Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل: ....حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اور لقب صدیق ؟

  امام ابنِ تیمیہؒ

 فصل: ....حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اور لقب صدیق ؟ 

[اعتراض]: رافضی مضمون نگار لکھتا ہے: ’’ سب محدثین نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ نہ ہی آسمان نے کسی پر سایہ کیا ہوگااور نہ ہی زمین نے کسی کو اٹھایا ہوگا جو ابو ذر سے بڑھ کر سچے لہجے والا ہو۔‘‘[رواہ الحاکم في المستدرک و الآجري في الشریعۃوابن أبي عاصم في الأحاد و المثاني۔‘‘]

[اہل سنت نے] ان کا نام تو صدیق نہیں رکھا؛ جب کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یہی نام دیا جانے لگا۔ حالانکہ آپ کے حق میں کوئی ایسی روایت وارد نہیں ہوئی ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]

[جواب ]: یہ روایت تمام محدثین نے روایت نہیں کی ؛ نہ ہی شیخین نے روایت کی ہے اورنہ ہی اصحاب سنن نے۔ بلکہ اسے اجمالی طور پر روایت کیا گیا ہے۔[سنن الترمذي ؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب أبي ذر رضی اللّٰہ عنہ ؛ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر کسی کو پناہ دی جو ابوذر رضی اللہ عنہ سے زیادہ سچا ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ، ح: ۳۸۰۱ قال: الالبانی: صحیح ،صحیح ابن ماجۃ۱۵۶۔ وضعفہ أحمد الشاکر أسانیدہ الثلاث۔]اور اگر اس کی صحت اور ثبوت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو وہ بعض دیگر حدیث کی کتابوں میں روایت کی گئی ہے ۔ یہ بھی جاننا چاہیے کہ اس حدیث سے یہ مراد نہیں ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ تمام مخلوق سے بڑھ کر سچے ہیں ۔کیونکہ پھر اس سے لازم آتا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور باقی سارے انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی بڑھ کر سچے ہوں ۔علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے بھی بڑھ کر سچے ہوں ۔یہ بات شیعہ و اہل سنت تمام مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ سچے انسان ہیں ؛ ان سے بڑھ کر کوئی سچائی کا طلب گار نہیں ۔

جب کوئی انسان سچائی کی تلاش میں رہتا ہو تو کہاجاتا ہے کہ فلاں سچے لہجے والا ہے ۔ اگرچہ اسے انبیاء کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیمات سے بہت کم آگاہی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ : آسمان نے کسی ایسے پر سایہ نہیں کیا جو ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر سچائی کی تصدیق کرنے والا ہو۔ بلکہ آپ نے فرمایا ہے : ’’ سچے لہجے والا ۔‘‘ اور صدیق کامعنی یہ ہے کہ جس نے انبیاء کرام علیہم السلام کی تصدیق کی؛ صرف اس کے سچا ہونے کے بنا پر نہیں ؛بلکہ آپ کی مدح انبیاء کرام علیہم السلام کی تصدیق کرنے کی وجہ سے ہے ۔ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق تو ایک خاص معاملہ ہے ۔ آپ کی مدح اس تصدیق کی وجہ سے کی جاتی ہے ؛ جو کہ ایک خاص قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ جب کہ کسی انسان کا اپنے من میں سچا ہونا ایک علیحدہ بات ہے ۔ پس اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ : ہر صدیق صادق ہوتا ہے ۔ اور ہر صادق صدیق نہیں ہوتا ۔

صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اورکوئی انسان سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے اور کوئی انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘[البخاری ۵؍ ۹؛ کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ باب مناقب ابي بکر؛ ....؛ سنن أبي داؤد ۴؍۲۹۵ ؛ کتاب السنۃ ؛ باب في الخلفاء ؛ سنن الترمذي ۵؍ ۲۸۶ ؛ کتاب المناقب : باب مناقب عمر رضی اللّٰہ عنہ ۔ مسلم:ح ۲۱۳۸ ۔کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب من فضائل طلحۃ و الزبیر۔ ]

پس صدیق سے کبھی تو مراد سچائی میں کامل ہوناہوتا ہے ۔اور کبھی اس سے مراد تصدیق میں کامل ہے۔ صدیق کی فضیلت صرف سچائی کی تلاش میں رہنا نہیں ہے ۔بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتایا ہے ‘آپ اسے اجمالاً وتفصیلاً جانتے تھے۔ اور پھر آپ نے ان تمام امور میں قولاً و فعلاً ؛ علماً و عملاً تصدیق کی۔

یہ مقام ومرتبہ نہ ہی حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو ملا تھا اور نہ ہی کسی دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کو ۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی اخبار و انباء کو جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جانتے تھے ‘ایسے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نہیں جانتے تھے۔اور نہ ہی آپ کو ایسے تصدیق مفصل کا مقام ملا تھا جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حاصل تھا؛ اورنہ ہی آپ کو کمال تصدیق میں وہ مقام حاصل تھا جیسا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا حال تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان سے بڑے عالم ‘ اللہ اور اس کے رسول سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ؛ اللہ اور اس کے رسول کی سب سے زیادہ نصرت کرنے والے اوراپنی جان و مال سے سب سے بڑھ کر جہاد کرنے والے تھے۔ اس کے علاوہ بھی آپ میں وہ صفات موجود تھیں جو کہ آپ کو کمال صدیقیت کے درجہ تک پہنچا دیتی ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پرچڑھے۔ حضرت ابوبکر عمر عثمان رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ تو وہ پہاڑ حرکت کرنے لگا ؛تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے احد! ٹھہر جا ؛کیونکہ تیرے اوپر سوائے نبی یا صدیق یا شہید کے اور کوئی نہیں ہے۔‘‘ [البخاري۵؍۹؛ ومسلم ۴؍۱۸۸۰۔ سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۴۰۴ کتاب الزہدِ، باب التوقِیّ علی العملِ ، المسندِ ط۔الحلبِی :۶؍۱۵۹۔]

سنن ترمذی میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے متعلق پوچھا:﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتَوا وَقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ ﴾ [المؤمنون۶۰]

’’اور جو دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور انکے دل اس سے ڈرتے ہیں ۔‘‘

اور عرض کیا کہ:’’ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اے صدیق کی بیٹی! نہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے نماز پڑھتے صدقہ دیتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے قبول نہ کیا جائے۔‘‘ [ جامع ترمذی:ح 1122 ]