فصل:....فاروق ابن خطاب رضی اللہ عنہ پر رافضی غصہ
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....فاروق ابن خطاب رضی اللہ عنہ پر رافضی غصہ
[اعتراض]: شیعہ قلم کار لکھتا ہے: ’’ اہل سنت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق کے نام سے یاد کرتے ہیں ، مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لقب سے ملقب نہیں کرتے ؛ حالانکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں فرمایا تھا:’’ھٰذَا فَارُوْقُ اُمَّتِیْ‘‘(یہ میری امت کا فاروق ہے)۔ جو حق اور باطل کے مابین فرق کرنے والا ہے۔‘‘حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہم منافقین کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے ۔‘‘
[انتہی کلام الرافضی]
[جواب] : ہم کہتے ہیں کہ:
پہلی بات:....اہل علم محدثین بغیر کسی شک و شبہ کے جانتے ہیں کہ: یہ دونوں حدیثیں جھوٹی اور من گھڑت ہیں ۔ شیعہ کی طرف سے یہ پہلی جھوٹی حدیث نہیں ،بلکہ وہ متعدد دیگر جھوٹی حدیثیں وضع کر چکے ہیں ۔ ہمیں اس حدیث کی کوئی سند معلوم نہیں ۔اور نہ ہی حدیث کی کسی بھی معتمد کتاب میں ایسی کوئی صحیح روایت موجود ہے۔
دوسری بات:....جو کوئی اگر فرعی مسائل میں بھی کسی حدیث سے استدلال کرے تو اس کیلئے لازمی ہے کہ وہ اس حدیث کی سند بھی پیش کرے ۔توپھر اصول دین میں کیسے بلا سند حدیث پیش کی جاسکتی ہے ؟کسی کہنے والے کا فقط یہ کہنا کہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘حجت نہیں ہوسکتا؛ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ اگر یہ حجت ہوتا تو ہر وہ حدیث جس میں کوئی ایک محدث اور اہل سنت یہ کہتا کہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ‘‘ حجت بن جاتی ۔ ہم اس باب میں اس بات پر قناعت کرتے ہیں کہ حدیث کو ان لوگوں سے نقل کیا جائے جو سچائی میں معروف ہوں ‘ خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو۔
لیکن جب حدیث کی اسناد نہ ہوں ‘ توناقل حدیث اگرچہ جھوٹ نہ بھی بول رہا ہو‘ وہ کسی دوسرے کی کتاب سے نقل کررہا ہو۔اور نقل کرنے والا نہ جانتا ہو کہ [اس سے پہلے] یہ روایت کس سے نقل کی گئی ہے؟ اس باب میں جھوٹ کی کثرت بڑی ہی معروف ہے ۔تو پھر کسی کے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی ایسی حدیث سے استدلال کرے جس کی سند کو وہ نہ جانتا ہو؟
تیسری بات:....یہ بات ہر علم رکھنے والا انسان جانتا ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے علم کی تلاش میں رہنے والے تھے۔اور سب سے زیادہ اتباع حدیث میں رغبت رکھنے والے تھے۔
لوگوں میں سب سے زیادہ اتباع ہوی سے دور رہنے والے تھے ۔ اگر محدثین کے ہاں یہ ثابت ہوجائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے کوئی ایسا جملہ ارشاد فرمایا تھا ؛ تو ان محدثین سے بڑھ کر کوئی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حریص نہ ہوتا۔ اس لیے کہ یہ مقدس جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر عمل کرنے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے اور آپ کی محبت میں آپ کی اطاعت کرتے تھے۔اس کے علاوہ کسی ممدوح شخص سے انہیں کوئی غرض نہ ہوتی تھی۔ اگر ان کے ہاں یہ حدیث ثابت ہوجاتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا ہے کہ : ’’ یہ اس امت کے فاروق ہیں ‘‘ تو محدثین اسے قبول کرتے ۔اور اسے نقل کرتے۔جیسا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا گیا قول نقل کرتے ہیں :((ھذا أمین ہذہ الأمۃ۔)) ’’ یہ اس امت کا امین ہے ۔‘‘[رواہ البخاری۵؍۲۵ ؛ کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ باب مناقب ابي عبیدہ رضی اللّٰہ عنہ ؛ سنن الترمذي ۵؍۳۱۶؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب أبو عبیدۃ ۔سنن ابن ماجۃ ۱؍ ۴۹ ؛مقدمۃ۔]
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا تھا: ((لکل نبی حواري و حواري الزبیر۔))[البخاری۵؍۲۱ ؛ کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ باب مناقب الزبیر ابن العوام رضی اللہ عنہ ؛ مسلم ۴ ؍۱۸۷۹ ؛ کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل طلحۃ و الزبیر ؛ سنن ابن ماجۃ ۱؍ ۴۵ مقدمۃ۔]
’’ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے ‘ اور میرا حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہے ۔‘‘
اور جیسا کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان قبول کیا اور نقل کیا ہے:
’’ لأعطین الرایۃ غداً رجلاً یحب اللّٰہ و رسولہ و یحبہ اللّٰہ و رسولہ ۔‘‘[یہ حدیث صحابہ کرام کی ایک جماعت نے روایت کی ہے ۔ دیکھو: رواہ البخاری۵؍۱۸؛ کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ باب علي بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ ؛ سنن الترمذي ۵؍۳۰۱؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب علي بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ ۔سنن ابن ماجۃ ۱؍۴۳ ؛ مقدمۃ۔]
’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘
چادر والی حدیث جس میں آپ نے حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم کیلئے فرمایا تھا:
’’یا اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ان سے پلیدی کو دور کردے ‘ اور انہیں بالکل پاک کردے ۔‘‘ [مسلم۴؍۱۸۸۳؛ سبق تخریجہ۔]
ان کے علاوہ ایسی دیگر بھی کئی ایک روایات ہیں ۔
چوتھی بات :....ان دونوں روایتوں میں سے ہر ایک کا جھوٹ اور باطل ہونا صاف ظاہر ہے ۔ ان روایات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ۔اس لیے کہ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے کے فاروق ِامت ہونے سے کیامراد ہے ؟کیا حق و باطل میں فرق کرنا مراد ہے ؟ اگر اس سے مراد یہی ہو کہ اس سے اہل حق اور اہل باطل کے درمیان امتیاز ہوتا ہے ؛ اور مؤمنین اور منافقین میں فرق ہوتا ہے ؛ تو یہ ایسا معاملہ ہے جس پر انسانوں میں سے کسی ایک کا بس نہیں چلتا۔ نہ ہی کسی نبی کا نہ ہی کسی دوسرے کا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ﴾ [التوبۃ۱۰۱]
’’ اور ان لوگوں میں سے جو تمھارے ارد گرد دیہاتیوں میں سے ہیں ، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں ، آپ انھیں نہیں جانتے، ہم ہی انھیں جانتے ہیں ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اہل مدینہ میں سے اور مدینہ کے گردونواح کے منافقین میں سے ہر ایک کو متعین طور پر نہیں جانتے تھے ؛ تو پھر کوئی دوسرا کیسے جان سکتا ہے ؟
اگر یہ کہا جائے کہ : آپ اہل حق اور اہل باطل کی صفات بیان کیا کرتے تھے؛ تو یقیناً قرآن میں مجید میں اس کا کافی و شافی بیان موجود ہے ۔اور قرآن ہی وہ فرق کرنے والی کتاب ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حق و باطل میں فرق کیا ہے ؛ اس میں کوئی شک و شبہ والی بات ہی نہیں ۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ : جو لوگ آپ کے ساتھ مل کر لڑتے تھے وہ حق پر تھے ‘ اور جو آپ سے لڑرہے تھے وہ باطل پر تھے ۔تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر اس بات کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے آپ کے اور صرف اس خاص گروہ کے درمیان فرق و امتیاز ہوتا ہے۔پس اس لحاظ سے ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اس کے زیادہ حق دار ہیں ۔اس لیے کہ انہوں نے اہل حق مؤمنین کو ساتھ لیکر کفار اہل باطل سے قتال کیا ۔ان لوگوں کی وجہ سے جو فرق و تمیز حاصل ہوئی وہ زیادہ اکمل و افضل تھی۔اس لیے کہ کوئی عقلمند اس بات میں شک نہیں کرسکتا کہ جن لوگوں سے خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم نے قتال کیا وہ باطل پرستی کے زیاد قریب تھے بہ نسبت ان لوگوں کے جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتال کیا ۔ اس لیے کہ جب بھی دشمن جتنا زیادہ باطل پر ہوتا ہے اس سے لڑنے والے اس قدر زیادہ حق پر ہوتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ بروز قیامت سب سے زیادہ عذاب میں وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے کسی نبی کوقتل کیا ہو ‘ یا پھر کسی نبی کے ہاتھوں سے قتل ہوا ہو۔ وہ مشرکین جو کہ براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیا کرتے تھے ؛ جیسے ابو جہل ‘ ابو لہب وغیرہ ؛ یہ دوسرے لوگوں سے بڑھ کر برے تھے۔پس جب خلفاء ثلاثہ سے لڑنے والے سب سے بڑے باطل پرست تھے تو ان کی ہمراہی میں لڑنے والے سب سے بڑے حق پرست تھے۔اس لحاظ سے یہ لوگ صفت فرقان کے زیادہ حق دارہیں [کہ انہیں فاروق کا خطاب دیا جائے ]۔
اگر یہ کہا جائے کہ :’’ آپ اس لیے فاروق ہیں کہ آپ کی محبت اہل حق و اہل باطل کے مابین فرق کرنے والی ہے ۔‘‘
تواس کا جواب یہ ہے کہ: اولاً: یہ آپ کا ذاتی فعل نہیں ہے کہ اس وجہ سے آپ کو فاروق کہا جائے ۔
ثانیاً : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اہل حق و اہل باطل کے درمیان سب سے بڑی وجہ تمیز وتفریق ہے ۔ اس پر تمام مسلمانوں کااتفاق ہے ۔
ثالثاً : اگر کوئی اعتراض کرنے والا اعتراض کرے اورکہے کہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی محبت اہل حق و اہل باطل کے مابین فرق کرنے والی ہے تو ان کا دعوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہی دعوی کرنے والوں سے کسی طرح کمزور نہیں ہوگا۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے آپ نے جب فتنہ کا ذکر کیا تو[حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق] فرمایا : ’’اس دن یہ اور اس کے ساتھی حق پر ہوں گے ۔‘‘ [الترمذي ۵؍۲۹۱ ؛ کتاب المناقب : باب مناقب عثمان رضی اللّٰہ عنہ ؛ قال الترمذي: حسن صحیح۔]
اگر یہی دعوی حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں کہا جائے تو یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ ان کا دعوی غالب ہوگا۔ اور جس کسی کا قول صرف دعوے تک محدود ہو تو اس کا مقابلہ ایسے ہی دعوی سے کیا جاسکتا ہے ۔ اگر اس سے مطلق محبت کا دعوی مراد ہو تو پھر اس میں غالی لوگ بھی داخل ہوں گے ؛ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب یا نبی مانتے ہیں ۔ تو پھر یہ لوگ زیادہ حق پر ہوں گے۔ حالانکہ ایسا کہنا صریح کفر ہے اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اوراگر اس سے مطلق محبت مراد ہو تو پھر اس کا معاملہ بھی علیحدہ ہے۔
اہل سنت والجماعت کہتے ہیں :ہم شیعہ سے بڑھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والے ہیں ۔اس لیے کہ جس محبت میں غلو پایا جائے ‘ وہ یہودکی حضرت موسی علیہ السلام سے اور نصاری کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے محبت کی طرح ہے۔یہ محبت باطل ہے۔ صحیح محبت یہ ہے کہ محبت کرنے والااپنے محبوب سے ان اوصاف و خصال کی وجہ سے محبت کرے جو اس میں موجود ہیں ۔اگر کوئی شخص کسی نیک انسان کے متعلق یہ نظریہ رکھے کہ فلاں ولی اللہ کا نبی ہے۔یا اس کا شمار سابقین اولین میں ہوتا ہے؛ وہ اس بنیاد پر اس سے محبت کرنے لگ جائے۔ حقیقت میں اس نے ایسی چیز سے محبت کی ہے جس کی کوئی اصل یا حقیقت نہیں ہے۔اس لیے کہ محبت کرنے والے نے اس وجہ سے محبت کی ہے کہ وہ صفات اس کے محبوب میں موجود ہیں ۔ جب کہ یہ صفات اس میں اصل سے موجود ہی نہیں ۔توپھر اس نے موجود اوصاف سے محبت نہیں کی بلکہ معدوم سے محبت کی ہے۔اس کی مثال اس شخص کی ہے جو کسی عورت سے یہ سوچ کر شادی کرے کہ وہ بڑی مال دار ہے ؛ بہت خوبصورت ہے؛ دیندار اور حسب و نسب والی ہے۔پھر اس کے لیے عیاں ہوں کہ اس میں ان کے خیالات و تصورات میں سے کوئی چیزنہیں پائی جاتی۔تو یقیناً جتنی اس عورت میں کمی نظر آئے گی؛ اس قدر اس کی محبت میں بھی کمی آئے گی۔اس لیے کہ جب حکم کسی علت کی وجہ سے ثابت ہو تو اس علت کے ختم ہونے سے حکم بھی ختم ہوجاتا ہے۔
یہودی جب حضرت موسی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے تو [اگر]وہ اس بنیاد پر محبت کرتا ہے : آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’ جب تک آسمان وزمین باقی رہیں ‘تم ہفتہ کے دن میں رکے رہنا ۔ اور آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے۔‘‘حالانکہ حضرت موسی علیہ السلام نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ۔جب قیامت والے دن یہودیوں کے لیے حضرت موسی علیہ السلام کی حقیقت واضح ہوگی تو وہ جان لیں گے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے حقیقی اوصاف کی وجہ سے آپ سے محبت نہیں کرتے تھے۔بلکہ ان کی محبت کی بنیاد ایسے اوصاف تھے جن کا اصل میں کوئی وجود ہی نہیں ۔پس اس بنا پر اس کی محبت باطل ہو گی۔اس لیے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بشارت دینے والانہ ہوگا۔
صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ)) [صحیح بخاری ،کتاب الأدب ‘باب : علامۃ حب اللّٰہ عزو جل ‘ ح: ۵۸۲۲۔ صحیح مسلم ؛کتاب البر ....‘ باب: المرء مع من أحب ؛ ح: ۴۸۸۵، صحیح الجامع:۶۶۸۹۔]
’’ آدمی [بروزقیامت]اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی ہوگی ۔‘‘
یہودی کی محبت صرف اس چیز سے ہے جس کااصل میں کوئی خارجی وجود ہی نہیں ۔حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی ایسی بشارت نہیں دی۔ تو پھروہ حضرت موسی علیہ السلام سے محبت کرنے والا تو نہ ہوا۔محبت؛ ارادہ اور اس طرح کے امور میں علم اور اعتقاد پر چلا جاتا ہے ۔یہ شعور کی ایک قسم ہے۔پس جو کسی باطل چیز کو اپنے اعتقاد میں محبوب رکھے ؛ تو یقیناً وہ باطل سے محبت کرنے والا ہوگا۔ یہ باطل محبت اسے کوئی نفع نہیں دے گی۔ایسے ہی جو انسان کسی بشر کے متعلق رب ہونے کا اعتقاد رکھے اور پھر اس بنا پر اس سے محبت کرے ؛ جیسے کہ وہ لوگ جو فرعون کو اپنا رب سمجھتے تھے؛اور اسماعیلیہ [اپنے ائمہ کے متعلق اسماعیلیہ ایسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں ]؛ اور بعض وہ لوگ جو اپنے مشائخ کے رب ہونے کااعتقاد رکھتے ہیں ۔ او ربعض لوگ کچھ اہل بیت کے متعلق ایسا ہی دعوی کرتے ہیں ۔یا بعض لوگ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ اور ملائکہ کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے ہیں ؛ جیسے عیسائی لوگ اوردیگر۔ پس جو انسان حق کی پہچان حاصل کرلیتا ہے‘ وہ اسی سے محبت کرتاہے؛تو اس کی محبت بھی حق کی بنیادپر ہوتی ہے؛اور جس کی محبت حق کی بنیاد پر ہوتی ہے وہ اسے نفع دیتی ہے؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ ٭وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّہُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَاَصْلَحَ بَالَہُمْ ٭ذٰلِکَ بِاَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَاَنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّہِمْ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَہُمْ﴾ [محمد۱۔۳]
’’وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اوراللہ کے راستے سے روکا ،اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیے۔اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور اس پر ایمان لائے جو محمد پر نازل کیا گیا اور وہی ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اس نے ان سے ان کی برائیاں دور کر دیں اور ان کا حال درست کر دیا ۔یہ اس لیے کہ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے باطل کی پیروی کی اور بے شک جو لوگ ایمان لائے وہ اپنے رب کی طرف سے حق کے پیچھے چلے۔ اسی طرح اللہ لوگوں کے لیے ان کے حالات بیان کرتا ہے ۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شیعہ کی محبت اسی نوع کی ہے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے نصاریٰ کی محبت؛ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معبود ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ جبکہ آپ اللہ کے بندے اور رسول تھے۔۔پس وہ حقیقت میں ایسی چیز سے محبت کرتے ہیں جس میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔ جب ان پر عیاں ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ‘تو اس کی ساری محبت کافور ہوجائے گی؛ اور انہیں آپ کا ساتھ بھی نصیب نہ ہوگا۔اسی طرح شیعہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اغراق و غلوّ سے کام لیتے ہیں ۔ اورایسے ہی ان لوگوں کی محبت بھی ہے جو صحابہ کرام تابعین عظام اور اولیاء اللہ رحمہم اللہ سے باطل تصورات قائم کرکے ان سے محبت کرتے ہیں ۔تو جس محبت کی بنیاد ہی باطل پر ہو؛وہ محبت بھی باطل ہوگی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رافضی کے دعویء محبت کا یہی عالم ہے۔اس لیے کہ وہ ایسی چیزوں سے محبت کرتے ہیں جن کااصل میں کوئی وجود ہی نہیں ۔مثال کے طور پر رافضی کہتے ہیں : آپ امام منصوص ہیں ؛ آپ کوامام بنانے کا حکم دیاگیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے علاوہ کوئی دوسرا امام نہیں ہوسکتا۔
ان لوگوں کا اعتقادہے کہ حضرات شیخین جناب ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ظالم اور کافرتھے ۔معاذ اللہ ۔ ۔جب روز محشر واضح ہو جائے گاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے بھی افضل نہ تھے ؛بلکہ اس کی آخری حدیہ ہوسکتی ہے کہ آپ ان دونوں کے قریب تر ہوں ؛ اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں اصحاب کی خلافت ؛ عظمت و امامت او رفضیلت کے قائل تھے۔اور نہ ہی آپ گناہوں سے معصوم تھے ؛ اورنہ ہی آپ کے بعد کوئی دوسرا منصوص امام ۔توان کو پتہ چل جائے گا کہ حقیقت میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہ کرتے تھے۔بلکہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سب سے بڑھ کر بغض رکھنے والے تھے۔اس لیے کہ جو صفات حضرت علی رضی اللہ عنہ میں کامل طور پر موجود تھیں رافضی تو ان صفات سے بغض رکھتے ہیں ۔اس لیے کہ آپ پہلے تینوں خلفاء کی خلافت اور ان کی فضیلت کو مانتے تھے۔ آپ ان کو فضیلت دیتے اور ان کی خلافت کا اقرار کرتے تھے۔ تو اس وقت رافضیوں کوپتہ چل جائے گا کہ وہ حقیقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے تھے۔
مذکورہ بالا بیان سے اس حدیث کی وضاحت ہو جاتی ہے، جو صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا کہ صرف مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا۔اور صرف منافق ہی تجھ سے بغض و عداوت رکھے گا۔‘‘[مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الدلیل علی أن حب الانصار و علی رضی اللّٰہ عنہم من الایمان(ح:۷۸)۔]
یہ حدیث صحیح اور ثابت شدہ ہے ۔ روافض صحیح معنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کے اصل اوصاف کی بنیاد پر دوستی نہیں رکھتے ، بلکہ ان کی محبت یہودیوں کی حضرت موسی علیہ السلام اور عیسائیوں کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام محبت کی جنس سے ہے ۔ بلکہ رافضی ایک اعتبار سے جناب علی رضی اللہ عنہ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں ۔ جس طرح یہود و نصاریٰ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے[ حقیقی ]اوصاف سے بغض رکھتے ہیں ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے ہیں ، حالانکہ موسیٰ و عیسیٰ رحمہم اللہ آپ کی رسالت و نبوت کے معترف تھے۔[[ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ الفت و محبت رکھتے تھے۔ مگر شیعہ اس کے باوصف ان سے عداوت رکھتے ہیں ، بنا بریں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول میں داخل ہیں کہ ’’ صرف منافق ہی آپ سے بغض رکھے گا]]۔‘‘
علی ہذا القیاس جو شخص بھی کسی بزرگ سے ایسی صفت کی بنا پر محبت رکھتا ہے جو فی الواقع اس میں نہیں پائی جاتی تو گویا وہ اس سے عداوت رکھتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اس کا مرشد اپنے تمام مریدوں کی سفارش کرے گا۔اوریہ کہ وہ شیخ اسے رزق پہنچاتا اور اس کی مدد کرتا ہے، اس کی مشکلات کو دور کرتا ہے؛ یا اس کی حاجات و ضروریات پوری کرتا ہے،یا یہ کہ وہ شیخ اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا مالک ہے ؛ یا وہ یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اس کا شیخ عالم الغیب ہے۔یا پھر وہ بادشاہ مطلق بن گیا ہے؛ اور معاملہ حقیقت میں ایسے نہ ہو ؛ تو یقیناً اس نے ایسی چیز سے محبت کی ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ:’’ صرف مومن ہی مجھ سے محبت کرے گا۔اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض و عداوت رکھے گا۔‘‘یہ آپ کے خصائص میں سے نہیں ۔صحیحین میں ہے: سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’ ایمان والے کی نشانی انصار سے محبت کرنا ہے ‘ او رمنافق کی نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے۔ ‘‘[البخاري ۵؍۳۲؛ کتاب مناقِبِ الأنصارِ، باب حبِ الأنصار ، مسلِم:۱؍۸۵کتاب الإِیمانِ، باب الدلِیلِ علی أن حب الأنصارِ....، المسندِ ط۔ الحلبِی: ۳؍۱۳۰، وقال: لا یبغِض الأنصار رجل یؤمِن بِاللہِ والیومِ الآخِرِ ....؛ فِی: مسلِم: ۱؍۸۶، کتاب الِإیمانِ، باب الدلِیلِ علی أن حب الأنصار....، سننِ التِرمِذِیِ:۵؍۳۷۳ کتاب المناقِبِ، باب فِی فضلِ الأنصارِ وقریش ، المسندِ، ط۔ المعارِف: ۴؍ ۲۹۳۔]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایاہے : ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ انصار کا دشمن نہیں ہو سکتا۔‘‘[البخارِیِ:۵؍۳۲؛ کتاب مناقِبِ الأنصارِ، باب حبِ الأنصار ، مسلِم:۱؍۸۵کتاب الإِیمانِ، باب الدلِیلِ علی أن حب الأنصارِ....، سننِ التِرمِذِیِ :۵؍۳۷۱، کتاب المناقِبِ، باب مِن فضلِ الأنصارِ وقریش ، المسندِ ط۔ الحلبِی:۴؍۲۸۳۔]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’ انصار سے صرف مؤمن ہی محبت رکھے گا‘ او ران سے منافق ہی نفرت و بغض رکھے گا۔‘‘ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ کے لیے یہ دعا فرمائی تھی کہ’’ اللہ تعالیٰ مومنین کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کردے۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ (حدیث: ۲۴۹۱) ۔]
آپ فرمایا کرتے تھے: ’’آپ کوئی بھی مؤمن نہیں پائیں گے مگر وہ مجھ سے اور میری ماں سے محبت کرتا ہوگا۔‘‘
ان احادیث کی روشنی میں مذکورہ بالا احادیث اور شیعہ کی روایت کردہ حدیث میں فرق واضح ہوجاتا ہے ۔
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتاہے:عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ:’’ ہم منافق کو صرف بغض علی کی بنا پر پہچانا کرتے تھے۔‘‘
[جواب]:اس روایت کے بارے میں ہر عالم جانتا ہے کہ یہ من گھڑت جھوٹ ہے ۔اس لیے کہ نفاق کی بہت ساری نشانیاں ہیں ؛ او رحضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض کے علاوہ بھی متعدد اسباب ہیں ۔ توپھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کے علاوہ کوئی نفاق کی نشانی کیسے نہیں ہوسکتی۔
علامات نفاق:
[ نفاق کی بہت سی نشانیاں ہیں ]۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انصار سے عداوت رکھنا علامت نفاق ہے۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب الإیمان۔ باب الدلیل علی ان حب الانصار و علی رضی اللّٰہ عنہم ....‘‘ (حدیث:۷۴) صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ الایمان حب الانصار (حدیث:۱۷) ]
آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں :جب بات کرے تو جھوٹ بولے ؛ جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اورجب اسے امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے۔‘‘[البخاری، کتاب الایمان۔ باب علامات المنافق(ح:۳۳) مسلم کتاب الایمان باب خصال المنافق(ح:۵۹)]
قرآن کریم میں منافقین کے اوصاف کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوا﴾ (التوبۃ:۵۸)
’’ ان (منافقین) میں سے وہ بھی ہیں جو صدقات کے بارے میں آپ کو طعن دیتے ہیں اگر ان کو صدقات دیے جائیں تو وہ راضی ہو جاتے ہیں ۔‘‘
نیز فرمایا:﴿وَ مِنْہُمُ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ النَّبِیَّ﴾ (التوبۃ:۵۸)
’’منافقین میں سے وہ بھی ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں ۔‘‘
اورارشاد ہوتا ہے:﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ عَاہَدَ اللّٰہَ ﴾ (التوبۃ ۷۵)
’’ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے [جھوٹے ] وعدے کرتے ہیں ۔‘‘
اورارشاد ہوتا ہے:﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِیْ وَلَا تَفْتِنِّيْ﴾ (التوبۃ:۳۹)
’’منافقین میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہمیں اجازت دیجیے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالیے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْل اَیُّکُمْ زَادَتْہُ ھٰذِہٖ اِیْمَانًا﴾ (التوبۃ:۱۲۳)
’’ان میں سے بعض کہتے ہیں : اس آیت نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا۔‘‘
اللہکریم نے سورۂ توبہ اور دیگر مقامات پر منافقین کی جو علامات بیان کی ہیں انھیں یہاں تفصیلاً بیان نہیں کیا جا سکتا۔ شیعہ نے جو جھوٹی روایت ذکر کی ہے، اگر اس کے الفاظ یہ ہوتے کہ ہم منافقین کو بغض علی رضی اللہ عنہ کی بنا پر پہچان لیا کرتے تھے؛ تو بھی ایک بات تھی۔ جس طرح بغض انصار کو علامت نفاق قرار دیاگیا، بلکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کے بغض کو بھی نفاق کی علامت ٹھہرایا گیا ہے۔ اس لیے کہ جو شخص دانستہ اس کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محبت رکھا کرتے تھے؛ اوروہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اور دوستی رکھا کرتا تھا؛ اس کا بغض و عناد بلا شبہ علامات نفاق میں سے ایک علامت ہے۔یہ دلیل خود ان لوگوں کا رد کرتی ہے ؛ جب کہ اس کا عکس کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے سب سے بڑے منافق سمجھے جاتے تھے۔ کیوں کہ صحابہ میں سے کوئی بھی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عزیز تر نہ تھا اور نہ ہی صحابہ میں کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ چاہنے والا تھا، اس سے واضح ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بغض وعناد رکھنا نفاق کی عظیم ترین علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عناد رکھنے والے نصیریہ اور اسمٰعیلیہ اوردیگر سب سے بڑے منافق ہوتے ہیں ۔
[اعتراض]: اگر کوئی معترض یہ بات کہے کہ : رافضی جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں ‘ ان کا ایمان تھا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں ۔ اس لیے کہ ان لوگوں کو ایسی کہانیاں گھڑ کر سنائی گئی ہیں جن کا تقاضا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت اطہار سے بغض رکھتے ہوں ۔اس لیے وہ بھی جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں ۔‘‘
[جواب]: اگر یہ واقعی عذر ہے تو پھر ان لوگوں کے منافق ہونے میں کیا مانع ہے جو جہالت اورتأویل کی بنا پر آپ سے بغض رکھتے ہوں ۔ تو پھر یہی حال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والوں کا ہوگا ‘ جن کا اعتقاد ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کافر اور مرتد ہو گئے تھے۔یاآپ ظالم اور فاسق تھے۔تووہ بھی آپ سے اس وجہ سے بغض رکھتے ہیں کہ آپ دین اسلام سے بغض رکھتے تھے۔ یا اللہ تعالیٰ نے جوآپ کو عدل و انصاف کا حکم دیا تھا‘ اس سے محبت نہیں کرتے تھے۔اور ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ آپ نے حکومت کی تلاش میں امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قتل کروایا۔ اور آپ نے زمین میں فساد پھیلایا ۔اور آپ کی مثال ایسے ہی تھی جیسے فرعون یا اس جیسے دوسرے لوگوں کی ۔ ایسا کہنے والے بھی اگرچہ جاہل ہیں ؛ مگر ان لوگوں سے بڑھ کر جاہل نہیں ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس امت کا فرعون کہتے ہیں ۔اگر ان لوگوں کا اپنی جہالت اور تاویل کی وجہ سے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بغض رکھنا منافقت نہیں ہے ؛ تو پھر دوسرے لوگوں [خوارج و نواصب ] کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا بھی بدرجہ اولی منافقت نہیں ہے۔
اگر بغض ِ علی رضی اللہ عنہ نفاق ہے ‘ بھلے وہ جہالت اور تأویل کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو ؛ تو پھر اس وقت حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بغض رکھنا بدرجہ اولی نفاق ہوگا ‘ اگرچہ جہالت و تأویل کی بناپر ہی کیوں نہ ہو۔