فصل: ....امامیہ کی اتباع کے متعلق خوش فہمی
امام ابنِ تیمیہؒفصل: ....امامیہ کی اتباع کے متعلق خوش فہمی
[رافضی کا کہنا کہ: امامیہ مذہب اس لیے واجب الاتباع ہے کہ وہ دوسروں کے برعکس ناحق تعصب نہیں کرتے]
[تہمت]:رافضی مصنف نے کہا ہے: ’’ پانچویں وجہ : ’’امامیہ مذہب کی اتباع واجب ہونے کے بیان میں ۔‘‘اس لیے کہ انہوں نے مخالفین کے برعکس کبھی بھی ناحق تعصب کا ساتھ نہیں دیا۔غزالی اور ماوردی رحمہما اللہ ‘جو کہ شافعی مذہب کے دو امام ہیں ؛نے ذکر کیا ہے ۔قبروں کی سطح برابر کرنا مشروع ہے ۔ مگر جب رافضہ نے اسے اپنا شعار بنا لیا تو ہم نے یہ کام چھوڑ دیا اور زمحشری رحمہ اللہ جو کہ حنفیہ کے امام ہیں ؛انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے:
﴿ہُوَالَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ ﴾ [الاحزاب۳۳]
’’وہی ہے جو رحمت بھیجتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے۔‘‘
’’اس آیت کی روشنی میں مسلمانوں میں سے کسی ایک پر رحمتیں بھیجنا جائز ہے۔ لیکن جب رافضیوں نے اپنے ائمہ کے متعلق اسے شعار بنالیا تو ہم نے اس سے منع کرنا شروع کردیا ۔ حنفیہ میں سے ہدایہ کے مصنف نے کہا ہے : ’’مشروع یہ ہے کہ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنی جائے؛لیکن جب رافضیوں نے اسے اپنی پہچان بنالیا تو ہم نے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا شروع کردیا۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ پس اب یہ دیکھنا چاہیے کہ شریعت کو کون بدلتا ہے؟ اور کون ان احکام میں تبدیلی کرتا ہے جن کے بارے میں شریعت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نصوص منقول ہیں ۔ اور ایک متعین قوم کی ضد میں آکر اس کے خلاف کرتا ہے؟؛ توپھر کیا ان لوگوں کی اتباع کرنا اور ان کے اقوال کی طرف رجوع کرنا جائز ہے؟ ‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب] :اس کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتاہے :
پہلی بات: ....اس رافضی مصنف نے جو الزام لگائے ہیں ‘حقیقت میں خود روافض ان کے زیادہ اہل ہیں ۔
دوسری بات:....ائمہ اہل سنت والجماعت عند اللہ ان الزامات سے بالکل بری ہیں ۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے: ہم نہیں جانتے کہ کوئی فرقہ رافضیوں سے بڑھ کر باطل پر تعصب کرنے والا ہو۔ یہاں تک کہ باقی تمام فرقوں میں رافضی اپنے موافق کی خاطر جھوٹی گواہی دینے [اورجھوٹی قسم اٹھانے]میں مشہورو معروف ہیں ۔ تعصب میں جھوٹ سے بڑھ کر بڑا گناہ کوئی نہیں ہوتا ۔ ان کی حالت یہ ہے کہ:
۱۔ انہوں نے تعصب میں آکر تمام میراث کا وارث صف بیٹی کو ٹھہرایا ہے تاکہ یہ کہہ سکیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وارث صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی تھیں ؛ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اس میں کوئی حصہ نہیں تھا۔
۲۔ شیعہ میں بعض لوگ اونٹ کے گوشت کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں ۔ اس طرح یہ لوگ کتاب اللہ ‘ سنت رسول اللہ اور اجماع صحابہ کرام و اہل بیت کی مخالفت کے مرتکب ہوئے۔ یہ ایسی بات ہے جو کسی بھی طرح مناسب نہیں تھی۔ اس لیے کہ وہ اونٹ جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سوار ہوئی تھیں وہ تو کبھی کا مرچکا۔ اگر بالفرض یہ کہہ لیا جائے کہ وہ اونٹ ابھی تک زندہ ہے ؛تو پھر بھی جب کفار کے اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے اس کی حرمت واجب نہیں ہوتی؛ اور کفار برابر اونٹ کی سواری کرتے چلے آرہے ہیں اور مسلمانوں کو ان سے یہ اونٹ مال غنیمت میں حاصل ہوتے ہیں اوران کا گوشت ان کے لیے حلال ہوتا ہے۔تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہونے میں وہ کونسی بات مضمر ہے جس کی وجہ سے اونٹ کا گوشت حرام قرار دیا جاتا ہے؟ اس کی انتہاء تو یہی ہوسکتی ہے کہ جن بعض لوگوں کو یہ رافضی کافرکہتے ہیں ؛ وہ اونٹ پر سوار ہوئے تھے۔ حالانکہ رافضی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو تہمت لگاتے ہیں ‘ اس میں وہ جھوٹے اور بہتان تراش ہیں ۔
۳۔ ان کے تعصب کی حد یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی زبان پر ’’دس ‘‘ کا لفظ نہیں لاتے۔ بلکہ یوں کہتے ہیں :نو اور ایک۔اور جب ستون وغیرہ بناتے ہیں تو خصوصی خیال رکھتے ہیں کہ ان کی تعداد دس نہ بنے۔ایسے ہی بہت سارے دیگر امور میں بھی اس چیز کا خصوصی خیال رکھتے ہیں ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سارے دس کا لفظ ذکرکیا ہے۔[ بلکہ بہت سارے مواقع پر اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’ دس ‘‘ کے مسمیٰ کی تعریف کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ حج تمتع کے بارے میں فرماتے ہیں ]:
﴿فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ﴾ (البقرۃ۱۹۶)
’’تو تین روزے تو ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر، یہ کل دس روزے ہو جائیں گے۔‘‘
اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّ عَشْرًا﴾ [البقرۃ۲۳۳]
’’تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ ﴾ (الاعراف ۱۳۲]
’’ہم نے موسی علیہ السلام کو تیس شب و روز کے لیے(کوہِ سینا پر)طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَالْفَجْرِ oوَلَیَالٍ عَشْرٍ﴾ (الفجر۱۔۲]
اور قسم ہے فجر کے وقت کی ‘ اور دس راتوں کی ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’ دس ‘‘ کے مسمیٰ کاقابل مدح و تعریف مواقع پر کیا ہے۔جب کہ لفظ ’’ نو ‘‘ کے مسمی کا ذکر قابل مذمت موقع پر کیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں ؛
﴿وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ ﴾ (النمل۳۸)
’’اس شہر میں نو جھتے دار تھے جو ملک میں فسا پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔‘‘
لیلۃ القدرکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔‘‘[البخاري کتاب فضل لیلۃ القدر ؛ باب تحري لیلۃ القدر ؛ مسلم (۲؍۸۲۳) کتاب الصوم باب ما جاء في لیلۃ القدر ؛ سنن الترمذي ۲؍۱۴۴ ؛ کتاب الصوم ۔ المؤطا۱؍ ۱۳۹ ؛ کتاب الاعتکاب۔ ]
صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی آخری دس راتیں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔‘‘[ البخاری (۳؍۳۷)مسلم (۲؍۸۳۰)]
صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کے بارے میں ]ارشاد فرمایا :
’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی بھی عمل ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں ۔ ‘‘[الترمذي ۲؍۱۲۹؛ کتاب الصوم باب : ما جاء في العمل في أیام العشر ۔سنن ابن ماجۃ ۱؍ ۵۵۰ ؛ کتاب الصیام ؛ باب صیام العشر ؛ قال الشیخ أحمد شاکر : إسنادہ صحیح۔ البخاري ۲؍۲۰۔]
جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عدد ’’دس ‘‘کے ساتھ کلام کیا ہے ‘ اور اس کے ساتھ بہت سارے محمود احکام شرعیہ کو معلق کیا ہے تو پھران لوگوں کا لفظ ’’دس ‘‘سے عشرہ مبشرہ کی اصطلاح وجہ سے نفرت رکھنا ؛کیونکہ ان سے یہ لوگ بغض رکھتے ہیں ؛ انتہائی جہالت اور تعصب کی نشانی ہے۔
پھر ان لوگوں کا یوں کہنا :’’ نو اور ایک ‘‘ عبارت کی طوالت کے ساتھ دس کا یہی معنی ہے۔ جب نو یا دس یا سات کا لفظ اس عدد کے ساتھ معدود ہر چیز پر واقع ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق انسانوں سے ہو یا پھر چوپاؤں سے یا پھر لباس اور درہم و دینار سے ۔ ان میں سے بعض معدودات محمود ہوتے ہیں اور بعض مذموم ۔
۳۔ پس ان جاہلوں کا گنتی کے یہ اعداد اپنی زبان پر لانے سے نفرت کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہ لوگ ان سے بھی نفرت کرتے ہیں جن کے نام ان لوگوں کے ہم نام ہوں جن سے یہ بغض رکھتے ہوں ۔ جیسا کہ یہ لوگ ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان لوگوں سے بھی نفرت کرتے ہیں جن کے نام ان صحابہ کرام کے اسماء پر رکھے گئے ہوں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے ہم نام لوگ کفار میں بھی موجود تھے۔جیسا کہ ولید بن ولید۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نماز میں دعا ئے قنوت میں یوں دعا کیا کرتے تھے:
((اللہم أنجِ الولِید بن الولِیدِ وسلمۃ بن ہِشام [وعیاش بن أبِی ربِیع] والمستضعفِین مِن المؤمِنِین۔))[صحیح بخاری:ح ۷۷۰؛ کتاب التفسیر ؛ تفسیر سورۃ البقر ؛ مسلم ۱؍۴۶۶ ؛ کتاب المساجد باب استحباب القنوت فی جمیع الصلاۃ ؛ سنن ابي داؤد ۲؍۹۲ ؛ کتاب الصلاۃ؛ باب القنوت]
’’اے اللہ ولید بن ولید کو اور سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیع اور کمزور مسلمانوں کوکفار سے نجات دے۔‘‘
بیٹا ولید مومن اور متقی انسان تھا جب کہ اس کا باپ ولید کافر اور بد بخت ترین انسان تھا۔ ایسے کفار قریش میں عقبہ بن ابی معیط بھی تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((رأیت کأني فی دار عقبۃ بن رافع وأتینا برطب من رطب ابن طاب۔ فأولت أن الرفعۃ لنا فی الدنیا والعاقبۃ فی الآخرۃ وأن دیننا قد طاب۔))[مسلم ۴؍ ۱۷۷۹ ؛ کتاب الرؤیا؛ باب رؤیا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ سنن ابوداؤد: ۴؍ ۴۱۸ ؛ ۱۶۱۹؛ کتاب الادب ؛ باب ما جاء في الریاء۔]
’’رات میں نے دیکھا گویا ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں ۔ اور ہمارے پاس ابن طاب کی تازہ تر کھجوروں میں سے رطب لائی گئی۔ میں نے اس کی یہ تعبیر و تاویل کی کہ دنیا کی بلندی ورفعت ہمارے لیے ہے: اور آخرت میں عاقبت اورعمدہ انجام بھی ہمارے لیے ہیں اور بیشک ہمارا دین پاکیزہ اور عمدہ ہوگیا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی بن ابی طالب کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔اور کفار میں علی بن امیہ بن خلف بھی تھا جو کہ بدر کے دن اپنے والد کے ساتھ حالت کفر میں قتل ہوا۔
صحابہ کرام میں سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بھی تھے جو کہ شاعرِ نبی تھے۔اور کعب بن اشرف کافرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی اذیت پہنچائی کہ آپ نے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو اسے قتل کرنے کے لیے بھیجا۔صحابہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے۔جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’بیشک اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں یہ سورت پڑھ کر سناؤں : ﴿لَمْ یَکُنْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ﴾[البخاری ۶؍۱۷۵ ؛ کتاب التفسیر ؛ سورۃ لم یکن ....بروایۃ أنس بن مالک]
مراد تبلیغ کے لیے پڑھنا تھا تعلیم کے لیے نہیں ۔جب کہ مشرکین میں بھی ابی بن خلف نامی انسان تھاجسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے ہاتھ سے قتل کیا ؛ اس کے علاوہ کسی کو آپ نے اپنے ہاتھ سے قتل نہیں کیا ؛اورفرمایا :
’’ بروز قیامت سب سے زیادہ سخت عذاب اس انسان کو ہوگا جس نے کسی نبی کوقتل کیا ہو یا پھر اسے کسی نبی نے قتل کیا ہو۔‘‘[مسند أحمد۵؍۳۳۲؛ تحقیق أحمد شاکر]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کا نام ابراہیم رکھا۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر و عمر رکھے۔
خلاصۂ کلام! اسم علم کافر اور مسلمان کے مابین مشترک ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہود و نصاری بھی ابراہیم‘ موسی ‘ اسحق اوریعقوب نام رکھتے ہیں ۔اورمسلمان بھی یہ نام رکھتے ہیں ۔کافر کا کوئی نام رکھ لینے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے اس نام کو سرے سے ترک کر دینا واجب ہوتا ہو۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ صحابہ کرام کافر تھی ۔ العیاذ باللہ ۔ جیسا کہ یہ لعنتی بہتان تراش بکواس بکتے ہیں ؛ تو پھر بھی ان اسماء میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کی وجہ سے ان ناموں کا ترک کرنا واجب ہوتا ہو ‘ بلکہ یہ جہالت اور تعصب کی انتہاہے۔
٭ اگر یہ کہا جائے کہ یہ لوگ ان اسماء سے اس لیے نفرت کرتے ہیں کہ ان کا مسمیٰ اہل سنت ہے ۔
٭ تواس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : یہ لوگ انسان کا مذہب جانتے ہوئے بھی اسے اس نام سے مخاطب نہیں کرتے۔ بلکہ اسے کوئی دوسرا نام دیتے ہیں ۔ایسا ان اسماء سے انتہائی نفرت کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ان کے تعصب اور جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ جب کسی ایسے انسان کو دیکھتے ہیں جس کا نام علی ‘ یا جعفر یا حسن ‘یا حسین ہو تو اس کی عزت و احترام پیش پیش رہتے ہیں ۔ حالانکہ ایسا انسان کبھی تو بالکل فاسق و فاجر ہوتا ہے ‘ اور کبھی وہ اہل سنت ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اہل سنت و الجماعت یہ نام رکھتے ہیں ۔ ان کی یہ تمام تر حرکات انتہائی تعصب اور جہالت کی وجہ سے ہیں ۔
۵۔ ان کے تعصب اور جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ رافضی تمام بنو امیہ سے نفرت کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں بعض لوگ ایسے تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے تھے۔
حالانکہ بنو امیہ میں بہت سارے نیکوکار صالحین بھی تھے جو کہ فتنہ کا دور شروع ہونے سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے۔ بنو امیہ وہ لوگ تھے جن میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال سب سے زیادہ تھے ۔جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو:
۱۔ عتاب بن اُسیدبن ابو العاص بن امیہ اموی رضی اللہ عنہ کو حاکم مکہ مقرر کیا؛ جو کہ روئے زمین کا سب سے محترم گوشہ ہے۔[سنن نسائی، کتاب الاذان، باب کیف الاذان(ح:۶۳۳)، سنن ابن ماجۃ۔ کتاب الاذان۔ باب الترجیع فی الاذان(ح:۷۰۸)، و کتاب التجارات، باب النھی عن بیع ما لیس عندک (ح:۲۱۸۹)۔]
۲۔ خالد بن سعید بن العاص اموی رضی اللہ عنہ کو صنعاء یمن اور بنی مذحج سے صدقات وصول کرنے پر عامل مقرر کیاتھا۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اسی منصب پر فائز رہے۔
۳۔ اس کے دونوں بھائیوں حضرت ابان بن سعید ابن العاص رضی اللہ عنہ اور سعید بن سعید رضی اللہ عنہ کو دوسرے اعمال[تیماء؛ خیبر ؛ اور عرینہ کی بستیوں ] پر عامل مقرر فرمایا تھا۔
۳۔ ابان بن سعید بن العاض رضی اللہ عنہ کو پہلے بعض سرایا پر امیر مقرر کیا او رپھر آپ کو بحرین کا والی مقرر کیا ۔ آپ حضرت العلاء الحضرمی رضی اللہ عنہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اس منصب پر فائز رہے ۔
۵۔ ابوسفیان بن حرب بن امیہ اموی رضی اللہ عنہ اور اس کے بیٹے حضرت یزید رضی اللہ عنہ کو نجران کا عامل مقرر فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو یہ لوگ اسی منصب و ذمہ داری پرتھے۔
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو امیہ سے سسرالی رشتہ قائم کرتے ہوئے اپنی تین بیٹیاں بنو امیہ کو بیاہ کردیں ۔سب سے بڑی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادی ابو العاص بن ربیع بن امیہ بن عبد شمس سے کردی۔ اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ ابو جہل کی بیٹی سے شادی کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنے اس داماد کا ذکر کرتے ہوئے اس کی تعریف کی ؛ اورفرمایا :
’’ اس نے جب بھی مجھ سے بات کی تو سچ بولا‘اور جب بھی مجھ سے وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔‘‘[من حدیث مسور بن مخرمۃ ؛ البخاری ۳؍۱۹۰ ؛ کتاب الشروط ؛ باب الشروط في المہر عند عقد النکاح ؛ باب ۴؍ ۱۹۰۲ ؛ کتاب النکاح باب ما یکرہ أن یجمع بینہن من النساء۔ سنن الترمذی ۵؍ ۳۵۹ ؛ کتاب المناقب باب ما جاء في فضل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہا ۔]
اپنی دو بیٹیوں کا نکاح یکے بعد دیگر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمادیا تھا:’’ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو میں وہ بھی عثمان رضی اللہ عنہ کو دے دیتا۔‘‘[رواہ أحمد فی الفضائل ۱؍۴۸۱ ؛ مجمع الزوائد ۹؍ ۸۳۔ قال المحقق ضعیف الإسناد للإرسال۔]
۶۔ ایسے ہی ان لوگوں کے تعصب اور جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ اہل شام سے صرف اس لیے بغض و نفرت رکھتے ہیں کہ ان میں وہ پہلا انسان تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مکہ میں کفار بھی تھے اور اہل ایمان بھی۔یہی حال مدینہ کا بھی تھا کہ وہاں پر اہل ایمان اور منافقین دونوں پائے جاتے تھے۔اس دور میں تو شام میں کوئی ایک بھی ایسا باقی نہیں ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا ہو؛ یا اس کا اظہار کرتا ہو۔ مگر ان کی شدت جہالت کی وجہ سے بغض و نفرت کی دُم ان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔
۷۔ ان کی جہالت اور تعصب کی انتہاء یہ ہے کہ رافضی ان لوگوں کی انتہائی سخت مذمت کرتے ہیں جو بنی امیہ کے آثار سے فائدہ حاصل کریں ؛ مثلاً اگر کوئی نہر یزید سے پانی پی لے۔ حالانکہ یہ نہر یزید نے نہیں کھدوائی بلکہ اس نے اس نہر میں فقط توسیع کی ہے۔ایسے ہی بنو امیہ کی تعمیر کی کردہ جامع مسجد اموی میں نماز نہیں پڑھتے۔حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ اور اس وقت کی تعمیر کعبہ مشرکین کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے بنائے ہوئے گھروں میں بھی رہتے تھے۔ ان چشموں سے پانی پیا کرتے تھے جو کفار نے کھودے ہوتے۔ ان کے تیار کردہ لباس پہنتے۔ان کے تیار کردہ دراہم سے لین دین کرتے۔ جب یہ حال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھروں سے استفادہ کررہے ہیں ‘ ان کے تیارکردہ لباس‘ جاری کردہ چشمہ‘اور بنائی گئی مساجد سے فائدہ حاصل کرتے تھے تو پھر اہل قبلہ کا کیا عالم ہوگا۔
اگر فرض کرلیا جائے کہ یزید کافر تھا؛اور اس نے نہر کھودی؛ تومسلمانوں کااجماع ہے کہ اس نہر سے پانی پینا مکروہ نہیں ۔ مگریہ لوگ اپنے انتہائی تعصب کی وجہ سے ان لوگوں کی طرف منسوب چیزوں کو استعمال کرنا حرام سمجھتے ہیں جن سے یہ لوگ بغض و نفرت رکھتے ہیں ۔
٭ ہم سے ایک ثقہ آدمی نے بیان کیا ہے کہ کسی ایک رافضی کے پاس ایک کتا تھا؛ان ہی میں سے ایک دوسرے رافضی نے اسے بکیرکہہ کر بلایا تو اس پررافضی نے لڑنا شروع کردیا کہ :’’تم جہنمیوں کے نام پر ہمارے کتے کا نام رکھتے ہو۔‘‘اور بات خون خرابے تک جا پہنچی۔‘‘تو پھر کیا ان رافضیوں سے بڑا جاہل کوئی دوسرا ہو سکتا ہے؟
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض صحابہ کرام کو وہ نام دیتے تھے جو کہ اس سے پہلے جہنمی لوگوں کے نام ہوگزرے ہیں ۔جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی کیا۔ [جیسا کہ ولید بن مغیرہ؛ لوگوں میں سب سے بڑا کافر تھا]۔ قرآن میں وارد لفظ ’’ وحید ‘‘ سے یہی مراد ہے :
﴿ذَرْنِی وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیدًا ﴾ (المدثر۱۱)
’’چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔‘‘
اس کے بیٹے کا نام بھی ولید تھا ‘اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ان دونوں باپ بیٹے کا نام لیتے ؛ اور قنوت میں یوں دعا فرمایا کرتے تھے:
((اللہم أنج ولید بن ولید بن المغیرۃ۔)) [البخاری۶؍۳۸]
’’اے اللہ ! ولید بن ولید بن مغیرہ کو نجات عطا فرما۔‘‘
جیسا کہ دیگر صحیح روایات میں بھی ثابت ہے۔
۸۔ ان لوگوں کی جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دن یوم عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے بلکہ اس دن افطار کو افضل سمجھتے ہیں ۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو یوم عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے پایا یہودیوں نے بتایا کہ یہ بہت بڑا دن ہے اسی دن اللہ نے موسی کو نجات دے کر فرعونیوں کو غرق کیا تھا تو شکرانہ کے طور پر موسی نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میں ان سب میں موسی علیہ السلام کے زیادہ قریب ہوں لہٰذا آپ نے اس کا روزہ رکھا اور دوسروں کو رکھنے کا حکم دیا۔‘‘[البخارِیِ:۳؍۴۴ ، کتاب الصومِ، باب صِیامِ یومِ عاشورا؛ مسلِم:۲؍۷۹۵؛ کتاب الصِیامِ، باب صومِ یومِ عاشورا؛سننِ ابنِ ماجہ:۱؍۵۵۲ ؛ کتاب الصِیامِ، باب صِیامِ یومِ عاشورا۔وأما حدِیث أبِی موسی فہو فِی البخارِیِ ومسلِم فِی کتابِ الصومِ مِنہما ؛ وہذا لفظ مسلِم:۲؍۷۹۶ عن أبِی موسی رضی اللہ عنہ قال: ان یوم عاشورا یوما تعظِمہ الیہود وتتخِذہ عِیدا، فقال رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صوموہ أنتم۔]
۹۔ ان لوگوں کی جہالت اور تعصب کی حد یہ ہے کہ : یہ بے زبان چوپائے کو پکڑ کر بلاوجہ عذاب دیتے ہیں ؛ اور اسے ان لوگوں کی طرح تصور کرتے ہیں جن سے یہ نفرت رکھتے ہیں ۔ مثلاً : سرخ رنگ کی دنبی پکڑ کر اس کا نام عائشہ رکھتے ہیں اور پھر اس کے بال نوچ کر اسے تکلیف دیتے ہیں ۔ اور کسی چوپائے کو پکڑ کر اس کانام ابوبکر یا عمر رکھتے ہیں اور پھر اسے ناحق اور بلاوجہ مارتے ہیں ۔اور پھر گھی بھری مشک کو حضرت عمر سے تشبیہ دیکر درمیان سے تیز دھار چیز سے پھاڑتے ہیں ۔ اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ حضرت عمر کا گوشت کھارہے ہیں اور ان کا خون پی رہے ہیں ۔
دوسری بات: ....جواب کے اس دوسرے مرحلہ میں ہم کہتے ہیں : ائمہ اہل اسلام کا طریق کار یہ ہے کہ مشروع چیز کو اہل بدعت رافضہ یا کسی بھی دوسرے کے افعال کی وجہ سے ترک نہیں کیا جائے گا۔تمام ائمہ کے ہاں مسلمہ اصول اس کے موافق ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک تسطیح [سطح برابرکرنے ] کا مسئلہ بھی ہے جس کا رافضی مصنف نے ذکر کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو حنیفہ اور امام احمد رحمہما اللہ کا مذہب یہ ہے کہ قبر کو تھوڑا سا اونچا کیا جائے۔جیسا کہ صحیح روایات میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی سطح اونچی تھی۔[البخاری ۲؍۱۰۳؛ کتاب الجنائز ؛ باب ما جاء في قبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما ۔ ] اس لیے کہ ایسا کرنا دنیاوی عمارتوں کی مشابہت سے بہت دور ہوتا ہے۔ اور قبروں پر بیٹھنے سے منع کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ قبروں کی سطح کو بالکل برابر کیا جائے۔ اس لیے کہ حدیث میں قبروں کو برابرکرنے کا حکم آیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ قبر کو زمین کو برابر کردیا جائے۔[المغني لابن قدامۃ ۲؍۴۲۰ ؛ أحکام الجنائز للشیخ محمد ناصر الدین الألباني ص ۱۵۳۔]پھر بعض نے کہا کہ : یہ رافضیوں کا شعار ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔ جب کہ دوسرے اہل علم حضرات نے اس کی مخالفت کی اور فرمایا: ’’ ایسا کرتا ہی مستحب ہے ؛ بھلے رافضی اسے اپنا شعار بنالیں ۔‘‘
٭ ایسے ہی جہری بسم اللہ پڑھنا رافضیوں کا شعار ہے۔اسی وجہ سے اور دعائے قنوت کی بعض لوگوں نے امام شافعی رحمہ اللہ پر تنقید بھی کی ہے۔اور اسے قدریہ اور رافضہ کا عقیدہ و مسلک بتایا ہے۔اس لیے کہ عراق میں مشہورتھاکہ جہری بسم اللہ رافضیوں کاشعار ہے۔ یہاں تک کہ اما م سفیان ثوری اور دوسرے ائمہ کے عقیدہ میں جہری بسم اللہ کا ترک کرنا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے نزدیک یہ رافضیوں کا شعار تھا۔ جیسا کہ ان سے موزوں پر مسح کرنے کا ذکر نقل کیا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ موزے پر مسح ترک کرنا رافضیوں کا شعار تھا۔ مگر اس کے باوجود جب امام شافعی رحمہ اللہ نے دیکھا کہ یہ سنت ہے ‘ تو آپ نے اسے اپنا مذہب بنالیا ۔ اگرچہ یہ رافضی عقیدہ کے موافق ہی کیوں نہ ہو۔
٭ ایسے ہی اہل عراق کا عقیق سے احرام باندھنا امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک مستحب ہے؛اگرچہ رافضیوں کا بھی یہی مذہب ہے ۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔
٭ امام مالک رحمہ اللہ موزوں پر مسح کی روایت کو ضعیف سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ سے مشہور ہے کہ : حضر میں موزوں پر مسح نہ کیا جائے۔ بھلے یہ رافضیوں کے مذہب کے موافق کیوں نہ ہو۔ ایسے ہی امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ محرم محمل کے سایہ سے استفادہ نہیں کرسکتا۔ بھلے رافضی مذہب بھی اس کے موافق ہی کیوں نہ ہو۔
٭ ایسے ہی امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک ہے کہ زمین کی جنس کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ کرنامکروہ ہے۔ ایسے ہی رافضی بھی زمین کے علاوہ کسی دوسری چیز پرسجدہ کرنے سے منع کرتے ہیں ۔
٭ ایسے ہی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ حج تمتع کو مستحب اور افضل سمجھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ کے اور دوسرے ائمہ حدیث کے ہاں مستحب یہ ہے کہ : جس انسان نے حج قران یا افراد کا احرام باندھا ہو وہ اسے فسخ کر کے عمرہ سے بدل دے تاکہ اس کا حج حج تمتع ہوجائے۔ اس لیے کہ صحیح احادیث میں اس کی ترغیب آئی ہے ۔ سلمہ بن شبیب نے حضرت امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا: اے ابو عبداللہ ! آپ نے اہل خراسان کو حج تمتع کا فتوی دیکر رافضیوں کے دلوں کو مضبوط کردیا ؛ تو آپ نے فرمایا : اے سلمہ ! مجھے آپ کے بارے میں اطلاع ملا کرتی تھی کہ تم بیوقوف ہو؛ اور میں تمہارا دفاع کیا کرتا تھا ؛ اور اب میرے نزدیک بھی یہ ثابت ہوگیا کہ تم احمق ہو۔ میرے پاس اس مسئلہ میں گیارہ صحیح احادیث موجود ہیں ؛ تو کیا میں ان احادیث کو تمہاری باتوں کی وجہ سے چھوڑ دوں ۔‘‘
٭ ایسے ہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی دوسرے ؛ جیسے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر درود پڑھنا جائے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے کئی ساتھیوں سے بھی یہی نقل کیا گیاہے۔ اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ’’ صلی اللہ علیک ۔‘‘آپ پراللہ کی رحمتیں ہوں ۔‘‘
آپ کے اکثر اصحاب نے یہی قول اختیار کیا ہے جیسا کہ قاضی ابو یعلی ؛ ابن عقیل‘ ابو محمد عبد القادر الجیلی ؛اور دیگر۔ جب کہ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ اس سے منع کرتے تھے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے بعض اصحاب نے یہی مسلک اختیار کیا ہے ‘ اس لیے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا گیا ہے ‘ آپ فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور پر درود پڑھنا مناسب نہیں ۔‘‘
شاید ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول اس وقت کا ہے جب شیعہ نے بطور خاص صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ پر درود پڑھنا شروع کردیا تھا۔ واللہ اعلم۔ وہ اس پر یوں عمل پیرا ہوگئے تھے گویا کہ انہیں حکم دیا گیا ہو کہ باقی لوگوں کوچھوڑ کر بطور خاص صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ پر درود پڑھا کریں ۔ ایسا کرنا بالاتفاق غلط ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر درود پڑھنے کا حکم دیا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر اپنی ذات سے اور اپنی آل سے کی ہے۔پس آپ کی اتباع میں آپ کی آل پر بھی درود پڑھاجائے گا۔
٭ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک آل رسول وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ لینا حرام ہے۔
٭ امام أحمد اور امام مالک رحمہما اللہ کے کچھ اصحاب کا مسلک ہے کہ آل محمد سے مراد آپ کی امت ہے ۔
٭ صوفیاء کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ:اس سے مراد آپ کی امت کے اولیاء اورنیک لوگ ہیں ۔ اس میں تمام اہل ایمان و اہل تقوی شامل ہیں ۔ اس متعلق ایک ضعیف حدیث بھی روایت کی گئی ہے جوکہ اصل میں ثابت نہیں ہے۔
٭ کچھ احناف اور دوسرے لوگوں نے کہا ہے : جب انسان کسی ایسی قوم کے پاس ہو ‘ جو باقی تمام صحابہ کو چھوڑ کر بطور خاص صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ پر درود پڑھتے ہوں ‘ اورجب اس نے بھی صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ پر درود پڑھا ‘ اور یہ گمان پیدا ہوگیا کہ یہ بھی انہی لوگوں میں سے ہے ؛ تو ایسا کرنا مکروہ ہے تاکہ اس کے رافضی ہونے کا گمان تک پیدا نہ ہو۔ ہاں اگر یہ پتہ چل سکتا ہو کہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی درود پڑھا ہے تو پھر ایسا کرنے میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔
٭ تمام ائمہ کرام رحمہم اللہ یہی فرماتے ہیں کہ : اگر کسی مستحب فعل میں فساد کا پہلو راجح ہو تو پھر وہ مستحب نہیں رہتا۔ یہاں سے بعض ان فقہاء نے دلیل لی ہے جو بعض مستحبات کو اس وجہ سے ترک کردیتے ہیں کہ وہ کسی بدعتی فرقہ کے شعار کے طور پر مشہور ہیں ۔ [تاکہ اہل بدعت سے ان مشابہت نہ ہو]۔
لیکن ایسی کسی بات کوبنیاد بناکر کسی واجب کوہر گز ترک نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ کہا گیا ہے کہ اس کا اظہار کرنے میں رافضیوں سے مشابہت ہوتی ہے۔اورسنی اور رافضی میں کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔ اور ان سے امتیازیت کی مصلحت ان کی مخالفت اورقطع تعلقی پر مبنی ہے۔یہ مستحب کی مصلحت سے زیادہ بڑھ کر ہے۔
٭ اس مذہب کے مطابق بعض مواقع پر مستحب کو بجالانے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے بھلے میں اس میں روافض کے ساتھ اختلاف اور ان کی مشابہت لازم آتی ہو۔لیکن یہ ایک عارضی بات ہے ؛ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کسی ایسی چیز کو ہمیشہ کے لیے مشروع بنالیا جائے جو کہ اصل میں مشروع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر: کفار کا شعار پہننا ۔ اگرکوئی چیز ان کا شعار نہ ہو تو اس کا پہننا مباح ہوتا ہے۔ مثلاً پیلا عمامہ پہننا جائز ہے اگر یہ یہود کا شعارنہ ہو۔اور اگر ان کا شعار ہو تو پھر اس کا پہننا منع ہے۔