Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....حضرت عائشہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے متعلق رافضی پر رد

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....حضرت عائشہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے متعلق رافضی پر رد 

[اعتراض] : شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین کہہ کر پکارتے ہیں جب کہ دیگر امہات المومنین کو اس لقب سے ملقب نہیں کرتے۔اور ایسے ہی آپ کے برادر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کوان کے شرف و منزلت اوراپنے باپ اور بہن سے قربت کے باوجود مؤمنین کا ماموں نہیں کہتے ؛جب کہ امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کو مؤمنین کا ماموں کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کی بہن ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہما بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج [مطہرات رضی اللہ عنہم ]میں سے ایک تھیں ۔ محمدبن ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بہن اور اس کا باپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن اور باپ کی نسبت بہت بڑے اورعظیم مرتبہ والے تھے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب] :’’شیعہ کا دعوی ہے کہ :’’[اہل سنت]حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین کہہ کر پکارتے ہیں جب کہ دیگر امہات المومنین کو اس لقب سے ملقب نہیں کرتے۔‘‘

ہم کہتے ہیں کہ: یہ کھلا ہوا بہتان ہے اور ہر کس و ناکس اس سے آگاہ ہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ شیعہ مصنف اور اس جیسے اس فرقہ کے دوسرے لوگ جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں ‘ یا پھر خواہشات پرستی میں تجاوز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں اندھی کردی ہیں کہ ان پر اس بات کا جھوٹ ہونا بھی مخفی رہ گیا ۔وہ نواصب پر رد کرتے ہیں کہ:جب ان سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا تھا : کیا تم جانتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر کاجگر گوشہ ہوں ؟ تو وہ کہنے لگے: ’’ اللہ کی قسم ! ہم نہیں جانتے ۔‘‘ ایسی بات وہی منکر کہا سکتا ہے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نسب کا انکار کرتا ہو۔ اور جان بوجھ کر جھوٹ گھڑتا اور افتراء پردازی کرتا ہو؛ اور اللہ تعالیٰ نے اتباع ہوا کی وجہ سے اس کی آنکھیں اندھی کردی ہوں ۔یہاں تک کہ اس پر ایسا واضح حق بھی پوشیدہ رہ جائے۔بیشک خواہش پرستی کی آنکھ ہمیشہ کے لیے اندھی ہی ہوتی ہے۔رافضہ حق کے انکار میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں ؛ اور جان بوجھ کر اندھے بنے رہتے ہیں ۔ فرقہ نصیریہ کہتا ہے کہ حسن و حسین حضرت علی رضی اللہ عنہم کے بیٹے نہ تھے۔ بلکہ ان کے والد سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تھے۔اور ان میں سے بعض ایسے ہی جو کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فوت نہیں ہوئے ۔ اور ایسا ہی دعوی بعض دوسرے لوگوں کے متعلق بھی کیا گیا ہے۔

بعض شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون نہیں ۔ نیز یہ کہ حضرت رقیہ و ام کلثوم رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں ، بلکہ کسی دوسرے خاوند سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بیٹیاں ہیں ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب رجم الحبلی فی الزنا اذا احصنت (ح: ۶۸۳۰) مطولاً۔  صحیح بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’لو کنت متخذا خلیلاً‘‘ (ح:۳۶۶۸) مطولاً۔]

اس کے علاوہ بھی انکار حق میں ان کی داستانیں سبھی جانتے ہیں جو ان نواصب کی داستانوں سے بڑھ کر ہیں جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آج کے شیعہ ان ناصبی مردودو ں سے بڑے جھوٹے ‘ بڑے ظالم اور بڑ ے جاہل ہیں ؛جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔

کسی شخص سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ ازواج النبی میں سے ہر ایک کو آیت قرآنی کے اتباع میں ام المومنین کہہ کر پکارا جاتا تھا۔عائشہ ؛ حفصہ ؛ زینب بنت جحش؛ ام سلمہ ؛ سودۃ بنت زمعہ ؛ میمونہ بنت الحارث الہلالیہ ؛ جویریہ بنت الحارث المصطلقیہ ؛ صفیہ بن حیي بن اخطب الہارونیہ ؛ رضی اللہ عنہم ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَ اَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھٰتُہُمْ ﴾ [الأحزاب ۶]

’’پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ۔‘‘

تمام علماء اس بات کو جانتے ہیں ‘ (کسی پر بھی یہ چیز پوشیدہ نہیں )۔اور تمام علماء کرام رحمہم اللہ کا اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان ازواج مطہرات کا نکاح کسی دوسرے انسان سے حرام ہے۔ اور ان کا احترام تمام لوگوں پر واجب ہے۔ پس آپ نکاح کی حرمت اور عزت و احترام کے لحاظ سے مائیں ہیں ۔ محرم ہونے کے لحاظ سے مائیں نہیں ۔ ان کے اقارب [محرم ] کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے ان کے ساتھ خلوت میں بیٹھنا یا چلنا جائز نہیں تھا۔اورنہ ہی ان کے ساتھ اکیلے میں سفر کیا جاسکتا تھا ۔ جیسے کوئی انسان اپنی محرم رشتہ داروں کے ساتھ سفر کرسکتا ہے ۔ اسی لیے انہیں پردہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلِّ اَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ﴾ [الأحزاب۵۹]

’’اے نبی!اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں ۔اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِہِنَّ وَ مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ لَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمًا﴾ [الأحزاب۵۳]

’’جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو تمہارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی یہی ہے ؛اور تمہیں جائزنہیں ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘

ازواج مطہرات عزت و احترام کے لحاظ سے ماں کی منزلت پر ہیں ۔اسی وجہ سے علماء رحمہم اللہ کے یہاں یہ امر متنازع فیہ ہے کہ آیا ازواج النبی کے بھائیوں کو ’’ ماموں ‘‘ کہا جائے یا نہیں ؟ بعض نے اسے جائز ٹھہرایا ہے۔

کچھ لوگوں نے کہا ہے : انہیں ماموں کہا جائے گا ۔اس قول کے مطابق یہ حکم صرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص نہیں ؛ اس صورت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد اور عبد الرحمن ؛ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے : عبد اللہ ؛ عبیداللہ ؛ اور عاصم ان میں شامل ہوں گے۔ ان میں عمرو بن الحارث بن ابو ضرار حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے بھائی؛ اور عتبہ بن ابو سفیان اور یزید بن ابو سفیان اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم دونوں بھائی بھی شامل ہوں گے۔

بعض علماء اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے بھائیوں کو ماموں نہیں کہا جاسکتا۔اس لیے کہ اگر انہیں ماموں کہا جائے تو پھر لازم ہوگا کہ ان کی بہنیں خالائیں ٹھہریں گی۔ اگر یہ لوگ ماموں اور خالائیں بن جائیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ خالہ کا نکاح بھانجے سے نہیں ہوسکے گا۔ اور ماموں کا نکاح بھانجی سے حرام ہوگا۔

یہ بات نص اور اجماع سے ثابت ہے کہ مومن مردوں اور عورتوں کے لیے جائز ہے کہ وہ ازواج مطہرات کی بہنوں اور بھائیوں سے نکاح کریں ۔جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین میمونہ بنت الحارث کی بہن ام الفضل سے شادی کی تھی؛ اور ان سے حضرت عبد اللہ اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔عبد اللہ بن عمر ؛ عبید اللہ بن عمر ؛ اور عاصم بن عمر رضی اللہ عنہم نے بھی مؤمن عورتوں سے شادیاں کی تھیں ۔ایسے ہی معاویہ ؛ عبد الرحمن بن ابو بکر ‘ محمد بن ابو بکر ؛ [اور دوسرے افراد] رضی اللہ عنہم نے اہل ایمان عورتوں سے شادیاں کی تھیں ۔ اگر یہ حضرات ان خواتین کے ماموں ہوتے ؛ تو ماموں کے لیے ہر گز جائز نہ تھا وہ اپنی بھانجی سے نکاح کرے۔

ایسے ہی امہات المؤمنین کی ماؤں کو مؤمنین کی نانیاں اور ان کے باپوں کو نانا نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے کہ امہات المؤمنین کے حق میں نسب کے تمام احکام ثابت نہیں ہیں ۔بلکہ ان کی حرمت اور تحریم ثابت ہے۔ نسب کے احکام بہت سارے ہیں ۔ [اس کا یہی حال ہے ] جیسے دودھ پینے سے حرمت اور تحریم توثابت ہوتی ہے مگر اس سے نسب کے سارے احکام ثابت نہیں ہوتے ۔ اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے ۔

جن لوگوں نے ان میں سے کسی ایک کے لیے مؤمنین کے ماموں ہونے کا کہا ‘ اس نے ان باقی احکام میں کوئی تنازع نہیں کیا۔مگر ان کا مقصد یہ ثابت کرناتھا کہ ان حضرات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سسرالی رشتہ ہے ۔ان میں سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ زیادہ مشہور ہوگئے۔جیسے کاتبین وحی دوسرے لوگ بھی تھے‘ مگر آپ کو کاتب وحی مشہور کیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھنے والے دوسرے لوگ بھی تھے۔[ مگر فضل بن عباس رضی اللہ عنہما اس میں زیادہ مشہور ہیں ]

جولوگ ایسا کلام کرتے ہیں ‘ ان کامقصد یہ نہیں ہوتا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خصوصیات بیان کریں ؛ بلکہ وہ آپ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق بیان کرنا چاہتے ہیں [کیونکہ رافضی اس کے منکر ہیں ]۔جس طرح آپ کے باقی فضائل بیان کیے جاتے ہیں ‘ ان سے مقصود آپ کی خصوصیات بیان کرنا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ کل میں جھنڈاایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا ‘اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ [البخاری ۵؍۱۸؛ مسلم ۳؍۱۸۷۱] 

نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ مجھ سے محبت صرف وہی انسان رکھے گا جو مؤمن ہوگا اور مجھ سے بغض وہی رکھے گا جو منافق ہوگا۔‘‘[تقدم تخریجہ] 

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔بس اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔‘‘[البخاری ۵؍۱۹؛ مسلم ۳؍۱۸۷۱] 

یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیات نہیں ہیں ‘ بلکہ آپ کے فضائل و مناقب ہیں جن کی وجہ سے آپ کی فضیلت پہچانی جاتی ہے۔ یہ روایات اہل سنت کے ہاں مشہور ہیں تاکہ ان سے ان لوگوں پر رد کریں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قدح کرتے ہیں اور آپ کو ظالم اورکافر کہتے ہیں جیسے خوارج اورنواصب اور بعض دیگر لوگ۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر آئی ہے ‘ اورآپ کے ساتھ خانگی تعلق بھی ہے ۔ جب روافض نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تکفیر اور ان پر لعنت بھیجنے کی اجازت دے دی تو بعض اہل سنت نے آپ کو ’’ خال المومنین‘‘ کے لقب سے ملقب کیا۔تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا تعلق لوگوں کو یاد دلائیں ۔اور اس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے حقوق کا ان کے درجات کے حساب سے خیال رکھا جائے۔

اگر اس قدر کوئی انسان اجتہاد کرے اور خطاء کا ارتکاب کرجائے ؛ تو وہ یقیناً اس انسان سے بہت بہتر ہوگا جو ان کے ساتھ بغض کرنے میں اجتہاد کرے اور غلطی کا مرتکب ہو۔ اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ احسان کرنا اورمعاف کردینا برائی کرنے اور بدلہ لینے سے بہتر ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :

’’ شبہات کی وجہ سے حدود کو ختم کرو۔‘‘[ضعیف الجامع الصغیر ۱؍۱۱۷؛ للألباني۔] 

ایسے ہی وہ مجہول جو فقیر ہونے کا دعوی کرے ‘ اسے صدقہ دیا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آدمیوں کو دیا تھاجنہوں نے آپ سے سوال کیاتھا۔[ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نگاہ اٹھا کر ان کو دیکھا پھر نظر جھکالی]؛ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پایا کہ یہ دونوں آدمی تندرست جوان ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اگر تم چاہو تو میں تم کو صدقہ دے دوں گا لیکن صدقہ میں اس شخص کا کوئی حق نہیں جو غنی ہو یا صحت مند ہو اور کمانے کے لائق ہو۔‘‘

اس لیے کہ مال دار کو دینا فقیر کو محروم رکھنے سے بہتر ہے۔اور مجرم کو معاف کرنا بری انسان کو سزا دینے سے بہتر ہے۔ جب یہ لوگوں میں سے کسی ایک عام انسان کے بارے میں ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے۔ اگر کوئی مجتہد صحابہ کیساتھ احسان ؛ ان کے لیے بھلائی کی دعا؛ ان کی تعریف و ثناء اور ان کا دفاع کرتے ہوئے غلطی کا مرتکب ہوجائے تو وہ اس انسان سے[ لاکھ درجہ] بہتر ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع ‘ لعنت و ملامت کرنے میں غلطی کا مرتکب ہو۔

صحابہ کرام کے مابین جو جھگڑے ہوئے ؛ ان کی آخری حد یہ ہوسکتی ہے کہ وہ گناہ کا کام تھے۔گناہوں کی مغفرت کئی اسباب کی بنا پر ہوجاتی ہے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعد میں آنے والے باقی لوگوں سے بڑھ کر اس مغفرت کے حق دار ہیں ۔ آپ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پائیں گے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لغزشوں کو بڑا بنا کر لوگوں میں پیش کررہا ہو‘مگروہ خود اس سے بہت بڑی خامیوں اور کوتاہیوں میں مبتلا ہوتا ہے ۔ یہ سب سے بڑی جہالت اور بہت بڑا ظلم ہے۔

رافضی چھوٹے گناہوں اور لغزشوں کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبان ِ طعن دراز کرتے ہیں ؛ مگر ان کفار اور منافقین کے کبیرہ گناہوں سے چشم پوشی کرتے ہیں جن کی یہ لوگ مدد کرتے ہیں ۔جیسے یہودو نصاری؛ مشرکین؛ اسماعیلیہ ؛ نصیریہ وغیرہ۔ پس جو کوئی مسلمانوں کے ساتھ ان کے گناہوں پر تو تکرار کرے ؛ مگر کفار اور منافقین کے ساتھ ان کے کفر و نفاق پر بھی خاموش رہے ؛ بلکہ اکثروبیشتر اوقات ان کفار و منافقین کی مدح سرائی میں رطب اللسان رہے ‘ توظاہر ہے کہ ایسا انسان لوگوں میں سب سے بڑا جاہل اور ظالم ہے۔بھلے اس کی جہالت اور ظلم و ستم اسے درجہ کفر تک نہ بھی پہنچائیں ۔

شیعہ کے تناقض اور جہالت کا یہ عالم ہے کہ اس نے یہ تو کہا ہے کہ:معاویہ رضی اللہ عنہ کو لوگ اہل ایمان کا ماموں کہتے ہیں مگر محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ میں یاد نہیں کرتے ۔[ہم شیعہ مضمون نگار سے پوچھتے ہیں کہ]اس نے باقی ان لوگوں کا ذکر کیوں نہیں کیا جو اس وصف میں برابر کے شریک ہیں ۔ اس نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا [ جو معاویہ اور محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہما دونوں سے افضل تھے] اور ان جیسے دوسرے لوگوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟

ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اس وصف کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خصوصیات میں شمار نہیں کرتے۔جبکہ رافضی اس کے مقابلہ میں محمد بن ابو بکر کو خاص طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ اسے علم ودین [تقوی اور زہد ] میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ہوا بھی نہیں لگی۔ بلکہ وہ اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہما کے برابر بھی نہیں ہے۔ حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کو صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل ہے۔جبکہ محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ حجۃ الوداع والے سال ذوالحلیفہ کے مقام پرپیدا ہوا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ: حالت نفاس میں ہی غسل کریں اوراحرام کی نیت کر لیں ۔بعد میں آنے والے لوگوں کیلئے یہ عمل ایک سنت بن گیا۔

محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے صرف پچیس ذوالقعدہ سے لیکر ربیع الاول کے شروع تک کے ایام پائے ۔ یہ چارہ ماہ بھی نہیں بنتے۔جب آپ کے والد محترم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی عمر تین سال سے بھی کم تھی۔آپ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہونے کاشرف حاصل نہیں ۔اور نہ ہی باپ کی منزلت سے کوئی قربت حاصل ہے ۔ بس صرف اتنی ہی قربت تھی جو اس عمر کے کسی بھی بچے کو اپنے باپ سے ہوتی ہے ۔

محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص ہونے کی وجہ یہ تھی کہ محمد آپ کے پروردہ اور آپ کی بیوی کے بیٹے تھے ۔اس لیے کہ حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیوی اور محمد کی ماں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کر لیا تھا۔ عثمانی خلافت کے زمانہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر پر شرعی حد لگائی تھی؛جس کا محمد نے اپنے باپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی منزلت کی وجہ سے اپنے دل میں ملال محسوس کیا۔یہی وجہ تھی کہ جب اہل فتنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی تویہ بھی ان کیساتھ تھا۔بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوا اور ان کی داڑھی پکڑی۔توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تم نے بہت بڑی جگہ ہاتھ ڈالا ہے؛ تمہاراباپ اس داڑھی کو کبھی ہاتھ لگانے والا نہیں تھا۔کہا جاتا ہے : جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات کہے تو محمد واپس چلا گیا۔جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا وہ کوئی دوسرا آدمی تھا۔

پھر اس نے مختلف جنگوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ آپ کی جانب سے والی مصر قرار پایا۔ پھر لڑائی میں مارا گیا ۔شیعان عثمان نے اسے قتل کیا؛اور نعش گدھے کی کھال میں بند کرکے جلا دی گئی؛ اسے قتل کرنے والا معاویہ بن حدیج نامی شخص تھا۔[ اور اس طرح اسکے گناہوں کا کفارہ ہو گیا اور قتل اسکے حق میں بہتر ثابت ہوا]۔[الاصابہ ۳؍۳۱۱ ؛ الاعلام ۸؍۱۷۱ ؛ تاریخ الطبری ۵؍ ۱۰۳]

روافض کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوقتل کرنے والوں کی مدح و ستائش میں رطب اللسان رہتے ہیں ۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معاونین کی تعریف و توصیف میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں ۔ اسی عادت کے مطابق وہ محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں ۔ جس کی حد یہ ہے کہ وہ محمد کو ان کے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں افضل قرار دیتے ہیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل امت پر تو لعنت بھیجی جائے اور ان کے اس بیٹے کی مدح و ستائش میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جائیں جس کو صحبت نبوی حاصل ہے نہ کوئی سبقت اور فضیلت۔ اس سے تعظیم فی الانساب میں تناقض لازم آتا ہے۔ اگر کسی شخص کے والد کے کافر یا فاسق ہونے سے اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے آباء کے کافر ہونے کی بنا پر کچھ ضرر لاحق نہیں ہوگا۔ اور اگر ضرر پہنچتا ہے تو(العیاذ باللہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کفر و فسق سے یقیناً محمد بن ابی بکر کی ذات میں بھی قدح وارد ہوگی۔ شیعہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مداح ہیں ۔ ادھر جمہور اہل اسلام محمد کے بیٹے قاسم [قاسم بن محمد فقہائے سبعہ اور ان فضلاء میں سے تھے جو شریعت و سنت کی عمارت کے لیے ایک عظیم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ابو الزناد عبد اﷲ بن ذکوان جو امام مالک و لیث بن سعد رحمہ اللہ کے استاد تھے، فرماتے ہیں کہ:’’ میں نے قاسم سے بڑھ کر عالم حدیث نہیں دیکھا۔‘‘] اور اس کے پوتے عبد الرحمن بن قاسم کو اس سے افضل قرار دیتے ہیں ۔ شیعہ محمد کے بیٹے قاسم اور پوتے عبد الرحمن کو صرف اس لیے نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ شرارت پسند نہ تھے۔

[محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ کا مقام و مرتبہ ]

[اشکال ]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’محمد بن ابی بکر عظیم المرتبت تھا۔‘‘ 

[جواب]: اگر عظمت سے مراد عظمت نسب ہے؛ تو یہ بے کار ہے۔ اس لیے کہ شیعہ اس کے والد اور بہن کے بارے میں زبان طعن دراز کرتے ہیں ۔ اہل سنت کا معاملہ اس سے یک سر جداگانہ نوعیت کاہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں عظمت و فضیلت کا مدار و انحصار نسب پر نہیں ، بلکہ تقوی پر ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ﴾ (الحجرات:۱۳)

’’ تم میں سب سے زیادہ باعزت والااللہکے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘

اگر شیعہ مصنف کے نزدیک محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی عظمت شان اس کی سبقت اسلام اور ہجرت و نصرت کی رہین منت ہے۔ تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ محمد صحابہ میں شمار نہیں ہوتا۔وہ مہاجرین و انصار صحابہ کے کسی بھی گروہ میں شامل نہیں ۔

اور اگر رافضی قلم کار محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بہت بڑا دین دار تصور کرتا ہے تو وہ غلطی کا شکار ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ محمد علماء و فضلاء اور اپنے طبقہ کے صلحاء میں شمار نہیں ہوتا۔ اور اگر جاہ و منزلت اورریاست کی بنا پر رافضی مضمون نگار اسے عظیم قرار دیتا ہے تو اس فضیلت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں زیادہ صاحب جاہ و منزلت ؛اور صاحب ریاست تھے ۔اوراس سے بڑھ کر دین دار اور زیادہ حلیم و کریم تھے۔کیاحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہ فضیلت کم ہے کہ آپ حدیثیں روایت کرتے اور فقہی مسائل پر تنقید و تبصرہ فرمایا کرتے تھے۔ محدثین نے آپ کی روایات اپنی کتب میں درج کی ہیں ۔ بعض علماء نے آپ کے فیصلہ جات اور فتاوی جمع کیے ہیں ، اس کے عین برخلاف حدیث و فقہ کی قابل اعتماد کتب میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا ذکر تک نہیں پایا جاتا۔

[اشکال ]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ محمد بن ابی بکر کا باپ اور اسکی بہن معاویہ کے باپ اور اس کی بہن سے افضل تھے۔‘‘

[جواب ]: ہم کہتے ہیں : یہ دلیل سابقہ ذکر کردہ دونوں قاعدوں کی بنا پر باطل ہے۔ اس لیے کہ اہل سنت کے یہاں کسی شخص کی فضیلت کا معیار حسب و نسب نہیں ، بلکہ اس کی اپنی ذات ہے۔ نظر بریں محمد کے لیے یہ امر ذرہ بھر مفید نہیں کہ وہ حضرت ابوبکر و عائشہ رضی اللہ عنہما سے قریبی تعلق رکھتا ہے، دوسری طرف یہ نسبی فضیلت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں کچھ بھی قدح وارد نہیں کرتی۔ اہل سنت کے یہاں یہ معروف اصل ہے۔

٭ اس قاعدہ کو ایک مثال کے ذریعہ یوں واضح کر سکتے ہیں کہ حضرت بلال و صُہیب و خباب رضی اللہ عنہم اور ان کے نظائر و امثال وہ لوگ ہیں جو سابقین اوّلین صحابہ میں شامل ہیں اور فتح مکہ سے قبل انفاق و جہاد کے ذریعے عظیم انسانی واسلامی خدمات انجام دے چکے تھے۔دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو فتح مکہ کے بعد مشرف باسلام ہوئے۔ مثلاً ابوسفیان بن حرب اور آپ کے دونوں بیٹے معاویہ و یزید رضی اللہ عنہم ۔ نیز ابو سفیان بن حارث؛ ربیعہ بن حارث اورعقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہم ۔ یہ حسب و نسب کے اعتبار سے پہلے لوگوں کے مقابلہ میں افضل ہیں ؛یہ لوگ قریش کے بنو عبد المطلب کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔جب کہ وہ شرافت نسبی سے بہرہ ور نہیں ۔ مگر ان کی فضیلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے ؛ جس کی وجہ فتح سے قبل اسلام لانا ؛ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور اس کی راہ میں جہاد کرناہے ۔اس لیے جو فضیلت ان لوگوں کے حصہ میں آئی؛ وہ دوسرے اس میں شریک نہیں ہیں جو بعد میں ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کے شرف سے باریاب ہوئے۔[ اگر فضیلت و شرافت کا مدار حسب و نسب پر ہوتا تو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے یہ قریش سب سے زیادہ افضل و اکرم ہوتے]۔

اگر روافض حسب و نسب کو فضیلت کا معیار قرار دیں تو محمد ان کے اس معیار پر بھی پورے نہیں اترتے۔ بلکہ وہ ان کے وضع کردہ قاعدہ کی بنا پر شرّ الناس ٹھہریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ محمد کے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی ہمشیرہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ لہٰذا ان کے اپنے قاعدہ کے مطابق محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ عظیم المرتبت نہیں ہو سکتے۔ اور اگر شیعہ اہل سنت کو قائل کرنے کے لیے الزامی جواب کے طور پر محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ بات کہتے ہیں تو اہل سنت تو صرف تقوی کو معیار عظمت و شرافت قرار دیتے ہیں اور بس! جس کی دلیل یہ آیت قرآنی ہے:

﴿ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ

’’ تم میں سب سے زیادہ باعزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘