فصل: ....جاگیر فدک کا اعتراض اور اس کا جواب
امام ابنِ تیمیہؒفصل: ....جاگیر فدک کا اعتراض اور اس کا جواب
[اعتراض]: شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: ’’ میرے والد محترم نے مجھے فدک کی جاگیر ہبہ میں عطا کی تھی۔‘‘[فدک مدینہ منورہ سے دو دن کی مسافت پر واقع حجاز میں ایک بستی ہے۔ یہ بستی۷ھ میں غزوہ خیبر کے بعد مصالحت کے نتیجہ میں کسی جنگ و قتال کے بغیر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں آئی۔ اس میں پانی کا چشمہ اور کچھ کھجوروں کے درخت تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آمدنی صدقات و خیرات اور رفاہ عام کے کاموں میں صرف فرمایا کرتے تھے۔حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں اسوۂ نبوی پر گامزن رہے۔حضرت فاروق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے توآپ نے حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما کے ذمہ یہ خدمت تفویض فرمائی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس بستی کی آمدنی کو رفاہ عام کے کاموں میں صرف کرتے رہیں ۔ بعض اوقات حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف رونما ہوتا اور عقدہ کشائی کے لیے بارگاہ فاروقی پر حاضر ہوتے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے مابین فیصلہ صادر کرنے سے گریز فرمایا کرتے تھے۔ جب اموی خلافت کا زمانہ آیا تو فدک کی بستی پہلے مروان پھر اس کے بیٹوں اور پھرحضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی تحویل میں آئی، خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فدک کا مال اپنے پیش رو و خلفاء اربعہ کے مطابق رفاہ عام کے کاموں پر صرف کیا کرتے تھے۔ ۲۱۰ ھ میں خلیفہ مامون کے حکم سے یہ بستی اولاد فاطمہ کے زیر تصرف آئی، چنانچہ محمد بن یحییٰ بن حسین بنزید اور محمد بن عبداﷲ بن حسین بن علی اس کے متولی قرار پائے، خلیفہ متوکل عباسی کے عہد خلافت میں جب فدک کے بارے میں اولاد فاطمہ کے مابین نزاع بپا ہوا تو اس نے حکم دیا کہ فدک کی آمدنی حسب سابق رفاہی کاموں پر خرچ کی جائے جیسا کہ خلافت صدیقی سے لے کرحضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانہ تک ہوتا رہا تھا، یہ طے پایا کہ حکومت اس کی آمدنی اصلاحی کاموں پر صر ف کرے گی اور دوسرا کوئی شخص خواہ وہ اولاد فاطمہ میں سے ہو یا کوئی اور اس کا متولی نہیں ہوگا۔ ایک شیعہ عالم ابن المیشم اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا: بے شک آپ کو اتنا مال ملے گا جو آپ کے والد گرامی لیتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فدک کے باغ سے تمہارا خرچ لیتے تھے باقی غرباء میں تقسیم کر دیتے یا مجاہدین کی ضروریات میں خرچ کر دیتے۔ لہٰذا آپ بتائیں کہ آپ اس باغ میں کیسے تصرف کریں گی۔ انہوں نے کہا: میں اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلوں گی۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ سے وعدہ رہا کہ میں ایسے ہی تصرف کروں گا جیسے آپ کے والد گرامی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا: اﷲ کی قسم کیا تم اس میں ایسے ہی تصرف کرو گے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’ اﷲ کی قسم ! میں ضرور ویسا ہی تصرف کروں گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے اﷲ گواہ ہو جا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس باغ کا غلہ لے کر اہل بیت کیضروریات پوری کرتے اور باقی ماندہ تقسیم کر دیتے ۔ اس طرح حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما نے اپنے اپنے دور خلافت میں کیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس باغ کا انتظام اسی طریقے پر چلایا ۔‘‘ [ شرح نھج البلاغۃ: ۵؍ ۱۰۷۔ الدرۃ النجفیۃ: ۳۳۱] جناب زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ اﷲ کی قسم! (] تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ ’’کوئی کالا یا گورا لائیے جو اس کی گواہی پیش کرے۔‘‘سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ام ایمن رضی اللہ عنہ کو گواہ کے طور پر پیش کیا؛ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ ’’ یہ عورت ہے لہٰذا اس کی شہادت مقبول نہیں ۔‘‘ حالانکہ روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں شہادت دی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’ یہ آپ کے خاوند ہیں لہٰذا ان کی شہادت بھی مقبول نہیں ۔‘‘تمام لوگوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہے اور علی رضی اللہ عنہ اور حق لازم و ملزوم ہیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بروز قیامت میرے حضور حوض کوثر پر وارد ہوں ۔‘‘
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر ناراض ہو گئیں اور حلف اٹھایا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات چیت نہیں کریں گی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور (بعد از وفات)حاضر ہوں گی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا شکوہ کریں گی۔
جب ان کی وفات کا وقت آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی : ’’ مجھے رات کی تاریکی میں دفن کرنا اور میرا جنازہ پڑھنے کے لیے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں بلانا ۔
سب روایات میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ رضی اللہ عنہا ! تیری رضا رضائے الٰہی کے موجب ہے اور تیری ناراضگی اللہتعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے ۔‘‘سب کتب احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ فاطمہ میرا جگرپارہ ہے؛جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی ؛ اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ کو تکلیف دی ۔‘‘ اگر حدیث نبوی ’’لَانُوْرِثُ‘‘ صحیح ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار؛ عمامہ اور خچر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہ دیتے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دعوی کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ قابل ترجیح نہ ہوتا۔اور اہل بیت جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نجاست سے پاک قرار دیا ہے ؛اس چیز کے مرتکب نہ ہوتے جو ان کے لیے جائز نہیں ہے ؛ اس لیے کہ ان پر صدقہ لینا حرام ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بحرین کا مال آیا تو حضرت جابرانصاری رضی اللہ عنہ کے یہ کہنے پر کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاتھا:’’جب بحرین کا مال آئے گا تو میں تمہیں تین لپیں بھر کردوں گا۔‘‘تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ آگے بڑھواور اس تعداد میں لے لو۔‘‘ اس طرح وہ مال ان کو
[اگر معاملہ میرے ہاتھ میں آجائے تو میں اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔‘‘ [شرح نھج البلاغۃ: ۱۶؍۲۲۰ (ومن کتاب لہ الی عثمان بن حنیف الأنصاری)۔ الصوارم المھرقۃ ۲۴۳۔ مبر: ۷۵۔] ستم تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وراثت کا رونا وہ شیعہ روتے ہیں جن کے ہاں عورت کو وراثت نہیں ملتی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کتاب میں یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ اس میں لکھا ہے: جب کوئی شخص فوت ہوجائے تو اس کی غیر منقولہ جائیداد ( مکان، زمین وغیرہ )میں سے عورتوں کو وراثت نہیں ملتی۔ ابو جعفر کہتے ہیں :’’ اﷲ کی قسم! یہ بات علی علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی املا کرائی ہوئی ہے۔‘‘ [بصائر الدرجات: ۱۸۵۔ ح: ۱۴۔ باب فی الائمہ علیہم السلام وأنہ صارت الیھم ....۔‘‘] الکلینی نے ابوجعفر ؑ سے بیان کیا ہے کہ:’’ عورتیں زمینی جائیداد میں کسی چیز کی وارث نہیں ہوتیں ۔‘‘ فروع الکلینی: ۷؍۱۶۷۸ کتاب المواریت، حدیث:۴، باب ان النساء لا یرثن۔ بحار الأنوار:۲۶؍ ۵۱۴۔ ح: ۱۰۱( باب جھات علومھم ....‘‘]
دے دیا گیااور گواہ بھی طلب نہ کیا؛ صرف ان کے قول پر اعتبار کیا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
جواب:
پہلی وجہ: شیعہ مصنف کے اعتراضات میں سے مذکورۃ الصدرواقعہ روافض کا پہلا بہتان نہیں ہے بلکہ وہ ایسے لاتعداد جھوٹ وفساد اور بہتان تصنیف کر چکے ہیں ۔جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ معاملہ دو حال سے خالی نہیں :
شیعہ مصنف نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق جاگیر فدک کے جس دعوی کا ذکر کیا ہے؛ یہ دعوی ان کی میراث کے متناقض ہے۔اگر وہ جاگیر بطور ہبہ آپ کی ملی ہوئی تھی تو پھر اسے بطور وراثت ملنے کا سوال باطل ہے۔ یعنی :
۱۔ اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فدک کی جاگیر ورثہ کی بنا پر طلب کرتی تھیں ، تو یہ ہبہ نہیں ہو سکتا۔
۲۔ اور اگر یہ جاگیر آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی تو ورثہ باطل ہوا۔
اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں یہ جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی۔حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منزہ ہیں ۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ دوسروں کی طرح آپ کا ترکہ ورثاء کے مابین تقسیم کیا گیا تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ آپ نے اپنی بیماری کی حالت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ان کے حق سے زیادہ مال کی وصیت کی حالانکہ آپ وارث تھیں ۔ اوراس طرح کی وصیت کرنا وارث کے حق میں ناروا ہے۔[ یا حالت مرض میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے حق سے زیادہ مال عطا کیا]۔اور اگر حالت صحت میں آپ نے فدک کی جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کی تھی، تو وہ ہبہ قبضہ ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ ہبہ کرنے والا اگر کوئی چیز ہبہ کرے اور جس کو ہبہ کیا گیا ہے، وہ اس پر قابض نہ ہو ، یہاں تک کہ ہبہ کرنے والے کی موت واقع ہو جائے تو ایسا ہبہ جمہور علماء کے نزدیک باطل ہے۔
یہ امر موجب حیرت و استعجاب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک کی جاگیر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کی اور ام ایمن رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا جملہ صحابہ میں سے کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا۔
دوسري وجہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق اس قسم کے دعوی کا دعوی کرنا آپ پر بہتان ہے۔امام ابو العباس بن سریج نے جو کتاب عیسیٰ بن ابان کے رد پر تصنیف کی ہے ؛ جس میں انہوں نے ان کیساتھ’’قسم اور گواہ‘‘ کے بارے میں گفتگو کا تذکرہ کیا ہے اور انہوں نے وہاں پر کئی دلائل ذکر کیے ہیں ؛اور عیسیٰ بن ابان کے معارضات کا جواب دیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ بحتری بن حسان نے حضرت زید بن علی سے حدیث ذکر کی ہے جس میں انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق کہا ہے کہ : انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا تھاکہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فدک کی جاگیر عطا کی تھی۔ اور آپ گواہی میں ایک مرد اور ایک عورت کو لیکر پیش ہوئیں ۔ اور فرمایا: مرد کیساتھ مرد اور عورت کیساتھ عورت ۔ سبحان اللہ ! یہ کتنی عجیب بات ہے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنی میراث کا سوال کیا ؛ اور آپ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ ہم [انبیاء کی جماعت] وارث نہیں بنتے ۔‘‘ دیگر احادیث میں کوئی ایسی چیز روایت نہیں کی گئی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے علاوہ بھی کسی چیز کا دعوی کیا ہو‘ یا کوئی گواہ پیش کیا ہو۔
جریر نے مغیرہ سے اوراس نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے ‘ آپ فدک کی بابت فرماتے ہیں :
’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ جاگیر فدک آپ کو ہبہ کردی جائے ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں سے خرچ کیا کرتے تھے ‘اور بنی ہاشم کی بیواؤں کی شادیاں کراتے اور ان کے کمزور اور ضعیف لوگوں پر خرچ کرتے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں معاملہ ایسے ہی رہا ۔ آپ نے اس کے صدقہ کرنے کا حکم دیا ؛ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسے قبول کرلیا ۔ اور میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس جاگیر کو اسی ڈھنگ پر واپس کرتا ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی۔‘‘[ذکر ابن الجوزِیِ فِی ِکتابِہِ’’سِیرۃِ عمر بنِ عبدِ العزِیزِ،ص:۱۰۹،ط۔المؤیدِ، القاہِرۃِ:۱۳۳۱، ۱۹۲۱، قصۃ عمر بنِ عبدِالعزِیزِ مع أراضیِ فدک التِی ورِثہا عن أبِیہِ وکیف ردہا ِإلی الصدقۃِ۔]
اس کے علاوہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ انہوں نے دعوی کیا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ جاگیر ہبہ کردی تھی۔ ایسی کوئی ایک بھی حدیث متصل سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔اور نہ ہی کسی گواہ نے آپ کے حق میں کوئی ایسی گواہی دی۔اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا تو اسے ضرور نقل کیا جاتا ۔ اس لیے کہ آپ اس جھگڑے میں فریق تھیں ‘ اور آپ کا معاملہ ظاہر تھا۔اس معاملہ میں امت کا بھی اختلاف واقع ہوا؛ اور آپس میں بحث مباحثے ہوئے۔ ان میں سے کسی ایک مسلمان نے بھی یہ گواہی نہیں دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کوئی جاگیر عطا کی ہے۔ یا آپ نے کسی چیز کے بارے میں دعوی کیا ہو۔ یہاں تک کہ بختری بن حسان کا دور آگیا۔اس نے حضرت زید سے کچھ ایسی چیزیں روایت کیں جن کی کوئی اصل ہی نہیں ۔اور نہ ہی یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس سے پہلے کس نے روایت کیا ۔یہ سند اہل علم کے ہاں روایت کردہ احادیث [کی اسناد ]میں سے نہیں ہے: فضل بن مزروق نے البختری سے ؛ اس نے زید سے روایت کیا ہے۔مصنف کو چاہیے تھا کہ بعض ان جملوں پر توقف کرکے غور و فکر کرتا جن کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا ۔
اس روایت میں حضرت زید رحمہ اللہ کے یہ الفاظ بھی ہیں : اگر اس جگہ پر میں ہوتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے ۔ اس سے کوئی بات نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ثابت ہوتی ہے اورنہ ہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ؛ اگرچہ اس [روایت ] کی مخالفت کرنے والا کوئی ایک بھی نہ ہو۔اور اگرچہ اس بارے میں مناظرہ بھی نہ ہواہو ۔ توپھر کیسے یہ ہوسکتا ہے جب کہ اس بارے میں روایات بھی موجود ہوں ۔ دین کی بنیاد اس پر قائم ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت ہوجائے ؛ اورپھر ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کے خلاف کہیں [توحجت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوگی]۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں سے ایسی بات ہوسکتی ہے ؛ جیسا کہ دادی کے مسئلہ پر آپ سے غلطی ہوگئی تھی ؛ مگر جب آپ کو صحیح حدیث پہنچ گئی تو آپ نے اس کی طرف رجوع کرلیا ۔
اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجائے تو پھر بھی رافضی کے لیے اس میں کوئی حجت نہیں ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ نہیں فرمایا: میں اپنے گواہ کے ساتھ قسم اٹھاتی ہوں ؛ اور آپ کو منع کردیا گیا ہو۔ یا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہو کہ : میں گواہ کیساتھ قسم أٹھانے کو جائز نہیں سمجھتا ۔ نیز علماء کرام رحمہم اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ : یہ حدیث غلط ہے۔ اس لیے کہ حضرت اسامہ بن زیدسے زہری روایت کرتے ہیں ان سے مالک بن اوس بن حدثان روایت کرتے ہیں : آپ نے فرمایا: ’’جس چیز سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احتجاج کیا ہے ‘ کہ آپ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین قسم کے اموال تھے : بنو نضیر ۔ خیبر اور فدک۔‘‘[سنن ابی داؤد ۳؍۱۹۵ ؛ کتاب الخراج ]
بنو نضیر کے اموال کوآپ کے نائبین و عمال کے لیے روک کر رکھا گیا تھا۔
فدک کی جاگیر مسافروں اور ابناء سبیل کے لیے تھی۔
خیبر : اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ دو حصے مسلمانوں کے مابین تھے۔اور ایک حصہ آپ کے اہل خانہ کے نان و نفقہ کے لیے تھا۔ جوکچھ آپ کے اہل خانہ کے اخراجات سے بچ جاتا اسے آپ دوحصے کرکے فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیتے تھے۔
حضرت لیث نے عقیل سے ؛ وہ ابن شہاب سے ؛ وہ عروہ سے روایت کرتے ہیں : بیشک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو خبر دی کہ: دختر نبی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے(کسی کو)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے زمانہ خلافت میں بھیجا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں دیا تھا اور خیبر کے بقیہ خمس کی میراث چاہتے ہیں ۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ہاں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے(بقدر ضرورت)کھا سکتی ہے ۔‘‘اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں آپ کے عہد مبارک کے عمل کے خلاف بالکل تبدیلی نہیں کر سکتا ؛اور میں اس میں اسی طرح عمل درآمد کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔‘‘ یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں ذرا سی چیزبھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔‘‘[صحیح بخاری:ح:۱۴۱۶۔۵؍۲۰ ؛ کتاب فضائِلِ أصحابِ النبِیِ، باب مناقِبِ قرابۃِ رسولِ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومنقبۃِ فاطِمۃ۔]
امام زہری رحمہ اللہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے؛ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے پاس آدمی بھیج کر ان سے اپنی میراث طلب کی یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فئے کے طور پر دی تھیں ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصرف خیر جو مدینہ منورہ اور فدک میں تھا اور خیبر کی متروکہ آمدنی کا پانچواں حصہ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؛آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال ؛ یعنی اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ مال میں سے کھا سکتے ہیں ‘‘ ان کو یہ اختیار نہیں کہ کھانے سے زیادہ مال لے لیں ۔‘‘[صحیح بخاری:ح۹۲۵۔ ]
صالح ابن شہاب سے ‘وہ عروہ بن زبیر سے ‘ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں :
’’حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ مال دینے سے انکار کردیااور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس میں تصرف فرمایا ہے میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا ؛میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ عمل سے کچھ بھی چھوڑ دوں گا تو گم کردہ راہ ہو جاؤں گا۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال موقوفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دے دیا تھا۔ لیکن خیبر اور فدک اپنی نگرانی میں رکھا تھا اور کہا تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وقف ہے اور آپ نے ان دونوں کو ان مصارف و ضروریات کے لیے رکھا تھا جو درپیش ہوتے رہتے تھے۔ اور ان کے انتظام کا اختیار خلیفہ وقت کو دیا تھا ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ دونوں آج کی تاریخ تک اپنی اسی حالت و کیفیت میں بطور وقف موجود ہیں۔‘‘[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر۳۴۴۔]
یہ احادیث ثابت شدہ اور اہل علم کے ہاں بڑی معروف ہیں ۔ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جناب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنے والد کی میراث طلب کی تھی۔اس لیے کہ آپ یہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے ۔لیکن جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتائی گئی ؛ توآپ نے اسے مان لیا ‘اور واپس چلی گئیں ۔ اور آپ اسے بطور وراثت کیسے طلب کرسکتی تھیں کہ آپ کے متعلق ان چیزوں کی ملکیت ہونے کا دعوی بھی تھا۔ یہ تو ایک لا یعنی سی بات ہے ۔
اس کتاب کے مصنف [ابن مطہر ] کو چاہیے تھا کہ وہ غور و فکر سے کام لیتا۔ مگر کسی بھی چیز کی محبت انسان کو اندھا کردیتی ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ....میں بھی [قرآن کو] ایسے ہی پڑھتا ہوں ؛ جیسے آپ پڑھتی ہیں ؛ لیکن میرے علم میں آپ نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایاکہ : [یہ سارا مال آپ کے لیے ہے ]
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : کیا یہ مال آپ کے لیے اور آپ کے اقارب کے لیے ہے؟
آپ نے فرمایا : نہیں ؛ اور آپ میرے نزدیک سچی اور امانت دار ہیں ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے اس قسم کا کوئی عہد لیا ہے ‘ یا آپ سے کوئی وعدہ کیا ہے ‘ یا پھر کوئی ایسی بات کہی ہے جس کے موجب یہ صدقات آپ کے ہوسکتے ہیں ؟
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نہیں ‘ایسی کوئی بات نہیں ؛ صرف اتنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’ اے آل محمد ! تمہیں خوشخبری ہو؛ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تونگری لے آئے ہیں ۔‘‘
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ‘ اور آپ بھی سچ کہتی ہیں ۔ آپ کے لیے مال فئے ہے۔ اور میرے علم کے مطابق اس آیت کی تاویل کی روشنی میں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ پورے کا پورا حصہ آپ لوگوں کو دیدیا جائے ۔ لیکن آپ کے لیے آپ کی ضرورت کے مطابق مال فئے ہے ۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات سنتے اور مانتے تھے۔ تو پھر جب آپ کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت گواہ بھی موجود ہوں تو آپ کی بات کیسے رد کی جاسکتی تھی؟
تیسری وجہ :....اگر اس مفروضہ کی صحت تسلیم کر لی جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ بھی تقسیم کیا جاتا؛ تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دعویٰ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اور آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ [اس وراثت میں ]آپ کے شریک ہوتے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کے خلاف صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔اوراگر آپ کاورثہ ناقابل تقسیم تھا تو اس معاملہ میں فریق حریف تمام مسلمان ہیں ؛ ان کے خلاف بھی صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔ البتہ ایسے واقعات میں فقہاء حجاز اور محدثین کے نزدیک مدعی کے حق میں ایک گواہ کیساتھ اس کی حلف کو شامل کر کے فیصلہ صادر کیا جا سکتا ہے۔
بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت کے بارے میں علماء کے دو مشہور اقوال ہیں ، امام احمد سے بھی اس ضمن میں دو روایتیں منقول ہیں :
۱۔ پہلی روایت : مقبول نہیں ، امام ابو حنیفہ، مالک، لیث بن سعد، اوزاعی، اسحاق رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ کا مذہب بھی یہی ہے۔
۲۔ امام احمد کا دوسرا قول: خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہے، امام شافعی ، ابو ثور اور ابن المنذر کی بھی یہی رائے ہے۔
بنا بریں اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کی صحت کو تسلیم بھی کیا جائے، تو حاکم وقت ایک مرد یا ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کر سکتا، خصوصاً جب کہ اکثر علماء کے نزدیک خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہی نہیں ۔اور پھر علماء کرام کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو صرف ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔اور جو کوئی ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کا کہتے ہیں : تووہ بھی طالب دعوی کے لیے اس وقت تک فیصلہ کرنے کا نہیں کہتے جب تک اس سے پختہ حلف نہ لے لیا جائے ۔
چوتھی وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو لے کر آئیں ؛ اور انہوں نے گواہی دی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔’’ سب محدثین نے روایت کیا ہے کہ ام ایمن ایک جنتی خاتون ہیں۔‘‘
جواب :یہ ایک جاہلانہ بات ہے، شیعہ مصنف ایسی روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے جو اس کے حق میں مفید ہونے کی بجائے مضر ہے۔ اگرایسی بات حجاج بن یوسف یا مختار بن ابی عبید جیسے ظالم لوگوں کے منہ سے بھی نکلتی تو اس کی صداقت میں ذرہ بھر بھی شبہ نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مالی معاملات میں ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا خصوصاً جب کہ مدعی ایک ایسی چیز کی ملکیت کا دعویٰ کر رہا ہو جو کسی اور کے زیر تصرف ہو اورظاہر میں وہ کسی غیر کا حق ہو۔مگر یہاں تو اس کے قائل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے صادق القول بزرگ ہیں ۔
[اشکال ]:شیعہ مضمون نگار نے کہا ہے کہ حدیث ’’ ام ایمن ایک جنتی عورت ہے۔‘‘ سب محدثین نے روایت کی ہے۔‘‘
[جواب]: یہ صریح کذب ہے۔ یہ روایت کتب حدیث میں مذکور نہیں اور نہ ہی کسی محدث نے اسے روایت کیا ہے۔ ام ایمن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ رہ چکی تھیں ۔[وجدتْ حدیثین في حق ام أیمن ؛ أم أیمن أمي بعد أمي۔‘‘وضعفہ السیوطي و الألباني في ضعیف الجامع الصغیر ۱؍ ۳۸۹۔ والثانی: من سرہ أن یتزوج امرأۃ من أہل الجنۃ فلیتزوج أم أیمن ۔‘‘ذکر السیوطي أن ابن سعد رواہ عن سفیان بن عقبۃ مرسلاً ؛ وضعفہ الألباني في ضعیف الجامع الصغیر ۵؍ ۲۰۵۔ اس کانام برکۃ بنت ثعلبۃ بن عمرو بن حصن تھا۔ الاصابۃ ۴؍۴۱۵۔ ]یہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچی تھیں اور صحابیات میں بڑی احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں ۔ بایں ہمہ روایت حدیث میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل علم پر افترا پر دازی کر کے کوئی روایت بیان نہیں کی جا سکتی ۔
باقی رہی یہ بات کہ بقول شیعہ مصنف ’’ یہ روایت سب نے ذکر کی ہے۔‘‘ بالکل غلط ہے، ایسا دعویٰ صرف حدیث متواتر کے بارے میں کیا جا سکتا ہے۔ جو شخص اکابر صحابہ کی بیان کردہ حدیث ’’ لَایورث ‘‘ کا منکر ہو اور ام ایمن کے بارے میں ذکر کردہ حدیث کو متواتر قرار دیتا ہو اس کے اجہل الناس اور منکر حق و صداقت ہونے کے بارے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
اگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بشرط صحت حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے بارے میں جنت کی بشارت دی ہے؛ توایسا مژدہ آپ نے دیگر صحابہ کے بارے میں بھی سنایا ہے۔ آپ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں جنت کی بشارت سنائی ہے۔
نیز یہ بھی فرمایا کہ :بیعت الشجرہ میں شمولیت کرنے والوں میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہیں جائے گا۔[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل اصحاب الشجرۃ رضی اللّٰہ عنہم (ح:۲۴۹۶)]
یہ حدیث سنداً صحیح اور محدثین کرام کے نزدیک مسلّم ہے۔وہ حدیث جس میں آپ نے صحابہ کے بارے میں جنت کی شہادت دی ہے، اہل سنن نے متعدد طرق سے بروایت عبدالرحمن بن عوف، سعید بن زید نقل کی ہے۔[سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی الخلفاء( ح:۴۶۴۹،۴۶۵۰) و سنن ترمذی کتاب المناقب۔ باب مناقب سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۵۷) عن سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۴۷) عن عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ ۔]یہ روایات محدثین کے نزدیک عام طور سے معروف ہیں ۔
پھر جن احادیث میں صحابہ کے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، شیعہ ان کی تکذیب کرتے ہیں اور صحابہ پر یہ کہہ کر معترض ہوتے ہیں کہ وہ اس حدیث کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انہوں نے ایک عورت کی گواہی قبول نہیں کی ؛ جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اسے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، کیا اس سے بڑا جہل و عناد اور بھی ہوسکتا ہے؟
علاوہ ازیں یہ ضروری نہیں کہ جو شخص جنتی ہو وہ مقبول الشہادۃ بھی ہو۔اس لیے کہ اس امر کا احتمال موجود ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کا ارتکاب کررہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر حضرت خدیجہ، فاطمہ و عائشہ رضی اللہ عنہم جیسی جنتی عورتیں شہادت دیں تو قرآن کے حکم کے مطابق ان کی شہادت کو مرد کی شہادت کے مقابلہ میں نصف شہادت قرار دیا جائے گا۔ جس طرح ان میں سے کسی ایک کا میراث میں حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔ اور اس کی دیت بھی مرد سے آدھی ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف مذکور نہیں ،تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔پس کسی عورت کے جنتی ہونے سے اس کا مقبول الشہادۃ ہونا لازم نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کر رہی ہو۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک جھوٹا شخص دروغ گوئی سے تائب ہو کر جنت میں جا سکے۔
پانچویں وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لیے قبول نہ کی کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے۔‘‘ یہ صریح کذب ہے ، اگر اس کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی ہمارے حق میں مضر نہیں ۔ اس لیے کہ بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت اکثر علماء کے نزدیک ناقابل قبول ہے۔ جو علماء اس کی قبولیت کے قائل ہیں وہ اس شرط کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ شہادت کا نصاب پورا ہوجائے، مثلاً خاوند کے ساتھ ایک مرد گواہ اور بھی ہو یا دو عورتیں ہوں ، ایک آدمی اور ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر کرنا جب کہ مدعی سے حلف بھی نہ لیں ؛ ناروا ہے۔
چھٹی وجہ :....شیعہ مصنف کی پیش کردہ روایت کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور حق آپ کے ساتھ لگا لپٹا ر ہے گا؛ اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘اور پھر یہ کہنا کہ یہ روایت سب علماء نے بیان کی ہے۔یہ کذب و جہالت کی انتہا ہے۔ یہ روایت بسند صحیح یا ضعیف کسی نے بھی نقل نہیں کی۔ پھر یہ کہنا کس حد تک صحیح ہے کہ ’’ یہ روایت سب محدثین نے بیان کی ہے۔ ‘‘ اس شخص سے زیادہ جھوٹا اور کون ہو سکتا ہے، جو کسی روایت سے متعلق کہے کہ سب صحابہ و علماء نے یہ روایت بیان کی ہے، حالانکہ وہ حدیث اصلاً کسی ایک سے بھی منقول نہ ہو؛ یہ کھلا ہوا کذب و افترا ہے۔
البتہ اگر یوں کہا جاتا کہ بعض علماء نے یہ روایت بیان کی ہے تو یہ بات کسی حد تک دائرہ امکان کے اندر ہوسکتی تھی ۔ لیکن اس روایت کا اعتبار ہی کیا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سراسر بہتان اورجھوٹ ہے ۔ بخلاف اس روایت کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : ’’ام ایمن جنتی عورتوں میں سے ہے ۔‘‘ ایسا کہنا ممکن ہے ۔ اس لیے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نیک عورت تھیں ‘ آپ مہاجرات صحابیات میں سے تھیں ؛ آپ کو جنت کی بشارت دیے جانے میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔بخلاف اس کے کہ کسی ایک انسان کے متعلق کہا جائے کہ : ’’حق اسی کیساتھ ہوگا وہ جہاں کہیں بھی ہوگا اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ایسے کلام سے منزہ ومبراء ہے۔
[مذکورۃ الصدرحدیث درج ذیل وجوہ و اسباب کی بنا پر معنوی اعتبار سے بھی ناقابل قبول ہے]:
اوّل :....حوض نبوی پر اشخاص وارد ہوں گے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا تھا:
’’ تم صبر کرو یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے آملو۔‘‘[البخاری ۵؍۳۳ کتاب مناقب الانصار؛ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للأنصار: ’’اصبروا حتی....۔‘‘و مسلم ۳؍ ۱۴۷۴ ؛ کتاب الإمارۃ ؛ باب الأمر بالصبر عند ظلم الولاۃ‘‘۔]
اور دوسری روایت میں ہے :
’’ بیشک میرا حوض ایلہ سے لیکر عدن تک بڑا ہوگا۔ اور اس حوض پر آنے والے سب سے پہلے لوگ فقراء مہاجرین ہوں گے ۔ پراگندہ سروں والے؛ میلے کپڑوں والے ‘ جو مال دار عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے ‘ اور جن کے لیے بند دروازے نہیں کھولے جاتے ۔ان میں سے کسی ایک کی موت آتی ہے تو اس کی خواہش اس کے سینے میں ہوتی ہے۔ اس کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔‘‘[رواہ مسلم ۴؍۱۹۰۲؛کتاب الفضائل ؛ باب اثبات حوض نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم و صفاتہ؛ البخاری ۳؍۱۹۰]۔سنن الترمذي ۴؍ ۴۷ ؛ کتاب صفۃ القیامۃ ؛ باب ما جاء في صفۃ أواني الحوض ۔]
جب کہ حق کوئی مجسم چیزیا اشخاص میں سے نہیں جو حوض پر وارد ہونے کے قابل ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
’’ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ؛ وہ کتاب اللہ اور میرے اہل بیت کی عترت ؛یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘[سنن الترمذي ۵؍۳۲۸ ؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب أہل بیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ حسن غریب۔]
وہ حدیث [حضرت علی رضی اللہ عنہ والی] بھی اسی باب سے ہے ۔اس میں کچھ کلام بھی ہے جو کہ اپنے موقع پر ذکر کیاجائے گا۔
اگر اس کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے مراد قرآن کاثواب ہوگا۔ رہا یہ مسئلہ کہ حق ایک شخص کیساتھ گھومتا ہو ‘ اور وہ شخص حق کے ساتھ گھومتا ہو ؛ وہ اس شخص کی صفت [لازمہ ] ہو کہ اس سے آگے تجاوز نہ کرسکتا ہو۔ تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا قول سچا ہوگا؛ عمل نیک اور صالح ہوگا ؛ اس سے یہ مراد ہر گزنہیں ہوسکتی کہ اس کے علاوہ کسی غیر کے پاس حق میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔
حالانکہ حق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ گردش کرتا ہے اور دوسرا کوئی انسان اس خصوصیت کا حامل نہیں ۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ میں یہ وصف تسلیم کیا جائے تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم ہونا لازم آتا ہے۔ شیعہ جہالت کی بنا پر عصمت علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ کرتے ہیں ۔جو شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ علی،ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کی نسبت معصوم تر نہ تھے؛بلکہ یوں کہیے کہ ان میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ۔ اورلوگ شیعہ کی دروغ گوئی سے بخوبی واقف ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ بالکل اسی طرح ہیں جس طرح ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ۔ ایسا ہر گز نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ خلفاء ثلاثہ کے فتاویٰ کی نسبت اولیٰ بالصواب ہوں ۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے اقوال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی نسبت ضعیف و مرجوح ہیں ۔یہ بھی درست نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر خلفاء کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ خوش اور ان کے زیادہ ثنا خواں تھے۔ بخلاف ازیں اگر کوئی شخص کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد مرتبہ زجر و عتاب فرمایا تو اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں ہوگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ نبوی میں یہ شکوہ پہنچایا اور کہا: ’’ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت نہیں فرماتے۔‘‘ تو آپ مسجد نبوی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اورفرمایا:
’’بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اپنی بیٹی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینے کی اجازت طلب کی ہے۔واضح رہے کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا،[ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے]۔ البتہ علی رضی اللہ عنہ اگر میری بیٹی کو طلاق دے دیں تو ان کی بیٹی کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں ۔ فاطمہ! میرا جگر پارہ ہے جو اس کو شک میں ڈالتا ہے، وہ مجھے شک میں مبتلا کرتا ہے اور جو چیز اس کو ایذا دیتی ہے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔ پھر آپ نے اپنے ایک داماد [ان کا نام ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبد شمس بن عبد مناف ہے، یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلے داماد اور آپ کی سب سے بڑی دختر فرخندہ اخترحضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے، ان کی بیٹی کا نام امامہ تھا جن کو حالت نماز میں آپ کندھے پر اٹھا لیا کرتے تھے، جب سجدہ کو جاتے تو زمین پر رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے اٹھا لیا کرتے تھے،(صحیح بخاری۔ کتاب الصلاۃ ، باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلاۃ (ح:۵۱۶)،صحیح مسلم۔ کتاب المساجد، باب جواز حمل الصبیان فی الصلاۃ(حدیث:۵۴۳) یہ وہی امامہ بنت ابوالعاص ہیں کہ جب ان کی خالہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا توحضرت علی نے ان سے نکاح کر لیا تھا۔ ابوالعاص متاخر الاسلام ہیں ۔ غزوۂ بدر میں یہ قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے گئے تھے، اور قید کر لئے گئے، جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجا توحضرت زینب نے وہ ہار مدینہ روانہ فرمایا جو رخصتی کے وقت ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو پہنایا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہار پہچان لیا اور آبدیدہ ہو کر فرمایا: ’’ اگر تم مصلحت دیکھو تو زینب کے قیدی کو رہا کر دو اور ہار اسے واپس دے دو۔‘‘ (سنن ابی داؤد۔ باب فی فداء الاسیر بالمال، (ح:۲۶۹۲) (]کا ذکر کیا جو بنی عبد شمس کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے فرمایا:’’ اس (آپ کے داماد ابوالعاص) نے جب بات کی تو سچ بولا اور جب وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔‘‘[صحابہ نے تعمیل ارشاد کر دی۔ بعد ازاں حضرت زینب نے ابو العاص سے ہجرت کی اجازت طلب کی جو اس نے دے دی، ابوالعاص ایک تجارتی قافلہ کو لے کر ملک شام گئے، ساحل سمندر پر مسلمانوں کی ایک جماعت آباد تھی جس میں ابو جندل اور ابو بصیر بھی شامل تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ابو العاص کو قید کر لیا اور مدینہ پہنچادیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: زینب نے ابوالعاص کو مال و متاع سمیت پناہ دی ہے۔قید کرنے والوں نے ابوالعاص کو اسلام لانے کی ترغیب دلائی اور ابو العاص کو مخاطب کر کے کہا ’’ ابوالعاص! آپ اشراف قریش میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ آپ رسول اﷲ کے چچا زاد اور داماد بھی ہیں اگر آپ مشرف باسلام ہوجائیں تو اہل مکہ کا سب مال آپ کو غنیمت میں مل جائے گا۔ابوالعاص نے جواباً کہا ’’ تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے، کہ میں مکر و فریب کے ساتھ اپنے مذہب کو چھوڑوں ۔‘‘ جب آپ نے ابوالعاص کو رہا کیا تو پہلے مکہ گئے اور حق داروں کی ایک ایک پائی ادا کی، پھر کھڑے ہوکر اہل مکہ کو مخاطب کر کے کہا ’’ مکہ والو! بتائیے کیا میں نے واجب الاداء حقوق ادا کیے یا نہیں ۔‘‘؟ انہوں نے کہا ’ اﷲ کی قسم!ضرور۔‘‘ تب ابوالعاص نے کلمہ شہادت پڑھا اور عازم مدینہ ہوئے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کو ابوالعاص کے یہاں بھیج دیا، اور نکاح جدید کی ضرورت نہ سمجھی۔ (مستدرک حاکم (۳؍۲۳۶۔ ۲۳۷) سیرۃ ابن ہشام (ص:۳۱۲،۳۱۴) سنن ابی داؤد۔باب الی متی ترد علیہ امراتہ (ح۲۲۴۰) بذکر النکاح فقط۔ابوالعاص اموی اور ان کے اشباہ و امثال جن بلند اخلاق اور اوصاف کے حامل تھے، ان کا ذکر و بیان یہاں ممکن نہیں ۔ ظہور اسلام سےقبل وہ جس طرح عرب بھر میں ممتاز تھے، اسلام لانے کے بعد تاریخ اسلام میں بھی انہیں بلند مقام حاصل ہوا۔ عربوں کے اخلاق جلیلہ اور ان کی بلند پایہ عربی فطرت ہی ہے جس کی بنا پر اﷲ تعالیٰ نے اس عظیم قوم کو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے منتخب فرمایا۔ صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی ا للّٰہ علیہ وسلم ۔ باب ذکر اصھار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح: ۳۷۲۹ ،۵۲۳۰)۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہ ، (ح:۲۴۴۹ ) اس کے سیاق و سباق میں اختلاف ہے۔]
ایک مرتبہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر دستک دے کر دریافت فرمایا:
’’ کیا تم نماز (تہجد) نہیں پڑھتے۔‘‘؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں جب چاہتا ہے جگا دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر افسوس کے عالم میں اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے چل دئیے، زبان مبارک پر بے ساختہ یہ الفاظ جاری تھے:
﴿ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا ﴾ [الکہف۵۳]
’’انسان جھگڑا کرنے میں سب چیزوں سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘[البخاری، کتاب التہجد۔ باب تحریض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی قیام اللیل ، (ح: ۱۱۲۷) صحیح مسلم ۔ کتاب صلاۃ المسافرین۔ باب الحث علی صلاۃ اللیل و ان قلت۔(حدیث:۷۷۵)۔]
جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ کا تعلق ہے، آپ نے فتوی دیا تھا کہ جب کسی عورت کا خاوند فوت ہوجائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت ’’اَبْعَدُ الَاجَلَیْنِ‘‘ (عدت وفات اور وضع حمل ہر دومیں سے جو بعید تر ہو) ہے، عہد نبوت میں جب ابو سنابل بن بعکک نے یہی فتوی دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو سنابل جھوٹ کہتا ہے۔[صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب فضل من شھد بدراً(ح:۳۹۹۱) صحیح مسلم۔ کتاب الطلاق ، باب انقضاء عدۃ المتوفی عنھا زوجھا، (ح:۱۴۸۴) مسند احمد(۱؍۴۴۷)۔]
اس کے نظائر و امثال بہت ہیں ۔بہر کیف صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا تھا۔جیسا کہ وہ خود اپنے حق میں فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔
ساتویں وجہ :....شیعہ مضمون نگارنے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جو واقعہ ذکر کیا ہے وہ ان کے شایان شان نہیں ۔اس سے کوئی جاہل ترین انسان ہی حجت پکڑ سکتا ہے۔ شیعہ مصنف اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ اس سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش ہو رہی ہے، حالانکہ یہی واقعہ ان کے حق میں تنقیص شان کا موجب ہے ۔ بشرط صحت اس واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں فیصلہ صادر نہ کیا تو آپ کس لیے ناراض ہو گئیں ....؟ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ حق و صداقت پر مبنی تھا، جس کی خلاف ورزی کسی کے لیے بھی درست نہیں ، لہٰذا اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہ تھی۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف اس کے حق میں فیصلہ صادر کیا جائے اور جب حاکم ایسا نہ کر سکے تو وہ اس سے ناراض ہو جائے اور بات چیت ترک کرنے کی قسم کھالے تو یہ بات اس شخص کے لئے نہ موجب مدح ہے اور نہ حاکم کے حق میں سبب جرح و قدح۔ بخلاف ازیں یہ بات ایسا تقاضا کرنے والے کے لیے جرح و قدح سے قریب تر ہے۔
ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا و دیگر صحابہ سے اس قسم کے جو واقعات منقول ہیں ان میں سے اکثر صریح کذب اور بعض تاویل پر مبنی ہیں ۔ اور اگر ان میں سے بعض گناہ کے موجب بھی ہوں تو ہمیں کب اس سے انکار ہے، کیونکہ ہم صحابہ کو معصوم نہیں مانتے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ اولیاء اللہ اور اہل جنت میں سے ہونے کے باوصف گناہوں سے بری نہ تھے۔ ہم پر امید ہیں کہ اللہتعالیٰ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔
رافضی مصنف نے جو ذکر کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کرنے کی قسم کھا لی اور کہا کہ اپنے والد محترم (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مل کر اس کا شکوہ کریں گی؛ یہ بات شان فاطمہ رضی اللہ عنہا کے منافی ہے۔ شکوہ صرف بارگاہ ربانی میں کیا جا سکتا ہے اور بس!قرآن میں ارشاد ہوتا ہے اللہ کے ایک نبی نے کہا تھا:
﴿ اِنَّمَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَحُزْنِی اِلَیْ اللّٰہِ ﴾ (یوسف:۷۶)
’’میں بارگاہ ایزدی میں اپنے حزن و ملال کا شکوہ کرتا ہوں ۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام دعا فرمایا کرتے تھے:
’’بارالٰہی ! مدح و ستائش صرف تیرے لیے ہے، تیرے حضور ہی میں شکایت کی جاتی ہے تجھی سے مدد چاہی جاتی ہے اور تجھی سے فریادرسی کی جاتی ہے، ہمارا تکیہ صرف تیری ہی ذات پر ہے۔‘‘
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے فرمایا تھا :
’’ سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے کیجئے،اور اگر مدد طلب کرنا ہو تو اللہ سے کیجئے۔‘‘[مسند احمد (۱؍۲۹۳،۳۰۷) سنن ترمذی۔ کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب (۵۹) (حدیث: ۲۵۱۶)۔]
آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے سوال کیجئے یا مجھ سے طلب امداد کیجئے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ﴾ (الانشراح:۷۔۸)
یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کوئی شخص حاکم سے مال طلب کرے اور غیر مستحق ہونے کی بنا پر حاکم اس کا مطالبہ پورا نہ کرے اس پر مزید یہ کہ حاکم اس مال کو اپنے عزیز و اقارب پربھی صرف نہ کر رہا ہو بلکہ حسب موقع و مقام سب مستحق مسلمانوں کو دیتا ہو۔[اگر حدیث نبوی ’’ لانورث ‘‘ سے صرف نظر کر لیا جائے تو اس میں شبہ نہیں کہ سیدہ عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہا دونوں ورثاء میں شامل تھیں ،حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے مذکورۃ الصدرحدیث کی تعمیل میں دونوں کو ورثہ سے محروم کر کے آپ کے صدقہ کو عام صدقات میں جمع کر دیا تھا، تاہم آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے، اہل بیت کو بیت المال سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی اجازت دے دی تھی،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جملہ امور میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کے التزام کو قائم رکھا اور ہر صورت میں اسے نبھانے کی کوشش کی، آپ نے بدعات سے کنارہ کش رہنے کی قسم کھائی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑی بدعت اور کیا ہوتی کہ آپ حدیث ’’ لانورث ‘‘ کی خلاف ورزی کرتے، حالانکہ یہ روایت کثیر صحابہ سے مروی ہے، اور خودحضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔] پھر کہا جائے کہ وہ طالب ِمال حاکم سے بگڑ گیا۔ تو ظاہر ہے کہ اس کی ناراضگی کا موجب صرف یہ امر ہے کہ حاکم نے اس کو مال نہ دیا اور یہ کہہ دیا کہ دوسرے لوگ اس کی نسبت اس مال کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس ناراضگی میں طالب مال کے لیے مدح و ستائش کا کوئی پہلو باقی نہیں رہتا اگرچہ طالب مظلوم بھی ہو۔ تا ہم اس کی ناراضگی صرف دنیوی مال کی خاطر ہے۔ اس صورت میں طالب مال کو متَّہم کرنا حاکم کو مطعون قرار دینے کی نسبت اقرب الی الصحت ہے۔ خصوصاً جب کہ حاکم یہ مال خود نہیں لے رہا اور طالب مال اسے خود اپنی ذات کے لیے حاصل کرنے کے درپے ہے۔ حاکم واشگاف الفاظ میں کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مجھے مال دینے سے مانع ہے، میرے لیے یہ کیوں کر روا ہے کہ مستحق سے مال لے کر غیر مستحق کو دے دوں ؟ طالب مال اس کے سوا آخر کیا کہہ سکتا ہے کہ میری ناراضگی کا باعث صرف قلیل مال ہے دگر ہیچ۔
جو شخص سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ایسا واقعہ بیان کر کے اسے ان کی مدح پر محمول کرتا ہے، اس کا جاہل ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے، اللہ تعالیٰ منافقین کی مذمت ان الفاظ میں فرماتے ہیں :
﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ o وَ لَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ﴾ (التوبہ: ۵۸۔ ۵۹)
’’بعض منافق صدقات کے متعلق آپ پر طعن کرتے ہیں ، اگر صدقات مل گئے تو خوش، ورنہ ناخوش اور اگر وہ اللہ کے عطا کردہ مال پر رضا مندی کا اظہار کرتے، اور یوں کہتے کہ اللہتعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے دیتا رہے گا؛اور اس کا رسول، ہماری رغبت صرف بارگاہ ربانی کی جانب ہے ۔‘‘
اس آیت میں منافقین کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ دیے جانے کی صورت میں خوش ہوتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو غیظ و غضب کا اظہار کرنے لگتے ہیں ، منافقین کی زندگی کا یہی پہلو ان کی مذمت کا موجب ہوا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ جو شخص اسی خصوصیت کی بنا پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح سرائی کرتا ہے، جس کی مذمت بیان کی گئی ہے تو وہ بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ روافض نے اہل بیت کی شان میں جو گستاخیاں کی ہیں اور جس طرح ان کی زندگیوں کو داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے،وہ کسی بھی اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے ۔ اہل بیت کی جانب سے اللہ تعالیٰ ہی اس کا انتقام لے گا۔
[اشکال ]:اگر کوئی شخص یہ کہے:سیدہ فاطمہ اپنا حق طلب کرنے آئی تھیں اور حق کا مطالبہ کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ۔‘‘
[جواب]: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو یہود و نصاری تک کے حقوق ادا کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے، بھلا آپ سیدۃ النساء سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق ادا کرنے سے کیوں کر انکار کر سکتے تھے؟، مزید برآں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کیا کرتے تھے، پھر آپ لوگوں کے حقوق اداکرنے سے کیوں کر باز رہ سکتے تھے۔ [سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایک عزیز مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کی مالی امداد فرمایا کرتے تھے، اس ضمن میں سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَلَا یَاتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْـکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُؤْتُوْا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ﴾ (نور: ۲۲)(صحیح بخاری کتاب المغازی، باب حدیث الافک،(حدیث:۴۱۴۱) صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی حدیث الافک (حدیث: ۲۷۷۰) اگر یہ آیت کریمہ کسی انسان کے بارے میں انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی پر نازل ہوتی تو اس نبی کی امت کا سخت بے شرم آدمی بھی اس شخص کی شان میں گستاخی کرنے سے شرم محسوس کرتا، جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی مگرحضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والے جذبہ حیاء سے عاری ہیں ، اس لیے کہ حیا ایمان کا جزء ہے،اور انہیں ایمان سے کوئی سروکار نہیں ۔ ]
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کا مطالبہ کیا تھا؛اور آپ اسے پورا نہ کر سکے۔ بخاری و مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں خادم طلب کرنے آئیں اور آپ نے خادم عطا کرنے کی بجائے ان کوتسبیح کے کلمات پڑھتے رہنے کی تلقین فرمائی۔[صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابۃ باب باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۶۳۱۸) ،صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء باب التسبیح اوّل النھار و عند النوم (حدیث:۲۷۲۷)۔ یہ پوری حدیث اس طرح ہے: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں لیکن آپ موجود نہیں تھے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے اس کے بارے میں انہوں نے بات کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے(]
جب یہ جائز ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ یہ مطالبہ پورا نہ کریں اور اس کا پورا کرنا آپ پر واجب بھی نہ ہو؛ تو اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ وہ خلیفہ رسول سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ اس مطالبہ کی تکمیل سے قاصر رہیں ۔ خصوصاً جبکہ ہم اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا معصوم نہیں اور ممکن ہے آپ ایسا مطالبہ کریں جس کی تکمیل ضروری نہ ہو۔ جب مطالبہ کا پورا کرنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر واجب نہ ہوا تو ایک غیر واجب امر کے ترک کرنے پر آپ ہر گز قابل مذمت نہیں ، یہ امر مباح ہی کیوں نہ ہو۔جب ہم یہ فرض کر لیں کہ اس مطالبہ کا پورا کرنا سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے مباح بھی نہ تھا تو اس کی عدم تکمیل پر آپ مدح کے قابل ہوئے نہ کہ مذمت کے مستحق اوریہ کبھی معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے بعد کسی کا حق ادا کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔
شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ:’’ انھیں رات کو دفن کیا جائے تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان کا جنازہ نہ پڑھے۔‘‘ صرف وہی شخص اس قصہ کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرسکتا ہے جو بالکل جاہل ہواور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ایسے الزامات لگانا چاہتا ہو جو کہ آپ کی شان کے لائق نہیں ۔ آپ کی شان میں ایسے کلمات کہے جو آپ کی عزت وعظمت کے منافی ہوں ۔ بشرط صحت یہ بات چنداں مفید نہیں ۔ اس لیے کہ جنازہ پڑھنے سے میت کو فائدہ ہی پہنچتا ہے کسی ضرر کا اندیشہ نہیں ۔ نیز یہ کہ اگر ایک کم درجہ کا شخص افضل الخلق کا جنازہ پڑھے تو اسے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی لیجیے کہ سب ابرار و اشرار اور منافقین آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔ بفرض محال اگر اس سے آپ کو نفع نہیں پہنچتا تو ضرر بھی لاحق نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ آپ کی امت میں منافقین بھی ہیں ۔ اس کے باوصف آپ نے کسی کو بھی درود وسلام سے نہ روکا، بلکہ مومن و منافق سب کو درود و سلام کا حکم دیا۔
مذکورۃ الصدرحقائق اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ قبل ازیں ذکر کردہ واقعہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش پر دلالت نہیں کرتا اور اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت پر وہی شخص استناد کرتا ہے جو جاہل مطلق ہو۔ مزید برآں یہ مسئلہ اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ مسلمان اس کا جنازہ نہ پڑھیں تو اس کی وصیت نافذ نہیں کی جائے گی اس لیے کہ نماز جنازہ اُس کے لیے ہرحال میں مفید ہے۔ [تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی ، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہمارے گھر تشریف لائے ، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ، میں نے چاہا کہ کھڑا ہو جاں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو ، اس کے بعد آپ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی ، ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاں ، جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر ، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو ، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہتر ہے۔‘‘ح: ۳۷۰۷۔ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے الاستیعاب میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی اس وصیت کا ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اورحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کو غسل دیں ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی ہی نے آپ کے لیے نعش کا انتخاب کیا تھا جیسا کہ وہ ملک حبشہ میں بچشم خود ملاحظہ کر چکی تھیں ۔ دیکھئے حلیۃ الاولیاء، ابونعیم:۲؍۴۲، نیز السنن الکبریٰ امام بیہقی :۴؍۳۴، نیز ۳؍۹۶۔]
یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ اگر کسی انسان پر کسی نے ظلم کیا ہو اور مظلوم وصیت کرجائے کہ ظالم اس کے جنازہ میں شریک نہ ہو تو اس کا یہ فعل ایسی نیکی نہیں ہے جو اس کے لیے قابل ستائش ہو۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا حکم نہیں دیا۔ مقام تعجب ہے کہ حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تعریف و توصیف کرنے والے ایسے واقعات کس لیے بیان کرتے ہیں جو ان کے لیے موجب مدح ہونے کی بجائے ان کی شان میں قدح وارد کرتے ہیں جیسا کہ کتاب و سنت اور اجماع سے مستفاد ہوتا ہے۔
شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : سب لوگوں نے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :’’اے فاطمہ رضی اللہ عنہا ! تیرے ناراض ہونے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور تیرے راضی ہونے سے وہ راضی ہوتا ہے۔‘‘
یہ صریح کذب ہے۔ یہ روایت آپ سے منقول نہیں اور کتب حدیث میں اس کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ علاوہ ازیں اس کی کوئی سند صحیح یا حسن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتی۔ اس پر مزید یہ کہ جنتی ہونے اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی شہادت اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں ملتی ہے تو یہی شہادت حضرات صحابہ کرام، حضرت ابوبکر،عمر، عثمان، طلحہ، زبیر، سعید اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی موجود ہے۔ قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا۔ اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ﴾ (التوبۃ:۱۰۰)
’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ﴾ (الفتح:۱۸)
’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے آپ سے بیعت کر رہے تھے ۔‘‘
احادیث نبویہ سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وفات پائی تو آپ صحابہ رضی اللہ عنہم سے رضا مند تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس سے راضی ہوں تو دنیا میں سے کسی شخص کی ناراضگی بھی اسے ضرر نہیں پہنچا سکتی۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ نیز اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص سے راضی ہو گیا وہ بھی اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گا۔ اور جانبین کی رضا مندی و خوشنودی میں کامل یگانگت ومطابقت ہوگی۔ گویا ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے حکم پر راضی ہو گا اور اللہ تعالیٰ کا حکم اس کی رضا کے موافق ہو گا ۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے حکم پر راضی ہے وہ اس کے ناراض ہونے سے ناراض بھی ہو گا۔ اس لیے کہ جو شخص کسی دوسرے کے ناراض ہونے پر راضی ہوتا ہے وہ اس کے غضب آلود ہونے پر غضب آلود بھی ہو گا۔وللّٰہ المثل الاعلیٰ۔
شیعہ کی پیش کردہ حدیث پر نقد و جرح:
شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’سبھی نے روایت کیا ہے کہ :آپ نے فرمایا:’’ فاطمہ میرا جگر پارہ ہے۔جو کوئی اسے تکلیف دیتا ہے وہ مجھے تکلیف دیتا ہے ‘ اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی ۔‘‘یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ روایت نہیں کی گئی۔ احادیث میں مذکور الفاظ اس سے مختلف ہیں ، جس حدیث میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کی اجازت طلب کی ہے، میں ہر گز اس کی اجازت نہ دوں گا۔‘‘ یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ دہرائے۔ پھر فرمایا:’’ فاطمہ میرا جگر پارہ ہے،مجھے بھی وہ چیزشک میں ڈالتی ہے جو اسے شک میں ڈالتی ہے۔اور جو چیز اسے ایذا دیتی ہے اس سے مجھے بھی دکھ پہنچتا ہے۔‘‘البتہ یہ ممکن ہے کہ علی رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرلے۔‘‘ ایک روایت میں یوں ہے: ’’مجھے ڈر ہے کہ فاطمہ کہیں دینی ابتلاء میں نہ پڑجائے۔‘‘ پھر آپ نے اپنے ایک داماد(ابوالعاص) کا ذکر کرکے اس کی تعریف فرمائی اور کہا:’’ اس نے جب بھی بات کی سچ بولا۔ اور جب وعدہ کیا تو اسے پورا کر دکھایا۔میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال تو نہیں کرتا۔ مگر اللہ کی قسم ! جگر گوشۂ رسول اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں ۔‘‘[صحیح بخاری۔ کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ذکر اصہار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۳۷۲۹،۵۲۳۰) و صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل فاطمۃ رضی اللہ عنہا (ح۲۴۴۹) تاہم اس کے سیاق و سباق میں اختلاف ہے۔]
یہ حدیث حضرت علی بن حسین نے مسور بن مخرمہ سے روایت کی ہے۔[یہ پوری حدیث صحیح بخاری[ح:3110] میں اس طرح ہے: حضرت علی بن حسین [زین العابدین رحمہ اللہ] نے بیان کیا کہ جب ہم سب حضرات حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ملاقات کی اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم فرما دیجئے ۔[زین العابدین نے بیان کیا کہ] میں نے کہا : مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر مسور نے کہا تو کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرمائیں گے ؟ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کچھ لوگ [بنو امیہ] اسے آپ سے نہ چھین لیں ۔ اور اللہ کی قسم!اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیان کیا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں ابوجہل کی ایک بیٹی[جمیلہ نامی]کو پیغام نکاح دے دیا تھا ۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا ۔ میں اس وقت بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ مجھ سے ہے ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ [اس رشتہ کی وجہ سے]کسی گناہ میں نہ پڑ جائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد [عاص بن ربیع] کا ذکر کیا اور دامادی سے متعلق آپ نے ان کی تعریف کی آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جوبات کہی سچ کہی جو وعدہ کیا اسے پورا کیا ۔ میں کسی حلال [یعنی نکاح ثانی] کو حرام نہیں کر سکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں ۔ لیکن اللہ کی قسم ! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی۔‘‘]حدیث بیان کرنے کا سبب خود روایت میں موجود ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لانا چاہتے تھے۔ بنا بریں بیان کردہ سبب کو حدیث سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ حدیث کے الفاظ واضح ہیں :
’’ جو چیز فاطمہ رضی اللہ عنہا کو شک میں مبتلا کرتی ہے وہ مجھے بھی شبہ میں ڈالتی ہے اور جس بات سے فاطمہ کو دکھ پہنچے وہ میرے لیے بھی رنج و الم کی موجب ہے۔‘‘
حدیث میں آپ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے :
’’جو اسے شک میں ڈالتی ہے۔اور جو چیز اسے ایذا دیتی ہے اس سے مجھے بھی دکھ پہنچتا ہے۔‘‘
یہ بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تکلیف محض اس لیے پہنچی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اگر یہ وعید ایذا دینے والے کو لاحق ہو سکتی ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس وعید کی لپیٹ میں آنا ضروری ہے۔ اور اگر اس کا احتمال نہیں ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت اس وعید سے بعید تر ہوں گے۔
اگر شیعہ کہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ ترک کرکے اس سے توبہ کر لی تھی۔ تو ہم کہیں گے کہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا غیر معصوم ہونا لازم آتا ہے۔ نیز یہ کہ اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذاء کا ازالہ توبہ سے ہو سکتا ہے تو اس کے علاوہ دیگر نیک اعمال بھی یقیناً اس کو محو کر سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ اعمال صالحہ مصائب و آلام اور توبہ سے تو اس سے بھی بڑے گناہ ختم ہو سکتے ہیں ۔ مزید براں یہ گناہ کفر نہیں ہے کہ بلا توبہ معاف نہ ہو سکتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مرتد ہو چکے ہوتے ۔(العیاذ باللہ) ۔جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے مبرا و منزہ قرار دیا ہے۔[اس لیے آپ کا مومن و مسلم ہونا ایک یقینی امر ہے]۔ خوارج جنھوں نے آپ کے مرتد ہونے کا دعویٰ کیا تھا وہ بھی یہی کہتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام سے منحرف ہو گئے۔انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں ہی مرتد ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عہد نبوی میں مرتد ہونے والے کو یا قتل کردیا جاتا تھایا وہ پھر دین اسلام کی طرف لوٹ آتا تھا۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن اس سے پاک رہا۔اگر آپ کا یہ فعل شرک سے کم ترتھاتویہ جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النساء:۱۱۶)
’’ اللہ معاف نہیں کرتا کہ اس کیساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے کم جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔‘‘
اگر شیعہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کفر ثابت کرنے کے لیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذاء کو کفر قرار دیں تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی کافر ہونا لازم آئے گا اور جب لازم باطل ہے تو ملزوم کے بطلان میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ شیعہ کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ حضرت ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی عیب چینی کرتے ہیں ؛اور ایسے امور کی بنا پر ان کی تکفیر کرتے ہیں جن کی مثل بلکہ اس سے بھی پرے بلاعذر افعال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صادر ہو چکے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان افعال میں اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ماجور یا معذور ہیں تو خلفاء ثلاثہ بالاولیٰ اجر یا عذر کے مستحق ہوں گے اور اگر کسی معمولی امر کی بناء پر خلفاء ثلاثہ فاسق یا کافر قرار پائیں گے تو کیا وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سے شنیع تر فعل کے مرتکب ہونے پر بھی کفر و فسق سے بچ جائیں؟
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ستانا اس لیے بڑا گناہ ہے کہ اس سے ان کے والد محترم کو دکھ پہنچتا ہے۔ کسی معاملہ میں جب یہ سوال پیدا ہو جائے کہ آیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایذا دینے سے احتراز کیا جائے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ستم رانی کرنے سے۔ تو ظاہر ہے کہ اندریں صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء سے دست کشی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اذیت کی نسبت واجب تر ہو گی۔
حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (انبیاء کی عدم توریث ) ایک حکم دیا تھا اور یہ دونوں اصحاب اس کی خلاف ورزی کرکے آپ کو ایذا پہنچانے سے امکانی حد تک کنارہ کش رہنا چاہتے تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عہد لیا تھا؛ اور ان کو اس بارے میں ایک حکم دیا تھا ۔ یہ دونوں حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی سے بچنا چاہتے تھے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی حکم عدولی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوں یا آپ کو کوئی تکلیف پہنچے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی رعایت کرنا زیادہ اہم تھا[یعنی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات کا حکم دیں اور سیدہ فاطمہ اس کے برخلاف مطالبہ کریں تو حکم رسول کی مراعات اولیٰ ہو گی۔ ہر سلیم العقل آدمی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ] آپ کی اطاعت گزاری واجب ؛جب کہ نافرمانی حرام ہے۔اور اگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے سے کسی کو دکھ پہنچتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور آپ کی اطاعت کرنے والا حق اور راہ راست پر ہے۔ یہ اس صورت سے مختلف ہے جب کوئی شخص اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے نہیں بلکہ کسی ا ور مقصد کے لیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ستائے۔
جو شخص اس بات پر غور کرے گا کہ مذکورہ واقعہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقصد صرف نبی کریم رضی اللہ عنہ کی اطاعت تھی اور اس کے سوا کوئی بات آپ کے پیش نظر نہ تھی تو وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقدام کے مقابلہ میں اکمل وافضل ہے۔ تاہم دونوں کی عظمت وفضیلت میں کلام نہیں ۔ آپ دونوں اکابر اولیاء اللہ سابقین اولین اور اللہ کے مقربین؛کامیابی پانے والی اللہ کی جماعت [حزب اللہ] میں سے ‘ اور اللہ کے نیک بندے اکابر متقین میں سے تھے جو حوض تسنیم سے سیراب ہوں گے۔[ان شاء اللہ تعالیٰ]۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’اللہ کی قسم!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت ذاتی قرابت کی نسبت مجھے عزیز تر ہے۔‘‘[البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ باب مناقب قرابۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح: ۳۷۱۲) مسلم۔ کتاب الجہاد، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ لا نورث ما ترکنا فھو صدقۃ‘‘ (ح :۱۷۵۹) مطولاً۔]
یہ بھی آپ ہی کا قول ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا خیال رکھیے۔‘‘[صحیح بخاری ،حوالہ سابق(حدیث:۳۷۱۳) ]
مقصود یہ ہے کہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رنج و الم پہنچایا تھا تو یہ مانناپڑے گا کہ آپ نے کسی ذاتی غرض کے تحت ایسا نہیں کیا تھا، اس کی اصل وجہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، نیز یہ جذبہ اس کا محرک تھا کہ حق دار کو حق مل کر رہے۔ [یعنی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق یہ آمدنی رفاہ عام کے کاموں پر صرف کی جائے۔]
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ وہ ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ شادی کرکے آپ کو دکھ پہنچانا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام ذاتی غرض پر مبنی تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے ۔ مذکورہ بالا واقعات اس بات کے زندہ گواہ ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذا سے متعلق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل مذمت کا زیادہ استحقاق رکھتا ہے، اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے ایسا کیا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذاتی غرض کی بنا پر ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہجرت کی تھی۔ ظاہر ہے کہ کسی عورت سے نکاح کرنے کی نیت سے ہجرت کرنے والا، ان کا ہم پلہ کیسے ہو سکتا ہے۔[اہل سنت کی بلند اخلاقی کی اعلی مثال ہے کہ وہ ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عزم نکاح اور اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شدید ناراضگی کا واقعہ شاذونادر ہی ذکر کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے منبر پر جو شہرۂ آفاق خطبہ دیا وہ قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتب حدیث کے اوراق میں محفوظ ہے۔ دوسری جانب شیعہ کا یہ حال ہے کہ تمام تاریخی اَدوار میں انھوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف شور وشغب بپا کیے رکھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جرم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایسے حکم کو نافذ کرنے کی غلطی کی جو انھوں نے بذات خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ علاوہ ازیں کثیر صحابہ اور خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی براہ راست اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہایت موزوں طریقہ سے امر نبوی کی تکمیل فرمائی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر اہل بیت کو اس جاگیر سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اور جو باقی رہ جاتا تھا اس کو اسوۂ نبوی کے مطابق رفاہ عام کے کاموں پر صرف کرنے کی ہدایت کی۔ شیعہ کے شوروشغب اور دروغ گوئی کا نتیجہ ہے کہ لوگ مسئلہ فدک کی تفصیلات سے آگاہ ہیں ، اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عزم نکاح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمہ کس حد تک برہم ہوئے تھے، یہدونوں واقعات( مسئلہ فدک اور ابوجہل کی بیٹی سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا عزم نکاح ) جملہ اختلافی مسائل میں اہل سنت و شیعہ کے مابین ایک عمدہ معیار کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس سے عیاں ہوتا ہے کہ صحابہ و اہل بیت کے بارے میں فریقین کاموقف کیا ہے۔ یہ دونوں واقعات اس بات کے شاہد عدل ہیں کہ اہل سنت صحابہ و اہل بیت دونوں کو عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بخلاف ازیں شیعہ کے دل بغض صحابہ سے لبریز ہیں اور اہل بیت کی محبت کے بارے میں ان کے سب دعوے بے بنیاد ہیں ، اہل بیت کی محبت شیعہ میں صرف اس حد تک پائی جاتی ہے کہ ان کی قبروں کو بت بنا کر ان کی پرستش کرتے رہیں اور اس طرح صنم پرستی کے دور کی یادیں تازہ کردیں ۔دیگر بہنوں کو چھوڑ کر صرف سیدہ فاطمہ سے اظہار محبت کذب و دورغ پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں شیعہ ،بعض بنی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کرتے ہیں اور بعض سے بغض و عناد رکھتے ہیں ۔ مگر حق و صداقت کسی کے چھپائے چھپتی نہیں اور اس کا نور ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ ﴿وَاللّٰہُ یُحِقُّ الْحَقَّ وَ ہُوَ یَہْدِی السَّبِیْل﴾]
بے شک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باعث رنج و ملال ہے،بشرطیکہ وہ بات حکم الٰہی کے خلاف نہ ہو۔ جب کسی بات میں حکم الٰہی موجود ہو تو اس کی انجام دہی ضروری ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ امر کسی کے لیے موجب اذیت ہو۔ اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے باعث اذیت وہ بات ہو گی جو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے منافی ہو۔ اس کی مثال مندرجہ ذیل حدیث نبوی ہے:
’’ جس شخص نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی حکم عدولی کی، اور جس نے میرے امیر کے حکم سے سرتابی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب یقاتل من وراء الامام و یتقی بہ،(حدیث:۲۹۵۷) ، صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ (حدیث: ۱۸۳۵) باختلاف۔]
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اس حدیث کی توضیح فرمائی:
’’ کسی کی اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الاحکام۔ باب السمع والطاعۃ للامام ما لم تکن معصیۃ (ح: ۷۱۴۵) ،صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ (ح:۱۸۴۰)]
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امراء کی اطاعت کو مطلق بیان کیا ‘ اور پھر اسے اس شرط کے ساتھ مقید کردیا کہ اطاعت صرف نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ہوگی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ِ مبارک کہ :
’’ جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایذا دی اس نے مجھے تکلیف دی۔‘‘ بالاولیٰ اذی فی المعروف پر محمول ہو گا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امراء کی اطاعت فرض ہے اور ان کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے، مگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایذا پہنچانے کا فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے مساوی نہیں ، ورنہ لازم آئے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تھا۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امراء کی نافرمانی آپ کی نافرمانی ہے، اور آپ کے حکم سے سرتابی معصیت الٰہی ہے۔
پھر اعتراض کرنے والے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ : حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں ولی الامر تھے۔اللہ تعالیٰ نے ولی امر کی اطاعت کا حکم دیا ہے ۔ ولی امر کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت؛ اور اس کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ جو ولی امر کے حکم اور فیصلہ پر ناراض ہو‘ یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلہ پر ناراض ہے۔
پھر اعتراض کرنے والا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ : ’’ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کیا؛ اور اس کے فیصلہ پر ناراض رہے ۔ اور اس چیز کو ناپسندکیا جس پر اللہ راضی ہوگیا تھا۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو اس پر راضی ہوتا ہے کہ اس کی اور اس کے ولی امر کی اطاعت کی جائے۔ پس جو کوئی ولی امر کی اطاعت کو نا پسند کرتا ہے وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی رضامندی کو نا پسند کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی پر ناراض ہوتا ہے؛ اور ولی امر کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔پس جو کوئی ولی امر کی معصیت کی اتباع کرے یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے پیچھے چلتا ہے۔اور اللہ کی رضا مندی کو نا پسند کرتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر یہ جرح کرنا روافض کے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پرجرح کرنے کی نسبت زیادہ معقول و مقبول ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے وارد ہونے والی نصوص میں ولاۃ امور [حکمرانوں ] کی اطاعت اور مسلمان کی جماعت کے ساتھ منسلک رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور [اگر ان حکمرانوں کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر] صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس بارے میں وارد احادیث کثرت کے ساتھ اور بہت مشہور ہیں ۔ بلکہ کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ہے :
((عنقریب میرے بعد حقوق تلف کئے جائیں گے[ اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں تم ناپسند کرتے ہو] پس تم صبر کرتے رہنا یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے آملو)) [صحیح مسلم قد تقدم تخریجہ۔]
ایک دوسری روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ تم پر کسی کا جو حق ہو وہ ادا کر دو اور اپنے حقوق تم اللہ سے مانگتے رہنا۔‘‘[صحیح مسلم قد تقدم تخریجہ۔]
اس طرح کی دیگر بھی کئی ایک روایات ہیں ۔ اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ظالم تھے ‘ وہ اپنی ذات کے لیے لوگوں کامال چھیننا چاہتے تھے تو اس کے باوجود احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان کے ظلم پر صبر کرنا اور نیکی کے کاموں میں ان کی اطاعت کرنا واجب تھا۔
پھر اگر یہ اعتراض کرنے والا حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما پر طعن و تنقید اور جرح و قدح کرنا شروع کردے ‘ او رکہے کہ : ان لوگوں نے صبر نہیں کیا [جیسا کہ احادیث مبارکہ میں حکم تھا] اور انہوں نے جماعت کا ساتھ چھوڑ دیا بلکہ انہوں نے جماعت میں تفریق پیداکی جو کہ بہت بڑا گناہ ہے ۔تویقیناً یہ جرح حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر روافض کی جرح نسبت زیادہ معقول اورحق پر ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے خلاف کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس کی روشنی میں واجب آتا ہو کہ آپ نے کسی واجب کو ترک کیا ہواوریا کسی حرام کاارتکاب کیا ہو ۔ اور جس دلیل سے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس معصیت سے مبراء و منزہ مانا جائے گا ‘ اسی دلیل کی روشنی میں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کسی بھی ظلم و معصیت سے بدرجہ اولی منزہ و مبرا ہوں گے ۔ اور جو شبہ بھی حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما پر وارد ہوگا کہ آپ نے واجب کو ترک کیا یا کسی حرام فعل کا ارتکاب کیا ؛تو وہ شبہ زیادہ قوت اور زور کے ساتھ حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما پر بھی وارد ہوگا۔
کوئی انسان اگر حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کو گناہوں سے پاک اور معصوم قراردیکر ان کی مدح سرائی اورتعریف و توصیف بیان کرے ؛ اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گنہگا ر ‘اور ناقابل مغفرت و بخشش خیال کرتا رہے تویہ اس کی طرف سے سب سے بڑا ظلم اور جہالت ہوگی۔ وہ ان لوگوں سے بھی بڑھ کر جاہل ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات پر طعن و تشنیع کرنے لگے۔
آٹھویں وجہ:....شیعہ مصنف کا قول:’’ اگر حدیث ’’ لا نُورِث‘‘ صحیح ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار،خچر اور عمامہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دعویٰ کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تفویض نہ فرماتے۔‘‘
جواب : ہم پوچھے ہیں کہ: حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے یہ فیصلہ کب فرمایا تھا؟ اور کس نے یہ واقعہ نقل کیا ہے ؟ یہ ان پر صریح بہتان ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اشیاء جہاں تھیں وہاں رکھی رہتیں اور کوئی ان کا مالک قرار نہ پاتا۔
جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقات کو حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما کی تحویل میں دے دیا تھا کہ وہ اسے شرعی مصارف میں صرف کردیں ۔
[اہل بیت کاتزکیہ اور اس کی حقیقت:]
٭ شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ورنہ اہل بیت جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پاکیزہ قرار دیا ہے ناروا امور کے مرتکب ٹھہریں گے۔‘‘
٭ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب اہل بیت کو پاک و صاف نہیں کیا۔ اور ایسا دعویٰ کرنا اللہ تعالیٰ پر افتراء پردازی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ دعوی کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے؟ جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ بعض بنی ہاشم گناہ و نجاست سے پاکیزہ نہیں ہیں ؛ اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کیا گیا ہے۔ اس کی حد یہ ہے کہ خود روافض کو بھی اس کا اعتراف ہے ؛ شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بنی ہاشم میں سے جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتا ہے وہ پاک نہیں ہے۔فرمان الٰہی ہے:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ﴾ (الاحزاب)
’’اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ تم سے نجاست کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘
مندرجہ بالا آیت سورہ مائدہ کی حسب ذیل آیت کی مانند ہے:
﴿مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ (المائدہ:۶)
’’ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
سورہ نساء کی حسب ذیل آیت بھی اسی قبیل سے ہے:
﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْکُمْ ﴾ (النساء:۲۶)
’’اللہ چاہتا ہے کہ تمھارے لیے کھول کر بیان کرے اور تمھیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت دے جو تم سے پہلے تھے اور تمہاری توبہ قبول فرمائے۔‘‘
علاوہ ازیں اس نوع کی وہ آیات جن میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے فلاں چیز کو پسند کرتے اور اس کا حکم دیتے ہیں جو شخص یہ کام کرے گا وہ مقصود کو پالے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا وہ اپنے مقصد سے دور رہے گا۔دوسرے موقع پر اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ؛جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بات منکرین تقدیر روافض پر چسپاں ہوتی ہے۔ شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ ارادۂ الٰہی سے اس کا حکم مراد ہے ۔یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ وہی کام کرتا ہے
جس کا وہ ارادہ کرتا ہے۔بنا بریں یہ ثابت ہوا کہ تطہیر کا ارادہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ شخص فی الواقع پاک بھی ہو جائے۔ شیعہ کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ کوئی کسی کو پاک کرے بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو پاک کرنا چاہتے ہیں اگر وہ چاہے تو اپنے آپ کو پاک کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ شیعہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کسی کی تطہیر پر قادر نہیں ہے۔
[صدقات اوربنی ہاشم]:
[اشکال ]:شیعہ مصنف کا یہ قول :’’بنی ہاشم پر صدقہ حرام ہے۔‘‘
[جواب] :ہم کہتے ہیں کہ: صرف فرض صدقات بنی ہاشم پر حرام ہیں ۔ نفلی صدقات مباح ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بنی ہاشم وہ خیراتی پانی پی لیا کرتے تھے جو مکہ و مدینہ کے مابین تقسیم کیا جاتا تھا۔ اور کہا کرتے تھے کہ فرضی صدقات ہم پر حرام ہیں نفلی صدقات نہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب بنی ہاشم اجنبی لوگوں کے نفلی صدقات سے متمتع ہو سکتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقات سے نفع اندوز ہونا ان کے لیے بالاولیٰ روا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ مال زکوٰۃ نہ تھا جسے لوگوں کی میل کچیل کہا گیا ہے، اور جو بنی ہاشم پر حرام ہے۔ بلکہ یہ وہ مال تھا جو کسی جہاد و قتال کے بغیر صلح کے نتیجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھا۔ یہ بنی ہاشم کے لیے حلال تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب مال صدقہ کردیا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آپ کی ملکیت تھا اور آپ صدقہ کے طور سے اسے مسلمانوں میں تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے اقارب صدقہ کے زیادہ مستحق تھے کیوں کہ صدقہ مسلمانوں کے حق میں صرف صدقہ ہے اور اقارب کے حق میں صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔[سنن ترمذی۔ کتاب الزکاۃ۔ باب ما جاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ(حدیث:۶۵۸) ، سنن نسائی۔ کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ علی الاقارب(حدیث:۲۵۸۳)، سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ(حدیث:۱۸۴۴)۔]
نویں وجہ :....شیعہ قلم کار نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت پر جو معارضہ کیا ہے ۔‘‘ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کسی غیر کے حق کا دعویٰ نہیں کیا تھا جو اس سے چھین کر ان کو دیا جائے۔ ان کا مطالبہ بیت المال سے تھا جو حاکم بآسانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے بغیر بھی پورا کر سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کرنے کی صورت میں حاکم کے لیے اس مطالبہ کی تکمیل اولیٰ بالجواز ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں گواہ کی ضرورت محسوس نہ کی۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص آتا ہے اوروہ بیت المال کی کسی زمین پر دعوی کرتا ہے کہ یہ میرا حق ہے۔تو امام کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ بغیر شرعی حجت [اورگواہی ] کے وہ زمین بیت المال کے قبضہ سے نکال کر اس کو دیدے۔ بخلاف اس کے ایک دوسرا انسان آتا ہے ‘ اس کا کوئی ایسا دعوی تو نہیں ‘ مگروہ بیت المال میں سے جو مال مسلمانوں میں تقسیم ہونے کے لیے موجود ہے ‘ اس سے میں سے کچھ بغیر دعوی کے طلب کرتاہے ۔تو ایسے انسان کے لیے جائز ہے کہ بغیر گواہی کے بھی اس کی طلب پوری کردی جائے ۔
کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقات اوقاف ہیں ۔ اور آپ کے علاوہ باقی مسلمانوں کے صدقات کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان صدقات کے اصل مال کا مالک بن جائے۔ اور یہ جائز ہے کہ اس کے نفع کو ایسے تقسیم کیا جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ۔ پس جو مال حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے طلب کیا تھا ‘ وہ اسی قسم سے تعلق رکھتا ہے جو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کے لیے تھا ۔ بخلاف اصول اموال کے۔
اسی لیے حضرت ابوبکر و عمر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹوں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو اورحضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو اور دیگر بنی ہاشم رضی اللہ عنہم کو بیت المال سے اس سے بہت زیادہ دے دیا کرتے تھے جیسے جابر رضی اللہ عنہ کو دیا۔یہ مال مسلمانوں کے درمیان میں تقسیم کے لیے ہوا کرتاتھا۔بھلے ان میں سے کسی کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کوئی عہد و پیمان نہ بھی ہو [تب بھی یہ مال انہیں ملا کرتا تھا ]۔
جاہل رافضی کا یہ قول کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے بیت المال سے بغیر کسی گواہی اور دلیل کے صرف اپنے دعوی کی بنیاد پر مال لے لیا ؛ یہ ایسے جاہل انسان کا کلام ہوسکتا ہے جواس بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ جانتا ہو۔اس لیے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو جو مال دیا گیا اس کا تعلق ان اموال سے تھا جن کا مسلمانوں کے مابین تقسیم کیا جانا واجب تھا۔ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بھی مسلمانوں میں سے ایک ہیں ۔ اور ان کا اس مال میں حق بھی تھا۔ وہ بیت المال کے شرکاء میں سے ایک ہیں ۔ جب مسلمان حاکم مسلمانوں میں سے کسی ایک کو مسلمانوں کے بیت المال میں سے کچھ مال دے دے تو یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے بغیر کسی دلیل کے مسلمانوں کے بیت المال میں سے مال دے دیا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے اور انہیں عطیات دینے کے لیے کسی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بخلاف اس کے کہ کوئی انسان تمام مسلمانوں کے برعکس کسی اصل مال کا ہی دعوی کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان حکمران کو اپنے اجتہاد و تقدیر سے مال تقسیم کرنے کی اجازت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حثیات بھر بھر کر مال تقسیم کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ حثیات ایک قسم کا پیمانہ ہے [اس کا لفظی ترجمہ بھری ہوئی لپیں ہے ۔دراوی]۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تین حثیات بھر کردینے کا وعدہ فرمایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں یہ عام سا فعل ہے [اس لیے کہ آپ لوگوں کو ایسے ہی نوازا کرتے تھے ]۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے صرف وہی چیز بیان کی تھی جس کا آپ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع کرنی چاہیے تھی۔پس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اتنا دیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا۔[یہ پوری حدیث صحیح بخاری کتاب الکفالۃ باب من تکفل عن میت دیناً میں نقل کی ہے؛ حدیث نمبر: 3164؛ اس کے الفاظ یہ ہیں : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر ہمارے پاس بحرین سے روپیہ آیا ، تو میں تمہیں اتنا ، اتنا ، اتنا [تین لپ]دوں گا ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور اس کے بعد بحرین کا روپیہ آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی سے کوئی دینے کا وعدہ کیا ہو تو وہ ہمارے پاس آئے ۔ چنانچہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا روپیہ ہمارے یہاں آیا تو میں تمہیں اتنا ، اتنا اور اتنا دوں گا ۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اچھا ایک لپ بھرو ، میں نے ایک لپ بھری ، تو انہوں نے فرمایا کہ اسے شمار کرو ، میں نے شمار کیا تو پانچ سو تھا ، پھر انہوں نے مجھے ڈیڑھ ہزار عنایت فرمایا۔‘‘]
پھر آپ نے جب ان کی تعداد دیکھی تو اتنا ہی آپ کو دوبار مزید بھی دیا ۔ تاکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہوجائے [اور اس میں کسی قسم کی کمی نہ ہو]۔اس لیے کہ حسب امکان فرمان نبوت کی موافقت کرنا واجب ہوتا ہے۔ اگر اس کا علم حاصل ہوجائے تو ٹھیک ہے ‘ ورنہ اجتہاد سے کام لیا جائے گا۔ باقی رہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دعوی ہبہ کا قصہ ؛ اور آپ کا گواہوں کو لانا وغیرہ ۔ اگر اس قصہ کو صحیح تسلیم کربھی لیا جائے تو جو لوگ اس سے مدح کا پہلو نکالنا چاہتے ہیں ‘ ان کے لیے اتنی ہی قدح اس قصہ سے ثابت ہوتی ہے ۔