فصل:....تعظیم ام المؤمنین رضی اللہ عنہا پر رافضی غیض و غضب
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....تعظیم ام المؤمنین رضی اللہ عنہا پر رافضی غیض و غضب
[حضرت عائشہ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما کے متعلق رافضی کی ژاژہ خوئی]
[اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول:’’ اہل سنت باقی ازواج مطہرات پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عظمت و فضیلت کے قائل ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یاد فرمایا کرتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بھی اس کو اس کثرت سے کیا یاد کرتے ہیں ؛حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان سے بہتر بدل عطا فرمایا۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم ! اس سے بہتر بدل مجھے نہیں مل سکا۔اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا۔اور جب لوگوں نے مجھے جھڑک دیا ؛ تو اس نے مجھے اس وقت ٹھکانہ اور پناہ دی۔اس نے اپنے مال کیساتھ میری مدد کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے مجھے اولاد عطا فرمائی۔جب کہ کسی دوسری بیوی سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ ‘‘
[جواب]: ہم کہتے ہیں : اہل سنت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سب ازواج سے افضل ہونے کی بابت متحد الخیال نہیں ہیں ؛ہاں اکثر لوگوں کا یہی خیال ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت کے قائلین وہ حدیث نبوی پیش کرتے ہیں جسے امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابو موسی اور انس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ‘ آپ نے فرمایا:
’’عائشہ باقی عورتوں پر اسی طرح فضیلت رکھتی ہیں جیسے ثرید باقی کھانوں سے افضل ہے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ باب فضل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ۔ (ح: ۳۷۶۹،۳۷۷۰)،صحیح مسلم ۔ کتاب فضائل الصحابۃ باب فی فضائل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا (ح:۲۴۴۶)۔] ثریدمیں گوشت میں بھگوئی ہوئی روٹی ہونے کی وجہ سے باقی کھانوں سے افضل ہے۔
گندم کی روٹی بہترین کھانا ہے ‘ اور گوشت بہترین سالن ہے۔ جیسا کہ ابن قتیبہ کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ دنیا والوں کے لیے تمام سالنوں کا سردار گوشت ہے ۔‘‘[سنن ابن ماجۃ ۲؍۱۰۹۹؛کتاب الأطعمۃ ؛ باب اللحم ؛ عن ابي درداء؛ ضعیف؛ قال الألباني : ضعیف جداً ’’ ضعیف الجامع الصغیر ۳ ؍۲۳۰۔وضعف العجلوني في کشف الخفاء ۱؍۴۶۱۔ ]
جب گوشت ہر قسم کے سالن کا سردار ہے‘ اور گندم کی روٹی تمام غذاؤں کی سردار ہے ‘ تو ان دونوں کا مجموعہ ثرید ہے ؛ جو کہ تمام کھانوں کا سردار ہے۔اس لیے ثرید تمام کھانوں سے افضل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ احادیث کئی اسناد سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عائشہ باقی عورتوں پر اسی طرح فضیلت رکھتی ہیں جیسے ثریدباقی کھانوں سے افضل ہے۔‘‘
صحیح بخاری میں ہے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے کہا :
’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ازواج مطہرات میں سے آپ کو کون عزیز تر ہے؟ آپ نے جواباً فرمایا: ’’عائشہ رضی اللہ عنہا ۔‘‘ میں نے عرض کیا اور مردوں میں سے آپ کس کے ساتھ زیادہ محبت رکھتے ہیں ؟ فرمایا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ۔‘‘
میں نے عرض کیا ان کے بعد اور کس سے ؟ فرمایا:’’ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ۔‘‘ اس کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دریافت کرتے چلے گئے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درجہ بدرجہ متعدد صحابہ کا ذکر کیا۔[صحیح بخاری۔ باب غزوۃ ذات السلاسل،(ح:۴۳۵۸) صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۴)۔ ]
شیعہ جو کہتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شان میں فرمایا ہے کہ:
((مَا اَبْدَلَنِیَ اللّٰہُ خَیْرًا مِّنْہَا۔)) [مسند احمد(۶؍۱۱۷۔۱۱۸)۔]
’’ اللہ تعالیٰ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے عوض مجھے ان سے بہتر بیوی عطا نہیں کی۔‘‘
اگر اس کی سند کی صحت ثابت بھی ہوجائے توسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت کاعقیدہ رکھنے والے بشرط صحت اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ آغاز اسلام میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ آپ کو جو فائدہ پہنچا تھا وہ نفع کسی اور سے حاصل نہیں ہوا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے افضل ہونے کا پہلو گویا یہ امر ہے کہ آپ نے آڑے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی۔ اس کے عین بر خلاف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رفاقت نبوی کی سعادت اس آخری وقت میں حاصل ہوئی جب نبوت پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی اور دین حق تکمیل کے آخری مدارج طے کر رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو کمالِ علم وایمان کی وہ دولت نصیب ہوئی جو آغاز اسلام والوں کے حصہ میں نہیں آئی تھی۔ اس اعتبار سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے افضل ٹھہریں ۔
امت ِ محمدی بڑی حد تک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم و فضل سے متمتع ہوئی اور آپ نے علم و عمل دونوں سے حظ وافر پایا۔
گویا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود ہے۔ نہ آپ کو تبلیغ احکام کا شرف حاصل ہوا اور نہ ہی امت آپ سے نفع اندوز ہو سکی۔ جب کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے امت کو بڑا فائدہ پہنچا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دین اسلام اس وقت تکمیل کو نہیں پہنچا تھا اور ابھی ان کمالات کی تحصیل کا وقت نہیں آیا تھا جو بعد میں آنے والے لوگوں نے حاصل کیے۔ یہ امر محتاج بیان نہیں کہ جو شخص اپنی توجہات کو ایک ہی بات پر مرکوز کر دے، وہ اس کی نسبت بہتر ہو گا جس نے مختلف امور و اعمال کو اپنی نظر وفکر کی آماج گاہ بنا رکھا ہو۔ یہ ہے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت کی وجہ وجیہ! مگر معاملہ یہ ہے کہ نیکی کے جملہ اقسام افضلیت کے اس پہلو میں محصور و محدود نہیں ہیں ۔ یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ صحابہ کرام میں سے جو لوگ ایمان و جہاد میں پیش پیش تھے، مثلاً حضرت حمزہ، علی، سعد بن مُعاذ، اُسَید[یہ انصار کے قبیلہ بنی عبد الاشہل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد قبیلہ اوس کے مشہور شہسوار اور جنگ بُعاث میں سالار لشکر تھے۔ اسید سابقین اوّلین میں سے تھے۔ یہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے یہ لیلۃ العقبہ کے نقباء میں سے ایک تھے۔ یہ زندگی بھر شرافت کا مجسمہ رہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسید کو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بھائی قرار دیا تھا۔ یہ غزوۂ احد میں ثابت قدم رہے اور ان کے جسد اقدس پر سترہ زخم آئے۔ یہ خلافت فاروقی تک بقید حیات رہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیت المقدس کی فتح کے وقت وہاں موجود تھے۔ سرور کائنات نے ان کی مدح میں فرمایا :’’ اسید بہت اچھے آدمی ہیں ۔‘‘(سنن ترمذی۔ کتاب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل.... رضی اللہ عنہ (ح: ۳۷۹۵) مطولاً، مستدرک حاکم (۳؍۲۸۸)، جس طرح عمرو بن العاص کی مدح میں فرمایا تھا: ’’ عبد اﷲ کے سب گھر والے اچھے ہیں ۔ عبد اﷲ ،ابو عبد اﷲ اور ام عبد اﷲ رضی اللہ عنہم سب نیک لوگ ہیں ۔‘‘(مسند احمد (۱؍۱۶۱، ۴؍۱۵۰) اسید رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعش اٹھانے میں حصہ لیا اور بقیع میں مدفون ہوئے۔(مستدرک حاکم (۳؍۲۸۷) معجم کبیر طبرانی (۱؍۲۰۳)]بن حُضیر رضی اللہ عنہم وہ ان لوگوں کی نسبت افضل تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت و نفع رسانی میں ان سے سبقت لے گئے تھے۔ مثلاً ابو رافع اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما ۔
بہر کیف یہاں سیدہ عائشہ و خدیجہ رضی اللہ عنہما کی افضلیت کی تفصیلات بیان کرنا مقصود نہیں ۔ اصلی مقصد یہ بتانا ہے کہ اہل سنت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تعظیم و تکریم اور محبت کے بارے میں متفق اللسان ہیں ۔ نیز یہ کہ جملہ ازواج مطہرات میں سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کو عزیز تر تھیں ؛ آپ ان سب میں سے بڑی عالم تھیں ۔ مسلمان بھی جملہ امہات المومنین رضی اللہ عنہم میں سے ان کا زیادہ اکرام و احترام ملحوظ رکھتے ہیں ۔
روایات صحیحہ میں موجود ہے کہ صحابہ دانستہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحائف بھیجا کرتے تھے، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت رکھتے ہیں ۔ اس کی حد یہ ہے کہ دیگر ازواج آپ کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بارگاہ نبوی میں بھیجا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ کی بیویاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں عدل وانصاف کا تقاضا کرتی ہیں ۔‘‘تو آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے فرمایا:’’پیاری بیٹی! جس سے مجھے محبت ہے کیا تواسے محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی؟‘‘سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: کیوں نہیں ! توآپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ تو اس سے محبت رکھیے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الھبۃ، باب من اھدی الی صاحبہ(حدیث:۲۵۸۱)، صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب فی فضائل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ۔ (حدیث: ۲۴۴۱، ۲۴۴۲)]
حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
عائشہ!’’ جبریل علیہ السلام آپ کو سلام کہتے ہیں ۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، جو کچھ آپ دیکھتے ہیں ، ہم کو نظر نہیں آتا۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ باب فضل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ۔ (حدیث:۳۷۶۸) ،صحیح مسلم ۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب فی فضائل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ۔(حدیث:۲۴۴۷)]
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا [ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا قریش کے قبیلہ بنی عامر سے تعلق رکھتی تھیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا و سودہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک ہی وقت میں عقد باندھا گیا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس وقت کم سِن تھیں ۔ اس لیے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ان سے پہلے آپ کے گھر میں آباد ہوئیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو انھوں نے عرض کیا۔ مجھے خاوند کی حاجت نہیں ، میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ میں بروز قیامت آپ کی بیوی کی حیثیت سے اٹھائی جاؤں ۔ جب انھوں نے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا اَنْ یُصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْرٌ﴾ (سنن ابی داؤد۔ باب فی القسم بین النساء (ح:۲۱۳۵) سنن ترمذی(۳۰۴۰) عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ۔ بمعناہ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرماتی ہیں : سودہ رضی اللہ عنہا کے سوا دوسری کوئی عورت نہیں جس کے بارے میں میری یہ خواہش ہو کہ میں اس کی کھال میں داخل ہو جاؤں ۔(اپنے آپ کو اس سے تبدیل کرلوں ) (مسلم۔ کتاب الرضاع ، باب جواز ھبتھا نوبتھا لضربھا، (ح: ۱۴۶۳) ۔خلافت فاروقی میں جب بلا جنگ و قتال بہت سا مال آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک تھیلا درہموں سے بھر کر بھیجا۔ حضرت سودہ نے دریافت کیا یہ کیا ہے ؟ جواب ملا:درہم، آپ نے فرمایا: یہ تو کھجوروں کے تھیلے کی طرح بھرا ہوا ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے وہ سب درہم تقسیم کردیے۔ (طبقات ابن سعد(۸؍۵۶)]کوطلاق دینے کا ارادہ کیا تو انھوں نے آپ کی اجازت سے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے باری کے دن کا بے تابانہ انتظار کرتے اور فرمایا کرتے تھے، ’’میں آج کا دن کہاں گزاروں گا؟‘‘ پھر سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں قیام کی اجازت دے دی۔ آپ آخر دم تک وہاں مقیم رہے۔[صحیح بخاری، کتاب المغازی۔ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم و وفاتہ (حدیث:۴۴۵۰)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فی فضائل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا (حدیث:۲۴۴۳)۔]آپ نے اپنے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لعاب دہن کو یک جاکیا[صحیح بخاری، حوالہ سابق(حدیث:۴۴۵۱)، صحیح مسلم، حوالہ سابق۔ ]اسی دوران سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آغوش میں عالم آخرت کو سدھارگئے۔[صحیح بخاری ۔ کتاب التیمم(ح:۳۳۴،۳۳۶) مسلم۔کتاب الحیض۔ باب التیمم(ح:۳۶۷)]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا وجود مسعودِ امت کے لیے لا تعداد فوائد وبرکات کا موجب ہوا۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے آیت تیمم نازل ہوئی تو حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ اے آل ابی بکر! یہ تمہاری اوّلین برکت نہیں ہے۔ اے عائشہ! تم پر جو مصیبت بھی نازل ہوئی، اسے اللہ تعالیٰ نے خیروبرکت کا موجب بنایا۔‘‘[صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث الافک (حدیث:۴۱۴۱)، صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی حدیث الافک(حدیث:۲۷۷۰)۔]