پوجا کرنے والے کا حکم اور ایسے شخص کو مسجد یا وقف کا ممبر و متولی بنانا
پوجا کرنے والے کا حکم اور ایسے شخص کو مسجد یا وقف کا ممبر و متولی بنانا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جس نے دین سے اظہار بیزاری کیا ہے اور ارتداد اختیار کیا ہے٫ چنانچہ اس کا کہنا یہ ہے کہ آپ لوگ مجھے مسلمان کہتے ہیں۔ میرے پاس جو دینی کتابیں تھیں وہ میں نے واپس کر دی ہیں اور اس نے شادی بھی غیر مسلم سے کی ہے٫ اور اسی حالت پر بدستور قائم ہے اور یوں کہتا ہے میرے مرنے کے بعد مجھے دفن مت کرنا٫ بلکہ مجھے جلا دینا٫ غرض یہ کہ پورے طور پر غیر مسلموں کی راہ اختیار کر لی ہے نماز روزہ کا تو ذکر ہی کیا ہے؟ گھر میں مندر بنا کر وہ اور سب لوگ پوجا کرتے ہیں اور دین کی دشمن جماعت سے اس کا تعلق ہے اور اس کے دونوں لڑکے بھی اسی طرح عمل کرتے ہیں اور ان کے نام بھی غیر مسلموں کی طرح ہیں۔ اور ایک لڑکے نے اپنی شادی بھی غیر مسلم عورت سردارنی سے کی ہے اور وہ عورت بھی گردوارہ بنا کر گھر میں ہی بچوں کے ساتھ پوجا پاٹ کرتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا شخص مسلمان ہے یا کافر؟ اور کیا ایسے شخص کو کسی مسجد یا دینی ادارہ کا وقف علی الله کا ممبر و متولی بنایا جا سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ کی عبادت کرے وہ مسلمان ہے اور جو الله تعالیٰ جل شانہ کے علاؤہ کسی کی پوجا کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔ اور سوال میں صراحت ہے کہ مزکورہ شخص اور اس کے اہلِ خانہ مندر میں غیر الله کی پوجا کرتے ہیں اس لئے بشرطِ صحت میں سوال مزکورہ شحض دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہے اور سوال میں مزکورہ دیگر فسقیہ اعمال اس کے مؤید ہیں۔ اور اسلام میں فتاویٰ کی جن کتابوں کو معتبر و معتمد تسلیم کیا جاتا ہے اُن میں اس بات کی صراحت ہے کہ جو شخص دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہو یا فسق و فجور میں مبتلا ہو وہ مسلمانوں کے اوقاف کا متولی و ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ اس لئے بشرطِ صحت سوال مزکورہ شحض کو مسلمانوں کے اوقاف کا متولی یا ذمہ دار بنایا جانا شرعاً نا جائز و حرام ہے۔
(فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند، جلد 1 صفحہ 127)