ کوئی عدل و انصاف کے تقاضوں پر عمل کر سکا اور نہ ظلم سے کنارہ کش رہا، ہم آگے چل کر یہ حقیقت واضح کریں گے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ صرف آپ ہی امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہیں [بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تاہنوز اور تا قیام قیامت ایسا شخص پیدا ہی نہیں ہوگا، مزید یہ کہ سب سے بڑا ظالم تو وہ ہے جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ظلم و تعدی کا شاکی ہے، بلکہ بالفاظ صحیح تر وہ حد درجہ کوتاہ فہم اور انسانیت کے اوصاف کمال سے بیگانہ ہے، ابوبکر و عمر کے خلاف بغض و عداوت رکھنے والا ان کی ذات میں اس دین کے سوا اور کوئی نقص و عیب نہیں پائے گا، جس نے انہیں انسانی کمالات کی آخری منزل تک پہنچا دیا، ایسا شخص دراصل اس دین کا دشمن ہے جس کی پیروی کا فخر ابوبکر و عمر کو حاصل تھا، اور جس کی امانتوں کے وہ اس کرۂ ارضی پر سب سے بڑے امین تھے، تاہم ہم ان کو معصوم قرار نہیں دیتے، معصوم ہونا خاصہ انبیاء ہے، البتہ یہ کہنے میں ہمیں کوئی باک نہیں کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اﷲ کی مخلوقات میں افضل و اکمل تھے، حضرت علی نے جو کلمات کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمائے تھے تاریخی اسلام انہیں فراموش نہیں کر سکتی، آپ نے فرمایا تھا، ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر اور پھر عمر فاروق ہیں ۔‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ جو شخص مجھے ابوبکر و عمر کے مقابلہ میں افضل قرار دے گا میں اس پر مفتری کی حد لگاؤں گا۔‘‘] اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو یہ مرتبہ حاصل نہ تھا۔
اگر شیعہ کہیں کہ ہم ان ملوک و سلاطین کے ظلم سے داد رسی چاہتے ہیں جنہوں نے آئمہ شیعہ کو امامت و خلافت کے حقوق سے محروم رکھا تو ہم ان سے دریافت کریں گے کہ کیا ائمہ شیعہ نے خلافت کا مطالبہ کیا تھا؟ یا وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معصوم امام ہیں ؟ یہ ان پر صریح بہتان ہے، بہر کیف ! سچ ہو یا جھوٹ؛ اگر ان کا آپس میں واقعی کوئی ایسا جھگڑا تھا تو اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کا فیصلہ فرمائیں گے۔قرآن کریم میں فرمایا:
﴿قُلِ اللّٰہُمَّ فاطر السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ﴾ (الزمر:۳۶)
’’آپ فرمادیجئے! کہ اے اللہ !آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، چھپے کھلے کو جاننے والے تو ہی اپنے بندوں میں ان امور کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ الجھ رہے تھے۔‘‘
اگر وہ ان ملوک و سلاطین کے ظلم سے دادرسی چاہتے ہیں جن کے ساتھ وہ کسی ولایت یا مال کے بارے میں برسر جدل و نزاع تھے تو اس میں شبہ نہیں کہ اللہتعالیٰ بروز قیامت سب متنازع فریقین کے مابین فیصلہ فرمائے گا،خود شیعہ کے مابین اتنے مخاصمات اور تنازعات پائے جاتے ہیں ؛ جو کہ اہل سنت اور کسی بھی دوسرے گروہ کے باہمی اختلافات سے کہیں زیادہ ہیں ۔ بنو ہاشم بھی باہم برسر پیکار رہ چکے ہیں ، بنو حسن و بنو حسین کے مابین اسی قسم کی لڑائیاں ہو چکی ہیں ، جو آج کل ان جیسے دوسرے لوگوں میں بپا ہیں ۔ پچھلے زمانوں میں بعض بنی ہاشم اور دوسرے لوگوں کے درمیان جو معرکے بپاہوئے وہ ان لڑائیوں کی نسبت بہت زیادہ تھے، جو ابتدائی ایام میں بنوامیہ اور بنو ہاشم کے مابین ہوئیں۔ [بنوامیہ و بنو ہاشم کے مابین جس طرح اختلافات پائے جاتے تھے بعینہٖ اسی طرح محبت و مؤدت اور قرابت داری کے روابط بھی موجود تھے، اگر کوئی مورخ ایسے تاریخ حقائق جمع کرنے کی زحمت گوارا کرے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں خاندانوں میں کس حد تک الفت و محبت کے علائق موجود تھے، اور ان سے کیا ثمرات ظہور میں آئے اور پھر ان واقعات کو اسانید سمیت کسی کتاب میں جمع کرنے کا التزام کرے تو یہ حقیقت منصہ شہود پر جلوہ گر ہوگی کہ فریقین میں محبت کے جذبات و احساسات اصلی و پائیدار تھے اور اختلافات ہنگامی و عارضی۔خالد بن یزید بن معاویہ نے ایک مرتبہ حجاج بن یوسف کی ایک غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے لکھا تھا:’’ قریش باہم لڑتے جھگڑتے ہیں جب اﷲ تعالیٰ صاحب حق کو حق عطا کر دیں گے تو ان کے تعلقات اور لا تعلقی، عقل و دانش اور شرافت و فضیلت کی بنا پر ہوگی۔‘‘خالد بن یزید کا مطلب یہ ہے کہ قریش میں سے جو لوگ باہم خاندانی علائق و روابط کو قائم رکھیں گے وہ ان مراسم کو توڑنے والوں کی نسبت فہم و فراست اور فضل و شرف میں بڑھ کر ہوں گے بنو ہاشم و بنوامیہ دونوں اس حقیقت سے آگاہ تھے اور اس کے قدر شناس تھے، بخلاف ازیں شیعہ اس سے نابلد محض ہیں اور ان کی راہ بنو ہاشم و بنوامیہ دونوں سے الگ ہے۔شیعہ کا مقصد وحید فتنہ پروری اور اسلامی حقائق کے خلاف بغض و عناد کی آگ کو ہوا دینا ہے اور بس۔راقم السطور نے جمادی الاولیٰ ۱۳۶۵ھ میں مجلہ الفتح کے شمارہ : ۸۳۴ ص: ۶، ۷ میں قریش کی اس قدیم عادت کا ذکر کیا تھا کہ بعض اوقات وہ عداوت کے باوجود بھی الفت و محبت کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے، اس مضمون کا محرک یہ ہوا کہ جب امام ضحیافی فوت ہوگئے تو یمن کے امام یحییٰ بن حمید الدین نے ان کی وفات پر ایک دلدوز مرثیہ لکھا، حالانکہ عثمانی حکومت کے عہد میں یہ دونوں مدعی امامت ہونے کی بنا پر عرصہ دراز تک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے تھے، قریش کے علماء میں بھی اظہار مودت کی یہ رسم جاری رہی، جب تک کرۂ ارضی پر قریش کے ایسے علماء بقید حیات ہیں جو اسلامی اخلاق و آداب سے بہرہ ور ہیں الفت و محبت کے یہ مراسم باقی رہیں گے، اگرچہ فتنہ پرور لوگ ان باتوں کو پسند نہیں کرتے۔]
اس کی وجہ نسبی شرافت نہیں بلکہ اس لیے کہ سب سے بہتر زمانہ وہ تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے،پھر صحابہ کا زمانہ پھر تابعین کا [عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بہتر زمانہ میرا ہے، (جس میں صحابہ تھے) پھر وہ زمانہ جو اس کے قریب ہے(عہد تابعین) پھر وہ زمانہ جو اس کے قریب ہے (تبع تابعین کا عہد مبارک) (صحیح بخاری ،کتاب الشہادات، باب لا یشھد علی شھادۃ....(ح:۲۶۵۱)، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم ....(ح:۲۵۳۵)۔آخری زمانہ اموی خلافت کے آخری دور پر ختم ہوتا ہے، عباسی خلافت کا ابتدائی زمانہ بھی اس میں شامل ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’ اس بات پر محدثین کا اتفاق ہے کہ تبع تابعین میں سے آخری مقبول القول شخص وہ ہے جو ۲۲۰ھ تک بقید حیات رہا، اسی زمانہ میں بدعات نے پر پرزے نکالنے شروع کیے معتزلہ نے اپنی زبانیں کھول دیں ، فلاسفہ نے سر اٹھایا، اور خلق قرآن کے مسئلہ میں علماء کو شدید امتحان میں ڈالا گیا اس دور میں حالات سخت بدل گئے اور آئندہ زمانوں میں تنزل و انحطاط کی یہ رو حافظ ابن حجر کے زمانہ یعنی (۷۷۳۔ ۸۵۲) ہجری تک جاری رہی، رسول اﷲ کے ارشاد مبارک کے مطابق اقوال و افعال سے لے کر افکار و معتقدات تک جھوٹ سے ملوث ہوگئے۔ (فتح الباری: ۷؍ ۴)] بہر کیف آپ کے زمانہ میں خیر کا دور دورہ تھا اس کے برعکس آئندہ زمانوں میں شرکا غلبہ ہوگیا۔
اگر شیعہ ان دین دار اور بے ضرر علماء دین کے ہاتھوں فریاد کناں ہیں ، جنہوں نے کسی پر ظلم کیا نہ ظالم کی امداد کے مرتکب ہوئے۔ بجز اس کے کہ وہ حق بات کو بدلائل قاہرہ واضح کر دیتے ہیں تو یہ بڑی غلط بات ہے، کوئی احمق شخص ہی اس بات میں شک و شبہ کا اظہار کرے گا کہ امام مالک، اوزاعی، ثوری، ابو حنیفہ، لیث بن سعد، شافعی، احمد، اسحق(رحمہم اللہ ) اور دیگر محدثین کو ہشام بن حکم و ہشام بن سالم اور ان کے ہم نوا روافض کے ہم پلہ ہیں ، یہ انتہائی ظلم ہے۔ اسی طرح جو شخص یہ کہے کہ مسئلہ تقدیر کا انکار کرنے والے شیعہ مثلاً النغمی، کراجکی اور ان کے نظائر و امثال معتزلی علماء مثلاً ابو علی، ابو ہاشم، قاضی عبدالجبار اور ابو حسین بصری کے ہم رتبہ ہیں اس کا ظالم ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے، یہ معتزلہ کے اکابر علماء ہیں ۔ اس ضمن میں اہل سنت علماء کا تو نام لینا ہی مناسب نہیں ، مثلاً متکلمین اہل اثبات میں سے محمد بن ہیصم اور قاضی ابوبکر بن الطیب اور حدیث و فقہ اور تصوف کے علماء مثلاً ابو حامد اسفرائنی، ابوزید مروزی، ابو عبد اللہ بن بطہ، ابوبکر عبد العزیز ، ابوبکر رازی، ابو الحسین قدوری، ابو محمد بن ابو زید، ابوبکر ابہری، ابوالحسین دار قطنی؛ ابو عبداللہ بن مندہ، ابوالحسن بن سمعون، ابو طالب مکی، ابو عبدالرحمن السلمی اور ان کے امثال وہ ہمنوا دوسرے علمائے کرام رحمہم اللہ وغیرہم ۔
تحقیق کرنے پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اہل سنت کے مختلف و متعدد فرقوں میں سے ہر فرقہ شیعہ کی نسبت علم و عدل سے قریب تر اور ظلم و جہل سے بعید تر ہے۔ بفرض محال اگر اہل سنت کے کسی فرقہ نے ظالم کی اعانت کا ارتکاب کیا ہے تو شیعہ اس جرم کے ارتکاب میں [ہر موڑ پر ]ان سے دو قدم آگے ہی ہوں گے۔ اور اگر شیعہ نے کبھی ظلم و تعدی سے اجتناب کیا ہے تو اہل سنت اس میدان میں بھی کئی قدم آگے ہوں گے۔یہ بات تجربہ و مشاہدہ پر مبنی ہے اور اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں ، یہ حقیقت ہے کہ اسلامی فرقوں میں شیعہ سے زیادہ جھوٹا اور زیادہ ظالم و جاہل دوسرا کوئی فرقہ نہیں ، لطف یہ ہے کہ شیعہ کے شیوخ و علماء نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
’’اے گروہ اہل سنت! تم میں جوان مردی کے آثار پائے جاتے ہیں ، تم پر قابو پانے کی صورت میں ہم تم سے ہر گز وہ سلوک نہیں کر سکتے جو تم عندالقدرت ہم سے روا رکھتے ہو۔‘‘
تیرھواں جواب:....شیعہ نے جس شعر کو پسند کیا اور اس سے استشہاد کیا ہے وہ اس کے ناظم کی جہالت کا مظہر ہے، اہل سنت اس بات کو تسلیم کرتے ہیں :’’رَوٰی جَدُّہُمْ عَنْ جِبْرِیْلَ عَنِ الْبَارِی‘‘اس سے بڑھ کر اہل سنت اقوال رسول پر بلا توقف عمل پیرا ہوتے ہیں اور یہ دریافت کرنے کی مطلقاً ضرورت نہیں سمجھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ قول کہاں سے اخذ کیا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معصوم سمجھتے ہیں ۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾ (النجم:۳۔۴)
’’وہ اپنی مرضی سے نہیں بولتا، بلکہ وہ تو وحی ہے جو آپ کی جانب بھیجی جاتی ہے۔‘‘
اہل سنت کو اہل سنت کہا ہی اس لیے جاتا ہے کہ وہ سنت کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہ بات ضرور ہے کہ سنت کے اثبات کے لیے ثقہ راویوں کی ضرورت ہے ۔قطع نظر اس سے کہ روایت کرنے والا حضرت علی کی اولاد میں سے ہو تو اس سے بھی استفادہ کرتے ہیں ‘ یا کوئی اور شخص صرف ہو تو اس کے بھی علم سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اتنی بات ہر گز کافی نہیں کہ کوئی روایت محض ’’ عَنْ جِبْرِیْلَ عَنِ الْبَارِی ‘‘کے بل بوتے پر بلا تحقیق مان لی جائے۔ایسے لوگوں کا کیا کیا جائے ؟
یہ بات محتاج بیان نہیں کہ امام مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی بات صرف اس لیے حجت مانی جاتی ہے کہ وہ اپنے اقوال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرتے ہیں ۔ ورنہ ان کے اپنے اقوال کسی درجہ میں بھی حجت نہیں ۔ حالانکہ یہ ائمہ احادیث نبویہ سے بخوبی آگاہ تھے اور ان کی معرفت و اتباع میں ان کا اجتہاد حق و صواب پر مبنی ہے، ورنہ ائمہ کی اتباع کی کوئی ضرورت نہ تھی، جس طرح مذکورہ ائمہ احادیث کی روایت کرتے ہیں ، اسی طرح دوسرے لوگ بھی اس ضمن میں ان سے پیچھے نہیں اور اگر ائمہ مسائل کا جواب دیتے ہیں تو دوسروں کو بھی یہ شرف حاصل ہے، بایں ہمہ اہل سنت کے نزدیک ان میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ، اور کسی کا قول بھی واجب الاتباع نہیں ۔
بخلاف ازیں ائمہ کے مابین جب بھی کسی بات میں تنازع بپا ہوگا تو اہل سنت اسے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی جانب لوٹائیں گے۔ اگر بچشم خود اس کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو اپنے زمانہ کے محدثین و فقہاء کو دیکھ لیں ، یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ شیعہ علماء کی اکثریت حافظ قرآن نہیں ہوتی، اور حدیث نبوی سے بھی انہیں بے حد معمولی لگاؤ ہوتا ہے، کتاب و سنت کے مفہوم و معنی سے وہ بالکل بے گانہ ہوتے ہیں ۔باقی رہا شیعہ شاعر کا یہ قول کہ ’’ روٰی جَدُّنَا عَنْ جِبْرِیْلَ عَنِ الْبَارِیْ‘‘
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ تمہارے نانا کی روایات کو شیعہ سے بہتر جانتے ہیں ، اور شیعہ بھی احادیث کے بارے میں ان کی طرف رجوع کرتے ہیں جب متقدمین و متاخرین بنی ہاشم، احادیث رسول بنی ہاشم کے علاوہ دوسرے لوگوں سے حاصل کرتے ہیں تو یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ بنی ہاشم دوسروں سے زیادہ علم نہیں رکھتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ کس کی اقتدا کریں اور کس سے استفادہ کریں ؟ آیا ان لوگوں سے اخذ و استفادہ کریں جو علم سے آگاہ ہیں یا ان لوگوں سے جو اس سے قطعی نابلد ہیں ؟ اس میں شبہ نہیں کہ علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے درہم و دینار کاورثہ نہیں چھوڑا بلکہ اپنے پیچھے علم کاورثہ باقی رکھا ہے، جس نے یہ ورثہ حاصل کر لیا، اس نے بہت بڑا حصہ پایا۔
اگر شیعہ مصنف کہے کہ ’’ میری مراد اس سے بارہ امام ہیں ۔‘‘ تو ہم کہیں گے کہ علی بن حسین ابو جعفر رحمہ اللہ اور دیگر اہل بیت اپنے جدا مجد (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جو روایات نقل کرتے ہیں وہ اسی طرح قابل قبول ہیں جس طرح دیگر راویان حدیث کی مرویات، اور اگر لوگ امام مالک شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ اور محمد بن علی رحمہم اللہ کی نسبت زیادہ روایات نہ پاتے تو اہل بیت کے علماء کو چھوڑ کر کبھی ان ائمہ دین کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوتے۔
یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ آخر لوگوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ موسیٰ بن جعفر رحمہ اللہ سے ہٹ کر امام مالک بن انس رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے، حالانکہ یہ دونوں اکابر بہ یک وقت ایک ہی شہر میں بودو باش رکھتے تھے، بشرطیکہ موسیٰ بن جعفر رحمہ اللہ کے ہاں سے بھی انہیں علمی تشنگی کو دور کرنے کا وہی سامان میسر آتا جو امام مالک رحمہ اللہ کے ہاں دستیاب تھا، خصوصاً جب کہ اس زمانہ کے لوگ حدیث رسول کے شیدائی تھے، اس پر مزید یہ کہ خود بنی ہاشم اپنے چچا زاد موسیٰ بن جعفر رحمہ اللہ کی بجائے امام مالک رحمہ اللہ سے کسب فیض کیا کرتے تھے۔
امام مالک رحمہ اللہ کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے، آپ نے بہت سے مسائل میں اپنے استاد محترم امام مالک رحمہ اللہ سے اختلاف کر کے ان کی تردید کی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ کے اصحاب و تلامذہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مابین شدید تنازعات بپا ہوگئے، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ کی نسبت بلحاظ نسب بنی ہاشم سے قریب تر تھے، آپ احادیث نبویہ کے سچے عاشق تھے اور جہاں سے بھی حصول علم کی توقع ہوتی اس میں ذرہ بھر تغافل و تکاسل کو راہ نہ دیتے، خواہ یہ علم بنی ہاشم کے یہاں سے حاصل ہو رہا ہو یا کسی اور جگہ سے، اگر آپ امام مالک رحمہ اللہ کی نسبت کسی ہاشمی کے یہاں علم پاتے تو آستانہ مالک کی بجائے بنی ہاشم کی بارگاہ علم پر دستک دیتے، امام شافعی رحمہ اللہ خود اس امر کے معترف ہیں کہ انھوں نے کسی ایسے شخص سے استفادہ نہیں کیا جو امام مالک رحمہ اللہ اور سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے بڑا عالم ہو، مزید برآں امام شافعی رحمہ اللہ کی تصانیف ان دونوں اکابر سے ماخوذ معلومات سے لبریز ہیں اور ان میں کوئی بات بھی موسیٰ بن جعفر رحمہ اللہ اور دیگر بنی ہاشم سے مستفاد نہیں ، یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ آپ جو علم حاصل کرنے کے درپے تھے بنی ہاشم کی نسبت امام مالک کے یہاں اس کی فراوانی تھی۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا عشق رسول حدیث نبوی کے ساتھ والہانہ شغف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال سے ماہرانہ واقفیت و آگاہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احباب و انصار کے ساتھ گہری محبت و مؤدت اور اعداء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدید عداوت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، بنی ہاشم کے ساتھ آپ کی عقیدت و ارادت کا یہ عالم تھا کہ فضائل صحابہ کے ساتھ ساتھ حضرت علی اور حسن و حسین کے فضائل و مناقب پر کتابیں تصنیف کیں ، بایں ہمہ آپ کی تصانیف امام مالک ، ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد، وکیع بن جراح، یحییٰ بن سعید القطان، ہشیم بن بشیر، عبدالرحمن بن مہدی وغیرہم رحمہم اللہ کی روایات سے لبریز ہیں اور ان میں کوئی روایت موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ اور محمد بن علی رحمہم اللہ کے نظائر و امثال سے ماخوذ نہیں ، یہ حقیقت ہے کہ اگر امام احمد بن حنبل ان علماء بنی ہاشم کے یہاں اپنا علمی مطلوب پا سکتے تو اس میں انتہائی دلچسپی لیتے۔اگر کوئی شخص یہ کہے ہاشمی علماء گنجینۂ معلومات تھے، ان کے مقابلہ میں دیگر علماء ان علوم سے بے بہرہ تھے، البتہ وہ اپنے علم کا اظہار نہیں کیا کرتے تھے، ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ پوشیدہ علم سے فائدہ؟ جس علم کا اظہار نہ کیا جائے وہ اس خزانہ کی مانند ہے جسے خرچ نہ کیا جائے، جو شخص اپنے علم کا اظہار نہیں کرتا، لوگ اس کی پیروی کیوں کر کریں گے؟ پوشیدہ علم (شیعہ کے) امام معدوم کی طرح بیکار ہے اور دونوں سے کوئی نفع حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
[ہاشمی علماء اور ایک شبہ پر رد:]
[اشکال ]:اگر شیعہ کہیں کہ؛’’ ہاشمی علماء اپنے علوم کا کشف و اظہار صرف خواص پر کرتے تھے۔‘‘
[جواب]: تو ہم کہیں گے کہ:’’ یہ ان پر بہتان ہے، جعفر بن محمد بے نظیر عالم تھے اور ان کے بعد ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، تاہم وہ تحصیل علم میں امام مالک، ابن عیینہ ، شعبہ، ثوری، ابن جریج، یحییٰ بن سعید وغیرہ علماء و مشاہیر کے مرہون احسان تھے، جو شخص اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ ہاشمی علماء مذکورہ ائمہ سے علم کو پوشیدہ رکھتے اور مجہول الحال لوگوں پر اس کا اظہار کرتے تھے، وہ ان اکابر کے بارے میں بدظنی کا ارتکاب کرتا ہے، یہ ایک ناقابل انکار صداقت ہے، کہ ائمہ مذکور ین میں اللہ و رسول کی محبت ، جذبہ تبلیغ دین، احباب رسول سے محبت اور اعداء رسول سے بغض و عداوت کا جو جذبہ پایا جاتا ہے، شیعہ کے شیوخ میں اس کا عشر عشیر بھی موجود نہیں ، جو شخص ائمہ اہل سنت اور شیعہ کے ائمہ و شیوخ دونوں سے آشنا ہے وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ ہر زمانہ کے شیوخ اہل سنت و روافض میں تقابل کر کے اس حقیقت کو دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔[الفاظ کے لغوی و اصطلاحی مفہوم میں اہل سنت اور شیعہ کے یہاں جو بین اختلاف پایا جاتا ہے، اس پر غور کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ فریقین کے مابین اختلافات کی ایک زبردست خلیج حائل ہے، شیعہ جب حب الہٰی کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ محبت وجوب علی اﷲ کے عقیدہ سے مقید ہوتی ہے ، جب شیعہ حب رسول کا دعویٰ لے کر اٹھتے ہیں تو اس کے پہلو بہ پہلو وہ عصمت ائمہ کا دعوی کر کے شریعت کا مصدر و ماخوذ ہونے میں ان کو رسول اﷲ رضی اللہ عنہم کا شریک ٹھہراتے ہیں ، جس سے حب رسول میں بلاشبہ خلل اندازی ہوتی ہے، علاوہ ازیں یہ اکابر شیعہ کے اس فعل پر اس لیے رضا مند نہیں کہ مصدر شریعت ہونے کے اعتبار سے رسول اﷲ کا شریک ہونا ایک غیر شرعی بات ہے، وہ اس سے اظہار براء ت کرتے اور اسے ایک افترا قرار دیتے ہیں ۔ تحفظ دین سے متعلق بھی شیعہ کا دعویٰ ایک انوکھی چیز ہے، دین کا جو تصور ان کے ذہن میں ہے وہ کتاب و سنت سے بالکل الگ ایک جداگانہ نوعیت کی چیز ہے اس کا انحصار انروایات کاذبہ کی تشہیر و ترویج پر ہے، جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت سے منقول ہیں ، اس طرح حب و بغض کا مفہوم بھی اہل سنت اور شیعہ کے یہاں یکساں نہیں تاکہ دونوں میں تقابل کر کے اہل سنت کی موالات کو درست اور شیعہ کی موالات کو ناروا قراردیا جا سکے، اس میں شبہ نہیں کہ اہل سنت امت محمدی کے تمام صالحین سے یکساں طور پر محبت رکھتے ہیں ، ظاہر ہے کہ آل محمد کے صالحین اسی طرح ان میں شامل ہیں جس طرح رسول اﷲ کے اصحاب اور آپ کی ازواج مطہرات، بخلاف ازیں شیعہ عصمت کے دعویٰ کی اساس پر بعض اہل بیت سے محبت رکھتے ہیں ، حالانکہ خود اہل بیت عصمت کے دعویٰ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ، شیعہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر نیک اختر رقیہ اور ام کلثوم کے وجود تک میں صرف اس لیے شبہ کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ان کے دشمن ہیں ، چند افراد کو چھوڑ کر شیعہ اصحاب رسول کے جانی دشمن ہیں ، خلاصہ یہ کہ اہل سنت اور شیعہ کا اختلاف مقدار محبت میں نہیں ، بلکہ محبت کے لغوی، اصطلاحی اور دینی مدلول و مفہوم میں ہے، علی ہذا القیاس فہم قرآن، روایان حدیث کی روایات صحیحہ کا قبول و عدم قبول اور جھوٹے راویوں کی بیان کردہ روایات کاذبہ سے عدم احتجاج، یہ جملہ مسائل فریقین کے مابین متنازع فیہا ہیں ۔]مثال کے طور پر اسی شیعہ مصنف (ابن المطہر جس کی تردید میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنۃ تصنیف فرمائی) کو لیجئے۔[اہل سنت و شیعہ کے مابین فرق و امتیاز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اہل سنت کے نزدیک دینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے، بلکہ ہر دور میں یکساں رہتے ہیں ، وہ حدیث صحیح جو عہد صحابہ و تابعین میں رسول اﷲ سے روایت کی گئی ہو، وہ اہل سنت اور ان کے ائمہ کے نزدیک ایک ابدی حجت اور واجب الاتباع دلیل کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے عین برخلاف شیعہ کی رائے میں دین کا تصور ہر عصر و عہد میں بدلتا رہتا ہے، ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ شیعہ عالم المامقانی نے اپنی کتاب ’’ تنقیح المقال ‘‘ میں جہاں غالی شیعہ علماء کی سیرت و سوانح پر روشنی ڈالی ہے۔ جن کی روایات شیعہ علماء کے نزدیک ان کے غلو کی وجہ سے ناقابل قبول تصور کی جاتی تھیں ....وہاں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ازمنہ سابقہ میں جو باتیں مبالغہ پر محمول کی جاتی تھیں اب وہ ضروریات مذہب میں شمار ہوتی ہیں یہ بات شیعہ مذکور نے رافضی جرح و تعدیل کی ایک بہت بڑی اور جدید ترین کتاب میں تحریر کی ہے اور اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اب شیعہ مذہب وہ نہیں رہا جو پہلے تھا، چنانچہ قدیم زمانہ میں جو بات غلو ہونے کی بنا پر ناقابل قبول تھی، اب ضروریات مذہب میں تصور کی جانے لگی ہے، خلاصہ کلام! شیعہ کا موجودہ مذہب وہ نہیں جو ایران کے سلاطین صفویہ سے پہلے تھا۔اسی طرح صفویہ سے پہلے جو مذہب تھا، وہ شیعہ مصنف ابن المطہر سے پہلے نہ تھا اور ابن المطہر سے پہلے کا مذہب خاندان بنی بویبہ سے قبل موجود نہ تھا، علی ہذا القیاس بنی بویبہ سے پہلے کا شیعہ مذہب وہ نہ تھا جو شیطان الطاق سے پہلے تھا اور شیطان الطاق سے پہلے کا مذہب حضرت علی، حسن و حسین اور علی بن حسین رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے مذہب سے قطعی مختلف تھا۔]
شیعہ کے نزدیک یہ یگانہ روز گار عالم تھا، بعض شیعہ کا قول ہے کہ علوم اسلامیہ کے اعتبار سے بلاد مشرق میں یہ عدیم المثال فاضل تھا۔[چنانچہ شیعہ جب ’’ علامہ ‘‘ کا لفظ علی الاطلاق بولتے ہیں تو اس سے مراد ابن المطہر لیتے ہیں ، شیعہ ابن المطہر کو آیت اﷲ فی العالمین، نور اﷲ ، استاذ الخلائق، مرکز اسلام وغیرہ القاب سے یاد کرتے اور عجمی طرز و انداز کی یہ مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے اﷲ سے نہیں ڈرتے، کتاب ہذا کا قاری اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ابن المطہر حد درجہ جاہل اور فریب کار شخص ہے اور اس کا دل رسول اﷲ کے اقوال و اعمال کے حامل صحابہ و تابعین کی عداوت سے لبریز ہے، مقام حیرت ہے کہ کرۂ ارضی میں اﷲ کے آخری پیغام کو پھیلانے والے صحابہ کے بارے میں شیعہ جس دریدہ دہنی کا ارتکاب کرتے ہیں شائد کوئی غیر مسلم مستشرق بلکہ عیسائی مشنری بھی ایسا نہ کر سکتے۔]بایں ہمہ اس کے رشحات قلم سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و اقوال و اعمال میں اس کرۂ ارضی پر شاید ہی کوئی دوسرا آدمی اس سے زیادہ جاہل ہو، وہ ایسی جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے، جن کا جھوٹا ہونا مختلف وجوہ و اسباب سے ظاہر ہوتا ہے، دو ہی صورتیں ممکن ہیں :
۱۔ اگر وہ دانستہ جھوٹی روایات بیان کرتا ہے تو اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:’’ جو میری طرف سے کوئی حدیث بیان کرے اور وہ جانتا ہو کہ یہ جھوٹی ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ہے۔‘‘[صحیح مسلم۔ المقدمۃ باب وجوب الروایۃ عن الثقات(حدیث:....)]
۲۔ اگر اس کے جھوٹا ہونے سے آگاہ نہیں تو وہ رسول اللہ کے بارے میں اجہل الناس ہے۔
کسی شاعر نے کہا ہے:
فَاِنْ کُنْتَ لَا تَدْرِیْ فَتِلْکَ مُصِیْبَۃٌ
وَاِنْ کُنْتَ تَدْرِیْ فَالْمُصِیْبَۃُ اَعْظَمُ
’’اگر تو جانتا نہیں تو یہ مصیبت کا باعث ہے اور اگر جانتا ہے تو یہ اس سے بھی بڑی آفت ہے۔‘‘
شیعہ ناظم کے جو اشعار ازیں تحریر کیے جاچکے ہیں ان کے جواب میں مندرجہ ذیل اشعار کہے گئے ہیں :
اِذَا شِئْتَ اَنْ تَرْضٰی لِنَفْسِکَ مَذْہَبًا
تَنَالُ بِہِ الزُّلْفٰی وَتَنْجُوْ مِنَ النَّارِ
فَدِنْ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَالسُّنَّۃِ الَّتِیْ
اَتَتْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ مِنْ نَقْلِ اَخْیَارِ
فَدَعْ عَنْکَ دَاعِیَ الرَّفْضِ وَالْبِدْعِ الَّتِی
یَقُوْدُکَ دَاعِیْہَا اِلَی النَّارِ وَالْعَارِ
وَ سِرْْ خَلْفَ اَصْحَابِ الرَّسُوْلِ فَاِنَّہُمْ
نَجُوْمُ ہُدًی فِیْ ضَوْئِہَا یَہْتَدِیئَ السَّارِیْ
وَعُجْ عَنْ طَرِیْقِ الرَّفْضِ فَہُوَ مُوسَّسٌ
عَلَی الْکُفْرِ تَاسِیْسًا عَلٰی جُرُفٍ ہَارِ
ہُمَا خُطَّتَانِ اِمَّا ہُدًی وَسَعَادَۃٌ
وَاَمَّا شَقَآئٌ مَعَ ضَلَالَۃِ کُفَّارِ
فَاَیُّ فَرِیقیناً اَحَقُّ بِاَمْنِہٖ
وَاَہْدیٰ سَبِیْلًا عِنْدَ مَا یَحْکُمُ الْبَارِیْ
اَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَ الرَّسُوْلِ وَخَالَفَ
الْکِتَابَ وَلَمْ یَعْبَاْ بِثَابِتِ اَخْبَارِ
اَمِ الْمُقْتَدِیْ بِالْوَحْیِ یَسْلُکُ
مَنْہَجَ الصَّحَابَۃِ مَعَ حُبِّ الْقِرَابَۃِ الْاَطْہَارِ
۱۔ جب تو اپنے لیے ایسا مذہب پسند کرنا چاہے جس سے اللہ کا قرب حاصل کر سکے اور دوزخ سے نجات پائے۔
۲۔ تو کتاب اللہ تعالیٰ اور ان احادیث نبویہ کی اطاعت کیجئے جو نیک لوگوں کی روایت سے ہم تک پہنچیں ۔
۳۔ رفض و بدعات کے داعی کو چھوڑیے کہ یہ شخص ناروعار کی جانب لے جاتا ہے۔
۳۔ اصحاب رسول کے نقش قدم پر چل اس لیے کہ وہ ہدایت کے ستارے ہیں جن کی روشنی میں چل کر سالک راہ ہدایت پاسکتا ہے۔
۵۔ رفض اور تشیع کی راہ سے منحرف ہو جا۔ اس لیے کہ اس کی اساس کفر اور ایک گر پڑنے والے گڑھے پر رکھی گئی ہے۔
۶۔ (دنیامیں )دو ہی باتیں ہیں یا تو ہدایت وسعادت ہے اور یا ضلالت کفار کے ساتھ ملی ہوئی بدبختی ہے۔
۷۔ ذرا غور فرمائیے اہل سنت و شیعہ کے دونوں فریقوں میں سے کون سا فریق اس وقت امن کا زیادہ حق دار اور راہ رست پر ہوگا۔جب اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ صادر فرمائیں گے۔
۸۔ کیا وہ شخص (حق پر ہوگا) جو اصحاب رسول کو گالیاں بکے، کتاب اللہ تعالیٰ کی خلاف ورزی کرے اور احادیث صحیحہ کی پرواہ نہ کرے۔
۹۔ یا وہ شخص (راہ حق کا سالک ہے) جو وحی کی پیروی کرتا، راہ صحابہ پر گامزن ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اہل بیت اطہار کے ساتھ بھی محبت رکھتا ہے۔