Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل: ....شیعہ کا الزام : اہل سنت اوردنیا پرستی

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل: ....شیعہ کا الزام : اہل سنت اوردنیا پرستی

رافضی نے لکھا ہے : ’’اور میرا خیال نہیں ہے کہ آسودہ حال لوگوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے مذاہب کے بارے میں اطلاع ہو ‘ اور اس نے باطنی طور پر امامیہ مذہب کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کیا ہو۔ بھلے وہ ظاہر میں دنیا طلبی کے لیے کسی دوسرے مذہب کی طرف ہی مائل کیوں نہ رہا ہو۔ اس لیے کہ ان کے لیے مدارس اور رباط کا قیام عمل میں لایا گیا ؛ اوقاف مقرر کیے گئے تاکہ بنی عباس کی دعوت باقی رہے ‘ اور عام لوگ ان کی امامت کا اعتقاد رکھتے ہوئے ان کے دست وبازو کو مضبوط کریں ۔‘‘

جواب:....یہ بات صرف وہی انسان کہہ سکتا ہے جو پرلے درجے کا جاہل انسان ہو؛ اور اسے اہل سنت والجماعت کے احوال کی معرفت بالکل نہ ہو۔ اور وہ لوگوں میں سب سے بڑا جھوٹا اور ضدی بھی ہو۔ اس کلام کا باطل ہونا کئی وجوہات کی بنا پر صاف ظاہر ہے ۔

۱۔ اس سے قبل کے اس قسم کے مدارس بنائے جائیں اہل سنت والجماعت اس سے زیادہ طاقتور اور غالب تھے۔بغداد میں مدارس کا قیام پانچویں صدی ہجری میں عمل میں آیا ۔ اور تقریباً چار سو ساٹھ ہجری کے قریب قریب مدارس نظامیہ قائم ہوئے۔ یہ ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک امام کے مذہب پر تھے۔ جب کہ اس وقت تک زمین کے مشرق و مغرب میں مذاہب اربعہ پھیل چکے تھے۔ بلاد مغرب میں مالکیہ موجود تھے ؛ مگر ان کے ہاں کوئی عباسی نہیں تھا۔

۲۔ بنوعباس کی حکومت سے پہلے اہل سنت والجماعت زیادہ غالب اور قوی تھے ۔ اس لیے کہ بنی عباس کی حکومت میں بہت سارے شیعہ اور دوسرے اہل بدعت بھی داخل ہوگئے تھے۔

۳۔ پھریہ کہ اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے کہ خلافت بنوعباس کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کوئی علوی یا اموی یا کوئی دوسرا قریشی خاندان حاکم بن جائے تو یہ بھی جائز ہے۔

۳۔ پھر یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ علماء اہل سنت جیسا کہ امام احمد بن حنبل اور امام مالک رحمہ اللہ وہ لوگ ہیں جو بادشاہوں کا لحاظ کرنے والے [یا ان کے سامنے دب جانے والے] اور ان کی قربت اختیار کرنے والے ہر گز نہ تھے۔

۵۔ پھر یہ کہ اہل سنت والجماعت خلفاء راشدین کی تعظیم بجالاتے ہیں ‘اور ان میں سے کوئی ایک بھی بنو عباس میں سے نہ تھا۔

۶۔ نیز ہر عاقل انسان یہ بات بھی جانتا ہے کہ مشہور مسلمان علماء کرام رحمہم اللہ میں سے کوئی ایک بھی رافضی نہ تھا۔ بلکہ ان تمام کا روافض کے جاہل اور گمراہ ہونے پر اتفاق تھا۔ ان کی کتابیں اس بات پر بہترین شاہد موجود ہیں ۔ یہ تمام گروہوں کی کتابیں پکار پکار کر اس موقف پر اپنی گواہی پیش کررہی ہیں ۔ حالانکہ ان میں سے کسی ایک کو بھی روافض اور ان کی جہالت و گمراہی کا ذکر کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ روافض کی گمراہی اور جہالت کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں ؛ جس سے اضطراری طور پر معلوم ہوسکتا ہے کہ ان سب علماء کرام کا اعتقاد ہے

کہ شیعہ سب سے بڑے جاہل اور گمراہ لوگ ہیں ؛ اور ملت کے تمام گروہوں میں سے مہدی سے سب سے دور یہی لوگ ہیں اور ایسا ہوتا بھی کیوں نہیں ؛ جب کہ امامیہ روافض کے ہاں ہر بڑی بدعت اور برائی پائی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ لوگ جہمیہ قدریہ رافضیہ ہیں ۔ اور ان میں سے ہر ایک گروہ کی مذمت میں سلف صالحین سے جو کلام وارد ہے ‘ اس کاصحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ اور کتابیں ان باتوں سے بھری پڑی ہیں ۔ جیسا کہ کتب حدیث و آثار‘ فقہ و تفسیر ؛ اصول و فروع اور دوسری کتابیں ۔ یہ تین گروہ باقی کے تمام فرقوں جیسے مرجئہ اور حروریہ کی نسبت سب سے بڑے گمراہ اور بدکردار اور بدعتی ہیں ۔

۷۔ اللہ کی قسم ! یہ بات اللہ جانتا ہے کہ میرے کثرت مطالعہ اور تلاش ؛لوگوں کے اقوال و مذاہب کی معرفت کے باوجود مجھے کسی ایک بھی ایسے انسان کے بارے میں علم نہیں ہوسکا جس کے سچے ہونے کا شہرہ لوگوں میں ہو‘ اوروہ امامیہ مذہب کا ادنیٰ سا بھی اہتمام کرتا ہو چہ جائے کہ وہ باطن میں اس کا عقیدہ رکھتا ہو[اور اسے صحیح سمجھتا ہو]۔

۸۔ حسن بن صالح بن حیی پر زیدی ہونے کا الزام لگایا گیا؛ حالانکہ وہ نیک ‘ صالح ؛ عالم و فقیہ اور زاہد انسان تھا او ریہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ پر یہ الزام جھوٹ ہے۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر طعن و تشنیع کی ہو؛ چہ جائے کہ وہ ان کی امامت میں شک کریں ۔

۹۔ اوائل شیعہ کے ایک گروہ پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح اور فضیلت دیتے ہیں ۔ان میں سے کسی ایک پر بھی یہ تہمت نہیں ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر ترجیح دیتے ہوں ۔ بلکہ عام طور پر اوائل شیعہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے تھے؛ اورآپ پر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ لیکن ان میں ایسا گروہ ضرور موجود تھا جو آپ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیا کرتے تھے۔

۱۰۔ اس فتنہ کے دور میں لوگوں کے دو گروہ ہوگئے تھے ۔ عثمانی شیعہ اور علوی شیعہ ۔ اور ایسا ہر گزنہیں تھا کہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر شریک جنگ ہو ‘ وہ آپ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت بھی دیتا ہو۔ جیسا کہ تمام اہل سنت کا عقیدہ ہے ۔