Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطاب کا مستحق کون ؟

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطاب کا مستحق کون ؟

[رافضی کا کہنا ہے کہ اہل سنت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہء رسول کہتے ہیں ؛ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اور بعد از وفات آپ کو اپنا خلیفہ (نائب و قائم مقام) مقرر نہیں کیا تھا]

[اعتراض]: رافضی مضمون نگار لکھتا ہے: اہل سنت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ رسول کہتے ہیں ، حالانکہ آپ نے اپنی زندگی میں بعد از وفات آپ کو اپنا خلیفہ (نائب و قائم مقام) مقرر نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس اہل سنت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ رسول نہیں کہتے ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کئی بار اپنی عدم موجودگی میں مدینہ کا حاکم مقرر کیا تھا ۔ایسے ہی غزوہ تبوک کے موقع پر بھی آپ مدینہ میں خلیفہ بنے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا تھا:’’ میرے اور آپ کے سوا کوئی شخص حاکم مدینہ بننے کا اہل نہیں ہے۔کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی؛ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو سالار لشکر مقرر فرمایا؛ اس لشکر میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ تاہم اہل سنت حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کے لقب سے یاد نہیں کرتے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر فائز ہوئے تو اسامہ رضی اللہ عنہ نے بگڑ کر کہا : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آپ پر امیر بنایا تھا۔ بتائیے ! آپ کو کس نے میرا حاکم بنایا؟ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں پاپیادہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے یہاں پہنچے اور ان کو راضی کیا۔اور آپ دونوں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو تاحیات امیر کہتے رہے ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]

[جواب]

خلیفہ کی تعریف:

اس کا جواب یہ ہے کہ خلیفہ کا لفظ دو معنوں پر بولا جاتا ہے:

۱۔ جو کسی کا قائم مقام ہو، اس کو خلیفہ کہتے ہیں ،بھلے اسے پہلے نے اپنے بعد خلیفہ نہ بھی مقرر کیاہو۔ جیسا کہ لغت میں معروف ہے۔یہ جمہور کا قول ہے۔

۲۔ اس کا دوسرا معنی : خلیفہ وہ ہے جس کو کوئی شخص اپنا نائب مقرر کرے۔ یہ روافض اور بعض ظاہریہ کا مسلک و مذہب ہے۔[محدث ابن حزم اپنی کتاب ’’ الامامۃ والمفاضلۃ‘‘ میں جو ان کی شہرہ آفاق تصنیف کتاب الفِصل کی جلد چہارم میں شامل ہے۔ صفحہ:۱۰۷ ،پر رقم طراز ہیں :’’ اﷲ تعالیٰ نے جن لوگوں کے صادق القول ہونے کی شہادت دی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے انصاری بھائی اس امر میں متفق اللسان ہیں کہ سیدنا ابوبکر خلیفۂ رسول تھے۔ اور کسی شخص کا خلیفہ(قائم مقام) وہ ہوتا ہے جس کو وہ خود اپنا نائب مقرر کرے نہ وہ جو کہ از خود کسی کا قائم مقام بن جائے۔]

پہلے معنی کی بناء پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، کیوں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ان کے قائم مقام ہوئے اور آپ دوسروں کی نسبت اس منصب کے لیے موزوں تر تھے۔ لہٰذا آپ خلیفہ قرار پائے اور دوسرا کوئی شخص یہ مقام حاصل نہ کر سکا۔ شیعہ اور دیگر فرقوں میں سے کوئی بھی اس مسلمہ صداقت کا منکر نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ قرار پائے تھے آپ نماز پڑھاتے۔[سیدنا علی رضی اللہ عنہ دیگر لوگوں کی طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے۔] شرعی حدود قائم کرتے اور صلح کی بنا پر حاصل کردہ مال مسلمانوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔علاوہ ازیں آپ کفار سے جہاد کرتے،عمّال و امراء مقرر کرتے اور دیگر سیاسی امور انجام دیا کرتے تھے۔ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بالاتفاق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ امور انجام دیا کرتے تھے۔ لہٰذا بلا نزاع آپ خلیفہ رسول تھے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔[خلافت صدیقی میں جو مال بنا بر مصالحت بلاقتال و جدال بیت المال میں آیا تھا اس میں سے بنی حنیفہ کے قبیلہ کی ایک لونڈی بھی تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شرعی حکم کے مطابق حق ملکیت حاصل کرکے اسے اپنی لونڈی بنا لیا اور اس کے بطن سے ایک عالم باعمل اور صالح بیٹا محمد بن علی بن ابی طالب تولّد ہوا جو بعد میں محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رائے میں سیدنا ابوبکر کی خلافت غیر شرعی ہوتی تو وہ لونڈی کو اپنے لیے حلال نہ سمجھتے۔ حرام و حلال عورتوں کے مابین فرق و امتیاز ایک طے شدہ بات ہے، جس میں کسی کا اختلاف نہیں ۔ ایک مشہور ترین شیعہ عالم سید عبد اﷲ بن حسن سُویدی نے ماہ شوال ۱۱۵۶ھ میں جب اکابر علماء شیعہ کی موجودگی میں اس سے احتجاج کیا تھا تو سب خاموش ہو گئے اور کوئی بھی جواب نہ دے سکا۔(دیکھیے۔ رسالہ مؤتمر النجف،ص:۳۱۔۳۲) اگر شیعہ حق کے طالب ہوتے اور فتنہ پردازی ان کا مقصد نہ ہوتا تو مذکورہ دلیل اور دیگر سینکڑوں دلائل و براہین ان کے لیے وجہ اطمینان ہوتے۔ مگر شیعہ کا مقصد وحید مسلم معاشرہ میں شور و شر پیدا کرنا، افکار باطلہ کی تشہیر دین حنیف کی تحریف و تغییر اور شریعت کے مآخذ و مصادر کی تبدیلی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ کا وجود انسانیت کے لیے ایک عظیم آفت سے کم نہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ باطل کے پرستار ہیں اور باطل فنا پذیر ہوتا ہے بلکہ جو چیز بھی کذب و افترا پر مبنی ہو وہ بے کار اور عبث ہے۔]

اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا؛ اور آپ ہی اس خلافت کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ جب کہ [پرانے ]شیعہ کہتے تھے: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ حق دارتھے ۔ لیکن حضرت ابو بکر [جب خلیفہ بن ہی گئے تو آپ ] کی خلافت درست ہے۔ان کا کہنا ہے کہ : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جائز نہیں تھا کہ وہ خلیفہ بنتے ؛ مگر جب آپ بالفعل خلیفہ بن گئے تو اب اس میں تنازع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اور اب آپ اس نام کے مستحق ہیں ۔ اس لیے کہ خلیفہ اسی کو کہتے ہیں جو دوسرے کا قائم مقام بنے ۔

دوسرے معنی کی بیناد پر : خلیفہ وہ ہے جسے دوسرا اپنا قائم مقام مقرر کرے ۔جیسا کہ بعض اہل سنت اور بعض شیعہ اس دوسرے معنی کواختیار کرتے ہیں ۔اہل سنت و الجماعت میں سے جن لوگوں نے یہ معنی اختیار کیا ہے ‘ وہ اس معنی کی بناء پر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نص جلی یا خفی کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔جیسا کہ شیعہ جوکہ نص سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ‘ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آپ نص جلی کی روشنی میں خلیفہ اورامام تھے جیسا کہ امامیہ کا عقیدہ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ : نہیں ‘ بلکہ آپ کی خلافت نص خفی سے ثابت ہے ؛ جیسا کہ زیدیہ میں سے جارودیہ کا عقیدہ ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں نص جلی یا خفی کا یہ دعویٰ شیعہ کے اس دعویٰ سے اقوی و اظہر ہے جو وہ خلافت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق نصوص کے بارے میں کرتے ہیں ، اسی لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں کثیر التعداد نصوص وارد ہوئی ہیں ۔ بخلاف ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں وارد شدہ نصوص یا تو جھوٹی ہیں یا ان سے یہ دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ بنا بریں یہ مسلمہ صداقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت کے بعد صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف آپ ہی خلیفہ برحق تھے۔ خلیفہ مطلق وہ ہے جو آپ کی وفات کے بعد خلیفہ بنے یا آپ اپنی موت کے بعد اس کو خلیفہ مقرر کریں ۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں وصف سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور میں موجود نہ تھے؛ اس بنا پر آپ خلیفہ برحق تھے۔

جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کرنے کا تعلق ہے تو آپ بات میں منفرد نہ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوہ میں نکلتے تو مدینہ منورہ میں اپنے صحابہ میں سے کسی ایک کو اس منصب پر فائز کرتے۔ یہ واقعات ملاحظہ ہوں :

۱۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نضیر سے لڑنے کے لیے مدینہ سے باہر نکلے تو عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا۔

۲۔ غزوۂ ذات الرقاع اورغزوہ غطفان کے لیے جاتے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حاکمِ مدینہ قرار پائے۔[سیرۃ ابن ہشام(ص:۴۵۴)، جوامع السیرۃ لابن حزم(ص:۱۸۲،۱۸۳)۔ ]

۳۔ غزوۂ بدر ؛ غزوہ بنی قینقاع اور غزوہ سویق کیلئے تشریف لے گئے تو ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا ۔[سیرۃ ابن ہشام(ص:۲۹۲)،جوامع السیرۃ لابن حزم(ص:۱۰۷،۱۰۸)۔]

۳۔ غزوہ بدر الموعد میں آپ نے ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ پر عامل مقرر فرمایا۔

۵۔ غزوہ المریسیع میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر فرمایا تھا۔

۶۔ غزوہ ابواء میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر فرمایا ۔

۷۔ غزوہ بواط میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر فرمایا ۔

۸۔ غزوہ عشیرہ میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کوعامل مقرر فرمایا تھا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں پر عامل بنایا وہ ان لوگوں سے اکثر و افضل نہ تھے جن پر آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں کو عامل یا خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔بلکہ تقریباً ہر غزوہ کے موقع پر مدینہ نبویہ میں کچھ نہ کچھ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم موجود ہوا کرتے تھے۔ وہ ان لوگوں سے بہت افضل تھے جو کہ غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے ۔ غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔اورنہ ہی اس غزوہ میں کوئی پیچھے رہا تھا سوائے منافق یا معذور کے اورتین افراد وہ تھے جن کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ہے۔پیچھے رہ جانے والوں کی بڑی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی۔یہی وجہ تھی کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں نائب بنا کر چھوڑا تو آپ روتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑے ؛ اور آپ کی خدمت میں یوں عرض گزار ہوئے : کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں ؟یہ بھی کہاگیا ہے کہ بعض منافقین نے آپ پر طعنہ زنی کی تھی ؛ اور یہ کہا تھا کہ : آپ کو اس لیے پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بغض رکھتے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار دوسرے لوگوں کو بھی مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا؛ اوروہ لوگ بھی تعداد میں زیادہ ہوا کرتے تھے ۔ اور ان لوگوں سے افضل ہوا کرتے تھے جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب بنایا گیاتھا۔تو ثابت ہوا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجود گی میں ایک مخصوص گروہ پر کسی کو نائب مقرر کرنا تھا۔ظاہر ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپکی امت پر استخلاف مطلق نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان اصحاب میں سے کسی کو بھی خلیفہء رسول نہیں کہا گیا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کویہ خطاب دیاجائے تو دوسرے جو صحابہ وقتاً فوقتاً مدینہ میں نائب بنتے رہے ہیں پھروہ بھی اس خطاب کے مستحق ہیں ۔توپھر یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نہ ہوئی۔

نیز یہ بات بھی کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جو انسان کسی رسول کے مرنے کے بعدخلیفہ بنتا ہے وہ لوگوں میں سے افضل ترین انسان ہوتا ہے ۔ جب کہ دوسرا وہ انسان ہے جو دشمن سے جہاد کی مہم کے دوران خلیفہ بنتا ہے ‘ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام لوگوں سے افضل ہو۔ بلکہ عادتاً دیکھا گیا ہے کہ دوران جہاد جو انسان افضل ہوتا ہے ؛اسے جہادی ضرورت کے پیش نظر ساتھ لے جایا جاتا ہے۔ بخلاف اس انسان کے جسے عورتوں اور بچوں پر نائب مقرر کیا جائے۔ اس لیے کہ جہاد میں کام آنے والا انسان اس مہم میں ساتھ شریک ہوتا ہے۔ اس کا مقام بچوں پر نائب بن کر پیچھے رہنے والے کی نسبت زیادہ بڑا ہوتا ہے۔

اس لیے کہ نائب بن کر پیچھے رہنے والے کا فائدہ اس انسان کی طرح نہیں ہے جو جہاد میں ساتھ شریک ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ صرف اصل استخلاف میں دی تھی۔[صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ تبوک(حدیث:۴۴۱۶)، صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (حدیث: ۲۴۰۴)سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی موت کے بعد سیدنا یوشع آپ کے قائم مقام قرار پائے تھے نہ کہ سیدنا ہارون علیہ السلام ، مزید براں یہ امر قابل غور ہے کہ ہارون نبی تھے اور علی رضی اللہ عنہ نبی نہ تھے۔ ہارون سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے اور علی رضی اللہ عنہ ان کے بھائی نہ تھے۔ مذکورہ فرق و امتیاز کے علاوہ اب یہ بات باقی رہی کہ غزوۂ تبوک پر جاتے وقت آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا تھا جس طرح سیدنا موسیٰ نے کوہِ طور کو جاتے وقت سیدنا ہارون علیہ السلام کو اپنا قائم مقام مقرر کیا ۔ اصل وجہ مشابہت و مماثلت صرف یہی امر ہے، خاص مدینہ پر استخلاف کا شرف دوسرے لوگوں کو بھی حاصل ہوا مگر کسی نے بھی ان کو نبی کریم کا خلیفہ عام تصور نہ کیا۔ لطف یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اس غلطی میں کبھی مبتلا نہ ہوئے۔ علاوہ ازیں حدیث نبوی’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْن‘‘ محدثین کے نزدیک متنازع فیہ ہے، بعض اسے صحیح کہتے ہیں اور بعض ضعیف(۱) امام ابو الفرج ابن الجوزی رحمہ اللہ اس کو موضوع قرار دیتے ہیں ۔ نیز یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا تو انھوں نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا’’ کیا آپ مجھے عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔‘‘ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مطمئن کرنے کے لیے فرمایا: ’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْن‘‘ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہاستخلاف ان کے لیے موجب مدح و منقبت ہوتا تو جیسے کہ شیعہ کا خیال ہے تو اس بات پر اظہار ناراضگی کرنے کی بجائے ان کو خوش ہونا چاہئے تھا، حالانکہ یہ بات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، اہل سنت وشیعہ کے مابین جملہ اختلافی مسائل میں شیعہ کا طرز فکر ہمیشہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اورپسران علی رضی اللہ عنہ سے مختلف ہوتا ہے، اگر کوئی شخص سعی کامل کو کام میں لا کر ایسے مسائل تلاش کرنا چاہے، جن میں شیعہ نے علماء اہل بیت کی مخالفت کی ہے تو ان سے ایک بڑی کتاب مرتب کی جا سکتی ہے۔]کمال استخلاف میں نہیں ۔ اس استخلاف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شریک کار دوسرے لوگ بھی ہیں ۔ اسکی وضاحت یہ ہے کہ اللہ کے نبی موسی علیہ السلام جب اپنے رب سے ملاقات کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو ان کے ساتھ اس امرمیں کوئی دوسرا شریک نہیں تھا۔ ورنہ حضرت ہارون علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کے حاکم بنائے گئے تھے۔اس کے برخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ جب مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام قرار پائے تو اکثر لوگ وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رفاقت میں جا چکے تھے سوائے معذوروں [اورمنافقین ]کے۔ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت محض عورتوں ، بچوں اور ضعیف لوگوں کے لیے باقی رہ گئی تھی۔تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے مدینہ میں نائب بنایا جانا ہر لحاظ سے ایسے نہیں تھا جیسے حضرت ہارون علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں نائب بنایا جانا۔ بلکہ آپ کو اپنی عدم موجودگی میں ایسے امین بنایا تھا جیسے ہارون علیہ السلام کوحضرت موسی علیہ السلام نے اپنی عدم موجودگی میں امین بنایا تھا۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے واضح کیا کہ نائب بنائے جانے سے مقام ومرتبہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔بلکہ اس سے انسان کی امانت داری ظاہر ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کواپنی قوم پر اپنا نائب بنایا تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روتے ہوئے چل پڑے تھے۔اور عرض گزاری کی تھی کہ : کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں ؟ یعنی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہنا نا پسند کرتے تھے۔

[امارت مدینہ اور من گھڑت روایت پر رد:]

شیعہ مصنف کا قول ’’ اِنَّ الْمَدِیْنَۃَ لَا تَصْلُحُ اِلَّا بِیْ اَوْ بِکَ‘‘ صریح کذب اور موضوع روایت ہے۔[قال ابن جوزی في کتابہ الموضوعات ۱؍۳۵۷ ؛ عن ہذا الحدیث الموضوع: قال ابو حاتم : لیس ہذا الخبر من حدیث ابن مسیب و لا من حدیث الزہري ؛ ولا من حدیث مالک ؛ فہو باطل ؛ ما قالہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ وحفص بن عمر کان کذاباً۔ وقال العقیلي : حفص یحدث عن الأئمہ البواطیل ۔اللآلی المصنوعہ ۱؍۳۴۲ ؛ و الفوائد المجموعۃ للشوکانی ص ۳۵۶۔]

احادیث مبارکہ کے کسی بھی معتمدمجموعہ میں اس کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔جس چیز سے اس روایت کا جھوٹا ہونا ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ کئی بار مدینہ سے باہر کا سفر کرچکے تھے۔اس وقت مدینہ میں نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ توپھر آپ کیسے یہ فرماسکتے ہیں کہ :’’ میرے اور آپ کے سوا کوئی شخص حاکم مدینہ بننے کا اہل نہیں ہے۔ بدرکے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔بدر اور مدینہ کے مابین کئی مراحل کا فاصلہ ہے۔ان دونوں ہستیوں میں سے کوئی ایک بھی مدینہ میں موجود نہیں تھا۔ بدر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔[اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے مبارزت طلب کرنے پر مہاجرمجاہدین کی جو پہلی کھیپ مشرکین سے مقابلہ کے لیے روانہ فرمائی ؛ اس میں حضرت ابو عبیدہ ؛ حضرت حمزہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہم تھے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حریف ولید بن عتبہ کو قتل کیاتھا۔اور پھر فتح بدر کے بعد راستہ میں واپس جاتے ہوئے آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نضر بن حارث کو الصفرآء کے مقام پر قتل کیا۔اس غزوہ میں مدینہ طیبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب حضرت ابو لبابہ ابن المنذر رضی اللہ عنہ تھے ۔ لیکن رافضی کو عقل کہاں کہ تاریخ کی روشنی میں بات کرے۔ [دراوی ]]ایسے ہی فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی باتفاق علماء ثابت ہے۔آپ کی بہن ام ہانی رضی اللہ عنہا نے اپنے دونوں دامادوں کو پناہ دے رکھی تھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں قتل کرنا چاہتے تھے۔تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی : یارسول اللہ ! میرا بھائی ان آدمیوں کو قتل کرنا چاہتا ہے جنہیں میں نے پناہ دے رکھی ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اے ام ہانی! جس کو تو نے پناہ دی ؛ ہم بھی اس کو پناہ دیتے ہیں ۔‘‘

اس موقع پر مدینہ میں نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ ایسے ہی خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں ۔آپ نے [ان کی آنکھوں میں لعاب ڈالا ] اور پھر انہیں جھنڈا عطا کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر فتح عطا کی۔ اس وقت بھی مدینہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا۔ ایسے ہی حنین اور طائف کے غزوات میں شریک رہ چکے تھے۔حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے واپس تشریف لائے تھے ؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں اکھٹے ہوئے اور حج کیا۔ اور ان دنوں آپ دونوں میں سے کوئی ایک بھی مدینہ میں نہیں تھا۔ [آپ کی عدم موجودگی میں دیگر صحابہ مدینہ میں آپ کے قائم مقام تھے]۔

رافضی اپنی جہالت کی وجہ سے ایسا جھوٹ بولتے ہیں جو کہ سیرت کی ادنی معرفت رکھنے والے انسان پر بھی مخفی نہیں رہتا ۔

[حضرت اسامہ بن جیش کی امارت :]

[اعتراض ]: شیعہ کہتا ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر مقرر فرمایا ؛ اس لشکر میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں موجود تھے ۔‘‘ 

[جواب] :یہ ایسا جھوٹ ہے جو حدیث کے کسی ادنی طالب علم پر بھی مخفی نہیں ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیش اسامہ میں شامل ہی نہ تھے۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز مرض ہی سے ان کو امامت ِ نماز کا منصب تفویض فرمایا تھا؛ اور وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ منصب آپ کے ہی پاس رہا۔[مقریزی نے إمتاع الاسماع ۱؍۵۳۶ پر لکھا ہے: ’’یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بروز پیر چھبیس صفر سن گیارہ ہجری کو غزوہ روم کے لیے تیاری کا حکم دیا۔پھر اگلے دن منگل کوحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کوبلایا تاکہ انہیں لشکر کی سربراہی تفویض کی جائے۔ تو آپ لشکر لیکر نکلے اور جرف کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ لوگ بھی نکلے؛ مہاجرین اولین اور انصار میں سے کوئی اس غزوہ سے پیچھے نہیں رہا؛ حضرت عمربن خطاب ؛ حضرت ابو عبیدہ ؛ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم جیسے لوگ شریک ہوئے ۔ بعض مہاجرین نے ان کی امارت پر اعتراض کیا؛ کہ اس چھوٹے سے نو خیز لڑکے کو مہاجرین اولین پر امیر بنایا جارہا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر غصہ ہوئے۔ اور اس سلسلہ میں لوگوں میں خطبہ دیا۔ پھر آپ اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ یہ بروز ہفتہ دس ربیع الاول کی بات ہے۔جو مسلمان لشکر کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوئے تھے؛ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الوداعی ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ان میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جیش اسامہ کو روانہ کیا جائے ۔ پس لوگ لشکر گاہ کی طرف چل پڑے اتوار کی رات وہاں پر گزاری ۔ اتوار کے دن حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ اور پھر اپنے معسکر کی طرف لوٹ گئے۔ پیر کے دن دوپہر کو آپ وہاں پر تھے۔ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ افاقہ تھا۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ تو آپ نے فرمایا:’’ صبح اللہ کا نام لیکر چل پڑو۔‘‘حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الوداع ہوئے تو آپ کو افاقہ تھا۔‘‘مقریزی نے کہا(]

یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری شروع ہونے سے پہلے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو علم عطا کیا تھا۔ پھر جب آپ بیمار ہوگئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں ۔ تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال تک امامت کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔بالفرض اگر یہ تسلیم کرلیاجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری سے پہلے آپ کو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد کے لیے جانے کاحکم دیا تھا ۔تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم دینا ؛ حالانکہ آپ نے بیماری میں بھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو روانگی کی اجازت دے رکھی تھی؛ تو یہ بعد والا حکم پہلے حکم کے لیے ناسخ ہوگا؛ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت منسوخ ہوگئی۔تو یہ کہنا کیسے روا ہوسکتا ہے خصوصاً جب کہ آپ پر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر ہی نہیں کیا گیا تھا؟

مزید برآں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ نہیں تھی کہ کسی سریہ کے لیے یا پھر کسی غزوہ کے لیے نام لیکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو متعین کریں ۔ لیکن آپ مطلق طور پر ترغیب دیا کرتے تھے۔ توصحابہ کرام کو کبھی علم ہوتا تھا کہ آپ نے نام لیکر کسی کو اپنے ساتھ جانے کے لیے متعین نہیں کیا ‘لیکن خروج برائے جہاد کی ترغیب دی ہے ؛ جیسا کہ غزوہ غابہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی تھی [ہے : ’’ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !الحمد للہ کہ آپ کو افاقہ ہے ۔‘‘آج بنت خارجہ کی باری ہے؛ مجھے اجازت دیجیے ؛ تو آپ نے اجازت دیدی۔ تو آپ سنح کے مقام پر تشریف لے گئے۔ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ معسکر میں واپس چلے گئے۔ اور اپنے ساتھیوں کو آواز دیکر لشکر میں پہنچنے کا حکم دیا۔ ابھی آپ جرف سے نکلنا ہی چاہتے تھے کہ ان کی والدہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کا قاصد آگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوداع ہونے والے ہیں ۔ تو آپ واپس مدینہ تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ کی آخری گھڑیاں تھیں ۔‘‘مزید دیکھو: سیرت ابن ہشام ۴؍ ۲۹۱۔  ابن ہشام نے ’’السیرۃ ۳؍ ۲۹۳ ‘‘ پر کہا ہے: ’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ پہنچے ابھی چند د ن ہی گزرے تھے کہ عیینہ بن حصین الفرازی نے بنو غطفان کے گھڑسواروں کے ساتھ مدینہ کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر دھاوا بول دیا۔ یہاں پر بنو غفار کا ایک آدمی اور اس کی بیوی تھے؛ انہوں نے مرد کو قتل کردیا؛ اور اس کی بیوی اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے ۔ انہیں سب سے پہلے حضرت سلمہ بن عمرو ابن الاکوع رضی اللہ عنہ نے دیکھا؛ وہ دوڑ کر ان تک پہنچ گئے؛ آپ ان پر تیر برساتے اور ساتھ چیخ کر آوازیں لگاتے۔ آپ کی چیخ کی آواز مدینہ طیبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی تو آپ نے منادی کرادی؛ گھڑ سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ لوگ جمع ہوگئے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حضرت سعد بن زید کو امیرمقرر کیا؛ اورخود ان لوگوں تک پہنچ گئے۔ یہ ایک تفصیلی واقع ہے۔ اسے غزوہ ذی قرد بھی کہا جاتا ہے۔‘‘دیکھو: زاد المعاد ۳؍ ۳۷۸۔]اور کبھی کبھار بعض لوگوں کو ان کے خاص احوال کی وجہ سے متعین کرتے تھے ۔ جیسا کہ غزوہ بدر کے موقع پر آپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ لوگ نکلیں جن کے پاس سواری ہو۔ اسی وجہ سے بہت سارے مسلمان آپ کے ساتھ نہ جاسکے۔ اور غزوہ سویق کے موقع پر آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ : ’’ صرف وہی لوگ جہاد کے لیے نکلیں جو کہ احد میں شریک ہوئے تھے ۔‘‘

بسااوقات عام کوچ کا حکم ہوتا تھا ؛ جس میں کسی کو پیچھے رہنے کی اجازت نہ ہوتی تھی جیسا کہ تبوک کے موقع پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء کا بھی یہی طریق کار رہا ۔جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام اور دوسرے علاقوں کی طرف لشکر روانہ کیے تو آپ نے لوگوں کو عمومی ترغیب دی۔ جب اتنے لوگ تیار ہوکر نکل پڑتے جن سے مقصود حاصل ہو تو لشکر کو روانہ کردیتے ۔

پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ مؤتہ روانہ فرمایا؛ تو فرمایا: ’’تمہارا امیر زید ہوگا؛ اگر وہ قتل ہوگیا تو جعفر ہوگا؛ اور اگر وہ بھی قتل ہوگیا تو عبداللہ بن رواحہ ہوگا؛ رضی اللہ عنہم ۔‘‘آپ نے تمام مجاہدین کو متعین نہیں فرمایا۔ اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی رجسٹر میں لکھے ہوئے تھے۔اور نہ ہی نقباء گھوم کر لوگوں کو ان کے نام لیکر متعین کرکے جہاد کے لیے نکالتے تھے۔بلکہ جب اتنے لوگ جمع ہوجاتے جن سے مقصود حاصل ہو جاتا ہو؛ تو پھر ان پر ایک امیر مقرر کردیتے؛ اورپھر انہیں روانہ کردیتے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا؛ تو یہ متعین نہیں کیا کہ کون کون لوگ ان کے ساتھ حج کرے گا۔ لیکن جن لوگوں نے آپ کے ساتھ حج کیا؛ آپ ان پر امیر تھے۔ پھر ان کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا؛ اور آپ کو یہ بتایا کہ آپ مامور بن کر جا رہے ہیں ۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ان پر امیر ہوں گے۔اور جب حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو ان کے والد کے قتل ہوجانے کے بعد امیر مقرر فرمایا؛ تو انہیں اسی طرف روانہ فرمایا جہاں دشمن نے آپ کے والد کو قتل کیا تھا۔ اس لیے کہ آپ اسی کو مناسب مصلحت دیکھتے تھے۔ اورلوگوں کو آپ کے ساتھ جانے کی ترغیب دی۔تووہ لوگ چل پڑے جنہیں جہاد میں رغبت تھی۔ اور روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ نکلے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ جانے کے لیے نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو متعین کیا تھا؛ اور نہ ہی کسی دوسرے کو۔ لیکن جو لوگ آپ کے ساتھ نکلے تھے؛ ان کے امیر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ جیسا کہ آپ نے جب حضرت عتا ب بن اسید کو مکہ پر امیر مقرر فرمایا؛تو آپ ان تمام لوگوں پر امیر تھے جو مکہ میں تھے۔ایسے ہی جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے کو سرایا کا امیر مقرر کرتے ؛تووہ ان تمام لوگوں کے امیر ہوتے جو ان کے ساتھ شریک ہوتے۔سریہ پر جانے کے لیے امیر آپ اپنی مرضی سے مقرر فرمایا کرتے تھے۔ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ آپ اس امیر کے ساتھ جانے کے لیے لوگوں کو متعین کرتے۔یہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی اور نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنی قوم کا امامت ہوتا تو اپنی قوم کے لوگوں کو نماز وہی پڑھایا کرتا تھا۔تو جو کوئی اس کے پیچھے نماز پڑھتا؛ یہ امام اس کا بھی امام ہوتا۔ بھلے کوئی مقتدی امام سے افضل ہی کیوں نہ ہو۔ صحیح مسلم اور دیگر کتب میں ہے ؛ حضرت ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کو سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو ، اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں تو ان میں جس نے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے ۔ اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو ان میں بڑی عمر والا امامت کرے ، آدمی کی امامت اس کے گھر میں نہ کی جائے ۔اور نہ اس کی حکومت میں ، اور نہ ہی اس کی مسند پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے۔‘‘[صحیح مسلم ۱؍۴۶۵؛ کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب من أحق بالإمامۃ۔ سنن ابی داود ۔کتاب: نماز کے احکام و مسائل ۔باب : امامت کا زیادہ حقدار کون ہے ؟ ح:۵۸۲ ؛ قال الالبانی: صحیح۔سنن الترمذي ۱؍۱۴۹ ؛ کتاب الصلاۃ باب من أحق بالإمامۃ ؛ سنن النسائی ۲؍۵۹۔]

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کسی ذی سلطان امام پر آگے بڑھیں ۔ اگرچہ مقتدی اس سے افضل ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لیے علمائے کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں : ’’ بیشک فرائض کے امام پر اس سے افضل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اوریہ سنت چلتی آرہی ہے کہ سب سے پہلے امیر لوگوں کو نماز پڑھائے گا۔ لیکن فقہاء کے مابین اختلاف ہے کہ جب صاحب خانہ اور متولی جمع ہو جائیں تو پھر امامت کون کروائے گا۔ اس میں دو قول ہیں ۔ جیسا کہ نماز جنازہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس میں والی مقدم ہو گا یا متولی۔ ان میں سے اکثر والی کو مقدم کہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تو حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے امیر مدینہ سے آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائی۔ اورفرمایا: ’’ اگر ایسا کرنا سنت نہ ہوتا؛ تو میں آپ سے آگے کبھی نہ بڑھتا ۔‘‘حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس امیر سے افضل تھے جس نے آپ کو حکم دیا کہ اپنے بھائی پر نماز جنازہ پڑھیں ۔ لیکن جب وہ امیر تھا؛ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی تھی کہ کوئی انسان دوسرے کی سلطنت میں امامت نہ کرائے ۔‘‘تو پھر آپ کو اسی وجہ سے مقدم کیا گیا۔

مغازی میں شریک لوگوں پر امیرکوہی مقدم کیا جاتا تھا۔ جیسے نماز اور حج میں اسے تقدیم حاصل ہوتی تھی۔ اس لیے کہ وہ اپنے اختیار سے آپ کے پیچھے نمازپڑھتے ؛ اورآپ کے ساتھ حج کرتے ۔ حالانکہ ان پر اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا اور اس کے ساتھ حج کرنا متعین ہو جاتا تھا۔ اس لیے کہ حج کا ایک ہی امیر ہوتا تھا۔ اور نماز کے لیے ایک ہی امام ہوا کرتا تھا۔ ایسے ہی جو کوئی غزوہ پر جانا چاہتا؛ اور غزوہ کا صرف ایک ہی امیر ہوتا تووہ اس کے ساتھ نکل جاتا۔لیکن غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کو جہاد پر جانے کا حکم نہیں دیا کرتے تھے۔ آپ کسی کو بھی نام لیکر یا شخصی طور پر متعین نہیں کرتے تھے۔ بلکہ آپ ترغیب دیتے؛ پس جو کوئی چاہتا وہ جہاد پر نکل پڑتا ؛ یہی وجہ ہے کہ جہاد پر نکلنے والوں کو پیچھے رہ جانے والوں پر فضیلت حاصل ہوتی تھی۔ اگر متعین اشخاص کا جہاد میں نکلنا ہوتا تو سارے لوگ آپ کے حکم کی اطاعت میں نکل پڑتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے:

﴿ لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ عَلَی لْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا o دَرَجٰتٍ مِّنْہُ وَ مَغْفَرَۃً وَّ رَحْمَۃً وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo﴾ (النساء۹۵۔۹۶]

’’ایمان والوں میں سے بیٹھ رہنے والے، جو کسی تکلیف والے نہیں اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں ، اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے اور ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اپنی طرف سے بہت سے درجوں کی اور بخشش اور رحمت کی۔ اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ ایک سریہ کے امیر تھے ۔ سرایا کے امیراء کو خلفاء نہیں کہا جاتا تھا۔[ورنہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے۔ اس لیے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے سریہ ذات السلاسل میں امیرلشکر مقرر ہوئے تھے۔( بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات السلاسل،(ح:۴۳۵۸)، مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۴) اور بڑے بڑے صحابہ مثلاً ابوبکر و عمرو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما آپ کے تابع فرما تھے۔] اس لیے کہ وہ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے نائب قرار پائے اور نہ آپ کی زندگی ہی میں ہر چیز میں آپ کے قائم مقام تھے۔بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان لوگوں نے ایک جہادی مہم پرکوچ کیا ؛ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی لوگوں میں سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کردیا۔ یہ ایک نئی مہم تھی جس پر آپ متولی تھے ؛ اپنے سے پہلے کسی کے خلیفہ یا نائب نہیں تھے۔ اس لیے کہ بستیوں اور شہروں کے امراء [گورنروں ] کو بھی خلیفہ کہا جاتا ہے۔ یہ لفظی امور ہیں جن کا اطلاق لغت اور استعمال کے حساب سے ہوتا ہے۔ 

[اشکال ]:شیعہ کا کہنا: ’’ آپ کا انتقال ہوا اورآپ کو معزول نہیں کیا تھا۔‘‘

[جواب] :[جی ہاں ؛ پھر] حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا۔حالانکہ بعض لوگوں نے دشمن کے خوف سے اس لشکر کو واپس بلانے کا مشورہ بھی دیاتھا۔آپ نے فرمایا: 

’’اللہ کی قسم ! میں اس جھنڈے کو کبھی بھی نہیں کھولوں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا تھا؛ اور پھر امکان کے باوجود اسے نہیں کھولا۔‘‘

آپ بھی اس جھنڈے کو کھول سکتے تھے ؛ اس لیے کہ اب آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام تھے۔ لیکن آپ نے وہی کیا جو مسلمانوں کے لیے زیادہ مصلحت خیز تھا۔

[شیعہ کا ایک اور جھوٹ]:

جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ناراض ہونے کا واقعہ بھی صریح کذب ہے۔یہ ایک مسجع و من گھڑت پلندہ ہے۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے محبت او رآپ کی اطاعت اتنی مشہور ہے کہ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے کہ اسامہ تفرق و اختلاف کے خوگر نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و معاویہ کی لڑائی میں وہ غیر جانب دار رہے۔[صحابہ میں سے سیدنا عبد اﷲ بن عمر، محمد بن مسلمہ، ابو موسیٰ اشعری،اورابوبکرہ رضی اللہ عنہم بھی غیر جانب دار رہے تھے۔]علاوہ ازیں آپ قریشی نہ تھے اور کسی اور وجہ سے بھی خلافت کے لیے موزوں نہ تھے۔اور نہ ہی کبھی آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آپ کو خلیفہ بنایا جائے۔ توپھر آپ کے اس سوال میں کون سا فائدہ باقی رہ گیا تھا کہ آپ پوچھتے کہ آپ کو کس نے خلیفہ بنایا؟حالانکہ آپ جانتے تھے کہ جو بھی اس معاملہ کا مالک بنے گا وہ آپ پر خلیفہ ہوگا۔

بفرض محال اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر حاکم بنایا تھا، پھر آپ نے وفات پائی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے۔ تو اب لشکر کو بھیجنا نہ بھیجنا اور امراء کا معزول ومتعین کرنا خلیفہ کے ہاتھ میں تھا۔[اس لیے کہ عالم اسلامی میں مصالح حالات کے بدل جانے سے تبدیل ہو جاتے ہیں اگر اسلام کو سیدنا اسامہ یا ان کے لشکر کی کسی اور سلسلہ میں ضرورت لاحق ہو تی تواسلامی مصلحت کو ہر چیز پر مقدم رکھا جاتا۔]اگر وہ کہتے کہ: مجھے آپ پر امیر بنایا گیا ہے ‘ تو آپ کو مجھ پر خلیفہ کس نے بنادیا؟ تو اس کے جواب میں آپ کہہ سکتے تھے کہ : اسی نے مجھے آپ پر خلیفہ بنایا ہے جس نے تمام مسلمانوں پر اور آپ سے افضل لوگوں پر خلیفہ بنایا ہے۔ 

اگر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ : مجھے آپ پر امیر بنایا گیا ہے ؛ تو جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی کہہ سکتے تھے کہ : مجھ پر تیری امارت خلیفہ بنائے جانے سے پہلے تھی۔اب جب کہ میں خلیفہ بن گیا ہوں ‘ تو میں ہی تجھ پر امیر بھی ہوں ۔ یہ ایسے ہی ہے اگر فرض کرلیا جائے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر کسی کو امیر مقرر کیا تھا؛ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ انتقال کر گئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے ؛ تو آپ اس پر بھی امیر بن گئے جو کچھ دیر پہلے آپ پر امیر تھا۔ اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کسی کو امیر مقرر کردیتے ؛ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوجاتا اور ان دونوں میں سے کوئی ایک امیر بن جاتا تو وہ انسان پر بھی امیر ہوتا جو کہ ان پر امیر بنایا گیا تھا۔

اگر فرض کرلیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی مہم پر روانہ فرمایا ہو‘او رآپ پر کسی دوسرے کو امیر بنایا ہو جیسے حج میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ پر امیر بنایا تھا۔ سن نو ہجری میں جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حج پر روانہ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے جاملے ۔ آپ نے پوچھا : کیا امیر بن کر آئے ہو یا مأمور بن کر؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’بلکہ مامور بن کرآیا ہوں ۔‘‘

[اس سفر میں ] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر امیر تھے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ تھے تو آپ اس قابل تھے کہ آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر امیر بنایا جائے۔ یہ ایسی بات ہے کہ ایک جاہل شخص ہی اس سے منکر ہو سکتاہے۔تو پھر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ زیادہ عقل مند ؛ زیادہ متقی اوراہل علم تھے ؛ آپ کی زبان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے انسان کے حق میں اس قسم کی ہذیان گوئی نہیں ہوسکتی۔

اس کذاب کا یہ قول موجب حیرت و استعجاب ہے کہ:’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ چل کر گئے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو راضی کیا ۔‘‘

دوسری جانب شیعہ یہ کہتے ہیں کہ: ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ و عباس، بنی ہاشم و بنی عبد مناف کو مغلوب کر لیا تھا اور ان کو راضی نہ کیا۔ مقام حیرت ہے کہ جب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اشراف قریش اور انصار عرب کے بڑے بڑے قبائل کو راضی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو کیا پڑی تھی کہ ایک انیس سالہ مفلس وقلاش اور بے یارومدد گار نوجوان کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی کرتے۔اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہ ہوتی اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدم نہ کیا ہوتا تو آپ بھی دوسرے فقراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مانند ہوتے ۔

[اشکال ] :’’ اگر شیعہ کہیں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محب تھے۔‘‘[اس لیے انہیں راضی کیاگیا]

[جواب ]: تم دوسری جانب یہ بھی تو کہتے ہو کہ: ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و وصیت کو بدل ڈالا تھا۔ اور آپ کے وصی پر ظلم کیااور ان کا حق غصب کرلیا۔جو کوئی صحیح وصریح حکم میں نافرمانی کرے؛کھلے ہوئے واضح عہد کو بدل ڈالے ‘ ظلم وسرکشی کرے ؛ اور دوسروں کو مغلوب کرلے ۔اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی پرواہ نہ کرے ؛ اور نہ ہی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کسی تعلق و قرابت کا خیال کرے ‘ وہ اسامہ جیسے انسان کا اتنا خیال رکھے گا؟ حتی کہ آپ کو راضی کرنے کیلئے چل کر جائے۔حالانکہ اس نے[اسامہ کی ماں ] ام ایمن رضی اللہ عنہا کی گواہی رد کی ہو؛ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غضبناک کیا ہو اور آپ کو تکلیف دی ہو؛ حالانکہ آپ اس بات کی زیادہ حق دار تھیں کہ آپ کو راضی کیا جاتا ۔جو کوئی اتنا کچھ کرسکتا ہو تو اس کو کون سی ایسی حاجت پڑی ہے کہ وہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو راضی کرے ؟اس لیے کہ کسی شخص کو یا تو اس کے دین کی وجہ سے راضی کیا جاتا ہے یا پھر دنیا کی وجہ سے ۔ اگر اس کے پاس اتنا دین بھی نہ ہو جو کہ راضی کرنے والے انسان کیلئے ترغیب کا سبب بن سکے ؛ اورنہ ہی انہیں دنیا کی کسی چیز میں اس کی کوئی ضرورت ہو۔ توپھر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ انہیں راضی کرنے کی کوشش کی جائے ؟رافضی اپنی جہالت اور دروغ گوئی کی وجہ سے ایسے تناقضات بیان کرتے ہیں جن کا متضاد اور جھوٹ ہونا بالکل ظاہر ہوتا ہے ۔ بیشک ان لوگوں کے اقوال میں انتہائی سخت اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : 

﴿اِِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ٭یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِک﴾ [الذاریات ۸۔۹]۔

’’ بلا شبہ تم ایک اختلاف والی بات میں پڑے ہوئے ہو۔ اس سے وہی بہکایا جاتا ہے جو(پہلے سے) بہکاہوا ہو ۔‘‘