Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل : ....ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر رافضی اعتراضات

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل : ....ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر رافضی اعتراضات

[اعتراضات]: رافضی مصنف لکھتا ہے:’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ راز افشاء کردیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے کہا تھا کہ:’’ تو علی رضی اللہ عنہ سے لڑے گی اور تو اس پر ظلم کرنے والی ہو گی۔‘‘پھر اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی اللہ تعالیٰ نے ازواج النبی کو حکم دیا تھا:﴿وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾ ’’اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی۔ اور ایک جماعت کی رفاقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے نکلیں ۔ حالانکہ ان کاکوئی گناہ نہیں تھا۔ اس لیے کہ سب مسلمانوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر اتفاق کر لیا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرانے کی سازش کرتی رہتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ ’’ بوڑھے احمق کو تہ تیغ کردو۔‘‘’’ اللہ اس بوڑھے احمق کو قتل کرے ۔‘‘ جب آپ کی قتل کی خبر اس تک پہنچی تو بہت خوش ہوئی۔ پھر پوچھنے لگی: ان کے بعد کون خلیفہ بنا؟ لوگوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ ۔تو اس نے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بدلہ کے نام پر علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا ۔ حالانکہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کیا گناہ تھا؟ اور طلحہ،زبیر رضی اللہ عنہما اور دس ہزار مسلمانوں کو کیوں کر زیب دیتا تھا کہ وہ ان کے زیر اثر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہوتے۔ بروز قیامت یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بیوی کے ساتھ بات چیت کرے اور سفر میں اسے اپنے ہم راہ لے جائے، تو اس عورت کا خاوند اس کا انتہائی دشمن بن جائے گا۔ موجب حیرت تو یہ امر ہے کہ یہ سب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ متحد ہو گئے، مگر جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا حق طلب کرنے گئیں تو کسی نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]

[جواب]:ہم کہتے ہیں : اہل سنت کا زاویہ نگاہ مبنی بر عدل و انصاف اور تناقض سے پاک ہے؛ان کا کلام حق و عدل سے عبارت ہے جس میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ اس کے برخلاف روافض و مبتدعین کے افکار و آراء میں تناقض پایا جاتا ہے۔ جن میں بعض باتوں کے متعلق آگے چل کر ہم آگاہ کریں گے ۔ ان شاء اللہ ۔ 

[جنتی ہونے کے لیے معصومیت شرط نہیں ]:

اہل سنت کے نزدیک بدری صحابہ اور سب امہات المومنین رضی اللہ عنہم قطعی جنتی ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے علاوہ حضرت ابو بکر و عمر و عثمان و علی و طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم یہ تمام لوگ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد جنت کے سرداروں میں سے ہیں ۔

اہل سنت کا زاویہ فکر یہ ہے کہ جنتی ہونے کے لیے گناہ و خطاء سے پاک ہونا ضروری نہیں ۔ بلکہ اس امر کا بھی احتمال ہے کہ کوئی شخص صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرکے پھر اس سے سچی توبہ کرلے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کے یہاں متفق علیہا ہے۔ اگر توبہ نہ بھی کرے تو صغیرہ گناہ، کبائر سے اجتناب کرنے کی بنا پر بھی معاف کردے جاتے ہیں ۔ یہ جمہور کا مذہب ہے ۔ اکثر علماء کے نزدیک کبائر، اعمالِ صالحہ بلکہ حوادث و آلام میں گرفتار ہونے کی بنا پر بھی معاف کر دیے جاتے ہیں ۔

بنابریں اہل سنت کہتے ہیں کہ: صحابہ رضی اللہ عنہم کی جو برائیاں بیان کی جاتی ہیں ان میں سے اکثر جھوٹ ہیں ۔اور اکثر ان کے اجتہاد پر مبنی ہیں ۔ مگر بہت سارے لوگوں کو وجہ اجتہاد معلوم نہیں ہوسکی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مفروضہ گناہوں میں سے بعض توبہ کی بنا پر اور بعض اعمال صالحہ اور حوادثِ روزگار یا کسی اور وجہ سے معاف کیے جا چکے ہیں ۔ اس کی دلیل وہ احادیث ہیں جن سے ان کا جنتی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ ایسے افعال کا ارتکاب نہیں کر سکتے جو دوزخ میں جانے کے موجب ہوں ۔ ظاہر ہے کہ جب انھوں نے موجبات نار سے اپنا دامن بچائے رکھا تھا؛اور ان کی موت ایسے اعمال پر نہیں ہوئی جو جہنم میں جانے کا موجب ہوں توکوئی دوسری چیز ان کے جتنی ہونے میں قادح نہیں ہوسکتی[ تو وہ یقیناً جنتی ٹھہریں گے]

وثوق و یقین سے یہ جاننے کے باوجود کہ صحابہ قطعی جنتی ہیں ۔اگرہمیں کسی متعین صحابی کے جنتی ہونے کا علم حاصل نہ بھی ہو پھر بھی ہم غیر یقینی امور کی بنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی نفی نہیں کرسکتے۔ بلکہ ایک عام مومن ؛ جس کا حتمی طور پر جنتی ہونا دو ٹوک طور پر معلوم نہ بھی ہو تب بھی اس کے جنتی ہونے کی نفی کرنا جائز نہیں ۔ اسی طرح صرف احتمال کے بل بوتے پر کسی کو دوزخی قرار دینا بھی ناروا ہے۔ خصوصاً صلحاء کے بارے میں ایسی بات کہنا بڑی مذموم حرکت ہے۔ کسی فرد واحد کے ظاہر و باطن اور اعمالِ صالحہ و سیئہ کی تفصیلات معلوم کرنا بڑا دشوار کام ہے ۔ اس لیے اس ضمن میں کوئی فیصلہ صادر کرنا بلا علم و دلیل ہے اور کلام بلا علم حرام ہے۔ اسی بنا پر مشاجرات ِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے زبان کو روکنا اس ضمن میں اظہار خیال سے افضل ہے۔ اس لیے کہ اس معاملہ میں زیادہ غورو خوض کرنا اور کلام کرنا بلا علم ہے۔ جو کہ حرام ہے۔ خصوصاً جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ہوائے نفس اور حق سے روگردانی بھی شامل ہو۔پھر جب کلام ہی صرف اس نیت سے کیا جائے کہ ہوائے نفس کو طیش دینا اور حق کو ٹھکرانا مقصود ہو تو پھر اس کی حرمت کا کیا عالم ہوگا؟ ۔سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

’’قاضی تین ہیں ، ان میں سے دو قاضی جہنمی اور ایک جنتی ہے:

۱۔ جو قاضی حق کو معلوم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرے وہ جنتی ہے۔

۲۔ وہ قاضی جو حق سے آگاہ ہو اور دانستہ اس کے خلاف فیصلہ کرے وہ دوزخی ہے۔

۳۔ جو شخص جہالت کی بنا پر فیصلہ کرے وہ جہنمی ہے۔‘‘[سنن ابی داؤد ۔ کتاب الاقضیۃ۔ باب فی القاضی یخطیٔ (حدیث:۳۵۷۳)، سنن ابن ماجۃ۔ کتاب الاحکام۔ باب الحاکم یجتھد فیصیب الحق، (حدیث :۲۳۱۵)۔] 

جب قلیل و کثیر مالی معاملات میں فیصلہ صادر کرنااس قدر اہم ہو؛ تو مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور دیگر بہت سارے بڑے بڑے امور میں زبان کھولنا کس قدر نازک کام ہو گا۔

نظربریں جو شخص جہالت کی بنا پر اپنے علم کے خلاف اس موضوع پر زبان سخن دراز کرتا ہے تو وہ سخت وعید کا مستوجب ہے۔ اور اگر کوئی شخص ہوائے نفس یا معارضۂ حق کے لیے سچی بات کہتا ہے؛ اس کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضامندی نہ ہو؛ یا پھر اس سے کسی دوسری حق بات کو ٹھکرانا چاہتا ہو تو وہ بھی مذمّت و عِقاب کا مستحق ہے۔

جو شخص کتاب و سنت کی روشنی میں صحابہ کے فضائل و مناقب، ان کے جنتی ہونے سے ؛ نیز اس بات سے آگاہ ہے کہ اللہتعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رضا مندی کا اظہار کیا؛اور انہیں جنت کا مستحق قرار دیا؛ اور ان کواس خیرالامت کے بہترین لوگ قرار دیا ہے جوامت لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ وہ ان یقینی امور کو ترک کرکے درج ذیل مشتبہ امور کو خاطر میں نہیں لائے گا، یہ مشتبہ امور حسب ذیل کیفیت کے حامل ہیں :

۱۔صحابہ سے متعلق بعض شبہات کی صحت معلوم نہیں ۔ ۲۔بعض شبہات صریح کذب ہیں :

۳۔بعض کا وقوع پذیر ہونا سرے سے معلوم ہی نہیں ۔ ۳۔ بعض شبہات کا عذر سب کے نزدیک مسلم ہے۔

۵۔بعض امورمیں صحابہ کاتوبہ کرنا سب کو معلوم ہے۔ ۶۔ بعض برائیوں کو اُنکی نیکیوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔

نتیجہ ظاہر ہے کہ جو شخص اہل سنت کی راہ پر گامزن ہو گا وہ مسلک استقامت و اعتدال کاسالک ہو گا، ورنہ شیعہ کی طرح جہالت وضلالت کی گہری کھائیوں میں جا گرے گا۔جیسا کہ ان گمراہوں کے حال سے واضح ہے ۔

[پہلا اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز منکشف کردیا تھا۔‘‘اللہ تعالیٰ [اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے ] فرماتے ہیں :

﴿وَاِِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہُ وَاَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَ ہٰذَا قَالَ نَبَّاَنِی الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ ﴾ [التحریم۳]

’’اور یاد کرو کہ جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی پس جب اس نے اس بات کی خبر کر دی اور اللہ نے اپنے نبی کوآگاہ کر دیا تو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سی ٹال گئے پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اسکی خبر آپکو کس نے دی کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلایا ہے ۔‘‘

صحیح حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ اس سے مراد عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘[البخارِیِ:۶؍۱۵۶؛ کتاب التفسِیرِ،سور التحرِیم مسلِم:۲؍۱۱۱۰؛ کتاب الطلاقِ، باب فِی الِإیلاِء واعتِزالِ النِسائِ....المسندِ ط۔المعارِف: ۱؍۵۲، ۳۰۱۔]

پہلا جواب:....جن نصوص قرآنیہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی بعض لغزشوں کا ذکر ہے؛شیعہ ان کی تاویلات کرکے ان کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں ۔ اہل سنت ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے توبہ کر لی تھی۔ اللہتعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرکے ان کے درجات بلند کردیئے۔شیعہ نے افشائے رازکے بارے میں جو آیت ذکر کی ہے وہ اس نوع کی پہلی آیت نہیں ہے ؛اور دیگر آیات کی طرح اس کی تاویل بھی ممکن ہے۔اگر اس آیت کی تاویل کرنا باطل ہے تودوسری آیات کی تاویل بھی باطل ہوگی۔

دوسرا جواب:....بفرض محال اگر سیدہ عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما نے کوئی لغزش کی بھی تھی تو حسب ذیل آیت کریمہ کے مطابق اس سے تائب ہو گئی تھیں ۔ جیسا کہ قرآن کے اس فرمان سے ظاہر ہے:

﴿اِنْ تَتُوْبَا اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا﴾ (التحریم:۳)

’’اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہترہے)یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں ۔‘‘

مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توبہ کی دعوت دی ہے۔ سیدہ عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما کی عظمت شان کے پیش نظر یہ بدگمانی درست نہیں کہ انھوں نے توبہ نہیں کی ہوگی۔حالانکہ ان کے بلند درجات ثابت شدہ ہیں ۔ مزید برآں ان کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ آپ جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہوں گی۔ نیز یہ کہ اللہتعالیٰ نے ان کو اختیار دیاتھا کہ دنیاکی زیب و زینت یا اللہو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دار آخرت میں سے جس کو چاہیں منتخب کریں ؛تو انھوں نے اللہ و رسول اور دار آخرت کو دنیا کے مقابلہ میں ترجیح دی۔ انھی خصوصیات کا تقاضا تھا کہ ان کے عوض دوسری ازواج سے نکاح کرنے کو حرام قرار دیا گیا تھا اور ان کے علاوہ دیگر مستورات کو نکاح میں لانے کی بھی ممانعت کردی گئی تھی۔جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی ازواج بنص قرآنی امہات المومنین کا درجہ رکھتی تھیں ۔ ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ توبہ نیز اعمالِ صالحہ اور مصائب مکفّرہ سے بھی گناہوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔

تیسرا جواب:.... ازواج مطہرات کے بارے میں جن گناہوں کی نشان دہی کی جاتی ہے وہ اسی طرح ہیں جیسے اہل بیت و صحابہ میں سے مشہود لہم بالجنۃ کی جانب بعض گناہوں کی نسبت کی جاتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

’’بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے علی کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔ واضح ہو کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے البتہ اگر علی چاہے تو میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح باندھ لے۔فاطمہ میرا جگر پارہ ہے، جو چیز اسے ایذا دیتی ہے اس سے مجھے دکھ پہنچتاہے۔‘‘[صحیح بخاری۔ کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ باب ذکر اصہار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۳۷۲۹، ۵۲۳۰) ، صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہا (ح:۲۴۴۹)]

یہ سوء ظن بے بنیاد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ظاہری طور پر بنت ابی جہل سے نکاح کرنے کا ارادہ ترک کردیا تھا، حق یہ ہے کہ آپ نے خلوص دل سے توبہ کی تھی۔ اسی طرح جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ میں کفار کے ساتھ مصالحت کی تو صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’اونٹوں کو نحر کیجیے اورسر منڈائیے۔‘‘یہ حکم سن کر جب کوئی صحابی نہ اٹھا؛تو آپ ناراض ہو کر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ تو انھوں نے کہا: جس نے آپ کو ناراض کیا اللہ اسے ناراض کرے۔ آپ نے فرمایا:

’’میں کیوں کر ناراض نہ ہوں میں ایک حکم صادر کرتا ہوں اور کوئی شخص اس کی اطاعت نہیں کرتا۔‘‘

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: حضرت!آپ اپنی قربانی منگوا کر ذبح کیجیے، اور حجام کو طلب کرکے سر منڈوایے۔ دوران صلح آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دستاویز سے اپنا نام محو کرنے کا حکم دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:

’’اللہ کی قسم! میں آپ کا نام نہیں مٹاؤں گا۔‘‘چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دستاویز لے کر اپنا نام مٹا دیا۔[صحیح بخاری، کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد(حدیث:۲۷۳۱، ۲۷۳۲)۔]

ظاہر ہے کہ مذکورہ واقعات میں ارشادنبوی کی تعمیل سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کا اس حد تک پس و پیش کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے۔اگریہ کسی کے نزدیک گناہ ہو تو جو جواب اس کا ہے وہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کا جواب ہے۔

بعض لوگ تاویل کی پناہ لے کر کہتے ہیں کہ صحابہ نے تعمیل ارشاد میں اس لیے دیر لگائی کہ ان کو مکہ میں داخل ہونے کی امید تھی۔ دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر اس میں تاویل کی گنجائش ہوتی تو آپ کے برہم ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ بخلاف ازیں صحابہ نے بارگاہ ایزدی سے اس تاخیر کی معافی طلب کی تھی۔حالانکہ بلا توبہ، اعمال صالحہ سے بھی ایسے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تاخیر کرنے والوں میں شامل تھے۔(رضی اللہ عنہم )

[دوسرا اعتراض]: ....شیعہ مصنف نے جو ایک روایت نقل کی ہے ؛ جس میں [حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہاگیا ہے] :

’’ تم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑو گی اوراس پر ظلم کرنے والی ہوگی۔‘‘

جواب :[یہ روایت صریح کذب ہے]حدیث کی کسی بھی معتمد کتاب میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔اور نہ ہی اس روایت کی کوئی معروف سند ہے۔بلکہ یہ ان موضوع روایات میں سے ہے جو اپنی طرف گھڑ لی گئی ہیں ۔اور انہیں صحیح احادیث کے مشابہ بنادیا گیاہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے نہیں نکلی تھیں اور نہ ہی آپ کی نیت جنگ کرنے کی تھی۔ بلکہ مسلمانوں کے مابین صلح کرانے کے جذبہ سے باہر نکلی تھیں ۔[مورخہ ۲۵؍ذوالحجہ ۳۵ھ بروز جمعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے۔مسلمان متوقع تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر حد شرعی قائم کریں گے۔ مگر ربیع الاوّل ۳۶ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ عازِم عراق ہوئے ۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہم کی دلی تمنا یہ تھی کہ ان کے والد مدینہ ہی کو اپنا مستقر قرار دیں ۔( تاریخ طبری:۵؍۱۷۱)، قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ زیادہ تر کوفہ و بصرہ کے رہنے والے تھے اور وہ آپ کے لشکر میں شامل تھے۔ کوفہ پہنچ کر ان کی قوت اور بڑھ گئی اوران کے قبائل ان کی امداد کے لیے تیار ہو گئے۔ تاریخ اسلام کے اوراق اس امر کے زندہ گواہ ہیں کہ حضرت علی قاتلین حضرت عثمان سے براء ت کا اظہار فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے(]ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی بہبود و مصلحت کا تقاضا یہی ہے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ مدینہ سے نکلنا ان کے لیے موزوں نہ تھا۔چنانچہ ان کی یہ حالت تھی کہ جب بھی مدینہ سے نکلنے کا واقعہ یاد آتا تو اس قدر روتیں کہ دوپٹہ ترہو جاتا۔ [طبقات ابن سعد(۸؍۵۸]

سابقین اوّلین صحابہ جنہوں نے اس جنگ میں شرکت کی تھی؛مثلاً :حضرت طلحہ وزبیر اور علی رضی اللہ عنہم [رفقاء قاتلین عثمان رضی اللہ عنہا سے قصاص لینے کی اساس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مفاہمت کے خواہاں تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رفقاء کے مابین مشہور صحابی قعقاع بن عمرو تمیمی رضی اللہ عنہ صلح کی سعی کر رہے تھے۔ مصالحت سے متعلق مساعی بار آور ہو رہی تھیں ۔ اندریں اثناء حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے نام پیغام بھیجا جس میں کہا: قعقاع بن عمرو کے ساتھ آپ نے جو گفتگو کی تھی اگر اس پر قائم رہو تو ذرا انتظار کیجیے تاکہ ہم اتر کر اس معاملہ پر غور کرلیں ۔اس کے جواب میں ہر دو اصحاب نے یہ پیغام بھیجا: ہم نے قعقاع بن عمرو کے ساتھ مصالحت کی جو گفتگو کی تھی ہنوز اس کے پابند ہیں ۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : حضرت علی و عائشہ رضی اللہ عنہما کے رفقاء ہر طرح مطمئن اور پر سکون تھے۔ جب رات ہوئی تو حضرت علی نے عبداﷲ بن عباس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رفقاء سے بات چیت کرنے کے لیے بھیجا۔ ادھر حضرت عائشہ نے محمد بن طلحہ سجاد کو قاصد بنا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کیا۔ فریقین صلح کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ یہ رات سب راتوں کی نسبت زیادہ اطمینان و عافیت سے گزری۔دوسری جانب قاتلین عثمان رات بھر جاگتے اور لڑائی کی تدبیریں کرتے رہے۔ آخر یہ طے کیا کہ منہ اندھیرے لڑائی چھیڑ دی جائے۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں نکلے اور چپکے سے حضرت علی اور ان کے برادران طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کے مابین جنگ چھیڑ دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رفقاء اس زعم میں مبتلا تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دھوکا دیا۔ دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ اﷲ و رسول اور دین حق کے ساتھ یہ خیانت کرنے والے قاتلین عثمان تھے، جو شیعہ کے اسلاف میں سے ہیں ۔ شیعہ ان کی امداد کا دم بھرتے اور ان کی پشت پناہی کرتے تھے۔ دوسری جانب حضرت عثمان سے بغض و عداوت رکھتے اور اس بات کو سرے سے تسلیم ہی نہ کرتے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ازواج مطہرات حضرت رقیہ و ام کلثوم رضی اللہ عنہم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر نیک اختر تھیں ۔ خلاصہ یہ کہ امت محمدی کے صلحاء اس طرح منافقین و اشرار کی بھینٹ چڑھے۔ اب ان کے درمیان اﷲ تعالیٰ ہی اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا۔( البدایہ والنہایۃ:۷؍۲۳۹)  حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے طلحہ بن عبید اﷲ رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی میں امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک وادی میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو پڑے ہوئے دیکھا تو ان کے چہرے سے مٹی پونچھی اور کہا اے ابو محمد! اس بے کسی کی حالت میں آپ کا مردہ پڑا ہوا ہونا مجھ پر بڑا شاق گزرا ہے میں اﷲ کے حضور ہی میں اس کا شکوہ عرض کرتا ہوں ۔‘‘ نیز کہا:’’ اے کاش! میں آج سے بیس سال پہلے فوت ہوجاتا۔‘‘مستدرک حاکم (۳؍۳۷۲ ،۳۷۳) ، معجم کبیر طبرانی (۲۰۲،۲۰۳) واقعہ جمل کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا عمران حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اسے خوش آمدید کہا اور اپنے قریب بٹھا کر فرمایا: مجھے امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ کے والد کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جن کا ذکر اس آیت میں ہے: ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِنْ غِلٍّ﴾(مستدرک حاکم(۳؍۳۷۷،۲؍۳۵۳)۔ حارث بن عبد اﷲ اعور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زبردست حامیوں میں سے تھا ۔ وہ ایک کونے میں بیٹھاتھا ۔ حارث کہنے لگا ۔ یہ بات عدل باری تعالیٰ کے منافی ہے کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کے رفقاء کو قتل کریں اور وہ جنت میں ہمارے رفیق بھی ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دفع ہو جاؤ اگر میں اور طلحہ رضی اللہ عنہ جنت میں نہیں جائیں گے تو اور کون جائے گا؟ یہ کہہ کر آپ نے ایک دوات اعور پر کھینچ ماری مگر وار خطا گیا اور وہ دوات اسے نہ لگی۔]نے بھی اس پر اظہار افسوس کیا تھا۔ جمل کا واقعہ قصداً نہیں بلکہ غیر اختیاری طور پر پیش آیا تھا۔

اس لیے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے درمیان جب مراسلت کا آغاز ہوا اور انہوں نے مصالحت پر اتفاق کر لیا کہ جب بھی انہیں قوت حاصل ہوگی وہ اہل فتنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے بدلہ لیں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر ہر گز راضی نہ تھے۔ اور نہ ہی آپ نے اس قتل میں کوئی مدد کی ۔ آپ حلف اٹھایا کرتے اور فرمایا کرتے تھے: ’’ اللہ کی قسم ! میں نے نہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور نہ ہی ان کے قتل کی کوئی سازش کی ۔‘‘ آپ اپنی قسم میں سچے تھے۔قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو اندیشہ لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں کا آپس میں اتفاق ہوگیا تو یہ لوگ ہمیں پکڑ کر قتل کرڈالیں گے۔ انہوں نے رات کی تاریکی میں طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکر پر حملہ کردیا۔ ان صاحبان نے یہ خیال کیا کہ شاید حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دھوکہ سے ہم پر حملہ کردیا۔ ان لوگوں نے اپنے دفاع میں جنگ لڑنی شروع کی ۔دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے۔انہوں نے اپنے دفاع میں لڑنا شروع کردیا۔ پس اس وجہ سے یہ فتنہ غیر اختیاری طور پر پیدا ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں ۔ انہوں نے نہ ہی قتال کیا ؛ اورنہ ہی جنگ و قتال کا حکم دیا۔ یہ بات کئی ایک مؤرخین نے ذکر کی ہے۔

[تیسرا اعتراض]: شیعہ مصنف کا قول کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم الٰہی ﴿ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی﴾’’اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہو؛ اور پرانی جاہلیت کی سی بے پردگی نہ کرو‘‘ کی مخالفت کی تھی۔

[جواب ]:آپ جاہلیت کی سی بے پردگی کرتے ہوئے نہیں نکلیں ۔نیز یہ کہ کسی مامور بہا مصلحت کے لیے گھر سے نکلنا استقرار فی البیوت کے منافی نہیں ۔ مثلاً حج و عمرہ کے لیے جانا یا اپنے خاوند کی معیت میں سفر پر روانہ ہونا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور آپ اس کے نزول کے بعد ازواج مطہرات کیساتھ حجۃ الوداع کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اس سفر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دیگر امہات المومنین بھی شریک تھیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھائی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا۔ آپ ان کے پیچھے ایک ہی اونٹ پر سوار تھیں ۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے مقام تنعیم سے آپ کو عمرہ کرایا۔[صحیح بخاری، کتاب العمرۃ، باب عمرۃ التنعیم، (حدیث:۱۷۸۴،۱۷۸۵)،صحیح مسلم۔ کتاب الحج۔ باب بیان وجوہ الاحرام (حدیث:۱۲۱۲، ۱۲۱۳)]

٭ حجۃ الوداع کا واقعہ اس آیت کے نزول کے بعد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین ماہ سے بھی کم عرصہ پہلے وقوع پذیر ہوا۔ خلافت ِ فاروقی میں بھی ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے جایا کرتی تھیں ۔ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بھیجا کرتے تھے۔ جب امہات المومنین کو کسی مصلحت کی بنا پر سفر کی اجازت تھی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ جمل کے لیے اپنے خروج کو بھی مصلحت ِ عامہ پر محمول کرتی تھیں ۔

اس کی مثال یہ ہے کہ مندرجہ ذیل آیات و احادیث میں باہمی جنگ وجدال سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا معترض کہہ سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان میں وارد شدہ وعید کے مستحق ہیں کیوں کہ آپ مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور آپ نے ان کو مباح الدم قرار دیا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ (النساء:۲۹)

’’ ایمان والو! اپنا مال آپس میں ناروا طریقے سے نہ کھاؤ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ﴾ (النساء: ۲۹)

’’آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔‘‘اس آیت میں مؤمنین کوباہم جنگ و قتال کرنے سے روکاگیا ہے۔

اورجیسا کہ اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے: ﴿وَ لَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ﴾ (الحجرات:۱۱)

’’ایک دوسرے کو طعن نہ دو۔‘‘

اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے:

﴿لَوْ لَا إِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا﴾ (النور:۱۲)

’’ جب تم نے یہ (واقعہ) سنا تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے متعلق کیوں نہ نیک گمان کیا۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر اسی طرح حرام ہے جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ میں اور اس شہر میں ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب العلم، باب قول النبی صلی اﷲعلیہ وسلم ’’ رب مبلغ اوعی من سامع‘‘(ح:۶۷)، صحیح مسلم، کتاب القسامۃ، باب القسامۃ (حدیث: ۱۶۷۹)۔ ]

آپ ارشاد فرماتے ہیں :’’ جب قاتل و مقتول تلواریں لے کر لڑنے لگیں تو وہ دونوں جہنمی ہیں ۔‘‘ دریافت کیا گیا کہ یارسول اللہ! قاتل تو جہنمی ہوا مقتول کیوں کہ دوزخ میں جائے گا؟ فرمایا :’’وہ بھی تواپنے حریف کو قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الایمان باب ﴿ وَ إِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (حدیث:۳۱) صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب اذا تواجہ المسلمان بسیفھما، ( حدیث:۲۸۸۸)۔]

ان آیا ت واحادیث کی روشنی میں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تلواروں سے مسلمانوں کا استقبال کیا‘ اور ان کے خون کو مباح قرار دیا‘پس آپ اس فعل پر بیان شدہ وعید کے مصداق ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ تاویل کرنے والا مجتہد اس وعید کا مصداق نہیں ٹھہرے گا؛ اگرچہ اس سے غلطی ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

﴿رَبَّنَا لَا تُوَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶)

’’اے ہمارے رب! اگر ہم سے بھول یا چوک ہو جائے تو ہم پر مواخذہ نہ کر۔‘‘[اللہ فرماتے ہیں ]میں نے ایساکردیا۔

اللہ تعالیٰ نے مومنین کے نسیان و خطاء کو معاف کردیا ہے، خطا کار مجتہد کی خطا بھی معاف ہے۔ جب مومنین سے برسرپیکار ہونے کے بارے میں ان کی خطا معاف ہے تو اجتہاد کی بنا پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مدینہ سے خروج بالاولیٰ مغفرت کا مستحق ہوگا۔ اگرکوئی معترض بذیل احادیث کو پیش کر ے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

۱۔ ’’مدینہ طیبہ گندی اور خبیث چیزوں کو دور کرتا ہے اور پاک و ناپاک کو چھانٹ دیتا ہے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینۃ۔ باب المدینۃ تنفی الخبث (حدیث: ۱۸۸۳)، صحیح مسلم۔ کتاب الحج۔ باب المدینۃ تنفی خبثھا (حدیث:۱۳۸۳، ۱۳۸۲)۔ ]

۲۔ ’’جو شخص بے اعتنائی سے مدینہ منورہ کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے، اللہتعالیٰ اس کے عوض اس سے بہتر آدمی کو مدینہ میں آباد ہونے کی سعادت عطاکرتے ہیں ۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب الحج، باب المدینۃ تنفی خبثھا (حدیث:۱۳۸۱) مطولاً عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ، موطا امام مالک(۲؍۸۸۷)، کتاب الجامع(ح:۶) عن عروۃ مرسلاً۔ ]

موطأامام مالک اور صحیحین حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ بیشک مدینہ پاکیزہ ہے۔یہ گندے لوگوں کو ایسے دور کرتا ہے جیسے آگ لوہے کی میل کو دور کردیتی ہے ۔‘‘[البخارِیِ:۳؍۲۲؛ کتاب فضائِلِ المدِینۃِ، باب المدِینۃ تنفِی الخبث؛ ولفظہ:’’ إِنہا تنفِی الرِجال کما تنفِی النار خبث الحدِیدِ۔‘‘]

وہ کہے: بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے خروج کیا ‘ اورسابقہ خلفاء راشدین کی طرح مدینہ میں مقیم نہ رہے۔اسی وجہ سے آپ پر امت کا اجماع نہ ہوسکا۔ [توشیعہ کا جواب ہوگاکہ ] : حضرت علی رضی اللہ عنہ مجتہد تھے۔اگر کوئی علی رضی اللہ عنہ سے کم مرتبہ کا بھی ہوتو مجتہد ہونے کی بناپر وعید اسے لاحق نہیں ہوسکتی۔ تو علی رضی اللہ عنہ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ وعید ان پر صادق نہ آئے۔ پس سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے خروج کا بھی یہی جواب ہے کہ یہ مبنی بر اجتہاد تھا اور اجتہادی غلطی ازروئے کتاب وسنت معاف ہے۔

[چوتھا اعتراض]: شیعہ مضمون نگار کا یہ کہنا کہ ’’ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے نکلی تھیں حالانکہ آپ بے قصور تھے۔‘‘

[جواب] : یہ سیدہ رضی اللہ عنہا پر عظیم افتراء ہے۔ آپ جنگ کی نیت سے نہیں نکلی تھیں ‘ اور نہ ہی حضرات طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کے خواہاں تھے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ دونوں گروہ لڑنے کے لیے نکلے تھے تو یہ وہی قتال تھا جس کا ذکر مذکورہ ذیل آیت میں کیا گیا ہے اور اس خطا کو معاف کردیا گیا ہے:

﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ o اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُم﴾ (الحجرات:۹۔۱۰)

’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(یاد رکھو)سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو۔‘‘

اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ مومن باہم لڑنے جھگڑنے کے باوصف مومن ہی رہتے ہیں ۔یہ حکم جب ان لوگوں کے بارے میں ثابت ہے جو ان حضرات صحابہ کرام سے [علم و عمل وایمان میں ] کم تر تھے ‘تو پھر آپ اس حکم کے زیادہ حقدار ہیں ۔

[قتل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اجماع کا دعوی اور اس پر رد]:

[پانچواں اعتراض]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر سب مسلمانوں کا اجماع قائم ہو گیا تھا۔‘‘

[جواب] :اس کے جواب میں کئی نکات ہیں :

پہلی وجہ :....یہ بڑا گھناؤنا جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ جمہور نے نہ ہی قتل کا حکم دیا؛ نہ ہی اس قتل میں شریک ہوئے او نہ ہی وہ اس پر راضی تھے۔ علاوہ ازیں اکثر مسلمان مدینہ میں اقامت گزیں نہ تھے۔ بلکہ مختلف دیار و امصار مکہ ؛ شام ؛ یمن ؛ کوفہ ؛ بصرہ ؛ مصر اور بلاد مغرب سے لے کر خراسان تک آباد تھے۔اہل مدینہ ان مسلمانوں کا ایک حصہ تھے۔

دوسری وجہ:....یہ کہ چند شریراور فتنہ پروراور اوباش؛ زمین میں فساد پھیلانے والے آدمی اس فعلِ شنیع کے مرتکب ہوئے تھے، صلحائے امت نہ اس میں شریک تھے؛ اورنہ ہی ان میں سے کسی ایک نے آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ حلف اٹھایا کر فرمایا کرتے تھے:

’’ اللہ کی قسم ! میں نے نہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور نہ ہی ان کے قتل کی کوئی سازش کی ۔‘‘ آپ قاتلین عثمان پر بددعا کیا کرتے اور فرمایا کرتے تھے:

’’ اے اللہ! تو قاتلین عثمان پر بحر و برّ اور کوہ و میدان میں لعنت بھیج۔‘‘[حضرت علی رضی اللہ عنہ نے متعدد مواقع پر قاتلین عثمان سے براء ت کا اعلان کیا اور ان پر لعنت بھیجی، حافظ ابن عساکر(۷؍۸۵) کی روایت کے مطابق آپ نے آخری اعلان واقعہ جمل کے موقع پر کیا۔ مورخ مذکور لکھتے ہیں : جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنگ جمل کے لیے تشریف لے گئیں تو کعب بن سُور ازدی اونٹ کی مہار پکڑے آگے آگے چل رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کعب کو مخاطب کرکے کہا: ’’ مہار کو چھوڑیے اور آگے بڑھ کر لوگوں کو قرآن کی طرف بلایے۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے کعب کو قرآن کریم کا ایک نسخہ دیا۔دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سبائی پیش پیش تھے۔ انھیں خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں فریقین میں صلح نہ ہو جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج کو پیچھے دھکیل رہے تھے مگر وہ بزور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ سبائیوں نے آگے بڑھ کر کعب پر بیک وقت اتنے تیر چلائے کہ وہ موقع پر ہی جان بحق ہو گئے۔ سبائی پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھے تو آپ نے پہلی مرتبہ ان الفاظ میں ان کو خطاب فرمایا:ارے لوگو! قاتلین عثمان اور ان کے انصارو اعوان پر لعنت بھیجئے۔‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ بصرہ والے چیخ چیخ کر دعا کرنے لگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ آہ و بکا کیسی ہے ؟ جواب ملا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں بد دعا کر رہی ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی دعا کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا:’’ اے اﷲ! قاتلین عثمان اور ان کے ہم نواؤں پر لعنت بھیج۔‘‘ (] اس باب میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ: جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کا حق تھا ‘ ایسے ان کی مدد نہیں کی گئی۔ چونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ معاملہ آپ کے قتل تک نہیں پہنچے گا۔[جب باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو آپ کی حفاظت کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہر قیمت پر ان کی حفاظت کرنا خواہ تمہاری جان کیوں نہ چلی جائے۔ مگر حضرت عثمان برابر ان کو مدافعت سے منع کرتے رہے۔ حضرت حسن آخری شخص تھے جو سانحہ شہادت کے دن آپ کے گھر سے نکلے۔ حضرت حسن و حسین کے علاوہ عبد اﷲ بن عمر، عبد اﷲ بن زبیر اور مروان بن حکم بھی آپ کی حفاظت کے سلسلہ میں حاضر ہوئے تھے۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بتاکید ان سے کہا کہ ہتھیار رکھ کر اپنے گھروں کو چلے جائیں ۔(دیکھئے: العواصم من القواصم:۱۳۴)  حافظ ابن عساکرنے کہا کہ جب حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو بنو عمرو بن عوف نے حضرت زبیر کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: ’’ ابوعبد اﷲ! ہم آپ کی خدمت میں حضرت عثمان کی مدافعت کے لیے حاضر ہوئے ہیں ۔‘‘ابوحبیبہ کہتے ہیں : حضرت زبیر نے یہ پیغام دے کر مجھے حضرت عثمان کے پاس بھیجا۔‘‘ بعد از سلام ان سے عرض کیجیے کہ تمہارا بھائی زبیر عرض کرتا ہے کہ بنو عمرو بن عوف نے آپ کی مدافعت کے لیے اپنی خدمات کی پیش کش کی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی آپ کے یہاں چلا آؤں تاکہ جو تکلیف آپ کو پہنچے وہ مجھے بھی پہنچے۔ یا بنو عمرو بن عوف کے ذریعہ آپ کی مدافعت کروں جیسے آپ کا ارشاد ہو۔‘‘ ابوحبیبہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عثمان کی خدمت میں حاضرہوا ۔ آپ کے یہاں حضرت حسن بن علی، عبد اﷲ بن عمر، ابوہریرہ،....اور عبداﷲ بن زبیر بھی موجود تھے، میں نے حضرت زبیر کا پیغام پہنچایا تو فرمانے لگے: اﷲاکبر! اﷲ کا شکر ہے جس نے میرے بھائی زبیر کو محفوظ رکھا۔ میری جانب سے انھیں کہئے: اگر آپ میرے گھر میں تشریف لائیں گے تو آپ کی وہی حیثیت ہو گی جو ایک مہاجر کی ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مدافعت کے لیے بنو عمرو بن عوف کا انتظار کریں ۔‘‘ ابو حبیبہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: میرے ان دو کانوں نے آں حضرت کو یہ فرماتے سنا تھا کہ میرے بعد فِتَن و حوادث ظہور پذیر ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان سے نجات کی کیا صورت ہو گی؟ آپ نے حضرت عثمان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’امیر(عثمان) اور اسکی جماعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے۔‘‘(مسند احمد (۲؍۳۴۵) و فضائل الصحابۃ، (۷۲۳) مستدرک حاکم (۳؍۹۹، ۴؍۴۳۳) و صححہ و وافقہ الذہبی) لوگوں نے عرض کیا ہمیں لڑنے کی اجازت دیجیے، حضرت عثمان نے فرمایا: میں اپنے اطاعت شعاروں کو بتاکید لڑائی سے روکتا ہوں ۔ابوحبیبہ کا بیان ہے کہ بنو عمرو بن عوف کے آنے سے پہلے ہی فتنہ پردازوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ (سیرۃ ابن ہشام(ص:۲۲۷۔۲۲۹)، صحیح بخاری کتاب الصلاۃ۔ باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ( ح:۴۲۸)، صحیح مسلم۔ کتاب الصلاۃ۔ باب ابتناء مسجد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (حدیث:۵۲۴)۔ ] اس لیے انھوں نے آپ کی عملی مدد کرنے میں سہل انگاری سے کام لیا۔اگر انہیں اس بات کا یقین ہوتا کہ معاملہ اتنا خطرناک ہوجائے گا تووہ ضرور آپ کے دفاع میں کھڑے ہوجاتے اور اس فتنہ کو روک لیتے ۔ بس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے : 

﴿وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ﴾ [الأنفال۲۵]

’’اوراس فتنہ سے بچو!جوتم میں سے خاص کر صرف ظالموں پر واقع نہ ہوگا....‘‘

اس لیے کہ جب ظالم انسان لوگوں پر ظلم کرتا ہے ؛ تواس کی وجہ سے لوگ فتنہ و آزمائش کا شکار ہوجاتے ہیں ‘ اور وہ لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جن کااس ظلم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس وقت بڑے بڑے لوگ اس فتنہ کو رد کرنے سے عاجز آجاتے ہیں ۔اس کے برعکس اگر ظالم کو شروع سے ہی روک دیا جائے تو اس فتنہ کا سدباب ہوسکتا ہے ۔

تیسری وجہ :....رافضی انتہائی سخت جھوٹے اور بہت بڑے تناقض کا شکارہیں ۔یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ اجماع حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر نہیں بلکہ آپ کی بیعت وخلافت پر منعقد ہوا تھا۔[رواہ البخاري ۳؍۱۸۶۔ یہ تخریج گزرچکی ہے۔] تمام ملک کے رہنے والے آپ کی بیعت پر یک زبان تھے ۔ اگر ظاہری اجماع سے دلیل لینا جائز ہے تو پھر واجب ہوتا ہے کہ آپ کی بیعت بھی حق ہو ‘ اس لیے کہ آپ کی بیعت پر تمام لوگوں کا اجماع ہوگیا تھا۔ اگر اس سے استدلال لینا جائز نہیں تو پھر آپ کے قتل پر اجماع کا کہنا کھلم کھلا ایک باطل بات ہے۔ خصوصاً جب کہ آپ کو قتل کرنے والے چند ایک فسادی لوگ تھے۔ پھر اس پر مزیدار بات تو یہ ہے کہ شیعہ آپ کی بیعت خلافت پر اجماع کے منکر ہیں ‘اور کہتے ہیں : اہل حق نے زبردستی اور خوف کے مارے آپ کی بیعت کی۔[ مگر قتل پر اجماع ثابت کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں ]۔ اس کے بجائے اگر یوں کہتے کہ :’’ اہل حق آپ کے قتل پر متفق تھے: اور اہل حق کو زبردستی آپ کے قتل میں شریک کیا گیا اوروہ اس پر اپنی کمزوری کی وجہ سے خاموش رہے۔ تو پھر بھی ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ بات کسی حد تک ممکن ہے۔ اس لیے کہ لوگ یہ بات جانتے ہیں جو کوئی حکومت سے ٹکرا کر تختہ الٹنا چاہتا ہو‘ عام لوگ اس کی مخالفت کرنے سے ڈرتے ہیں ۔بخلاف اس کے جو کوئی حاکم کی بیعت کرنا چاہتا ہو۔اس لیے کہ اسے کسی مخالف سے نہیں ڈرایا جا سکتا۔ جیسے کہ اس انسان سے ڈرایا جاسکتا ہے جو کسی کو قتل کرنا چاہتا ہو۔ کیونکہ قتل کا ارادہ رکھنے والے کا شر زیادہ تیز ہوتا ہے ‘ اور وہ خون بہانے میں دریغ نہیں کرتا ؛ لوگ اس سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ 

[فرض محال شیعہ کی بات تسلیم کرتے ہیں ] کہ تمام لوگوں کا آپ کے قتل پر اجماع ہوگیا تھا؛ توپھر اس کا کیا جواب دو گے کہ جمہور صحابہ کرام آپ کے قتل کا انکار کرتے تھے۔اور جن لوگوں نے آپ کے گھر میں رہتے ہوئے آپ کا دفاع کیاجیسے حضرت حسن و حسین حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ؛ یہ علیحدہ داستان ہے۔

مزید برآں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جو اجماع منعقد ہوا ایسا اتفاق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت وخلافت اور قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر اور دوسرے کسی معاملہ میں نہیں ہوا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت سے صرف چند اشخاص پیچھے رہے تھے۔ جن میں سے ایک حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے رہ جانے کا سبب معلوم ہے۔ (واللہ یغفرلہٗ ویرضی عنہ) ۔ آپ سابقین اولین انصار میں سے ایک نیک فرد تھے جنہیں جنت کی بشارت سنائی گئی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے واقعہ افک والی روایت میں ہے آپ فرماتی ہیں : ’’ آپ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کا دفاع کرنے لگے۔ اس سے قبل آپ ایک نیک انسان تھے ؛ مگر قبائلی حمیت کی وجہ سے ان سے اس حرکت کاارتکاب ہوگیا ۔‘‘

ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ جس آدمی کے لیے جنت کی شہادت دی گئی ہو وہ بعض اوقات گناہ کا مرتکب بھی ہوتا ہے[ اس لیے کہ وہ معصوم نہیں ]۔مگر پھر وہ ان سے توبہ کرلیتاہے؛ یا اس گناہ کو اس کی نیکیاں مٹا دیتی ہیں ۔ یا مصائب و آلام اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں ؛ یا کوئی دوسرا سبب ایسا پیدا ہوجاتا ہے۔ [گناہ کی سزا سے بچنے کے اسباب ]

جب کوئی انسان گناہ کرلیتا ہے تو اس کے لیے اس گناہ کی سزا بچنے کے دس اسباب ہوتے ہیں ۔ تین سبب اس کی ذات سے ؛ تین سبب لوگوں کی طرف سے ؛ اور چار اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ توبہ و استغفار ؛ گناہ مٹانے والی نیکیاں ؛ اس کے لیے مؤمنین کی دعا؛ نیک اعمال کا ہدیہ ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت؛ دنیا میں کفارہ بننے والے مصائب ؛ برزخ اور میدان محشر میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل اور اس کی جانب سے بخشش ۔

یہاں پر اس بیان سے مقصود یہ ہے کہ : یہ کہ مسئلہ اجماع ظاہر ہے اور اسے سبھی جانتے ہیں ۔ توپھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل جیسے مسئلہ پر کیسے اجماع کا دعوی کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر قتال کرنے سے پیچھے رہ گئے تھے وہ تعداد میں ان لوگوں سے کئی گنابڑھ کر تھے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک ہوئے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے : ایک گروہ جنہوں نے آپ کے ساتھ مل کر قتال کیا؛ ایک گروہ جو آپ سے برسر پیکار رہا؛ اور تیسرا گروہ جو نہ آپ کے ساتھ تھے اور نہ ہی آپ کے خلاف ۔ سابقین اولین کی اکثریت اسی گروہ سے تعلق رکھتی تھی ۔ اگراور کچھ بھی نہ ہوتا صرف وہی لوگ آپ کی بیعت سے پیچھے رہ گئے ہوتے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؛ کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمنواؤں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی۔ وہ تعداد میں ان لوگوں سے کئی گناہ بڑھ کر ہیں جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔ نیز جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کاانکار کررہے تھے وہ بھی ان لوگوں سے تعداد میں کئی گنا بڑھ کر تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔ [تو پھر اگر] یہ کہنا باطل ہے کہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ پر متفق ہوگئے تھے ؛ پھر یہ کہنا بھی سب سے بڑا باطل ہے کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر متفق ہوگئے تھے۔

اگر یہ کہنا جائز ہے کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر جمع ہوگئے تھے؛ کیونکہ یہ واقع پیش آیا اور آپ کا دفاع نہیں کیا جاسکا۔ تو پھر معترض کا یہ قول بھی بجا ہے کہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے پراور آپ کی بیعت سے پیچھے رہنے پر متفق ہوگئے تھے ؛ بلکہ اس قول کا جواز سب سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ یہ واقعہ بھی پیش آیا ؛ مگر اس کا دفاع نہیں کیا گیا۔

اگریہ کہا جائے کہ : جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ لوگوں پر آپ کی بیعت کو لازم کریں ۔ اور ان سب کو آپ کے جھنڈے کے نیچے جمع کردیں ؛ اور انہیں آپ سے جنگ کرنے سے روکیں ۔اس لیے کہ وہ اس سے عاجز آگئے تھے۔ تو پھر اس کا جواب دیا جائے گا کہ: محاصرہ کے وقت جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ‘ ان کے لیے بھی آپ کا دفاع کرنا ممکن نہ رہا ۔

اگر یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں سے تقصیر ہوئی ؛ اور وہ عاجزی کی وجہ سے جنگ پر قابونہ پاسکے ؛ یا ان پر وہ لوگ غالب آگئے جو جنگ کرنا چاہتے تھے۔ یا وہ لوگوں کو آپ کی بیعت پر جمع کرنے میں ناکام رہے ۔تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ: ’’ جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ؛ ان سے بھی ایسے ہی کوتاہی و تقصیر ہوئی ؛ یہاں تک فتنہ پرداز آپ کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر یہ دعوی کرنا یہ ایک کھلا ہوا واضح جھوٹ ہے کہ لوگوں کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل اجماع ہوگیا تھا ؛ حالانکہ جمہور امت اس کا انکار کرتی ہے ؛ اور لوگ آپ کی مدد کے لیے اور پھر بعد میں آپ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔

شیعہ مصنف کا یہ قول اس کی جہالت کا آئینہ دار ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر اجماع منعقد ہوا تھا۔ یہ تو بعینہٖ اسی طرح ہے جیسے ناصبی کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے اجماع کے مطابق قتل کیے گئے تھے۔ وہ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ لڑنے والوں اور آپ کو قتل کرنے والوں میں سے کسی نے بھی آپ کی مدافعت نہیں کی تھی۔[حالانکہ آپ کو شیعی ماحول (عراق) میں قتل کیا گیا تھا۔ وہ شیعہ جو کرۂ ارضی کے دور افتادہ گوشوں سے چل کر آپ کے مقتل پر جمع ہوتے ہیں یہی آپ کو دھوکہ دینے والے تھے۔ پہلے بڑے زور و شور سے خط لکھ کر بلایا۔ جب آپ تشریف لے آئے تو آپ کا ساتھ چھوڑ کر صف ِ اعداء میں شریک ہو گئے۔ استاد موسیٰ یعقوبی نجفی ایک معاصر شیعہ ادیب لکھتا ہے: قَدْ کَاتََبَتْہُ اُوْْلُوا الْخِیَانَۃِ اَنَّہَا جُنْدٌ وَّلَیْسَ لَہَا سِوَاہُ اِمَامٌ خیانت کار لوگوں نے آپ( حضرت حسین) کو لکھا تھا کہ ہم آپ کے مددگار ہیں اور آپ کے سوا ہمارا کوئی امام نہیں ۔‘‘ لٰکِنَّہُمْ خَانُوْا الذِّمَامَ وَلَمْ یَفُوْا اَنّٰی وَ مَا لِلْخَائِنِیْنَ ذِمَام ’’مگر انھوں نے اپنے عہد میں خیانت کی اور اسے پورا نہ کیا اور خیانت پیشہ لوگ عہد کے پابند ہی کب ہوتے ہیں ۔‘‘ اگر شیعہ خود فریبی کا شکار نہ ہوتے تو وہ اپنے گھروں میں مقیم رہتے اور خط لکھ کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو دعوت نہ دیتے تو لوگوں کا خون ضائع ہونے سے بچ جاتا اور امت اس عظیم فتنہ میں مبتلا نہ ہوتی۔ اپنی قدر نہ جاننے کا یہ ثمرہ برآمد ہوا کہ شیعہ تاقیامِ قیامت یہ داغ دور نہ کر سکیں گے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہما جب عاشوراء کے بعد کوفہ میں داخل ہوئیں اور اہالیان کوفہ حضرت زینب اور ان کے بھائی کاخوشامدانہ الفاظ میں استقبال کرنے نکلے تو انھوں نے اس وقت یہی الفاظ کہے تھے۔ مزید براں حضرت حسین سے خیانت کرنے والے شیعہ بعد میں آنے والے شیعہ سے بہر حال بہتر تھے۔ ]

اس قول میں ناصبی اتنے ہی جھوٹے ہیں جتنے شیعہ اپنے اس دعویٰ میں کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر اجماع منعقد ہوا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت قتل حسین رضی اللہ عنہ سے زیادہ کی گئی ہے۔

علاوہ ازیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تائید و نصرت اور ان کے قصاص کا مطالبہ[حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فوج میں طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما جیسے گرامی قدر صحابہ شامل تھے، جو عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے ہیں ، اور جن کا مقصد وحید قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصالحت کرنا تھا۔ جنگ صفین انہی مقاصد کی جدو جہد کے دوران وقوع میں آئی تھی۔ ]کرنے والے لوگوں کی تعداد حامیانِ حسین سے بہت زیادہ تھی۔[قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے سب سے پہلے ذاتِ باری تعالیٰ نے انتقام لیا۔ تفصیلات ملاحظہ فرمائیے: ۱۔ جہجاہ بن سعید غفاری: یہ وہ بدبخت ہے کہ جب حضرت عثمان مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو اس نے عصائے نبوی آپ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اس زور سے آپ کے دائیں گھٹنے پر مارا کہ عصا ٹوٹ گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے بہت جلد اس سے انتقام لیا۔ عصائے نبوی کاایک ٹکڑا اس کے زانو میں گڑ گیا اور اس میں کیڑے پڑ گئے پھر پتہ نہ چل سکا کہ اس کا کیا انجام ہوا۔ ظن غالب ہے کہ وہ(]قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے امت میں جو شروفساد پھیلا؛ قتل حسین رضی اللہ عنہ کے فتنہ کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں ۔ اس پر مزید یہ کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ قباحت و شناعت کے اعتبارسے اللہ، رسول اور مومنین کے نزدیک قتل حسین رضی اللہ عنہ سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سابقین اوّلین اور حضرت علی،طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے طبقہ سے تعلق

[اسی تکلیف سے جہنم رسید ہوا۔ ۲۔ حرقوص بن زہیر سعدی: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت کے بعد اس نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ پر خروج کیا تو آپ نے یوم النہروان ۳۹ہجری میں اسے مروا ڈالا۔ ۳۔ حکیم بن جبلہ عبدی: جنگ جمل میں اس کا پاؤں کٹ گیا تھا۔قریب الموت تھا کہ کسی نے ان الفاظ میں پکارا امام مظلوم پر مظالم ڈھانے کی بنا پر جب اﷲ کی گرفت میں آئے ہو تو اے خبیث! اب چلا رہے ہو، تم نے مسلمانوں کے شیرازہ کومنتشر کیا اور ناحق خون بہائے۔ اب انتقام الٰہی کا مزہ چکھو۔‘‘ ۴۔ ذریح بن عباد عبدی: یہ حکیم بن جبلہ عبدی کا رفیق کار تھا جنگ جمل میں مارا گیا۔ بصرہ کے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں سے جو جنگ جمل میں زندہ بچ گئے تھے ان کے قبیلہ والے پکڑکر ان کو کتوں کی طرح طلحہ و زہیر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں لائے اور وہ سب تہ تیغ کر دیے گئے۔ بصرہ والوں میں سے صرف حرقوس بن زہیر بچا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے یوم النہروان میں قتل کیا۔ ۵۔ جندب بن زبیر غادری: معرکہ صفین میں قبیلہ ازد کے ایک شہسوار کو للکارا تو ازدی نے اسے قتل کردیا۔ اسکا خالہ زاد بھائی مخنف بن سُلَیم کہا کرتا تھا کہ جندب بچپن میں بھی اور بڑا ہو کر بھی دونوں حالتوں میں منحوس تھا۔ جاہلیت و اسلام دونوں اَدوار میں جندب ہمیشہ بری چیزکا انتخاب کیا کرتا تھا۔ ۶۔ ابوزنیب بن عوف: یہ ۳۷ ہجری میں معرکہ صفین میں مارا گیا۔ ۷۔ شریح بن اوفیٰ عَبَسی: اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا۔ پہلے اس کا پاؤں کاٹا گیا اور پھر قتل کیا گیا۔ بوقت قتل اس نے یہ اشعار پڑھے: اَضْرِبُـہُمْ وَلَوْ اَرٰی اَبَا حَسَنٍ ضَرَبْتُہٗ بِالسَّیْفِ حَتّٰی یَطْمَئِنَّ اَضْرِبُہُمْ وَ لَوْ اَرٰی عَلِیًّا اَلْبَسْتُہٗ اَبْیَضَ مُشْرِقِیًّا ’’ میں ان کو مارتا رہوں گا اور اگر کہیںعلی کو دیکھ پایا تو اس کو ضرورتلوار ماروں گا۔ یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو جائے۔میں ان کو مارتا جاؤں گا اور اگر علی کو دیکھ لیا تو میں اس کو صیقل شدہ مشرقی تلوار کا لباس پہناؤں گا۔‘‘ ۸۔ علباء بن ہُشَیم سدوسی: عمرو بن یثربی قاضی بصرہ نے اسے جنگ جمل میں قتل کیا۔ ۹۔ عمرو بن حمق خزاعی:۵۱ ہجری تک زندہ رہا پھر موصل میں اسے نیزے کی اتنی ہی ضربیں لگیں جتنی اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لگائی تھیں ۔ ۱۰۔ عمیر بن ضابی:یہ وہ بدبخت ہے جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی پسلی توڑ دی تھی۔ جب حجاج عراق کا حاکم قرار پایا تو یہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر رحم وکرم کا طالب ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ حجاج اس سے واقف نہیں ۔ حجاج نے کہاکیا تو وہی شخص نہیں جس نے یہ شعر کہا تھا: ہَمَمْتُ وَ لَمْ اَفْعَلْ وَکِدْتُّ وَلَیْتَنِیْ تُرِکْتُ عَلٰی عُثْمَانَ تَبْکِیْ حَلَائِلُہٗ ’’میں نے ( قتل عثمان کا) ارادہ کیا تھا مگر یہ کام نہ کر سکا اے کاش! مجھے اس معاملہ میں کھلی چھٹی ملتی تو عثمان رضی اللہ عنہ کی بیویاں ان پر رونے لگتیں ۔‘‘پھر حجاج کے حکم سے اس کو قتل کردیا گیا۔ ۱۱۔ کعب بن ذی الحبکہ نَہدی: بسربن ابی ارطاۃ نے اس کو قتل کیا۔ (]رکھتے تھے۔ آپ خلیفۂ برحق تھے اور آپ کی خلافت پر مسلمانوں کااجماع منعقد ہوا تھا۔ آپ نے کسی مسلمان پر تلوار اٹھائی نہ کسی کوموت کے گھاٹ اتارا۔ آپ کی ساری عمر جہاد کفار میں بسر ہوئی۔ خلافت صدیقی و فاروقی کی طرح خلافت عثمانی میں بھی مسلمانوں کی تلوار اہل قبلہ سے الگ تھلگ اور کفار کے سر پر آویزاں اور اہل قبلہ سے ہر لحاظ سے دور رہی۔

حالت خلافت میں شرپسندوں نے آپ کو قتل کرنا چاہا تو آپ نے صبر سے کام لیا [۲۔ کنانہ بن بشر تُجیبی: حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر میں اسے قتل کیا۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شدید مخالف تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں جو لوگ قتل کیے گئے تھے۔ یہ ان کو دفن کرنے سے روکتا تھا۔ ۱۳۔ ابن الکوّاء یشکری: اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی خروج کیا تھا اور قتل ہوا۔ ۱۴۔ محمد بن ابی حذیفہ: اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے احسانات کی ناشکری کی۔ سزا کے طور سے یہ ۳۶ ہجری میں بمقام عریش مقتول ہوا۔‘‘ علی ہذا القیاس قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آخرت سے پہلے دنیا میں ہی اپنے کیے کی سزا پالی تھی۔ قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں سے جو لوگ پیش پیش تھے ان کے انجام سے بچے بھی آگاہ ہیں ۔  جب باغیوں نے مدینہ طیبہ کا رخ کیا تو اس وقت عساکر اسلامی مختلف بلاد شرق و غرب میں کفار کے خلاف مصروف جہاد تھیں ۔ اسلامی لشکر زیادہ تر ان ممالک میں برسرپیکار تھے جو آج کل روس کے زیر تسلط ہیں ۔]اور مزاحمت نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔[محب الدین الخطیب ’’العواصم من القواصم‘‘ ص:۱۳۲ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں کہ:’’اخبار و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ باغیوں کی مدافعت کرنے یا تقدیر ربانی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وارضاہ کا موقف یہ تھا کہ آپ فتنہ پردازی اور خون ریزی سے ڈرتے تھے۔ آخر کار آپ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اگر آپ ایسی قوت سے بہرہ ور ہوں جس کے سامنے باغیوں کو لا محالہ جھکنا پڑے اور جدال و قتال کی نوبت نہ آئے تویہ بڑی اچھی بات ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ملک شام سے ایک ایسی فوج بھیجنے کی پیش کش کی تھی جو آپ کے اشارہ کی منتظر رہے، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ پیش کش ٹھکرا دی تھی کہ میں مدینہ میں ایسی فوج نہیں رکھنا چاہتا جو یہاں مقیم رہے۔(تاریخ طبری :۵؍۱۰۱) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مسلمان اس حد تک جرأت نہیں کر سکتے کہ دین اسلام کے اوّلین مہاجر( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) کا خون تک بہانے سے گریز نہ کریں ۔ جب باغی اکھٹے ہو کر آگئے اور آپ نے سمجھا کہ مدافعت کرنے میں ناحق خون ریزی ہو گی، تو آپ نے اپنے حامیوں کو بہ تاکید تشدد سے روک دیا۔ اہل سنت و شیعہ سب کی تصانیف ایسے اخبار و آثار سے پُر ہیں ۔ تاہم اگرایسی منظم قوت و شوکت بروئے کار آتی جو باغیوں کی شرارت و جہالت کو بزور روک دیتی تو یہ بات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے راحت و مسرت کی موجب ہوتی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ آپ شہادت کے متمنی تھے اور اس کے سوا کوئی چیزآپ کے لیے موجب سکون واطمینان نہ تھی۔]اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عثمان ،حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی نسبت زیادہ اجروثواب کے مستحق ہیں ۔اسی نسبت سے قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والوں کی نسبت بڑے مجرم ہیں ۔ اور ان کا گناہ زیادہ گھناؤنا ہے۔ 

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ آپ اقتدار سے محروم تھے اور طلب اقتدار کی خاطر گھر سے نکلے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ برسراقتدار تھے ان کے اعوان وانصار آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور آپ نے اپنی مدافعت کرتے ہوئے شہادت پائی۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ جو شخص اپنی خلافت و ولایت کا دفاع کرنا چاہتا ہے وہ اس شخص کی نسبت لڑنے کا زیادہ حق دار ہے جو دوسروں سے اقتدار کو چھیننے کا خواہاں ہو ۔ اس پر مزید یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت سے دفاع بھی نہیں کیا تھا۔ بنا بریں آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ہر حال میں افضل ہیں اورآپ کا قتل قتل ِ حسین سے شنیع تر ہے ۔جیسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اقتدار کے لیے جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ جدال و قتال سے کنارہ کش رہ کر امت میں صلح کرائی تھی۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح جوئی کے اس اقدام پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش کرتے ہوئے فرمایا:

’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔‘‘ [صحیح بخاری ۔ کتاب الصلح۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للحسن بن علی رضی اللّٰہ عنہما (حدیث:۲۷۰۴) ]

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حامی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام تھے۔ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینے والے مختار بن ابی عبید ثقفی اور اس کے اعوان و انصار تھے۔ کوئی سلیم العقل آدمی یہ بات کہنے میں تامل نہیں کرے گا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ،مختار ثقفی [شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف سے شیعہ کے جواب میں یہ بات الزاماً کہی گئی ہے ورنہ مختار کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کیا نسبت؟ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین کے بعد پہلے قابل فخر خلیفہ تھے۔ حافظ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ:۸؍۱۳۳) پر مصر کے مشہور امام اور عالم لیث بن سعد المتوفی ۱۷۵ ہجری سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد اس گھر والے( حضرت معاویہ) سے زیادہ کسی کو حقوق کا پورا کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘حافظ ابن کثیر کتاب مذکورہ(۸؍۱۳۵) پر عبد الرزاق بن ہمام صنعانی سے جو بڑے عالم و حافظ تھے روایت کرتے ہیں ، انھوں نے معمر بن راشد سے اورمعمر نے ہمام بن منبہ صنعانی سے جو ثقات تابعین میں سے تھے، سنا انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:’’ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر کسی شخص کو حکومت و سلطنت کا اہل نہیں دیکھا۔‘‘ ظاہر ہے کہ سلطنت کی اہلیت وصلاحیت اسی شخص میں ہوتی ہے جو حکیم، حلیم اور عادل ہو۔ ملک کا دفاع کرتا اور دین اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے کوشاں رہتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ جو امانت اﷲ نے اس کو تفویض کی ہے، اس میں خیانت کو راہ نہ دیتا ہو۔امام ترمذی ابو ادریس خولانی سے روایت کرتے ہیں : جب عمر رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعدانصاری کو حمص کی ولایت سے معزول کرکے ان کی جگہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تو لوگوں نے ازراہِ تعجب یہ کہنا شروع کیا۔ ’’ عمیر جیسے آدمی کو معزول کرکے معاویہ کو مقرر کیا۔‘‘ (سنن ترمذی، باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان (ح:۳۸۴۳)۔ علامہ بغوی معجم الصحابہ میں لکھتے ہیں کہ عمیرکو لوگ ’’ نَسِیْجُ وَحْدِہٖ‘‘ (اپنی مثال آپ) کہا کرتے تھے۔ ابن سیرین رحمہ اللہ کاقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کثرت زہد کی وجہ سے عمیر کو یہ نام دیا تھا۔ عمیر نے لوگوں کی یہ گفتگو سن کر کہا:’’معاویہ کاذکر اچھے انداز میں کیجیے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اے اﷲ معاویہ کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت عطا فرما۔‘‘(سنن ترمذی،، باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۸۴۳) بعض روایات میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ شہادت خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی تھی۔بشرط صحت حضرت فاروق کی شہادت سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت ثابت ہوتی ہے، تاہم اگر یہ شہادت دینے والے عمیر ہوں ....اس کے باوصف کہ آپ کو معزول کرکے حضرت معاویہ کو ان کا قائم مقام بنایا گیا تھا....تو بھی اس شہادت کا درجہ حضرت عمر کی گواہی سے کم نہیں ہے، اس (]سے افضل تھے، مختار کذاب تھا اور اس نے نبوت کو دعویٰ بھی کیا تھا۔ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[لیے کہ عمیر اصحاب رسول اور زہاد انصار میں سے تھے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب’’ مناقب الصحابہ‘‘ میں ابن ابی ملیکہ تمیمی سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ ایک وتر پڑھتے ہیں ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا: ’’ معاویہ رضی اللہ عنہ فقیہ ہیں ۔‘‘ (صحیح بخاری۔ باب ذکر معاویۃ رضی اللہ عنہ ، حدیث:۳۷۶۵) عبد الرحمن بن ابی عمیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ دعا فرمائی: ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیًا مَّہْدِیًّا وَاہْدِبْہِ‘‘ ( سنن ترمذی۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۳۸۴۲) عبد الرحمن بن ابی عمیرہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا فرمائی: ’’ اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ‘‘ (معجم کبیر طبرانی (۱۸؍۲۵۲) مذکورہ بالا روایت امام بخاری نے اپنی تاریخ میں ابو مسہر سے نقل کی ہے۔ (تاریخ کبیر بخاری (۷؍۳۲۷)، امام احمد یہی روایت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (مسند احمد (۴؍۱۲۷)، صحیح ابن حبان(۲۲۷۸: الموارد) مفسر ابن جریر اسے ابن مہدی سے روایت کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں مندرجہ ذیل محدثین نے یہ روایت اپنی تصانیف میں نقل کی ہے: ۱۔ اسدبن موسیٰ المتوفی ۱۳۲۔۲۱۲ ہجری جن کو ’’ اسد السنہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ۲۔ بشر بن السری الافواہ البصری(۱۳۲۔۱۹۵) یہ امام احمد کو استاد تھے ان کی روایت میں ’’ اَدْخِلْہُ الجنۃَ‘‘ کے لفظ بھی ہیں ۔ ۳۔ عبد اﷲ بن صالح مصری یہ امام لیث بن سعد کے کاتب تھے۔ ۴۔ ابن عدی وغیرہ نے یہ روایتابن عباس سے نقل کی ہے۔ ۵۔ محمد بن سعد۔ صاحب الطبقات یہ روایت مسلمہ بن مخلد فاتح و امام مصر سے بیان کرتے ہیں ۔ حضرت معاویہ کے بارے میں مذکورہ دعائے نبوی کے ناقل لا تعداد صحابہ ہیں ۔(دیکھیے البدایۃ النہایۃ:۸؍۱۲۰۔۱۲۱) نیز ترجمہ معاویہ حرف المیم تاریخ دمشق حافظ ابن عساکر)۔ مذکورۃ الصدر روایات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت معاویہ ہدایت یافتہ اور لاتعداد فضائل و مناق کے حامل تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے مقابلہ میں شیعہ کے مفروض مہدی کی کیا حقیقت جو نہ ابھی پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی اس سے مستفید ہو سکا۔ جو شخص دانستہ ان احادیث کو تسلیم نہ کرے وہ حدیث نبوی کامنکر ہے مقام حیرت ہے کہ بعض شیعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجنے اور ان سے بغض و عداوت رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتے ہیں ان کو دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنا چاہئے کہ آپ نے حضرت معاویہ کے حق میں ایسی دعا کیوں فرمائی: ’’بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘‘ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے کہا: ’’ میں معاویہ سے بغض رکھتا ہوں ۔‘‘ تو ابو زرعہ رحمہ اللہ نے کہا:’’ معاویہ کا رب بڑا رحیم وکریم ہے اور آپ کے حریف( حضرت علی) بھی بڑے شریف آدمی تھے۔ تم دونوں کے درمیان مداخلت کرنے والے کون ہو۔‘‘ امام بخاری اپنی صحیح میں جو قرآن کریم کے بعد اس کرۂ ارضی پر صحیح ترین کتاب ہے نیز امام مسلم اپنی صحیح کی کتاب’’ الامارۃ‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام قباء میں تشریف لے گئے اور انس کی خالہ ام حرام بنت ملحان کے یہاں قیلولہ فرمایا تو آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی امت کے کچھ لوگ تاج و تخت سے آراستہ اعداء دین سے بحری جنگ لڑ رہے ہیں آپ پھر سو گئے اور وہی خواب دیکھا ام حرام نے کہا :یارسول اللہ! دعا فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے ان مجاہدین میں شامل کردے۔ آپ نے فرمایا تو پہلے مجاہدین میں شامل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الاستئذان۔ باب من زار قوماً فقال عنھا (حدیث: ۶۲۸۳، ۶۲۸۲)، صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ ۔ باب فضل الغزو فی البحر (حدیث:۱۹۱۲) حافظ ابن کثیر’’البدایۃ والنہایۃ‘‘(۸؍۳۲۹) پر لکھتے ہیں :’’ حدیث میں جس غزوہ کی پیش گوئی کی گئی ہے اس سے مراد وہ بحری (]

’’ ثقیف کے قبیلہ میں ایک کذاب اور ایک قاتل ہو گا۔‘‘

کذاب سے مختار مراد ہے اور قاتل سے مراد حجاج بن یوسف۔ مختار کا والد ابو عبید ثقفی بڑا نیک آدمی تھا اس نے مجوس سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔ مختار کی بہن صفیہ بنت ابی عبید حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ۔ یہ بڑی نیک دل خاتون تھیں ۔جب کہ مختار بد ترین شخص تھا۔

[قتل عثمان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شراکت کا الزام اور اس پر رد:]

[چھٹا اعتراض]:....شیعہ کا یہ قول کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرانا چاہتی تھیں اور اسی سازش میں شریک رہا کرتی تھیں ۔اور کہا کرتی تھیں :’’ بوڑھے احمق کو قتل کردو۔‘‘ وہ ہمیشہ دعا کیاکرتی تھیں :’’اللہ اس بیوقوف بوڑھے کو قتل کرے۔‘‘

جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر پہنچی تو بہت خوش ہوئیں ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب] : ۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس روایت کی دلیل پیش کیجیے۔

دوسری بات:....جوچیز اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے ‘ وہ اس رافضی دعوی کو رد کرتی ہے۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ حضرت کے قتل پر سخت انکاری تھیں ۔قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کومذمت اور نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتیں اور اس میں شرکت کرنے والوں کو ....خواہ ان کا بھائی محمد بن ابوبکر ہو یا کوئی اور مذموم قرار دیتی تھیں ۔انہوں نے اپنے بھائی محمد بن ابو بکر اور مشارکین قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر بد دعا کی تھی۔

[غلط فہمی کی بناپر اہل حق کا باہم کفر و نفاق کا فتوی]:

تیسری بات :....فرض کیجیے صحابہ میں سے کوئی....حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہوں یا کوئی اور....غصہ کی حالت میں کوئی ایسی بات کہے؛ اس لیے کہ وہ بعض خرابیوں کا انکار کرنا چاہتا ہو‘ تو اس کی بات کیوں کر حجت ہو سکتی ہے۔[لڑائی ہے جو ۳۷ ہجری میں حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں حضرت معاویہ کے زیر قیادت لڑائی لڑی گئی اور جس میں آپ نے جزیرہ قبرص کو فتح کیا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کیلئے یہ فخر کیا کم ہے کہ آپ اوّلین اسلامی بحری بیڑے کے بافی تھے۔یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں شامل ہے کہ ام حرام رضی اللہ عنہا جس نے مجاہدین کے زمرہ میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور آپ نے اس کو پہلے مجاہدین میں شمولیت کی بشارت دی تھی امیر معاویہ کے بحری بیڑہ میں شریک تھیں ان کے خاوند حضرت عبادہ بن صامت اور دیگر صحابہ میں سے ابودرداء اور ابو ذر رضی اللہ عنہما بھی رفیق لشکر تھے۔ ام حرام نے اسی جگہ وفات پائی اور آج تک آپ کی قبر قبرص میں موجود ہے۔حافظ ابن کثیر مزید فرماتے ہیں : ’’غزوہ قسنطنیہ کے موقع پر دوسرے لشکر کی قیادت کا شرف یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خواب کی تعبیر بروئے کار آئی۔ یہ آپ کی رسالت کی صداقت کے عظیم دلائل میں سے ایک ہے۔‘‘ عباسی خلافت میں تملق و خوشامد کا دور دورہ تھا۔ اور لوگ بنو امیہ کے محاسن کو معائب کا رنگ دے کر عباسی خلفاء کی خوشنودی حاصل کرتے تھے اسی دوران میں چند طالب علم امام الائمہ سلیمان بن مہران الاعمش کوفی رحمہ اللہ کے یہاں جمع ہوکر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے عدل و انصاف کا ذکر کرنے لگے یہ سنکر امام اعمش بولے:’’ اگر تم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت دیکھ لیتے تو پھر کیا ہوتا۔‘‘ طلبہ نے عرض کیا:’’ کیا آپ کی مراد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم اور بردباری سے ہے۔‘‘ فرمایا اﷲ کی قسم! نہیں بلکہ آپ عدل وانصاف میں یکتا تھا۔‘‘ امام اعمش مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: ’’ اگر تم حضرت معاویہ کو دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہی مہدی ہیں ۔‘‘ یونس بن عبید قتادہ بن دعامہ سدوسی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا:’’ اگر تم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے کام کرنے لگو تو اکثر لوگ کہنے لگیں کہ تم ہی مہدی ہو۔‘‘ابو اسحاق السُّبَیعی نے ایک دن حضرت معاویہ کاذکر کرتے ہوئے کہا:’’ اگر تم ان کا زمانہ پا لیتے تو کہتے کہ یہی مہدی ہیں ۔‘‘ امام احمد بن حنبل صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تصنیف کتاب الزہدمیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام زہد میں ضرب المثل کے طور پر بیان کیا ہے۔محی الدین خطیب نے کتاب’’ العواصم من القواصم‘‘ کے حواشی پر اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ ایک طرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ اصلی تصویر ہے جو صلحائے امت محمدی سے منقول ہے۔ دوسری جانب شیعہ کی پیش کردہ جعلی تصویر ہے جو فساق و فجار نے اپنی پر از ضلالت کتب میں امت محمدی کے لاتعداد لوگوں کو مبتلائے فریب کرنے کے لیے وضع کی ہے۔(فَاللّٰہُ حَسِیْبُہُمْ وَ ہُوَ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ)  صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب ذکر کذاب ثقیف و مبیرھا (حدیث: ۲۵۴۵) ]اس سے نہ کہنے والے کی شان میں کوئی فرق آتا ہے نہ اس کی شان میں جس کے بارے میں وہ لفظ کہا گیا۔ بایں ہمہ وہ دونوں جنتی بھی ہوسکتے ہیں اور اللہ کے ولی بھی۔ حالانکہ ان میں سے ایک دوسرے کو واجب القتل اور کافر تصور کرتا ہے مگر وہ اس ظن میں خطاء کار ہے۔

جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذ کور ہے؛ جو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکے تھے۔صحیح حدیث میں ثابت ہے ان کے غلام نے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم ! حاطب بن ابی بلتعہ جہنم میں جائے گا ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم نے جھوٹ بولا ؛ وہ بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکا ہے۔ ‘‘[یہ شیعہ کا وضع کردہ جھوٹ ہے۔ نعثل کا لفظ صرف قاتلین عثمان کی زبان پر جاری ہوا۔ قاتلین عثمان میں سے اوّلین شخص جس(]

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:((جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کا ارادہ کیا تو حاطب نے مشرکین مکہ کے نام ایک خط لکھا اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز منکشف کردیے۔ وحی کے ذریعہ آپ ان تمام حالات سے باخبر ہوئے ،تو حضرت علی رضی اللہ عنہ وزبیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا مکہ کی جانب چلتے جاؤ اور جب باغ خاخ آجائے تو وہاں تمھیں ایک شتر سوار عورت ملے گی اس کے پاس ایک خط ہو گا ۔ وہ خط اس سے لے لیجیے۔ جب علی و زبیر رضی اللہ عنہما وہ خط لے کر واپس لوٹے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا کر خط لکھنے کا سبب دریافت کیا۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! میں نے یہ فعل اس لیے انجام نہیں دیا کہ میں مرتد ہو گیا یا کفر پر راضی ہو گیا تھا۔اصل معاملہ یہ ہے کہ میں نسباً قریشی نہیں ہوں ، بلکہ باہر سے آکر مکہ میں آباد ہوا تھا۔ مدینہ میں جو لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں ، مکہ میں ان کے عزیز و اقارب ہیں جو ہر طرح ان کے گھر بار کی حفاظت کرتے ہیں ۔ میں نے چاہا کہ اس طرح قریش کو ممنون کردوں تاکہ وہ میرے کنبہ کی حفاظت کرتے رہیں ۔‘‘حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں ۔ آپ نے فرمایا:’’ حاطب بدر میں شرکت کر چکا ہے اور اللہتعالیٰ نے اہل بدر کے متعلق فرمایاہے:﴿اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ ﴾ (جو اعمال چاہو انجام دو میں نے تمھیں بخش دیا۔‘‘اسی دوران میں سورۂ ممتحنہ کی یہ آیت نازل ہوئی: 

﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ

’’ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم ان کے ساتھ دوستی لگانا چاہتے ہو۔‘‘[نے نعثل کا لفظ بولاوہ جبلہ بن عمرو ساعدی تھا۔ اس نے کہا :’’ اے نعثل میں آپ کو قتل کرکے ایک خارشی اونٹ پر سوار کروں گا اور اسے شہر سے باہر پتھریلی زمین کی طرف ہانک دوں گا ۔(دیکھیے تاریخ طبری:۵؍۱۱۴، مطبع حسینیہ) بعد ازاں یہ لفظ جنگ جمل کے موقع پر ہانی بن خطاب ارجی کی زبان پر جاری ہوا وہ کہتا ہے۔ اَبَتْ شُیُوْخُ مُذْحَجٍ وَّ ہَمْدَانَ اَنْ لَّا یَرُدُّوْا نَعْثَلًا کَمَا کَانَ تیسری مرتبہ یہ لفظ عبدالرحمن بن حنبل جمحی نے جنگ صفین کے موقع پر بولا ۔وہ کہتا ہے: اِنْ تَقْتُلُوْنِیْ فَاَنَا ابْنُ حَنْبَل اَنَا الَّذِیْ قَتَلْتُ فِیْکُمْ نَعْثَلًا جب جبلہ بن عمرو ساعدی نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرتے ہوئے پہلی مرتبہ نعثل کا لفظ بولا حضرت عائشہ اس وقت مکہ مکرمہ میں محو عبادت تھیں ۔ جب حج سے واپس لوٹیں تو یہ لفظ آپ کے کانوں تک پہنچا۔  اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ انسان خطا و نسیان سے مرکب ہے، اور رسولوں کے سوا کوئی بشر معصوم نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام اور خاص طور پر خلفاء راشدین انسانیت کی اعلیٰ ترین صفات سے بہرہ ور ہیں ، تاہم وہ خطاء کے مرتکب ہو سکتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی خطا کو درست بھی کرتے ہیں ، وہ خطا کے مرتکب ہونے کے باوصف قلبی طہارت ، صفاء نیت، صدق جہاد اور سلامت مقاصد کی بنا پر باقی مسلمانوں سے بلند ترین مقام و مرتبہ پر فائز ہیں ۔]

اہل علم حاطب رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی صحت پر متفق ہیں ۔ یہ واقعہ مفسرین، فقہاء اور علماء سیر وتواریخ کے یہاں خبر متواتر کا درجہ رکھتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں جب فتنہ پروری کا دور دورہ تھا یہ واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے۔ اس کا راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کاتب عبداللہ بن ابی رافع ہے۔ واقعہ بیان کرنے سے آپ کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم باہمی مشاجرات و تنازعات کے باوصف اللہ تعالیٰ کے نزدیک مغفورہیں ۔خواہ ان کے مابین کچھ بھی ہوا ہو۔

اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ: حضرت عثمان وطلحہ زبیر رضی اللہ عنہم حاطب رضی اللہ عنہ سے بہرحال افضل ہیں ۔ حاطب اپنے غلاموں کے ساتھ سخت سلوک کرتے تھے۔نیز یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مشرکین مکہ کو خط لکھ کر حاطب رضی اللہ عنہ نے جس جرم کا ارتکاب کیا تھا وہ ان لغزشوں کی نسبت عظیم تر تھا جو سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب ہیں ۔ بایں ہمہ آپ نے اس کو قتل کرنے سے روکا اور اس کے جہنمی ہونے کی تردید کی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ حاطب رضی اللہ عنہ بدر و حدیبیہ میں شرکت کر چکا تھا۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں ۔ آپ نے اسے منافق کہا اور مباح الدم قرار دیا۔ اس کے باوجود کسی کے ایمان میں فرق آیا نہ جنتی ہونے میں ۔

[واقعہ افک سے استدلال]:

صحیحین میں واقعہ افک کی تفصیل مذکور ہیں ۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے رئیس المنافقین سے نجات حاصل کرنے کے لیے فرمایا:

’’مجھے ایسے شخص کی ایذا سے کون نجات دے گا، جس نے میرے اہل کے بارے میں مجھے بڑی تکلیف دی ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے اپنے اہل خانہ کے بارے میں خیر ہی کی امید ہے اور جس شخص کے ساتھ ان کو متہم کیا جا رہاہے اس کے بارے میں بھی میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔‘‘

یہ سن کر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اٹھے....یہ وہی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں جن کی موت پر عرش الٰہی پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ احکام الٰہی میں انھیں کسی ملامت گر کی پروا نہیں ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے اپنے حلیف بنی قریظہ کے بارے میں فیصلہ صادر کیا تھا کہ لڑنے والوں کو قتل کیا جائے۔ بچوں کو قیدی بنایا جائے اور ان کے مال کو مال غنیمت تصور کیا جائے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:’’آپ نے ان کے بارے میں اللہ کا وہ فیصلہ صادر کیا ہے جو سات آسمانوں کے اوپر سے نازل ہوا تھا۔‘‘[صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب فضل من شھد بدراً (حدیث: ۳۹۸۳، ۴۸۹۰)، صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل حاطب بن ابی بلتعۃ (حدیث: ۲۴۹۴)]....اور[حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے] کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اس خدمت کے لیے حاضر ہیں ، اگر وہ اوس کے قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو گا تو ہم اسے موت کے گھاٹ اتا دیں گے اور اگر خزرج کا آدمی ہوا تو اس کے بارے میں ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔

یہ سن کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا :’’آپ نے جھوٹ بولا، اللہ کی قسم! آپ اسے قتل نہیں کر سکتے؛ اور نہ ہی اسے قتل کرنے پر قادر ہوسکتے ہیں ۔ اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا:آپ جھوٹ بولتے ہیں ، اللہ کی قسم! ہم اسے قتل کر کے رہیں گے۔ آپ منافق ہیں اور اسی لیے منافقین کی وکالت کر رہے ہیں ۔‘‘اوس و خزرج آپس میں گتھم گتھا ہونے والے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اتر کر انھیں خاموش کرادیا۔‘‘

اب ظاہر ہے کہ یہ تینوں اصحاب سابقین اوّلین میں سے تھے۔ اور اس کے باوصف اُسید رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو منافق کہا، حالانکہ ان دونوں حضرات کا ولی اللہ اور جنتی ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے۔اس سے یہ حقیقت منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص بنا بر تاویل دوسرے شخص کو کافر قرار دیتا ہے، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی کافر نہیں ہوتا۔ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور گھر میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے ۔مگر صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں گفتگو میں مشغول رہے ۔[دوران گفتگو مالک بن دخشم کا تذکرہ آیا لوگوں نے اس کو مغرور اور متکبر کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر سن کر بھی حاضر نہیں ہوا معلوم ہوا وہ منافق ہے]، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا:

’’ ہم دل سے چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلئے بددعا کریں کہ وہ ہلاک ہو جائے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:’’ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :’’زبان سے تو وہ اس کا قائل ہے مگر اس کے دل میں یہ بات نہیں ۔‘‘ فرمایا:’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کی تو حید اور میری رسالت کی گواہی دے گا وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا یا یہ فرمایا کہ اس کو آگ نہ کھائے گی۔‘‘ [سیرۃ ابن ہشام ۳؍ ۲۵۱۔ولکن مع اختلاف في اللفظ في: صحیح بخاری۴؍۶۷۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب إذا نزل العدو علی حکم رجل، صحیح مسلم ۳؍۱۳۸۸ ؛ ۔ کتاب الجہاد والسیر ؛ باب جواز القتل من نقض العہد ۔]

جب یہ اصول ہے؛ او ر پھر یہ ثابت ہوجائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا حضرت عمار رضی اللہ عنہ یا کوئی دوسرا صحابی اگرکسی دوسرے صحابی کو کافر سمجھے؛ مثلاً : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے صحابی کو ؛ اور تأویل کی بنا پر اس کو قتل کرنا جائز سمجھے ؛ تو اس کا شمار بھی مذکورہ بالا تاویل کے باب سے ہوگا۔ اور یہ بات ان میں سے کسی ایک کے ایمان پر بھی قادح نہیں ہوگی۔ او رنہ ہی اس سے کسی کے اہل جنت ہونے میں کوئی فرق آئے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں ۔حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی غلطی بہت بڑی ہے ؛ جب آپ کی یہ غلطی معاف کردی گئی ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی غلطی بالاولی مغفرت کی مستحق ہے۔

جب یہ جائز ہے کہ حضرت عمر او رحضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما جیسے انسان کفر کا حکم لگانے اور مباح الدم سمجھنے میں اجتہاد کرسکتے ہیں ‘ اگرچہ یہ اجتہاد حقیقت واقع کے مطابق نہ بھی ہو؛ تو پھر اس قسم کے اجتہاد کا حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس قسم کے اجتہاد کا ہونا زیادہ اولی ہے ۔

[بڑے آدمی کے لیے معصوم ہونا شرط نہیں ]:

چوتھی بات:....ان سے کہا جائے گا: ’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر قدح کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت منقول ہے ؛ اگر یہ صحیح سند سے ثابت ہوجائے تو پھر بھی اس میں دو احتمال ہیں : یا تو آپ کی رائے درست ہوگی ؛ یا غلط ۔ اگر آپ کی رائے درست ہے ؛ تو پھر اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برائیوں میں شمار نہیں کرنا چاہیے ۔اور اگر آپ کی یہ رائے غلط ہے تو پھر اسے سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کی برائیوں میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے ۔ [ان روایات کی بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نقائص کو جمع کرنا قطعی طور پر باطل ہے ]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر جس دکھ و رنج کا اظہار کیا ؛ آپ کے قاتلین کی مذمت کی ؛ اور آپ کے خون کا انتقام چاہا؛ اس کا تقاضا [ہے کہ اگربالفرض کبھی کوئی ایسی بات سے آپ ہوئی ہے تو اس پر] ندامت ہے۔جیسا کہ آپ نے مدینہ طیبہ سے جنگ جمل کے لیے نکلنے پر ندامت کا اظہار فرمایا تھا۔ بیشک اگر اس واقعہ پر آپ کی ندامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے حق کا اعتراف ہے؛ تو پھر یہ[قتل عثمان پر] ندامت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے حق کا اعتراف ہے۔ اگر یہ اعتراف درست نہیں تو پھلا اعتراف بھی درست نہیں ۔

مزید برآں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جمہور صحابہ اور جمہور مسلمین سے جس قدر ملامت کا اظہار حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ہوا ہے؛ایسی ملامت کا اظہار عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے نہیں ہوا۔اگریہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرملامت کے لیے حجت ہے ؛ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ملامت کے لیے بھی حجت ہے۔ اگر اس واقعہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ملامت کے لیے کوئی حجت نہیں ہے تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرملامت کے لیے بھی کوئی حجت نہیں ہے۔ اگر اس سے مقصود اس ملامت گری پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں قدح کرنا ہے تو پھر یہ جان لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا [اس مسئلہ میں اکیلی نہیں ہیں ‘ بلکہ آپ ] جمہور صحابہ کیساتھ ہیں ۔ مگر اس ملامت گری کے درجات مختلف ہیں ۔

اگر اس سے مقصود تمام لوگوں پر قدح کرنا ہو‘جیسے : حضرت عثمان؛ حضرت علی ؛ حضرت طلحہ ؛ حضرت زبیر ؛ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم نیز ملامت کیے گئے اور ملامت کرنے والے ۔

تو ان سے کہا جائے گا کہ : ہم ان میں سے ہر ایک کے لیے معصوم ہونے کا دعوی نہیں کرتے۔بلکہ ہم کہتے ہیں : یہ لوگ اولیاء اللہ متقین تھے؛ ان کا شمارنجات پانے والی اللہ تعالیٰ کی جماعت میں ہوتا ہے۔ اللہ کے نیک بندے تھے ؛ اور جنت کے سرداروں میں سے تھے۔ اور ہم یہ بھی کہتے ہیں : گناہ کا صادر ہونا ان لوگوں کے لیے بھی جائز ہے جو صدیقین سے افضل ہوں ‘ او رصدیقین سے بڑے ہوں ۔ مگر ان گناہوں کی سزا توبہ ‘ استغفار ؛گناہ مٹانے والی نیکیوں ؛ مصائب و آلام ؛ اور دوسرے امور کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے لیے توبہ و استغفارکرنا بھی ثابت ہے ‘ اور ان کی اتنی نیکیاں ہیں جو ان کے بعد آنے والے کسی کے حصہ میں نہیں آئیں ۔اور انہیں ایسی آزمائشوں اورمصیبتوں سے پالاپڑا ہے [جنہوں نے ان کے گناہ دھوکر ختم کردیے ہیں ]یہ مصیبتیں کسی دوسرے پر نہیں آئیں ۔ ان کی اتنی قابل شکر کوششیں اور نیک اعمال ہیں جو ان کے بعد آنے والوں کے حصہ میں نہیں آئے۔ یہ برگزیدہ لوگ گناہوں کی بخشش کے بعد میں آنے والے لوگوں کی نسبت زیادہ حق دار ہیں ۔

لوگوں کے بارے میں جو گفتگو ہو وہ ظلم و جہل کی بجائے علم و عدل پر مبنی ہوناواجب ہے؛ ظلم و جہالت پر مبنی کرنا اہل بدعت کا شیوہ ہے ۔ روافض کا یہ حال ہے کہ وہ دو قریب الفضیلت اشخاص میں تقابل کرتے ہوئے ایک کو معصوم قرار دیتے اور دوسرے کو ظلم و گناہ کا مجسمہ کافر و فاسق قرار دیتے ہیں ۔ یہ بات ان کے جہل و تناقض کی آئینہ دار ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی یہودی یا نصرانی جب حضرت موسیٰ یا عیسیٰ کی نبوت کا اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر تنقید کرے گا تو یہ اس کے عجز و جہل اور تناقض کا اظہار ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ یا عیسیٰ کی رسالت کے اثبات میں وہ جو دلیل پیش کرے گا، اسی دلیل؛ بلکہ اس سے بھی قوی تر دلیل وبرہان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ثابت ہو گی۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر جو بھی شبہ پیش کیا جائے گا اس سے زیادہ قوی شبہ حضرت عیسیٰ اور حضرت موسی علیہم السلام پر پیش کیا جائے گا۔خلاصہ یہ کہ جو شخص بھی دو مماثل چیزوں میں تفریق پیدا کرے گا یا ایک چیز کی مدح کرے اور بعینہٖ اس جیسی چیز کی مذمت کرے یا بالعکس وہ اسی قسم کے عجز و جہل اور تناقض کا شکار ہو گا۔ علماء و مشائخ کے اتباع کا بھی یہی حال ہے، جب کوئی شخص اپنے ہادی و پیشوا کی مدح میں رطب اللسان ہو اور اس جیسے دوسرے بزرگ کی مذمت کا مرتکب ہو تو وہ بھی تناقض کے مرض میں مبتلا ہو گا۔

جب کوئی عراقی یوں کہے کہ: اہل مدینہ نے فلاں فلاں سنت کے خلاف کیا ہے؛ اور ان مسائل میں صحیح حدیث کو ترک کردیا ہے؛ اور ایسے ہی فلاں فلاں مسئلہ میں رائے کی پیروی کی ہے۔مثال کے طور پر کوئی اہل مدینہ کے بارے میں کہے کہ: ان کے نزدیک تلبیہ پڑھنے کا وقت جمرہ عقبہ کی رمی تک نہیں ؛ اور نہ ہی محرم احرام سے اورتحلل ثانی سے پہلے خوشبو لگاسکتا ہے۔اور نہ ہی مفصل سورتوں میں سجدہ ہے۔ اور نہ ہی نماز میں تعوذ اور دعا استفتاح اور دو طرف سلام ہے۔اور ایسے ہی ہر کنچلی والا درندہ بھی حرام نہیں ہے؛ اور نہ ہی ہر ناخن والا پرندہ ان کے نزدیک ناجائز ہے؛ اوروہ حشوش کو بھی حلال سمجھتے ہیں ۔حالانکہ ان کے مابین ان مسائل میں اختلاف نہیں ۔ تو اہل مدینہ کہتے ہیں : ہم سنت کے سب سے بڑے پیروکار؛ اوراہل عراق کی نسبت اس کی مخالفت اور ائے سے بہت دور ہیں ۔وہ اہل عراق جن کی رائے میں ہر نشہ آور مشروب حرام نہیں ہوتا؛ اوریہ کہ صرف نجاست کے گر جانے سے کنوئیں کا پانی ناپاک نہیں ہوتا ۔ ان کے نزدیک استسقاء کے لیے نماز نہیں ہے؛ اور نہ ہی نماز کسوف کی ہر رکعت میں دو رکوع ہوتے ہیں ۔ اور نہ ہی وہ حرم مدینہ کو حرم سمجھتے ہیں ۔اورنہ ہی ایک گواہ اور قسم کی موجودگی میں فیصلہ کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی قسامہ میں دونوں مدعیان کو قسم دیتے ہیں ۔اور نہ ہی حج قرآن میں ایک سعی اور طواف پر اکتفاء کرتے ہیں ۔وہ سبزیوں میں تو زکواۃ کو واجب کہتے ہیں ؛ مگراجناس میں اسے جائز نہیں سمجھتے۔ اور نہ ہی نکاح شغار اورنکاح حلالہ کے باطل ہونے پر یقین رکھتے ہیں ؛ اور اعمال میں نیت کو شرط نہیں سمجھتے۔ ادنیٰ قسم کے حیلوں سے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ادنیٰ قسم کے حیلہ سے شفعہ کے حق کو ساقط کردیتے ہیں ۔ اور حرام چیزیں جیسے زنا؛ جوا؛ اور سفاح کو حیلوں سے حلال کر لیتے ہیں ؛ ایسے ہی حیلوں سے زکاۃ کو ساقط کرتے ہیں ۔ اور عقد میں قصد کو معتبر نہیں سمجھتے۔ اور حدود کو معطل کرتے ہیں ؛ حتی کہ ملک کی سیاست صرف ان کی رائے کے مطابق ہو جائے۔پس یہ لوگ کھانے یا پھل کی چوری اور مباح چیز کی چوری پر چور کا ہاتھ نہیں کاٹتے ۔اوروہ کسی شرابی پر حد نہیں لگاتے حتی کہ وہ اقرار کرلے؛ یا پھر اس پر گواہی قائم ہوجائے۔ وہ کسی کو الٹی کرتا دیکھ کر؛ یا شراب کی بو پاکر حد نہیں لگاتے۔ جب کہ خلفائے راشدین اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس کے خلاف ہے۔اور بھاری چیز سے قتل کرنے پر قصاص کو واجب نہیں کہتے۔اور نہ ہی قاتل کے ساتھ ویسا سلوک کرتے ہیں جیسا اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے۔ بلکہ بسا اوقات ظالم نے مظلوم کا ہاتھ اور پاؤں کاٹے ہوتے ہیں ؛ اور اس کا پیٹ چاک کیا ہوتا ہے۔مگریہ لوگ صرف اس کی گردن زنی کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔اور کسی ذمی کافر کے بدلہ میں کسی بہترین مسلمان کو بھی قتل کردیتے ہیں ۔ مہاجرین و انصار اور اہل ذمہ کفار کی دیت کو برابر سمجھتے ہیں ۔او رجو کوئی اپنی کسی محرم جیسے ماں یا بیٹی سے وطی کر لے ؛اوروہ اس کا حکم جانتا بھی ہو؛ اس سے حد کو محض عقد کی صورت کی وجہ سے ساقط قرار دیتے ہیں ۔مزید برآں وہ منافع کے کرایہ کو ساقط قرار دیتے ہیں ۔ اور مزدلفہ اور عرفات کے علاوہ کہیں بھی دو نمازیں اکٹھی پڑہنے کے قائل نہیں ہیں ۔ اورنہ ہی فجر کو اندھیرے میں پڑہنا مستحب سمجھتے ہیں ۔اور نہ ہی سری رکعات میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی رات سے روزہ کی نیت کرلینے کو واجب کہتے ہیں ؛ حالانکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ کل رمضان ہے۔اور مشاع کے وقف اور ہبہ اور گروی رکھنا جائز نہیں سمجھتے۔گوہ اور گھوڑے کو حرام کہتے ہیں ؛ جنہیں اللہ اوراس کے رسول نے حلال ٹھہرایا ہے۔ اور اس نشہ آور چیز کو حلال کہتے ہیں جسے اللہ اوراس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ عصر کا وقت اس شروع نہیں ہوتا جب ہر چیز کا سایہ اس کا دگنا ہو جائے؛ اور کہتے ہیں : بیشک نماز فجر طلوع کے ساتھ باطل ہو جاتی ہے۔ اور قرعہ کو جائز نہیں سمجھتے۔ اورحدیث مصراۃ کو قبول نہیں کرتے؛ اور نہ ہی مشتری کے مفلس ہونے جانے پر اس کی بات مانتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں : جمعہ اوردیگر نماز ایک رکعت سے کم پر بھی ان کا ادراک ہو سکتا ہے۔ اور ایک یا دو یوم کی مسافت پر نماز کی قصر کو جائز نہیں سمجھتے؛ اور نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے کو جائز سمجھتے ہیں ۔

ایسے بعض فقہائے حدیث کے متبعین کا حال ہے۔ اگر ان میں سے بعض لوگ یہ کہیں کہ ہم سنت کے بڑے متبع ہیں ؛ بیشک ہم صحیح حدیث کی اتباع کرتے ہیں ؛ جبکہ تم لوگ ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہو۔ ان کے مقابلہ میں دوسرے لوگ کہیں : بیشک ہم صحیح حدیث کے تم سے بڑے عالم؛ اور تمہاری نسبت جو کہ ضعیف راویوں سے روایت کرتے ہیں ؛ اور ان کی صحت کا اعتقاد رکھتے ہیں ؛ سے بڑے متبع ہیں ۔وہ گمان کرتے ہیں کہ بیشک یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛ حالانکہ وہ آپ سے ثابت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ یہ گمان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھارسفر میں پوری نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ اوریہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے رہے؛ حتی کہ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ اوریہ کہ آپ نے مطلق حج کا احرام باندھا تھا۔ جس میں آپ نے تمتع یا قران یا افراد کی نیت نہیں کی تھی۔ اوریہ کہ مکہ صلح کے ذریعہ فتح ہوا۔ اوریہ کہ جو کچھ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اور دیگر نے جو جائداد کی تقسیم ترک کردی تھی ؛ یہ متناقض ہے۔ یہ مفقود کے بارے میں خلفائے راشدین اور صحابہ کرام جیسے حضرت علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کے حکم اور فیصلہ کے خلاف ہے اور ضعیف راویوں سے منقول کئی ایک احادیث سے استدلال کرتے ہیں ۔

جب ہم یہ کہتے ہیں : ضعیف حدیث رائے سے بہتر ہے۔ اس سے مراد وہ ضعیف حدیث نہیں ہوتی جو کہ متروک ہے۔لیکن اس سے مراد حدیث ِحسن ہوتی ہے۔ جیساکہ حضرت عمرو بن شعیب کی اپنے باپ اور ان کی اپنے والد سے روایت اور حضرت ابراہیم ہجری کی روایت؛ اور ان کی امثال دیگروہ احادیث جنہیں امام ترمذی صحیح یا حسن کہتے ہیں ۔ امام ترمذی سے قبل اصطلاح میں حدیث کی صرف دو اقسام تھیں : صحیح اور ضعیف ۔ اورپھر ضعیف کی دو اقسام تھیں : متروک اورغیر متروک۔ تو ائمہ حدیث اس اصطلاح کے اعتبار سے بات کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئے جوصرف امام ترمذی کی اصطلاح کو ہی جانتے تھے۔ تو انہوں نے جب بعض ائمہ کا یہ قول سنا کہ: ’’ضعیف حدیث ہمارے نزدیک قیاس سے زیادہ محبوب ہے۔ تو ان لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ اسے سے مراد وہ احادیث ہیں ؛جنہیں امام ترمذی جیسے لوگ ضعیف کہتے ہیں ۔اوروہ ان لوگوں کے طریقہ کو ترجیح دینے لگ گئے جو خیال کرتے ہیں کہ ہم صحیح احادیث کی اتباع کرنے والے ہیں ۔اس مسئلہ میں وہ ان متناقضین میں سے ہوتا ہے جو کسی چیز کو دوسری ایسی چیز پر ترجیح دیتے ہیں جو خود ترجیح کی زیادہ حق دار ہوتی ہے۔اس سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوتی۔

یہی حال مشائخ طریقت کا ہے؛ جب ان میں سے کوئی ایک کسی ایسے شیخ پر طعنہ زنی کرناچاہتا ہے جس کی کوئی دوسرا تعظیم و تکریم کرتا ہو؛ حالانکہ وہ تعظیم کا زیادہ مستحق اور قدح سے زیادہ دورہوتا ہے۔ جیسے وہ لوگ جو ابو یزید اور شبلی وغیرہ کو افضلیت دیتے ہیں ؛ جو ان سے احوال کی حکایات نقل کرتے ہیں ؛وہ جنید اور اور سہل بن عبداللہ تستری جیسوں پر تنقید کرتے ہیں ؛ جو کہ زیادہ استقامت پر اوربلند مقام و مرتبہ والے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ جہالت کی بنا پر کسی کے عظیم انسان ہونے کے صرف دعوی کو اس کی فضیلت کا موجب قرار دیتے ہیں ۔ اور یہ نہیں جانتے کہ اس کا آخری انجام یہ ہے کہ یہ انسان خطاؤں سے مغفورلہ ہو؛ نہ کہ اس کی سعی مشکورانہ ہو۔ جو کوئی بھی عدل اور علم کی راہ پر نہیں چلتا ؛ نتیجہ میں اسے ان تناقضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن انسان کی وہی حالت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:

﴿ وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَ الْمُشْرِکٰتِ وَ یَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo﴾ (الاحزاب۳۷] 

’’ اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے ؛تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور (تاکہ) اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول کرے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘

پس انسان ظالم اور جاہل ہی ہے؛ سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمادے۔

[خلافت علی رضی اللہ عنہ اور اختلاف ]

[ساتواں اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا خلافت کے منصب پر کون فائز ہوا ہے ؟ ‘‘ لوگوں نے جواب دیا: حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ قرار پائے ہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا ، عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینے کے دعویٰ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئیں ۔ حالانکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]:ہم کہتے ہیں : شیعہ مصنف کا یہ قول کہ عائشہ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل قرار دیا تھا ۔ اس لیے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آراء ہوئے؛ صریح بہتان ہے۔ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کی تحویل میں دے دیں ۔ وہ اس حقیقت سے کلیتاً آگاہ تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے اتنا ہی پاک تھا جتنا کہ خود ان کادامن؛ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ مگر چونکہ قاتلین نے آپ کے پاس پناہ لے لی تھی۔وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ جن قاتلوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاں پناہ لی ہے وہ ان کو تفویض کردیے جائیں ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں اس پر قادر نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے قبائل ان کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ فتنہ کی حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ بپا ہوجاتا ہے تو عقلاء اس کو فرو کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ بڑے بڑے اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس فتنہ کی آگ بجھانے اور اسے روکنے سے قاصر رہے ۔فتنوں میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَاصَّۃً ﴾ (الانفال)

’’ اس فتنہ سے بچ جاؤ جو صرف ظالموں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا۔‘‘

جب فتنہ کا ظہور ہو تا ہے تو وہی شخص اس میں آلودہ ہونے سے محفوظ رہتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ بچالے۔

[آٹھواں اعتراض]: شیعہ مصنف کہتا ہے ’’[ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی بنا پر] حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کیا جرم عائدہوتا ہے۔‘‘

[ جواب] :[یہ اعتراض شیعہ مصنف] کے تناقض کا آئینہ دار ہے۔ رافضی مصنف اس زعم میں مبتلا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ،قتل عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھ جنگ و قتال کو مباح تصور کرتے تھے۔ اور یہ قتل آپ کی مساعی کا رہین منت تھا۔ اس لیے کہ شیعان علی اور شیعان عثمان رضی اللہ عنہما میں سے بہت سے لوگ یہ قتل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ [قبل ازیں شیعہ مصنف کا یہ قول بیان کیا جا چکا ہے کہ سب لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے حق میں تھے‘‘ ہم نے وہاں بیان کیا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام کی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔اسی بنا پر آپ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو ان کی حفاظت و نگرانی کے لیے مامور فرمایا تھا۔ ہم نے یہ واقعہ بھی ذکر کیا تھا کہ ایک مرتبہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو اپنی بیٹیوں کو روتا ہوا پایا اور جب انھوں نے یہ بتایا کہ وہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر آنسو بہا رہی ہیں تو آپ نے فرمایا ’’ روتی رہو۔‘‘جنگ جمل میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سنا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیج رہی ہیں اور فوج کے لوگ آپ کی دعا کو دہرا رہے ہیں تو آپ نے یہ دعا فرمائی:’’ اَللّٰہُمَّ الْعَنْ قَتَلَۃَ عُثْمَان ‘‘ (یا اﷲ !قاتلین عثمان پر لعنت بھیج)۔ یہ دلائل و براہین ذکر کرنے سے ہمارا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق وہی رائے رکھتے ہیں جو اہل سنت کی ہے اور وہ بھی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجتے تھے۔ نیز یہ کہ آپ روافض کی طرح اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض و عناد رکھنا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کرنا اور ان کے فعل شنیع کو سراہنا ایک مستحسن امر ہے ۔ ہم شیعہ مصنف کے اس دعویٰ کا ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مباح الدم تصور کرتے تھے۔ اب وہ اس کے عین برعکس یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے رفقاء نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر یہ الزام لگایا تھا کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جائز القتل تصور کرتے ہیں اور اسی بنا پر آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے ۔ حالانکہ جن و انس اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق شیعہ کے ہم خیال ہر گز نہ تھے۔ بخلاف ازیں وہ آغاز اسلام سے تادم موت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا بھائی سمجھتے رہے۔ آپ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے اعوان و انصار کا مقصد وحید قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ( لَعَنَہُمُ اللّٰہُ وَ اَعَدَّ لَہُم جَہَنَّمَ) سے قصاص لینے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعاون اور امداد کرنا تھا اور بس! ‘‘]

ایک گروہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے یہ الزام [بطور فخر ] لگاتا ہے ‘ اور دوسرا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے یہ الزام [بطور نفرت و اثبات جرم کے]لگاتاہے۔ [یہ دونوں گروہ تعصب کے مریض ہیں ایک فریق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بے جا طرف داری کا ارتکاب کرتا ہے اور دوسرا حضرت عثمان کا حامی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دشمن ہے]۔ جمہور اہل اسلام ان دونوں فرقوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں ۔

روافض کا قول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، قتل عثمان رضی اللہ عنہ بلکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے قتل کو مباح سمجھتے اور ان کو قتل کرنے والے کی تائید و نصرت کو اجر و ثواب کا موجب قرار دیتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو وہ یہ بات کیوں کر کہہ سکتا ہے کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کیا گناہ ہے ؟ البتہ اہل سنت کے قول کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منزہ قرار دے سکتے ہیں یہ امر اس بات کا آئینہ دار ہے کہ روافض کے یہاں کس قدر تناقض پایا جاتا ہے۔

[انبیاء کرام علیہم السلام کی ازواج پر رافضی الزام]:

[نواں اعتراض]: شیعہ مصنف کا قول کہ ’’طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی اعانت و رفاقت کیوں کر جائز ہوئی؟‘‘ بروز قیامت یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بیوی کے ساتھ بات چیت کرے۔ اور سفر میں اسے اپنے ہم راہ لے جائے، تو اس عورت کا خاوند اس کا انتہائی دشمن بن جائے گا۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب ]: ہم کہتے ہیں کہ: یہ شیعہ کے جہل و تناقض کا بین ثبوت ہے۔اس لیے کہ یہ لوگ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بڑے بڑے الزام لگاتے ہیں ۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر فحاشی کا الزام لگاتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بری قرار دیا ہے ۔اور اس بارے میں قرآن نازل ہواہے[جو قیامت تک پڑھا جائے گا ]۔ 

ان کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ اس قسم کا دعوی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی ازواج کے متعلق کرتے ہیں ۔ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی ایک غلط کارعورت تھی۔اور جس بیٹے کو نوح علیہ السلام نے کشتی میں سوار ہونے کے لیے بلایا تھا ؛ وہ آپ کا بیٹا نہیں تھا ‘ بلکہ اس بیوی کا تھا[معاذ اللہ ]۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ﴿اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ﴾ [ہود ۳۶]’’ اس کے اعمال اچھے نہیں تھے ۔‘‘ سے مراد یہ ہے کہ : یہ بیٹا غلط کام کا نتیجہ ہے۔اور ان میں سے بعض پڑھتے ہیں : 

﴿ وَ نَادٰی نُوْحُ نِ ابْنَہٗ ﴾ [ہود۳۲]’’نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو آواز دی ۔‘‘ 

اور نوح علیہ السلام نے کہا: ﴿ یّٰبُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا ﴾’’ اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہو جا۔‘‘

اور یہ بھی عرض کی : ﴿ إِنَّ ابنِی مِنْ أَہلِی﴾’’بیشک میرا بیٹا میرے اہل خانہ میں سے تھا۔‘‘

اللہ اور اس کا رسول کہتے ہیں : وہ آپ کا بیٹا تھا ‘یہ جھوٹے افتراء پرداز اور انبیائے کرام علیہم السلام کو اذیت دینے والے کہتے ہیں : وہ آپ کا بیٹا نہیں تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’ وہ آپ کا بیٹا نہیں ہے؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَ﴾ ’’ وہ آپ کے اہل خانہ میں سے نہیں ۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ قُلْنَا احْمِلْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَہْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ ﴾ [ہود۳۰]

’’ہم نے کہا کہ کشتی میں ہر جاندارمیں سے دو(جانور، ایک نر اور ایک مادہ)سوار کرلے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی؛ اور سب ایمان والوں کو بھی ۔‘‘

یعنی ان کو اپنے ساتھ سوار کر جو ایمان لائے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اہل خانہ کو سوار کرنے کا حکم نہیں دیاتھا۔ بلکہ ان لوگوں کو اس حکم میں سے مستثنی قرار دیا تھا جن کے بارے میں پہلے فیصلہ ہوچکا[یعنی جو ایمان نہیں لائے تھے ‘ اور ان کے غرق ہونے کا فیصلہ ہوچکا تھا] اور آپ کا بیٹا بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کے بارے میں پہلے فیصلہ ہوچکا تھا۔نوح علیہ السلام کو اس بات کا علم نہیں تھا ۔ اسی لیے آپ نے یہ کہا :

﴿ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ﴾ [ہود۳۵] ’’اے میرے رب !بیشک میرا بیٹا میرے اہل خانہ میں سے تھا ۔‘‘ 

آپ کا یہ خیال تھا کہ شاید بیٹا ان لوگوں میں سے ہوگا جن کی نجات کاوعدہ کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے بہت سارے علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ : ’’ آپ کے اہل خانہ میں سے نہیں ‘‘ اس کی تفسیر یہ ہے کہ : ’’ آپ کے ان اہل خانہ میں سے نہیں جن کو بچانے کا آپ کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے ۔‘‘ اگرچہ وہ نسب کے اعتبار سے آپ کے اہل میں سے ہی تھا؛ مگر دینی اعتبار سے ان میں سے نہیں تھا۔ کفر کی وجہ سے مؤمنین او رکفار کے درمیان موالات ختم ہوجاتی ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں : ابو لہب آل محمد اور اہل بیت میں سے نہیں ہے۔اگر چہ وہ نسب کے اعتبار سے آپ کے قریب ترین رشتہ داروں میں سے تھا۔ پس جب ہم درود پڑھتے ہیں : ’’اللہم صل علی محمد و علی آل محمد۔‘‘ ’’اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر درود بھیج ‘‘ تو ابو لہب اس میں داخل نہیں ہوتا ۔ 

نوح علیہ السلام کی بیوی کی ان کے ساتھ خیانت دین میں تھی۔ اس لیے کہ آپ کی بیوی بھی آپ کو پاگل کہتی تھی ۔ایسے ہی لوط علیہ السلام کی بیوی کی خیانت بھی ان کے دین میں خیانت تھی۔اس نے آپ کے مہمانوں کے بارے میں اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کیا تھااورقوم کے لوگ لونڈے باز تھے۔ وہ عورتوں کے ساتھ زنا کی بیماری میں گرفتار نہیں تھے جو کہا جائے کہ اس نے کوئی فحاشی کی ہوگی۔ بلکہ وہ گناہ کے کاموں میں ان کی مدد کرتی تھی؛ اور ان کے ان برے اعمال پر راضی رہتی تھی۔

رافضیوں کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کے انساب کی آباء و ابناء کے لحاظ سے تعظیم کرتے ہیں اور ان کی ازواج پر فحاشی کا الزام لگاتے ہیں ۔یہ سب خواہشات نفس کی پیروی اور عصبیت کی وجہ سے ہے ۔ اس طرح وہ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی تعظیم کی راہ نکالنا چاہتے ہیں ؛ اور اس کے ساتھ ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ۔ام المؤمنین ۔ پر فحاشی کا الزام لگاتے ہیں ۔ساتھ یہ بھی کہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں ۔: ابراہیم علیہ السلام کا والد آزر مؤمن تھا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین بھی اہل ایمان تھے۔تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ نبی کا والد کافر تھا ؛ اگر باپ کافر ہوگا تو پھر بیٹے کا کافر ہونا بھی ممکن ہے ۔ توخالی نسب سے توکوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس سے ثابت ہوسکتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کافر تھا ۔ نبی کا بیٹا کافر ہو [شیعہ مذہب کے مطابق] ایسا نہیں ہوسکتا ؛[ اسی لیے وہ اسے آپ کا بیٹا ہی نہیں مانتے ]۔ ایسے ہی شیعہ کہتے ہیں : جناب ابو طالب مؤمن تھا۔ان میں سے بعض کہتے ہیں : اس کا نام عمران تھا۔جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے :

﴿اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ ابرہیم وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ﴾ [آل عمران۳۳]

’’بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کے لوگوں میں سے آدم علیہ السلام کو اور نوح علیہ السلام کو، ابراہیم علیہ السلام کے خاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرمایا ۔‘‘

[اپنے مطلب کی بات نکالنے کے لیے ] ان لوگوں کی یہ کارستانیاں ہیں ؛ حالانکہ اس میں جو جھوٹ ‘ افتراء ؛ بہتان اور حصول مقصود میں جو تناقض ہے ‘ وہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے؛ جو کسی پر مخفی نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی انسان کے باپ یا بیٹے کے کافر ہونے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس انسان میں کوئی نقص یا کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ اللہ کی مشیت ہے وہ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالتاہے۔

اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے والدین سے افضل تھے۔ ان کے باپ دادا کافرتھے۔ بخلاف اس کے کہ کوئی کسی فاحشہ کا شوہر ہو۔ اس لیے کہ یہ کسی انسان کی مذمت اور عیب جو ئی کے لیے سب سے بڑا طعنہ ہے۔ اس کی مضرت انسان کو لاحق ہوتی ہے ؛ اس کے برعکس باپ یا بیٹے کے کافر ہونے سے کوئی ایسا فرق نہیں پڑتا ۔

مزید برآں اگر ایسے ہی ہوتا کہ مؤمن والدین سے ہمیشہ مؤمن اولاد ہی پیدا ہوگی؛ تو پھر اس کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تمام اولاد اہل ایمان ہوتی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں :

﴿وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ [المائدۃ ۲۷]

’’آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دوان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی توکہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا؛ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ تقوی والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔‘‘یہ مکمل قصہ ہے ۔

صحیحین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ کوئی بھی انسان ظلم کی وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا مگر ابن آدم پر اس کے خون کے برابر گناہ ہوگا؛ اس لیے کہ اس نے سب سے پہلے قتل کرنے کی رسم کی طرح ڈالی۔‘‘

مزید برآں شیعہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر قدح کرتے ہیں ؛ حالانکہ ان کا ایمان لانا تواتر کے ساتھ ثابت ہے ۔ جب کہ اس کے برعکس ابوطالب کی مدح و تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں ؛ جس کی موت باتفاق اہل علم کفر کی حالت پر ہوئی ہے۔ جیساکہ صحیح احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں ۔صحیحین میں حضرت مسیب بن حزن رحمہ اللہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں :

’’جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے (اس وقت)ابوطالب کے پاس ابوجہل بھی تھا۔ تو آپ نے ان سے فرمایا: اے میرے چچا صرف ایک کلمہ’’ لاإ ِلہ إِلا اللّٰہ‘‘ کہہ دیجئے تو میں اللہ کے ہاں اس کی وجہ سے(آپ کی بخشش کے لئے) سفارش کرنے کا مستحق ہو جاؤں گا۔ تو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا:’’ اے ابوطالب! تم عبدالمطلب کے دین سے پھرے جاتے ہو؟ پس یہ دونوں برابر ان سے یہی کہتے رہے حتی کہ ابوطالب نے ان سے جو آخری بات کہی وہ یہ تھی کہ: (میں )عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں ۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ میں اس کے لئے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا جب تک مجھے روکا نہ جائے تو یہ آیت نازل ہوئی:

﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ﴾ [التوبۃ۱۱۳]

’’ نبی اور ایمان والوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں اگرچہ وہ ان کے قرابتدار ہوں جب کہ انہیں یہ ظاہر ہو چکا کہ وہ دوزخی ہیں۔‘‘ [صحیح بخاری:ج ۲:ح۱۰۸۶]

اور یہ آیت نازل ہوئی کہ:

﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ﴾ [القصص۵۶]

’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے ؛ مگر اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے ۔‘‘

صحیح مسلم کی روایت میں ہے : ابوطالب نے کہا :قریش مجھے بدنام کریں گے اور کہیں گے کہ ابوطالب نے ڈر کے مارے ایسا کیا ۔اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں کلمہ پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی:

﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ﴾ [القصص۵۶]

’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے ؛ مگر اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے ۔‘‘[رواہ البخاري ۲؍۷۹۔کتاب الجنائز ؛ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعذب المیت ببعض بکاء أہلہ علیہ ؛ کتاب الانبیاء وباب قول اللہ تعالیٰ و إذ قال ربک للملائکۃ إني جاعل في الأرض خلیفۃ ؛مسلم ۳؍۱۳۰۴۔کتاب القسامۃ ؛ باب بیان إثم من سنَّ القتل؛ سنن الترمذي ۴ ؍۱۴۸۔]

صحیحین میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا:

’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے تھے؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے ؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لوگوں پر غصے ہوتے تھے تو کیا ان باتوں کی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے انہیں آگ کی شدت میں پایا توانہیں نکال کر ہلکی آگ میں لے آیا۔‘‘ [صحیح مسلم:ح۱۳۸ ؛ ۱؍ ۵۵ ؛ کتاب الایمان ؛ باب الدلیل علی صحۃ إسلام من حضرہ الموت ؛ سنن الترمذي ۵؍۲۱ ؛ کتاب التفسیر ؛ باب تفسیر سورۃ القصص۔]

حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آپ کے چچا ابوطالب کا تذکرہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’یقیناًبروزِ قیامت میری شفاعت سے ابوطالب کو فائدہ پہنچے کہ دوزخ کے اوپر والے حصے میں لایا جائے گا کہ جہاں آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس کی شدت سے اس کا دماغ کھولتا رہے گا۔‘‘[صحیح مسلم:ح۵۱۳؛ البخاری ۵؍۵۱ : کتاب مناقب الأنصار ؛ باب قصۃ ابي طالب ؛ صحیح مسلم:۱؍ ۱۹۵ ؛ ح۵۱۱ ؛ کتاب الإیمان ؛ باب شفاعۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لابی طالب؛ مسند ۳؍۹۔]

مزید برآں صرف نسب پر اللہ تعالیٰ نے کسی کی کوئی تعریف نہیں کی۔بلکہ اللہ تعالیٰ ایمان اور تقوی کی بنیاد پر تعریف کرتے ہیں ؛ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ﴿إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ ﴾ [الحجرات ۱۳]

’’بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘

اصول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

’’تم لوگوں کو معدنیات جیسا پا ؤگے جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ بہترین تھے زمانہ اسلام میں بھی وہ لوگ بہترین ہوں گے جبکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں ۔‘‘[البخاری ۴؍ ۱۴۰ ؛ کتاب الانبیاء ؛ باب قولہ تعالیٰ: واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا ؛ صحیح مسلم:ح۱۹۵۵؛ ۴؍ ۲۰۳۱ ؛ کتاب البر والصلۃ۔]

یہ بات صحیح حدیث سے ثابت شدہ ہے۔ معادن حصول مطلوب کی چیز ہوتی ہیں ۔ اگر ان سے مطلوب حاصل نہ ہو تو وہ معدنیات ناقص ہوتی ہیں ؛ ورنہ حاصل مطلوب اس سے بہتر ہونا چاہیے۔

مزید برآں شیعہ کے تناقض کی انتہاء یہ ہے کہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو ہدف ملامت بنانے کے لیے وہ اس موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مدح و توصیف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ۔ مگر اتنا نہیں سوچتے کہ ان کے اعتراض کی اصل آماج گاہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بے حد اکرام و احترام کرتے تھے۔آپ کے موافقین اور آپ کے حکم کی تعمیل کرنے والے تھے۔ اور ان کے یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کسی غلط کاری کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگرشیعہ مصنف طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے‘‘ ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بیوی کے ساتھ بات چیت کرے۔ اور سفر میں اسے اپنے ہم راہ لے جائے....‘‘ حالانکہ یہ دونوں حضرات آپ کو ایک ملکہ کی طرح لے کر گئے تھے جس کی بات مانی جاتی ہے اور حکم پر تعمیل کی جاتی ہے۔ان کو گھر سے نکالنے میں کسی برائی کا گمان تک نہیں کیا جاسکتا۔

تو ایک ناصبی (حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مخالف) یہ کہنے کا مجاز ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ د کھائیں گے جب کہ وہ آپ کی بیوی(سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور آپ کو اس حد تک تکلیف پہنچائی کہ ان کے اعوان و انصار نے اس اونٹ کی کونچیں کاٹ ڈالیں جس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں ۔ نتیجتاً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا محمل سے گر پڑیں ۔ اور ان کے اعداء ایک قیدی عورت کی طرح آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تذلیل ہے ۔جس میں کسی انسان کی اس کے اہل خانہ میں ہتک عزت ہے ؛ اور پھر انہیں قیدی بنانے کی کوشش کرنا ‘ اور اجنبی لوگوں کو ان پر مسلط کرنا‘ انہیں ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرنا فقط گھر سے نکالنے سے زیادہ گناہ کا کام ہے ۔ جب کہ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما مدینہ سے ایک باعزت ملکہ کی طرح بحفاظت تمام آپ کو لائے، کسی کو آپ کے پاس پھٹکنے کی اجازت نہ تھی۔نہ ہی کوئی آپ کے پردہ کی ہتک کرسکتا تھا او رنہ ہی کوئی آپ کی چادر کی طرف دیکھ سکتا تھا۔

نیز طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما اور دوسرے اجنبی آپ کو نہ اٹھاتے تھے۔ فوج میں بہت سے لوگ آپ کے محرم تھے۔ مثلاً عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے بھانجے تھے اور ان کی خلوت آپ کے ساتھ اور آپ کو چھونا کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ اسی طرح شرعاً محرم کے ساتھ سفر کرنے کی بھی اجازت ہے۔جہاں تک اس لشکر کا تعلق ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے برخلاف برسر پیکار تھا ؛اگر اس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھائی محمد بن ابی بکر....جس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب دست تعدّی دراز کیا تھا....نہ ہوتا تو اجنبی لوگ آپ پر زیادتی کرنے سے نہ چوکتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دست درازی کرنے والے کے بارے میں دریافت فرمایا:’’ یہ کس کا ہاتھ ہے اللہ اسے آگ میں جلائے؟‘‘ محمد بن ابی بکر نے کہا:’’ ہمشیرہ! کیا آخرت سے پہلے دنیا میں جلائے؟‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ ہاں دنیا میں آخرت سے پہلے‘‘ چنانچہ محمد بن ابوبکر کو مصر میں جلا دیا گیا تھا۔

اگر ناصبی نقاد شیعہ کو مخاطب کرکے کہے: جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ قتل کیے گئے تھے توتمہارے قول کے مطابق آل حسین رضی اللہ عنہ کو قیدی بنا لیاگیا تھا۔ حالانکہ ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو سلوک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روا رکھا گیا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو واپس مدینہ بھیج دیا گیا اور حسب ضرورت نان و نفقہ بھی دیا گیا تھا۔ اسی طرح قابوپا کر آل حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے گھروں میں پہنچا دیا گیا اور نان و نفقہ بھی دیا گیا تھا۔ اگر اس کا نام قیدی بنانا ہے اور یہ حرمت نبوی کے منافی ہے تو بے شک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی قیدی بنایا گیا اور حرمت رسول کو پیش خاطر نہیں رکھا گیا تھا۔‘‘

شیعہ اہل سنت پر زبان طعن دراز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ایک شامی نے فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ کو قیدی بنانا چاہا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے روکتے ہوئے کہا:’’ اللہ کی قسم! تم لوگ اسی صورت میں ایسا کر سکتے ہیں جب کہ تم اپنا دین چھوڑ کر پورے کافر ہو جاؤ۔‘‘

بفرض محال اگر ایسا ہوا بھی تھا تو جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بات کی اجازت طلب کرتے تھے کہ جنگ جمل و صفین میں جو لوگ ان کے حریف ہیں ان کو قیدی بنایا جائے اور ان کے مال کو مال غنیمت تصور کیا جائے وہ رفقائے عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت بڑے مجرم تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جن لوگوں کو قیدی بنانا پیش نظر تھا ان میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر خواتین بھی تھیں ۔ علاوہ ازیں جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ مطالبہ کر رہے تھے وہ دینی اعتبار سے اسے جائز سمجھتے اور اس پر اصرار کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے افکار و آراء سے متفق نہ ہوئے۔ تو انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور ان کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔اس کے برعکس جس شامی نے فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہا کو قیدی بنانا چاہا تھا وہ ایک محروم اقتدار غیر معروف آدمی تھا۔ نیز یہ کہ وہ شخص دینی حیثیت سے نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ جب حاکم با اختیار نے اس سے روکا تو وہ اس سے باز رہا۔

خلاصہ کلام! مسلمانوں کے خون ناموس و آبرو اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حلال قرار دینے والوں کی تعداد اموی فوج کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں زیادہ تھی۔ اس بات پر سب لوگوں کا اتفاق ہے۔ خوارج ہی کو دیکھئے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے الگ ہو گئے تھے۔ یہ عسکر معاویہ رضی اللہ عنہ کے شریر ترین لوگوں سے بھی شریر تر تھے ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف جنگ لڑنے کا حکم دیاتھا[البخاری ۵؍ ۵۱ ؛ کتاب مناقب الأنصار ؛ باب قصۃ ابي طالب ؛ صحیح مسلم:۱؍ ۱۹۵ ؛ ح۵۱۱ ؛ کتاب الإیمان ؛ باب شفاعۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لابی طالب۔] اور سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء کرام رحمہم اللہ نے ان کے خلاف صف آراء ہونے پر اجماع منعقد کر لیا تھا۔

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ روافض خوارج سے بھی زیادہ جھوٹے، ان سے بڑے ظالم اور کفر و نفاق اور جہالت میں بھی ان پر سبقت لے گئے ہیں ۔ علاوہ ازیں روافض خوارج کی نسبت عجز و ذلت میں بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ یہ دونوں فریق حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کی فوج سے وابستہ تھے۔ یہی لوگ تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کمزوری کا سبب قرارپائے اور آپ اپنے حریفوں کے مقابلہ سے عاجز رہے۔

ہمارا مقصد یہاں یہ بتانا ہے کہ شیعہ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو جن اعتراضات کا نشانہ بناتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ان سے بھی زیادہ اہم اعتراضات وارد ہوتے ہیں ۔ اگر شیعہ یہ جواب دیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مجتہد تھے؛ بنا بریں وہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کی نسبت اقرب الی الحق تھے۔

تو ہم کہیں گے: طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما بھی مجتہد تھے۔ اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما سے افضل تھے تاہم اگر عائشہ رضی اللہ عنہا کی امداد کیلئے ان کا مدینہ سے نکلنا گناہ کا کام تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اقدام اس سے بھی بڑا جرم ہے۔

اگر شیعہ کہیں کہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما چونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو لے کر لڑنے کے لیے آگئے تھے اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فعل کی ذمہ داری ان دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ تو اہل سنت اس کے جواب میں یہ مثال پیش کر سکتے ہیں کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کرایا ؛حالانکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ’’ اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘

یہ سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ کیا ہم نے عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کیا؟ ان کے قتل کے ذمہ دار تو وہ لوگ ہیں جو ان کو ہماری تلواروں کے نیچے لے آئے تھے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام(حدیث:۳۶۱۱)، صحیح مسلم۔ کتاب الزکاۃ۔ باب التحریض علی قتل الخوارج(حدیث:۱۰۶۶)۔]

اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ دلیل قابل تسلیم نہیں تو ان لوگوں کی دلیل و برہان بھی ناقابل قبول ہے جو کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی توہین و تذلیل کے ذمہ دار طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ اور اگر یہ دلیل قابل احتجاج ہے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے استدلال سے بھی انحراف کی گنجائش نہیں ۔

روافض دیگر ظالم و جاہل لوگوں کی طرح ہمیشہ اسی قسم کے دلائل کا سہارا لینے کے عادی ہیں جن سے ان کے اپنے اقوال کا فساد و تناقض ثابت ہوتا ہے۔ یہ دلائل ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے نظائر و امثال سے شیعہ کے خلاف احتجاج کیا جائے تو ان کے اقوال کا تانا بانا ٹوٹ کر رہ جاتا ہے ۔اور اگر ان کے نظائر ناقابل احتجاج ہوں تو اس سے ان کے دلائل کا بطلان لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ متماثلین کے مابین مساوات ضروری ہے، مگر اس کا کیا علاج کہ شیعہ کا منتہائے مقصود صرف خواہش نفس ہے جس کے لیے علم کی چنداں ضرورت نہیں ؛ اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت چھوڑ کر خواہش نفس کے پیچھے پڑ جائے۔اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ

(القصص:۵۰) 

’’اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ 

جمہور اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں ؛ معاویہ رضی اللہ عنہ کی تو بات ہی دور کی ہے۔اہل سنت کہتے ہیں : جب مسلمانوں کے مابین آپ کی خلافت کے دور میں اختلاف واقع ہوگیا تو ایک گروہ وہ تھا جو آپ سے برسر پیکار تھے؛ او ردوسرا گروہ آپ کے ساتھ مل کر قتال کررہا تھا ۔ ان دونوں گروہوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی حق پر تھے۔ جیسا کہ صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا تھا:

’’ جب مسلمانوں میں فرقہ بندی کا ظہور ہو گا تو ایک فریق خروج کرے گا۔ انہیں مسلمانوں کی دو جماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو اقرب الی الحق ہو گی۔‘‘ 

خروج کرنے والے خوارج تھے ۔جنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے قتل کیا۔ اس حدیث سے عیاں ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کی نسبت اقرب الی الحق تھی۔اہل سنت و الجماعت علم کی روشنی میں عدل و انصاف کے ساتھ بات کرتے ہیں ۔ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرتے ہیں ۔

[ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نصرت پر رافضی کا تعجب]:

[اشکال ]: شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے:’’ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آرا ہوئیں تو دس ہزار مسلمان آپ کی تائید و نصرت کے لیے تیار ہو گئے۔ اور جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنا حق طلب کرنے کے لیے گئیں تو کسی ایک شخص نے بھی آپ کے حق میں ایک لفظ تک نہ کہا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]:ہم کہتے ہیں : واضح رہے کہ یہ دلیل شیعہ کے حق میں مفید ہونے کے بجائے انکے سخت خلاف ہے [ اور ان پر ایک بڑی حجت ہے]۔ کوئی سلیم العقل آدمی اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں سمجھتا کہ مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے ؛ اسی لیے آپ کی بھی تعظیم کرتے تھے اور آپ کے قبیلہ اوربیٹی کی بھی تعظیم کرتے تھے ۔ آپ کے اقارب خصوصاً آپ کی دختر نیک اختر کا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سب سے زیادہ احترام کرتے تھے؛اگر آپ رسول نہ بھی ہوتے۔ توپھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘اور لوگوں کو اپنی جان و مال آل و اولاد سے بڑھ کر محبوب ہیں ۔ 

یہ امر بھی کسی بھی عاقل کے لیے شک و شبہ سے بالا ہے کہ عرب جاہلیت و اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ بنی عبد مناف کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنی تیم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنی عدی سے زیادہ مطیع فرمان تھے اور ان کی تعظیم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے تو ان کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔ تو اس نے کہا : بہت بڑا حادثہ پیش آگیا۔ آپ کے بعد کون خلیفہ بنا؟ لوگوں نے کہا : ابو بکر رضی اللہ عنہ ۔تو ابو قحافہ نے پوچھا: کیا بنو مخزوم اور بنو عبد شمس رضا مند ہیں ؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں ! ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے کہا:’’یہ خاص عنایت ایزدی ہے۔‘‘ [طبقات ابن سعد(۳؍۱۸۳)]

یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت ہوئی تو ابوسفیان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے اور کہا: ’’ تمھیں یہ بات پسند ہے کہ خلا فت بنو تیم میں ہو؟‘‘

تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا: ’’ ابوسفیان! اسلام کا معاملہ جاہلیت سے مختلف ہے ۔‘‘

[سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مظلوم نہ تھیں ]:

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی ایک بھی مسلمان نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مظلوم نہیں سمجھا ۔ اور نہ ہی کسی نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ کہا کہ: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ان کے پاس کوئی حق ہے ‘اور نہ ہی ان دونوں حضرات کو ظالم تصور کیا تھا۔کسی مسلمان نے اس بابت ایک لفظ تک زبان پر نہیں لایا۔ بفرض محال اگر مسلمان سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی امداد سے قاصر تھے تو آخر بات کرنے میں کیا حرج تھا؟ تو یہ اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ لوگ جانتے تھے کہ آپ پر ظلم نہیں ڈھایا گیا تھا۔اس لیے کہ اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ آپ مظلوم ہیں تو آپ کی نصرت کاترک کرنا دو میں سے کسی ایک سبب کے بنا پر ہوتا:

۱۔ یا تو لوگ آپ کی نصرت سے عاجز آگئے ہوتے۔

۲۔ یا پھر سستی کی وجہ سے آپ کا حق ضائع کردیا گیا ہوتا ۔

۳۔ یا پھر بغض کی وجہ سے لوگوں نے ایسا نہیں کیا ہوگا ؟ [یہ سب فرضی احتمالات ہیں ]۔

اس لیے کہ انسان اگر کوئی کام نہ بھی کرسکتا ہو ؛ پھر بھی جب پختہ ارادہ کرلیتا ہے تو اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ اور جب ایسا نہیں کرنا چاہتا ؛ حالانکہ اس چیز کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ کام کیا جائے ؛ تو پھر اس کا سبب یاتو اس کام [کی اہمیت ] سے جہالت ہے یا پھر کوئی ایسی رکاوٹ موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا ارادہ پورانہیں کرسکتا۔ اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے شرف ‘ اپنے قبیلہ اور والد محترم کے شرف و احترام کے باوجود مظلوم ہوتیں ؛ حالانکہ آپ کے والد محترم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی مخلوق میں سب سے افضل ترین انسان اور امت کو سب سے بڑھ کر محبوب ہستی ہیں ۔ اور لوگوں کو یہ علم ہو کہ آپ مظلوم ہیں ؛ اورپھر بھی لوگ آپ کی نصرت سے رُکے رہیں ؛ تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یا تو لوگ آپ کی نصرت کرنے سے عاجز آگئے ہوں ؛ یا پھر آپ کے ساتھ بغض کی وجہ سے آپ کی نصرت کا ارادہ ترک کردیا ہو۔ یہ دونوں باتیں [فقط احتمال اور] باطل ہیں ۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سارے کے سارے عاجز بھی نہیں آگئے تھے کہ آپ کی نصرت میں ایک کلمہ تک اپنی زبانوں پر نہ لاسکیں ۔ بلکہ وہ کسی بھی بڑی سے بڑی برائی کو روکنے پر قادر تھے۔

اس پر مزید یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس ضمن میں کسی کی گفتگو پر کان دھرنے سے منکر نہ تھے۔ وہ طبعاً جابر بھی نہ تھے۔ نظر بریں یہ کسی طرح تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ الفت و مودّت کے اسباب کی موجودگی میں سب مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر نیک اختر رضی اللہ عنہا کے دشمن بن گئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی یہی حال ہے۔ یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دورِ جاہلیت و اسلام میں جمہور قریش و انصار کو خصوصاً اور اہل عرب کو عموماً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی شکایت نہ تھی اور نہ ہی آپ نے اپنے اقارب میں سے کوئی قتل کیا۔ جن لوگوں کوحضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ان کا تعلق کسی بڑے قبیلہ سے نہیں تھا۔ صحابہ میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جس نے اپنے کسی قریبی کو قتل نہ کیا ہو۔

البتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بدو کفار عرب کے حق میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت بڑے سخت تھے۔ یوں بھی آپ کی شدت و حدّت ضرب المثل کی حد تک معروف تھی۔ مگر بایں ہمہ آپ خلیفہ منتخب ہوئے اور اس قدر مقبول ہوئے کہ جب شہید ہوئے تو کوئی شخص آپ سے ناراض نہ تھا؛بلکہ تمام لوگ اچھے الفاظ میں آپ کی تعریف کرتے تھے اور آپ کے لیے دست بہ دعا تھے۔ سب لوگوں کو آپ کی شہادت کا صدمہ ہوا۔ اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ کے دعوے من گھڑت اور بے بنیاد ہیں ۔ نیز یہ کہ مسلمان سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو قطعی طور پر مظلوم تصور نہیں کرتے تھے۔پھر یہ بات کس قدر حیرت آفریں ہے کہ مسلمان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینے کے لیے تو اپنی جانیں تک قربان کردیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا کوئی یار و مدد گار نہ ہو۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ صفین میں بنو عبد مناف کی مخالفت کے باوجود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نصرت و اعانت کے لیے گردنیں تک کٹوا دیں ؛مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے بعد ان کو منصب خلافت سے الگ کرنے کے لیے کوئی مسلمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دے ۔حالانکہ بنو عبد مناف ان کے ساتھ تھے۔ مثلاً عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ، بنی ہاشم میں سب سے بڑے تھے اور ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ بنو امیہ میں سب سے بڑے تھے۔ اور یہ دونوں اکابر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے نازک مرحلہ پر ابتداء ہی میں لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آرائی کیوں نہ کی ؟ حالانکہ صدیقی خلافت کا ابھی آغاز تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصرت و حمایت کے لیے لڑنا اولیٰ و افضل تھا؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ولایت کا حاصل ہونا آسان بھی تھا۔ تاریخ اسلام کے ایسے نازک موڑ پر اگر کچھ لوگ سامنے آکر یہ کہہ دیتے کہ علی رضی اللہ عنہ وصی ہیں ، لہٰذا ہم کسی اور کی بیعت کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔ نیز یہ کیوں کر ممکن ہے کہ بنو ہاشم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر بنو تیم کے ظالموں اور منافقوں کا ساتھ دیں ؟ ۔حالانکہ بنو ہاشم جاہلیت اور اسلام ہر دور میں بہترین لوگ رہے ہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو عوام الناس ان کی حمایت کے لیے کھڑے ہو جاتے خصوصاً جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ترغیب و تخویف کا کوئی سامان موجود نہ تھا۔

فرض کیجیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امداد کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور لوگوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ تو یہ لوگ کسی صورت میں بھی تعداد کے اعتبار سے ان لوگوں سے زیادہ نہیں ہو سکتے جو واقعہ جمل میں طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما اور واقعہ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اس کے باوصف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی۔ باوجود اس کے کہ یہ لوگ علم و دین کے اعتبار سے حضرات سابقین اولین سے بہت ہی فروتر تھے۔ان میں سابقین اولین کی بہت کم تعداد تھی۔ تو پھراگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت حق پر تھے اور ان کے مخالفین باطل پر تھے تو ان لوگوں سے انہوں نے قتال کیوں نہ کیا جو ان کی نسبت بہت زیادہ افضل تھے؟ حالانکہ اس وقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اولیاء و انصار کثرت کے ساتھ ساتھ شان و شوکت سے بہرہ ور تھے؛ اور علم و ایمان میں بھی عظمتوں کے حامل تھے۔اور آپ کے مخالفین ۔بالفرض اگر اس وقت کوئی مخالف تھا؛ تو وہ۔ عاجزی و کمزوری کا شکار تھے ؛ علم و ایمان میں بھی فروتر تھے۔ اور دشمنی میں بھی کم تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہونے میں کیا چیز مانع تھی؟ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہوتے تو ابوبکر و عمر اور سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم دنیا کے بدترین لوگوں میں سے ہوتے اور ان کا ظالم و جاہل ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہوتا۔ کیونکہ انہوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے فوراً بعد دین کو بدل دیا ‘ اور اس میں تحریف کردی ؛ آپ کے وصی پر ظلم کیا ۔ اور آپ کی نبوت کے ساتھ وہ حشر کیا جو یہود و نصاری حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے فوراً بعد نہ کرسکے۔ اس لیے کہ یہودیوں نے موسی علیہ السلام کی موت کے بعد وہ کچھ نہیں کیا جو رافضیوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے نبی کی موت کے بعد ایسے کیا۔ ان کے قول میں اگر واقعی سچائی ہوتی تو اس امت کاشمار بدترین اور شریر ترین امتوں میں ہوتا ۔ اور اس کے پہلے لوگ سب سے بڑے شریر ہوتے ۔ حالانکہ یہ بات ظاہر البطلان ہے۔اور اہل اسلام کے لیے اس عقیدہ و نظریہ کا فساد و خرابی معلوم شدہ چیز ہے۔

[شیعہ مذہب کی بنیاد]:

اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ شیعہ مذہب کا بانی ملحد و زندیق اور دین اسلام و اہل اسلام کا دشمن تھا۔ اور وہ تاویل کرنے والے مبتدعین مثلاً خوارج و قدریہ کی طرح نہ تھا۔ بعد کے دور میں اہل ایمان میں شیعہ کے اقوال اس لیے رائج ہو گئے کہ وہ جہالت کی بنا پر کھرے اور کھوٹے میں امتیاز قائم نہ کر سکے۔

یہ بڑا اہم سوال ہے کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کے تحت صحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ساتھ دیا؟ مگر جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنا حق طلب کرنے کے لیے آئیں تو کوئی بھی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف ان کی مدد کے لیے تیار نہ ہوا؟ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم دنیوی مال و متاع اور سیاسی اقتدار کے بھوکے تھے تو انھیں بنو ہاشم(حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کا ساتھ دینا چاہئے تھا جو عرب بھر میں ممتاز تھے۔ اسی بنا پر صفوان بن اُمیہ جمحی نے غزوہ حنین کے موقع پرجب لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے؛اور کسی نے کہا: ان کو اب سمندر ہی قبول کرے گا۔اور کوئی کہنے لگا : سارا جادو ٹوٹ گیا؛ [اس وقت صفوان نے] کہا تھا:

’ اللہ کی قسم! اگر کوئی قریشی مجھے اپنا غلام بنا لے تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ ثقیف کا کوئی آدمی میرا آقا ہو ۔‘‘ [سیرۃ ابن ہشام ۳؍۸۶]

جو لوگ فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، صفوان ان میں سرکردہ آدمی تھا وہ سابقہ مقولہ کی طرح یہ بات کہنے کا حق رکھتا تھا۔ اگر بنی عبد مناف کا کوئی شخص مجھے اپنا غلام بنا لے تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ بنی تیم کا کوئی آدمی میرا آقا ہو۔‘‘اگر اسی بنا پر کسی کو تقدیم حاصل ہوتی تو باتفاق العقلاء بنی ہاشم کو بنی تیم پر تقدیم و سبقت حاصل تھی۔[تو اس صورت میں ] اگر علی رضی اللہ عنہ کو آگے نہ کرتے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو خلیفہ بنالیتے۔ یہ سوال بھی بے جا نہیں کہ اگر صحابہ دنیوی اقتدار کے حریص تھے تو اس مقصد کے لیے عباس رضی اللہ عنہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت موزوں تر تھے، پھر ان کو خلیفہ کیوں نہ بنا لیا ؟

[فرض کر لیجیے کہ ] اگر یہ لوگ ہاشمی وصی پر ظلم کرنے پر تل ہی گئے تھے ؛ او رانہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لیے مقدم نہیں کیا وہ اس کو ناپسند کرتے تھے ؛ توپھر بھی جن سے مقصود خلافت حاصل ہوسکتا تھا دوسرے ہاشمی تھے؛ یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ ؛ انہیں مقدم کیا ہوتا ‘ اور خلیفہ بنایا ہوتا۔ آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت اس کام کے لیے زیادہ موزوں ہوسکتے تھے ؛ جو لوگوں کی ایسے مدد نہیں کرسکے جیسے عباس رضی اللہ عنہ کرتے۔اور انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر اس کڑوے حق پر بھی لگاتے ۔ اگر اس کڑوے حق کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نا پسند کیا جانا تھا ؛ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ ناپسندیدہ لگتا۔ اور اگر اس سے مقصود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس میٹھی اور شیرین دنیا کا حصول تھا ؛ تو اس کے مواقع حضرت علی اورحضرت عباس رضی اللہ عنہما سے بھی تھے۔ حضرت علی اورحضرت عباس رضی اللہ عنہما کو چھوڑ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا ؛ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ صحابہ نے حق پر عمل کیا تھا اور وہ حق و صداقت کا دامن کسی صورت میں چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔اور انہوں نے وہ کام کیا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کی رہنمائی کی تھی۔ اورصحابہ جانتے تھے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تقدیم پرراضی تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات کا واضح اور کھلا ہوا علم حاصل تھا۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی باتیں سنتے رہتے تھے[جن سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہوتی تھی]۔اس تجربہ ‘ مشاہدہ ‘اور سماع کی روشنی میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقدیم و فضیلت اورآپ کے واجب الاطاعت ہونے کا پتہ چل گیا تھا۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا :

’’ تم میں سے ایک شخص بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا نہیں جس کی خاطر گردنیں کٹوائی جائیں ۔‘‘ 

اس سے مقصود یہ تھا کہ تم پر ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر اورکھلی ہوئی ہے۔ اس میں کسی بحث اور غور و فکر کی ضرورت نہیں ۔ ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کی موجودگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاتھا :

’’ بلکہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سب سے بہتر ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب سے زیادہ آپ کو چاہتے تھے۔‘‘ 

تمام لوگوں نے اس کا اقرار کیا ؛ کسی ایک نے بھی انکار نہیں کیا اورنہ ہی کسی ایک نے اس بارے میں کوئی جھگڑا کیا ۔ حتی کہ انصار میں سے جو لوگ خلافت کے طلبگار تھے ؛ انہوں نے بھی اس دعوے کو رد نہیں کیا؛ نہ ہی کسی ایک نے یہ کہا کہ : نہیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب تھے ؛ یا کوئی دوسرا آپ کو زیادہ محبوب تھا ؛ اور وہ آپ سے افضل و بہتر ہے ۔

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ عادتاً یہ بات ممتنع ہے خصوصاً صحابہ کرام کی عادات کے اعتبارسے ؛جو کہ کمال ِدین اورمعرفت حق کی وجہ سے حق بات کہنے کے خوگر تھے؛ کہ ان میں سے کو ئی [باقی صحابہ پر]حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت جانتا ہو‘ اور پھر اس بارے میں گفتگو نہ کرے‘ بلکہ سارے کے سارے بغیر کسی خوف اور لالچ کے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تقدیم و فضیلت پر یک زبان تھے۔