Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....وضوء میں پاؤں کے مسح کا مسئلہ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....وضوء میں پاؤں کے مسح کا مسئلہ 

[اعتراض]: رافضی مصنف کہتا ہے : ’’ اور جیساکہ پاؤں پر مسح کرنے کے بارے میں کتاب اللہ العزیز میں نص موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُئُ ْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ

’’ تو اپنے منہ کو اورہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو اورپنے سروں کو مسح کرو ؛اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : دو اعضاء کو دھویا جاتا ہے اور دو پر مسح کیا جاتا ہے۔ مگران لوگوں نے اس حکم کو بدل ڈالا اور پاؤں دھونے کو واجب قرار دیا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]:وہ لوگ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و فعلاً وضوء نقل کیا‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضوء کرنے کاطریقہ سیکھا ‘ اور آپ کے عہد مبارک میں وضوء کرتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس طرح کرتے ہوئے دیکھتے اور پھر اس فعل پر برقرار رکھتے ؛ اور انہوں نے اپنے بعد والوں کے لیے یہ طریقہ نقل کیا ؛ ان کی تعداد ان سے بہت زیادہ ہے جنہوں نے اس آیت کا یہ معنی ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔

اس لیے کہ سبھی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں وضوء کیا کرتے تھے۔اور انہوں نے وضوء کرنا طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سیکھا تھا؛ اس لیے کہ عہد جاہلیت میں وضوء نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضوء کرتے ہوئے اتنے لوگوں نے دیکھا ہے کہ جن کی صحیح تعداد کو صرف اللہ ہی جانتا ہے ؛ ان لوگوں سے مروی تمام احادیث میں پاؤں کو دھونے کا ذکر آیا ہے۔ یہاں تک کہ صحاح اور دوسری کتب احادیث میں کئی ایک اسناد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: ((ویل لِلأعقابِ وبطون الأقدام مِن النارِ )) [صحیح بخاری:جلد اول:ح۱۶۳۔میں پوری روایت اس طرح ہے:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : کسی سفر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پالیا ؛اور ہم کو عصر کی نماز میں دیر ہوگئی تھی، لہٰذا ہم وضو کرنے لگے اور اپنے پیروں پر جلدی کے مارے مسح کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکار کر دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا کہ:’’ ویل لِلعقابِ مِن النارِ۔‘‘اس روایت میں بطون الاقدام کے الفاظ نہیں ۔یہ الفاظ مستدرک حاکم سے لیے گئے ہیں ۔ مزید دیکھیں : البخارِیِ:۱؍۱۷،۱۸، کتاب العِلمِ، باب من رفع صوتہ بِالعِلم،۱؍۲۶،۲۷کتاب العِلمِ، باب من عاد الحدِیث: ۱؍۴۰، کتاب الوضوِ، باب غسلِ الرِجلینِ ولا یمسح العقِبینِ، باب غسلِ الأعقاب ؛ مسلِم:۱؍۲۱۳،۲۱۵ کتاب الطہارِۃ باب وجوبِ غسلِ الرِجلینِ بِکمالِہِما؛ المسندِ ط۔المعارِف الأرقام:۶۸۰۹، ۶۸۸۳،۶۹۷۶، ۷۱۰۳، ۷۱۲۲، ۷۷۸۸۔ وجاء الحدِیث بِلفظِ ویل لِلأعقابِ وبطونِ الأقدامِ مِن النار۔فِی: سننِ التِرمِذِیِ۱، کتاب الطہارِۃ، باب ما جاء: ویل لِلأعقابِ مِن النار ؛ المسندِ ط۔الحلبِی:۴؍۱۹۱، عن عبدِ اللہِ بنِ الحارِسِ بنِ جز رضی اللّٰہ عنہ ۔] ’’ایڑیوں اور پاؤں کی ہتھیلیوں کے لئے آگ سے تباہی ہو گی۔‘‘

٭ اگر پاؤں پر صرف مسح کرنے کا حکم ہوتا تو ظاہری پاؤں پرمسح کرلینا کافی تھا؛ اور تمام پاؤں کو دھونا ایک ایسا تکلف ہوتا جسے طبیعت جلدی سے تسلیم نہ کرتی۔ جیساکہ طبیعت میں مال و جاہ کی طلب ہوتی ہے۔

٭ اگریہ کہا جائے کہ : ان لوگوں نے جھوٹ بولا ہے ‘ یا پھر وضوء کا طریقہ نقل کرنے میں ان سے غلطی ہوگئی ہے تو یہی جھوٹ یا غلطی کا احتمال فرد واحد کی روایت میں اس سے بڑھ کر ہے۔

٭ اگر یہ کہا جائے کہ : نہیں ‘ بلکہ آیت کا لفظ تواتر کے ساتھ ثابت ہے جس میں غلطی کا احتمال و امکان نہیں ۔

٭ تو اس کا جواب یہ ہے کہ : وضوء کا طریقہ بھی اسی طرح نقل متواتر کے ساتھ ثابت ہے۔اور آیت کے الفاظ کا ثابت شدہ سنت کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ۔اس لیے کہ لفظ مسح دو جنس کو شامل ہے:

۱۔ اسالہ [پانی بہانا] ۲۔غیر اسالہ[صرف ہاتھ پھیرنا]

جیسا کہ عرب کہتے ہیں : ’’تمسحّت للصلاۃ ۔‘‘(میں نے نماز کے لیے مسح کیا)۔پس جو چیز اسالہ [پانی بہانے] سے ہو اسے غسل کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر کسی ایک نوع کو غسل کے نام کے ساتھ خاص کیا جاسکتا ہے تو دوسری قسم کو بنام ِمسح بھی خاص کیا جاسکتا ہے۔ پس لفظ مسح عام ہے جس کے تحت غسل کا لفظ بھی آجاتا ہے۔ اور کبھی یہ لفظ خاص ہوتا ہے جس کے تحت غسل کا معنی شامل نہیں ہوتا۔ 

اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ مثال کے طور پر ’’ذوی الارحام ‘‘ کے لفظ کو لیجیے۔ یہ لفظ تمام عصبہ اوراصحاب الفروض کو شامل ہے۔تو پھر جب عصبہ اور اصحاب الفروض کے کچھ خاص اسماء بھی تھے تو اب صرف ’’ذوی الارحام ‘‘ کا لفظ باقی رہ گیا۔ یہ عرف میں ان لوگوں کے لیے مختص ہوگیاجنہیں فرائض یا تعصیب کسی ایک میں سے بھی میراث کوئی حصہ نہیں ملتا۔ 

یہی حال لفظ ’’جائز ‘‘اور’’ مباح ‘‘ کا ہے۔یہ ان تمام چیزوں کے لیے عام الفاظ ہیں جو کہ حرام نہ ہوں ۔ پھر انہیں پانچ اقسام میں سے کسی ایک کے ساتھ خاص کردیا گیا۔

یہی حال لفظ ’’ممکن ‘‘ کا ہے۔یہ اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو ممتنع نہ ہو۔ پھر اسے اس کے لیے خاص کردیا گیا جو نہ ہی واجب ہو اور نہ ہی ممتنع ۔پس واجب اور جائز ‘ ممکن؛ اورخاص و عام کے مابین فرق کیا جائے گا۔ یہی حال لفظ ’’حیوان ‘‘ کا ہے۔یہ لفظ انسان اور دوسروں کو شامل ہے۔ مگر بعد میں اسے غیر انسان کے لیے مختص کردیا گیا ہے ۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔

جب دو اقسام میں سے کسی ایک کا ایسا نام ہو جو صرف اسی کے ساتھ خاص ہو‘ تو پھر دوسری قسم کے لیے اسم عام ہی باقی رہ جاتا ہے۔ لفظ مسح کا تعلق بھی اسی باب سے ہے۔ بلکہ غسل بھی مسح کی ہی ایک قسم ہے۔ قرآن کی آیت میں وارد لفظ مسح سے مراد وہ مسح نہیں جو کہ غسل کے ساتھ اس لفظ سے مراد دوسری قسم ہے ؛ بلکہ اس سے مراد عین غسل ہے جو کہ معانی مسح میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾۔ ’’ دونوں ٹخنوں تک ۔‘‘یہ نہیں فرمایا کہ : ٹخنے تک ۔ جیساکہ ہاتھ دھونے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا:﴿اِلَی الْمَرَافَقِ ﴾۔ ’’کہنیوں تک ۔تواس سے واضح ہواکہ ہر پاؤں ایسے ہی ایک ٹخنہ نہیں ہے جیسے کہ ہر ہاتھ میں ایک کہنی ہوتی ہے ‘ بلکہ ہر پاؤں میں دو ٹخنے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جوان دو ابھری ہوئی ہڈیوں تک مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے مراد انہیں دھونا ہے۔اس لیے کہ اگراس سے مراد عرف عام کا مسح ہوتا تو پھر پاؤں کی پشت پر ہاتھ پھیر کی مسح کرلینا ہی کافی تھا۔ [مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ دھونے کی حد مقرر کردی گئی ہے ]۔ 

دوسری جو بات اہم ترین ہے وہ یہ کہ : پہلے دو دھوئے جانے والے اعضاء کا ذکر کرکے پھر مسح والے عضو کا ذکر کرنا اور پھر دھوئے جانے والے عضوکاذکر نا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے دو اعضاء میں وضوء کرنے کے لیے ہر حال میں دھونا واجب ہے ؛ اور تیسرے عضو میں ہر حال میں مسح ہی واجب ہے جب کہ چوتھے عضوء میں کبھی دھونا ہی واجب ہوتا ہے؛جس وقت کہ پاؤں کھلے ہوئے ہوں ؛ اور کبھی موزے پہنے ہوئے ہونے کی صورت میں مسح بھی کفایت کرجاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر سنت کے ساتھ پاؤں کو دھونا اور ان پر مسح کرنا دونوں باتیں ثابت ہیں ۔ رافضی اس سنت متواترہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔جیساکہ خوارج بھی اس جیسی سنت میں مخالفت کے مرتکب ہیں ۔ یہاں پر یہ وہم پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا عمل ظاہر قرآن کے مخالف ہے۔ایسا ہر گز نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ دونوں سنتیں ثابت ہیں ؛ پاؤں کودھونا اور ان پر مسح کرنا ۔ یہ تواتر چوتھائی دینار ‘ یا تین دراہم یا دس دراہم میں چور کا ہاتھ کاٹنے یا اس جیسے دیگر متواترات سے بڑھ کر ہے۔

پاؤں کا ذکر کرتے ہوئے مسح کا لفظ ذکر کرنا اس بات کی طرف تنبیہ بھی ہے کہ پاؤں دھوتے وقت پانی کم استعمال کیا جائے اور اس میں اسراف سے کام نہ لیا جائے۔ کیونکہ عام عادت کے مطابق پاؤں دھوتے ہوئے پانی بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جو کہ فضول خرچی کی علامت ہے۔نیز اس میں کلام کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ کلام لیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ جب معطوف اور معطوف علیہ پرواقع ہونے والے فعل کی جنس ایک ہی ہو تو پھران میں سے کسی ایک کا ذکر کر لیا جانا ہی کافی ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿یَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ oبِاَکْوَابٍ وَّاَبَارِیقَ وَکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ o لَا یُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا یُنزِفُوْنَ oوَفَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ oوَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ o وَحُورٌ عِیْنٌ ﴾ [الواقعۃ۱۸۔۲۲]

’’ہمیشہ نوجوان رہنے والے خدمت گار لڑکے ان کے پاس پھرتے رہیں گے۔نتھری شراب کے جام و ساغر اور آبخوروں کے ساتھ۔اس شراب سے نہ تو انہیں سردرد ہوگا اور نہ عقل میں فتور آئے گا۔ انہیں وہ پھل(کھانے کو)ملیں گے جو وہ پسند کریں گے۔نیز پرندوں کا گوشت جونسا وہ چاہیں گے۔ اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔‘‘

حالانکہ حور عین کو تو نہیں پھیرایا جارہا ہوگا۔ یہاں پر معنی یہ ہے کہ ان پرہر چیز پیش کی جائے گی۔ یہاں پر ان الفاظ کو حذف کردیا گیا ہے جن کی جنس پر ظاہر میں دلالت موجود تھی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآئُ فِیْ رَحْمَتِہٖ وَالظٰلِمِیْنَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ﴾ [الإنسان ۳۱]

’’وہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

معنی یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کو وہ دردناک عذاب دے گا۔

اس [مذکورہ بالا] آیت [وضوء ]میں دو مشہور قرأتیں ہیں ۔ایک زبر کے ساتھ ہے اور دوسری زیر کیساتھ۔جو لوگ اس کو زبر کے ساتھ [أرجلَکم]پڑھتے ہیں ؛ تو ان میں سے کئی ایک نے کہا ہے کہ : یہاں پر دوبارہ پاؤں دھونے کا حکم دیا جارہا ہے ۔ گویاکہ یوں کہا جارہا ہے : [وامسحوا برؤسکم واغسلوا أرجلَکم إلی الکعبینَ]’’ یعنی اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک دھو لو۔‘‘ان دو قراتوں کا مطلب یہ ہے گویا کہ یہ دو آیتیں ہیں ۔ جن لوگوں [نے اسے زیر کے ساتھ[أرجلِکم]پڑھاہے ؛ان کا ] کہنا ہے : یہ جارو مجرور کی جگہ پرعطف ہے۔اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ : [وامسحوا برؤسکم وامسحوا أرجلِکم إلی الکعبینَ]’’ یعنی اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کا ٹخنوں تک مسح کرلو۔‘‘ عربوں کا یہ کہنا: [مسحت الرجلَ]’’ میں نے اپنے پاؤں کا مسح کیا۔‘‘یہ اس قول کے مترادف نہیں : [مسحت بالرجل]۔اس لیے کہ جب فعل کو حرف باء کے ساتھ متعدی بنایا جائے تو اس سے الصاق ’’یعنی متصل‘‘ کا معنی پیدا ہوتا ہے۔ یعنی میں نے کسی چیز کو اس پر چسپاں کردیا۔اور اگر اس سے حرف باء کو حذف کردیا جائے تو بالاجماع اس سے مجرد مسح ہی مراد ہوگا۔ تو اس سے واضح ہوگیا کہ یہاں پر پانی کے ساتھ پاؤں کا مسح کرنا مقصود ہے ؛ جس سے مراد پاؤں کا دھونا ہے ۔ یہ ایک مجمل کلام ہے جس کی تفسیر و توضیح سنت نبوی سے ہوتی ہے اور زیر کے ساتھ قرأت سے یہی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

خلاصہ کلام ! قرآن میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کی بنا پر پاؤں دھونے کے وجوب کی نفی ہو۔بلکہ اس میں مسح کا وجوب ہے۔اگر اس بات کو مقدر مان لیا جائے کہ سنت نے قرآن کی عبارت سے زائد کسی چیز کوواجب کیا ہے ؛ تو پھر بھی اس صورت میں قرآنی حکم میں کوئی فرق نہیں آتا۔تو پھر اس صورت میں کیسے کوئی اعتراض کرسکتا ہے جب سنت قرآن کی وضاحت اور تفسیر کررہی ہو۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاچکا ہے۔

جملہ طور پر یہ جان لینا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کی وضاحت کرتی ہے ‘اور اس کی تفسیر بیان کرتی ہے ‘ اس کے معانی پر دلالت کرتی ہے۔ پس سنت متواترہ کا تقاضا وہی ہے جو کہ بعض لوگوں نے قرآن کے ظاہری الفاظ سے سمجھا ہے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لیے قرآن کے الفاظ اور اس کے معانی بیان کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت ابو عبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم سے ان لوگوں نے بیان کیا جو قرآن پڑھایا کرتے تھے‘ جیسے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام؛وہ فرماتے ہیں : ’’ہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک کہ ان کے معانی بھی آپ سے نہ سیکھ لیتے ۔‘‘

جو کچھ امامیہ فرقہ کے لوگ کہتے ہیں کہ: پاؤں کا ٹخنوں تک مسح کرنا فرض ہے؛ تو یہ ایسی بات ہے کہ قرآن سے کسی طرح بھی اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔اورنہ ہی ایسا کرنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔اور نہ ہی سلف امت میں یہ چیز معروف تھی۔بلکہ یہ لوگ قرآن کریم ‘ سنت متواترہ ‘ اور سابقین اولین صحابہ اور تابعین کے اجماع کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ اس لیے کہ [أرجلَکم]کو جب زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اس کا عطف ہاتھوں کے دھونے پر ہوتا ہے۔ پس زبر کے ساتھ اس کی قرأت پاؤں کے دھونے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ ظاہری قرأت قرآن بھی اسی پر دلیل ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو ظاہر قرآن کا بھی کچھ بھی علم نہیں ۔ یہی حال ان تمام لوگوں کا ہے جو ضعیف اقوال پر عمل کرتے ہیں اور ظاہر قرآن پر عمل کے دعویدار ہیں ؛ حقیقت میں وہ لوگ سنت نبوی کی مخالفت کے مرتکب ہیں ۔ اس لیے کہ ظاہر قرآن میں ہر گز کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جو کہ سنت کے مخالف ہو۔ جیسا خوارج کا دعوی ہے کہ ہم سفر میں صرف چار رکعت ہی پڑھیں گے۔ اورجو لوگ یہ کہتے ہیں : صرف میں چار رکعت پڑھنا دو رکعت پڑھنے سے زیادہ افضل ہے۔اورجو لوگ کہتے ہیں :ہم ایک گواہ اور قسم کی موجودگی میں حکم نہیں لگا سکتے۔

اس مسئلہ پر کئی مواقع پر تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ اور یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ جس پر ظاہر قرآن دلالت کرتا ہے ‘ وہ حق ہے۔اور یہ عام مخصوص نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں پرکوئی لفظی عموم نہیں پایا جاتا ۔ بلکہ یہ مطلق ہے ۔ جیسا فرمان الٰہی ہے:

﴿ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ ﴾۔[التوبۃ ۵]

’’ اورمشرکین کو قتل کرو۔‘‘

یہ تمام اعیان مشرکین کے لیے عام حکم ہے۔اور تمام احوال میں مطلق ہے۔ اور جیسا کہ فرمان الٰہی ہے :

﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ﴾۔[النساء۱۱]

’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت فرماتا ہے۔‘‘

یہ حکم بھی تمام اولاد کے لیے عام ہے اور ہر حال میں مطلق ہے۔

لفظ ’’ظاہر ‘‘ سے کبھی مراد وہ چیز ہوتی ہے جو کسی انسان کے لیے ظاہر ہو۔ اور کبھی اس سے مراد وہ معنی ہوتا ہے جس پر لفظ دلالت کرتا ہو۔ پہلی مراد لوگوں کے افہام کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ اور قرآن میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو کہ فاسد فہم کے خلاف ہیں ۔ جب کہ ساری بحث کا مرکز دوسرا معنی ہے ۔