فصل: ....حج تمتع اورمتعہ کا مسئلہ
امام ابنِ تیمیہؒفصل: ....حج تمتع اورمتعہ کا مسئلہ
[اعتراض]: رافضی مصنف کہتا ہے : ’’ اور جیساکہ متعتین جن کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ متعۃ الحج کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے :
﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہُدْی﴾ [البقرۃ۱۹۶]
’’ تو جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرہ کرنے کا فائدہ اٹھانا چاہے وہ قربانی کرے جو اسے میسر آ سکے۔‘‘
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا تو حج تمتع کے چھوٹ جانے پر افسوس کااظہار کیا؛اورفرمایا : ’’اگر مجھے اس کا بروقت علم ہوجاتا تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور میں بھی تم سے پیچھے نہ رہتا۔‘‘اور متعہ نساء کے متعلق فرمایا:
﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ﴾ [النساء ۲۳]
’’اور ان خواتین میں سے جن سے تم فائدہ اٹھالو ‘ انہیں ان کی اجرت دیدو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع کے دور میں ان دونوں چیزوں کے متعلق یہی عمل سنت رہا۔ یہاں تک کہ عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور اعلان کیا :
’’ دو قسم کے متعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلال تھے؛ میں ان سے منع کرتا ہوں ۔ اور ایسا کرنے والوں کو سزا دو ں گا ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔
[جواب]: اس رافضی سے کہا جائے گا کہ: حج تمتع کے جواز پر تمام ائمہ اسلام کا اتفاق ہے۔یہ دعوی کرنا کہ اہل سنت نے حج تمتع کی حرمت کی بدعت گھڑ لی ؛یہ ان پر جھوٹا الزام ہے۔بلکہ اکثر علماء اہل سنت حج تمتع کو یا تو واجب کہتے ہیں اور اسے ترجیح دیتے ہیں یا پھر اسے مستحب سمجھتے ہیں ۔تمتع ایک جامع نام ہے جو ان لوگوں کو شامل ہے جو کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرلیں اور پھر اسی ایک سفر میں حج بھی کریں ‘خواہ اس نے عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوکردوبارہ حج کا احرام باندھا ہو یا پھر بیت اللہ کا طواف شروع کرنے سے قبل حج کی نیت کرلی ہوتو اس کا حج قران ہوجائے گا۔ یا پھر طواف کے بعد صفاومروہ کے مابین سعی کرتے ہوئے حلال ہونے سے پہلے اس لیے حج کی نیت کرلی کہ وہ اپنے ساتھ قربانی کا جانور بھی لایا تھا یاپھر مطلق طور پر حج کی نیت کرلی۔اور بسا اوقات تمتع سے مراد حج کے مہینوں میں عمرہ کرلینا بھی لیا جاتا ہے ۔
اکثر علماء جیسے امام احمد بن حنبل اور دیگر فقہاء حدیث رحمہم اللہ ؛اور امام ابو حنیفہ اور دیگر فقہائے عراق رحمہم اللہ ؛ اور ایک قول میں امام شافعی اور دیگر فقہائے مکہ رحمہم اللہ ؛ حج تمتع کو مستحب کہتے ہیں ۔ اگرچہ ان میں ایسے بھی ہیں جو کہ حج قران کو ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ۔اور بعض فقہاء بالخصوص حج تمتع کو ترجیح دیتے ہیں ؛جیسا کہ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ سے ایک قول میں منقول ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ سے صراحت کے ساتھ منقول ہے کہ : اگر حاجی اپنے ساتھ قربانی لیکر آیا ہے تو پھر اس کے حق میں حج قرآن افضل ہے۔اور اگر قربانی ساتھ نہیں لایا تو پھر عمرہ کے بعد احرام کھول کر حلال ہوجانا ہے افضل ہے۔اس لیے کہ حج قران خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ اور حج تمتع کا اپنے صحابہ کرام میں سے ان لوگوں کو حکم دیا تھا جواپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لائے تھے۔‘‘[البخاری ۲؍ ۱۵۹ ؛ کتاب تقضی الحائض المناسک کلہا إلا الطواف ؛ مسلم ۲؍ ۸۷۹ ؛ کتاب الحج ؛ باب بیان وجوہ الاحرام ۔ سنن أبی داؤد ۲؍ ۲۱۰ ؛ کتاب المناسک ؛ باب افراد الحج۔]
٭ بلکہ بہت سارے علمائے اہل سنت والجماعت ایسے بھی ہیں جو حج تمتع کو واجب کہتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا گیا ہے؛ اہل جیسے امام ابن حزم وغیرہ کا یہی قول ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کاحکم دیا تھا۔
٭ جب اہل سنت والجماعت حج تمتع کے جواز پر متفق اوریک زبان ہیں اور اکثر لوگ اسے مستحب کہتے ہیں ؛ اور ان میں ایسے بھی ہیں جو حج کی اس قسم کوواجب کہتے ہیں ۔تو اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اہل سنت پر حج تمتع کے حرام ہونے کی بدعت ایجاد کرنے کا الزام لگارہے ہیں ‘ وہ اپنے اس قول میں سخت جھوٹے ہیں ۔
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جو نقل کیا گیا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ : تصور کیجیے : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بات کہہ دی ؛ جس میں دوسرے صحابہ کرام اور تابعین نے آپ کی مخالفت کی ہو؛ یہاں تک کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں حج تمتع کیا؛ اور اس کے متعلق قرآن نازل ہوا؛پھر ایک آدمی نے اپنی مرضی سے اس میں کچھ کہہ دیا۔‘‘[البخاری۲؍۱۴۴؛کتاب الحج ؛ باب التمتع علی عہد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ مسلم ۲؍۹۰۰ ؛ کتاب الحج باب جواز التمتع ؛ سنن النسائی ۵؍ ۱۲۰ ؛ کتاب المناسک باب التمتع ۔]
٭ اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ لوگوں میں سے ہر ایک کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ؛ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے۔ پس رافضی کا اگر مقصد مطلق طور پر اہل سنت والجماعت پر رد کرناہے تو پھر یہ اعتراض ان پر وارد نہیں ہوتا۔اور اگرمقصد یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ میں خطاء کا ارتکاب کیا ہے تو پھر بھی اہل سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو بھی خطاء سے منزہ ومبرا نہیں مانتے۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی خطائیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت بہت کم ہیں ۔ علماء نے فقہ کے وہ مسائل جمع کیے ہیں جن میں ان دو میں سے کسی ایک کے قول کو ضعیف قرار دیا گیا ہے؛ تو پتہ چلا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زیادہ اقوال ضعیف ہیں ۔ مثال کے طور پر:
۱۔ بیوہ کی عدت کے مسئلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فتوی یہ ہے کہ : اس کی عدت ابعد الاجلین (یعنی زیادہ لمبے وقت والی) ہے۔ جبکہ کتاب اللہ کے موافق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سنت یہ ہے کہ بچہ جننے کے ساتھ ہی اس کی عدت ختم ہوجائے گی۔ یہی فتوی حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا ہے۔
۲۔ آپ کا فتوی ہے کہ مفوضہ کا مہر موت کی وجہ سے ساقط ہوجاتا ہے۔ جب کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتوی مہر مثل کا ہے۔ جیساکہ اشجع قبیلہ والوں نے بروع بنت واشق کے مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی نقل کیا ہے۔
۳۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول مسائل میں طلاق اور ام الولد اور میراث کے حصوں کے بارے میں متناقض اقوال پائے جاتے ہیں ۔
٭ جوانسان حج کو عمرہ سے فسخ کے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہو؛ تواس مسئلہ میں فقہائے حدیث امام احمد بن حنبل اور دیگر فقہاء رحمہم اللہ کے مابین اختلاف ہے۔ یہ حضرات بطور استحباب حج کو عمرہ سے فسخ کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔اور بعض لوگ اسے واجب کہتے ہیں جیسا کہ ظاہریہ کا مسلک ہے۔یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول اور شیعہ کا مسلک ہے۔ جب کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ فسخ کو جائز نہیں سمجھتے۔اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین بھی اختلاف پایا جاتا تھا۔ بہت سارے صحابہ ایسا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔جب کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ سے اس کی ممانعت نقل کی گئی ہے۔ اگرحج کو عمرہ سے فسخ کرنا درست ہے تو یہ اہل سنت و الجماعت کے اقوال میں سے ایک قول ہے ۔ اوراگرایسا کرنا درست نہیں تو پھر بھی اہل سنت کے اقوال میں سے ایک قول یہ بھی
ہے۔ الغرض حق کسی طرح بھی اہل سنت و الجماعت سے باہر نہیں ۔
٭ اگریہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پراس کے منع کرنے کی وجہ سے قدح کرتے ہیں تو پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بھی آپ سے بڑھ چڑھ کر اس سے منع کرتے تھے؛ آپ فرمایاکرتے تھے : ’’ حج تمتع اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔‘‘
شیعہ حضرات حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور آپ کی بہت زیادہ تعظیم کرتے ہیں ۔ اگر اس مسئلہ میں غلطی کرنا جانا قدح کی موجب ہے تو پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ پر بھی قدح ہونی چاہیے۔ وگرنہ یہ کیا معیار ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پراسی مسئلہ میں قدح کی جائے اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی باری خاموشی اختیار کرلی جائے حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ سے افضل بڑے فقیہ اور بڑے عالم تھے۔
٭ دوسرا جواب یہ ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حج تمتع کوحرام نہیں کیا۔ بلکہ یہ ثابت ہے کہ حضرت ضبی بن معبد رحمہ اللہ نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ عرض کیا کہ : میں نے حج اورعمرہ کا احرام باندھا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’ آپ نے سنت نبوی کی اتباع کے لیے ہدایت پالی ۔‘‘[رواہ النسائی ۵؍۱۱۳؛ کتاب المناسک؛ باب القران ؛ سنن ابن ماجہ ۲؍۹۸۹ ؛ کتاب المناسک باب من قرن الحج والعمرۃ ؛ المسند ط: معارف ۱؍ ۱۸۹ ؛ وصححہ الشیخ أحمد شاکر۔]
٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما لوگوں کو حج تمتع کاحکم دیا کرتے تھے۔ ان سے کہا جاتا کہ : آپ کے اباجی تو اس سے منع کیا کرتے تھے ؛ تو آپ فرمایا جواب میں فرمایا کرتے:’’میرے اباجی کا مقصد وہ نہیں جو کچھ تم لوگ مراد لینے لگے ہو۔‘‘جب لوگ بہت زیادہ اصرار کرتے تو آپ فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ تم ان کی اتباع کرو یاپھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ؟‘‘
٭ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے:’’اگر میں حج کرتا تو تمتع کرتا ؛ اگر میں حج کرتا تو تمتع کرتا ۔‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ لوگوں کو افضل چیز کا حکم دیتے ۔ لوگوں نے سہولت کی وجہ سے اشہر الحج کے علاوہ باقی مہینوں میں عمرہ کرنا چھوڑدیا تھا۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ سارا سال بیت اللہ کو ایسے خالی نہ چھوڑا جائے۔ پس جب لوگ حج افراد کرنے لگیں گے تو باقی سارا سال عمرہ جاری رہے گا۔ اشہر الحج کے علاوہ باقی مہینوں میں حج کرنا اشہر الحج میں حج تمتع کے لیے عمرہ کرنے سے افضل ہے؛ اس پر تمام ائمہ اربعہ اوردیگر علماء کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے۔
٭ ایسے ہی حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی یہ تفسیر منقول ہے: ﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ﴾’’حج اور عمرہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو۔‘‘
[یہ دونوں حضرات ]فرماتے ہیں : حج اور عمرہ کے پورا کرنے کا مطلب یہ ہے ان دونوں کا احرام اپنے گھر سے باندھا جائے ۔ ان حضرات کی مرادیہ تھی کہ : حج کے لیے علیحدہ سفر کیا جائے اور عمرہ کے لیے علیحدہ سفرکیا جائے۔ وگرنہ نہ ہی ان دونوں حضرات نے اپنے گھر سے احرام باندھا اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا اورنہ ہی آپ کے خلفاء راشدین میں سے کسی ایک نے ایسے کیا۔
٭ جب امام اپنی رعیت کے لیے کسی افضل چیز کو اختیار کرے ؛ تو اس صورت میں کسی بات کا حکم دینا گویاکہ اس کی ضد [ الٹ ]سے منع کرنا ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حج تمتع سے منع کرنا افضل کے اختیارکرنے کے لحاظ سے تھا تحریم کے لیے نہیں تھا۔ آپ نے یہ بھی نہیں فرمایا تھا: ’’ میں ان دونوں کو حرام کرتا ہوں ‘‘جیسا کہ رافضی نے نقل کیا ہے ۔ بلکہ آپ نے فرمایا تھا: ’’ میں ان دونوں سے منع کرتا ہوں ۔‘‘پھر حج تمتع سے منع کرنا بھی اس لیے تھا کہ لوگ افضل چیزکو اختیار کریں تحریم کے لیے یہ ممانعت نہیں تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے تو حج کو عمرہ سے فسخ کرنے سے منع کیا تھا۔
٭ بہت سارے فقہاء کے نزدیک فسخ حرام ہے۔یہ اجتہادی مسائل میں سے ہے۔امام ابو حنیفہ ‘امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ فسخ کو حرام کہتے ہیں ۔لیکن امام احمد رحمہ اللہ اور دوسرے فقہاء حدیث فسخ کو حرام نہیں کہتے؛ بلکہ اسے مستحب کہتے ہیں ‘ اور بعض اسے واجب قرار دیتے ہیں ۔اور اس مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نہیں لیتے۔ بلکہ اس مسئلہ میں حضرت علی ‘ حضرت عمران بن حصین اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کا قول اختیار کرتے ہیں ۔
[متعہ کا مسئلہ]:
٭ ایسے ہی عورت سے متعہ کرنا بھی متنازع فیہا مسائل میں سے ایک ہے۔آیت کریمہ میں اس کے حلال ہونے کے متعلق نص صریح نہیں پائی جاتی۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے:
﴿وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِہٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا﴾۔[النساء ۲۳]
’’ ان کے ماسوا جتنی بھی عورتیں ہیں انہیں اپنے مال کے ذریعہ حاصل کرنا تمہارے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، محض شہوت رانی نہ ہو۔ پھر ان میں سے جن سے تم (نکاح کا)لطف اٹھاؤتو انہیں ان کے مقررہ حق مہر ادا کرو۔ ہاں اگر مہر مقرر ہوجانے کے بعد زوجین میں باہمی رضا مندی سے کچھ سمجھوتہ ہوجائے تو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ یقیناً سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
٭ اس آیت میں یہ قول: ﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُن﴾’’پھر ان میں سے جن سے تم لطف اٹھاؤ‘‘یہ تمام مدخول بہا عورتوں کو شامل ہے۔اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان تمام عورتوں کو ان کا حق مہر ادا کیا جائے۔بخلاف اس عورت کے جسے دخول سے پہلے ہی طلاق ہوجائے؛ اور اس سے کوئی لطف نہ اٹھایا گیا ہو۔ اس لیے کہ ایسی عورت صرف آدھے مہر کی حق دار ہوتی ہے؛ پورے مہر کی نہیں ۔ یہ بالکل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے:
﴿وَ کَیْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَ قَدْ اَفْضٰی بَعْضُکُمْ اِلٰی بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا﴾۔[النساء ۲۱]
’’اور تم لے بھی کیسے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔‘‘
٭ اس آیت کریمہ میں عقد ِنکاح کیساتھ ایک دوسرے سے لطف اندوزی کو استقرار مہر کا موجب قرار دیا ہے۔اس سے واضح ہوا کہ اس میں اجرت کی ادائیگی کو نکاح ِ مؤبد کو چھوڑ کو نکاح مؤقت کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ بلکہ نکاح مؤبد میں پورا مہر ادا کرنا یہ زیادہ اولی ہے۔تو ضروری ہوا کہ آیت بھی نکاح مؤبد پر دلالت کرتی ہو۔ خواہ یہ دلالت بطور تخصیص کے ہو یا بطور عموم کے۔
٭ اس کی یہاں سے بھی ملتی ہے کہ نکاح کے بعد لونڈیوں کا ذکر کیا گیا ہے؛ تو اس سے معلوم ہوا کہ جوکچھ اس سے پہلے بیان گزرا ہے وہ مطلق طور پرآزاد عورتوں سے نکاح کے متعلق تھا۔
[اعتراض]: اگر کوئی یہ بات کہے کہ : ایک قرأت میں یوں بھی آیا ہے:﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ اِلیَ اَجَلٍ مُّسَمّٰی﴾ ’’پھر ان میں سے جن سے تم لطف اٹھاؤ ایک مقررہ وقت تک ۔‘‘[(الی اجل مسمی):کی قرأت کے راوی صرف عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں جن کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صرف ۱۳ سال تھی۔ جمع و تدوین قرآن کے وقت آپ قسم اٹھا کر کہتے ہی رہے کہ یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے (اور ممکن ہے کہ جن ایام میں متعہ کا جواز تھا یہ قرات بھی پڑھی گئی ہو۔ لیکن ایسی قرات بھی رخصت اور نسخ کے ضمن میں آتی ہیں )۔مگر آپ کی اس بات کو دو وجوہ کی بنا پر پذیرائی نہ ہو سکی۔ ایک یہ کہ جمع و تدوین قرآن کے معاملہ میں خبر متواتر کو قبول کیا گیا تھا اور آپ کی یہ خبر واحد تھی۔ جس کا دوسرا کوئی راوی نہ تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ پہلے سے دو مکی سورتوں مومنون اور معارج میں یہ محکم آیات موجود تھیں : ﴿والذِین ہم لِفروجِہِم حافِظون﴾(المؤمنون)یعنی حفاظت فروج کے دو ہی ذریعے ہیں ایک بیوی ، دوسرا لونڈی۔ ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حد سے گزرنا ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ ممتوعہ عورت نہ بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی۔ لونڈی نہ ہونے میں تو کوئی کلام نہیں اور بیوی اس لیے نہیں ہوتی کہ بیوی کو میراث ملتی ہے۔ اور ایسی عورت کو میراث نہیں ملتی۔ نکاح متعہ ایک اضطراری رخصت تھی:۔دور نبوی میں نکاح متعہ تین مواقع پر مباح کیا گیا اور پھر ساتھ ہی اس کی حرمت کا اعلان کیا۔ یہ جنگ خیبر، فتح مکہ اور اوطاس اور جنگ تبوک ہیں ۔ ان مواقع پر ابتدا نکاح متعہ کی اجازت دی جاتی تھی اور جنگ کے اختتام پر اس کی حرمت کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ گویا یہ ایک اضطراریرخصت تھی۔ اور صرف ان مجاہدین کو دی جاتی تھی جو محاذ جنگ پر موجود ہوتے تھے اور اتنے عرصہ کے لیے ہی ہوتی تھی۔ اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جنگ بدر، احد اور جنگ خندق کے مواقع پر ایسی اجازت نہیں دی گئی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے حنین کے دن ایک لشکر اوطاس کی طرف روانہ کیا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا، مسلمانوں نے فتح پائی اور بہت سے قیدی ہاتھ آئے۔ صحابہ کرامث نے ان قیدی عورتوں سے صحبت کرنے کو گناہ سمجھا کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر عدت کے بعد ان لونڈیوں کو ان کے لیے حلال کر دیا۔ (مسلم۔ کتاب الرضاع، باب جواز وطی المسبیۃ)(]
[جواب]: پہلی بات یہ قرأت متواتر نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ خبرواحد کی طرح ہی ہوسکتی ہے ۔ تو ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ شروع اسلام میں متعہ حلال تھا۔لیکن انکار تو اس مسئلہ میں قرآن سے استدلال لینے پرہے۔
٭ دوسری بات: ان حروف میں اگرچہ قرآن نازل ہوا تھا؛ لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ قرأت مشہور اورثابت قرأء ات میں سے نہیں ۔پس اس لحاظ سے یہ قرأت منسوخ ہوگی۔اور اس کانزول اس وقت ہوا ہوگا جب متعہ مباح تھا ۔ جب متعہ حرام ہوگیا تو یہ قرأت بھی منسوخ ہوگئی۔ تو اس صورت میں مہردینے کا حکم مطلق نکاح میں
[صحیح مسلم شریف میں حضرت سیرہ بن معبد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے غزوہ میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ نے ارشاد فرمایا اے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی رخصت دی تھی یاد رکھو بیشک اب اللہ تبارک و تعالی نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے جس کے پاس اس قسم کی کوئی عورت ہو تو اسے چاہئے کہ اسے چھوڑ دے اور تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہو اس میں سے ان سے کچھ نہ لو۔‘‘قیدی عورتوں اور لونڈیوں سے تمتع کی شرائط یہ تھیں : ۱۔ صرف اس قیدی عورت سے تمتع کیا جا سکتا ہے جو امیر لشکر دیگر اموال غنیمت کی طرح کسی مجاہد کی ملکیت میں دے دے۔ اس سے پہلے اگر کوئی شخص کسی عورت سے تمتع کرے گا تو وہ دو گناہوں کا مرتکب ہوگا۔ ایک زنا کا اور دوسرے مشترکہ اموال غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ان میں خیانت کا۔ ۲۔ امیر لشکر کا کسی عورت کو کسی کی ملکیت میں دینے کے بعد اس سے نکاح کی ضرورت نہیں رہتی۔ ملکیت میں دے دینا ہی کافی ہوگا اور اس کا سابقہ نکاح از خود ختم ہو جائے گا۔ ۳۔ تقسیم کے بعد ایسی عورت سے فوری طور پر جماع نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اسے کم از کم ایک حیض نہ آ لے۔ اور یہ معلوم نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں اور اگر وہ حاملہ ہو گی تو اس کی عدت تا وضع حمل ہے۔ اس سے بیشتر اس سے جماع نہیں کیا جا سکتا۔ اور مزید احکام یہ ہیں : ۴۔ ایسی عورت سے صرف وہی شخص جماع کرسکتا ہے جس کی ملکیت میں وہ دی گئی ہو۔ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ ۵۔ اگر اس قیدی عورت سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ ۶۔ اگر ایسی قیدی عورت کو اس کا مالک کسی کے نکاح میں دے دے تو پھر وہ اس سے دوسری خدمات تو لے سکتا ہے لیکن صحبت نہیں کر سکتا۔ ۷۔ جب عورت سے مالک کی اولاد پیدا ہو جائے تو مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائیگی۔ شرعی اصطلاح میں ایسی عورت کو ام ولد کہتے ہیں ۔ ۸۔ اگر امیر لشکر یا حکومت ایک عورت کو کسی کی ملکیت میں دے دے تو پھر وہ خود بھی اس کو واپس لینے کی مجاز نہیں ہوتی۔ الا یہ کہ اس تقسیم میں کوئی ناانصافی کی بات واقع ہو جس کا علم بعد میں ہو۔ اس طرح چند در چند شرائط عائد کر کے اسلام نے ایسی عورتوں سے تمتع کی پاکیزہ ترین صورت پیش کر دی ہے جس میں سابقہ اور موجودہ دور کی فحاشی، وحشت اور بربریت کو حرام قرار دے کر اس کا خاتمہ کیا گیا ہے اور تمتع کے بعد اس کے نتائج کی پوری ذمہ داری مالک پر ڈالی گئی ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ 'جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو وہ اس کی تعلیم و تربیت کرے اسے ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔(بخاری، کتاب العتق، باب فضل من ادب جاریتہ و علمھا)ان سب باتوں کے باوجود یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ لونڈیوں سے تمتع ایک رخصت ہے حکم نہیں ہے اور یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ایسی اجازت دے دی ہے کیونکہ جہاد اور اس میں عورتوں کی گرفتاری ایسی چیز ہے جس سے مفر نہیں اور ایسا بھی عین ممکن ہے کہ جنگ کے بعد قیدیوں کے تبادلہ یا اور کوئی باعزت حل نہ نکل سکے اسی لیے اللہ نے سے کلیتا حرام قرار نہیں دیا۔]رہ گیا۔
٭ اس کی زیادہ سے زیادہ حدیہ ہوسکتی ہے کہ یوں کہاجائے: یہ دونوں قرأتیں ہیں اور دونوں حق ہیں ’ اورمقررہ وقت تک لطف اندوزی کی صورت میں عورت کا حق دینے کا حکم اسی صورت میں نافذ ہوگا جب یہ حلال ہو۔ اوریہ سارا معاملہ اس وقت تک تھا جب تک ایک مقررہ وقت تک کے لیے نکاح کرنا حلال تھا۔ یہ اسلام کے شروع کی بات ہے۔ اب اس آیت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے ایک مقررہ وقت تک نکاح کے حلال ہونے کا ثبوت مل سکتا ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ : ’’ میں تمہارے لیے عورتوں سے ایک مقررہ وقت تک کے لیے لطف اندوزی کو حلال کرتا ہوں ۔‘‘بلکہ یہ ارشاد فرمایا :﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ﴾ ’’پھر ان میں سے جن سے تم (نکاح کا) لطف اٹھاؤتو انہیں ان کے مقررہ حق مہر ادا کرو۔‘‘
پس یہ ہر استمتاع اور لطف اندوزی کو شامل ہے جو یا تو حلال ہو یا پھر شبہ کی وجہ سے وطی واقع ہوجائے۔
٭ یہی وجہ ہے کہ نکاح فاسد میں سنت نبوی اور اجماع امت کی روشنی میں مہر مثل واجب ہوجاتا ہے۔ اورجب متعہ کرنے والا اس کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھ کر متعہ کرلے تو اس پر مہر واجب ہوجاتا ہے ۔ جب کہ یہ آیت حرام لطف اندوزی کو شامل نہیں ۔اس لیے کہ اگر کسی عورت سے بغیر عقد نکاح کے لطف اندوزی کی گئی ؛ اگروہ عورت اس پرراضی ہو ؛ تو اسے زنا شمار کیا جائے گا۔ اور اس میں کوئی مہر نہیں ہوگا۔ اور اگر اسے زبردستی مجبور کیا گیا تھا تو پھر اس مسئلہ میں اختلاف مشہور ہے۔
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جو نکاح متعہ کی ممانعت نقل کی جاتی ہے ؛ تو یہ بات یقیناً ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو حلال قرار دینے کے بعد حرام بھی کردیا تھا۔ ثقہ راویوں نے ایسے ہی نقل کیا ہے۔
٭ بخاری و مسلم میں ہے : امام زہری عبد اللہ و حسن پسران محمد بن حنفیہ سے نقل کرتے ہیں ‘ وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں : جب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے متعہ کو مباح کہا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ’’تم بیکار آدمی ہو‘ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن نکاح متعہ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمادیاتھا۔‘‘
امام زہری رحمہ اللہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم اور سنت کے سب سے بڑے محافظ تھے۔ان کے زمانہ میں بڑے بڑے ائمہ اسلام پائے جاتے تھے جیسے حضرت مالک بن انس‘حضرت سفیان بن عیینہ رحمہما اللہ اور دیگر وہ علماء کرام جن کے علم و فضل ؛ عدالت اور حافظہ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اور اس حدیث کے صحیح اور قابل قبول ہونے کے متعلق حدیث کا علم رکھنے والے کسی ایک عالم نے بھی انکار نہیں کیا۔ اور نہ ہی اہل علم میں سے کوئی فرد ایسا ہے جس نے اس حدیث کے صحیح ہونے پر کوئی جرح یا تنقید کی ہو۔
ایسے ہی صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ : فتح مکہ کے غزوہ کے موقع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے ۔‘‘[صحیح مسلم کی یہ حدیث دو صفحات پہلے حاشیہ میں گزرچکی ہے]۔
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کرنے والے راویوں میں اختلاف ہے؛ کہ آپ کا قول : ’’خیبر والے سال ‘‘ کیا یہ گدھے کے گوشت کی حرمت کا وقت بیان کرنے کے لیے ہے یا پھر اس کے ساتھ ساتھ متعہ کی حرمت کے لیے بھی ؟
٭ پہلا قول امام ابن عیینہ رحمہ اللہ اور دیگر علماء کا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ : متعہ فتح مکہ والے سال حرام ہوا ہے ۔ جب کہ دوسرے قول والے اصحاب کا کہنا ہے کہ : خیبر والے متعہ حرام ہواتھا پھر حلال ہوا‘ پھر دوبارہ حرام ہوا۔ اور ایک گروہ کا خیال ہے کہ اس کے بعد بھی ایک بار متعہ حلال ہوا اور حجۃ الوداع والے سال حرام ٹھہرایا گیا۔
٭ اس بارے میں مشہور روایات متواتر کی حدتک پہنچتی ہیں کہ حلال ہونے کے بعد پھر حرام ٹھہرایا گیا۔ درست بات یہ ہے کہ متعہ جب سے حرام ہوا ہے اس کے بعد دوبارہ کبھی حلال نہیں ہوا۔اور اس کی حرمت کا صحیح وقت فتح مکہ کا ہے۔ اس کے بعد کبھی بھی حلال نہیں ہوا۔ خیبر کے موقع پراس کی حرمت نہیں آئی۔خیبر والے سال گھریلو پالتوگدھوں کا گوشت حرام ہوا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما گدھے کے گوشت اور متعہ دونوں کو مباح سمجھتے تھے۔ جس پر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سخت انکار کیااور فرمایا:
’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے کو اور گدھے کے گوشت کو خیبر کے دن حرام ٹھہرایا ہے۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں چیزوں کو ملاکر اس لیے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان دونوں کو مباح سمجھتے تھے ۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ جب آپ کو نہی [ممانعت]کی حدیث پہنچی تو آپ نے اپنے سابقہ قول سے رجوع کرلیا تھا۔
پس اہل سنت والجماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایت پر عمل کے لیے حضرت علی اور دوسرے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی پیروی کرتے ہیں ۔ جب کہ شیعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منقول اس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف چل رہے ہیں ‘اور آپ کی مخالفت کرنے والوں کی پیروی کررہے ہیں ۔
٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں شادی اور ملک یمین کو حلال ٹھہرایا ہے۔ متعہ کروانے والی عورت ان دونوں میں سے کسی ایک قسم سے بھی تعلق نہیں رکھتی۔اس لیے کہ اگریہ بیوی ہوتی تو میاں بیوی دونوں ایک دوسے کے وارث بنتے۔ اور خاوند مرجانے کی صورت میں اس پر وفات کی عدت گزارنا بھی واجب ہوتی۔اس پر طلاق ثلاثہ کے احکام بھی مرتب ہوتے ۔اس لیے کہ بیوی کے یہ احکام کتاب اللہ میں موجود ہیں ۔جب لوازم نکاح ثابت نہیں ہوتے تو نکاح کی نفی ہوگئی ۔ اس لیے کہ لازم کے انتفاء کا تقاضا ہے کہ ملزوم کا بھی انتفاء ہو۔
٭ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دو ہی چیزیں حلال ٹھہرائی ہیں : عقد نکاح اور ملک یمین ۔ اس کے علاوہ جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے اس کا شمار حرام کاموں میں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ oاِِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ oفَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ﴾ ۔ [المؤمنون۵۔۷]
’’اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا(کنیزوں سے)جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ(ان سے ) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں ۔اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے )نکل جانے والے ہیں ۔‘‘
٭ اس تحریم کے بعد متعہ کی جانے والی عورت نہ ہی بیوی رہتی ہے اور نہ ہی ملک یمین۔پس قرآنی نصوص کی روشنی میں اس کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ ملک یمین یعنی لونڈی تو نہیں ہوسکتی؛ یا صاف ظاہرہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہوسکتی کہ یہاں پر نکاح کے لوازم نہیں پائے جاتے۔ اس لیے نکاح کے لوازم میں سے ایک دوسرے کا وارث بننا ‘ اور شوہر کی موت کی صورت میں عدت وفات ؛ اور طلاق ثلاثہ کے احکام کا لازم آنا ہے۔اور اگر دخول سے پہلے طلاق ہوجائے تو اس صورت میں مرد پر آدھا مہر لازم آئے گا۔ان کے علاوہ دیگر لوازم بھی ہیں ۔
٭ اگر یہ کہا جائے کہ : کبھی بیوی ایسی بھی ہوتی ہے جو کہ وارث نہیں بنتی ؛ جیسے کہ : ذمیہ اور لونڈی ۔
٭ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: پہلی بات: شیعہ کے نزدیک ذمیہ سے نکاح جائز نہیں ۔اور لونڈی سے نکاح ضرورت کے وقت میں ہوتا ہے ۔ جب کہ یہ لوگ مطلق طور پر متعہ کو مباح ٹھہراتے ہیں ۔
دوسری بات :....ذمیہ اور لونڈی سے شادی کرنا توارث کے اسباب میں سے ہے؛ مگر یہاں پرتوارث کے موانع پائے جاتے ہیں اور وہ مانع ہے غلام ہونا اور کفر۔ جیسا کہ نسب وراثت کے اسباب میں سے ہے سوائے اس صورت کے کہ بیٹا یا تو کافر ہو یا پھر غلام ہو۔پس مانع اپنی جگہ پر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر غلام بیٹے کو آزادی مل جائے یا پھر کافر بیٹا اسلام قبول کرلے تووہ اس کی زندگی میں والد کا وارث بنے گا۔ بس یہی حال ذمی بیوی کاہے۔اگروہ اپنے شوہر کی زندگی میں اسلام قبول کرلے تو تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ اپنے شوہر کی وارث بنے گی۔اور ایسے ہی اگروہ غلام ہو اور شوہر کی زندگی میں اسے آزادی مل جائے ؛ اوروہ اس نکاح کو برقرار رکھے تو باتفاق مسلمین وہ وارث بنے گی۔ بخلاف اس عورت کے جس سے متعہ کیا گیا ہو؛ اس لیے کہ نکاح متعہ سے وراثت ثابت نہیں ہوتی۔اورنہ ہی کسی بھی صورت میں یہ وارث بن سکتی ہے۔ پس یہ نکاح اس ولد زنا کی طرح ہے جو کسی شوہر کے بستر پر پیدا ہوتا ہے ‘ تواس کا نسب کسی بھی صورت میں زانی سے نہیں ملایا جاسکتا۔ پس وہ اس کا بیٹا ثابت نہیں ہوسکتا کہ اس کا وارث بنے۔
٭ اگر یہ کہاجائے کہ : نسب کے بعض احکام کی تبعیض ممکن ہے ۔ پس کی صورت اس نکاح کی بھی ہے ۔
٭ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ: اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔جمہور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن اس میں شیعہ کے لیے کوئی حجت نہیں ہے۔ اس لیے کہ متعہ کی جانے والی عورت سے بیوی کے تمام احکام منتفی ہیں ۔ اس میں حلال نکاح کے خصائص میں سے کوئی ایک بات بھی نہیں پائی جاتی۔ اور جو چیزیں اس میں ثابت ہیں جیسے : نسب کا الحاق ‘ وجوب استبراء ‘ حدکا خاتمہ؛ وجوب مہر وغیرہ ۔ اس طرح کے احکام تووطیء شبہ میں بھی ثابت ہوجاتے ہیں ۔پس اس سے معلوم ہوا کہ مستمتع سے وطی کرنا حلال بیوی سے وطی کرنے جیسا نہیں ۔لیکن اگر اس کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھا جائے تو پھر اس کی مثال وطی شبہ جیسی ہے۔ رہ گیا یہ مسئلہ کہ کیا اس سے وطی کرنا حلال ہے ؟ تویہ مسئلہ محل نزاع ہے۔ اس سے متنازعین میں سے کوئی ایک بھی استدلال نہیں کرسکتا ۔ بلکہ فریق مخالف پر موارد نص و اجماع سے ہی حجت قائم کی جاسکتی ہے۔