فصل: ....خطبہ جمعہ اور خلفائے راشدین کا ذکر
امام ابنِ تیمیہؒفصل: ....خطبہ جمعہ اور خلفائے راشدین کا ذکر
[الزام]: رافضی مصنف نے کہا ہے : ’’اس کے ساتھ ہی اہل سنت نے بہت ساری بدعات ایجاد کرلیں ‘اور ان کے بدعت ہونے کا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔اور بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ ہر بدعت گمراہی ہے ‘ اور ہرگمراہی کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے : ’’جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز داخل کی جو اس میں سے نہیں ہے ‘ تو وہ مردود ہے ۔‘‘
اگر ان پر ردکیا جائے تو ان کے جی اسے نا پسند کرتے ہیں ‘ اور دل اس سے متنفر ہوجاتے ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ جمعہ کے خطبہ میں خلفاء راشدین کا نام لینا۔حالانکہ بالاجماع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا اورنہ ہی صحابہ اور تابعین کے دور میں ایسا ہوتا تھا۔ نہ ہی بنو امیہ اور کے ؛ اور نہ ہی بنو عباس کے شروع کے دور میں ۔ بلکہ یہ ایسی بدعت ہے جوکہ منصور نے اس وقت ایجاد کرلی جب اس کے اور علویوں کے مابین فتنہ پیدا ہوا۔ اس وقت اس نے کہا: اللہ کی قسم ! میں ان کے ناک خاک میں ملاؤں گااور ان پر بنی عدی اور بنی تیم کا ذکر بلند کروں گا۔ اس نے خطبہ میں صحابہ کرام کا نام لینا شروع کیا۔ اوریہ بدعت ہمارے اس دور تک جاری ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]: اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :
[پہلی بات]: منبر پر خطبہ میں خلفاء راشدین کا ذکر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور میں شروع ہوا۔ بلکہ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ :حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ ذکر شروع ہوگیا تھا۔ اس مسئلہ میں ضبہ بن محصن کی روایت مشہور ترین احادیث میں سے ہے۔طلمنکی نے میمون بن مہران کی حدیث سے روایت کیاہے ؛ وہ کہتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بصرہ کے والی تھے۔ جب آپ جمعہ کا خطبہ دیتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ‘ اور پھر اس کے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرتے۔اس پر ضبہ بن محصن کھڑے ہوئے اور کہا: تو ان سے پہلے ساتھی کا ذکر کہاں گیا جنہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی افضلیت دیا کرتے تھے۔اس سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔
جب کئی بار ایسے ہوا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دربار میں ضبہ بن محصن کی شکایت لکھ بھیجی کہ وہ ہم پر طعنہ زنی کرتا ہے ‘ اور اس قسم کی دیگر حرکات کا ارتکاب کرتا ہے۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خط لکھ کر ضبہ بن محصن کو اپنے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ بھیج دیا۔
جب ضبہ مدینہ دربار فاروقی میں پہنچے تو آپ کو اطلاع دی گئی کہ ضبہ العنزی دروازے پر اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔توآپ نے اجازت دیدی۔جب آپ اندر گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ ضبہ کو نہ ہی مرحبا اور نہ ہی اھلا [و سھلاً] ۔ اس پر ضبہ نے کہا: ’’ مرحبا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جب اھلاً ؛ تو میرے پاس نہ ہی اہل ہیں اورنہ ہی مال۔ تو پھر آخر کر تم نے مجھے میرے شہر سے لیکر یہاں تک کی تکلیف کیوں دی؛ میں نہ ہی کوئی برا کام کیا تھا اور نہ ہی گناہ؟ تو آپ نے فرمایا: تمہارے مابین اور تمہارے گورنر کے مابین کیامعاملہ پیش آیا ؟
تو میں نے کہا: اے امیر المؤمنین ! اس بارے میں میں ابھی آپ کو خبر دیتا ہوں ۔جب وہ [حضرت ابو موسی] خطبہ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے بعد دوبارہ آپ کے لیے دعا کرتا ہے۔اس کی اس بات پر مجھے غصہ آگیا۔میں نے اس سے کہا: ’’ان کے دوسرے ساتھی کا تذکرہ کہاں ہے جس پر تو انہیں فضیلت دیتا ہے ۔ اس پر اس نے آپ کے دربار میں میری شکایت لکھ بھیجی۔
٭ [حضرت ضبہ کہتے ہیں ]:پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ پھوٹ کر رونے لگے؛ اور فرمانے لگے: اللہ کی قسم ! تم اس کی نسبت زیادہ توفیق دیے گئے اور ہدایت یافتہ ہو۔کیا آپ میری غلطی مجھے معاف کردیں گے اللہ تعالیٰ آپ کے گناہ معاف کردے گا؟ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین !اللہ تعالیٰ آپ کے گناہ معاف فرمائے۔پھر آپ روتے رہے ‘ اور یہ فرماتے رہے :
’’ اللہ کی قسم ! ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک دن اور رات عمر اور آل عمر سے بہتر ہیں ۔‘‘
کیامیں تمہیں اس دن اور رات کے متعلق نہ بتاؤں ؟ میں کہا: اے امیر المؤمنین ! ضرور بتائیے۔
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جہاں تک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رات کا تعلق ہے؛ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے شرسے بچنے کے لیے ہجرت کرتے ہوئے رات کے وقت نکلے۔اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلتے اور کبھی پیچھے۔ کبھی دائیں جانب چلتے تو کبھی بائیں جانب۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کہا:
’’اے ابوبکر! آج آپ کچھ اوپری سی حرکت کررہے ہیں ؛ ایسا میں نے پھلے کبھی نہیں دیکھا؟‘‘
اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی :یارسول اللہ! جب مجھ خیال آتا ہے کہ دشمن آپ کے آگے گھات لگاکر نہ بیٹھا ہو تو میں آپ کے آگے چلنا شروع کردیتا ہو ں ؛ اور جب یہ خیال آتا ہے کہ دشمن آپ کے پیچھے لگا ہوگاتو پھر میں آپ کے پیچھے اور دائیں بائیں چلنا شروع کردیتا ہوں ۔مجھے آپ کے متعلق خوف محسوس ہوتا ہے ۔‘‘
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاؤں کی انگلیوں پر چلتے رہے ۔ یہاں تک کہ جب آپ تھک گئے ؛ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی تھکاوٹ کو محسوس کرلیااور آپ کو اپنے کندھے پر اٹھالیا۔ یہاں تک کہ جب غار کے منہ پر پہنچ گئے تو آپ کو نیچے اتارا؛ اور عرض گزار ہوئے: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ! آپ اس وقت تک غار میں داخل نہیں ہونگے جب تک میں غار میں داخل نہ ہوجاؤں ۔اگر غار میں کوئی موذی چیز ہوگی تو وہ آپ سے پہلے مجھے تکلیف دیگی۔ پھر آپ کو غار میں کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی جس سے کوئی پریشانی کی توقع کی جاتی ہو؛ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھاکر غار میں داخل کیا۔ غار میں ایک چھوٹاسوراخ تھا جس میں سانپ تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی ایڑی وہاں پر رکھ دی ؛ سانپ آپ کی ایڑی کو ڈسنے لگے؛ یہاں تک کہ درد و تکلیف کی شدت سے آپ کے آنسو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گالوں پر گرنے لگے۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا : ’’ اے ابوبکر غم نہ کر ! بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر اطمینان اور سکون نازل کیا ۔‘‘یہ اس رات کا قصہ ہے۔
٭ جہاں تک آپ کے دن کا تعلق ہے تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو عرب مرتد ہوگئے۔ ان میں سے بعض کہنے لگے : ہم نماز تو پڑھیں گے مگر زکواۃ نہیں دیں گے۔اوربعض کہنے لگے: ہم زکوٰۃ تو دیں گے مگر نماز نہیں پڑھ سکتے۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ کو نصیحت کروں ۔ میں نے عرض کی : اے خلیفہ رسول اللہ ! لوگوں کے ساتھ مہربانی کیجیے؛ اورنرمی سے پیش آئیے۔توآپ نے مجھے جواب دیا: کیا تم جاہلیت میں تو بڑے سخت تھے ‘ مگر اس میں خواری دیکھا رہے ہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس چلے گئے اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اللہ کی قسم ! اگر لوگ مجھ سے ایک رسی بھی روکیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے ؛ تو میں اس پر بھی ان سے جنگ و قتال کروں گا۔‘‘
ہم نے آپ کے ساتھ مل کر جنگیں لڑیں ۔اللہ کی قسم ! آپ اس معاملہ میں رشد و ہدایت پر تھے۔یہ آپ کے دن کا قصہ ہے ۔‘‘پھر آپ نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھ کر انہیں ملامت کی۔[الریاض النضرۃ لمحب الطبري ۱؍۱۰۵۔]
اگر یہ کہا جائے کہ : اس میں صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے جو کہ زندہ حکمران تھے۔تو کہا جائے گا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوچکا تھا؛ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔
[دوسری بات]:....بیشک یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمعہ کے خطبہ میں خلفاء اربعہ کا تذکرہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور میں اس وقت شروع ہوا جب آپ نے دیکھا کہ بعض بنو امیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے ہیں ۔اس کی جگہ پر آپ نے خلفاء اربعہ کا تذکرہ اور ان سے رضامندی کے اظہار کا اعلان و اقرار شروع کیا۔ تاکہ اس بیہودہ طریقہ کا خاتمہ کیا جاسکے۔
[تیسری بات]:....رافضی نے جو کہا ہے کہ یہ کام منصور نے شروع کیا ؛ یہ ایک باطل اورغلط بات ہے۔اس لیے کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی ولایت بنو امیہ اور منصور سے بہت پہلے تھی۔اس میں منصور کے لیے کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ آل علی یا کسی اور کی ناک کو نیچا دیکھا سکتا۔یہ اسی صورت میں ہوسکتا تھا کہ جب بنی تیم یا بنی عدی کے کچھ لوگ بھی آل علی کی طرح خلافت کے طلبگار ہوتے ؛ مگر ان میں سے کوئی ایک بھی ان لوگوں سے اس معاملہ میں اختلاف کرنیوالا نہیں تھا۔
[چوتھی بات]:....اہل سنت والجماعت ہر گز یہ بات نہیں کہتے کہ خطبہ میں خلفاء اربعہ کا ذکر کرنا فرض ہے۔بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ : صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذکر پر اکتفا کرنایا پھر بارہ ائمہ کاذکر کرنا ایسی بدعت منکرہ ہے جس کا ارتکاب آج تک کسی نے نہیں کیا۔ نہ ہی صحابہ کرام نے اور نہ ہی تابعین نے ‘ نہ ہی بنی امیہ نے اورنہ ہی بنو عباس نے۔جیسا کہ اہل سنت والجماعت یہ بھی کہتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ یا سلف صالحین میں سے کسی دوسرے پر سب وشتم کرنا انتہائی بری بدعت ہے۔اگرخلفاء اربعہ کا ذکر کرنا بدعت ہے ‘ حالانکہ بہت سارے خلفاء ایسا کرتے رہے ہیں ؛ تو پھر صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اکتفاء کرنا ‘ حالانکہ اس سے پہلے امت میں سے کسی ایک نے بھی ایسے نہیں کیا ؛تو یہ بدعت ہونے کا زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔ اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امیر المؤمنین ہونے کی وجہ سے آپ کا ذکر کرنا مستحب ہے تو بھر خلفاء راشدین کا تذکرہ استحباب کا زیادہ حق دارہے۔ لیکن رافضی لوگ ناپ تول میں کمی کرنے والے ہیں ۔اہل سنت و الجماعت کی آنکھوں میں تنکا تو انہیں نظر آجاتا ہے ‘ مگر اعتراض کرنے والے کو اپنے اندر پورا تنا نظر نہیں آتا۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ : خلفاء ثلاثہ پر تمام مسلمانوں کو اتفاق ہوگیا تھا۔ان کے دو ر تلوار کفار پر آویزاں تھی اور مسلمانوں سے بہت دورتھی۔جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کا آپ کی بیعت پر اتفاق نہیں ہوسکا۔بلکہ اس عرصہ میں فتنہ برپا ہوا؛ اس عرصہ میں تلوار کفار سے دور اور مسلمانوں کے سروں پر آویزاں رہی۔پس اس صورت میں صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذکر پر اکتفا کرنا اور آپ سے پہلے کے ان خلفاء ثلاثہ کا ذکر کردینا جن پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہوگیا تھا؛ اور وہ اپنے دشمنوں پر کامیاب و منصور رہے تھے ؛ اور صرف اس امام کا ذکر کرنا جس کے دورمیں مسلمانوں میں افتراق پیدا ہوگیا اور دشمن ان کے علاقوں کو للچائی نظروں سے دیکھنے لگا ؛[یہ بو العجبی ہے]۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے مابین فتنہ و افتراق کے اس دور میں بلاد شام اور خراسان کے کفار بلاد مسلمین کو للچائی نظروں سے دیکھنے لگے ۔اس لیے کہ مسلمان آپس میں مشغول ہوگئے۔تو اب کیا باقی تمام خلفاء کا ذکر ترک کرکے صرف ایک ایسے خلیفہ کا ذکر کیا جائے جنہیں نہ تو پوری خلافت مل سکی اور نہ ہی مقصود خلافت حاصل ہوا۔
یہی چیز ان لوگوں کی دلیل تھی جو چوتھے خلیفہ کے طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بجائے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا کرتے تھے ۔جیساکہ اندلس میں اور بعض دوسری جگہوں پر کیا جاتا تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ : چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برعکس حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تمام لوگوں کا اجماع ہوگیا تھا؛[اس لیے ان کا نام بطور خلیفہ چہارم لیا جاتا ہے]۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کا یہ نظریہ غلط ہے ؛ لیکن ان سے بڑھ کر وہ لوگ غلطی پر ہیں جو خلفاء ثلاثہ کو چھوڑ کرصرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ اور ان سب سے بڑھ کر وہ لوگ غلطی پر ہیں جو خطبہ میں یا دوسرے مواقع پر بارہ ائمہ کاذکر کرتے ہیں ؛ یہ دیواروں پر ان کے نام کا تقش بناتے ہیں یا پھر میت کو اس کی تلقین کرتے ہیں ۔ یہ ایسی برائی اور بدعت ہے کہ دین اسلام میں اس کا انتہائی بری بدعت ہونا اضطراری طور پر معلوم ہے۔
اگر خطیب ان چاروں خلفاء کا ذکر کرنا چھوڑ دے تو اس پر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انکار اس بات پر ہے کہ ان سابقہ تین خلفاء کو ؛جن کی خلافت زیادہ کامل تھی؛ اور سیرت کے لحاظ سے بھی وہ افضل تھے؛ انہیں چھوڑ کر صرف ایک کے ذکر اکتفاء کیا جائے۔جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر کرنے پر انکار کیا گیا۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت زندہ سلطان اور موجود خلیفہ تھے۔
[پانچویں بات]:....اہل سنت والجماعت کے تمام خطباء خطبہ میں خلفاء اربعہ کا ذکر نہیں کرتے۔ بلکہ مغرب میں اور بعض دوسرے شہروں میں بہت سارے خطباء ایسے ہیں جو کہ خطبہ میں نام لیکر کسی ایک خلیفہ کا تذکرہ بھی نہیں کرتے۔ اور مغرب میں بہت سارے خطباء ایسے بھی تھے جو کہ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے بعد چوتھے خلیفہ کے طور پر حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کانام لیا کرتے تھے؛ حضرت علی کانام نہیں لیتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان باقی خلفاء کی خلافت پرتمام مسلمانوں کا اجماع ہوگیا تھا جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع نہیں ہوا۔
٭ پس اگر خلفاء کا نام لیکر ان کا ذکر کرنا اچھی بات ہے تو بعض اہل سنت والجماعت ایسا کرتے ہیں ۔ اور اگر ایسا کرنا اچھی بات نہیں ہے تو پھربھی بعض اہل سنت ایسا نہیں کرتے ۔ جوبھی صورت حال ہو ‘ حق اہل سنت سے باہر نہیں ہوسکتا ۔
[چھٹی بات]:....جن لوگوں نے جمعہ میں منبر پر خلفاء راشدین کا نام لینا شروع کیا ؛ انہوں نے اس بدلہ کے طور پر ایسا کیا کہ بعض لوگ ان پر تنقید اور سب و شتم کرتے تھے۔ایسا کرنے میں اسلام میں جو فساد پیدا ہوگیا تھا وہ کسی پر بھی مخفی نہیں ہے۔ پس اس کے بجائے اعلانیہ ان کا ذکر خیراور مدح سرائی کی جانے لگی؛ تاکہ ان سے موالات اور دوستی کے اظہار اور ان کی مدح و توصیف کے بیان سے اسلام کی حفاظت کی جائے ۔کیونکہ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ خلفاء راشدین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
((عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيينَ مِنْ بَعْدِي تَمَسَّکْوْا بِہَا و عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ۔وَ إیّاکُمْ وَمحدثات الأمور؛ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ))[سنن أبي داؤد ۴؍۲۸۰؛ ِکتاب العِلمِ، باب الأخذِ بِالسنۃِ؛ سننِ ابنِ ماجہ:۱؍۱۵؛ المقدِمۃ، باب فِی اتِباعِ سنۃِ الخلفائِ الراشِدِین المہدِیِین؛ سننِ الدارِمِیِ:۱؍۴۴؛ المقدِمۃ، باب اتِباعِ السنۃ ؛ المسندِ ط۔ الحلبِی: ۴؍۱۲۶، ۱۲۷، وصححہ الشیخ الألبانِی فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ: ۲؍۳۴۶۔]
’’ تم پر میری سنت اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت لازم ہے ۔ اس کے ساتھ چمٹے رہو ‘ اور اسے اپنے کنچلی کے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔خبردار! اپنے آپ کو نئے کاموں سے بچاکر رکھنا ؛ اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
٭ ان کی خلافت کی احادیث بہت زیادہ ہیں ۔جب بنوامیہ میں ایسے لوگ پائے جاتے تھے جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دیا کرتے اور آپ کی مذمت کیا کرتے تھے؛ اور یہ کہتے کہ : آپ خلفاء راشدین میں سے نہیں ہے ۔تو پھر ان لوگوں کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ : سب سے پہلے آپ نے برسر منبر خلفاء اربعہ کانام لینا شروع کیا ؛ ان سے موالات کا اظہار کیا؛ ان کی مدح سرائی کی اور فضائل بیان کئے۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والوں کا ایک گروہ اس بات کوپسند نہیں کرتا تھا۔ خوارج حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے بغض رکھتے تھے اور انہیں کافر کہتے تھے۔حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ساتھ ان دونوں حضرات کا ذکر ِ خیر کرنے میں ان خوارج پر بھی رد تھا جن سے قتال کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔
٭ روافض ان سب لوگوں سے بڑھ کر برے ہیں ؛ یہ لوگ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتے ہیں اور ان پر سب شتم کااظہار کرتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان حضرات کوکافر تک کہتے ہیں ۔پس منبر پر ان لوگوں کا ذکر کرنے اور ان کے فضائل بیان کرنے میں ان رافضہ پر رد تھا۔
جب ان لوگوں کو خدابندہ بادشاہ کے ملک میں ؛ جس کے لیے اس رافضی مصنف [ابن مطہر ]نے یہ کتاب ’’[منہاج الکرامہ] ‘‘ لکھی ہے ؛پذیرائی مل گئی تو ان لوگوں نے چاہا کہ اپنے مذہب کا اظہار کریں اور اہل سنت والجماعت کے حق مذہب کو نیچا دیکھائیں ۔اور انہوں نے اس فتنہ کو پہلی ترجیح دی ۔اس لیے ان لوگوں نے بدعات کی لگام کھلی چھوڑ دی ؛ اوروہ شرو فساد اور فتنہ پیدا کرنے کے درپے ہوگئے جس کی صحیح حقیقت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے بعض اہل سنت والجماعت کی طرف منسوب لوگوں سے منبر پرخلفاء راشدین کا تذکرہ کرنے کے بارے میں فتوی لیا کہ کیا ایسا کرنا واجب ہے۔ پس فتوی دینے والوں میں سے بعض نے ان لوگوں کے شر سے خوف کی بناپر اپنی جان بچاتے ہوئے اور بعض لوگوں نے جہالت کی بنا پر فتوی دیدیا کہ ایسا کرنا واجب نہیں ۔
٭ ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ منبروں پر خلفاء راشدین کا تذکرہ بند کروایا جائے۔ اس کے بجائے انہوں نے اپنے گمان کے مطابق گیارہ معصومین میں سے ایک جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کرنا اور ان کے فضائل بیان کرنا شروع کردیے۔
٭ پس جب مفتی کو یہ معلوم ہوجائے کا سائل کا مقصود یہ ہے کہ اس فتوی سے :
۱۔ خلفاء راشدین کا ذکر ترک کرکے ان کی جگہ [خودساختہ ]بارہ ائمہ کا ذکر کیا جائے۔
۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواترکیسا تھ منقول اذان کو ختم کرکے اس کی جگہ حیی علی خیر العمل کی نداء لگائی جائے ۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کی قرأت کو روک کر اس کی جگہ اپنی طرف سے من گھڑت اور خود ساختہ قصوں کہانیوں کو جگہ دی جائے۔
۳۔ دین اسلام کے معلوم اور ثابت شدہ شرائع کو باطل قرار دیا جائے۔اور ان کی جگہ خود ساختہ اور گمراہ کن بدعات کو جگہ دی جائے۔
۵۔ اور لوگ اس فتوی کو ملاحدہ کے دین کے اظہار کے لیے ایک وسیلہ بنالیں ‘ وہ ملاحدہ کو باطن میں فلاسفہ کا مذہب چھپائے ہیں اور دین اسلام کا اظہار کرتے ہیں ؛جو کہ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ۔
۶۔ یا ان کے علاوہ جہالت و ظلم اور دروغ گوئی پر مشتمل کچھ اور مقاصد ہوں جن سے مقصود اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا اور چالیں چلنا ہو۔ تو پھراس صورت میں :
’’مفتی کیلئے حلال نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسا فتوی دے جس سے مذکورہ بالاشرور و فساد میں سے کوئی شر پیدا ہوسکتا ہو۔‘‘
٭ جب ایسے احوال میں خلفاء راشدین کا ذکر کرنے سے ماموربہ مقاصد حاصل ہوسکتے تھے؛ تو پھر ان کا تذکرہ کرنا ایسے احوال میں ماموربہ ہوجاتا ہے۔ اگرچہ یہ تذکرہ مطلق واجبات میں سے نہیں ہے۔ اور ان نہ ہی ان سنن میں سے ہے جن پر ہرحال میں اور ہر دور اور ہر جگہ پر حفاظت کی جائے۔
جیسا کہ اگر کفار کے لشکر کا کوئی شعار اور خاص علامت ہو ‘ اورمسلمانوں کے لشکر کا بھی کوئی خاص شعار ہو تو پھر اس صورت میں کفار کے شعار کے برعکس مسلمانوں کے شعار کا اظہار کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ایسا ہر گزنہیں کہ یہ بات ہر جگہ اور ہر دور میں واجب ہے۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ واجبات شریعت خلفاء راشدین کا ذکر کئے بغیر قائم نہیں ہوسکتے؛ اور یہ کہ اگر ان کا تذکرہ ترک کردیا جائے تو اہل بدعت و ضلال کو اپنے شعار کااظہار کرنے کا موقع مل جائے گا؛ تو پھر ایسے احوال میں خلفاء راشدین کا بر سر منبر تذکرہ کرنا واجب ہوجاتا ہے۔
مامور بہ امور میں سے کچھ واجب ہوتے ہیں ‘ یا ہمیشہ کے لیے مسنون ہوتے ہیں ؛ جیسے کہ پانچ نمازیں ؛اور وتر ؛ فجر کی دو سنتیں وغیرہ ۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا حکم بعض احوال میں اس وقت دیا جاتا ہے جب اس کے بغیر واجب کا حصول ممکن نہ ہو ‘ یا پھر اس کے بغیر حرام سے بچنا ممکن نہ ہو۔
[ساتویں بات]: اس کو یہ کہا جائے گا کہ : جب منبر پر خلفاء راشدین کے ذکر ‘ یا سلطان وقت کے لیے دعاء ‘یا اس طرح کے دیگرامور میں جب وہ اہل علم و الدین علماء کلام کریں جو کہ شرعی دلائل کی روشنی میں ہی بات کرتے ہیں ‘ تو ان کا کلام مقبول ہوتاہے؛ اور ان میں سے حق بات کو پالینے والے کے لیے دوہرا اجر ہوتا ہے۔ اور خطاء کار کی خطاء و غلطی معاف ہوتی ہے۔
٭ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی انسان ان پر تو اعتراض شروع کردے لیکن خود اس سے بھی بڑا شر وفساد پھیلانا چاہتا ہو؛ جیسا کہ ابن تومرت کا گروہ ؛جوکہ اس کے مہدی ہونے پر ایمان رکھتے تھے۔اور اسے امام معصوم گردانتے تھے۔جب اس کا نام بھی منبر پر لیا جانے لگا اور اس کی ایسی صفات بیان کی جانے لگیں جن کا باطل ہونا معلوم شدہ تھا ۔یہ لوگ اپنے جماعت کے افراد کو خواص ِامت ِ محمد قرار دیتے تھے۔ان لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم ان خلفاء راشدین ؛ اور ائمہ رشد وہدایت کا تذکرہ کرنا بندکردیا تھا جن کے اس امت کے بہترین افراد ہونے پر کتاب و سنت اور سابقین اولین صحابہ اور تابعین کرام کے کلام سے دلائل موجود ہیں ۔ خلفاء راشدین ہی وہ ائمہ ہدایت تھے جن کا تعلق علی الاطلاق افضل زمانہ سے تھا۔
٭ پھر یہی تومرثیہ گروہ یہ کہنے لگے کہ : منبر پر خلفاء راشدین کا ذکر خیر کرنا سنت نہیں بلکہ بدعت ہے۔حالانکہ یہ انتہائی بودی اور بے کار بات ہے؛ جو کہ واپس ان کے منہ پر مارے جانے کے قابل ہے۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے امام ابن تومرت کے مرجانے کے بعد بھی منبر پر اس کا نام لیا کرتے تھے۔ حالانکہ اللہ [اور اس کے رسول] پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والا اس بات میں ذرا بھر بھی شک و شبہ نہیں کرسکتا کہ حضرات خلفاء ابوبکر و عمر و عثمان اورعلی رضی اللہ عنہم اس سے بہت بہتر اور افضل تھے۔ اور وہ اتباع نبوت اور تعمیل احکام میں زیادہ اکمل تھے۔بلکہ خلفاء بنو امیہ اور بنو عباس میں سے کسی ایک ذکر ِ خیر کرنا مہدی کا لقب اختیار کرنے والے اس ابن تومرت کا ذکر کرنے سے بہت بہتر تھا اور زیادہ استحقاق رکھتا تھا۔اس لیے کہ ان لوگوں کی خلافت ابن تومرت کی خلافت سے بہت بہتر تھی۔ اور ان کا اسلام کو قائم کرنا اس کی نسبت بہت بہتر تھا۔ اور انہیں زمین کے مشرق و مغرب میں اس سے بڑھ کر غلبہ اور پذیرائی حاصل تھے۔ اور ان لوگوں نے اس سے بڑھ کر خیر و بھلائی کے کام کئے تھے۔اور اس نے جھوٹ ‘ ظلم‘ جہالت اور شر کے وہ کام کئے جو کہ باقی لوگ نہ کر سکے۔تو پھر ان دوسرے لوگوں کوچھوڑ کر یہ انسان کیسے مہدی ہوسکتا ہے؟ یا پھر باقی خلفاء کو چھوڑ کر اس کا نام لینا اور جمعہ کے خطبہ میں اس کا تذکرہ کرنا کیسے مشروع ہوسکتاہے؟ اور جو اس کا نام لینے والے ہیں ‘ وہ دوسرے لوگوں پر کیسے کوئی اعتراض کرسکتے ہیں ؟
٭ ان سے بڑھ کر بودا اور بے کار اعتراض امامیہ کا ہے ؛ جو کہ خلفاء راشدین کے تذکرہ پر اعتراض کرتے ہیں لیکن خود بارہ ائمہ کانام لیتے اور ان کا ذکر کرتے ہیں ۔حالانکہ خلفاء ثلاثہ میں سے ہر ایک ان بارہ ائمہ سے بہتر اور افضل ہے۔اور ان کی خلافت و امامت زیادہ اکمل ہے۔جب کہ بارہ ائمہ کی مختلف اصناف ہیں ۔ جن میں سے کچھ تووہ صحابہ ہیں جن کے اہل جنت ہونے کی شہادت دی گئی ہے؛ جیسا کہ حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما ۔ اور ان کے علاوہ بھی سابقین اولین میں سے بہت سارے لوگ ہیں جو کہ ان دونوں سے افضل ؛ مثلاً : اہل بدر۔
٭ یہ دونوں حضرات اگرچہ اہل جنت نوجوانوں کے سردار ہیں ؛ تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جنتی بوڑھوں کے سردار ہیں ۔ یہ صنف پہلی صنف سے زیادہ کامل ہے۔
٭ اگر یہ کہا جائے کہ : یہ دونوں حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے لخت جگر ہونے کی وجہ سے افضل ہیں ۔
[جواب]: تو ان سے کہا جائے گا : حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل سنت و الجماعت اورشیعہ کے نزدیک بالاتفاق ان دونوں حضرات سے افضل ہیں ‘ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے لخت جگر نہیں [بلکہ ان کے شوہر ہیں ]۔
٭ حضرت ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں حضرات کی نسبت زیادہ قربت کا تعلق ہے۔لیکن اس کے باوجود وہ سابقین اولین سے افضل نہ تھے۔ ایسے ہی حضرت امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی بھی ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ تھا۔
٭ اگر یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد ہیں [اس وجہ سے افضل ہیں ]۔
[جواب]: تو ان سے کہا جائے گا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاؤں اور چچازادوں کی ایک جماعت اہل ایمان اور صحابہ کرام میں سے تھے۔ جیساکہ حضرت حمزہ ‘ عبداللہ و فضل پسران عباس؛ ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ اور حضرت علی اورجعفر رضی اللہ عنہما دوسرے چچا زادوں سے افضل ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عباس سے افضل ہیں ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ فضیلت ایمان اور تقوی کی بنیاد پر ہوتی ہے حسب و نسب کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔
٭ ان بارہ آئمہ میں کچھ ایسے بھی تھے جو کہ علم و فضل اور دینداری میں شہرت رکھتے تھے؛ جیسے حضرت علی بن الحسین ‘ ان کا بیٹا ابو جعفر ؛ ان کا بیٹا جعفر بن محمد رحمہم اللہ ؛ ان لوگوں کا بھی وہی حکم ہے جو دوسرے اہل علم و فضل کا ہے۔امت محمد میں خلقت کی بہت بڑی تعداد ان کی ہم مثل بھی ہیں اور ان سے افضل بھی۔ اور ان بارہ ائمہ میں ایسا منتظر بھی ہے جس کا اصل میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ‘ اور نہ ہی اس سے کسی کو کوئی فائدہ حاصل ہوا۔ ایسے لوگوں کی اتباع صرف شر ہی شر ہے؛ جس میں کوئی خیر نہیں ۔
٭ جب کہ ان کے علاوہ جتنے بھی بنی ہاشم ہیں خواہ علوی ہوں یا عباسی؛ ان میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو علم و فضل اور دینداری میں ان کے برابر ہیں ؛ بلکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان آئمہ سے بڑھ کر اہل علم و دین ہیں ۔ تو پھر خلفاء راشدین کے ذکر پر کیسے عیب لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں ان سے افضل کوئی دوسرا نہیں ۔اور پھر ان کے بجائے مسلمانوں میں ایسے لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے بڑھ کر اہل علم و دین اور افضل دوسرے مسلمان بھی موجود ہیں ۔ اور ان سے مسلمانوں ان ائمہ کی نسبت کئی گنا بڑھ کر دینی اور دنیاوی فائدہ بھی حاصل کیا ہے۔ ان لوگوں کا تو مقصد صرف یہ ہے کہ آئمہ اثنا عشریہ کا ذکر کر کے باقی تمام مسلمانوں سے اختلاف اور ان سے دشمنی کا اظہارکیا جائے اور یہ لوگ اپنے مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے کفار و منافقین تک سے مدد حاصل کرتے ہیں تاکہ اللہ کے روشن کردہ چراغ کو بھجا سکیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین حق کی شمع گل کرسکیں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کا یہ دین باقی تمام ادیان پر غالب آکر رہے گا۔یہ لوگ دین میں زندیقیت اور الحاد کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں تاکہ منافقین کو بگاڑ پیدا کرنے کے لیے راہ مل سکے۔